الجن آية ۱
قُلْ اُوْحِىَ اِلَىَّ اَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ فَقَالُوْۤا اِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًاعَجَبًا ۙ
طاہر القادری:
آپ فرما دیں: میری طرف وحی کی گئی ہے کہ جنات کی ایک جماعت نے (میری تلاوت کو) غور سے سنا، تو (جا کر اپنی قوم سے) کہنے لگے: بیشک ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے،
English Sahih:
Say, [O Muhammad], "It has been revealed to me that a group of the jinn listened and said, 'Indeed, we have heard an amazing Quran [i.e., recitation].
1 Abul A'ala Maududi
اے نبیؐ، کہو، میری طرف وحی بھیجی گئی ہے کہ جنوں کے ایک گروہ نے غور سے سنا پھر (جا کر اپنی قوم کے لوگوں سے) کہا: "ہم نے ایک بڑا ہی عجیب قرآن سنا ہے
2 Ahmed Raza Khan
تم فرماؤ مجھے وحی ہوئی کہ کچھ جنوں نے میرا پڑھنا کان لگا کر سنا تو بولے ہم نے ایک عجیب قرآن سنا
3 Ahmed Ali
کہہ دو کہ مجھے اس بات کی وحی آئی ہے کہ کچھ جن (مجھ سے قرآن پڑھتے) سن گئے ہیں پھر انہوں نے (اپنی قوم سے) جا کر کہہ دیا کہ ہم نے عجیب قرآن سنا ہے
4 Ahsanul Bayan
آپ کہہ دیں کہ مجھے وحی کی گئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت (١) نے (قرآن) سنا اور کہا کہ ہم نے عجب قرآن سنا ہے۔
١۔١ یہ واقعہ (وَاِذْ صَرَفْنَآ اِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَ ۚ فَلَمَّا حَضَرُوْهُ قَالُوْٓا اَنْصِتُوْا ۚ فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا اِلٰى قَوْمِهِمْ مُّنْذِرِيْنَ 29) 46۔ الاحقاف;29) کے حاشیہ میں گزر چکا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وادی نخلہ صحابہ کرام کو فجر کی نماز پڑھا رہے تھے کہ کچھ جنوں کا وہاں سے گزر ہوا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قرآن سنا۔ جس سے وہ متاثر ہوئے۔ یہاں بتلایا جا رہا ہے کہ اس وقت جنوں کا قرآن سننا، آپ کے علم میں نہیں آیا، بلکہ وحی کے ذریعے سے ان کو اس سے آگاہ فرمایا گیا،
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(اے پیغمبر لوگوں سے) کہہ دو کہ میرے پاس وحی آئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے (اس کتاب کو) سنا تو کہنے لگے کہ ہم نے ایک عجیب قرآن سنا
6 Muhammad Junagarhi
(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) آپ کہہ دیں کہ مجھے وحی کی گئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے (قرآن) سنا اور کہا کہ ہم نے عجیب قرآن سنا ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
(اے نبی (ص)) آپ(ص) کہئے! کہ مجھے وحی کی گئی ہے کہ جنات کے ایک گروہ نے (قرآن کو) توجہ کے ساتھ سنا پھر (جا کر اپنی قوم سے) کہا کہ ہم نے بڑا عجیب قرآن سنا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
پیغمبر آپ کہہ دیجئے کہ میری طرف یہ وحی کی گئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے کان لگا کر قرآن کو سنا تو کہنے لگے کہ ہم نے ایک بڑا عجیب قرآن سنا ہے
9 Tafsir Jalalayn
(اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں سے) کہہ دو کہ میرے پاس وحی آئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے (اس کتاب کو) سنا تو کہنے لگے ہم نے ایک عجیب قرآن سنا
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! لوگوں کو بتائیے کہ مجھے وحی کے ذریعہ یہ بات بتائی گئی ہے (یعنی) وحی کے ذریعہ اللہ کی طرف سے مجھے خبر دی گئی ہے کہ نصیبین کے جنوں کی ایک جماعت نے میری قرأت سنی اور یہ واقعہ بطن نخلہ میں جو کہ مکہ اور طائف کے درمیان ہے فجر کی نماز میں پیش آیا اور یہ جن وہی ہیں جن کا ذکر اللہ تعالیٰ کے قول ” واذ صرفنا الیک نفرا من الجن “ میں کیا گیا ہے، تو انہوں نے اپنی قوم کے پاس واپس جا کر کہا ہم نے عجیب قرآن سنا ہے کہ اس کی (لفظی) فصاحت اور (معنوی) بلاغت وغیرہ سے تعجب ہوتا ہے جو راہ راست (اور) ایمان کی طرف رہنمائی کرتا ہے ہم اس پر ایمان لا چکے ہیں آج کے بعد ہم کسی کو بھی اپنے رب کا شریک نہ ٹھہرائیں گے، اور بیشک ہمارے رب کی شان بہت بلند ہے (انہٗ ) میں اور اس کے بعد دونوں جگہ ضمیر شان ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے جلال و عظمت کی تمام ان چیزوں کی کہ اس کی طرف نسبت کرے سے (جو اس کی شایان شان نہیں) پاکی بیان فرمائی نہ اس نے کسی کو (اپنی) بیوی بنایا ہے اور نہ بیٹا، اور یہ کہ ہم میں کا بیوقوف جاہل اللہ کے بارے میں اللہ کو بیوی اور بیٹے سے متصف کر کے افتراء پر دازی میں غلو کرتا ہے اور ہم تو یہی سمجھتے رہے (ان) مخففہ ہے ای انہ کہ انس اور جن اس کو ان چیزوں سے متصف کر کے اس پر ہرگز افتراء پردازی نہ کریں حتیٰ کہ ہمارے اوپر اس بارے میں ان کا کذب ظاہر ہوگیا بات یہ ہے کہ بعض لوگ جب کہ وہ اپنے سفر کے دوران کسی خطرناک مقام پر فروکش ہوتے تھے تو بعض لوگ جنات کی پناہ طلب کیا کرتے تھے اور ہر شخص کہتا تھا کہ میں اس مقام کے سردار کی اس مقام کے بیوقوف (جنوں) سے پناہ چاہتا ہوں جس کی وجہ سے جنات اپنی سرکشی میں اور چڑھ گئے اور کہنے لگے ہم جنوں اور انسانوں کے سردار ہوگئے، اے انسانو ! جنات نے بھی تمہاری طرح گمان کرلیا کہ اللہ تعالیٰ کسی کو موت کے بعد دوبارہ زندہ نہ کرے گا، (ان) مخففہ عن الثقیلہ ہے، اور ہم نے چوری سے سننے کے لئے آسمان کا قصد کیا تو ہم نے اس کو دیکھا کہ پہرہ دار فرشتوں اور سخت جلا دینے والے شہابوں سے بھرا پڑا ہے اور یہ اس وقت ہوا جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث کیا گیا اور ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے باتیں سننے کے لئے (آسمانوں پر) جگہ جگہ بیٹھ جایا کرتے تھے اب جو بھی کان لگاتا ہے ایک شعلہ کو اپنی تاک میں پاتا ہے یعنی اس کو تاک میں لگا دیا گیا تاکہ وہ اس کے ذریعہ ان کو مارے اور ہم نہیں جانتے کہ سننے کی ممانعت سے آیا زمین والوں کے ساتھ کسی شرکا ارادہ کیا گیا ہے یا ان کے رب نے ان کے ساتھ خیر کا ارادہ کیا گیا ہے ؟ اور یہ کہ قرآن سننے کے بعد بعض ہم میں سے نیک بھی ہیں اور بعض اس کے برعکس بھی یعنی بعض لوگ غیر صالح بھی ہیں، اور ہم مختلف طریقوں میں بٹے ہوئے ہیں، یعنی مختلف فرقے ہوگئے ہیں، کہ بعض مسلمان اور بعض کافر ہیں، اور ہم نے سمجھ لیا کہ ہم اللہ کی زمین میں اللہ کو ہرگز عاجز نہیں کرسکتے، ان مخففہ ہے ای انہ اور نہ بھاگ کر ہم اسے ہرا سکتے ہیں، یعنی نہ ہم اس کو زمین میں رہتے ہوئے عاجز کرسکتے ہیں اور نہ زمین سے آسمان کی طرف بھاگ کر اسے ہرا سکتے ہیں، ہم تو ہدایت کی بات (قرآن) سنتے ہی اس پر ایمان لا چکے، اور جو بھی اپنے رب پر ایمان لائے گا، اسے اس کی نیکیوں میں نقصان کا اندیشہ نہ ہوگا اور نہ ظلم و زیادتی کا یعنی اس کی بدیوں میں زیادتی کا، ہاں ہم میں بعض تو مسلمان ہیں اور بعض اپنے کفر کی وجہ سے ظالم ہیں پس جو فرمانبردار ہوگئے انہوں نے تو راہ راست کا قصد کیا یعنی اس کی ہدایت کا قصد کیا اور جو ظالم ہیں جہنم کا ایندھن بن گئے اور ان اور انھم اور انہ یہ کل بارہ جگہ ہیں اور انہ تعالیٰ اور انا منا المسلمون اور ان کے درمیان ہمزہ کے کسرہ کے ساتھ بطور استیناف کے اور ہمزہ کے فتحہ کے ساتھ تاویل کر کے اور اللہ تعالیٰ نے کفار مکہ کے بارے میں فرمایا (اور اے نبی ! یہ بھی کہہ دو ) ان ثقیلہ سے مخففہ ہے اور اس کا اسم محذوف ہے، ای انھم اور اس کا عطف انہ استمع پر ہے کہ اگر لوگ راہ راست طریقہ اسلام پر سیدھے رہے تو یقینا ہم انہیں بڑی وافر مقدار میں آسمان سے پانی پلائیں گے اور یہ (یعنی آیت کا نزول) اس کے بعد ہوا کہ سات سالوں تک (اہل مکہ) سے بارش روک لی گئی تھی تاکہ اس میں ہم انہیں آزمائش اور تاکہ ہم ان کے شکر کی کیفیت کو اپنے علم کے مطابق ظاہر کریں اور جو اپنے پروردگار کے ذکر (قرآن) سے روگردانی کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو سخت عذاب میں مبتلا کرے گا، یسل کہ نون اور یاء کے ساتھ ہے اور یہ کہ مسجدیں نماز کے مقامات صرف اللہ ہی کے لئے خاص ہیں پس ان میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کو نہ پکاروبایں بطور کہ تم شرک کرنے لگو جیسا کہ یہود و نصاریٰ جب اپنے منتیوں اور عبادت خانوں میں داخل ہوتے تو شرک کرتے اور جب اللہ کا بندہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی عبادت کے لئے بلطن نخلہ میں کھڑا ہوتا ہے (انہ) فتحہ کے ساتھ بطور استیناف کے ہے، اور ضمیر شان کی ہے، تو اس کی قرأت کو سننے والے جن اس پر بھیڑ لگانے کو ہوجاتے ہیں (لبد) لام کے کسرہ اور ضمہ کے ساتھ لبدۃ کی جمع ہے یعنی نمدے کے مانند ہوتے ہیں بعض کے بعض پر بھیڑ کر کے چڑھنے کی وجہ سے قرآن سننے کی حرص میں۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : نفر، نفر تین سے دس تک کی جماعت کو کہتے ہیں جمع انفار آتی ہے، نصیبین یمن میں ایک قریہ کا نام ہے علمیت اور عجمہ کی وجہ سے غیر منصرف ہے۔
قولہ : جد ربنا، جد مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے، یہاں عظمت اور بزرگی کے معنی میں مستعمل ہے۔
قولہ : کذبا یہ موصوف محذوف کی صفت ہے ای قولا کذبا۔
قولہ : قال تعالیٰ اس اضافہ کا مقصد اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جنات کے کلام کے درمیان یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔
قولہ : فزادوھم یعنی انسانوں نے جنات کی طغیانی اور سرکشی میں اضافہ کردیا۔
قولہ : وانھم ظنوا کما ظننتم ان لن یبعث اللہ احدا یہ جنات کا مقولہ ہے یعنی اے انسانو ! جس طرح تمہارا عقیدہ ہے کہ اللہ مرنے کے بعد کسی کو زندہ نہیں کرے گا جنات کا بھی یہی عقیدہ تھا، ان لن یبعث اللہ احدا، ظننتم کے دو مفعولوں کے قائم مقام ہے، اور یہ قازع فعلان کے قبیل سے ہے، ثانی کو عمل دیا اور اول کے لئے ضمیر مان کر حذف کردیا۔
قولہ : فوجدنا ھا ملئت، ھا ضمیر وجدہ مفعول اول ہے اور ملئت جملہ ہو کر مفعول ثانی اور حرسا تمیز حرس، حارس کی جمع ہے پہرے دار نگران۔
قولہ : شھب، شھاب کی جمع ہے شعلہ۔
قولہ : تجوما محرقۃ مناسب تھا کہ شعار سیفصیلہ من نار الکوکب فرماتے تھے۔ (صاوی)
قولہ : بتقدیر ھو، ای فھو لا یخاف یہ جملہ اسمیہ ہے اگر فاء کے بعد ھو محذوف نہ ہو تو فاء محذوف ہوگی اور جزاء شرط ہونے کی وجہ سے مجوم ہوگا۔
قولہ : ندخلہ اس کے اضافہ کا مقصد یہ بتانا ہے کہ نسلکہ، ندخلہ کے معنی کو متضمن ہے جس کی وجہ سے اس کا دو مفعولوں کی طرف متعدی بنفسہ ہونا درست ہوگیا، صعدا کی تفسیر شاقا تفسیر باللازم ہے۔
تفسیر و تشریح
شان نزول :
آیات بالا کی تفسیر کو صحیح طریقہ سے سمجھنے کیلئے پہلے چند واقعات کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔
پہلا واقعہ :
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے شیاطین آسمانوں تک پہنچ کر فرشتوں کی باتیں سنتے تھے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد شہاب الثاقب کے ذریعہ ان کو روک دیا گیا اسی حادثہ کی تحقیق کے ضمن میں جنات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچے جیسا کہ سورة احقاف میں گزرا۔
دوسرا واقعہ :
زمانہ جاہلیت میں یہ دستور تھا کہ جب کسی جنگل یا وادی میں سفر کے دوران قیام کی ضرورت پیش آتی تو اس اعتقاد سے کہ جنات کے سردار ہماری حفاظت کردیں گے، یہ الفاظ کہا کرتے تھے اعوذ بعزیز ھذا الوادی من شر سفھاء قومہ یعنی میں اس جنگل کے سرداروں کی پناہ لیتا ہوں اس کی قوم کے بیوقوف شریر لوگوں سے۔
تیسرا واقعہ :
مکہ مکرمہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بددعاء سے قحط پڑا تھا اور کئی سال تک رہا۔
چوتھا واقعہ :
جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعوت اسلام شروع کی تو کفار مخالفین کا آپ کے خلاف ہجوم اور نرغہ ہوا۔ (معارف)
بخاری اور مسلم میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے چند اصحاب (رض) کے ساتھ بازار عکاظ تشریف لیجا رہے تھے، راستہ میں نخلہ کے مقام پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صبح کی نماز پڑھائی، اس وقت جنوں کا ایک گروہ ادھر سے گزر رہا تھا، تلاوت کی آواز سن کر وہ ٹھہر گیا اور غور سے قرآن سنتا رہا اسی واقعہ کا ذکر اس سورت میں ہے۔
اکثر مفسرین نے اس روایت کی بناء پر یہ سمجھا ہے کہ یہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مشہور سفر طائف کا واقعہ ہے جو ہجرت سے تین سال پہلے ١٠ ھ نبوی میں پیش آیا تھا مگر یہ قیاس متعدد وجوہ سے صحیح نہیں ہے، اس لئے کہ طائف کے اس سفر میں جنوں کے قرآن سننے کا جو واقعہ پیش آیا تھا اس کا قصہ سورة احقاق میں بیان کیا گیا ہے، سورة احقاف کی ان آیات پر نظر ڈالنے ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر جو جن قرآن مجید سن کر ایمان لائے تھے وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور تورات پر ایمان رکھتے تھے، اس کے برعکس اس سورت کی آیات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس موقع پر قرآن سننے والے جن مشرکین اور منکرین آخرت و رسالت تھے پھر یہ بات تاریخ سے ثابت ہے کہ طائف کے اس سفر میں حضرت زید بن حارثہ (رض) کے سوا اور کوئی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نہیں تھا بخلاف اس سفر کے، حضرت ابن عباس کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ چند اصحاب آپ کے ہمراہ تھے۔
مزید برآں روایات اس پر بھی متفق ہیں کہ اس سفر میں جنوں نے قرآن کی روایت کے مطابق جنوں کے قرآن سننے کا واقعہ اس وقت پیش آیا جب آپ مکہ مکرمہ سے عکاظ تشریف لے جا رہے تھے، ان وجوہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ سورة احقاف اور سورة جن کے واقعے دو الگ الگ ہیں۔
انا سمعنا قرآنا عجبا، عحبا مصدر ہے بطور مبالغہ یا حذف مضاف کے ساتھ ہے ای ذا عجب، معجب کے معنی میں یھدی الی الرشد یہ قرآن کی دوسری صفت ہے کہ وہ راہ راست حق و صواب کو واضح کرتا ہے جد کے معنی عظمت اور جلال کے ہیں یعنی ہمارے رب کی شان اس سے بہت بلند ہے کہ اس کے اولاد یا بیوی ہو۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿قُلْ ﴾ اے رسول ! لوگوں سے کہہ دیجئے: ﴿اُوْحِیَ اِلَیَّ اَنَّہُ اسْتَـمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ﴾ ” میرے پاس وحی آئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے (اس کتاب کو) سنا۔“ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی آیات کے سماع کے لیے اپنے رسول کی طرف متوجہ کیا تاکہ ان پر حجت قائم ہو، ان پر نعمتوں کا اتمام ہو اور وہ اپنی قوم کو متنبہ کرنے والے بن جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ ان کا قصہ لوگوں کو سنادیں۔ وہ قصہ یہ ہے کہ جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپس میں کہنے لگ: ” خاموش رہو، پس جب وہ خاموش ہوگئے تو وہ قرآن کے معانی کے فہم سے بہرہ ور ہوئے اور قرآن کے حقائق ان کے دلوں تک پہنچ گئے۔ ﴿ فَقَالُوا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا ﴾ ” تو انہوں نے کہا: ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے۔“ یعنی ہم نے نہایت قیمتی اور تعجب خیز کلام اور نہایت بلند مطالب سنے ہیں ۔
11 Mufti Taqi Usmani
. ( aey payghumber ! ) keh do : meray paas wahi aai hai kay jinnaat ki aik jamat ney ( Quran ) ghor say suna , aur ( apni qoam say jaker ) kaha kay : hum ney aik ajeeb Quran suna hai ,
12 Tafsir Ibn Kathir
جنات پر قرآن حکیم کا اثر
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسول حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرماتا ہے کہ اپنی قوم کو اس واقعہ کی اطلاع دو کہ جنوں نے قرآن کریم سنا اسے سچا مانا اس پر ایمان لائے اور اس کے مطیع بن گئے، فرماتا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم کہو میری طرف وحی کی گئی کہ جنوں کی ایک جماعت نے قرآن کریم سنا اور اپنی قوم میں جا کر خبر دی کہ آج ہم نے عجیب و غریب کتاب سنی جو سچا اور نجات کا راستہ بتاتی ہے ہم تو اسے مان چکے ناممکن ہے کہ اب ہم اللہ کے ساتھ کسی اور کی عبادت کریں۔ یہی مضمون آیتوں میں گذر چکا ہے آیت (واذ صرفنا الیک الخ، یعنی جبکہ ہم نے جنوں کی ایک جماعت کو تیری طرف لوٹایا کہ وہ قرآں سنیں اور اس کی تفسیر احادیث سے وہیں ہم بیان کرچکے ہیں یہاں لوٹانے کی ضرورت نہیں، پھر یہ جنات اپنی قوم سے فرماتے ہیں کہ ہم رب کے کام قدرت والے اس کے احکام بہت بلند وبالا، بڑا ذیشان اور ذی عزت ہے، اس کی نعمتیں، قدرتیں اور مخلوق پر مہربانیاں بہت باوقعت ہیں اس کی جلالت و عظمت بلند پایہ ہے اس کا جلال و اکرام بڑھا چڑھا ہے اس کا ذکر بلند رتبہ ہے اس کی شان اعلیٰ ہے، ایک روایت میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ (جد) کہتے ہیں باپ کو۔ اگر جنات کو یہ علم ہوتا کہ انسانوں میں جد ہوتا ہے تو وہ اللہ کی نسبت یہ لفظ نہ کہتے، یہ قول گو سنداً قوی ہے لیکن کلام بنتا نہیں اور کوئی مطلب سمجھ میں نہیں آتا ممکن ہے اس میں کچھ کلام چھوٹ گیا ہو واللہ اعلم، پھر اپنی قوم سے کہتے ہیں کہ اللہ اس سے پاک اور برتر ہے کہ اس کی بیوی ہو یا اس کی اولاد ہو، پھر کہتے ہیں کہ ہمارا بیوقوف یعنی شیطان اللہ پر جھوٹ تہمت رکھتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مراد اس سے عام ہو یعنی جو شخص اللہ کی اولاد اور بیوی ثابت کرتا ہے بےعقل ہے، جھوٹ بکتا ہے، باطل عقیدہ رکھتا ہے اور ظالمانہ بات منہ سے نکالتا ہے، پھر فرماتے ہیں کہ ہم تو اسی خیال میں تھے کہ جن وانس اللہ پر جھوٹ نہیں باندھ سکتے لیکن قرآن سن کر معلوم ہوا کہ یہ دونوں جماعتیں رب العالمین پر تہمت رکھتی تھیں دراصل اللہ کی ذات اس عیب سے پاک ہے، پھر کہتے ہیں کہ جنات کے زیادہ بہکنے کا سبب یہ ہوا کہ وہ دیکھتے تھے کہ انسان جب کبھی کسی جنگل یا ویرانے میں جاتے ہیں تو جنات کی پناہ طلب کیا کرتے ہیں، جیسے کہ جاہلیت کے زمانہ کے عرب کی عادت تھی کہ جب کبھی کسی پڑاؤ پر اترتے تو کہتے کہ اس جنگل کے بڑے جن کی پناہ میں ہم آتے ہیں اور سمجھتے تھے کہ ایسا کہہ لینے کے بعد تمام جنات کے شر سے ہم محفوظ ہوجاتے ہیں جس طرح کسی شہر میں جاتے تو وہاں کے بڑے رئیس کی پناہ لے لیتے تاکہ شہر کے اور دشمن لوگ انہیں ایذاء نہ پہنچائیں، جنوں نے جب یہ دیکھا کہ انسان بھی ہماری پناہ لیتے ہیں تو ان کی سرکشی اور بڑھ گئی اور انہوں نے اور بری طرح انسانوں کو ستانا شروع کیا اور یہ بھی مطلب ہوسکتا ہے کہ جنات نے یہ حالت دیکھ کر انسانوں کو اور خوف زدہ کرنا شروع کیا اور انہیں طرح طرح سے ستانے لگے۔ دراصل جنات انسانوں سے ڈرا کرتے تھے جیسے کہ انسان جنوں سے بلکہ اس سے بھی زیادہ یہاں تک کہ جس جنگل بیابان میں انسان جا پہنچتا تھا وہاں سے جنات بھاگ کھڑے ہوتے تھے لیکن جب سے اہل شرک نے خود ان سے پناہ مانگنی شروع کی اور کہنے لگے کہ اس وادی کے سردار جن کی پناہ میں ہم آتے ہیں اس سے کہ ہمیں ہماری اولاد و مال کو کوئی ضرر نہ پہنچے اب جنوں نے سمجھا کہ یہ تو خود ہم سے ڈرتے ہیں تو ان کی جرات بڑھ گئی اور اب طرح طرح سے ڈرانا ستانا اور چھیڑنا انہوں نے شروع کیا، وہ گناہ، خوف، طغیانی اور سرکشی میں اور بڑھ گئے۔ کردم بن ابو سائب انصاری کہتے ہیں میں اپنے والد کے ہمراہ مدینہ سے کسی کام کے لئے باہر نکلا اس وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت ہوچکی تھی اور مکہ شریف میں آپ بحیثیت پیغمبر ظاہر ہوچکے تھے رات کے وقت ہم ایک چرواہے کے پاس جنگل میں ٹھہر گئے آدھی رات کے وقت ایک بھیڑیا آیا اور بکری اٹھا کرلے بھاگا، چرواہا اس کے پیچھے دوڑا اور پکار کر کہنے لگا اے اس جنگل کے آباد رکھنے والے تیری پناہ میں آیا ہوا ایک شخص لٹ گیا ساتھ ہی ایک آواز آئی حالانکہ کوئی شخص نظر نہ آتا تھا کہ اے بھیڑیئے اس بکری کو چھوڑ دے تھوڑی دیر میں ہم نے دیکھا کہ وہی بکری بھاگی بھاگی آئی اور ریوڑ میں مل گئی اسے زخم بھی نہیں لگا تھا یہی بیان اس آیت میں ہے جو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر مکہ میں اتری کہ بعض لوگ جنات کی پناہ مانگا کرتے تھے، ممکن ہے کہ یہ بھیڑیا بن کر آنے والا بھی جن ہی ہو اور بکری کے بچے کو پکڑ کرلے گیا ہو اور چرواہے کی اس وہائی پر چھوڑ دیا ہو تاکہ چرواہے کو اور پھر اس کی بات سن کر اوروں کو اس بات کا یقین کامل ہوجائے کہ جنات کی پناہ میں آجانے سے نقصانات سے محفوظ رہتے ہیں اور پھر اس عقیدے کے باعث وہ اور گمراہ ہوں اور اللہ کے دین سے خارج ہوجائیں واللہ اعلم۔ یہ مسلمان جن اپنی قوم سے کہتے ہیں کہ اے جنو جس طرح تمہارا گمان تھا اسی طرح انسان بھی اسی خیال میں تھے کہ اب اللہ تعالیٰ کسی رسول کو نہ بھیجے گا۔