الانفال آية ۴۹
اِذْ يَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَالَّذِيْنَ فِىْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ غَرَّ هٰۤؤُلَاۤءِ دِيْنُهُمْۗ وَمَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَاِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ
طاہر القادری:
اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب منافقین اور وہ لوگ جن کے دل میں (کفر کی) بیماری ہے کہہ رہے تھے کہ ان (مسلمانوں) کو ان کے دین نے بڑا مغرور کر رکھا ہے، (جبکہ حقیقتِ حال یہ ہے کہ) جو کوئی اللہ پر توکل کرتا ہے تو (اللہ اس کے جملہ امور کا کفیل ہو جاتا ہے)، بیشک اللہ بہت غالب بڑی حکمت والا ہے،
English Sahih:
[Remember] when the hypocrites and those in whose hearts was disease [i.e., arrogance and disbelief] said, "Their religion has deluded those [Muslims]." But whoever relies upon Allah – then indeed, Allah is Exalted in Might and Wise.
1 Abul A'ala Maududi
جب کہ منافقین اور وہ سب لوگ جن کے دلوں کو روگ لگا ہوا ہے، کہہ رہے تھے کہ ان لوگوں کو تو اِن کے دین نے خبط میں مبتلا کر رکھا ہے حالانکہ اگر کوئی اللہ پر بھروسہ کرے تو یقیناً اللہ بڑا زبردست اور دانا ہے
2 Ahmed Raza Khan
جب کہتے تھے منافق اور وہ جن کے دلوں میں ا ٓزا ر ہے کہ یہ مسلمان اپنے دین پر مغرور ہیں اور جو اللہ پر بھروسہ کرے تو بیشک اللہ غالب حکمت والا ہے،
3 Ahmed Ali
اس وقت منافق اور جن کے دلو ں میں مرض تھا کہتے تھے کہ انہیں ان کے دین نے مغلوب کر رکھا ہے اور جو کوئی الله پر بھروسہ کرے تو الله زبردست حکمت والا ہے
4 Ahsanul Bayan
جب منافق کہہ رہے تھے اور وہ بھی جن کے دلوں میں روگ تھا (١) کہ انہیں تو ان کے دین نے دھوکے میں ڈال دیا ہے (٢) جو بھی اللہ پر بھروسہ کرے اللہ تعالٰی بلا شک و شبہ غلبے والا اور حکمت والا ہے۔
٤٩۔١ اس سے مراد وہ مسلمان ہیں جو نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور مسلمانوں کی کامیابی کے بارے میں انہیں شک تھا، یا اس سے مراد مشرکین ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ مدینہ میں رہنے والے یہودی مراد ہوں۔
٤٩۔٢ یعنی ان کی تعداد تو دیکھو اور سرو سامان جو حال ہے، وہ بھی ظاہر ہے۔ لیکن مقابلہ کرنے چلے ہیں مشرکین مکہ سے، جو تعداد میں بھی ان سے کہیں زیادہ ہیں اور ہر طرح کے سامان حرب اور وسائل سے مالا مال بھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دین نے ان کو دھوکے اور فریب میں ڈال دیا ہے۔ اور یہ موٹی سی بات بھی ان کی سمجھ میں نہیں آرہی۔
٤٩۔۳ اللہ تعالٰی نے فرمایا; ان اہل دنیا کو اہل ایمان کے عزم و ثبات کا کیا اندازہ ہوسکتا ہے جن کا توکل اللہ کی ذات پر ہے جو غالب ہے یعنی اپنے پر بھروسہ کرنے والوں کو وہ بےسہارا نہیں چھوڑتا اور حکیم بھی ہے اس کے ہر فعل میں حکمت بالغہ ہے جس کے ادراک سے انسانی عقلیں قاصر ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اس وقت منافق اور (کافر) جن کے دلوں میں مرض تھا کہتے تھے کہ ان لوگوں کو ان کے دین نے مغرور کر رکھا ہے اور جو شخص خدا پر بھروسہ رکھتا ہے تو خدا غالب حکمت والا ہے
6 Muhammad Junagarhi
جبکہ منافق کہہ رہے تھے اور وه بھی جن کے دلوں میں روگ تھا کہ انہیں تو ان کے دین نے دھوکے میں ڈال دیا ہے جو بھی اللہ پر بھروسہ کرے اللہ تعالیٰ بلا شک وشبہ غلبے واﻻ اور حکمت واﻻ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور (وہ وقت بھی قابل یاد ہے) جب منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں (نفاق کی) بیماری ہے کہہ رہے تھے کہ ان لوگوں (مسلمانوں) کو ان کے دین نے فریب اور خبط میں مبتلا کر دیا ہے اور جو کوئی اللہ پر توکل (بھروسہ) کرتا ہے سو اللہ بڑا زبردست، بڑا حکمت والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
جب منافقین اور جن کے دلوں میں کھوٹ تھا کہہ رہے تھے کہ ان لوگوں کو ان کے دین نے دھوکہ دیا ہے حالانکہ جو شخص اللہ پر اعتماد کرتا ہے تو خد اہر شے پر غالب آنے والا اور بڑی حکمت والا ہے
9 Tafsir Jalalayn
اس وقت منافق اور (کافر) جن کے دلوں میں مرض تھا کہتے تھے کہ ان لوگوں کو ان کے دین نے مغرور کر رکھا ہے اور جو شخص خدا پر بھروسہ رکھتا ہے تو خدا غالب حکمت والا ہے۔
آیت نمبر ٤٩ تا ٥٨
ترجمہ : اور جبکہ منافقین اور وہ لوگ کہ جن کے قلوب میں ضعفِ اعتقاد کا روگ لگا ہوا تھا کہہ رہے تھے کہ ان مسلمانوں کو تو ان کے دین نے خبط میں مبتلا کر رکھا ہے اس لئے کہ اپنی قلب تعداد کے باوجود ایک بڑی جماعت کے ساتھ لڑنے کے لئے اس خام خیالی کی وجہ سے کہ دین سے ان کی مدد کی جائے گی نکل پڑے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کے جواب میں فرمایا حالانکہ اگر کوئی اللہ پر بھروسہ کرے تو وہ غالب ہوگا یقینا اللہ تعالیٰ اپنے امر پر غالب اور اپنی صنعت میں باحکمت ہے کاش اے محمد تم اس حالت کو دیکھ سکتے جبکہ فرشتے کافروں کی روح قبض کرتے ہیں (یتوفیٰ ) یاء اور تاء کے ساتھ ہے، ان کے منہ پر اور ان کے کو لہوں پر لوہے کے ہتھوڑوں سے مارتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں آگ میں جلنے کا مزہ چکھو، اور لَوْ کا جواب، لَرأیْتَ اَمْراً عظیما، محذوف ہے، یہ تمہارے ان اعمال کے سبب سے ہے جن کو تم پیشگی مہیا کرچکے ہو ہاتھوں سے نہ کہ دیگر اعضاء سے تعبیر اس لئے کیا ہے کہ اکثر اعمال میں ہاتھوں سے شرکت ہوتی ہے، ورنہ اللہ اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے کہ ان کو بغیر کسی قصور کے سزا دے یہ معاملہ ان کے ساتھ اسی طرح پیش آیا جس طرح فرعون کے اور ان سے پہلے لوگوں کے ساتھ پیش آیا کہ انہوں نے اللہ کی آیتوں کو ماننے سے انکار کیا تو اللہ نے ان کو ان کے گناہوں کی سزا میں پکڑ لیا جملہ، کَفَرُوا، اور اس کا مابعد اس کے ماقبل کے لئے مفسِرّہ ہے، بیشک اللہ تعالیٰ اپنے منشاء کے بارے میں قوی ہے اور سخت عذاب والا ہے یہ کافروں کو عذاب دینا اس وجہ سے ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ دستور نہیں کہ کسی قوم ہر نعمتوں کا انعام فرمانے کے بعد اس کو نقمت (زحمت) سے بدل دے جب تک وہ قوم اپنے طرز عمل کو خود ہی نہ بدل دے، (یعنی) اپنے اوپر نعمتوں کے مقتضی (شکر) کو ناشکری سے بدل دیں، جیسا کہ کفار نے بدل دیا، (تو اللہ نے) ان کی شکم سیری کو فاقہ سے اور ان کے امن کو خوف سے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کو (جو کہ اعظم نعمت ہے) انکار سے اور راہ خدا سے روکنے سے اور مومینن کے ساتھ قتال کرنے سے (بدل دیا) اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ سب کچھ سننے والا (اور) جاننے والا ہے آل فرعون اور ان سے پہلوں کے ساتھ جو کچھ پیش آیا وہ اسی ضابطہ کے مطابق پیش آیا، کہ انہوں نے اپنے رب کی آیتوں کو جھٹلایا تو ہم نے ان کو ان کے گناہوں کی پاداش میں ہلاک کردیا، اور قوم فرعون کو مع فرعون کے غرق کردیا بیشک یہ تکذیب کرنے والی تمام قومیں ظالم تھیں، اور آئندہ آیت بنی قریظہ کے بارے میں نازل ہوئی، یقینا اللہ کے نزدیک زمین پر چلنے والی مخلوق میں سب سے بدتر وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے کفر کیا پھر وہ ایمان نہیں لائے ( خصوصاً ) ان میں سے وہ لوگ جن سے آپ نے معاہدہ کیا یہ کہ وہ مشرکین کی مدد نہ کریں گے پھر وہ باربار اپنے عہد کو توڑتے ہیں جو انہوں نے آپ سے کیا اور وہ عہد توڑنے میں خوف خدا نہیں رکھتے پھر اگر تم ان پر میدان جنگ میں قابو پاجاؤ تو ان کی عذاب اور سزا کے ذریعہ ایسی خبر لو کہ وہ لوگ جو ان کے پیچھے ہیں ان سے عبرت حاصل کرلیں اور اگر (اے محمد) تمہیں کسی قوم سے کس نے تم سے معاہدہ کیا ہے توڑ دیجئے (علی سوائ) یہ نابذ اور منبوذ، دونوں سے حال ہے حال یہ کہ نقض عہد میں جانکاری کے اعتبار سے دونوں برابر ہوں (یعنی نقض عہد کا دونوں کو علم ہو) بایں صورت کہ آپ ان کو فسخِ عہد کی اطلاع کردیں تاکہ وہ آپ کو بدعہدی کے ساتھ متہم نہ کریں، اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : یَغْلِبُ ، اس میں اشارہ ہے کہ (مَن یتوکل) کی جزاء محذوف ہے اور وہ یغلب ہے، اس حذف پر بعد والا جملہ فاِنَّ اللہ عزیز حکیم، دلالت کررہا ہے۔
قولہ : وَلَوْ تَریٰ یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) .
سوال : تَرَیٰ ، مضارع کا صیغہ ہے جو حال و استقبال پر دلالت کرتا ہے اور اِذ یتوفی، ماضی پر دلالت کرتا ہے اسلئے کہ اِذ مضارع کو
ماضی کے معنی میں کردیتا ہے لہٰذا دونوں جملوں میں منافات ہے۔
جواب : لَوْ مضارع کو ماضی کے معنی میں کردیتا ہے لہٰذا دونوں جملوں میں کوئی منافات نہیں ہے۔
قولہ : حال، یعنی یضربون، ملائکة سے، بالذین کفروا سے حال ہے نہ کہ صفت۔
قولہ : مقامِعَ ، مِقْمَعَة، کی جمع ہے ہتھوڑا، گرز، بروزن مِکنَسَة .
قولہ : یقولون لھم اس میں ایک سوال مقدر کے جواب کی طرف اشارہ ہے۔
سوال : ذوقوا کا عطف یَضْربةوْنَ پر ہے، اور یہ عطف انشاء علی الخبر ہے جو کہ مستحسن نہیں ہے دوسرا اعتراض یہ کہ ایک ہی جملہ میں غائب اور حاضر کا اجتماع ہورہا یہ بھی مستحسن نہیں ہے۔
جواب : ذوقوا سے پہلے یقولون محذوف ہے جیسا کہ مفسرّعلاّم نے صراحت کردی ہے، لہٰذا دونوں اعتراض دفع ہوگئے، لَوْ کے جواب کو ہولناکی کی عظمت وہیبت کو ثابت کرنے کے لئے حذف کردیا ہے، جس کو مفسرّ علاّم نے لَرَأیْتَ امرًا عظیماً کہہ کر ظاہر کردیا ہے۔
قولہ : ڈأبُ ھٰؤلاء اس میں اشارہ ہے کہ کدأب آل فرعون، مبتداء محذوف کی خبر ہونے کی وجہ سے محل میں رفع کے ہے، لہٰذا کلام کے نا تمام ہونیکا اعتراض ختم ہوگیا، اور یہ اعتراض بھی ختم ہوا کہ یہاں شبہ کے بغیر تشبیہ لازم آرہی ہے۔
قولہ : جُمْلَة کَفَرُوا مُفَسِّرة لِمَا قَبْلھَا، یہ بھی ایک سوال مقدر کا جواب ہے سوال یہ ہے کہ مسلسل جملے کے درمیان والذین کفروا من قبلھم، کو کس مقصد کے لئے فاضل لایا گیا، جواب یہ ہے کہ یہ ماقبل کے جملہ کی تفسیرہی ہے لہذا یہ فضل بالا جنبی نہیں جو اعتراض واقع ہو۔ قولہ : بالنِقْمَة یہ انتقام سے اسم ہے۔
قولہ : اَطْعَامِھِمْ اس میں اشارہ ہے کہ مابا نفسھم سے مراد انعامات مثلاً کھانا وغیرہ ہیں نہ کہ حالات لہٰذا یہ اعتراض ختم ہوگیا کہ قریش اور آل فرعون کے لئے مرضیہ تھے ہی نہیں کہ ان کو حالات نا مرضیہ سے بدل دیا گیا۔ (ترویح الارواح)
قولہ : تَجِدَنَّھُمْ ، ای تظفر نَّھُمْ و تغلِبنَّھُمْ. قولہ : بالتَنْکِیْلَ ، (تفعیل) عبرتناک سزا دینا۔
قولہ : اَنْتَ وَھُمْ ، اس میں اشارہ ہے کہ مستویَةً ، نابذ اور منبوذ (یعنی فاعل اور مفعول) دونوں سے حال ہے۔
تفسیر وتشریح
اِذ یقولُ المنافقون والذین فی قلوبھم مرض الخ اس آیت میں منافقین مدینہ اور مشرکین نیز ان مسلمانوں کا جن کے دلوں میں ابھی اسلام راسخ نہیں ہوا تھا کا ایک مشترکہ مقولہ نقل کیا گیا ہے جو بظاہر مسلمانوں کی خیرخواہی اور ان پر ترس کھا کر کہا گیا ہے \&\& غَرَّ ھم ھٰؤلاء دِیْنُھُمْ \&\& ان بیچاروں کو دین کے جوش جنون نے دیوانہ کردیا ہے کہ مٹھی بھر مسلمان قریش کے بھاری اور مسلح لشکر سے ٹکرانے کے لئے نکل پڑے ہیں ان بیچاروں کو دین کے جوش جنون نے موت کے منہ دھکیل دیا ہے، اس معرکہ میں ان کی تباہی یقینی ہے شاید کہ اس نبی نے کچھ ایسا افسوں ان پر پھو نکدیا ہے کہ ان کی عقل خبط ہوگئی ہے۔ تفسیر ابن ابی حاتم میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کا قول ہے کہ جب مسلمانوں کی فوج کفار کی فوج سے قریب ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کافروں کی نظر میں اور کافروں کو مسلمانوں کی نظر میں کم کرکے دکھایا، تو مشرک کہنے لگے کہ یہ مسلمان اپنے دین پر مغرور ہو کر اپنی قلت تعداد کے باوجود لڑنے کے لئے نکل آئے ہیں، اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا، \&\& وَمَنْ یَتَوکل علی اللہ فَاِنَّ اللہ عزیز حکیم \&\& یعنی جو شخص اللہ پر توکل کرتا ہے یادرکھو وہ کبھی ذلیل نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ سب پر غالب ہے، \&\& ذلک بان اللہ لم یک مغیرًا نعمة انعمھا علی قوم \&\& الخ یعنی جب تک کوئی قوم اپنے آپ کو پوری طرح اللہ کی نعمتوں کا غیر مستحق نہ بنا لے اللہ اس سے اپنی نعمت سلب نہیں کیا کرتا، اس آیت میں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عام قانون یہ ہے کہ جب کسی قوم پر اللہ تعالیٰ اپنی نعمتیں مبذول کرتا ہے اور وہ قوم ان نعمتوں کی قدر نہ کرے اور ان نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے بجائے سرکشی کرے تو اللہ تعالیٰ ایسے نا شکروں سے نعمت چھین لیتا ہے اور ان نعمتوں کو زحمتوں میں بدل دیتا ہے، قوم فرعون اور ان سے پہلی قوموں نے بھی جب اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو ان نعمتوں کو ان سے سلب کرکے ان کو مصیبتوں میں مبتلا کردیا گیا۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿إِذْ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ ﴾ ” اس وقت منافع اور جن کے دلوں میں مرض تھا کہتے تھے“ یعنی جب اہل ایمان اپنی قلت اور مشرکین کی کثرت کے باوجود لڑائی کے لئے نکلے تو ضعیف الایمان لوگ جن کے دلوں میں شک و شبہ تھا، اہل ایمان سے کہنے لگے ﴿غَرَّ هَـٰؤُلَاءِ دِينُهُمْ ﴾ ”ان لوگوں کو ان کے دین نے دھوکے میں ڈال دیا ہے۔‘‘ یعنی جس دین پر یہ کاربند ہیں اس دین نے انہیں اس ہلاکت انگیز مقام پر پہنچا دیا ہے جس کا مقابلہ کرنے کی ان میں طاقت نہیں ہے۔ یہ بات وہ اہل ایمان کو حقیر اور کم عقل سمجھتے ہوئے کہتے تھے، حالانکہ وہ خود۔۔۔ اللہ کی قسم۔۔۔ کم عقل اور بے سمجھ تھے، کیونکہ جذبہ ایمان مومن کو ایسے ہولناک مقامات میں کود جانے پر آمادہ کرتا ہے جہاں بڑے بڑے لشکر آگے بڑھنے سے گریز کرتے ہیں۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنے والا مومن جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے پاس کوئی قوت و اختیار نہیں۔ اگر تم لوگ کسی شخص کو ذرہ بھر فائدہ پہنچانے کے لئے اکٹھے ہوجائیں تو اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے اور اگر اس کو نقصان پہنچانے پر اکٹھے ہوجائیں تو اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے مگر صرف وہی جو اللہ تعالیٰ نے اس کی تقدیر میں لکھ دیا ہے۔ مومن جانتا ہے کہ وہ حق پر ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے قضا و قدر میں حکمت والا اور نہایت رحمت کرنے والا ہے اس لئے جب وہ کوئی اقدام کرتا ہے تو وہ (مخالفین کی) کثرت اور قوت کو خاطر میں نہیں لاتا۔ وہ اطمینان قلب کے ساتھ اپنے رب پر بھروسہ کرتا ہے۔ وہ گھبراتا ہے نہ بزدلی دکھاتا ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّـهِ فَإِنَّ اللَّـهَ عَزِيزٌ ﴾ ” اور جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے تو اللہ غالب ہے“ کوئی طاقت اس کی طاقت پر غالب نہیں آسکتی۔ ﴿ حَكِيمٌ ﴾ ” وہ حکمت والا ہے“ یعنی وہ اپنی قضا و قدر میں نہایت حکمت والا ہے
11 Mufti Taqi Usmani
aur yaad kero jab munafiqeen aur woh log jinn kay dilon mein rog tha , yeh keh rahey thay kay : inn ( musalmanon ) ko inn kay deen ney dhokay mein daal rakha hai . halankay jo koi Allah per bharosa keray to Allah sabb per ghalib hai , bari hikmat wala hai .