Skip to main content

وَ لَوْ تَرٰۤى اِذْ يَتَوَفَّى الَّذِيْنَ كَفَرُوا ۙ الْمَلٰۤٮِٕكَةُ يَضْرِبُوْنَ وُجُوْهَهُمْ وَاَدْبَارَهُمْۚ وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِيْقِ

And if
وَلَوْ
اور کاش
you (could) see
تَرَىٰٓ
تم دیکھو
when
إِذْ
جب
take away souls
يَتَوَفَّى
فوت کررہے تھے
(of) those who
ٱلَّذِينَ
ان لوگوں کو
disbelieve
كَفَرُوا۟ۙ
جنہوں نے کفر کیا
the Angels
ٱلْمَلَٰٓئِكَةُ
فرشتے
striking
يَضْرِبُونَ
مارتے تھے
their faces
وُجُوهَهُمْ
ان کے چہروں کو
and their backs
وَأَدْبَٰرَهُمْ
اور ان کی پیٹھوں کو
"Taste
وَذُوقُوا۟
اور چکھو
(the) punishment
عَذَابَ
عذاب
(of) the Blazing Fire"
ٱلْحَرِيقِ
جلنے کا

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

کاش تم اُس حالت کو دیکھ سکتے جبکہ فرشتے مقتول کافروں کی رُوحیں قبض کر رہے تھے وہ ان کے چہروں اور ان کے کولھوں پر ضربیں لگاتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے “لو اب جلنے کی سزا بھگتو

English Sahih:

And if you could but see when the angels take the souls of those who disbelieved... They are striking their faces and their backs and [saying], "Taste the punishment of the Burning Fire.

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

کاش تم اُس حالت کو دیکھ سکتے جبکہ فرشتے مقتول کافروں کی رُوحیں قبض کر رہے تھے وہ ان کے چہروں اور ان کے کولھوں پر ضربیں لگاتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے “لو اب جلنے کی سزا بھگتو

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

اور کبھی تو دیکھے جب فرشتے کافروں کی جان نکالتے ہیں مار رہے ہیں ان کے منہ پر او ر ان کی پیٹھ پر اور چکھو آ گ کا عذاب،

احمد علی Ahmed Ali

اور اگر تو دیکھے جس وقت فرشتے کافروں کی جان قبض کرتے ہیں ان کے مونہوں او رپیٹہوں پر مارتے ہیں اور کہتے ہیں جلنے کا عذاب چکھو

أحسن البيان Ahsanul Bayan

کاش کہ تو دیکھتا جب کہ فرشتے کافروں کی روح قبض کرتے ہیں ان کے منہ پر اور سرینوں پر مار مارتے ہیں (اور کہتے ہیں) تم جلنے کا عذاب چکھو (١)

٥٠۔١ بعض مفسرین نے اسے جنگ بدر میں قتل ہونے والے مشرکین کی بابت قرار دیا ہے۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ جب مشرکین مسلمانوں کی طرف آتے تو مسلمان ان کے چہروں پر تلواریں مارتے، جس سے بچنے کے لئے وہ پیٹھ پھیر کر بھاگتے تو فرشتے ان کی دبروں پر تلواریں مارتے، لیکن یہ آیت عام ہے جو ہر کافر و مشرک کو شامل ہے اور مطلب یہ ہے کہ موت کے وقت فرشتے ان کے مونہوں اور پشتوں (یا دبروں یعنی چوتڑوں) پر مارتے ہیں، جس طرح سورۃ انعام میں بھی فرمایا ; ( وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ بَاسِطُوْٓا اَيْدِيْهِمْ) 6۔ الانعام;93) فرشتے ان کو مارنے کے لئے ہاتھ دراز کرتے ہیں"اور بعض کے نزدیک فرشتوں کی یہ مار قیامت والے دن جہنم کی طرف لے جاتے ہوئے ہوگی اور داروغہ جہنم کہے گا"تم جلنے کا عذاب چکھو،

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

اور کاش تم اس وقت (کی کیفیت) دیکھو۔ جب فرشتے کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ان کے مونہوں اور پیٹھوں پر (کوڑے اور ہتھوڑے وغیرہ) مارتے (ہیں اور کہتے ہیں) کہ (اب) عذاب آتش (کا مزہ) چکھو

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

کاش کہ تو دیکھتا جب کہ فرشتے کافروں کی روح قبض کرتے ہیں ان کے منھ پر اور سرینوں پر مار مارتے ہیں (اور کہتے ہیں) تم جلنے کا عذاب چکھو

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

اور کاش تم وہ موقع دیکھو کہ جب فرشتے کافروں کی روحیں قبض کرتے ہیں اور ان کے چہروں اور پیٹھوں پر ضربیں لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب عذابِ آتش کا مزہ چکھو۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

کاش تم دیکھتے کہ جب فرشتے ان کی جان نکال رہے تھے اور ان کے منہ اور پیٹھ پر مارتے جاتے تھے کہ اب جہنّم کا مزہ چکھو

طاہر القادری Tahir ul Qadri

اور اگر آپ (وہ منظر) دیکھیں (تو بڑا تعجب کریں) جب فرشتے کافروں کی جان قبض کرتے ہیں وہ ان کے چہروں اور ان کی پشتوں پر (ہتھوڑے) مارتے جاتے ہیں اور (کہتے ہیں کہ دوزخ کی) آگ کا عذاب چکھ لو،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

کفار کے لیے سکرات موت کا وقت بڑا شدید ہے۔
کاش کہ تو اے پیغمبر دیکھتا کے فرشتے کس بری طرح کافروں کی روح قبض کرتے ہیں وہ اس وقت ان کے چہروں اور کمروں پر مارتے ہیں اور کہتے ہیں آگ کا عذاب اپنی بداعمالیوں کے بدلے چکھو۔ یہ بھی مطلب بیان کیا گیا ہے کہ یہ واقعہ بھی بدر کے دن کا ہے کہ سامنے سے ان کافروں کے چہروں پر تلواریں پڑتی تھیں اور جب بھاگتے تھے تو پیٹھ پر وار پڑتے تھے فرشتے انکا خوب بھرتہ بنا رہے تھے۔ ایک صحابی نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا میں نے ابو جہل کی پیٹھ پر کانٹوں کے نشان دیکھے ہیں آپ نے فرمایا ہاں یہ فرشتوں کی مار کے نشان ہیں۔ حق یہ ہے کہ یہ آیت بدر کے ساتھ مخصوص تو نہیں الفاظ عام ہیں ہر کافر کا یہی حال ہوتا ہے۔ سورة قتال میں بھی اس بات کا بیان ہوا ہے اور سورة انعام کی ( وَلَوْ تَرٰٓي اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِيْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ بَاسِطُوْٓا اَيْدِيْهِمْ ۚ اَخْرِجُوْٓا اَنْفُسَكُمْ ۭ اَلْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُوْنِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَي اللّٰهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنْتُمْ عَنْ اٰيٰتِهٖ تَسْتَكْبِرُوْنَ 93؀) 6 ۔ الانعام ;93) میں بھی اس کا بیان مع تفسیر گذر چکا ہے۔ چونکہ یہ نافرمان لوگ تھے ان کی موت سے بدن میں چھپتی پھرتی ہیں جنہیں فرشتے جبراً گھسیٹا جاتا ہے جس طرح کسی زندہ شخص کی کھال کو اتارا جائے اسی کے ساتھ رگیں اور پٹھے بھی آجاتے ہیں۔ فرشتے اس سے کہتے ہیں اب جلنے کا مزہ چکھوں۔ یہ تمہاری دینوی بد اعمالی کی سزا ہے اللہ تعالیٰ ظالم نہیں وہ تو عادل حاکم ہے۔ برکت و بلندی، غنا، پاکیزگی والا بزرگ اور تعریفوں والا ہے۔ چناچہ صحیح مسلم شریف کی حدیث قدسی میں ہے کہ میرے بندو میں نے اپنے اوپر ظلم حرام کرلیا ہے اور تم پر بھی حرام کردیا ہے پس آپس میں کوئی کسی پر ظلم و ستم نہ کرے میرے غلاموں میں تو صرف تمہارے کئے ہوئے اعمال ہی کو گھرے ہوئے ہوں بھلائی پاکر میری تعریفیں کرو اور اس کے سوا کچھ اور دیکھو تو اپنے تئیں ہی ملامت کرو۔