الطارق آية ۱
وَالسَّمَاۤءِ وَالطَّارِقِۙ
طاہر القادری:
آسمان (کی فضائے بسیط اور خلائے عظیم) کی قَسم اور رات کو (نظر) آنے والے کی قَسم،
English Sahih:
By the sky and the night comer .
1 Abul A'ala Maududi
قسم ہے آسمان کی اور رات کو نمودار ہونے والے کی
2 Ahmed Raza Khan
آسمان کی قسم اور رات کے آنے والے کی، ف۲)
3 Ahmed Ali
آسمان کی قسم ہے اور رات کو آنے والے کی
4 Ahsanul Bayan
قسم ہے آسمان کی اور اندھیرے میں روشن ہونے والے کی۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
آسمان اور رات کے وقت آنے والے کی قسم
6 Muhammad Junagarhi
قسم ہے آسمان کی اور اندھیرے میں روشن ہونے والے کی
7 Muhammad Hussain Najafi
قَسم ہے آسمان کی اور رات کو نمودار ہو نے والے کی۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
آسمان اور رات کو آنے والے کی قسم
9 Tafsir Jalalayn
آسمان اور رات کے وقت آنے والے کی قسم
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، قسم ہے آسمان کی اور اس چیز کی جو رات کو نمودار ہونے والی ہے طارق اصل میں رات میں ہر آنے والے کو کہتے ہیں اور اسی میں ستارے ہیں اس لئے کہ یہ بھی رات ہی کو طلوع ہوتے ہیں، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کچھ معلوم ہے کہ وہ رات کو نمودار ہونے والیچیز کیا ہے ؟ (ما الطارق) مبتداء اور خبر ہیں جو کہ ادری کے مفعول ثانی کے محل میں ہے اور پہلے ما کا مابعد اس کی خبر ہے اور اس میں طارق کی شان کی تعظیم ہے جس کی مابعد کے ذریعہ تفسیر کی گئی ہے (اور طارق) روشن ثریا یا ہر روشن ستارہ ہے جو اپنی روشنی کے ذریعہ تاریکی کو پھاڑنے کی وجہ سے ثاقب کہلاتا ہے اور جواب قسم محذوف ہے، کوئی جان ایسی نہیں کہ جس کے اوپر کوئی نگہبان نہ ہو، ما کی تخفیف کے ساتھ، سو وہ زائدہ ہے اور ان ثقلیہ سے مخففہ ہے اور اس اسم محذوف ہے ای انہ اور لام (مخففہ اور نافیہ) کے درمیان فارقہ ہے اور لما تشدید کے ساتھ بھی ہے سو ان نافیہ ہے اور لما بمعنی الا ہے اور نگرانی کرنے والے فرشتے ہیں جو کہ ہر نفس کے اچھے برے عمل کی نگرانی کرتے ہیں پھر ذرا انسان اسی پر عبرت کی نظر کرے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے ؟ اس کا جواب خلق من ماء دافق ہے (یعنی) مرد اور عورت کے رحم میں اچھلنے والی پانی سے پیدا کیا گیا ہے جو مرد کی پیٹھ اور عورت کی پسلیوں کے درمیان سے نکلتا ہے اور ترائب سینے کی ہڈیوں کو کہتے ہیں، یقینا اللہ تعالیٰ انسان کے مرنے کے بعد دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے پس جب انسان اپنی اصل میں نظر عبرت سے غور کرے گا تو یہ بات سمجھ لے گا کہ جو ذات اس (ابتداء تخلیق) پر قادر ہے وہ اس کے اعادہ پر بھی قادر ہے، جس روز پوشیدہ اسرار کی جانچ پڑتال ہوگی اور ظاہر کئے جائیں گے، یعنی عقیدے اور نیتوں کے بارے میں دلوں کے مخفی رازوں کی (جانچ پڑتال ہوگی) تو اس وقت اس منکر بعث کے پاس نہ خود اپنا کوئی زور ہوگا کہ جس کے ذریعہ عذاب سے بچ سکے اور نہ کوئی اس کی مدد کرنے والا ہوگا جو اس کا دفاع کرسکے اور قسم ہے بارش برسانے والے آسمان کی مطر کو رجع کہنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ بار بار رجوع کرتی ہے اور شگاف والی زمین کی یعنی وہ شگاف جو نباتات کے نکلنے سے ہوتے ہیں بلاشبہ یہ قرآن ایک قول حاصل ہے، (جو) حق و باطل کے درمیان فیصلہ کرتا ہے اور وہ کوئی ہنسی مذاق نہیں ہے یعنی لہو و لعب اور باطل نہیں ہے، یہ کفار کچھ چالیں چل رہے ہیں یعنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مکر کر رہے ہیں اور میں بھی ایک چال چل رہا ہوں، یعنی انکو ڈھیل دے رہا ہوں اس طریقہ پر کہ وہ سمجھ نہیں پا رہے ہیں پس اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کافروں کو چھوڑ دو امھلھم تاکید ہے لفظی الفت نے اس میں حسن پیدا کردیا ہے یعنی ان کو کچھ وقت مہلت دیجیے (رویدا) معنی عامل کے لئے مئوکد ہے اور روداً حذف زوائد کے ساتھ ارود کا مصغر ہے اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بدر میں پکڑ لیا، اور مہلت آیت سیف سے سوخ ہوگئی، یعنی قتال و جہاد کے حکم سے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : اصلہ کل آت لیلاً ، طارق، طارق لغت میں کھٹکھٹانے والے کو کہتے ہیں رات میں آنے والے کو اسی لئے طارق کہتے ہیں کہ وہ بھی دروازہ کھٹکھٹاتا ہے، پھر اس میں وسعت کر کے رات میں ہر ظاہر ہونے والی چیز پر الاق ہونے لگا، پھر اس میں بھی توسیع دے کر مطلقاً ظاہر ہونے والی چیز کو کہا جانے لگا خواہ دن میں ظاہر ہو یا رات میں، اسی سے یہ حدیث ہے ” اعوذ بک من شر طارق اللیل و النھار الا طارقاً یطرق بخیریا رحمٰن “
قولہ : وما ادرک استفہام انکاری ہے اور ما الطارق میں استفہام تعظیم و تضحیم کے لئے ہے۔
قولہ : النجم، ھو مبتداء محذوف کی خبر ہے اور یہ اس ابہام کی تفسیر بھی ہے جو استفہام سے پیدا ہوا ہے۔
قولہ : الثریا اور کل نجم یہ النجم کی تفسیر کے تین اقوال میں سے دو ہیں تیسرا قول زحل کا ہے اور زحل کا مقام ساتواں آسمان ہے زحل آسمان کی خوبصورت ترین چیزوں میں سے ہے۔
قولہ : ان کل نفس الخ جواب قسم یہ، قسم اور جواب قسم کے درمیان وما ادرک الخ جملہ معترضہ ہے جو کہ مقسم بہ کی عظمت کو بیان کرنے کے لئے لایا گیا ہے۔
قولہ : بتخفیف ما، لما میں دو قراءتیں ہیں اول ما کی تخفیف کے ساتھ زائدہ اس صورت میں ان مخففہ عن الثقلیہ ہوگا اور اس کا اسم محذوف ہوگا، ای انہ اور لما کالام ان مخففہ اور نافیہ کے درمیان فارقہ ہوگا۔
قولہ : بتشدیدھا یہ لما کی دوسری قرأت کا بیان ہے اس صورت میں لما مشدد بمعنی الا ہوگا اور ان نافیہ ہوگا۔
قولہ : ذی اندفاق یہ دافق کی تفسیر ہے اس تفسیر کا مقصد اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ دافق اس فالع برائے نسبت ہے جیسا کہ لابن دودھ فروخت کرنے والا، تامر تمر فروخت کرین والا، دافق اچھلنے والا
قولہ : فی رحمھا یہ دافق سے متعلق ہے، مطلب یہ ہے کہ مرد کے نطفہ کا اندفاق، رحم مادر میں ہوتا ہے اور عورت کے نطفہ کا آلہ اندفاق تو رحم کے اندر ہوتا ہے اس طرح مرد اور عورت دونوں کے نطفہ کا اندفاق رحم ہی میں ہوتا ہے۔
قولہ : من بین الصلب میں بین زائدہ ہے اس لئے کہ بین کا استعمال متعدد میں ہوتا ہے اور صلب میں تعدد نہیں ہے الایہ کہ صلب سے مراد جزاء صلب ہوں تو تعدد کی صورت ہوسکتی ہے۔
قولہ : انہ لقول فصل، فصل بمعنی فاصل ہے یہ والسماء ذات الرجع الخ کا جواب قسم ہے۔
قولہ : تاکید حسنہ مخالفۃ اللفظ یعنی امھلھم، فمھل کی تاکید ہے مئوکد اور موکد کے درمیان لفظی اختلاف نے ایک قسم کا حسن پیدا کردیا ہے اور وہ اختلاف یہ ہے کہ مئوکد یعنی فمھل میں اسناد اسم ظاہر یعنی کافرین کی طرف ہے اور موکد یعنی امھلھم میں ضمیر ھم کی جانب ہے اس اختلاف سے افادہ جدید ہوا جو کہ حکم میں تاسیس کے ہے اور تاسیس تاکید سے بہتر ہے، اور مئوکد ومئوکد میں صیغہ کے اعتبار سے بھی اختلاف ہے یہ اختلاف بھی عبارت کے تنوع پر دلالت کرتا ہے جو کہ مطلوب ہے۔
قولہ : علی الترخیم اس کا تعلق اراداً سے ہے، اور رویدا ارواداً کی تصغیر ہے حذف زوائد کے بعد، امہال کا حکم جہاد کے حکم سے منسوخ ہوگیا۔
تفسیر و تشریح
والسماء و الطارق اس سورت میں حق تعالیٰ نے آسمان اور ستاروں کی قسم کھا کر ارشاد فرمایا ہے کہ ہر انسان پر محافظ اور نگران مقرر ہے جو اس کے تمام حرکات و سکنات وا فعال کو دیکھتا اور لکھتا ہے اور یہ لکھنا اور محفوظ کرنا حساب کے لئے جو قیامت کے دن ہوگا اس لئے عقل کا تقاضا ہے کہ انسان کبھی آخرت کی فکر سے غافل نہ ہو۔
حضرت خالد عدوانی (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بازار میں کمان یا لاٹھی کے سہارے کھڑے دیکھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس مدد حاصل کرنے آئے تھے، میں نے وہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سورة طارق سنی اور میں نے اسے یاد کرلیا حالانکہ میں ابھی مسلمان نہیں ہوا تھا پھر مجھے اللہ نے ایمان کی دولت سے نواز دیا۔ (مسند احمد، مجمع الزوائد)
طارق سے کیا مراد ہے ؟ خود قرآن نے واضح کردیا کہ روشن ستارہ مراد ہے، طارق طروق سے ماخوذ ہے جس کے لغوی معنی کھٹکھٹانے کے ہیں، رات میں آنے والے کو بھی طارق کہتے ہیں اس لئے کہ وہ بھی دروازہ کھٹکھٹاتا ہے ستاروں کو بھی اسی لئے طارق کہتے ہیں کہ وہ دن کو چھپے رہتے ہیں اور رات کو نمودار ہوتے ہیں۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَالسَّمَاءِ وَالطَّارِقِ﴾ ” آسمان اور طارق کی قسم ! “ پھر ﴿ الطَّارِقُ ﴾ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿النَّجْمُ الثَّاقِبُ﴾ یعنی روشن ستارہ ، جس کی روشنی آسمانوں میں سوراخ کردیتی ہے، آر پار چھید بن جاتا ہے حتی ٰکہ زمین سے دکھائی دیتا ہے۔ مگر صحیح یہ ہے کہ یہ اسم جنس ہے جو تمام روشن ستاروں کو شامل ہے ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس سے مراد ”زحل“ ہے جو ساتوں آسمانوں کو چھید کر سوراخ کردیتا ہے اور ان میں سے دیکھا جاسکتا ہے اور اس کو ﴿ الطَّارِقُ﴾ اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ رات کے وقت نمودار ہوتا ہے ۔ جس چیز پر قسم کھائی گئی ہے وہ ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد : ﴿اِنْ کُلُّ نَفْسٍ لَّمَّا عَلَیْہَا حَافِـظٌ﴾ ” ہر متنفس پر نگہبان مقرر ہے۔“ جو نفس کے اچھے برے اعمال کو محفوظ کرتا ہے اور ہر نفس کو اس کے عمل کی جزا وسزا دی جائے گی جسے اس کے لیے محفوظ کردیا گیا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
qasam hai aasman ki , aur raat ko aaney walay ki
12 Tafsir Ibn Kathir
تخلیق انسان
اللہ تعالیٰ آسمانوں کی اور ان کے روشن ستاروں کی قسم کھتا ہے طارق کی تفسیر چمکتے ستارے سے کی ہے وجہ یہ ہے کہ دن کو چھپے رہتے ہیں اور رات کو ظاہر ہوجاتے ہیں ایک صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمایا کہ کوئی اپنے گھر رات کے وقت بیخبر آجائے یہاں بھی لفظ طروق ہے، آپ کی ایک دعا میں بھی طارق کا لفظ آیا ہے ثاقب کہتے ہیں چمکیلے اور روشنی والے کو جو شیطان پر گرتا ہے اور اسے جلا دیتا ہے ہر شخص پر اللہ کی طرف سے ایک محافظ مقرر ہے جو اسے آفات سے بچاتا ہے جیسے اور جگہ ہے کہ آیت ( لَهٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهٖ يَحْفَظُوْنَهٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ ۭ وَاِذَآ اَرَاد اللّٰهُ بِقَوْمٍ سُوْۗءًا فَلَا مَرَدَّ لَهٗ ۚ وَمَا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مِنْ وَّالٍ 11) 13 ۔ الرعد :11) یعنی آگے پیچھے سے باری باری آنے والے فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم سے بندے کی حفاظت کرتے ہیں انسان کی ضعیفی کا بیان ہو رہا ہے کہ دیکھو تو اس کی اصل کیا ہے اور گویا اس میں نہایت باریکی کے ساتھ قیامت کا یقین دلایا گیا ہے کہ جو ابتدائی پیدائش پر قادر ہے وہ لوٹانے پر قادر کیوں نہ ہوگا جیسے فرمایا آیت ( وَهُوَ الَّذِيْ يَبْدَؤُا الْخَــلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ وَهُوَ اَهْوَنُ عَلَيْهِ 27 ) 30 ۔ الروم :27) یعنی جس نے پہلے پیدا کیا وہ ہی دوبارہ لوٹائے گا اور یہ اس پر بہت ہی آسان ہے انسان اچھلنے والے پانی یعنی عورت مرد کی منی سے پیدا کیا گیا ہے جو مرد کی پیٹھ سے اور عورت کی چھاتی سے نکلتی ہے عورت کا یہ پانی زرد رنگ کا اور پتلا ہوتا ہے اور دونوں سے بچہ کی پیدائش ہوتی ہے تریبہ کہتے ہیں ہار کی جگہ کو کندھوں سے لے کر سینے تک کو بھی کہا گیا ہے اور نرخرے سے نیچے کو بھی کہا گیا ہے اور چھاتیوں سے اوپر کے حصہ کو بھی کہا گیا ہے اور نیچے کی طرف چار پسلیوں کو بھی کہا گیا ہے اور دونوں چھاتیوں اور دونوں پیروں اور دونوں آنکھوں کے درمیان کو بھی کہا گیا ہے دل کے نچوڑ کو بھی کہا گیا ہے سینہ اور پیٹھ کے درمیان کو بھی کہا جاتا ہے وہ اس کے لوٹانے پر قادر ہے یعنی نکلے ہوئے پانی کو اس کی جگہ واپس پہنچا دینے پر اور یہ مطلب کہ اسے دوبارہ پیدا کر کے آخرت کی طرف لوٹانے پر بھی پچھلا قول ہی اچھا ہے اور یہ دلیل کئی مرتبہ بیان ہوچکی ہے پھر فرمایا کہ قیامت کے دن پوشیدگیاں کھل جائیں گی راز ظاہر ہوجائیں گے بھید آشکار ہوجائیں گے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں ہر غدار کی رانوں کے درمیان اس کے غدار کا جھنڈا گاڑ دیا جائے گا اور اعلان ہوجائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی غداری ہے اس دن نہ تو خود انسان کو کوئی قوت حاصل ہوگی نہ اس کا مددگار کوئی اور کھڑا ہوگا یعنی نہ تو خود اپنے آپ کو عذابوں سے بچا سکے گا نہ کوئی اور ہوگا جو اسے اللہ کے عذاب سے بچا سکے۔