Skip to main content

وَالسَّمَاۤءِ وَالطَّارِقِۙ

By the sky
وَٱلسَّمَآءِ
قسم ہے آسمان کی
and the night comer
وَٱلطَّارِقِ
اور رات کو آنے والے کی

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

قسم ہے آسمان کی اور رات کو نمودار ہونے والے کی

English Sahih:

By the sky and the night comer .

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

قسم ہے آسمان کی اور رات کو نمودار ہونے والے کی

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

آسمان کی قسم اور رات کے آنے والے کی، ف۲)

احمد علی Ahmed Ali

آسمان کی قسم ہے اور رات کو آنے والے کی

أحسن البيان Ahsanul Bayan

قسم ہے آسمان کی اور اندھیرے میں روشن ہونے والے کی۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

آسمان اور رات کے وقت آنے والے کی قسم

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

قسم ہے آسمان کی اور اندھیرے میں روشن ہونے والے کی

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

قَسم ہے آسمان کی اور رات کو نمودار ہو نے والے کی۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

آسمان اور رات کو آنے والے کی قسم

طاہر القادری Tahir ul Qadri

آسمان (کی فضائے بسیط اور خلائے عظیم) کی قَسم اور رات کو (نظر) آنے والے کی قَسم،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

تخلیق انسان
اللہ تعالیٰ آسمانوں کی اور ان کے روشن ستاروں کی قسم کھتا ہے طارق کی تفسیر چمکتے ستارے سے کی ہے وجہ یہ ہے کہ دن کو چھپے رہتے ہیں اور رات کو ظاہر ہوجاتے ہیں ایک صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمایا کہ کوئی اپنے گھر رات کے وقت بیخبر آجائے یہاں بھی لفظ طروق ہے، آپ کی ایک دعا میں بھی طارق کا لفظ آیا ہے ثاقب کہتے ہیں چمکیلے اور روشنی والے کو جو شیطان پر گرتا ہے اور اسے جلا دیتا ہے ہر شخص پر اللہ کی طرف سے ایک محافظ مقرر ہے جو اسے آفات سے بچاتا ہے جیسے اور جگہ ہے کہ آیت ( لَهٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهٖ يَحْفَظُوْنَهٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ ۭ وَاِذَآ اَرَاد اللّٰهُ بِقَوْمٍ سُوْۗءًا فَلَا مَرَدَّ لَهٗ ۚ وَمَا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مِنْ وَّالٍ 11۝) 13 ۔ الرعد ;11) یعنی آگے پیچھے سے باری باری آنے والے فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم سے بندے کی حفاظت کرتے ہیں انسان کی ضعیفی کا بیان ہو رہا ہے کہ دیکھو تو اس کی اصل کیا ہے اور گویا اس میں نہایت باریکی کے ساتھ قیامت کا یقین دلایا گیا ہے کہ جو ابتدائی پیدائش پر قادر ہے وہ لوٹانے پر قادر کیوں نہ ہوگا جیسے فرمایا آیت ( وَهُوَ الَّذِيْ يَبْدَؤُا الْخَــلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ وَهُوَ اَهْوَنُ عَلَيْهِ 27؀ ) 30 ۔ الروم ;27) یعنی جس نے پہلے پیدا کیا وہ ہی دوبارہ لوٹائے گا اور یہ اس پر بہت ہی آسان ہے انسان اچھلنے والے پانی یعنی عورت مرد کی منی سے پیدا کیا گیا ہے جو مرد کی پیٹھ سے اور عورت کی چھاتی سے نکلتی ہے عورت کا یہ پانی زرد رنگ کا اور پتلا ہوتا ہے اور دونوں سے بچہ کی پیدائش ہوتی ہے تریبہ کہتے ہیں ہار کی جگہ کو کندھوں سے لے کر سینے تک کو بھی کہا گیا ہے اور نرخرے سے نیچے کو بھی کہا گیا ہے اور چھاتیوں سے اوپر کے حصہ کو بھی کہا گیا ہے اور نیچے کی طرف چار پسلیوں کو بھی کہا گیا ہے اور دونوں چھاتیوں اور دونوں پیروں اور دونوں آنکھوں کے درمیان کو بھی کہا گیا ہے دل کے نچوڑ کو بھی کہا گیا ہے سینہ اور پیٹھ کے درمیان کو بھی کہا جاتا ہے وہ اس کے لوٹانے پر قادر ہے یعنی نکلے ہوئے پانی کو اس کی جگہ واپس پہنچا دینے پر اور یہ مطلب کہ اسے دوبارہ پیدا کر کے آخرت کی طرف لوٹانے پر بھی پچھلا قول ہی اچھا ہے اور یہ دلیل کئی مرتبہ بیان ہوچکی ہے پھر فرمایا کہ قیامت کے دن پوشیدگیاں کھل جائیں گی راز ظاہر ہوجائیں گے بھید آشکار ہوجائیں گے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں ہر غدار کی رانوں کے درمیان اس کے غدار کا جھنڈا گاڑ دیا جائے گا اور اعلان ہوجائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی غداری ہے اس دن نہ تو خود انسان کو کوئی قوت حاصل ہوگی نہ اس کا مددگار کوئی اور کھڑا ہوگا یعنی نہ تو خود اپنے آپ کو عذابوں سے بچا سکے گا نہ کوئی اور ہوگا جو اسے اللہ کے عذاب سے بچا سکے۔