Skip to main content

اِنَّ هٰذِهٖ تَذْكِرَةٌ ۚ فَمَنْ شَاۤءَ اتَّخَذَ اِلٰى رَبِّهٖ سَبِيْلًا

Indeed
إِنَّ
بیشک
this
هَٰذِهِۦ
یہ
(is) a Reminder
تَذْكِرَةٌۖ
ایک نصیحت
then whoever
فَمَن
پس جو کوئی
wills
شَآءَ
چاہے
let him take
ٱتَّخَذَ
بنالے
to
إِلَىٰ
طرف
his Lord
رَبِّهِۦ
اپنے رب کی
a way
سَبِيلًا
راستہ

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

یہ ایک نصیحت ہے، اب جس کا جی چاہے اپنے رب کی طرف جانے کا راستہ اختیار کر لے

English Sahih:

Indeed, this is a reminder, so whoever wills may take to his Lord a way.

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

یہ ایک نصیحت ہے، اب جس کا جی چاہے اپنے رب کی طرف جانے کا راستہ اختیار کر لے

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

بیشک یہ نصیحت ہے، تو جو چاہے اپنے رب کی طرف راہ لے

احمد علی Ahmed Ali

بے شک یہ (قرآن) ایک نصیحت ہے پھر جو چاہے اپنے رب کی طرف آنے کا راستہ بنا لے

أحسن البيان Ahsanul Bayan

بیشک یہ نصیحت ہے پس جو چاہے اپنے رب کی طرف راہ اختیار کرے۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

یہ (قرآن) تو نصیحت ہے۔ سو جو چاہے اپنے پروردگار تک (پہنچنے کا) رستہ اختیار کرلے

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

بیشک یہ نصیحت ہے پس جو چاہے اپنے رب کی طرف راه اختیار کرے

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

بےشک یہ ایک بڑی نصیحت ہے پس جو چاہے وہ اپنے پروردگار کی طرف راستہ اختیار کرے۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

یہ درحقیقت عبرت و نصیحت کی باتیں ہیں اور جس کا جی چاہے اپنے پروردگار کے راستے کو اختیار کرلے

طاہر القادری Tahir ul Qadri

بے شک یہ (قرآن) نصیحت ہے، پس جو شخص چاہے اپنے رب تک پہنچنے کا راستہ اِختیار کر لے،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

پیغام نصیحت و عبرت اور قیام الیل
فرماتا ہے کہ یہ سورت عقل مندوں کے لئے سراسر نصیحت وعبرت ہے جو بھی طالب ہدایت ہو وہ مرضی مولا سے ہدایت کا راستہ پالے گا اور اپنے رب کی طرف پہنچ جانے کا ذریعہ حاصل کرلے گا، جیسے دوسری سورت میں فرمایا آیت ( وَمَا تَشَاۗءُوْنَ اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللّٰهُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيْمًا حَكِيْمًا 30 ؀ ڰ) 76 ۔ الإنسان ;30) تمہاری چاہت کام نہیں آتی وہی ہوتا ہے جو اللہ چاہے۔ صحیح علم والا اور پوری حکمت والا اللہ تعالیٰ ہی ہے، پھر فرماتا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کا اور آپ کے اصحاب کی ایک جماعت کا کبھی دو تہائی رات تک قیام میں مشغول رہنا کبھی آدھی رات اسی میں گذرنا کبھی تہائی رات تک تہجد پڑھنا اللہ تعالیٰ کو بخوبی معلوم ہے گو تمہارا مقصد ٹھیک اس وقت کو پورا کرنا نہیں ہوتا اور ہے بھی وہ مشکل کام، کیونکہ رات دن کا صحیح اندازہ اللہ ہی کو ہے کبھی دونوں برابر ہوتے ہیں کبھی رات چھوٹی دن بڑا، کبھی دن چھوٹا رات بڑی، اللہ جانتا ہے کہ اس کو بننے کی طاقت تم میں نہیں تو اب رات کی نماز اتنی ہی پڑھو جتنی تم با آسانی پڑھ سکو کوئی وقت مقرر نہیں کہ فرضاً اتنا وقت تو لگانا ہی ہوگا یہاں صلوۃ کی تعبیر قرأت سے کی ہے جیسے سورة سبحن میں کی ہے آیت (وَلَا تَجْـهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًا\011\00 ) 17 ۔ الإسراء ;110) نہ تو بہت بلند کر نہ بالکل پست کر، امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ کے اصحاب نے اس آیت سے استدلال کر کے یہ مسئلہ لیا ہے کہ نماز میں سورة فاتحہ ہی کا پڑھنا متعین نہیں اسے پڑھے خواہ اور کہیں سے پڑھ لے گو ایک ہی آیت پڑھے کافی ہے اور پھر اس مسئلہ کی مضبوطی اس حدیث سے کی ہے جس میں ہے کہ بہت جلدی جلدی نماز ادا کرنے والے کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا پھر پڑھ جو آسان ہو تیرے ساتھ قرآن سے (بخاری و مسلم) یہ مذہب جمہور کے خلاف ہے اور جمہور نے انہیں یہ جواب دیا ہے کہ بخاری و مسلم کی حضرت عبادہ بن صامت والی حدیث میں آچکا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ نماز نہیں ہے مگر یہ کہ تو سورة فاتحہ پڑھے اور صحیح مسلم شریف میں بہ روایت حضرت ابوہریرہ (رض) مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر وہ نماز جس میں سورة فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ بالکل ادھوری محض ناکارہ ناقص اور ناتمام ہے، صحیح ابن خزیمہ میں بھی ان ہی کی روایت سے ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو سورة فاتحہ نہ پڑھے (پس ٹھیک قول جمہور کا ہی ہے کہ ہر نماز کی ہر ایک رکعت میں سورة فاتحہ کا پڑھنا لازمی اور متعین ہے) پھر فرماتا ہے کہ اللہ کو معلوم ہے کہ اس امت میں عذر والے لوگ بھی ہیں جو قیام الیل کے ترک پر معذور ہیں، مثلاً بیمار کہ جنہیں اس کی طاقت نہیں مسافر جو روزی کی تلاش میں ادھر ادھر جا رہے ہیں، مجاہد جو اہم تر شغل میں مشغول ہیں، یہ آیت بلکہ یہ پوری سورت مکی ہے مکہ شریف میں نازل ہوئی اس وقت جہاد فرض نہیں تھا بلکہ مسلمان نہایت پست حالت میں تھے پھر غیب کی یہ خبر دینا اور اسی طرح ظہور میں بھی آنا کہ مسلمانوں جہاد میں پوری طرح مشغول ہوئے یہ نبوت کی اعلیٰ اور بہترین دلیل ہے۔ تو ان معذورات کے باعث تمہیں رخصت دی جاتی ہے کہ جتنا قیام تم سے با آسانی کیا جاسکے کرلیا کرو، حضرت ابو رجاء محمد نے حسن (رح) سے پوچھا کہ اے ابو سعید اس شخص کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں جو پورے قرآن کا حافظ ہے لیکن تہجد نہیں پڑھتا صرف فرض نماز پڑھتا ہے ؟ آپ نے فرمایا اس نے قرآن کو تکیہ بنا لیا اس پر اللہ کی لعنت ہو، اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک غلام کے لئے فرمایا کہ وہ ہمارے علم کو جاننے والا ہے اور فرمایا تم وہ سکھائے گئے ہو جسے نہ تم جانتے تھے نہ تمہارے باپ دادا، میں نے کہا۔ ابو سعید اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے جو قرآن آسانی سے تم پڑھ سکو پڑھو، فرمایا ہاں ٹھیک تو ہے پانچ آیتیں ہی پڑھ لو، پس بہ ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ حافظ قرآن کا رات کی نماز میں کچھ نہ کچھ قیام کرنا امام حسن بصری کے نزدیک حق و واجب تھا، ایک حدیث بھی اس پر دلالت کرتی ہے جس میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس شخص کے بارے میں سوال ہوا جو صبح تک سویا رہتا ہے فرمایا یہ وہ شخص ہے جس کے کان میں شیطان پیشاب کرجاتا ہے اس کا تو ایک تو یہ مطلب بیان کیا گیا ہے کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو عشاء کے فرض بھی نہ پڑھے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جو رات کو نفلی قیام نہ کرے، سنن کی حدیث میں ہے اے قرآن والو وتر پڑھا کرو، دوسری روایت میں ہے جو وتر نہیں پڑھے وہ ہم میں سے نہیں، حسن بصری کے قول سے بھی زیادہ غریب قول ابوبکر بن عبدالعزیز حنبلی کا ہے جو کہتے ہیں کہ رمضان کے مہینے کا قیام فرض ہے واللہ اعلم (یہ یاد رہے کہ صحیح مسلک یہی ہے کہ تہجد کی نماز نہ تو رمضان میں واجب ہے نہ غیر رمضان میں۔ رمضان کی بابت بھی حدیث شریف میں صاف آچکا ہے و قیام لیلہ تطوعا یعنی اللہ نے اس کے قیام کو نفلی قرار دیا ہے وغیرہ واللہ اعلم۔ مترجم) طبرانی کی حدیث میں اس آیت کی تفسیر میں بہت مرفوعاً مروی ہے کہ گو سو ہی آیتیں ہوں، لیکن یہ حدیث بہت غریب ہے صرف معجم طبرانی میں ہی میں نے اسے دیکھا ہے۔ پھر ارشاد ہے کہ فرض نمازوں کی حفاظت کرو اور فرض زکوٰۃ کی ادائیگی کیا کرو، یہ آیت ان حضرات کی دلیل ہے جو فرماتے ہیں فرضیت زکوٰۃ کا حکم مکہ شریف میں ہی نازل ہوچکا تھا ہاں کتنی نکالی جائی ؟ نصاب کیا ہے ؟ وغیرہ یہ سب مدینہ میں بیان ہوا واللہ اعلم۔ حضرت ابن عباس عکرمہ مجاہد حسن قتادہ وغیرہ سلف کا فرمان ہے کہ اس آیت نے اس سے پہلے کے حکم رات کے قیام کو منسوخ کردیا ان دونوں حکموں کے درمیان کس قدر مدت تھی ؟ اس میں جو اختلاف ہے اس کا بیان اوپر گذر چکا، بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص سے فرمایا پانچ نمازیں دن رات میں فرض ہیں اس نے پوچھا اس کے سوا بھی کوئی نماز مجھ پر فرض ہے ؟ آپ نے فرمایا باقی سب نوافل ہیں۔ پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ کو اچھا قرض دو یعنی راہ اللہ صدقہ خیرات کرتے رہو جس پر اللہ تعالیٰ تمہیں بہت بہتر اور اعلیٰ اور پورا بدلہ دے گا، جیسے اور جگہ ہے ایسا کون ہے کہ اللہ تعالیٰ کو قرض حسن دے اور اللہ اسے بہت کچھ بڑھائے چڑھائے۔ تم جو بھی نیکیاں کر کے بھیجو گے وہ تمہارے لئے اس چیز سے جسے تم اپنے پیچھے چھوڑ کر جاؤ گے بہت ہی بہتر اور اجر وثواب میں بہت ہی زیادہ ہے، ابو یعلی موصلی کی روایت میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اصحاب سے ایک مرتبہ پوچھا تم میں سے ایسا کون ہے جسے اپنے وارث کا مال اپنے مال سے زیادہ محبوب ہو ؟ لوگوں نے کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم میں سے تو ایک بھی ایسا نہیں آپ نے فرمایا اور سوچ لو انہوں نے کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہی بات ہے فرمایا سنو تمہارا مال وہ ہے جسے تم راہ اللہ دے کر اپنے لئے آگے بھیج دو اور جو چھوڑ جاؤ گے وہ تمہارا مال نہیں وہ نہیں وہ تمہارا وارثوں کا مال ہے، یہ حدیث بخاری شریف اور نسائی میں بھی مروی ہے۔ پھر فرمان ہے کہ ذکر اللہ بکثرت کیا کرو اور اپنے تمام کاموں میں استغفار کیا کرو جو استغفار کرے وہ مغفرت حاصل کرلیتا ہے کیونکہ اللہ مغفرت کرنے والا اور مہربانیوں والا ہے۔ الحمد اللہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے سورة مزمل کی تفسیر ختم ہوئی۔