الانفال آية ۱
يَسْـــَٔلُوْنَكَ عَنِ الْاَنْفَالِ ۗ قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰهِ وَالرَّسُوْلِ ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَصْلِحُوْا ذَاتَ بَيْنِكُمْۖ وَاَطِيْعُوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗۤ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ
طاہر القادری:
(اے نبئ مکرّم!) آپ سے اَموالِ غنیمت کی نسبت سوال کرتے ہیں۔ فرما دیجئے: اَموالِ غنیمت کے مالک اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ سو تم اللہ سے ڈرو اور اپنے باہمی معاملات کو درست رکھا کرو اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کیا کرو اگر تم ایمان والے ہو،
English Sahih:
They ask you, [O Muhammad], about the bounties [of war]. Say, "The [decision concerning] bounties is for Allah and the Messenger." So fear Allah and amend that which is between you and obey Allah and His Messenger, if you should be believers.
1 Abul A'ala Maududi
تم سے انفال کے متعلق پوچھتے ہیں؟ کہو “یہ انفال تو اللہ اور اُس کے رسُولؐ کے ہیں، پس تم لوگ اللہ سے ڈرو اور اپنے آپس کے تعلقات درست کرو اور اللہ اور اُس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اگر تم مومن ہو"
2 Ahmed Raza Khan
اے محبوب! تم سے غنیمتوں کو پوچھتے ہیں تم فرماؤ غنیمتوں کے مالک اللہ اور رسول ہیں تو اللہ ڈرو اور اپنے آ پس میں میل (صلح صفائی) رکھو اور اللہ اور رسول کا حکم مانو اگر ایمان رکھتے ہو،
3 Ahmed Ali
تجھ سے غنیمت کا حکم پوچھتے ہیں کہہ دے غنیمت کا مال الله اور رسول کا ہے سو الله سے ڈرو اور آپس میں صلح کرو اور الله اور اس کے رسول کا حکم مانو اگر ایمان دار ہو
4 Ahsanul Bayan
یہ لوگ آپ سے غنیمتوں کا حکم دریافت کرتے ہیں (١) آپ فرما دیجئے! کہ غنیمتیں اللہ کی ہیں اور رسول کی ہیں (٢) سو تم اللہ سے ڈرو اور اپنے باہمی تعلقات کی اصلاح کرو اور اللہ تعالٰی اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اگر تم ایمان والے ہو (٣)۔
١۔١ اَنْفَا ل، نَفَل،ُ کی جمع ہے جس کے معنی زیادہ کے ہیں، یہ مال و اسباب کو کہا جاتا ہے، جو کافروں کے ساتھ جنگ میں ہاتھ لگے، جسے غنیمت بھی کہا جاتا ہے اس کو (نفل) (زیادہ) اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ ان چیزوں میں سے ایک ہے جو پچھلی امتوں پر حرام تھیں۔ یہ گویا امت محمدیہ پر ایک زائد چیز حلال کی گئی ہے اس لئے کہ یہ جہاد کے اجر سے (جو آخرت میں ملے گا) ایک زائد چیز ہے جو بعض دفعہ دنیا میں ہی مل جاتی ہے۔
١۔ ٢ یعنی اس کا فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں۔ اللہ کے رسول اللہ کے حکم سے اسے تقسیم فرمائے گا۔ نہ کہ تم آپس میں جس طرح چاہو تقسیم کرلو۔
١۔٣ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مذکورہ تینوں باتوں پر عمل بغیر ایمان مکمل نہیں۔ اس سے تقوٰ ی، اصلاح ذات البین اور اور اللہ اور رسول کی اطاعت کی اہمیت واضح ہے خاص طور پر مال غنیمت کی تقسیم میں ان تینوں امور پر عمل نہایت ضروری ہے کیونکہ مال کی تقسیم میں باہمی فساد کا بھی شدید اندیشہ رہتا ہے اس کے علاج کے لئے اصلاح ذات البین پر زور دیا۔ ہیرا پھیری اور خیانت کا بھی امکان رہتا ہے اس کے لیے تقوی کا حکم دیا۔ اس کے باوجود بھی کوئی کوتاہی ہو جائے تو اس کا حل اللہ اور رسول کی اطاعت میں مضمر ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(اے محمد! مجاہد لوگ) تم سے غنیمت کے مال کے بارے میں دریافت کرتے ہیں کہ (کیا حکم ہے) کہہ دو کہ غنیمت خدا اور اس کے رسول کا مال ہے۔ تو خدا سے ڈرو اور آپس میں صلح رکھو اور اگر ایمان رکھتے ہو تو خدا اور اس کے رسول کے حکم پر چلو
6 Muhammad Junagarhi
یہ لوگ آپ سے غنیمتو ں کا حکم دریافت کرتے ہیں، آپ فرما دیجئے! کہ یہ غنیمتیں اللہ کی ہیں اور رسول کی ہیں، سو تم اللہ سے ڈرو اور اپنے باہمی تعلقات کی اصلاح کرو اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اگر تم ایمان والے ہو
7 Muhammad Hussain Najafi
(اے رسول) لوگ آپ سے انفال کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ کہہ دیجیے کہ انفال اللہ اور اللہ کے رسول کے لئے ہیں۔ پس اگر تم مؤمن ہو تو اللہ سے ڈرو۔ اور اپنے باہمی تعلقات و معاملات کی اصلاح کرو۔ اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
پیغمبر یہ لوگ آپ سے انفال کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو آپ کہہ دیجئے کہ انفال سب اللہ اور رسول کے لئے ہیں لہٰذا تم لوگ اللہ سے ڈرو اور آپس میں اصلاح کرو اور اللہ و رسول کی اطاعت کرو اگر تم اس پر ایمان رکھنے والے ہو
9 Tafsir Jalalayn
(اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مجاہد لوگ) تم سے غنیمت کے مال کے بارے میں دریافت کرتے ہیں (کہ کیا حکم ہے) کہہ دو کہ غنیمت خدا اور اس کے رسول کا مال ہے۔ تو خدا سے ڈرو اور آپس میں صلح رکھو۔ اور اگر ایمان رکھتے ہو تو خدا اور اس کے رسول کے حکم پر چلو۔
آیت نمبر ١ تا ١٠
ترجمہ : میں شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے جب بدر کے مال غنیمت (کی تقسیم) کے بارے میں مسلمانوں میں اختلاف ہوا، تو جوانوں نے کہا یہ ہمارا حق ہے اسلئے کہ ہم نے براہ راست قتال کیا ہے اور بوڑھوں نے کہا پرچموں کے تحت ہم تمہارے مدگار تھے اگر (خدانخواستہ) تم کو شکست ہوجاتی تو تم ہمارے پاس پلٹ کر آتے لہٰذا تم مال غنیمت کے بارے میں ترجع کا دعوانہ کرو، اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگ آپ سے مال غنیمت کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ اس کا کون مستحق ہے آپ ان سے کہہ دو مال غنیمت اللہ اور اس کے رسول کا ہے وہ جس کو چاہیں دیں چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس مال غنیمت کو جوانوں اور بوڑھوں کے درمیان مساوی طریقہ پر تقسیم کردیا، اس کو حاکم نے مستدرک میں روایت کیا ہے، تم لوگ اللہ سے ڈرو اور آپس کے تعلقات درست کرو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اگر تم سچے مومن ہو کامل اہل ایمان تو وہی لوگ ہیں جب ان کے سامنے اللہ کی وعید ذکر کی جاتی ہے تو ان کے دل خوف سے لرز جاتے ہیں اور جب ان کے سامنے اللہ کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو ان کی تصدیق میں اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ اپنے رب ہی پر توکل کرتے ہیں، یعنی اسی پر اعتماد کرتے ہیں نہ کہ اس کے علاوہ کسی اور پر جو نماز قائم کرتے ہیں یعنی نماز کو اس کے حقوق کے ساتھ ادا کرتے ہیں، اور جو (مال) ہم نے ان کو عطا کیا ہے اس میں سے اللہ کی اطاعت میں خرچ کرتے ہیں ایسے ہی لوگ جو مذکورہ صفات کے ساتھ متصف ہیں بلا شک سچے مومن ہیں ان کے لئے جنت میں ان کے رب کے پاس بڑے رتبے ہیں اور مغفرت ہے اور جنت میں بہترین رزق ہے (مال غنیمت کے بارے میں جو اختلاف ہے وہ ایسا ہی ہے) جیسا کہ آپ کے رب نے آپ کو گھر (مدینہ) سے حق کے ساتھ نکالا (بالحق) اَخْرجَ کے مستحق ہے، اور واقعہ ہے کہ مومنین کی ایک جماعت اس نکلنے کو گراں سمجھ رہی تھی جملہ اَخْرَجَ کی ضمیر کاف سے حال ہے، اور کَمَا، ھذہ مبتداء محذوف کی خبر ہے، یعنی مال غنیمت کے معاملہ کی موجودہ حالت کراہت میں ویسی ہے جیسی کہ آپ کے (مدینہ) سے نکالنے کی حالت، اور جس طرح اس (نکلنے) میں ان کے لئے خیر تھی اسی طرح اس میں بھی خیر ہے، اور ان کا یہ (مدینہ سے) نکلنا اس وقت ہوا کہ جب ابو سفیان تجارتی قافلہ لیکر شام سے نکلا، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اصحاب اس (قافلہ) کا مال غنیمت لینے کے لئے نکلے، اس (کارروائی) کا علم قریش کو ہوگیا، تو ابو جہل اور مکہ کے جنگ باز نکلے تاکہ قافلہ کا دفاع کریں اور یہ جنگی لشکر تھا، اور ابوسفیان تجارتی قافلے کو ساحل کے راستہ سے نکال لے گیا چناچہ وہ (تجارتی قافلہ) بچ کر نکل گیا، ابو جہل سے کہا گیا کہ واپس چلو مگر اس نے انکار کردیا، اور بدر کی طرف روانہ ہوا، ادھر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے صحابہ سے مشورہ کیا اور آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھ سے دو جماعتوں میں سے ایک کا وعدہ فرمایا ہے لہٰذا اکثر جنگی لشکر سے مقابلہ کرنے کے لئے متفق ہوگئے، اور کچھ لوگوں نے اس رائے کو ناپسند کیا، اور عذر یہ پیش کیا کہ ہم نے اس کے لئے تیاری نہیں کی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، آپ سے یہ لوگ حق یعنی قتال، کے بارے میں جھگڑتے ہیں بعد اس کے اس کا حق ہونا ان پر ظاہر ہوگیا گویا کہ وہ موت کی طرف کھینچ کرلے جائے جارہے ہیں حال یہ کہ وہ موت کو کھلی آنکھوں سء دیکھ رہے ہیں ان کے قتال کو ناپسند کرنے کی وجہ سے، اور اس وقت کو یاد کرو جب اللہ تعالیٰ تم سے دو جماعتوں میں عیر و نفیر (تجارتی قافلہ اور جنگی لشکر) سے ایک کا وعدہ کررہا تھا کہ ان میں سے ایک جماعت تمہارے ہاتھ لگے گی، اور تم یہ چاہتے تھے کہ کمزور جماعت تم کو ملے، ان کے تعداد اور ہتھیاروں میں کم ہونے کی وجہ سے یعنی بغیر قوت اور بغیر ہتھیار والی جماعت اور وہ تجارتی قافلہ تھا، بخلاف جنگی لشکر کے، مگر اللہ کا ارادہ یہ تھا کہ اپنی سابقہ باتوں کے ذریعہ حق کو ظاہر کردے اسلام کو غلبہ دے کر اور کافروں کی جڑ بالکل کاٹ سے لہٰذا تم کو جنگی لشکر سے قتال کا حکم دیا تاکہ وہ حق کو محقق کرے اور باطل کفر کو مٹا دے اگرچہ مشرک اس کو ناپسند کریں اور اس وقت کو یاد کرو کب تم اپنے رب سے فریاد کررہے تھے یعنی اللہ سے مشرکین پر نصرت طلب کررہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے تم کو جواب دیا کہ میں مسلسل ایک ہزار فرشتوں سے مدد کردوں گا، جو مسلسل چلے آرہے ہوں گے، اولاً ان سے ہزار کا وعدہ کیا، پھر تین اور پھر پانچ ہزار ہوگئے جیسا کہ آل عمران میں ہے، اور (اَلْف) کو آلف پڑھا گیا ہے جیسا کہ فَلْس کی جمع اَفْلُس ہے، اور اس امداد کی اللہ تعالیٰ نے خوشخبری کے طور پر خبر دی اور تاکہ تمہارے دل مطمئن ہوجائیں اور مدد تو صرف اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے یقینا اللہ زبردست اور دانا ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : سُوْرَةُ الْاَنفال بترکیب اضافی مبتداء ہے اس کی دو خبر ہیں اول مَدْنیّة اور دوسری خَمْس الخ، مبتداء خبر سے مل کر مستثی منہ اور اِلاَّ حرف استثنیٰ ویمکربک مستثنیٰ ، اور اَوْ بیان اختلاف کے لئے ہے، اگرچہ سورت کے عنوان میں سات آیتوں کو مکی کہا گیا ہے مگر صحیح بات یہ ہے کہ پوری سورت مدنی ہے۔
قولہ : عَنِ الاَنْفَالِ ، اَنْفَال نَفَل بروزن سَبَب کی جمع ہے بمعنی زائد، اور سکون فا کے ساتھ بھی کہا گیا ہے اس کے معنی بھی زائد کے ہیں، مال غنیمت چونکہ سابقہ امتوں کے لئے حلال نہیں تھا صرف اسی امت کے لئے بطور خصوصیت حلال کیا گیا ہے اس لئے نفل سے تعبیر کیا گیا ،
سوال : یسئلونکَ عن الانفال، میں یسئلونک کا صلہ عَنْ لایا گیا ہے حالانکہ یہ فعل متعدی بنفسہ ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے سألتُ زیداً مالاً.
جواب : اگر سوال تعیین و توضیح کے لئے ہو تو سوال متعدی عَنْ کے ساتھ ہوگا اور اگر بمعنی طلب ہوگا تو متعدی بنفسہ ہوگا، جو لوگ یہاں سوال کو طلب کے لئے مانتے ہیں وہ عن کو زائدہ قرار دیتے ہیں۔
قولہ : لَوِ انْکَشَفْتُمْ ، ای انھز مْتم وانتشرتم، اگر تم شکست کھاتے اور منتشر ہوتے۔
قولہ : فلا تَسْتَاثِرُوا، ای فلا تختاروا، یعنی تمہاری بیان کردہ دلیل کی وجہ سے تم کر ترجع نہیں دی جاسکتی، ایثار کے معنی ہیں ترجع دینا ،
مال غنیمت کو نفل کہنے کی وجہ یہ بھی ہے کہ جہاد کا اصل مقصد اعلاء کلمتہ اللہ ہے، اور حصول مال شئی زائد ہے۔
قولہ : لِمَنْ ھِیَ اس میں اشارہ ہے مال غنیمت کا حکم معلوم کرنا مقصود ہے نہ کہ اس کی ذات اسلئے کہ ذات سب کو معلوم ہے۔
قولہ : ای حَقِیْقَةَ مَا بَیْنَکُمْ ، یہ ذات بینکم کی تفسیر ہے اس میں یہ بتایا گیا ہے ذات بمعنی حقیقت ہے اور بین بمعنی وصل ہے، اور لغت کے مطابق ہے، بخلاف اس کے کہ جنہوں نے حال یا حالت لیا ہے اسلئے کہ یہ معنی لغت اور استعمال دونوں کے خلاف ہیں، حاصل معنی یہ ہیں کونوا مجتمعین علی امر اللہ ورسولہ بالمؤ اساة والمسا عدة فیما رزقکم اللہ .
قولہ : الکَامِلُوْنَ اس قید کے اضافہ کا مقصد ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال : اللہ تعالیٰ نے اِنَّما کلمہ حصر کے ساتھ فرمایا ہے کہ مومن وہی ہے کہ جن کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے قلوب خوف خدا سے لرز اٹھیں، تو ایسے افراد تو بہت کم ہوں گے۔
جواب : یہ مومن کامل کی صفت ہے نہ کہ مطلق مومن کی۔
قولہ : تصدیقًا، اس اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال : یہ ہے کہ آپ کا مسلک ہے کہ ایمان میں کمی زیادتی نہیں ہوتی حالانکہ زادتھم ایمانا، سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان میں کمی زیادتی ہوتی ہے۔
جواب : جواب کا حاصل یہ ہے کہ یہاں ایمان سے مراد تصدیق وطمانینت قلب ہے اور اس میں کمی زیادتی ہوتی ہے۔
قولہ : بہ یَثِقُوْنَ لا بِغَیْرِہ اس اضافہ کا مقصد تقدیم متعلق کے قاعدہ کو بیان کرنا ہے جو کہ حصر ہے یعنی تجھ ہی پر بھروسہ کرتے ہیں نہ کسی غیر پر۔
قولہ : الخُرُؤجَ ، ای خروجک وخروجَھُمْ ، یہ بھی ایک سوال مقدر کا جواب ہے سوال یہ ہے کہ حال جملہ ہوتا ہے تو اس میں عائد کا ہونا ضروری ہوتا ہے حالانکہ یہاں کوئی عائد نہیں ہے جواب کا حاصل یہ ہے کہ تقدیر عبارت خروجک وخروجھم ہے لہٰذا اب کوئی اعتراض نہیں۔
قولہ : کما، خبر مبتداء محذوف الخ اس جملہ کا مقصد دونوں جملوں میں مشابہت کو بیان کرنا ہے یعنی مال غنیمت کی تقسیم پر ناپسندیدگی کا اظہار ویسا ہی ہے جیسا کہ خروج الی النفیر (لشکر) کی طرف نکلنا ناپسندیدہ تھا، حالانکہ جس طرح ان کے حق میں خروج بہتر تھا اسی طرح مال غنیمت کی تقسیم میں بھی خیر ہے۔
قولہ : عُدَدُھا، ای اسبابُھا .
قولہ : بالفٍ یعنی اَلْف کے ساتھ یعنی الف بھی پڑھا گیا الف پر مد اور لام پر ضمہ بروزن اَفْلُس، یعنی جس طرح فَلْس کی جمع اَفْلُس آتی ہے اسی طرح اَلْف کی جمع الف آتی ہے، الُف کی اصل أألُف تھی دوسرے ہمزاد کو الف سے بدل دیا الف ہوگیا۔
تفسیر وتشریح
سورت کے مضامین : یہ پوری سورت تحقیقی قول کے مطابق مدنی ہے اگرچہ اس میں سات آیتیں اس واقعہ سے متعلق ہیں جو مکہ میں پیش آیا تھا مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ مکی واقعہ کے متعلق آیات کا نزول بھی مکہ ہی میں ہو یہ ہوسکتا ہے کہ مکی واقعہ کی یاد دہانی کے لئے اس واقعہ سے متعلق آیات کا نزول مدینہ میں ہو، جن آیات سبع کو مکی کہا گیا ہے ان میں کی آخری آیت \&\& بما کنتم تکفرون \&\& ہے۔
ربط آیات : اس سے پہلی سورت یعنی سورة اعراف میں مشرکین اور اہل کتاب کے جہل وعناد اور کفر و فساد کا تذکرہ اور اس کے متعلق مباحث کا بیان تھا، اس سورت میں زیادہ تر مضامین غزوہ بدر کے موقع پر انھیں لوگوں کے انجام بد، ناکامی، اور ان کے مقابلہ میں مسلمانوں کی کامیابی کے متعلق ہیں جو مسلمانوں کے لئے احسان و انعام اور کافروں کے لئے عذاب و انتقام تھا، اور چونکہ اس انعام کا بڑا سبب مسلمانوں کا خلوص اور لِلّٰہیت اور باہمی اتفاق تھا، اور یہ اخلاق و اتفاق نتیجہ ہے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مکمل اطاعت کا اسی لئے سورت کی ابتداء میں تقویٰ اور اطاعت حق اور ذکر اللہ اور توکل وغیرہ کی تعلیم دی گئی ہے۔
معلوم ہو کہ آیت میں تین باتوں پر عمل کے بغیر ایمان مکمل نہیں، اس سے تقویٰ ، اصلاح ذات البین اور اللہ اور رسول کی اطاعت کی اہمیت واضح ہے، خاص طور پر مال غنیمت کی تقسیم میں اب تینوں امور میں عمل نہایت ضروری ہے، اسلئے کہ مال کی تقسیم میں باہمی نزاع کا شدید اندیشہ رہتا ہے اس کی اصلاح کے لئے اصلاح ذات البین پر زور دیا اور چونکہ ہیرا پھیری کا امکان رہتا ہے اسلئے تقوے کا حکم دیا، اس کے باوجود کوئی کوتاہی ہوجائے تو اس کا حل اللہ اور اس کی اطاعت میں مضمر ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿الْأَنفَالِ﴾ سے مراد غنائم ہیں جو اللہ تعالیٰ نے کفار کے مال میں سے امت کو عطا کی ہیں۔ اس سورۃ مبارکہ کی یہ آیات کریمات غزوہ بدر کے بارے میں نازل ہوئیں۔ غزوہ بدر میں مسلمانوں کو کفار سے اولین مال غنیمت حاصل ہوا، تو اس کے بارے میں بعض مسلمانوں میں نزاع واقع ہوگیا چنانچہ انہوں نے اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے استفسار کیا۔ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔
﴿يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَنفَالِ﴾ ” وہ آپ سے غنیمتوں کے بارے میں پوچھتے ہیں“ ان کو کیسے تقسیم کیا جائے اور انہیں کن لوگوں میں تقسیم کیا جائے۔ ﴿قُلِ ﴾ آپ ان سے کہہ دیجیے !﴿الْأَنفَالُ لِلَّـهِ وَالرَّسُولِ﴾ ” غنیمتیں اللہ اور رسول کے لئے ہیں“ وہ جہاں چاہیں گے ان غنائم کو خرچ کریں گے۔ پس تمہیں اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے پر اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں، بلکہ تم پر فرض ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول فیصلہ کردیں تو تم ان کے فیصلے پر راضی رہو اور ان کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کر دو اور یہ چیز اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں داخل ہے۔﴿فَاتَّقُوا اللَّـهَ﴾ ” پس اللہ سے ڈور“ اس کے احکام کی تعمیل اور اس کے نواہی سے اجتناب کر کے۔ ﴿وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ﴾” اور صلح کرو آپس میں“ یعنی تم آپس کے بغض، قطعی تعلقی اور ایک دوسرے سے پیٹھ پھیرنے کی، آپس کی مودت، محبت اور میل جول کے ذریعے سے اصلاح کرو۔ اس طرح تم میں اتفاق پیدا ہوگا اور قطع تعلق، مخاصمت اور آپس کے لڑائی جھگڑے کی وجہ سے جو نقصان پہنچا ہے اس کا ازالہ ہوجائے گا۔ آپس کے معاملات کی اصلاح میں حسن اخلاق اور برا سلوک کرنے والوں سے درگزر کا بہت بڑا دخل ہے اس سے دلوں کا بغض اور نفرت دور ہوجاتی ہے اور ان تمام باتوں کی جامع بات یہ ہے﴿وَأَطِيعُوا اللَّـهَ وَرَسُولَهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ﴾اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اگر تم مومن ہو“ کیونکہ ایمان اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کا تقاضا کرتا ہے جیسے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت نہیں کرتا وہ مومن نہیں، جس کی اطاعت الٰہی اور اطاعت رسول ناقص ہے اس کا ایمان بھی اتنا ہی ناقص ہے۔
چونکہ ایمان کی دو قسمیں ہیں :
(١) ایمان کامل، جس پر مدح و ثنا اور کامل فوز و فلاح مترتب ہوتی ہے۔
(٢) نقاص ایمان
11 Mufti Taqi Usmani
. ( aey payghumber ! ) log tum say maal-e-ghaneemat kay baaray mein poochtay hain . keh do kay maal-e-ghaneemat ( kay baaray mein faislay ) ka ikhtiyar Allah aur Rasool ko hasil hai . lehaza tum Allah say daro , aur aapas kay talluqaat durust kerlo , aur Allah aur uss kay Rasool ki itaat kero , agar tum waqaee momin ho .
12 Tafsir Ibn Kathir
بخاری شریف میں ہے
۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں سورة انفال غزوہ بدر کے بارے میں اتری ہے۔ فرماتے ہیں انفال سے مراد غنیمتیں ہیں جو صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ہی تھیں ان میں سے کوئی چیز کسی اور کیلئے نہ تھی۔ آپ نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا گھوڑا بھی انفال میں سے ہے اور سامان بھی۔ سائل نے پھر پوچھا آپ نے پھر یہی جواب دیا اس نے پھر پوچھا کہ جس انفال کا ذکر کتاب اللہ میں ہے اس سے کیا مراد ہے ؟ غرض پوچھتے پوچھتے آپ کو تنگ کردیا تو آپ نے فرمایا اس کا یہ کرتوت اس سے کم نہیں جسے حضرت عمر نے مارا تھا۔ حضرت فاروق اعظم سے جب سوال ہوتا تو آپ فرماتے نہ تجھے حکم دیتا ہوں نہ منع کرتا ہوں، ابن عباس فرماتے ہیں واللہ حق تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ڈانٹ ڈپٹ کرنے والا حکم فرمانے والا حلال حرام کی وضاحت کرنے والا ہی بنا کر بھیجا ہے۔ آپ نے اس سائل کو جواب دیا کہ کسی کسی کو بطور نفل (مال غنیمت) گھوڑا بھی ملتا اور ہتھیار بھی۔ دو تین دفعہ اس نے یہی سوال کیا جس سے آپ غضبناک ہوگئے اور فرمانے لگے یہ تو ایسا ہی شخص ہے جسے حضرت عمر نے کوڑے لگائے تھے یہاں تک کہ اس کی ایڑیاں اور ٹخنے خون آلود ہوگئے تھے۔ اس پر سائل کہنے لگا کہ خیر آپ سے تو اللہ نے عمر کا بدلہ لے ہی لیا۔ الغرض ابن عباس کے نزدیک تو یہاں نفل سے مراد پانچویں حصے کے علاوہ وہ انعامی چیزیں ہیں جو امام اپنے سپاہیوں کو عطا فرمائے۔ واللہ اعلم۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس پانچویں حصے کا مسئلہ پوچھا جو چار ایسے ہی حصوں کے بعد رہ جائے۔ پس یہ آیت اتری۔ ابن مسعود وغیرہ فرماتے ہیں لڑائی والے دن اس سے زیادہ امام نہیں دے سکتا بلکہ لڑائی کے شروع سے پہلے اگر چاہے دے دے۔ عطا فرماتے ہیں کہ یہاں مراد مشرکوں کا وہ مال ہے جو بےلڑے بھڑے مل جائے خواہ جانور ہو خواہ لونڈی غلام یا اسباب ہو پس وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ہی تھا آپ کو اختیار تھا کہ جس کام میں چاہیں لگا لیں تو گویا ان کے نزدیک مال فے انفال ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد لشکر کے کسی رسالے کو بعوض ان کی کارکردگی یا حوصلہ افزائی کے امام انہیں عام تقسیم سے کچھ زیادہ دے اسے انفال کہا جاتا ہے۔ مسند احمد میں حضرت سعد بن ابی وقاص سے مروی ہے کہ بدر والے دن جب میرے بھائی عمیر قتل کئے گئے میں نے سعید بن عاص کو قتل کیا اور اس کی تلوار لے لی جسے ذوالکتیعہ کہا جاتا تھا سے لے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچا تو آپ نے فرمایا جاؤ اسے باقی مال کے ساتھ رکھ آؤ۔ میں نے حکم کی تعمیل تو کرلی لیکن اللہ ہی کو معلوم ہے کہ اس وقت میرے دل پر کیا گذری۔ ایک طرف بھائی کق قتل کا صدمہ دوسری طرف اپنا حاصل کردہ سامان واپس ہونے کا صدمہ۔ ابھی میں چند قدم ہی چلا ہوں گا جو سورة انفال نازل ہوئی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے فرمایا جاؤ اور وہ تلوار جو تم ڈال آئے ہو لے جاؤ۔ مسند میں حضرت سعد بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ میں نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ آج کے دن اللہ تعالیٰ نے مجھے مشرکوں سے بچا لیا اب آپ یہ تلوار مجھے دے دیجئے آپ نے فرمایا سنو نہ یہ تمہاری ہے نہ میری ہے۔ اسے بیت المال میں داخل کردو میں نے رکھ دی اور میرے دل میں خیال آیا کہ آج جس نے مجھ جیسی محنت نہیں کی اسے یہ انعام مل جائے گا یہ کہتا ہوا جا ہی رہا تھا جو آواز آئی کہ کوئی میرا نام لے کر میرے پیچھے سے مجھے پکار رہا ہے لوٹا اور پوچھا کہ حضور کہیں میرے بارے میں کوئی وحی نہیں اتری ؟ آپ نے فرمایا ہاں تم نے مجھ سے تلوار مانگی تھی اس وقت وہ میری نہ تھی اب وہ مجھے دے دی گئی اور میں تمہیں دے رہا ہوں، پس آیت ( يَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْاَنْفَالِ ۭقُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰهِ وَالرَّسُوْلِ ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَصْلِحُوْا ذَاتَ بَيْنِكُمْ ۠ وَاَطِيْعُوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗٓ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ) 8 ۔ الانفال :1) اس بارے میں اتری ہے جو ابو داؤد طیالسی میں انہی سے مروی ہے کہ میرے بارے میں چار آیتیں نازل ہوئی ہیں۔ مجھے بدر والے دن ایک تلوار ملی میں اسے لے کر سرکار رسالت مآب میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یہ تلوار آپ مجھے عنایت فرمائیے آپ نے فرمایا جاؤ جہاں سے لی ہے وہیں رکھ دو ۔ میں نے پھر طلب کی آپ نے پھر یہی جواب دیا۔ میں نے پھر مانگی آپ نے پھر یہی فرمایا۔ اسی وقت یہ آیت اتری۔ یہ پوری حدیث ہم نے آیت ( وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْـنًا ۭ وَاِنْ جَاهَدٰكَ لِتُشْرِكَ بِيْ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۭ اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ) 29 ۔ العنکبوت :8) کی تفسیر میں وارد کی ہے۔ پس ایک تو یہ آیت دوسری آیت ( وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ ۚ حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ وَهْنًا عَلٰي وَهْنٍ وَّفِصٰلُهٗ فِيْ عَامَيْنِ اَنِ اشْكُرْ لِيْ وَلِوَالِدَيْكَ ۭ اِلَيَّ الْمَصِيْرُ 14) 31 ۔ لقمان :14) تیسری آیت ( يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ 90) 5 ۔ المآئدہ :90) ، چوتھی آیت وصیت (صحیح مسلم شریف) سیرت ابن اسحاق میں ہے حضرت ابو سعید مالک بن ربیعہ فرماتے ہیں کہ بدر کی لڑائی میں مجھے سیف بن عاند کی تلوار ملی جسے مرزبان کہا جاتا تھا۔ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو حکم دیا کہ جو کچھ جس کسی کے پاس ہو وہ جمع کرا دے، میں بھی گیا اور وہ تلوار رکھ آیا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عادت مبارک تھی کہ اگر کوئی آپ سے کچھ مانگتا تو آپ انکار نہ کرتے۔ حضرت ارقم بن ارقم خزاعی (رض) نے اس تلوار کو دیکھ کر آپ سے اسی کا سوال کیا آپ نے انہیں عطا فرما دی۔ اس آیت کے نزول کا سبب مسند امام احمد میں ہے کہ حضرت ابو امامہ نے حضرت عبادہ سے انفال کی بابت سوال کیا تو آپ نے فرمایا ہم بدریوں کے بارے میں ہے جبکہ ہم مال کفار کے بارے میں باہم اختلاف کرنے لگے اور جھگڑے بڑھ گئے تو یہ آیت اتری اور یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سپرد ہوگئی اور حضور نے اس مال کو برابری سے تقسیم فرمایا۔ مسند احمد میں ہے کہ ہم غزوہ بدر میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نکلے اللہ تعالیٰ نے کافروں کو شکست دی ہماری ایک جماعت نے تو ان کا تعاقب کیا کہ پوری ہزیمت دے دے دوسری جماعت نے مال غنیمت میدان جنگ سے سمیٹنا شروع کیا اور ایک جماعت اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اردگرد کھڑی ہوگئی کہ کہیں کوئی دشمن آپ کو کوئی ایذاء نہ پہنچائے۔ رات کو سب لوگ جمع ہوئے اور ہر جماعت اپنا حق اس مال پر جتانے لگی۔ پہلی جماعت نے کہا دشمنوں کو ہم نے ہی ہر ایا ہے۔ دوسری جماعت نے کہا مال غنیمت ہمارا ہی سمیٹا ہوا ہے۔ تیسری جماعت نے کہا ہم نے حضور کی چوکیداری کی ہے پس یہ آیت اتری اور حضور نے خود اس مال کو ہم میں تقسیم فرمایا۔ آپ کی عادت مبارک تھی کہ حملے کی موجودگی میں چوتھائی بانٹتے اور لوٹتے وقت تہائی آپ انفال کو مکروہ سمجھتے۔ ابن مردویہ میں ہے کہ بدر والے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا تھا کہ جو ایسا کرے اسے یہ انعام اور جو ایسا کرے اسے یہ انعام۔ اب نوجوان تو دوڑ پڑے اور کار نمایاں انجام دیئے۔ بوڑھوں نے مورچے تھامے اور جھنڈوں تلے رہے۔ اب جوانوں کا مطالبہ تھا کہ کل مال ہمیں ملنا چاہئے بوڑھے کہتے تھے کہ لشکر گاہ کو ہم نے محفوظ رکھا تم اگر شکست اٹھاتے تو یہیں آتے۔ اسی جھگڑے کے فیصلے میں یہ آیت اتری۔ مروی ہے کہ حضور کا اعلان ہوگیا تھا کہ جو کسی کافر کو قتل کرے اسے اتنا ملے گا اور جو کسی کافر کو قید کرے اسے اتنا ملے گا۔ حضرت ابو الیسر (رض) دو قیدی پکڑ لائے اور حضرت کو وعدہ یاد دلایا اس پر حضرت سعد بن عبادہ نے کہا کہ پھر تو ہم سب یونہی رہ جائیں گے۔ بزدلی یا بےطاقتی کی وجہ سے ہم آگے نہ بڑھے ہوں یہ بات نہیں بلکہ اس لئے کہ پچھلی جانب سے کفار نہ آپڑیں، حضور کو کوئی تکلیف نہ پہنچے اس لئے ہم آپ کے ارد گرد رہے، اسی جھگڑے کے فیصلے میں یہ آیت اتری اور آیت ( وَاعْلَمُوْٓا اَنَّـمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِي الْقُرْبٰي وَالْيَتٰمٰي وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ۙ اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ باللّٰهِ وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلٰي عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ ۭوَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ 41) 8 ۔ الانفال :41) بھی اتری، امام ابو عبید اللہ قاسم بن سلام نے اپنی کتاب احوال الشرعیہ میں لکھا ہے کہ انفال غنیمت ہے اور حربی کافروں کے جو مال مسلمانوں کے قبضے میں آئیں وہ سب ہیں پس انفال آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ملکیت میں تھے بدر والے دن بغیر پانچواں حصہ نکالے جس طرح اللہ نے آپ کو سمجھایا آپ نے مجادین میں تقسیم کیا اس کے بعد پانچواں حصہ نکالنے کے حکم کی آیت اتری اور یہ پہلا حکم منسوخ ہوگیا لیکن ابن زید وغیرہ اسے منسوخ نہیں بتلاتے بلکہ محکم کہتے ہیں۔ انفال غنیمت کی جمع ہے مگر اس میں سے پانجواں حصہ مخصوص ہے۔ اس کی اہل کیلئے جیسے کہ کتاب اللہ میں حکم ہے اور جیسے کہ سنت رسول اللہ جاری ہوئی ہے۔ انفال کے معنی کلام عرب میں ہر اس احسان کے ہیں جسے کوئی بغیر کسی پابندی یا وجہ کے دوسرے کے ساتھ کرے۔ پہلے کی تمام امتوں پر یہ مال حرام تھے اس امت پر اللہ نے رحم فرمایا اور مال غنیمت ان کے لئے حلال کیا۔ چناچہ بخاری و مسلم میں ہے حضور فرماتے ہیں مجھے پانچ چیزیں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں پھر ان کے ذکر میں ایک یہ ہے کہ آپ نے فرمایا میرے لئے غنیمتیں حلال کی گئیں مجھ سے پہلے کسی کو حلال نہ تھیں۔ امام ابو عبید فرماتے ہیں کہ امام جن لشکریوں کو کوئی انعام دے جو اس کے مقررہ حصہ کے علاوہ ہو اسے نفل کہتے ہیں غنیمت کے انداز اور اس کے کار نامے کے صلے کے برابر یہ ملتا ہے۔ اس نفل کی چار صورتیں ہیں ایک تو مقتول کا مال اسباب وغیرہ جس میں سے پانچواں حصہ نہیں نکالا جاتا۔ دوسرے وہ نفل جو پانچواں حصہ علیحدہ کرنے کے بعد دیا جاتا ہے۔ مثلاً امام نے کوئی چھوٹا سا لشکر کسی دشمن پر بھیج دیا وہ غنیمت یا مال لے کر پلٹا تو امام اس میں سے اسے چوتھائی یا تہائی بانٹ دے تیسرے صورت یہ کہ جو پانچواں حصہ نکال کر باقی کا تقسیم ہوچکا ہے، اب امام بقدر خزانہ اور بقدر شخصی جرات کے اس میں سے جسے جتنا چاہے دے۔ چوتھی صورت یہ کہ امام پانچواں حصہ نکالنے سے پہلے ہی کسی کو کچھ دے مثلاً چرواہوں کو، سائیسوں کو، بہشتیوں کو وغیرہ۔ پھر ہر صورت میں بہت کچھ اختلاف ہے۔ امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ نکالنے سے پہلے جو سامان اسباب مقتولین کا مجاہدین کو دیا جائے وہ انفال میں داخل ہے، دوسری وجہ یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنا حصہ پانچویں حصے میں سے پانچواں جو تھا اس میں سے آپ جسے چاہیں جتنا چاہیں عطا فرمائیں یہ نفل ہے۔ پس امام کو چاہئے کہ دشمنوں کی کثرت مسلمانوں کی قلت اور ایسے ہی ضروری وقتوں میں اس سنت کی تابعیداری کرے۔ ہاں جب ایسا موقع نہ ہو تو نفل ضروری نہیں۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ امام ایک چھوٹی سی جماعت کہیں بھیجتا ہے اور ان سے کہہ دیتا ہے کہ جو شخص جو کچھ حاصل کرے پانچواں حصہ نکال کر باقی سب اسی کا ہے تو وہ سب انہی کا ہے کیونکہ انہوں نے اسی شرط پر غزوہ کیا ہے اور یہ رضامندی سے طے ہوچکی ہے۔ لیکن ان کے اس بیان میں جو کہا گیا ہے کہ بدر کی غنیمت کا پانچواں حصہ نہیں نکالا گیا۔ اس میں ذرا کلام ہے۔ حضرت علی نے فرمایا تھا کہ دو اونٹنیاں وہ ہیں جو انہیں بدر کے دن پانچویں حصے میں ملی تھیں میں نے اس کا پورا بیان کتاب السیرہ میں کردیا ہے۔ فالحمد للہ۔ تم اپنے کاموں میں اللہ کا ڈر رکھو، آپس میں صلح و صفائی رکھو، ظلم، جھگڑے اور مخالفت سے باز آجاؤ۔ جو ہدایت و علم اللہ کی طرف سے تمہیں ملا ہے اس کی قدر کرو۔ اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتے رہو، عدل و انصاف سے ان مالوں کو تقسیم کرو۔ پرہیزگاری اور صلاحیت اپنے اندر پیدا کرو۔ مسند ابو یعلی میں ہے کہ حضور بیٹھے بیٹھے ایک مرتبہ مسکرائے اور پھر ہنس دیئے۔ حضرت عمر نے دریافت کیا کہ آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں، کیسے ہنس دیئے ؟ آپ نے فرمایا میری امت کے دو شخص اللہ رب العزت کے سامنے گھٹنوں کے بل کھڑے ہوگئے ایک نے کہا اللہ میرے بھائی سے میرے ظلم کا بدلہ لے اللہ نے اس سے فرمایا ٹھیک ہے اسے بدلہ دے اس نے کہا اللہ میرے پاس تو نیکیاں اب باقی نہیں رہیں اس نے کہا پھر اللہ میری برائیاں اس پر لا دھ دے۔ اس وقت حضور کے آنسو نکل آئے اور فرمانے لگے وہ دن بڑا ہی سخت ہے لوگ چاہتے ہوں گے تلاش میں ہوں گے کہ کسی پر ان کا بوجھ لادھ دیا جائے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے طالب اپنی نگاہ اٹھا اور ان جنتیوں کو دیکھ وہ دیکھے گا اور کہے گا چاندی کے قلعے اور سونے کے محل میں دیکھ رہا ہوں جو لؤ لؤ اور موتیوں سے جڑاؤ کئے ہوئے ہیں پروردگار مجھے بتایا جائے کہ یہ مکانات اور یہ درجے کسی نبی کے ہیں یا کسی صدیق کے یا کسی شہید کے ؟ اللہ فرمائے گا یہ اس کے ہیں جو ان کی قیمت ادا کر دے۔ وہ کہے گا اللہ کس سے ان کی قیمت ادا ہو سکے گی ؟ فرمائے گا تیرے پاس تو اس کی قیمت ہے وہ خوش ہو کر پوچھے گا کہ پروردگار کیا ؟ اللہ فرمائے گا یہی کہ تیرا جو حق اس مسلمان پر ہے تو اسے معاف کر دے، بہت جلد کہے گا کہ اللہ میں نے معاف کیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوگا کہ اب اس کا ہاتھ تھام لے اور تم دونوں جنت میں چلے جاؤ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کا آخری حصہ تلاوت فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور آپس کی اصلاح کرو دیکھو اللہ تعالیٰ خود قیامت کے دن مومنوں میں صلح کرائے گا۔