Skip to main content

اِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِىْ نَعِيْمٍۙ

Indeed
إِنَّ
بیشک
the righteous
ٱلْأَبْرَارَ
نیک لوگ
(will be) surely in
لَفِى
البتہ میں
bliss
نَعِيمٍ
نعمتوں میں ہوں گے

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

یقیناً نیک لوگ مزے میں ہوں گے

English Sahih:

Indeed, the righteous will be in pleasure,

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

یقیناً نیک لوگ مزے میں ہوں گے

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

بیشک نِکو کار ضرور چین میں ہیں

احمد علی Ahmed Ali

بےشک نیک لوگ نعمت میں ہوں گے

أحسن البيان Ahsanul Bayan

یقیناً نیک لوگ (جنت کے عیش آرام اور) نعمتوں میں ہونگے۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

بے شک نیکوکار نعمتوں (کی بہشت) میں ہوں گے۔

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

یقیناً نیک لوگ (جنت کے عیش وآرام اور) نعمتوں میں ہوں گے

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

بےشک نیکوکار لوگ عیش و آرام میں ہوں گے۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

بے شک نیک لوگ نعمتوں میں ہوں گے

طاہر القادری Tahir ul Qadri

بیشک نیکوکار جنّتِ نعمت میں ہوں گے،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

ابرار کا کردار
جو لوگ اللہ تعالیٰ کے اطاعت گزار فرمانبردار، گناہوں سے دور رہتے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ جنت کی خوش خبری دیتا ہے حدیث میں ہے کہ انہیں ابرار اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ اپنے ماں باپ کے فرمانبردار تھے اور اپنی اولاد کے ساتھ نیک سلوک کرتے تھے، بدکار لوگ دائمی عذاب میں پڑیں گے، قیامت کے دن جو حساب کا اور بدلے کا دن ہے ان کا داخلہ اس میں ہوگا ایک ساعت بھی ان پر عذاب ہلکا نہ ہوگا نہ موت آئے گی نہ راحت ملے گی نہ ایک ذرا سی دیر اس سے الگ ہوں گے۔ پھر قیامت کی بڑائی اور اس دن کی ہولناکی ظاہر کرنے کے لیے دو دو بار فرمایا کہ تمہیں کس چیز نے معلوم کرایا کہ وہ دن کیسا ہے ؟ پھر خود ہی بتلایا کہ اس دن کوئی کسی کو کچھ بھی نفع نہ پہنچا سکے گا نہ عذاب سے نجات دلا سکے گا۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ کسی کی سفارش کی اجازت خود اللہ تبارک و تعالیٰ عطا فرمائے۔ اس موقعہ پر یہ حدیث وارد کرنی بالکل مناسب ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے بنو ہاشم اپنی جانوں کو جہنم سے بچانے کے لیے نیک اعمال کی تیاریاں کرلو میں تمہیں اس دن اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچانے کا اختیار نہیں رکھتا۔ یہ حدیث سورة شعراء کی تفسیر کے آخر میں گزر چکی ہے۔ یہاں بھی فرمایا کہ اس دن امر محض اللہ کا ہی ہوگا۔ جیسے اور جگہ ہے آیت (لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ۭ لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ 16؀) 40 ۔ غافر ;16) اور جگہ ارشاد ہے آیت ( اَلْمُلْكُ يَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ للرَّحْمٰنِ ۭ وَكَانَ يَوْمًا عَلَي الْكٰفِرِيْنَ عَسِيْرًا 26؀) 25 ۔ الفرقان ;26) اور فرمایا آیت ( مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ ۝ۭ ) 1 ۔ الفاتحة ;4) مطلب سب کا یہی ہے کہ ملک و ملکیت اس دن صرف اللہ واحد قہار و رحمٰن کی ہی ہوگی۔ گو آج بھی اسی کی ملکیت ہے وہ ہی تنہا مالک ہے اسی کا حکم چلتا ہے مگر وہاں ظاہر داری حکومت، ملکیت اور امر بھی نہ ہوگا۔ سورة انفطار کی تفسیر ختم ہوئی۔ فالحمد اللہ۔