کہ تم اﷲ کی عبادت کرو اور اُس سے ڈرو اور میری اِطاعت کرو،
English Sahih:
To worship Allah, fear Him and obey me.
1 Abul A'ala Maududi
(تم کو آگاہ کرتا ہوں) کہ اللہ کی بندگی کرو اور اس سے ڈرو اور میری اطاعت کرو
2 Ahmed Raza Khan
کہ اللہ کی بندگی کرو اور اس سے ڈرو اور میرا حکم مانو،
3 Ahmed Ali
کہ الله کی عبادت کرو اور اس سے ڈرو اور میرا کہا مانو
4 Ahsanul Bayan
کہ تم اللہ کی عبادت کرو (١) اور اسی سے ڈرو (٢) اور میرا کہنا مانو۔ (٣)
٢۔١ اور شرک چھوڑ دو، صرف اسی کی عبادت کرو۔ ٢۔٢ اللہ کی نافرمانیوں سے اجتناب کرو، جن سے تم عذاب الٰہی کے مستحق قرار پا سکتے ہو، ٢۔٣ یعنی میں تمہیں جن باتوں کا حکم دوں اس میں میری اطاعت کرو، اس لئے کہ میں تمہاری طرف اللہ کا رسول اور اس کا نمائندہ بن کر آیا ہوں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
کہ خدا کی عبات کرو اور اس سے ڈرو اور میرا کہا مانو
6 Muhammad Junagarhi
کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور اسی سے ڈرو اور میرا کہا مانو
7 Muhammad Hussain Najafi
کہ تم (صرف) اللہ کی عبادت کرو اور اس (کی مخالفت) سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
کہ اللہ کی عبادت کرو اس سے ڈرو اور میری اطاعت کرو
9 Tafsir Jalalayn
کہ خدا کی عبادت کرو اور اس سے ڈرو اور میرا کہنا مانو ان اعبدوا اللہ واتقوہ و اطیعون حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی تبلیغ کا آغاز ان تین باتوں سے فرمایا ایک یہ کہ اللہ بندگی، دوسرے تقویٰ ، تیسرے رسول کی اطاعت، مطلب یہ کہ اگر تم ان تین باتوں کو قبول کرلو تو اب تک جو گناہ تم سے ہوچکے ہیں ان سے وہ درگزر فرمائے گا، یغفرلکم من ذنوبکم و یوخر کم الی اجل مسمی الخ میں بعض مفسرین نے حقوق العباد کو خارج کرنے کے لئے من کو تبعیض کا لیا ہے، اسلام اور ایمان لانے سے حقوق اللہ معاف ہوجائیں گے مگر حقوق العباد سے معافی کے لئے صاحب حق سے معافی ضروری ہوگی، بعض مفسرن نے یہاں من زائدہ یا بمعنی عن لیا ہے مطلب یہ کہ ایمان لانے سے تمہارے سب گناہ معاف ہوجائیں گے مگر دوسری نصوص کی بنا پر شرط مذکور بہرحال ضروری ہے۔ یعنی اگر تم نے یہ تینوں باتیں مان لیں تو تمہیں دنیا میں اس وقت تک بلا عذاب جیتنے کی مہلت دے دی جائے گی جو اللہ تمہاری طبعی موت کے لئے مقرر کی ہے یعنی مقررہ مدت عمر سے پہلے کسی دنیاوی عذاب میں پکڑ کر ہلاک نہ کرے گا، اس کا حاصل یہ ہوا کہ اگر ایمان نہ لائے تو یہ بھی ممکن ہے کہ مدت مقررہ سے پہلے ہی تم پر عذاب لا کر ہلاک کر دے، معلوم ہوا کہ عمر کی مدت مقررہ میں بعض اوقات کوئی شرط ہوتی ہے کہ اس نے فلاں کام کرلیا تو اس کی عمر مثلاً اسی سال ہوگی اور نہ کیا تو ساٹھ سال ہوگی اعمال صالحہ سے عمر کے بڑھنے اور نافرمانی کے کاموں کی وجہ سے عمر کے گھٹنے کا یہی مطلب ہے۔ (معارف ملخصًا) اس سے معلوم ہوا کہ تقدیر الٰہی کی دو قسمیں ہیں : (١) معلق اور (٢) مبرم۔ ان دونوں تقدیروں کی طرف قرآن کریم میں اشارہ موجود ہے ” یمحوا اللہ ما یشآء و یثبت و عندہ ام الکتاب “ یعنی اللہ تعالیٰ لوح محفوظ میں اثبات یعنی ترمیم و تبدیل کرتا رہتا ہے اور اللہ کے پاس اصل کتاب ہے، اصل کتاب سے مراد وہ کتاب جس میں تقدیر معلق لکھی ہوئی ہے کیونکہ تقدیر معلق میں جو شرط پوری کرے گا یا نہیں اس لئے تقدیر مبرم میں قطعی فیصلہ لکھا جاتا ہے۔ (معارف) حضرت ابن عباس (رض) کی روایت کے مطابق حضرت نوح (علیہ السلام) کو چالیس سال کی عمر میں نبوت ملی اور قرآن کی تصریح کے مطابق نو سو پچاس سال اپنی قوم کو تبلیغ کی اور طوفان کے بعد ساٹھ سال بقید حیات رہے، اس حساب سے آپ کی عمر ایک ہزار پچاس سال ہوئی، حضرت آدم (علیہ السلام) کی وفات اور ولادت نوح (علیہ السلام) کے درمیان ١٠٢ سال کا فاصلہ ہے اور حضرت آدم (علیہ السلام) کی عمر ٩٣٠ سال ہوئی ہے۔ (قصص القرآن، حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوھاروی (رح) تعالیٰ )
10 Tafsir as-Saadi
حضرت نوح علیہ السلام نے ان کو آگاہ کیا اور اس بارے میں بنیادی چیز کا حکم دیا، چنانچہ فرمایا : ﴿أَنِ اعْبُدُوا اللَّـهَ وَاتَّقُوهُ ﴾” یہ کہ اللہ کی عبادت کرو اور اسی سے ڈرو “ اور وہ اس طرح کی عبادت و توحید میں اللہ تعالیٰ کو یکتا قرار دیا جائے اور شرک کے تمام راستوں اور وسائل سے دور رہا جائے کیونکہ جب وہ اللہ تعالیٰ سے ڈریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے گناہ بخش دے گا جب وہ ان کے گناہ بخش دے گا تو انہیں عذاب سے نجات حاصل ہوجائے گی اور وہ ثواب سے بہرہ مند ہوں گے۔
11 Mufti Taqi Usmani
kay Allah ki ibadat kero , aur uss say daro , aur mera kehna maano ,