عبس آية ۱
عَبَسَ وَتَوَلّٰۤىۙ
طاہر القادری:
ان کے چہرۂ (اقدس) پر ناگواری آئی اور رخِ (انور) موڑ لیا،
English Sahih:
He [i.e., the Prophet (^) ] frowned and turned away
1 Abul A'ala Maududi
ترش رو ہوا، اور بے رخی برتی
2 Ahmed Raza Khan
تیوری چڑھائی اور منہ پھیرا
3 Ahmed Ali
پیغمبر چین بجیں ہوئے اور منہ موڑ لیا
4 Ahsanul Bayan
وہ ترش رو ہوا اور منہ موڑ لیا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(محمد مصطفٰےﷺ) ترش رُو ہوئے اور منہ پھیر بیٹھے
6 Muhammad Junagarhi
وه ترش رو ہوا اور منھ موڑ لیا
7 Muhammad Hussain Najafi
(ایک شخص نے) تیوری چڑھائی اور منہ پھیر لیا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اس نے منھ بسو رلیا اور پیٹھ پھیرلی
9 Tafsir Jalalayn
(محمد مصطفے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ترش رو ہوئے اور منہ پھیر بیٹھے
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، ترش رو ہوئے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یعنی منہ بنایا، اور اعراض کیا، اس وجہ سے کہ نابینا ان کے پاس آیا، عبد اللہ ابن ام مکتوم (رض) ، سو اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس کام میں خلل ڈالا جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشغول تھے ان لوگوں کے ساتھ اشراف قریش میں سے جن کے اسلام کی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امید رکھتے تھے، اس لئے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے اسلام کے بڑے حریص تھے، اور نابینا کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی (اہم کام) میں مشغول ہیں، تو اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پکارنا شروع کردیا کہ مجھے اس میں سے کچھ سکھا دو جو اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سکھایا ہے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے گھر تشریف لے گئے، اس بارے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر عتاب فرمایا گیا اس کے ذریعہ جو اس سورت میں نازل ہوا، تو اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عبد اللہ ابن مکتوم (رض) سے فرمایا کرتے تھے جب وہ آیا کرتے تھے، اس شخص کے لئے مرحبا ہو جس کے بارے میں مجھ پر میرے رب نے عتاب فرمایا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے لئے اپنی چادر بچھا دیا کرتے تھے، اور آپ کو کیا معلوم شاید کہ وہ سنور جاتا یزکی میں تاء کا ادغام ہے اصل زاء میں یعنی گناہوں سے پاک ہوجاتا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتیں سن کر اور نصیحت قبول کرتا (یذکر) میں اصل میں تاء کا ادغام ہے ذال میں، یعنی نصیحت قبول کرتا، اور نصیحت اس کے لئے نافع ہوتی یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی ہوئی نصیحت اس کے لئے سود مند ہوتی اور ایک قرأت میں جواب ترجی کی وجہ سے تنفعہ نصب کے ساتھ ہے، جو شخص مال کی وجہ سے بےپرواہی کرتا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی فکر میں تو پڑے ہیں اور ایک قرأت میں صاد کی تشدید کے ساتھ ہے، اصل میں تاء ثانیہ کو صاد میں ادغام کر کے (یعنی) توجہ کرتے ہیں اور فکر کرتے ہیں، حالانکہ اگر وہ نہ ایمان لائے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں، اور جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس دوڑا آتا ہے کہ فاعل سے حال ہے اور وہ اللہ سے ڈرتا بھی ہے یہ یسعی کے فاعل سے حال ہے اور وہ نابینا ہے سو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بےرخی برتتے ہیں اس میں اصل میں تاء ثانیہ کا حذف ہے، یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بےاعتنائی کرتے ہیں، خبردار ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایسا ہرگز نہ کریں، یہ سورت یا آیات تو نصیحت ہیں مخلوق کے لئے، جس کا جی چاہے اسے قبول کرے (یاد رکھے) اور نصیحت حاصل کرے، یہ ایسے صحیفوں میں درج ہیں جو عند اللہ مکرم ہیں (فی صحف) ان کی خبرثانی ہے اور اس کے ما قبل جملہ معترضہ ہے، آسمان میں بلند مرتبہ ہیں شیاطین کے مس کرنے سے پاکیزہ ہیں معزز اور نیک یعنی اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار کا بتوں کے ہاتھ میں رہتے ہیں، جو اس کو لوح محفوظ سے نقل کرتے ہیں، اور وہ ملائکہ ہیں، لعنت ہو کافر انسان پر کیسا سخت منکر حق ہے ؟ استفہام توبیخ کے لئے ہے یعنی کس نے اس کو کفر پر آمادہ کیا ؟ کیسی حقیر چیز سے (اللہ نے) اس کو پیدا کیا یہ استفہام تقریری ہے، پھر اس کو (خود ہی) بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا نطفہ سے، اس کی صورت بنائی پھر اس میں مختلف اطوار جاری فرمائے (اول) دم بستہ بنایا پھر گوشت کا لوتھڑا بنایا، اس کی تخلیق کے مکمل ہونے تک تغیرات کو جاری فرمایا پھر اس کی ماں کے پیٹ سے اس کے نکلنے کا راستہ آسان فرمایا، پھر اسے موت دی اور قبر میں پہنچایا یعنی اس کو ایسی قبر میں پہنچا دیا جس نے اس کو چھپالیا، پھر جب اللہ چاہے گا اسے بعث کے لئے زندہ کرے گا، ہرگز نہیں ! اس نے وہ فرض ادا نہیں کیا جس کا اس کو اس کے رب نے حکم دیا پھر انسان ذرا نظر عبرت سے اپنی خوراک کو دیکھے کہ کس طرح اس کو مقدر کیا اور اس کے لئے تدبیر ی، کہ ہم نے بادلوں سے خوب پانی برسایا پھر ہم نے نباتات کے ذریعہ زمین کو عجیب طریقہ سے پھاڑا پھر ہم نے اس میں غلہ مثلاً گندم، جو، اور انگور اور سبزہ اور وہ ہرا چارہ ہے زیتون اور کھجور اور گھنے باغ (یعنی) بکثرت درختوں والے باغات اور میوے اور چارہ پیدا کیا جس کو مویشی چرتے ہیں اور کہا گیا ہے، گھاس (پیدا کی) تمہارے اور تمہارے مویشیوں کے فائدے کے لئے تاکہ فائدہ پہنچائے تم کو فائدہ پہنچانا، جیسا کہ اسی سورت میں اس سے پہلے گزر چکا ہے، (ولا نعامکم) کی تفسیر بھی ابل، بقر، غنم سے سابق میں گزر چکی ہے پھر آخر جب وہ کانوں کو بہرہ کردینے والی آواز آئے گی یعنی نفخہ ٔ ثانیہ، اس روز آدمی اپنے بھائی سے اور اپنی ماں سے اور اپنے باپ سے اور اپنی بیوی سے اور اپنی اولاد سے بھاگے گا یوم، اذا سے بدل ہے اور اس کا جواب وہ ہے جس پر لکل امری دلالت کرتا ہے، اس دن میں ہر شخص کو ایسا مشغلہ ہوگا کہ جو اس کو کسی دوسری طرف متوجہ نہ ہونے دے گا، (یعنی) ایسا حال ہوگا جو اس کو دوسروں کے حال سے بیخبر کر دے گا یعنی ہر شخص اپنے حال میں مبتلا ہوگا، کچھ چہرے اس روز روشن ہشاش بشاش ہوں گے یعنی خوش و خرم ہوں گے اور وہ مؤ من ہیں، اور کچھ چہرے اس روز خاک آلود ہوں گے جن پر ظلمت چھائی ہوگی یعنی تاریکی اور سیاہی، یہی اس حالت والے کافر اور فاجر لوگ ہوں گے یعنی کفر و فجور کے جامع ہوں گے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : عبس و تولی (ض) عبسا، عبوسا، ترش رو ہونا، چیں بہ جبیں ہونا، اظہار ناگواری کرنا، ماتھے پر بل ڈالنا، اور اگر ماتھے پر بل ڈالنے کے ساتھ دانت بھی ظاہر ہوجائیں تو کلح کہتے ہیں اور اگر منہ بھی بنایا جائے تو بسر کہتے ہیں اور ساتھ میں غصہ بھی ہو تو بسل کہتے ہیں (لغات القرآن) عبس اور و تولی میں غائب کے صیغے استعمال فرمانا، انتہائی لطف و کرم کے اظہار کے طور پر ہے کہ عتاب کے وقت حاضر کے صیغے استعمال نہیں فرمائے، تاکہ ایسا معلوم ہو کہ جس کام پر عتاب کیا جا رہا ہے وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہیں کیا، بلکہ کسی اور نے کیا ہے، پھر آگے وما یدریک وما علیک الا یزکی میں حاضر کے صیغے سے خطاب فرمایا، اس میں بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دل جوئی اور احترام ملحوظ ہے اگر بالکل خطاب کا صیغہ نہ فرماتے تو اس سے اعراض کا شبہ پیدا ہوسکتا تھا جس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ناقابل برداشت رنج و غم ہوتا۔
قولہ : عبس و تولی ان دونوں فعلوں نے ان جاءہ الاعمی میں تنازع کیا، دونوں اس کو مفعول لا جلہ بنانا چاہتے ہیں، ایک کو عمل دے کر، دوسرے کے لئے ضمیر کو حذف کردیا فضلہ ہونے کی وجہ سے۔
قولہ : عبد اللہ ابن ام مکتوم، ای ابن شریح بن مالک بن ربیعۃ الفھری من بنی عامر بن لؤی، اپنی دادی کی کنیت سے مشہور ہیں، قدیم الاسلام ہیں، حضرت عبد اللہ ابن ام مکتوم (رض) حضرت خدیجہ (رض) بنت خویلد کے خالہ زاد بھائی ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عبد اللہ (رض) کو تیرہ مرتبہ مدینہ طیبہ پر نائب مقرر فرمایا، آپ (رض) جنگ قادسیہ میں شہید ہوئے۔
قولہ : وما یدریک اس میں غیبت سے خطاب کی طرف التفات ہے ما استفہامیہ مبتداء ہے یدریک فعل متعدی بدو مفعول ہے، کاف مفعول اول ہے اور لعلہ یزکی جملہ ہو کر قائم مقام دوسرے مفعول کے ہے۔
قولہ : فتنفعہ مرفوع ہے یذکر پر عطف کی وجہ سے اور منصوب ہے جواب ترجی ہونے کی وجہ سے۔
قولہ : فانت لہ تصدی جار مجرور تصدی کے متعلق ہے، فواصل کی رعایت کی وجہ سے مقدم کردیا گیا ہے۔
قولہ : تصدی اصل میں تصدد تھا دوسری دال کو حرف علت یاء سے بدل دیا گیا۔
قولہ : وما علیک، ما نافیہ ہے اور علیک مبتداء محذوف کی خبر ہے اور الا یزکی مبتداء محذوف کے متعلق ہے، تقدیر عبارت یہ ہے، لیس علیک باس فی عدم تزکیتہ۔
قولہ : وما قبلہ اعتراض یعنی ان کی دونوں خبروں کے درمیان جملہ معترضہ ہے۔
قولہ : بایدی سفرۃ بمعنی کاتبین، سفرۃ جمع سافر جیسا کہ کتبۃ جمع کاتب۔
قولہ : لعن الکافر اس میں اشارہ ہے کہ انسان سے مطلق انسان مراد نہیں ہے بلکہ انسان کافر مراد ہے۔
قولہ : قتل الانسان اس آیت میں دو طریقہ سے اشکال ہے۔
پہلا اشکال :
یہ کہ اس سے بددعاء کا وہم ہوتا ہے اور دعاء یا بددعا عاجز کیا کرتا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے ؟ لہٰذا یہ اس کی شایان شان نہیں۔
دوسرا اشکال :
تعجب اس امر عظیم سے ہوا کرتا ہے جس کا سبب مخفی ہو، اور یہ معنی اللہ تعالیٰ کے لئے محال ہے ؟ اس لئے کہ وہ تو علم کی تمام اشیاء سے اجمالاً اور تفصیلاً واقف ہے ؟
اشکال اول کا پہلا جواب :
یہ کلام، عرب کے کلام کے اسلوب پر ہے گویا کہ اس میں استحقاق عذاب عظیم کی طرف اشارہ ہے ان کے عظیم ترین جرم کے ارتکاب کرنے کی وجہ سے، عرب جب کسی چیز سے تعجب کرتے ہیں تو کہتے ہیں، قاتلہ اللہ ما اخبثہ اللہ اس کو ہلاک کرے کس قدر خبیث ہے۔
دوسرا جواب : قتل الانسان بددعا نہیں ہے، بلکہ یہ اس بات کی خبر دینا ہے کہ اللہ نے اس کو اپنی رحمت سے دور کردیا ہے۔
دوسرے اشکال کا جواب :
یہ استفہام تعجب نہیں ہے بلکہ استفہام توبیخ ہے اور مفسر علام نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔
قولہ : فقدرہ یہ من نطفۃ خلقہ کی تفصیل ہے ای قدر طارہ یعنی اس کے مراحل تخلیق کو بیان فرمایا ہے۔
قولہ : ثم السبیل یسرہ یہ باب اشتغال سے ہے، ای یسر السبیل یسرہ۔
قولہ : اذا شاء انشرہ مشیت کا مفعول محذف ہے، ای اذ شاء انشارہٗ انشرہ۔
قولہ : ھو القت الرطب جانوروں کا ہرا چارا، ہرے چارے کو قضبا کہا ہے، اس لئے کہ قضبا کے معنی کاٹنے کے ہیں اور چارا چونکہ بار بار کاٹا جاتا ہے، اس لئے اس کو قضب کہتے ہیں۔
قولہ : علیا یہ اغلب و غلباء کی جمع ہے جیسے احمر، حمراء کی جمع حمر آتی ہے، گھنے درختوں کو کہتے ہیں۔
قولہ : وابا، اب بھی جانوروں کے چارے کو کہتے ہیں، مگر قضب اور اب میں فرق یہ ہے کہ قضب ہرے چارے کو کہتے ہیں اور اب عام ہے خواہ ہرا ہو یا خشک۔
قولہ : قیل التبن یہ ابا کے دوسرے معنی کا بیان ہے، تبن کے معنی خشک گھاس کے ہیں، اس معنی کے اعتبار سے اب… کی ضد ہوگی۔
قولہ : متعۃ او تمتیع، متاعا کی تفسیر متعۃ اور تمتیعا سے کر کے اشارہ کردیا کہ یہ مفعول لہ بھی ہوسکتا ہے اور مفعول مطلق بھی۔
قولہ : والصاخۃ، صاخہ زوردار آواز جو کانوں ک بہرا کر دے۔
قولہ : لکل امری بھاگنے کے سبب کو بیان کرنے کے لئے جملہ مستانفہ ہے۔
قولہ : اشغل کل واحد بنفسہ یہ اذا کا جواب محذوف ہے۔
تفسیر و تشریح
شان نزول :
مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ عبس و تولیٰ الخ کے نزول کا سبب یہ ہے کہ قریش کے سرداروں کی ایک جماعت، جن کے ناموں کی مختلف روایات میں یہ صراحت ملتی ہے کہ وہ عتبہ، شیبہ، ابوجہل، امیہ بن خلف، ابی بن خلف جیسے اسلام کے بدترین دشمن تھے، جو ایک روز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو اسلام قبول کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش فرما رہے تھے، اتنے میں عبد اللہ ابن ام مکتوم (رض) صحابی جو کہ نابینا تھے، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے اور انہوں نے اسلام کے متعلق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کچھ پوچھنا چاہا، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کی اس مداخلت پر نا گواری ہوئی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے بےرخی برتی، اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ سورت نازل ہوئی۔ (ترمذی شریف)
عبس و تولی، اس فقرہ کا انداز بیان، اپنے اندر عجیب لطف رکھتا ہے اگرچہ بعد کے فقروں میں براہ راست آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب ہے، جس سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ ترش روئی اور بےاعتنائی برتنے کا فعل آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی سے صادر ہوا تھا لیکن کلام کی ابتداء اس طرح کی گئی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہیں بلکہ اور کوئی شخص ہے جس سے یہ فعل صادر ہوا ہے، اس طرز بیان سے ایک نہایت لطیف طریقہ پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ احساس دلایا گیا ہے کہ یہ ایسا کام تھا جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کرنے کا نہ تھا، گویا کہ یہ حسنات الابرار، سیئات المقربین کے قاعدہ کے مطابق خلاف اولیٰ کے اختیار پر تنبیہ تھی، مقصد یہ ہے کہ خلاف اولیٰ کا ارتکاب بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شایان شان نہیں ہے۔
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اجتہاد اور اس کی اصلاح :
سرداران قریش کی طرف توجہ کرنے اور عبد اللہ ابن ام مکتوم (رض) کی طرف توجہ نہ کرنے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خیال یہ تھا کہ میں اس وقت جن لوگوں کو راہ راست پر لانے کی کوشش کر رہا ہوں، ان میں سے اگر کوئی ایک شخص بھی ہدایت پالے تو وہ اسلام کی تقویت کا بڑا ذریعہ بن سکتا ہے، بخلاف ابن ام مکتوم (رض) کے کہ وہ تو ایمان لا ہی چکے ہیں اور جو کچھ ان کو معلوم کرنا ہے وہ بعد میں بھی معلوم کرسکتے ہیں، اسی اجتہادی خطاء پر گرفت فرماتے ہوئے فرمایا وما یدریک لعللہ یزکی الخ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کیا معلوم کہ یہ صحابی (رض) جو بات دریافت کر رہے تھے اس کا فائدہ متیقن تھا کہ آپ ان کو تعلیم دیتے، تو یہ اس کے ذریعے اپنے نفس کا تزکیہ کرلیتے یا کم از کم ذکر اللہ سے ابتدائی نفع حاصل کرتے۔
تبلیغ وتعلیم کا ایک اہم قرآنی اصول :
یہ بات تو ظاہر ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے دو کام بیک وقت آگئے ایک مسلمانوں کی تعلیم اور ان کی دل جوئی، دوسرے غیر مسلموں کو اسلام کی طرف لانے کے لئے ان کی طرف توجہ، قرآن کریم کے اس ارشاد نے یہ واضح کردیا کہ پہلا کام دوسرے کام پر مقدم ہے، دوسرے کام کی وجہ سے پہلے کام میں تاخیر کرنا یا کوئی خلل ڈالنا درست نہیں، اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ مسلمانوں کی تعلیم اور ان کی اصلاح کی فکر غیر مسلموں کے شبہات کے ازالے اور ان کو اسلام سے مانوس کرنے کی خاطر ایسے کام کرنے کہ جس سے عام مسلمانوں کے دلوں میں شکوک و شبہات یا شکایات پیدا ہوجائیں مناسب نہیں ہیں، بلکہ ان قرآنی ہدایات کے مطابق مسلمانوں کی تعلیم و تربیت اور حفاظت کو مقدم رکھنا چاہیے، اکبر مرحوم نے خوب فرمایا ہے۔ ؎
بےوفا سمجھیں تمہیں اہل حرم اس سے بچو دیر والے کج ادا کہہ دیں یہ بدنامی بھلی
10 Tafsir as-Saadi
ان آیات کریمہ کے نزول کا سبب یہ ہے کہ اہل ایمان میں سے ایک نابینا شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آپ سے کچھ پوچھنے اور سیکھنے کے لیے حاضر ہوا ۔ (مکہ مکرمہ کے)دولت مند لوگوں میں سے بھی ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر تھا ، آپ مخلوق کی ہدایت کے بہت حریص تھے ، چنانچہ آپ اس دولت مند شخص کی طرف مائل ہوئے اور اس کی طرف توجہ مبذول کی اور اس نابینا محتاج کی طرف توجہ نہ کی ، اس امید پر کہ وہ دولت مند شخص راہ ہدایت پالے اور اس کا تزکیہ ہوجائے تو اللہ تعالیٰ نے نہایت لطیف پیرائے میں آپ پر ناراضی کا اظہار کیا ،چنانچہ فرمایا : ﴿عَبَسَ﴾ یعنی آپ ترش رو ہوگئے ﴿ وَتَوَلّیٰٓ﴾ اور اپنے جسم کو موڑ لی، اس بنا پر کہ اندھا آپ کے پاس آیا ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس نابینا شخص کی طرف توجہ دینے کا فائدہ بیان فرمایا : ﴿وَمَا یُدْرِیْکَ لَعَلَّہٗ﴾ ”اور تمہیں کیا خبر کہ شاید وہ۔“ یعنی نابیناشخص ﴿یَزَّکّیٰٓ﴾ اخلاق رذیلہ سے پاک اور اخلاق جمیلہ سے متصف ہونا چاہتا ہو؟
11 Mufti Taqi Usmani
. ( payghumber ney ) mun banaya , aur rukh pher liya ,
12 Tafsir Ibn Kathir
تبلیغ دین میں فقیر و غنی سب برابر
بہت سے مفسرین سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک مرتبہ قریش کے سرداروں کو اسلامی تعلیم سمجھا رہے تھے اور مشغولی کے ساتھ ان کی طرف متوجہ تھے دل میں خیال تھا کہ کیا عجب اللہ انہیں اسلام نصیب کر دے ناگہاں حضرت عبداللہ بن ام مکتوم (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے، پرانے مسلمان تھے عموماً حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوتے رہتے تھے اور دنیا اسلام کی تعلیم سیکھتے رہتے تھے اور مسائل دریافت کیا کرتے تھے، آج بھی حسب عادت آتے ہی سوالات شروع کئے اور آگے بڑھ بڑھ کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چونکہ اس وقت ایک اہم امر دینی میں پوری طرح مشغول تھے ان کی طرف توجہ نہ فرمائی بلکہ ذرا گراں خاطر گزرا اور پیشانی پر بل پڑگئے اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بلند شان اور اعلیٰ اخلاق کے لائق یہ بات نہ تھی کہ اس نابینا سے جو ہمارے خوف سے دوڑتا بھاگتا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں علم دین سیکھنے کے لئے آئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے منہ پھیر لیں اور ان کی طرف متوجہ ہیں جو سرکش ہیں اور مغرور و متکبر ہیں، بہت ممکن ہے کہ یہی پاک ہوجائے اور اللہ کی باتیں سن کر برائیوں سے بچ جائے اور احکام کی تعمیل میں تیار ہوجائے، یہ کیا کہا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان بےپرواہ لوگوں کی جانب تمام تر توجہ فرما لیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کوئی ان کو راہ راست پر لا کھڑا کرنا ضروری تھوڑے ہی ہے ؟ وہ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتیں نہ مانیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ان کے اعمال کی پکڑ ہرگز نہیں، مطلب یہ ہے کہ تبلیغ دین میں شریف و ضعیف، فقیر و غنی، آزاد و غلام، مرد و عورت، چھوٹے بڑے سب برابر ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب کو یکساں نصیحت کیا کریں ہدایت اللہ کے ہاتھ ہے، وہ اگر کسی کو راہ راست سے دور رکھے تو اس کی حکمت وہی جانتا ہے جسے اپنی راہ لگا لے اسے بھی وہی خوب جانتا ہے، حضرت ابن ام مکتوم کے آنے کے وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مخاطب ابی بن خلف تھا اس کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابن ام مکتوم کی بڑی تکریم اور آؤ بھگت کیا کرتے تھے (مسند ابو یعلی) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں میں نے ابن ام مکتوم کو قادسیہ کی لڑائی میں دیکھا ہے، زرہ پہنے ہوئے تھے اور سیاہ جھنڈا لئے ہوئے تھے، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب یہ آئے اور کہنے لگے کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے بھلائی کی باتیں سکھایئے اس وقت رؤساء قریش آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جلس میں تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی طرف پوری توجہ نہ فرمائی انہیں سمجھاتے جاتے تھے اور فرماتے تھے کہو میری بات ٹھیک ہے وہ کہتے جاتے تھے ہاں حضرت درست ہے، ان لوگوں میں عتبہ بن ربیعہ، ابو جہل بن ہشام، عباس بن عبدالمطلب تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بڑی کوشش تھی اور پوری حرص تھی کہ کس طرح یہ لوگ دین حق کو قبول کرلیں ادھر یہ آگئے اور کہنے لگے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن پاک کی کوئی آیت مجھے سنایئے اور اللہ کی باتیں سکھایئے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس وقت ان کی بات ذرا بےموقع لگی اور منہ پھیرلیا اور ادھر ہی متوجہ رہے، جب ان سے باتیں پوری کر کے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر جانے لگے تو آنکھوں تلے اندھیرا چھا گیا اور سر نیچا ہوگیا اور یہ آیتیں اتریں، پھر تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی بڑی عزت کیا کرتے تھے اور پوری توجہ سے کان لگا کر ان کی باتیں سنا کرتے تھے آتے جاتے ہر وقت پوچھتے کہ کچھ کام ہے کچھ حاجت ہے کچھ کہتے ہو کچھ مانگتے ہو ؟ (ابن جریر وغیرہ) یہ روایت غریب اور منکر ہے اور اس کی سند میں بھی کلام ہے، حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے تھے کہ بلال رات رہتے ہوئے اذان دیا کرتے ہیں تو تم سحری کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ ابن ام مکتوم کی اذان سنو یہ وہ نابینا ہیں جن کے بارے میں آیت (عَبَسَ وَتَوَلّىٰٓ ۙ اَنْ جَاۗءَهُ الْاَعْمٰى ۭ ) عبس اتری تھی، یہ بھی موذن تھے بینائی میں نقصان تھا جب لوگ صبح صادق دیکھ لیتے اور اطلاع کرتے کہ صبح ہوئی تب یہ اذان کہا کرتے تھے (ابن ابی حاتم) ابن ام مکتوم کا مشہور نام تو عبداللہ ہے بعض نے کہا ہے ان کا نام عمرو ہے، واللہ اعلم، انھا تذکرہ یعنی یہ نصیحت ہے اس سے مراد یا تو یہ سورت ہے یا یہ مساوات کہ تبلیغ دین میں سب یکساں ہیں مراد ہے، سدی کہتے ہیں مراد اس سے قرآن ہے،
جو شخص چاہے اسے یاد کرلے یعنی اللہ کو یاد کرے اور اپنے تمام کاموں میں اس کے فرمان کو مقدم رکھے، یا یہ مطلب ہے کہ وحی الٰہی کو یاد کرلے، یہ سورت اور یہ وعظ و نصیحت بلکہ سارے کا سارا قرآن موقر معزز اور معتبر صحیفوں میں ہے جو بلند قدر اور اعلیٰ مرتبہ والے ہیں جو میل کچیل اور کمی زیادتی سے محفوظ اور پاک صاف ہیں، جو فرشتوں کے پاس ہاتھوں میں ہیں اور یہ بھی مطلب ہوسکتا ہے کہ اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاکیزہ ہاتھوں میں ہے۔ حضرت قتادہ کا قول ہے کہ اس سے مراد قاری ہیں۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ یہ نبطی زبان کا لفظ ہے معنی ہیں قاری، امام ابن جریر فرماتے ہیں صحیح بات یہی ہے کہ اس سے مراد فرشتے ہیں جو اللہ تعالیٰ اور مخلوق کے درمیان سفیر ہیں، سفیر اسے کہتے ہیں کہ جو صلح اور بھلائی کے لیے لوگوں میں کوشش کرتا پھرے، عرب شاعر کے شعر میں بھی یہی معنی پائے جاتے ہیں، امام بخاری (رح) فرماتے ہیں اس سے مراد فرشتے ہیں جو فرشتے اللہ کی جانب سے وحی وغیرہ لے کر آتے ہیں وہ ایسے ہی ہیں جیسے لوگوں میں صلح کرانے والے سفیر ہوتے ہیں، وہ ظاہر باطن میں پاک ہیں، وجیہ خوش رو شریف اور بزرگ ظاہر میں، اخلاق و افعال کے پاکیزہ باطن میں۔ یہاں سے یہ بھی معلوم کرنا چاہیے کہ قرآن کے پڑھنے والوں کو اعمال و اخلاق اچھے رکھنے چاہئیں، مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں جو قرآن کو پڑھے اور اس کی مہارت حاصل کرے وہ بزرگ لکھنے والے فرشتوں کیساتھ ہوگا اور جو باوجود مشقت کبھی پڑھے اسے دوہرا اجر ملے گا۔