البروج آية ۴
قُتِلَ اَصْحٰبُ الْاُخْدُوْدِۙ
طاہر القادری:
خندقوں والے (لوگ) ہلاک کر دیے گئے،
English Sahih:
Destroyed [i.e., cursed] were the companions of the trench
1 Abul A'ala Maududi
کہ مارے گئے گڑھے والے
2 Ahmed Raza Khan
کھائی والوں پر لعنت ہو
3 Ahmed Ali
خندقوں والے ہلاک ہوئے
4 Ahsanul Bayan
(کہ) خندقوں والے ہلاک کئے گئے (١)
٤۔١ یعنی جن لوگوں نے خندقیں کھود کر اس میں رب کے ماننے والوں کو ہلاک کیا، ان کے لئے ہلاکت اور بربادی ہے قتل بمعنی لعن۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
کہ خندقوں (کے کھودنے) والے ہلاک کر دیئے گئے
6 Muhammad Junagarhi
﴿کہ﴾ خندقوں والے ہلاک کیے گئے
7 Muhammad Hussain Najafi
غارت ہوئے خندق والے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اصحاب اخدود ہلاک کردیئے گئے
9 Tafsir Jalalayn
کہ خندقوں (کے کھودنے) والے ہلاک کر دئیے گئے
اصحاب اخدود کا واقعہ :
اس سورت میں ” اصحاب اخدود “ کا واقعہ بیان ہوا ہے اور یہی واقعہ اس سورت کے نزول کا سبب ہے، گڑھوں میں آگ جلا کر ایمان والوں کو اس میں ڈال کر جلا دینے کے متعدد واقعات روایات میں بیان ہوئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں متعدد مرتبہ اس قسم کے واقعات ہوئے ہیں۔
ان میں سے ایک واقعہ صہیب رومی (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کیا ہے کہ ایک بادشاہ کے پاس ایک ساحر تھا، (بعض روایتوں میں کاہن کا لفظ ہے) جب وہ ساحر بوڑھا ہوگیا تو اس نے بادشاہ سے کہا کہ اب میں بوڑھا ہوگیا ہوں لہٰذا مجھے ایک ذہین لڑکا دے دیا جائے تاکہ میں اس کو اپنا علم سحر سکھا دوں میرے مرنے کے بعد اس علم کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہے بادشاہ نے ایک ذہین لڑکا مقرر کردیا وہ لڑکا ساحر کے پاس جاتے آتے ایک راہب سے بھی راستہ میں ملنے لگا اور اس کی باتوں سے متاثر ہو کر ایمان لے آیا حتی کہ اس کی تربیت سے صاحب کشف و کرامات ہوگیا، جس بادشاہ کا ذکر اس واقعہ میں آیا ہے وہ ملک یمن کا بادشاہ تھا جس کا نام حرضت ابن عباس (رض) کی روایت میں سوف ذونواس بتایا گیا ہے اس کا زمانہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت با سعادت سے ستر سال پہلے تھا اور اس لڑکے کا نام جس کو سحر سیکھنے کے لئے مقرر کیا گیا تھا عبدا للہ بن تامر تھا اور وہ راہب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے مذہب کا پیرو کار تھا، وہ لڑکا کشف و کرامات کے ذریعہ اندھوں کو بینا اور کوڑھیوں کو تندرست کرنے لگا، اللہ ت عالیٰ نے اسے ایسا پختہ ایمان نصیب فرمایا کہ ایمان کی خاطر لوگوں کی تاخیر کی وجہ سے مارتا تھا اور واپسی کے وقت بھی راہب کے پاس بیٹھتا جس کی وجہ سے گھر پہنچنے میں دیر ہوجاتی تو گھر والے اس کی پٹائی کرتے، مگر اس نے کسی کی پرواہ کئے بغیر راہب کی صحبت اور مجالست نہ چھوڑی اور خفیہ طور پر مسلمان ہوگیا، ایک بار اس لڑکے نے دیکھا کہ شیر وغیرہ کسی درندے نے راستہ روک رکھا ہے اور لوگ پریشان ہیں تو اس نے ایک پتھر ہاتھ میں لے کر دعاء کی کہ اے اللہ ! اگر راہب کا دین سچا ہے تو یہ جانور میرے پتھر سے مارا جائے اور اگر کاہن کا دین سچا ہے تو نہ مارا جائے، یہ کہہ کر اس نے پتھر مارا جس کی وجہ سے وہ شیر ہلاک ہوگیا، اس واقعہ سے لوگوں میں یہ مشہور ہوگیا کہ اس لڑکے کو کوئی عجیب علم آتا ہے ایک نابینا نے جب یہ سنا تو آ کر درخواست کی کہ میری آنکھیں اچھی ہوجائیں گیڈ لڑکے نے کہا بشرطیکہ تو مسلمان ہوجائے۔ نابینا نے یہ شرط قبول کرلی، لڑکے نے اللہ سے دعاء کی چناچہ وہ نابینا بینا ہوگیا اسی قسم کے بہت سے واقعات و کرامات ظاہر ہوئیں، جب بادشاہ کو اس کی اطلاع ہوئی تو اس نے راہب کو اور لڑکے کو اور نابینا کو گرفتار کر کے حاضر کرنے کا حکم دیا چناچہ تینوں گرفتار کر کے بادشاہ کی خدمت میں حاضر کئے گئے راہب اور نابینا کو تو فوراً ہی قتل کر ادیا، اور لڑکے کے لئے حکم دیا کہ اس کو پہاڑ کے اوپر سے گرا کر ہلاک کردیا جائے، مگر جو لوگ اس کو لے کر پہاڑ پر گئے تھے وہ سب ہلاک ہوگئے اور لڑکا صحیح سلامت واپس آگیا، اس کے بعد بادشاہ نے دریا میں غرق کرنے کا حکم دیا وہ اس سے بھی بچ گیا اور جو لوگ اس کو لے کر گئے تھے وہ سب غرق ہوگئے غرضیکہ کوئی ہتھیار اور کوئی حربہ کارگر نہ ہوا آخر کار لڑکے نے بادشاہ سے کہا اگر تو مجھے قتل کرنا ہی چاہتا ہے تو مجمع عام میں ” باسم اللہ رب ھذا الغلام “ کہہ کر تیر مار میں مر جائوں گا، چناچہ بادشاہ نے ایسا ہی کیا اور لڑکا مرگیا، لوگ پکاراٹھے کہ ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لے آئے، بادشاہ کے مصاحبوں نے بادشاہ سے کہہ دیا کہ یہ تو وہی کچھ ہوگیا جس سے آپ بچنا چاہتے تھے، لوگوں نے آپ کے دین کو چھوڑ کر لڑکے کے دنی کو قبول کرلیا، بادشاہ یہ دیکھ کر غصے میں بھر گیا، اس نے خندقیں کھدوائیں اور ان کو آگ سے بھر دیا اور اشتہار دیا کہ جو اسلام سے نہ پھرے گا اس آگ میں جلا دیا جائے گا چناچہ ایک ایک مسلمان کو لایا جاتا اور اس سے ہا جاتا کہ یا تو ایمان ترک کردو ورنہ اس خندق میں جلنا پڑے گا، اللہ تعالیٰ نے ان مومنین کو ایسی استقامت بخشی کہ ان میں سے ایک بھی ایمان چھوڑنے پر راضی نہ ہوا اور آگ میں جل کر مرجانا قبول کیا صرف ایک عورت جس کی گود میں شیر خوار بچہ تھا وہ جھجکی تو فوراً ہی وہ بچہ بولا اے اماں ! تو صبر کر کیونکہ تو حق پر ہے، جن لوگوں کو اس ظالم بادشاہ نے اس طرح آگ میں جلا کر ہلاک کیا ان کی تعداد بعض روایات میں بارہ ہزار اور بعض میں اس سے بھی زیادہ آئی ہے۔
(روح المعانی، احمد، مسلم، ترمذی، ابن جریر، عبدالرزاق ابن ابی سیبہ وغیرہ)
عجیب تاریخی واقعہ :
محمد بن اسحاق کی روایت میں ہے کہ یہ لڑکا جس کا نام عبداللہ بن تامر تھا جس جگہ مدفون تھا حضرت عمر (رض) کے زمانہ خلافت میں کسی ضرورت سے جب وہ زمین کھودی گئی تو اس میں سے عبداللہ بن تامر کا جسم صحیح سالم اس طرح برآمد ہوا کہ ان کا ہاتھ تیر لگنے کی جگہ کنپٹی پر رکھا ہوا ہے، کسی شخص نے ان کا ہاتھ کنپٹی سے ہٹایا تو زخم سے خون جاری ہوگیا جب ہاتھ اسی جگہ رکھ دیا تو خون بند ہوگیا ان کے ہاتھ میں ایک انگوٹھی تھی جس پر ” اللہ ربی “ لکھا ہوا تھا، یمن کے حاکم نے اس واقعہ کی اطلاع مدینہ منوروہ فاروق اعظم حضرت عمر (رض) کو دی تو آپ نے جواب میں لکھا کہ ان کو ان کی ہئیت پر مع انگوٹھی کے اسی جگہ دفن کردیا جائے جہاں وہ ظاہر ہوئے ہیں۔ (معارف، ابن کثیر)
فائدہ :۔ ابن کثیر نے بحوالہ ابن ابی حاتم نقل کیا ہے کہ آگ کی خندق کے واقعات دنیا میں مختلف ملکوں اور مختلف زمانوں میں پیش آئے ہیں، ابن ابی حاتم نے خصوصیت کے ساتھ تین واقعات کا ذکر کیا ہے۔
پہلا واقعہ،
یہی ہے جو اوپر مذکور ہوا جو کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت با سعادت سے ستر سال قبل ملک یمن میں پیش ایٓا، دوسرا واقعہ شام میں، تیسرا فارس میں، اس سورت میں جس واقعہ کا ذکر ہے وہ ملک یمن نجران کے علاقہ میں پیش آیا تھا، یہ عرب کا علاقہ تھا۔ (معارف)
دوسرا واقعہ :
حضرت علی (رض) سے مروی ہے آپ فرماتے ہیں کہ ایران کے ایک بادشاہ نے شراب پی کر اپنی بہن سے زنا کیا اور دونوں کے درمیان تعلقات استوار ہوگئے جب بات کھل گئی اور لوگوں میں اس کا بہت چرچا ہوگیا تو بادشاہ نے اعلان کرایا کہ خدا نے بہن سے نکاح حلال کردیا ہے لوگوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا تو اس نے لوگوں کو طرح طرح کے عذاب دے کر یہ بات ماننے پر مجبور کیا یہاں تک کہ وہ آگ سے بھری ہوئی خندقوں میں ہر اس شخص کو ڈلوا دیتا تھا جو اس بات کو ماننے سے انکار کرتا، حضرت علی (رض) کا بیان ہے کہ اسی وقت سے مجوسیوں میں محرمات سے نکاح کا طریقہ رائج ہوا ہے۔ (ابن جریر)
تیسرا واقعہ :
حضرت ابن عباس نے غالباً اسرائیلی روایات سے نقل کیا ہے کہ بابل والوں نے یہودیوں کو دین موسیٰ سے منحرف ہوجانے پر مجبور کیا تھا یہاں تک کہ انہوں نے آگ سے بھری ہوئی خندقوں میں ان لوگوں کو پھینک دیا جو اس سے انکار کرتے تھے۔ (ابن جریر، عبد بن حمید)
10 Tafsir as-Saadi
یہاں جس چیز پر قسم کھائی گئی ہے ،وہ ہے اللہ کی بڑی بڑی نشانیاں، ظاہر حکمتیں اور بے پایاں رحمت جن کو یہ قسم متضمن ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ جس پر قسم کھائی گئی ہے، وہ ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد : ﴿قُتِلَ اَصْحٰبُ الْاُخْدُوْدِ﴾” ہلاک کردیے جائیں خندق (کھودنے ) والے۔“ یہ ان کے لیے ہلاکت کی بددعا ہے۔ ﴿ الْاُخْدُوْدِ﴾ سے مراد وہ گڑھے ہیں جو زمین میں کھودے جاتے ہیں۔ یہ اصحاب الاخدود (گڑھوں والے) کافر تھے اور ان کے ہاں کچھ اہل ایمان بھی تھے ۔ کفار نے ان کو اپنے دین میں داخل کرنا چاہا ، اہل ایمان نے اس سے انکار کردیا ۔ کفار نے زمین میں بڑے بڑے گڑھے بنائے ، ان کے اندر آگ جلائی اور ان کے اردگرد بیٹھ کر اہل ایمان کو آگ پر پیش کرکے ان کو آزمائش میں مبتلا کیا۔ پس ان میں جس کسی نے ان کفار کی بات مان لی ، اس کو چھوڑ دیا گیا اور جو اپنے ایمان پر ڈٹا رہا، اس کو آگ میں پھینک دیا۔ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے گروہ اہل ایمان کے خلاف انتہا کو پہنچی ہوئی محاربت ودشمنی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت فرمائی اور ان کو ہلاک کرڈالا اور ان کو وعید سنائی، چنانچہ فرمایا:﴿قُتِلَ اَصْحٰبُ الْاُخْدُوْدِ﴾ پھر ﴿ الْاُخْدُوْدِ﴾ کی تفسیر اپنے اس ارشاد سے کی :﴿النَّارِ ذَاتِ الْوَقُوْدِ اِذْ ہُمْ عَلَیْہَا قُعُوْدٌ وَّہُمْ عَلٰی مَا یَفْعَلُوْنَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ شُہُوْدٌ ﴾ ” وہ ایک آگ تھی ایندھن والی جبکہ وہ لوگ اس کے اردگرد بیٹھے تھے اور مسلمانوں کیساتھ جو کررہے تھے اس کا تماشا کررہے تھے۔“ یہ بدترین جبر اور قساوت قلبی ہے ،کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب کی، ان کے ساتھ عناد رکھا اور ان آیات پر ایمان رکھنے والوں کے خلاف محاربت کی اور اس قسم کے عذاب کے ذریعے سے ان کے لیے تعذیب کو جمع کردیا جن سے دل ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتے ہیں ، نیز یہ کہ جب اہل ایمان کو آگ کے ان گڑھوں میں ڈالا گیا تو یہ اس وقت موجود تھے اور حال یہ تھا کہ وہ اہل ایمان پر ان کی صرف اس حالت کی بنا پر ناراض تھے جس پر قابل ستائش تھے اور جس سے ان کی سعادت وابستہ تھی ، یعنی وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے تھے جو غالب اور قابل تعریف ہے ، یعنی جو اس غلبے کا مالک ہے ۔ جس کی بنا پر وہ ہر چیز پر غالب ہے اور وہ اپنے اقوال وافعال اور اوصاف میں قابل تعریف ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
kay khuda ki maar hai unn khandaq ( khodney ) walon per