پھر (دنیا کے) کاموں کا انتظام کرتے ہیں
فالمدبرات امرا، یعنی امر الٰہی کی تدبیر و تنفیذ کرنے والے ہیں، امر الٰہی کی تدبیر و تنفیذ سے روح کے معاملے میں تدبیر و تنفیذ مراد ہے اور اس کے علاوہ اور دیگر امور میں بھی تدبیر و تنفیذ مراد ہوسکتی ہے۔
خلاصہ : یہاں پانچ اوصاف رکھنے والی ہستیوں کی قسم جس بات پر کھائی گئی ہے اس کی وضاحت نہیں کی گئی لیکن بعد کا مضمون اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ یہ قسم اس بات پر کھائی گئی ہے کہ قیامت ضرور آئے گی اور تمام مردوں کو ازسرنو ضرور زندہ کیا جائے گا، نیز اس امر کی وضاحت بھی نہیں کی گئی کہ یہ اوصاف کن ہستیوں کے ہیں لیکن صحابہ (رض) اور تابعین اور اکثر مفسرین نے کہا ہے کہ ان سے مراد فرشتے ہیں۔
نفس اور روح سے متعلق قاضی ثناء اللہ (رح) تعالیٰ کی تحقیق :
حضرت براء بن عازب (رض) کی ایک طویل حدیث مشکوٰۃ میں بحوالہ مسند احمد مذکور ہے، اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ نفس انسان ایک لطیف جسم ہے جو اس کے جسم کثیف میں سمایا ہوا ہے اور وہ انہی مادی عناصر اربعہ سے بنا ہے، فلاسفہ اور اطباء اسی کو روح کہتے ہیں، مگر درحقیقت روح انسانی ایک جوہر مجرد اور لطیفہ ٔ ربانی ہے جو اس طبعی روح یعنی نفس کے ساتھ ایک خاص ربط وتعلق رکھتا ہے اور اس طبعی روح یعنی نفس کی حیات خود اس لطیفہ ٔ ربانی پر موقوف ہے، اس کو روح الروح بھی کہہ سکتے ہیں، کہ جسم کی زندگی نفس سے اور نفس کی زندگی روح سے ہے، اس لطیفہ ٔ ربانی کا تعلق اس جسم لطیف (نفس) کے ساتھ کس قسم کا ہے ؟ اس کی حقیقت کا علم ان کے پیدا کرنے والے کے علاوہ کسی کو نہیں، اور یہ جسم لطیف جس کا نام نفس ہے اس کو حق تعالیٰ نے اپنی قدرت سے ایک آئینہ کے مثل بنایا ہے جو آفتاب کے بالمقابل رکھ دیا گیا ہو تو آفتاب کی روشنی اس میں ایسی آجاتی ہے کہ یہ خود آفتاب کی طرح روشنی پھیلاتا ہے، نفس انسانی اگر تعلیم وحی کے مطابق ریاضت و محنت کرلیتا ہے تو وہ بھی منور ہوجاتا ہے یہی وہ جسم لطیف ہے جس کو فرشتے اوپر لے جاتے ہیں اور یہی جسم لطیف اعمال صالحہ سے منور اور خوشبو دار ہوجاتا ہے اور کفر و شرک سے تاریک و بدبو دار ہوجاتا ہے، روح مجرد کا تعلق بواسطہ جسم لطیف یعنی نفس کے واسطے سے ہوتا ہے، اس جسم لطیف پر موت طاری نہیں ہوتی قبر (برزخ) کا عذاب وثواب بھی اسی روح سے متعلق ہوتا ہے اس نفس کا تعلق قبر (برزخ) سے رہتا ہے اور روح مجرد اعلی علیین میں رہتی ہے، اور روح مجرد اس ثواب و عقاب سے بواسطہ نفس متاثر ہوتی ہے، اس طرح روح کا قبر میں ہونا بمعنی نفس کے صحیح ہے اور اس کا عالم ارواح میں ہونا بمعنی روح مجرد صحیح ہے، اس سے ان روایات مختلفہ میں تطبیق ہوجاتی ہے جن میں سے بعض کی رو سے روح کا قبر میں ہونا معلوم ہوتا ہے اور بعض سے اعلیٰ علیین میں ہونا۔