Skip to main content

وَاتَّقُوْا فِتْنَةً لَّا تُصِيْبَنَّ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مِنْكُمْ خَاۤصَّةً ۚ وَاعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ

And fear
وَٱتَّقُوا۟
اور ڈرو
a trial
فِتْنَةً
اس آزمائش سے
not
لَّا
نہ
which will afflict
تُصِيبَنَّ
پہنچے گی
those who
ٱلَّذِينَ
ان لوگوں کو
do wrong
ظَلَمُوا۟
جنہوں نے ظلم کیا
among you
مِنكُمْ
تم میں سے
exclusively
خَآصَّةًۖ
خاص طور پر
And know
وَٱعْلَمُوٓا۟
اور جان لو
that
أَنَّ
بیشک
Allah
ٱللَّهَ
اللہ تعالیٰ
(is) severe
شَدِيدُ
سخت
(in) the penalty
ٱلْعِقَابِ
سزا دینے والا ہے

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

اور بچو اُس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف اُنہی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنہوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے

English Sahih:

And fear a trial which will not strike those who have wronged among you exclusively, and know that Allah is severe in penalty.

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

اور بچو اُس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف اُنہی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنہوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

اور اس فتنہ سے ڈرتے رہو جو ہرگز تم میں خاص ظالموں کو ہی نہ پہنچے گا اور جان لو کہ اللہ کا عذاب سخت ہے،

احمد علی Ahmed Ali

اور تم اس فتنہ سے بچتے رہو جو تم میں سے خاص ظالموں پر ہی نہ پڑے گا اور جان لو کہ بے شک الله سخت عذاب کرنے والا ہے

أحسن البيان Ahsanul Bayan

اور تم ایسے وبال سے بچو! کہ جو خاص کر صرف ان ہی لوگوں پر واقع نہ ہوگا جو تم میں سے ان گناہوں کے مرتکب ہوئے ہیں (١) اور یہ جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔

٢٥۔١ اس سے مراد یا تو بندوں کا ایک دوسرے پر تسلط ہے جو بلا تخصیص، عام و خاص پر ظلم کرتے ہیں، یا وہ عام عذاب ہیں جو کثرت بارش یا سیلاب وغیرہ اراضی و سماوی آفات کی صورت میں آتے ہیں اور نیک اور بد سب ہی ان سے متاثر ہوتے ہیں۔ یا بعض احادیث میں امر بالمعروف و نہی ترک کی وجہ سے عذاب کی جو وعید بیان کی گئی ہے، مراد ہے۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

اور اس فتنے سے ڈرو جو خصوصیت کے ساتھ انہیں لوگوں پر واقع نہ ہوگا جو تم میں گنہگار ہیں۔ اور جان رکھو کہ خدا سخت عذاب دینے والا ہے

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

اور تم ایسے وبال سے بچو! کہ جو خاص کر صرف ان ہی لوگوں پر واقع نہ ہو گا جو تم میں سے ان گناہوں کے مرتکب ہوئے ہیں اور یہ جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے واﻻ ہے

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

اور اس فتنہ سے بچو جو صرف انہی تک محدود نہیں رہے گا جنہوں نے تم میں سے ظلم و تعدی کی (بلکہ سب اس کی لپیٹ میں آجائیں گے) اور جان لو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

اور اس فتنہ سے بچو جو صرف ظالمین کو پہنچنے والا نہیں ہے اور یاد رکھو کہ اللہ سخت ترین عذاب کا مالک ہے

طاہر القادری Tahir ul Qadri

اور اس فتنہ سے ڈرو جو خاص طور پر صرف ان لوگوں ہی کو نہیں پہنچے گا جو تم میں سے ظالم ہیں (بلکہ اس ظلم کا ساتھ دینے والے اور اس پر خاموش رہنے والے بھی انہی میں شریک کر لئے جائیں گے)، اور جان لو کہ اللہ عذاب میں سختی فرمانے والا ہے،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

برائیوں سے نہ روکنا عذاب الٰہی کا سبب ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈرا رہا ہے کہ اس امتحان اور اس محنت اور فتنے کا خوف رکھو جو گنہگاروں بدکاروں پر ہی نہیں رہے گا بلکہ اس بلاء کی وبا عام ہوگی۔ حضرت زبیر سے لوگوں نے کہا کہ اے ابو عبداللہ تمہیں کونسی چیز لائی ہے ؟ تم نے مقتول خلیفہ کو دھوکہ دیا پھر اس کے خون کے بدلے کی جستجو میں تم آئے اس پر حضرت زبیر (رض) نے فرمایا ہم آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت عمر اور حضرت عثمان (رض) کے زمانے میں اس آیت (واتقوا الخ) ، کو پڑھتے تھے لیکن یہ خیال بھی نہ تھا کہ ہم ہی اس کے اہل ہیں یہاں تک کہ یہ واقعات رونما ہوئے اور روایت میں ہے کہ عہد نبوی میں ہی ہم اس آیت سے ڈرا دئے گئے تھے لیکن یہ خیال بھی نہ تھا کہ ہم ہی اس کے ساتھ مخصوص کردیئے گئے ہیں۔ سدی کہتے ہیں یہ آیت خاصتاً اہل بدر کے بارے میں اتری ہے کہ وہ جنگ جمل میں آپس میں خوب لڑے بھڑے۔ ابن عباس فرماتے ہیں مراد اس سے خاص اصحاب رسول ہیں۔ فرماتے ہیں اس آیت میں اللہ تعالیٰ مومنوں کو حکم فرما رہا کہ وہ آپس میں کسی خلاف شرع کام کو باقی اور جاری نہ رہنے دیں۔ ورنہ اللہ کے عام عذاب میں سب پکڑ لئے جائیں گے۔ یہ تفسیر نہایت عمدہ ہے مجاہد کہتے ہیں یہ حکم تمہارے لئے بھی ہے۔ ابن مسعود فرماتے ہیں تم میں سے ہر شخص فتنے میں مشغول ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ تمہارے مال اور تمہاری اولادیں فتنہ ہیں پس تم میں سے جو بھی پناہ مانگے وہ اللہ تعالیٰ سے مانگے ہر گمراہ کن فتنے سے پناہ طلب کرلیا کرے۔ صحیح بات یہی ہے کہ اس فرمان میں صحابہ اور غری صحابہ سب کو تنبیہ ہے گو خطاب انہی سے ہے اسی پر دلالت ان احادیث کی ہے جو فتنے سے ڈرانے کیلئے ہیں گو ان کے بیان میں ائمہ کرام کی مستقل تصانیف ہیں لیکن بعض مخصوص حدیثیں ہم یہاں بھی وارد کرتے ہیں اللہ ہماری مدد فرمائے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں خاص لوگوں کے گناہوں کی وجہ سے عام لوگوں کو اللہ عزوجل عذاب نہیں کرتا ہاں اگر وہ کوئی برائی دیکھیں اور اس کے مٹانے پر قادر ہوں پھر بھی اس خلاف شرع کام کو نہ روکیں تو اللہ تعالیٰ سب کو عذاب کرتا ہے (مسند احمد) اس کی اسناد میں ایک راوی مبہم ہے۔ اور حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ یا تو تم اچھی باتوں کا حکم اور بری باتوں سے منع کرتے رہو گے یا اللہ تعالیٰ تم پر اپنے پاس سے کوئی عام عذاب نازل فرمائے گا۔ (مسند احمد) حضرت حذیفہ (رض) کا فرمان ہے کہ ایک آدمی ایک بات زبان سے نکالتا تھا اور منافق ہوجاتا تھا لیکن اب تو تم ایک ہی مجلس میں نہایت بےپرواہی سے چار چار دفعہ ایسے کلمات اپنی زبان سے نکال دیا کرتے ہو واللہ یا تو تم نیک باتوں کا حکم بری باتوں سے روکو اور نیکیوں کی رغبت دلاؤ ورنہ اللہ تعالیٰ تم سب کو تہس نہس کر دے گا یا تم پر برے لوگوں کو مسلط کر دے گا پھر نیک لوگ دعائیں کریں گے لیکن وہ قبول نہ فرمائے گا (مسند) حضرت نعمان بن بشیر (رض) نے اپنے خطبے میں اپنے کانوں کی طرف اپنی انگلیوں سے اشارہ کر کے فرمایا اللہ کی حدوں پر قائم رہنے والے، ان میں واقع ہونے والے اور ان کے بارے میں سستی کرنے والوں کی مثال ان لوگوں کی سی ہے جو ایک کشتی میں سوار ہوئے کوئی نیچے تھا کوئی اوپر تھا۔ نیچے والے پانی لینے کے لئے اوپر آتے تھے اوپر والوں کو تکلیف ہوتی تھی آخر انہوں نے کہا آؤ یہیں سے نیچے سے ہی کشتی کا ایک تختہ توڑ لیں حسب ضرورت پانی یہیں سے لے لیا کریں گے تاکہ نہ اوپر جانا پڑے نہ انہیں تکلیف پہنچے پس اگر اوپر والے ان کے کام اپنے ذمہ لے لیں اور انہیں کشی کے نیچے کا تختہ اکھاڑ نے سے روک دیں تو وہ بھی بچیں اور یہ بھی ورنہ وہ بھی ڈوبیں گے اور یہ بھی (بخاری) ایک اور حدیث میں رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں جب میری امت میں گناہ ظاہر ہوں گے تو اللہ تعالیٰ اپنے عام عذاب آب پر بھیجے گا۔ حضرت ام سلمہ نے دریافت کیا یا رسول اللہ ان میں تو نیک لوگ بھی ہوں گے آپ نے فرمایا کیوں نہیں ؟ پوچھا پھر وہ لوگ کیا کریں گے ؟ آپ نے فرمایا انہیں بھی وہی پہنچے گا جو اوروں کو پہنچا اور پھر انہیں اللہ کی مغفرت اور رضامندی ملے گی (مسند احمد) ایک اور حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ جو لوگ برے کام کرنے لگیں اور ان میں کوئی ذی عزت ذی اثر شخص ہو اور وہ منع نہ کرے روکے نہیں تو ان سب کو اللہ کا عذاب ہوگا سزا میں سب شامل رہیں گے (مسند و ابو داؤد وغیرہ) اور روایت میں ہے کہ کرنے والے تھوڑے ہوں نہ کرنے والے زیادہ اور ذی اثر ہوں پھر بھی وہ اس بڑائی کو نہ روکیں تو اللہ ان سب کو اجتماعی سزا دے گا۔ مسند کی اور روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا جب زمین والوں میں بدی ظاہر ہوجائے تو اللہ تعالیٰ ان پر اپنا عذاب اتارتا ہے حضرت عائشہ (رض) نے پوچھا کہ ان ہی میں اللہ کے اطاعت گذار بندے بھی ہوں گے آپ نے فرمایا عذاب عام ہوگا پھر وہ اللہ کی رحمت کی طرف لوٹ جائیں گے۔