المعارج آية ۱
سَاَلَ سَاۤٮِٕلٌ ۢ بِعَذَابٍ وَّاقِعٍۙ
طاہر القادری:
ایک سائل نے ایسا عذاب طلب کیا جو واقع ہونے والا ہے،
English Sahih:
A supplicant asked for a punishment bound to happen
1 Abul A'ala Maududi
مانگنے والے نے عذاب مانگا ہے، (وہ عذاب) جو ضرور واقع ہونے والا ہے
2 Ahmed Raza Khan
ایک مانگنے والا وہ عذاب مانگتا ہے،
3 Ahmed Ali
ایک سوال کرنے والے نے اس عذاب کا سوال کیا جو واقع ہونے والا ہے
4 Ahsanul Bayan
ایک سوال کرنے والے نے (١) اس عذاب کا سوال کیا جو واضح ہونے والا ہے۔
١۔١ کہتے ہیں نضر بن حارث تھا یا ابو جہل تھا جس نے کہا تھا (وَاِذْ قَالُوا اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاۗءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ 32) 8۔ الانفال;32) چنانچہ یہ شخص جنگ بدر میں مارا گیا۔ بعض کہتے ہیں اس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ جنہوں نے اپنی قوم کے لئے بد دعا کی تھی اور اس کے نتیجے میں اہل مکہ پر قحط سالی مسلط کی گئی تھی۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
ایک طلب کرنے والے نے عذاب طلب کیا جو نازل ہو کر رہے گا
6 Muhammad Junagarhi
ایک سوال کرنے والے نے اس عذاب کا سوال کیا جو واضح ہونے واﻻ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
ایک سوال کرنے والے نے اس عذاب کا سوال کیا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ایک مانگنے والے نے واقع ہونے والے عذاب کا سوال کیا
9 Tafsir Jalalayn
ایک طلب کرنیوالے نے عذاب طلب کیا جو نازل ہو کر رہگا
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، ایک سوال کرنے والے یعنی ایک مانگنے والے نے کافروں پر ایسے اللہ کی طرف سے واقع ہونے والا عذاب مانگا جس کو اللہ کی طرف سے کوئی دفع کرنے والا نہیں وہ نضر بن حارث ہے اس نے کہا اے اللہ ! اگر یہ حق ہے (الآیۃ) من اللہ، واقع سے متعلق ہے کہ جو ملائکہ کے لئے سیڑھیوں والا ہے اور وہ آسمان ہے جس کی طرف فرشتے اور روح یعنی جبرئیل چڑھتے ہیں (تعرج) تا اور یا کے ساتھ یعنی اس کے حکم کے نازل ہونے کی جگہ کہ وہ آسمان ہے ایسے دن میں (فی یوم) محذوف کے متعلق ہے یعنی ان پر قیامت کے دن میں عذاب واقع ہوگا اور اس دن کی مقدار کافر کی نسبت سے تکالیف کے اس دن میں لاحق ہونے کی وجہ سے پچاس ہزار سال کے برابر ہوگی رہا مومن تو اس کے لئے ایک فرض نماز کے وقت سے بھی کم مدت ہوگی جس کو وہ دنیا میں پڑھا کرتا تھا، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے، سو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبر کیجئے یہ حکم جہاد کے حکم کے نازل ہونے سے پہلے کا ہے، یعنی جس میں جزع فزع (شکوہ و شکایت نہ ہو) بیشک یہ لوگ اس عذاب کو بعید یعنی ناممکن الوقوع سمجھ رہے ہیں، اور ہم اس کو قریب یعنی لامحالہ عنقریب واقع ہونے والا سمجھ رہے ہیں (یہ عذاب اس دن) واقع ہوگا جس دن آسمان پگھلی ہوئی چاندی کے مانند ہوجائے گا اور پہاڑ ہلکے اور ہوا کے ذریعہ اڑنے میں اون کے مانند ہوجائیں گے اور ہر شخص کے اپنے حالات میں مبتلا ہونے کی وجہ سے دوست دوست کی (بھی) بات نہ پوچھے گا یعنی قرابت دار قرابت دار کی بات نہ پوچھے گا حالانکہ ایک دوسرے کو دکھا دیئے جائیں گے یعنی دوست آپس میں ایک دوسرے کو دیکھ لیں گے اور ایک دوسرے کو پہچان بھی لیں گے، مگر بات نہ کریں گے (یبصرونھم) جملہ مسانفہ ہے مجرم چاہے گا یعنی کافر تمنا کرے گا کہ اس کے عذاب کے بدلے فدیہ میں (یومئذ) میم کے فتحہ اور کسرہ کے ساتھ اپنے بیٹوں کو اور اپنی بیوی کو اور اپنے بھائی کو اور اپنے کنبے، کنبے کو فصیلہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ فرد کنبے ہی سے جدا ہوتا ہے جو اس کو پناہ دیتے ہیں یعنی اپنے ساتھ ملا لیتا ہے اور روئے زمین کے سب لوگوں کو دینا چاہے گا تاکہ یہ فدیہ دینا اس کو نجات دلا دے اس کا عطف یفتدی پر ہے مگر ہرگز ایسا نہ ہوگا یہ اس کی تمنا کا رد ہے یقینا وہ شعلہ والی آگ ہے لظی جہنم کا نام ہے اس لئے کہ وہ شعلہ زن ہوگی، یعنی کفار پر شعلہ زن ہوگی جو سر کی کھال کو کھینچنے والی ہوگی شوی، شواۃ کی جمع ہے اور وہ سر کی کھال ہے، وہ ہر اس شخص کو پکارے گی جو ایمان سے پیٹھ پھیرتا ہے اور سرتابی کرتا ہے وہ کہے گی (الی الی) میری طرف آئو ! میری طرف آئو ! ، اور مال جمع کر کے سنبھال کر رکھتا ہے (ذخیرہ کرتا ہے) یعنی اس کو تجوری میں بند کر کے رکھتا ہے اور اس میں سے اللہ کا حق ادا نہیں کرتا نسان کم ہمت پیدا کیا گیا ہے یہ حال مقدرہ ہے اور (ھلوع) کی تفسیر (اذا مسہ الشر جزوعا) ہے جب اس کو تکلیف پہنچتی ہے تو تکلیف لاحق ہونے کے وقت جزع فزع (واویلا) کرنے لگتا ہے اور جب اس کو فارغ البالی حاصل ہوتی ہے یعنی مال حاصل ہوتا ہے تو اس مال میں حقوق اللہ سے بخیلی کرنے لگتا ہے مگر وہ نمازی یعنی مومن جو اپنی نمازوں کی پابندی کرتے ہیں اور ان کے مالوں میں سوالی اور غیر سوالی کے لئے حق ہے اور وہ زکوٰۃ ہے، محروم وہ شخص ہے جو سوال سے اجتناب کرے اور وہ جو جزاء کے دن کا اعتقاد رکھتے ہیں اور اپنے پروردگار کے عذاب سے ڈرنے والے ہیں واقعی ان کے رب کا عذاب بےخوف ہونے کی چیز نہیں اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں، مگر بیویوں سے اور باندیوں سے کیونکہ ان پر کوئی ملامت نہیں، ہاں جو ان کے علاوہ کا طلبگار ہو ایسے ہی حلال سے حرام کی طرف تجاوز کرنے والے ہیں اور جو اپنی امانتوں کا اور اپنے قول وقرار کا پاس رکھتے ہیں جس میں ان سے مؤاخذہ ہو اور ایک قرأت میں (امانتھم) مفرد ہے یعنی جس چیز پر ان کو امین بنایا جائے خواہ وہ امر دین سے ہو یا امر دنیا سے اور وہ لوگ جو اپنی شہادتوں کو ٹھیک ٹھیک ادا کرنے والے ہیں اور ایک قرأت میں شہادت جمع کے صیغہ کے ساتھ ہے یعنی گواہی ٹھیک ٹھیک ادا کرتے ہیں اور وہ لوگ جو اپنی نمازوں کی ان کے اوقات میں ادا کر کے حفاظت کرتے ہیں ایسے ہی لوگ جنت میں باعزت داخل ہوں گے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : للکافرین لام تعلیل کا بھی ہوسکتا ہے ای نازل من اجل الکافرین یا بمعنی علی ہے ای واقع علی الکافرین۔
قولہ : لیس لہ دافع یا تو یہ عذاب کی صفت ثانی ہے یا عذاب سے حال ہے یا جملہ مستانفہ ہے، اگر جملہ مستانفہ ہوگا تو عامل و معمول کے درمیان جملہ معترضہ ہوگا۔
قولہ : معارج، معرج کی جمع ہے بمعنی سیڑھی۔
قولہ : جبرئیل اس میں اشارہ ہے کہ والروح یہ عطف خاص علی العام کے قبیل سے ہے، اس لئے کہ جبرئیل (علیہ السلام) ملائکہ میں شامل ہیں۔
قولہ : الی مھبط امرہ یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال : آیت سے مفہوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک خاص مقام میں ہیں اور ملائکہ اس کی طرف صعود کرتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ جسم و مکان سے بری اور پاک ہے۔
جواب : کلام حذف مضاف کے ساتھ ہے ای الی محل ھبوط امرہ یعنی اللہ کے امر کے اترنے کی جگہ کی طرف چڑھتے ہیں نہ کہ اللہ کی طرف۔
قولہ : انھم یرونہ بعیدا، ای یعتقدونہ محالا۔
قولہ : لو بمعنی ان، یعنی لو ان مصدریہ کے معنی میں ہے اسی لئے لو کے جواب کی ضرورت نہیں ہے۔
قولہ : تضمہ، ای فی النسب۔
قولہ : انھا، ای النار مقصد ضمیر کے مرجع کی تعیین ہے۔
سوال : ھا ضمیر کا مرجع مفسر علام نے النار کو قرار دیا ہے حالانکہ النار سابق میں کہیں مذکور نہیں ہے۔
جواب : النار کا لفظ اگرچہ سابق میں صراحۃً مذکور نہیں ہے مگر العذاب سے مفہوم ہے۔
قولہ : لظی، ان کی خبر اول اور نزاعۃ خبر ثانی ہے۔
قولہ : لظی علمیت اور تانیث کی وجہ سے غیر منصرف ہے۔
قولہ : خلق ھلوعا یہ حال مقدرہ ہے اس لئے کہ انسان بوقت پیدائش اس صفت سے متصف نہیں ہوتا۔
تفسیر و تشریح
شان نزول :
سال سائل سوال کبھی کسی چیز کی تحقیق کے لئے بھی ہوتا ہے اس وقت اس کا صلہ عن استعمال ہوتا ہے اور کبھی سوال بمعنی درخواست استعمال ہوتا ہے اس صورت میں اس کا صلہ با آتا ہے یہاں ایسا ہی ہے سال سائل بعذاب ایک سوال کرنے والے نے عذاب کی درخواست کی، یہ سائل کون تھا ؟ اور اس نے عذاب کا سوال کیوں کیا تھا ؟ نسائی اور ابن ابی حاتم اور حکم نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ عذاب کا سوال کرنے والا شخص نضر بن حارث بن کلدہ تھا، جس نے قرآن اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب میں اس جرأت سے کام لیا کہ کہنے لگا ” اللھم ان کان ھذا ھو الحق من عندک فامطر علینا حجارۃ من السماء او ائتنا بعذاب الیم (انفال) یعنی یہ دعاء کی کہ اے اللہ ! اگر یہ قرآن آپ کی طرف سے حق ہے تو ہمارے اوپر آسمان سے پتھر برسا دے یا کوئی درد ناک عذاب بھیج دے، اللہ تعالیٰ نے غزوہ بدر میں اس کو مسلمانوں کے ہاتھوں عذاب دیا، آگے اس عذاب کی کچھ حقیقت کا بیان ہے کہ یہ عذاب کافروں پر ضرور واقع ہو کر رہے گا اس عذاب کو دفع کرنا کسی کے بس کی بات نہیں۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تعالیٰ تبارک وتعالیٰ معاندین حق کی جہالت کو اور استہزا کے طور پر ان کے عذاب الٰہی کو مشکل اور اس بارے میں اللہ تعالیٰ کو عاجز سمجھتے ہوئے عذاب کے لیے جلدی مچانے کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:﴿سَأَلَ سَائِلٌ﴾ یعنی دعا کرنے والے نے دعا کی اور نصرت طلب کرنے والے نے نصرت طلب کی ﴿بِعَذَابٍ وَاقِعٍ لِّلْكَافِرِينَ لَيْسَ لَهُ دَافِعٌ﴾” عذاب کی جو واقع ہو کررہے گا کافروں پر۔“ ان کے کفر وعناد کی بنا پر عذاب کے مستحق ہونے کی وجہ سے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aik maangney walay ney woh azab maanga hai
12 Tafsir Ibn Kathir
بعذاب میں جو " ب " ہے وہ بتارہی ہے کہ یہاں فعل کی تضمین ہے گویا کہ فعل مقدر ہے یعنی یہ کافر عذاب کے واقع ہونے کی طلب میں جلدی کر رہے ہیں، جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَيَسْتَعْجِلُوْنَكَ بالْعَذَابِ وَلَنْ يُّخْلِفَ اللّٰهُ وَعْدَهٗ ۭ وَاِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ 47) 22 ۔ الحج :47) یعنی یہ عذاب مانگنے میں عجلت کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہرگز وعدہ خلافی نہیں کرتا، یعنی اس کا عذاب یقیناً اپنے وقت مقررہ پر آ کر ہی رہے گا، نسائی میں حضرت ابن عباس سے وارد ہے کہ کافروں نے اللہ کا عذاب مانگا جو ان پر یقیناً آنے والا ہے، یعنی آخرت میں ان کی اس طلب کے الفاظ بھی دوسری جگہ قرآن میں منقول ہیں کہتے ہیں آیت (اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاۗءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ 32) 8 ۔ الانفال :32) یعنی الٰہی اگر یہ تیرے پاس سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسایا ہمارے پاس کوئی درد ناک عذاب لا، ابن جریر وغیرہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ عذاب کی وادی ہے جو قیامت کے دن عذابوں سے بہ نکلے گی، لیکن یہ قول ضعیف ہے اور مطلب سے بہت دور ہے صحیح قول پہلا ہی ہے جس پر روش کلام کی دلالت ہے پھر فرماتا ہے کہ وہ عذاب کافروں کے لئے تیار ہے اور ان پر آپڑنے والا ہے جب آجائے گا تو اسے دور کرنے والا نہیں اور نہ کسی میں اتنی طاقت ہے کہ اسے ہٹا سکے۔ آیت ( مِّنَ اللّٰهِ ذِي الْمَعَارِجِ ۭ ) 70 ۔ المعارج :3) کے معنی ابن عباس کی تفسیر کے مطابق درجوں والا، یعنی بلندیوں اور بزرگیوں والا اور حضرت مجاہد فرماتے ہیں مراد معارج سے آسمان کی سیڑھیاں ہیں، قتادہ کہتے ہیں فضل و کرم اور نعمت و رحم والا، یعنی یہ عذاب اس اللہ کی طرف سے ہے جو ان صفتوں والا ہے، اس کی طرف فرشتے اور روح چڑھتے ہیں، روح کی تفسیر میں حضرت ابو صالح فرماتے ہیں کہ یہ قسم کی مخلوق ہے انسان تو نہیں لیکن انسانوں سے بالکل مشابہ ہے، میں کہتا ہوں ممکن ہے اس سے مراد حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہوں اور یہ عطف ہو عام پر خاص کا اور ممکن ہے کہ اس سے مراد بنی آدم کی روحیں ہوں، اس لئے کہ وہ بھی قبض ہونے کے بعد آسمان کی طرف چڑھتی ہیں، جیسے کہ حضرت براء والی لمبی حدیث میں ہے کہ جب فرشتے پاک روح نکالتے ہیں تو اسے لے کر ایک آسمان سے دوسرے پر چڑھتے جاتے ہیں یہاں تک کہ ساتویں آسمان پر پہنچتے ہیں، گو اس کے بعض راویوں میں کلام ہے لیکن یہ حدیث مشہور ہے اور اس کی شہادت میں حضرت ابوہریرہ والی حدیث بھی ہے جیسے کہ پہلے بروایت امام احمد ترمذی اور ابن ماجہ گذر چکی ہے جسکی سند کے راوی ایک جماعت کی شرط پر ہیں، پہلی حدیث بھی مسند احمد ابو داؤد و نسائی اور ابن ماجہ میں ہے، ہم نے اس کے الفاظ اور اس کے طرق کا بسیط بیان آیت ( يُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَةِ ۚ وَيُضِلُّ اللّٰهُ الظّٰلِمِيْنَ ڐ وَيَفْعَلُ اللّٰهُ مَا يَشَاۗءُ 27 ) 14 ۔ ابراھیم :27) کی تفسیر میں کردیا ہے۔ پھر فرمایا اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے اس میں چار قول ہیں ایک تو یہ کہ اس سے مراد وہ دوری ہے جو اسفل السافلین سے عرش معلی تک ہے اور اسی طرح عرش کے نیچے سے اوپر تک کا فاصلہ بھی اتنا ہی ہے اور عرش معلی سرخ یاقوت کا ہے، جیسے کہ امام ابن ابی شیبہ نے اپنی کتاب " صفتہ العرش " میں ذکر کیا ہے، ابن ابی حاتم میں ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اس کے حکم کی انتہاء نیچے کی زمین سے آسمانوں کے اوپر تک کی پچاس ہزار سال کی ہے اور ایک دن ایک ہزار سال کا ہے یعنی آسمان سے زمین تک اور زمین سے آسمان تک ایک دن میں جو ایک ہزار سال کے برابر ہے، اس لئے کہ آسمان و زمین کا فاصلہ پانچ سو سال کا ہے یہی روایت دوسرے طریق سے حضرت مجاہد کے قول سے مروی ہے حضرت ابن عباس کے قول سے نہیں، حضرت ابن عباس سی ابن ابی حاتم میں روایت ہے کہ ہر زمین کی موٹائی پانچ سو سال کے فاصلہ کی ہے اور ایک زمین سے دوسری زمین تک پانچ سو سال کی دوری ہے تو سات ہزار سال یہ ہوگئے، اسی طرح آسمان، تو چودہ ہزار سال یہ ہوئی اور ساتویں آسمان سے عرش عظیم تک چھتیس ہزار سال کا فاصلہ ہے یہی معنی ہیں اللہ کے اس فرمان کے کہ اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہے، دوسرا قول یہ ہے کہ مراد اس سے یہ ہے کہ جب سے اللہ تعالیٰ نے اس عالم کو پیدا کیا ہے تب سے لے کر قیامت تک کہ اس کی بقاء کی آخر تک مدت پچاس ہزار سال کی ہے، چناچہ حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ دنیا کی کل عمر پچاس ہزار سال کی ہے، اور یہی ایک دن ہے جو اس آیت میں مراد لیا گیا ہے، حضرت عکرمہ فرماتے ہیں دنیا کی پوری مدت یہی ہے لیکن کسی کو معلوم نہیں کہ کس قدر گزر گئی اور کتنی باقی ہے سوائے اللہ تبارک و تعالیٰ کے تیسرا قول یہ ہے کہ یہ دن وہ ہے جو دنیا اور آخرت میں فاصلے کا ہے، حضرت محمد بن کعب یہی فرماتے ہیں لیکن یہ قول بہت ہی غریب ہے، چوتھا قول یہ ہے کہ اس سے مراد قیامت کا دن ہے حضرت ابن عباس سے یہ بہ سند صحیح مروی ہے، حضرت عکرمہ بھی یہی فرماتے ہیں، ابن عباس کا قول ہے کہ قیامت کے دن کو اللہ تعالیٰ کافروں پر پچاس ہزار سال کا کر دے گا، مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا گیا یہ دن تو بہت ہی بڑا ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ مومن پر اس قدر ہلکا ہوجائے گا کہ دنیا کی ایک فرض نماز کی ادائیگی میں جتنا وقت لگتا ہے اس سے بھی کم ہوگا، یہ حدیث ابن جریر میں بھی ہے اس کے دو راوی ضعیف ہیں، واللہ اعلم۔ مسند کی ایک اور حدیث میں ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) کے پاس سے قبیلہ بنو عامر کا ایک شخص گذرا لوگوں نے کہا حضرت یہ اپنے قبیلے میں سب سے بڑا مالدار ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے بلوایا اور فرمایا کیا واقع میں تم سب سے زیادہ مالدار ہو ؟ اس نے کہا ہاں میرے پاس رنگ برنگ سینکڑوں اونٹ قسم قسم کے غلام اعلیٰ اعلیٰ درجہ کے گھوڑے وغیرہ ہیں حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا دیکھو خبردار ایسا نہ ہو کہ یہ جانور اپنے پاؤں سے تمہیں روندیں اور اپنے سینگوں سے تمہیں ماریں بار بار یہی فرماتے رہے یہاں تک کہ عامری کے چرے کا رنگ اڑ گیا اور اس نے کہا حضرت یہ کیوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سنو ! میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ جو اپنے اونٹوں کا حق ادا نہ کرے ان کی سختی میں اور ان کی آسانی میں اسے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ایک چٹیل لمبے چوڑے صاف میدان میں چت لٹائے گا اور ان تمام جانوروں کو خوب موٹا تازہ کر کے حکم دے گا کہ اسے روندے ہوئے چلو چناچہ ایک ایک کر کے اسے کچلتے ہوئے گزریں گے جب آخر والا گذر جائے گا تو اول والا لوٹ کر آجائے گا یہی عذاب اسے ہوتا رہے گا اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فاصلہ ہوجائے پھر وہ اپنا راستہ دیکھ لے گا، اسی طرح گائے گھوڑے بکری وغیرہ یہی سینگ دار جانور اپنے سینگوں سے بھی اسے مارتے جائیں گے کوئی ان میں بےسینگ کا یا ٹوٹے ہوئے سینگ والا نہ ہوگا، عامری نے پوچھا اے حضرت ابوہریرہ (رض) فرمایئے اونٹوں میں اللہ کا حق کیا ہے ؟ فرمایا مسکنیوں کو سواری کے لئے تحفتًہ دینا غرباء کے ساتھ سلوک کرنا دودھ پینے کے لئے جانور دینا ان کے نروں کی ضرورت جنہیں مادہ کے لئے ہوا نہیں مانگا ہوا بےقیمت دینا، یہ حدیث ابو داؤد اور نسائی میں بھی دسرے سند سے مذکور ہے، مسند کی ایک حدیث میں ہے کہ جو سونے چاندی کے خزانے والا اس کا حق ادا نہ کرے اس کا سونا چاندی کی تختیوں کی صورت میں بنایا جائے گا اور جہنم کی آگ میں تپا کر اس کی پیشانی کروٹ اور پیٹھ داغی جائے گی یہاں تک کہ اللہ اپنے بندوں کے فیصلے کرلے اس دن میں جس کی مقدار تمہاری گنتی سے پچاس ہزار سال کی ہوگی پھر وہ اپنا راستہ جنت کی طرف یا جہنم کی طرف دیکھ لے گا، پھر آگے بکریوں اور اونٹوں کا بیان ہے جیسے اوپر گذرا، اور یہ بھی بیان ہے کہ گھوڑے تین قسم کے لوگوں کے لئے ہیں۔ ایک تو اجر دلانے والے، دوسری قسم کے پردہ پوشی کرنے والے، تیسری قسم کے بوجھ ڈھونے والے۔ یہ حدیث پوری پوری صحیح مسلم شریف میں بھی ہے۔ ان روایتوں کے پورا بیان کرنے کی اور ان کی سندوں اور الفاظ کے تمام تر نقل کرنے کی مناسب جگہ احکام کی کتاب الزکوۃ ہے، یہاں ان کے وارد کرنے سے ہماری غرض صرف ان الفاظ سے ہے کہ یہاں تک کہ اللہ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کرے گا، اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس سے ایک شخص پوچھتا ہے کہ وہ دن کیا ہے، جس کی مقدار ایک ہزار سال کی ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں اور وہ دن کیا ہے جو پچاس ہزار سال کا ہے ؟ اس نے کہا حضرت میں تو خود دریافت کرنے آیا ہوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سنو یہ دو دن ہیں جن کا ذکر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی کو ان کی حقیقت کا بخوبی علم ہے میں تو باوجود نہ جاننے کے کتاب اللہ میں کچھ کہنا مکروہ جانتا ہوں۔ پھر فرماتا ہے اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم اپنی قوم کو جھٹلانے پر اور عذاب کے مانگنے کی جلدی پر جسے وہ اپنے نزدیک نہ آنے والا جانتے ہیں صبر و تحمل کرو، جیسے اور جگہ ہے آیت ( يَسْتَعْجِلُ بِهَا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِهَا ۚ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مُشْفِقُوْنَ مِنْهَا ۙ وَيَعْلَمُوْنَ اَنَّهَا الْحَقُّ ۭ اَلَآ اِنَّ الَّذِيْنَ يُمَارُوْنَ فِي السَّاعَةِ لَفِيْ ضَلٰلٍۢ بَعِيْدٍ 18) 42 ۔ الشوری :18) ، یعنی بےایمان تو قیامت کے جلد آنے کی تمنائیں کرتے ہیں اور ایمان دار اس کے آنے کو حق جان کر اس سے ڈر رہے ہیں۔ اسی لئے یہاں بھی فرمایا کہ یہ تو اسے دور جان رہے ہیں بلکہ محال اور واقع نہ ہونے والا مانتے ہیں لیکن ہم اسے قریب ہی دیکھ رہے ہیں، یعنی مومن تو اس کا آنا حق جانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اب آیا ہی چاہتی ہے، نہ جانے کب قیامت قائم ہوجائے اور کب عذاب آپڑیں، کیونکہ اس کے صحیح وقت کو تو سوائے اللہ کے اور کوئی جانتا ہی نہیں، پس ہر وہ چیز جس کے آنے اور ہونے میں کوئی شک نہ ہو اس کا آنا قریب ہی سمجھا جاتا ہے اور اس کے ہو پڑنے کا ہر وقت کھٹکا ہی رہتا ہے۔