الانفال آية ۳۸
قُلْ لِّـلَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ يَّنْتَهُوْا يُغْفَرْ لَهُمْ مَّا قَدْ سَلَفَۚ وَاِنْ يَّعُوْدُوْا فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْاَوَّلِيْنَ
طاہر القادری:
آپ کفر کرنے والوں سے فرما دیں: اگر وہ (اپنے کافرانہ اَفعال سے) باز آجائیں تو ان کے وہ (گناہ) بخش دیئے جائیں گے جو پہلے گزر چکے ہیں، اور اگر وہ پھر وہی کچھ کریں گے تو یقیناً اگلوں (کے عذاب در عذاب) کا طریقہ گزر چکا ہے (ان کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوگا)،
English Sahih:
Say to those who have disbelieved [that] if they cease, what has previously occurred will be forgiven for them. But if they return [to hostility] – then the precedent of the former [rebellious] peoples has already taken place.
1 Abul A'ala Maududi
اے نبیؐ، ان کافروں سے کہو کہ اگر اب بھی باز آ جائیں تو جو کچھ پہلے ہو چکا ہے اس سے درگزر کر لیا جائے گا، لیکن اگر یہ اسی پچھلی روش کا اعادہ کریں گے تو گزشتہ قوموں کے ساتھ جو کچھ ہو چکا ہے وہ سب کو معلوم ہے
2 Ahmed Raza Khan
تم کافروں سے فرماؤ اگر وہ باز رہے تو جو ہو گزرا وہ انہیں معاف فرمادیا جائے گا اور اگر پھر وہی کریں تو اگلوں کا دستور گزر چکا ہے
3 Ahmed Ali
کافروں سے کہہ دو اگر وہ باز آجائيں تو جو کچھ گزر چکا وہ انہیں معاف کر دیا جائے گا اور اگر لوٹیں گے تو پہلے کافروں کے حق میں قانون نافذ ہو چکا ہے
4 Ahsanul Bayan
آپ ان کافروں سے کہہ دیجئے! کہ اگر یہ لوگ باز آجائیں تو ان کے سارے گناہ جو پہلے ہو چکے ہیں سب معاف کر دئے جائیں گے (١) اور اگر اپنی وہی عادت رکھیں گے تو (کفار) سابقین کے حق میں قانون نافذ ہو چکا ہے (٢)۔
٣٨۔١ باز آجانے کا مطلب، مسلمان ہونا ہے۔ جس طرح حدیث میں بھی ہے ' جس نے اسلام قبول کرکے نیکی کا راستہ اپنالیا، اس سے اس کے ان گناہوں کی باز پرس نہیں ہوگی جو اس نے جا ہلیت میں کئے
ہونگے اور جس نے اسلام لاکر بھی برائی نہ چھوڑی، اس سے اگلے پچھلے سب عملوں کا مواخذہ ہوگا ' (صحیح مسلم) ایک اور حدیث میں ہے۔ اسلام ماقبل کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔
٣٨۔٢ یعنی اگر وہ اپنے کفر و عناد پر قائم رہے تو جلد یا بدیر عذاب الہی کے مورد بن کر رہیں گے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(اے پیغمبر) کفار سے کہہ دو کہ اگر وہ اپنے افعال سے باز آجائیں تو جو ہوچکا وہ انہیں معاف کردیا جائے گا۔ اور اگر پھر (وہی حرکات) کرنے لگیں گے تو اگلے لوگوں کا (جو) طریق جاری ہوچکا ہے (وہی ان کے حق میں برتا جائے گا)
6 Muhammad Junagarhi
آپ ان کافروں سے کہہ دیجئے! کہ اگر یہ لوگ باز آجائیں تو ان کے سارے گناہ جو پہلے ہو چکے ہیں سب معاف کر دیئے جائیں گے اور اگر اپنی وہی عادت رکھیں گے تو (کفار) سابقین کے حق میں قانون نافذ ہو چکا ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
(اے رسول(ص)) کافروں سے کہہ دو کہ اگر وہ اب بھی (شرارت سے) باز آجائیں۔ تو جو کچھ گزر چکا وہ انہیں معاف کر دیا جائے گا۔ اور اگر وہ اپنی سابقہ روش کا اعادہ کریں گے تو پھر گزشتہ (نافرمان) قوموں کے ساتھ (خدا کی روش) بھی گزر چکی ہے (ان کے ساتھ بھی وہی ہوگا)۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
پیغمبر آپ کافروں سے کہہ دیجئے کہ اگر یہ لوگ اپنے کفر سے باز آجائیں تو ان کے گزشتہ گناہ معاف کردئیے جائیں گے لیکن اگر پھر پلٹ گئے تو گزشتہ لوگوں کا طریقہ بھی گزر چکا ہے
9 Tafsir Jalalayn
(اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کفار سے کہہ دو کہ اگر وہ اپنے افعال سے باز آجائیں تو جو ہوچکا وہ انہیں معاف کردیا جائیگا۔ اور اگر پھر (وہی حرکات) کرنے لگیں گے تو اگلے لوگوں کا (جو) طریق جاری ہوچکا ہے (وہی ان کے حق میں برتا جائے گا۔
آیت نمبر ٣٨ تا ٤٤
ترجمہ : (اے نبی) ان کافروں سے مثلاً ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں سے کہو اگر اب بھی کفر سے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جنگ کرنے سے باز آجائیں تو جو کچھ پہلے ہوچکا ان سے درگذر کردیا جائیگا اور اگر پچھلی روش کا اعادہ کیا تو پہلے لوگوں کے حق میں قانون نافذ ہوچکا ہے یعنی ہلاک کرنے کا ہمارا قانون اس میں جاری ہوچکا، ہم ایسا ہی ان کے ساتھ کریں گے اور تم ان سے اس حد تک لڑو کہ ان کا فساد (عقیدہ) شرک ختم ہوجائے اور مکمل دین اللہ وحدہ ہی کا ہوجائے اور اس کے غیر کی بندگی نہ کیجائے، اور اگر یہ لوگ کفر سے باز آجائیں تو ان کے اعمال کا دیکھنے والا اللہ ہے تو وہ ان کے اعمال کا صلہ دے گا، اور اگر ایمان سے روگردانی کریں تو یقین مانو کہ اللہ تمہارا کارساز ہے اور وہ بہترین کار ساز اور تمہارا بہترین مددگار ہے، اور تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ جو مال غنیمت کے طور پر حاصل کرو یعنی کافروں سے جبرًا حاصل کرو اس کا پانچواں حصہ اللہ کا ہے اس میں وہ جو چاہے حکم کرے اور رسول کا ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابتداروں کا ہے اور وہ بنی ہاشیم اور (بنی) مطلب ہیں اور یتیموں کا ہے یعنی ان یتیم مسلمان بچوں کا ہے جن کے آباء فوت ہوچکے ہیں اور حال یہ ہے کہ وہ حاجتمند بھی ہیں، اور مسکینوں کا ہے یعنی حاجتمند مسلمانوں کا ہے، اور مسافر کا ہے (یعنی) جو مسلمان سفر کرنے سے مجبور ہوگیا ہو، یعنی اس کے مستحق نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور مذکورہ چاروں قسمیں اس کے مطابق ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تقسیم فرماتے تھے، اس طریقہ پر کہ ایک کے لئے خمس کا پانچواں حصّہ ہے اور باقی چار خمس مجاہدین کے لئے ہیں اگر تم اللہ اور اس پر ایمان رکھتے ہو جو ہم نے اپنے بندے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر فرشتے اور آیات فرقان کے دن اتارا جس دن کہ مسلمانوں اور کفار کی مڈبھیڑ ہوئی یعنی بدر کے دن جو حق اور باطل میں فرق کرنے والا تھا، تو ہم (خمس کو) حق سمجھ کر ادا کرو، اور \& ما \& کا عطف اللہ پر ہے اور اللہ ہر شیٔ پر قادر ہے اسی (مقدور) میں سے تمہاری قلت کے باوجود اور ان کی کثرت کے باوجود تمہارا غلبہ ہے جبکہ تم مدینہ سے پاس والے کنارے پر تھے اِذْیوم سے بدل ہے، اور (العُدْوة) عین کے ضمہ اور اس کے کسرہ کے ساتھ ہے (مراد) وادی کی جانب اور وہ مدینہ سے دور والے کنارہ پر تھے اور قافلہ تم سے نیچے کی طرف ساحل کی جانب تھا اور اگر تم اور قریشی لشکر قتال کے لئے وقت مقرر کرتے تو یقینا تم وقت مقرر سے تخلف کرتے لیکن تمہارے کو بغیر وقت مقرر کئے مقابلہ کرادیا تاکہ اللہ تعالیٰ اس کام کو کر گذرے جس کا ہونا اس کے علم میں طے ہوچکا ہے اور وہ اسلام کا غلبہ اور کفر کو مٹانا ہے تاکہ جو کفر کرے ہلاک ہو تو وہ ایسی ظاہر دلیل کے ساتھ ہلاک ہو کہ جو اس پر قائم ہوچکی ہے اور وہ (دلیل) مومنین کا قلت کے باوجود (کافروں) کے بڑے لشکر پر غلبہ حاصل کرنا ہے اور جو زندہ رہے (ایمان لائے) تو دلیل کے ساتھ زندہ رہے یقینا خدا سننے والا جاننے والا ہے (اور اے نبی) اس وقت کو یاد کرو کہ جب اللہ خواب میں تم کو ان کی تعداد کم دکھا رہا تھا چناچہ جب آپ نے اس کی خبر اپنے اصحاب کو دی تو وہ خوش ہوئے، اور اگر تمہیں ان کی تعداد زیادہ دکھا دیتا تو تم ہمت ہار جاتے اور لڑائی کے معاملہ میں اختلاف شروع کردیتے لیکن اللہ تعالیٰ نے تم کو ہمت ہارنے اور اختلاف سے بچالیا، وہ یقینا دلوں کے حال کا جاننے والا ہے اور یاد کرو اس وقت کو اے مومنو ! کہ جب تمہاری ان سے مڈ بھیڑ ہوئی تو تمہاری نظر میں (دشمن) کو کم کرکے دکھایا، ستر یا سو، حالانکہ وہ ہزار تھے تاکہ تم پیش قدمی کرو اور لڑائی سے پسپائی اختیار نہ کرو اور یہ سب کچھ مذبھیڑ ہونے سے پہلے ہوا، اور اب مقابلہ آرائی شروع ہوگئی تو کافروں کو مسلمانوں کی تعداد اپنے سے دوگنی دکھائی، جیسا کہ ( سورة ) آل عمران میں ہے تاکہ جو بات ہونی تھی اللہ اسے ظہور میں لائے اور (انجام کار) سارے معاملات اللہ ہی کی طرف لوٹتے ہیں۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : ای سُنَّتُنَا فیھم، اس میں اشارہ ہے کہ سنة الا ولین میں مصدر کی اضافت مفعول کی جانب ہے اسلئے کہ اصل میں سنتنا فیھم ہے۔ قولہ : توجَدْ ، تکون کی تفسیر توجد سے کرکے اشارہ کردیا کہ کان تامہ ہے لہٰذا اس کو خبر کی ضرورت نہیں ہے۔
قولہ : فاعْلَمُوْا، ذلک، اس میں اشارہ ہے کہ ان شرطیہ کی جزاء محذوف ہے اور وہ اعلموا ذلک ہے اس کے حذف پر ما قبل کا فاعلموا دلالت کررہا ہے اور بعض حضرات نے کہا فامتثلوا، جزاء محذوف ہے اور یہی زیادہ مناسب ہے اسلئے کہ اب مطلب ہوگا، اِنْ کنتم آمنتم مسئلة الخمس فامتثلوا ذلک، اس لئے کہ علم میں تو مومن اور کافر دونوں برابر ہے۔
قولہ : فَاَنَّ للہ خُمُسَہ، فاء جزائیہ ہے، أنَّما میں مَا، موصولہ متضمن بمعنی شرط ہے اور فَاَنَّ للہ متضمن بمعنی جزاء ہے، نخعی (رح) تعالیٰ عنہ نے اِنَّ ، ہمزہ کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے اور نے فتحہ کے ساتھ، اس صورت میں أنّ اور اس کا مابعد مبتداء ہوگا اور اس کی خبر محذوف ہوگی تقدیر عبارت یہ ہوگی، \&\& فو اجب أنّ للہ خمسہ \&\& دوسری ترکیب یہ ہوسکتی ہے خُمُسَہ \& مبتداء اس کی خبر محذوف ہوگی ای ثابت۔
تفسیر وتشریح
اس رکوع کی پہلی آیت \&\& قُلْ لِّلَّذِیْنَ کَفَروا اِنْ یَنْتَھُوا یُغفرلھم الخ میں کفار سے پھر ایک مربیانہ خطاب ہے جس میں ترغیب ہے اور ترہیب بھی، ترغیب اس کی ہے کہ اگر وہ ان تمام افعال شنیعہ کے بعد جو انہوں نے ابتک اسلام کی مخالفت اور ذاتی زندگی میں کئے ہیں توبہ کرلیں اور ایمان لے آئیں تو پچھلے تمام گناہ معاف کردیئے جائیں گے، اور ترہیب یہ ہے کہ اگر وہ اب بھی باز نہ آئے تو سمجھ لیں کہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ کو کوئی نیا قانون بنانا یا سوچنا نہیں پڑے گا پہلے زمانہ کے کافروں کے لئے جو قانون جاری ہوچکا وہی ان پر بھی جاری ہوگا، کہ دنیا میں ہلاک و برباد ہوئے اور آخرت میں عذاب کے مستحق۔
10 Tafsir as-Saadi
یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر لطف و کرم ہے کہ ان کفر اور ان کا دائمی عناد اسے اس بات سے نہیں روکتا کہ وہ انہیں رشد و ہدایت کے راستے کی طرف بلائے اور انہیں گمراہی اور ہلاکت کی راہوں پر چلنے سے منع کرے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿قُل لِّلَّذِينَ كَفَرُوا إِن يَنتَهُوا ﴾ ”کفار سے کہہ دیجیے اگر وہ باز آجائیں۔“ یعنی اگر وہ کفر سے باز آجائیں اور یہ اسی طرح ممکن ہے کہ وہ اللہ وحدہ لاشریک لہ، کے سامنے سرتسلیم خم کردیں۔ ﴿ يُغْفَرْ لَهُم مَّا قَدْ سَلَفَ﴾ ” تو بخش دیا جائے گا جو کچھ ہوچکا ہے“ یعنی ان سے جن جرائم کا ارتکاب ہوچکا ہے ﴿ وَإِن يَعُودُوا ﴾ ” اگر وہ اعادہ کریں۔“ یعنی اگر وہ اپنے کفر اور عناد کا اعادہ کریں ﴿ فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْأَوَّلِينَ ﴾ ” تو تحقیق گزر چکا ہے طریقہ پہلو کا“ یعنی رسولوں کو جھٹلانے والی قوموں کو ہلاک کرنے کا۔ پس وہ بھی اسی عذاب کا انتظار کریں جو ان معاندین حق پر نازل ہوا تھا۔۔۔ عنقریب ان کے پاس وہی خبریں آئیں گی جن کا یہ تمسخر اڑایا کرتے تھے۔ یہ خطاب تو جھٹلانے والوں سے تھا۔ رہا وہ خطاب جو اہل ایمان کو کفار کے ساتھ معاملہ کرنے کا حکم دیتے وقت اہل ایمان کے ساتھ تھا، تو اس میں اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا
11 Mufti Taqi Usmani
. ( aey payghumber ! ) jinn logon ney kufr apna liya hai unn say keh do kay : agar woh baaz aajayen to pehlay unn say jo kuch huwa hai , ussay moaaf kerdiya jaye ga . aur agar woh phir wohi kaam keren gay to pichlay logon kay sath jo moamla huwa , woh ( unn kay samney ) guzar hi chuka hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
فتنے کے اختتام تک جہاد جاری رکھو
کافروں سے کہہ دے کہ اگر وہ اپنے کفر سے اور ضد سے باز آ جائین، اسلام اور اطاعت قبول کر لین، رب کی طرف جھک جائیں تو ان سے جو ہوچکا ہے سب معاف کردیا جائے گا، کفر بھی، خطا بھی گناہ بھی۔ حدیث میں ہے جو شخص اسلام لا کر نیکیاں کرے وہ اپنے جاہلیت کے اعمال پر پکڑا نہ جائے گا اور اسلام میں بھی پھر برائیاں کرے تو الگی پجھلی تمام خطاؤں پر اس کی پکڑ ہوگی اور حدیث میں ہے اسلام سے پہلے کے سب گناہ معاف ہیں توبہ بھی اپنے سے پہلے کے گناہ کو مٹا دیتی ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ اگر یہ نہ مانین اور اپنے کفر پر قائم رہیں تو وہ اگلوں کی ہالت دیکھ لیں کہ ہم نے انہیں ان کے کفر کی وجہ سے کیسا غارت کیا ؟ ابھی بدری کفار کا حشر بھی ان کے سامنے ہے۔ جب تک فتنہ باقی ہے تم جنگ جاری رکھو۔ ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے کہا کہ آیت ( وَاِنْ طَاۗىِٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا ۚ فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰىهُمَا عَلَي الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِيْ تَبْغِيْ حَتّٰى تَفِيْۗءَ اِلٰٓى اَمْرِ اللّٰهِ ۚ فَاِنْ فَاۗءَتْ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا بالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوْا ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ ) 49 ۔ الحجرات :9) ، کو پیش نظر رکھ کر آپ اس وقت کی باہمی جنگ میں شرکت کیوں نہیں کرتے ؟ آپ نے فرمایا تم لوگوں کا یہ طعنہ اس سے بہت ہلکا ہے کہ میں کسی مومن کو قتل کر کے جہنمی بن جاؤں جیسے فرمان الٰہی ہے ومن یقتل مومنا متعمدا الخ، اس نے کہا اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ فتنہ باقی ہو تب تک لڑائی جاری رکھو۔ آپ نے فرمایا یہی ہم نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں کیا۔ اس وقت مسلمان کم تھے، انہیں کافر گرفتار کرلیتے تھے اور دین میں فتنے ڈالتے تھے یا تو قتل کر ڈالتے تھے یا قید کرلیتے تھے۔ جب مسلمان بڑھ گئے وہ فتنہ جاتا رہا۔ اس نے جب دیکھا کہ آپ مانتے نہیں تو کہا اچھا حضرت علی اور حضرت عثمان کے بارے میں کیا خیال رکھتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا حضرت عثمان کو اللہ نے معاف فرمایا لیکن تمہیں اللہ کی وہ معافی بری معلوم ہوتی ہے۔ حضرت علی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا زاد بھائی تھے اور آپ کے داماد تھے، یہ ہیں آپ کی صاحبزادی، یہ کہتے ہوئے ان کے مکان کی طرف اشارہ کیا۔ ابن عمر ایک مرتبہ لوگوں کے پاس آئے تو کسی نے کہا کہ اس فتنے کے وقت کی لڑائی کی نسبت جناب کا کیا خیال ہے ؟ آپ نے فرمایا جانتے بھی ہو فتنے سے کیا مراد ہے ؟ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کافروں سے جنگ کرتے تھے، اس وقت ان کا زور تھا، ان میں جانا فتنہ تھا، تمہاری تو یہ ملکی لڑائیاں ہیں اور روایت میں ہے کہ حضرت ابن زبیر کے زمانے میں دو شخص حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ لوگ جو کچھ کر رہے ہیں وہ آپ کے سامنے ہے آپ حضرت عمر کے صاحبزادے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابی ہیں۔ آپ کیوں میدان جنگ میں نہیں اترے ؟ فرمایا اس لئے کہ اللہ نے ہر مومن کا خون حرام کردیا ہے انہوں نے کہا کیا فتنے کے باقی رہنے تک لڑنا اللہ کا حکم نہیں ؟ آپ نے فرمایا ہے اور ہم نے اسے نبھایا بھی یہاں تک کہ فتنہ دور ہوگیا اور دین سب اللہ ہی کا ہوگیا، اب تم اپنی اس باہمی جنگ سے فتنہ کھڑا کرنا اور غیر اللہ کے دین کے لئے ہوجانا جاہتے ہو۔ ذوالسطبین حضرت اسامہ بن زید (رض) کا فرمان ہے میں ہرگز اس شخص سے جنگ نہ کروں گا جو لا الہ الہ اللہ کا قائل ہو۔ حضرت سعد بن مالک (رض) نے یہ سن کر اس کی تائید کی اور فرمایا میں بھی یہی کہتا ہوں تو ان پر بھی یہی آیت پیش کی گئی اور یہی جواب آپ نے بھی دیا۔ بقول ابن عباس وعیرہ فتنہ سے مراد شرک ہے اور یہ بھی کہ مسلمانوں کی کمزوری ایسی نہ رہے کہ کوئی انہیں ان کے سچے دین سے مرتد کرنے کی طاقت رکھے۔ دین سب اللہ کا ہوجائے یعنی توحید نکھر جائے لا الہ الا اللہ کا کلمہ زبانوں پر چڑھ جائے شرک اور معبود ان باطل کی پرستش اٹھ جائے۔ تمہارے دین کے ساتھ کفر باقی نہ رہے۔ بخاری و مسلم میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں مجھے حکم فرمایا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جہاد جاری رکھوں یہاں تک کہ وہ لا الہ اللہ کہہ لیں جب وہ اسے کہہ لیں گے تو مجھ سے اپنی جانیں اور اپنے مال بچا لیں گے ہاں حق اسلام کے ساتھ اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے بخاری مسلم کی ایک اور روایت میں ہے کہ رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص اپنی بہادری کیلئے، ایک شخص غیرت کیلئے، ایک شخص ریا کاری کیلئے لڑائی کر رہا ہے تو اللہ کی راہ میں ان میں سے کون ہے ؟ آپ نے فرمایا جو اللہ کے کلمے کو بلند کرنے کی غرض سے جہاد کرے وہ اللہ کی راہ میں ہے۔ پھر فرمایا کہ اگر تمہارے جہاد کی وجہ سے یہ اپنے کفر سے باز آجائیں تو تم ان سے لڑائی موقوف کردو ان کے دلوں کا حال سپرد رب کردو۔ اللہ ان کے اعمال کا دیکھنے والا ہے۔ جیسے فرمان ہے (فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَــلُّوْا سَـبِيْلَهُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ) 9 ۔ التوبہ :5) ، یعنی اگر یہ توبہ کرلیں اور نمازی اور زکوٰۃ دیین والے بن جائیں تو ان کی راہ چھوڑ دو ، ان کے راستے نہ روکو، اور آیت میں ہے کہ اس صورت میں وہ تمہارے دینی بھأای ہیں اور آیت میں ہے کہ ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کا ہوجائے پھر اگر وہ باز آجائیں تو زیادتی کا بدلہ تو صرف ظالموں کے لئے ہی ہے۔ ایک صحیح رویت میں ہے کہ حضرت اسامہ ایک شخص پر تلوار لے کر چڑھ گئے جب وہ زد میں آگیا اور دیکھا کہ تلوار چلا جاہتی ہے تو اس نے جلدی سے لا الہ الا اللہ کہہ دیا لیکن اس کے سر پر تلوار پڑگئی اور وہ قتل ہوگیا۔ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس واقعہ کا بیان ہوا تو آپ نے حضرت اسامہ (رض) سے فرمایا کیا تو نے اسے اس کے لا الہ الا اللہ کہنے کے بعد قتل کیا ؟ تو لا الہ الا اللہ کے ساتھ قیامت کے دن کیا کرے گا ؟ حضرت اسامہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ یہ تو اس نے صرف اپنے بچاؤ کیلئے کہا تھا۔ آپ نے فرمایا کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا ؟ بتا کون ہوگا جو قیامت کے دن لا الہ الا اللہ کا مقابلہ کرے۔ بار بار آپ یہی فرماتے رہے یہاں تک کہ حضرت اسامہ (رض) فرماتے ہیں میرے دل میں خیال آنے لگا کہ کاش کہ میں آج کے دن سے پہلے مسلمان ہی نہ ہوا ہوتا ؟ پھر فرماتا ہے کہ اگر یہ اب بھی باز نہ رہیں تمہاری مخالفت اور تم سے لڑائی نہ چھوڑیں تو تم یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ تمہارا موالا، تمہارا مالک، تمہارا مددگار اور ناصر ہے۔ وہ تمہیں ان پر غالب کرے گا۔ وہ بہترین مولا اور بہترین مددگار ہے۔ ابن جریری ہے کہ عبدالملک بن مروان نے حضرت عروہ سے کچھ باتیں دریافت کی تھیں جس کے جواب میں آپ نے انہیں لکھا سلام علیک کے بعد میں آپ کیس امنے اس اللہ کی تعریفیں کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ بعد حمد و صلوۃ کے آپ کا خط ملا آپ نے ہجرت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بابت مجھ سے سوال کیا ہے میں آپ کو اس واقعہ کی خبر لکھتا ہوں۔ اللہ ہی کی مدد پر خیر کرنا اور شر سے روکنا موقوف ہے مکہ شریف سے آپ کے تشریف لے جانے کا واقعہ یوں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ٰ نے آپ کو نبوت دی، سبحان اللہ کیسے اچھے پیشوا بہترین رہنما تھے، اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے ہمیں جنت میں آپ کی زیارت نصیب فرمائے ہمیں آپ ہی کے دین پر زندہ رکھے اسی پر موت دے اور اسی پر قیامت کے دن کھڑا کرے، آمین۔ جب آپ نے اپنی قوم کو ہدایت اور نور کی طرف دعوت دی جو اللہ نے آپ کو عطا فرمایا تھا تو شروع شروع تو انہیں کچھ زیادہ برا نہی معلوم ہوا بلکہ قریب تھا کہ آپ کی باتین سننے لگیں مگر جب ان کے معوبد ان باطل کا ذکر آیا اس وقت وہ بگڑے بیٹھے، آپ کی باتوں کا برا ماننے لگے، آپ پر سختی کرنے لگے، اسی زمانے میں طائف کے چند قریشی مال لے کر پہنچے وہ بھی ان کے شریک حال ہوگئے، اب آپ کی باتوں کے ماننے والے مسلمانوں کو طرح طرح سے ستانے لگے جس کی وجہ سے عام لوگ آپ کے اس آنے جانے سے ہٹ گئے بجز ان چند ہستیوں کے جو اللہ کی حفاظت میں تھیں یہی حالت ایک عرصے تک رہی جب تک کہ مسلمانوں کی تعداد کی کمی زیادتی کی حد تک نہیں پہنچی تھی۔ پھر سرداران کفر نے آپ میں مشورہ کیا کہ جتنے لوگ ایمان لا چکے ہیں ان پر اور زیادہ سختی کی جائے جو جس کا رشتہ دار اور قریبی ہو وہ اسے ہر طرح تنگ کرے تاکہ وہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ساتھ چھوڑ دیں اب فتنہ بڑھ گیا اور بعض لوگ ان کی سزاؤں کی تاب نہ لا کر ان کی ہاں میں ہاں ملانے لگے۔ کھرے اور ثابت قدم لوگ دین حق پر اس مصیبت کے زمانے میں بھی جمے رہے اور اللہ نے انہیں مضبوط کردیا اور محفوظ رکھ لیا۔ آخر جب تکلیفیں حد سے گذر نے لگین تو رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں حبشہ کی طرف ہجرت کر جانے کی اجازت دے دی۔ حبشہ کا بادشاہ نجاشی ایک نیک آدمی تھا اس کی سلطنت ظلم و زیادتی سے خالی تھی ہر طرف اس کی تعریفیں ہو رہی تھیں۔ یہ جگہ قریش کی تجارتی منڈی تھی جہاں ان کے تاجر رہا کرتے تھے اور بےخوف و خطر بڑی بڑی تجارتیں کیا کرتے تھے۔ پس جو لوگ یہاں مکہ شریف میں کافروں کے ہاتھوں بہت تنگ آگئے تھے اور اب مصیبت جھیلنے کے قابل نہیں رہے تھے اور ہر وقت انہیں اپنے دین کے اپنے ہاتھ سے چھوٹ جانے کا خطرہ لگا رہتا تھا وہ سب حبشہ چلے گئے۔ لیکن خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہیں ٹھہرے رہے۔ اس پر بھی جب کئی سال گذر گئے تو یہاں اللہ کے فضل سے مسلمانوں کی تعداد خاصی ہوگئی اسلام پھیل گیا اور شریف اور سردار لوگ بھی اسلامی جھنڈے تلے آگئے یہ دیکھ کر کفر کو اپنی دشمنی کا جوش ٹھنڈا کرنا پڑا۔ وہ ظلم و زیادتی سے بالکل تو نہیں لیکن کچھ نہ کچھ رک گئے۔ پس وہ فتنہ جس کے زلزلوں نے صحابہ کو وطن چھوڑ نے اور حبشہ جانے پر مجبور کیا تھا اس کے کچھ دب جانے کی خبروں نے مہاجرین حبشہ کو پھر آمادہ کیا کہ وہ مکہ شریف واپس چلے آئیں۔ چناچہ وہ بھی تھوڑے بہت آگئے اسی اثناء میں مدینہ شریف کے چند انصار ملسمان ہوگئے۔ ان کی وجہ سے مدینہ شریف میں بھی اشاعت اسلام ہونے لگی۔ ان کا مکہ شریف آنا جانا شروع ہوا اس سے مکہ والے کچھ بگڑے اور بپھر کر ارادہ کرلیا کہ دوبارہ سخت سختی کریں چناچہ دوسری مرتبہ پھر فتنہ شروع ہوا۔ ہجرت حبش پر پہلے فتنے نے آمادہ کیا واپسی پر پھر فتنہ پھیلا۔ اب ستر بزرگ سردار ان مدینہ یہاں آئے اور مسلمان ہو کر آنحضرت رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ پر بیعت کی۔ موسم حج کے موقعہ پر یہ آئے تھے۔ قبہ میں انہوں نے بیعت کی، عہدو پیمان، قول و قرر ہوئے کہ ہم آپ کے اور آپ ہمارے۔ اگر کوئی بھی آپ کا آدمی ہمارے ہاں آجائے تو ہم اس کے امن وامان کے ذمے دار ہیں خود آپ اگر تشریف لائیں تو ہم جان مال سے آپ کے ساتھ ہیں۔ اس چیز نے قریش کو اور بھڑکا دیا اور انہوں نے ضعیف اور کمزور مسلمانوں کو اور ستانا شروع کردیا۔ ان کی سزائیں بڑھا دیں اور خون کے پیاسے ہوگئے۔ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں اجازت دے دی کہ وہ مدینہ شریف کی طرف ہجرت کر جائیں یہ تھا آخری اور انتہائی فتنہ جس نے نہ صرف صحابہ کرام (رض) کو ہی نکالا بلکہ خود اللہ کے محترم رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی مکہ کو خالی کر گئے۔ یہی ہے وہ جسے اللہ فرماتا ہے ان سے جہاد جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ مٹ جائے اور سارا دین اللہ کا ہی ہوجائے۔
الحمد اللہ نویں پارے کی تفسیر بھی ختم ہوئی۔ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے۔