الغاشیہ آية ۱
هَلْ اَتٰٮكَ حَدِيْثُ الْغَاشِيَةِۗ
طاہر القادری:
کیا آپ کو (ہر چیز پر) چھا جانے والی قیامت کی خبر پہنچی ہے،
English Sahih:
Has there reached you the report of the Overwhelming [event]?
1 Abul A'ala Maududi
کیا تمہیں اُس چھا جانے والی آفت کی خبر پہنچی ہے؟
2 Ahmed Raza Khan
بیشک تمہارے پاس اس مصیبت کی خبر آئی جو چھا جائے گی
3 Ahmed Ali
کیا آپ کے پاس سب پرچھا جانے والی (قیامت) کا حال پہنچا
4 Ahsanul Bayan
کیا تجھے بھی چھپا لینے والی (قیامت) کی خبر پہنچی ہے (١)۔
١۔١غاشیہ سے مراد قیامت ہے، اس لئے کہ اس کی ہولناکیاں تمام مخلوق کو ڈھانک لیں گی۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
بھلا تم کو ڈھانپ لینے والی (یعنی قیامت کا) حال معلوم ہوا ہے
6 Muhammad Junagarhi
کیا تجھے بھی چھپا لینے والی (قیامت) کی خبر پہنچی ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
کیا تمہیں (کائنات پر) چھا جانے والی (مصیبت یعنی قیامت) کی خبر پہنچی ہے؟
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
کیا تمہیں ڈھانپ لینے والی قیامت کی بات معلوم ہے
9 Tafsir Jalalayn
بھلا تم کو ڈھانپ لینے والی (قیامت) کا حال معلوم ہوا ہے ؟
ترجمہ :۔ شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، کیا تجھے چھا جانے والی قیامت کی خبر پہنچی (قیامت کو غاشیہ) اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی ہولناکیوں کے ذریعہ پوری مخلوق پر چھا جائے گی، کچھ چہرے اس روز ذلیل ہوں گے دونوں جگہ شخصیات کو وجوہ سے تعبیر کیا گیا ہے، سخت محنت جھیل رہے ہوں گے طوق اور زنجیروں کی وجہ سے سخت محنت و مشقت جھیل رہے ہوں گے، وہ سخت آگ میں جھلس رہے ہوں گے (تصلیٰ ) تاء کے ضمہ اور فتحہ دونوں کے ساتھ ہے، نہایت گرم کھولتے ہوئے چشمے کا پانی انہیں پینے کے لئے دیا جائے گا ان کے لئے سوائے کانٹے دار درختوں کے اور کوئی غذذا نہ ہوگی، (ضریع) ایک قسم کی کانٹے دار گھاس ہے جسے اس کے خبث کی وجہ سے کوئی جانور نہیں چرتا، جو نہ موٹا کرے گی اور نہ بھوک مٹائے گی کچھ چہرے اس روز بارونق ہوں گے دنیا میں طاعت کی کارگزایر پر خوش ہوں گے، جب حسا و معناً عالی مقام جنت میں (اپنی) سعی کا ثواب دیکھیں گے، اے مخاطب ! کوئی بےہودہ بات وہاں نہ سنے گا یسمع یا اور تا کے ساتھ، یعنی بےہودہ کلام، وہاں پانی کے بہتے چشمے ہوں گے عین بمعنی عیون ہے اس میں ذات اور مرتبہ اور محل کے اعتبار سے اونچے اونچے تخت ہوں گے اور چشموں کے کنارے بغیر دستے (ٹونٹی) کے ساغر رکھے ہوں گے جو جنتیوں کے پینے کے لئے بنائے گئے ہوں گے اور گائو تکیوں کیق طاریں لگی ہوں گی جن پر ٹیک لگائی جائے گی، اور مخملی غالیچے بچھے ہوئے ہوں گے، یعنی ایسے فرش جو روئیں دار ہوں گے، کیا یہ کفار مکہ عبرت کی نظر سے اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بنائے گئے ہیں ؟ (اور کیا) آسمان کو نہیں دیکھتے کہ ان کو کس طرح اونچا کیا گیا ہے ؟ اور (کیا) پہاڑوں کو نہیں دیکھتے کیسے جمائے گئے ہیں ؟ اور (کیا) زمین کو نہیں دیکھتے کہ کس طرح بچھائی گئی ہے کہ ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ ک قدرت اور اس کی وحدانیت پر استدلال کریں، ابل کو شروع میں لایا گیا ہے اس لئے کہ عرب بہ نسبت دیگر چیزوں کے ان سے زیادہ گھلے ملے رہتے تھے، اور اللہ تعالیٰ کا قول سطحت اس بات پر ظاہر الد لالت ہے کہ زمین مسطح ہے اور اسین ظریہ پر علماء شرع ہیں، نہ کہ گول جیسا کہ اہل ہیئت کا قول ہے اگرچہ زمین کے گول ہونے سے شریعت کا کوئی رکن نہیں وٹتا، پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نصیحت کرنے والے ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان پر داروغہ نہیں ہیں اور ایک قرأت میں سین کے بجائے صاد کے ساتھ ہے یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلط نہیں ہیں اور یہ حکم، جہاد کا حکم آنے سے پہلے کا ہے البتہ جو ایمان سے اعراض کرے گا اور قرآن کا انکار کرے گا تو اللہ اس کو بھاری سزا دے گا (یعنی) آخرت کا عذاب، اور اصغر دنیا کا عذاب ہے قتل اور قید کے ساتھ، بلاشبہ ان لوگوں کو موت کے بعد ہماری ہی طرف پلٹنا ہے، پھر ان کا حساب لینا یعنی ان کی جزا و سزا ہمارے ذمہ ہے کہ ہم اس کو ہرگز ترک نہ کریں گے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : ھل اتلک ایک جماعت نے کہا ہے کہ ھل بمعنی قد ہے، ای قد جاءک یا محمد ! حدیث الغاشیۃ اور ہا گیا ہے کہ ھل اپنے معنی پر ہے اور تعجب کے معنی کو متضمن ہے۔
قولہ : وجوہ یومئذ یہ جملہ مستانفہ سوال مقدر کا جواب ہے۔
قولہ : ماحدیث الغاشیۃ ؟
قولہ : وجوہ یومئذ خاشعۃ وجوہ مبتداء ہے اور خاشعۃ اس کی خبر ہے۔
سوال : وجوہ نکرہ ہے اس کا مبتداء بننا کس طرح درست ہے ؟
جواب : نکرہ چونکہ مقام تفصیل میں واقع ہے لہٰذا اس کا مبتداء بننا صحیح ہے، یومئذ میں تنوین مضاف الیہ کے عوض میں ہے ای یوم غشیان الغاشیۃ یہاں وجوہ سے اصحاب وجوہ مراد ہیں یہ اطلاق الجزاء علی الکل کے قبیل سے ہے، وجہ چونکہ اشرف الاعضاء ہے اس لئے اس کو اختیار کیا گیا ہے۔
قولہ : عاملۃ محنت کشندہ، مشقت اٹھانے والا۔
قولہ : ناصبۃ تھکنے والا، درماندہ عاملۃ ناصبۃ رفع کے ساتھ یہ دونوں مبتداء کی دوسری خبر ہیں۔
قولہ : آنیۃ کھولتا ہوا پانی، انی سے اسم فاعل و احد مئونث
قولہ : ضریع خار دار جھاڑ، ضریع ایک گھاس ہے جس کو شبرق کہا جاتا ہے اور جب یہ گھاس خشک ہوجاتی ہے تو اہل حجاز اس کو ضریع کہتے ہیں اور یہ زہر ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب التفسیر)
قولہ : لاتسمع فیھا لاغیۃ (١) جمہور کے نزدیک تاء فوقانیہ کے فتحہ اور لاغیۃ کے نصب کے ساتھ ہے، ای لا تسمع انت ایھا المخاطب فیھا لاغیۃ (یا) لاتسمع تلک الوجوہ لاغیۃ (٢) اور ابن کثیر اور ابو عمرو نے یاء تختانیہ مضمومہ کے ساتھ مبنی للمفعول لاغیۃ کے رفع کے ساتھ پڑھا ہے (٣) اور نافع نے تاء فوقانیہ مضمومہ کے ساتھ مبنی للمفعول پڑھا ہے (٤) اور فضل اور حجدری نے تاء فوقانیہ کے فتحہ کے ساتھ مبنی للفاعل اور لاغیۃ کے نصب کے ساتھ پڑھا ہے لاغیۃ یہ موصوف محذوف کی صفت ہے، ای کلمۃ لاغیۃ (یا) نفساً لاغیۃ (یا) عافیہ کے وزن پر مصدر بمعنی لغواً ہے، ای لایسمع فیھا لغواً
قولہ : ای نفس ذات لغو اس اضافہ کا مقصد اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ نفس، لاتسمع کا فاعل ہے، لاغیۃ مفعول بہ، اور تاء والی قرأت میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ لاتسمع کا فاعل انت محذوف ہو اور نفساً لاغیۃ مفعول اس صورت میں نفساً محذوف ماننے کے بجائے کلمۃ بھی محذوف مان سکتے ہیں، ای کلمۃ ذات لغو
قولہ : اکو اب اقداح لاعری لھا، اکواب، کو ب کی جمع ہے بروزن قفل واقفال، کو ب اس برتن کو کہتے ہیں جس میں دستہ اور ٹونٹی نہ ہو مثلاً گلاس، پیالہ وغیرہ۔
قولہ : نمارق یہ نمرقۃ کی جمع ہے، نون اور اء کے ضمہ اور دونوں کے کسرہ کے ساتھ بمعنی تکئے، مسند
قولہ : زرابی زربیۃ کی جمع ہے۔
قولہ : طنافس یہ طنفسۃ مثلث کی جمع ہے، روئیں دار فرش، چٹائی، قالین، مخملی فرش
تفسیر و تشریح
ھل اتلک حدیث الغاشیۃ یہاں غاشیہ سے مراد قیامت ہے یعنی وہ آفت کہ جو سارے جہان پر چھا جائے گی، اس آیت میں مجموعی طور پر پورے عالم آخرت کا ذکر ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک وتعالیٰ قیامت کے احوال اور اس کی مصیبت خیز ہولناکیوں کا ذکر کرتا ہے کہ قیامت تمام مخلوق کو اپنی سختیوں سے ڈھانپ لے گی، لوگوں کو ان کے اعمال کی جزا وسزا دی جائے گی ، لوگ الگ الگ دو گروہوں میں بٹ جائیں گے، ایک گروہ جنت میں جائے گا اور دوسرا گروہ جہنم کو سدھارے گا ۔ پس اللہ تعالیٰ نے دوگروہوں کے وصف سے آگاہ فرمایا۔
11 Mufti Taqi Usmani
kiya tumhen uss waqaey ( yani qayamat ) ki khabar phonchi hai jo sabb per chah jaye ga-?
12 Tafsir Ibn Kathir
سب کو ڈھانپنے والی حقیقت
غاشیہ قیامت کا نام ہے اس لیے کہ وہ سب پر آئیگی سب کو گھیرے ہوئے ہوگی اور ہر ایک کو ڈھانپ لے گی ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہیں جا رہے تھے کہ ایک عورت کی قرآن پڑھنے کی آواز آئی آپ کھڑے ہو کر سننے لگے اس نے یہی آیت ھل اتک پڑھی یعنی کیا تیرے پاس ڈھانپ لینے والی قیامت کی بات پہنچی ہے ؟ تو آپ نے جواباً فرمایا نعم قد جآءنی یعنی ہاں میرے پاس پہنچ چکی ہے اس دن بہت سے لوگ ذلیل چہروں والے ہوں گے پستی ان پر برس رہی ہوں گی ان کے اعمال غارت ہوگئے ہوں گے انہوں نے تو بڑے بڑے اعمال کیے تھے سخت تکلیفیں اٹھائی تھیں وہ آج بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوگئے ایک مرتبہ حضرت عمر ایک خانقاہ کے پاس سے گزرے وہاں کے راہب کو آواز دی وہ حاضر ہوا آپ اسے دیکھ کر روئے لوگوں نے پوچھا حضرت کیا بات ہے ؟ تو فرمایا اسے دیکھ کر یہ آیت یاد آگئی کہ عبادت اور ریاضت کرتے ہیں لیکن آخر جہنم میں جائیں گے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اس سے مراد نصرانی ہیں عکرمہ اور سدی فرماتے ہیں کہ دنیا میں گناہوں کے کام کرتے رہے اور آخرت میں عذاب کی اور مار کی تکلیفیں برداشت کریں گے یہ سخت بھڑکنے والی جلتی تپتی آگ میں جائیں گے جہاں سوائے ضریع کے اور کچھ کھانے کو نہ ملے گا جو آگ کا درخت ہے یا جہنم کا پتھر ہے یہ تھوہر کی بیل ہے اس میں زہریلے کانٹے دار پھل لگتے ہیں یہ بدترین کھانا ہے اور نہایت ہی برا نہ بدن بڑھائے نہ بھوک مٹائے یعنی نہ نفع پہنچے نہ نقصان دور ہو۔