التوبہ آية ۱
بَرَاۤءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖۤ اِلَى الَّذِيْنَ عَاهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ ۗ
طاہر القادری:
اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے بے زاری (و دست برداری) کا اعلان ہے ان مشرک لوگوں کی طرف جن سے تم نے (صلح و امن کا) معاہدہ کیا تھا (اور وہ اپنے عہد پر قائم نہ رہے تھے)،
English Sahih:
[This is a declaration of] disassociation, from Allah and His Messenger, to those with whom you had made a treaty among the polytheists.
1 Abul A'ala Maududi
اعلان برات ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اُن مشرکین کو جن سے تم نے معاہدے کیے تھے
2 Ahmed Raza Khan
بیزاری کا حکم سنانا ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ان مشرکوں کو جن سے تمہارا معاہدہ تھا اور وہ قائم نہ رہے
3 Ahmed Ali
الله اور اس کے رسول کی طرف سے ان مشرکوں سے بیزاری ہے جن سے تم نے عہد کیا تھا
4 Ahsanul Bayan
اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے بیزاری کا اعلان ہے (١) ان مشرکوں کے بارے میں جن سے تم نے عہد پیمان کیا تھا۔
وجہ تسمیہ; اس کے مفسرین نے متعدد نام ذکر کئے ہیں لیکن زیادہ مشہور دو ہیں۔ ایک توبہ اس لئے کہ اس میں بعض مومنین کی توبہ قبول ہونے کا ذکر ہے۔ دوسرا براءۃ اس میں مشرکوں سے برات کا اعلان عام ہے۔ یہ قرآن مجید کی واحد سورت ہے جس کے آغاز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم درج نہیں ہے۔ اس کی بھی متعدد وجوہات کتب تفسیر میں درج ہیں۔ لیکن زیادہ صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ سورہ انفال اور سورہ توبہ ان دونوں کے مضامین میں بڑی یکسانیت پائی جاتی ہے یہ سورت گویا سورہ انفال کا تتمہ یا بقیہ ہے۔ یہ سات بڑی سورتوں میں ساتویں بڑی سورت ہے جنہیں سبع طوال کہا جاتا ہے۔
۱۔١ فتح مکہ کے بعد ٩ ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر صدیق، حضرت علی اور دیگر صحابہ کو قرآن کریم کی یہ آیت اور یہ احکام دے کر بھیجا تاکہ وہ مکے میں ان کا عام اعلان کردیں۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق اعلان کر دیا کہ کوئی شخص بیت اللہ کا عریاں طواف نہیں کرے گا، بلکہ آئندہ سال سے کسی مشرک کو بیت اللہ کے حج کی اجازت نہیں ہوگی (صحیح بخاری)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(اے اہل اسلام اب) خدا اور اس کے رسول کی طرف سے مشرکوں سے جن سے تم نے عہد کر رکھا تھا بیزاری (اور جنگ کی تیاری) ہے
6 Muhammad Junagarhi
اللہ اوراس کے رسول کی جانب سے بیزاری کا اعلان ہے۔ ان مشرکوں کے بارے میں جن سے تم نے عہد وپیمان کیا تھا
7 Muhammad Hussain Najafi
(اے مسلمانو) خدا اور اس کے رسول کی طرف سے اعلانِ برأت ہے ان مشرکین سے جن سے تم نے (صلح کا) معاہدہ کیا تھا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
مسلمانو جن مشرکین سے تم نے عہد و پیمان کیا تھا اب ان سے خدا و رسول کی طرف سے مکمل بیزاری کا اعلان ہے
9 Tafsir Jalalayn
(اے اہل اسلام اب) خدا اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے مشرکوں سے جن سے تم نے عہد کر رکھا تھا بیزاری (اور جنگ کی تیاری ہے)
سُوْرَةُالتَّوْبَةِ مَدَنِیَّة او اِلاَّالاٰ یتین اخرھا مائة وث الا ایة
سورة توبہ مدنی ہے مگر دو آیتیں یا ایک آیت جو کہ سورة توبہ کی آخری آیت ہے
کل ایک سو تیس آیتیں ہیں۔
وضاحت : بعض نسخوں میں پہلا اَوْ نہیں ہے جیسا کہ جمل کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے، ازروئے تحقیق یہی قول راجح معلوم ہوتا ہے
مطلب : مطلب یہ ہے کہ پوری سورة توبہ مدنی ہے مگر علی اختلاف القولین سورت کی آخری دو آیتیں یا ایک آیت مکی ہے آخری دو آیتیں \&\& لقد جاء کم رسول من انفسکم الخ ہیں \&\& بعض حضرات نے الاّ آیة کو مائة وثلثون سے مستثنیٰ قرار دیا ہے اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ کل ایک سو تیس آیتیں ہیں مگر ایک کم یعنی ایک سو انتیس آیتیں ہیں اس صورت میں ترکیب واضح ہیں چناچہ ایک روایت ١٢٩ کی بھی ہے۔
فائدہ : جن نسخوں میں پہلا او نہیں ہے اس صورت میں دو قول ہوں گے (١) پوری سورت مدنی ہے یا آخری دو آیتوں کے سوا پوری سورت مدنی ہے اور جن نسخوں میں او ہے اس کے اعتبار سے تین قول ہوں گے۔ (٢) پوری سورت مدنی۔ (٣) پوری سورت مدنی مگر آخری دو آیتیں۔ (٤) پوری سورت مدنی مگر آخر کی ایک آیت، حالانکہ قول صرف دو ہی ہیں، معلوم ہوا کہ پہلا او سبقت قلم یا کتابت کی غلطی ہے۔
ترکیب : سورة التوبة بترکیب اضافی مبتداء، مدنیة مستثنیٰ منہ الا حرف استثنائ، ال آیتین ذوالحال، آخرھا بترکیب اضافی حال، حال ذوالحال سے مل کر معطوف علیہ، اَوْ حرف عطف الا حرف استثناء آیة معطوف، معطوف اپنے معطوف علیہ سے مل کر مبتداء کی خبر اول، مائة وثلٰثون ممیز آیة تمیز محذوف، ممیز اپنی تمیز سے مل کر مبتداء کی خبر ثانی، مبتداء اپنی دونوں خبروں سے مل کر جملہ اسمیہ خبریہ ہوا۔
آیت نمبر ١ تا ٧
ترجمہ : اس سورت کے آغاز میں بسم اللہ نہیں لکھی گئی اس لئے کہ اس کا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم نہیں فرمایا جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوا ہے جس کو حاکم نے روایت کیا ہے، اور اسی کے ہم معنی حضرت علی (رض) سے روایت کیا گیا ہے کہ بسم اللہ امان ہے اور یہ سورت تلوار (جہاد) کے ذریعے رفع امن کے لئے نازل ہوئی ہے اور (حضرت) حذیفہ (رض) سے مروی ہے کہ تم اس سورت کو سورة توبہ کہتے ہو حالانکہ یہ سورة عذاب ہے اور (امام) بخاری نے (حضرت) براء (رض) (بن عازب) سے روایت کیا ہے کہ یہ آخری سورت ہے جو نازل ہوئی، یہ اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے بیزاری کا اعلان ہے (جو کہ) ان مشرکوں کے متعلق ہے جن سے تم نے مطلق (یعنی غیر میعادی) یا چار ماہ سے کم وبیش کا عہد کیا ہو اور (مشرکوں نے) نقض عہد کیا ہو (اظہار بیزاری) اللہ تعالیٰ کے قول (فسیحوا الخ) میں مذکور ہے (یعنی) اے مشرکو ! تم چار ماہ تک ملک میں امن کے ساتھ اور چل پھر لو، جس کی ابتداء شوال سے ہوگی آئندہ دلیل کی رو سے اور اس مدت کے بعد تمہارے لئے امن نہ ہوگا، یاد رکھو تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو یعنی اس کے عذاب سے بچ کر نہیں نکل سکتے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ منکرین (حق) کو رسوا کرنے والا ہے (یعنی) ان کو دنیا میں قتل کے ذریعہ اور آخرت میں آگ کے ذریعہ ذلیل کرنے والا ہے اور اعلان عام ہے اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے تمام لوگوں کے لئے حج اکبر (یعنی) قربانی کے دن بایں طور کہ اللہ تعالیٰ مشرکوں اور ان کے معاہدوں سے بری ہے اور اس کا رسول بھی بری ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی سال حضرت علی (رض) کو (مکہ) بھیجا اور یہ (ہجرت کا) نواں سال تھا، چناچہ حضرت علی (رض) نے یوم نحر میں منیٰ کے میدان میں ان آیات کا اعلان فرمایا، اور یہ کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے گا اور نہ کوئی بیت اللہ کا بحالت عریاں طواف کرے گا، (رواہ البخاری) پس اگر تم کفر سے توبہ کرلو، تو یہ تمہارے ہی لئے بہتر ہے اور اگر تم ایمان سے روگردانی کرو گے تو یاد رکھو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو اور کافروں کو دردناک عذاب کی خبر دے دو اور وہ قتل وقید ہے دنیا میں اور آگ ہے آخرت میں بجز ان مشرکوں کے جن سے تم نے معاہدے کئے درد عذاب کی خبر دے دو اور وہ قتل وقید ہے دنیا میں اور آگ ہے آخرت میں بجز ان مشرکوں کے جن سے تم نے معاہدے کئے ہوں پھر انہوں نے تمہارے معاہدہ کی مدت پوری ہونے تک وفا کرو اس لئے کہ اللہ تعالیٰ وفا کرنے والے متقیوں کو پسند کرتا ہے، پس جب (اشہر حرم) حرام مہینے گذر جائیں اور وہ معاہدہ کی آخری مدت ہے تو مشرکوں کو قتل کرو جہاں پائو حل میں یا حرم میں، اور ان کو قید کرلو اور ان کو قلعوں میں اور گڑھوں میں محصور کردو یہاں تک کہ قتال یا اسلام کے لئے مجبور ہوجائیں اور ان کی خبر لینے کے لئے ہر گھات میں تاک لگا کر بیٹھو (یعنی) ان کی گذرگاہوں پر بیٹھو اور کلَّ کا نصب حذف جار کی وجہ سے ہے پھر اگر وہ کفر سے توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰة ادا کریں تو ان کا راستہ چھوڑ دو ، اور ان سے تعرض نہ کرو بیشک اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والے کو معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے اور اگر مشرکوں میں سے کوئی تم سے پناہ چاہے (یعنی) قتل سے آپ سے پناہ چاہے تو اس کو قتل سے امن دے دو (اَحَد) اس فعل (محذوف) کی وجہ سے مرفوع ہے جس کی تفسیر استجارک کر رہا ہے تاکہ وہ اللہ کا کلام قرآن سنے پھر اس کو اس کے مأمن (یعنی) پناہ گاہ تک پہنچا دو ، یعنی اگر وہ ایمان نہ لائے تو اس کو اس کی امن کی جگہ پہنچا دو ، اور وہ اس کی قوم کا علاقہ ہے تاکہ وہ اپنے معاملہ میں غور کرسکے یہ مذکورہ بات اس لئے ضروری ہے کہ یہ لوگ پوری طرح باخبر نہیں ہیں۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : عن حذیفة، اس اضافہ کا مقصد حضرت علی (رض) کے قول کی تائید ہے۔
قولہ : ھذہ، اس اضافہ کا مقصد اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ برآء ة، ھذہ مبتداء محذوف کی خبر ہے اس سے رد ہوگیا ان حضرات کا جنہوں نے کہا ہے کہ برآء ة مبتداء ہے اور الی الّذین عَاھَدْتم الخ، برآء ة کی خبر ہے، اسلئے کہ براء ة نکرہ ہے جس کا متبداء واقع ہونا درست نہیں ہے
قولہ : واصلة مفسر علام نے واصلة محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ من اللہ میں من ابتدائیہ ہے جو واصلة محذوف سے متعلق ہے تقدیر عبارت یہ ہے ھذہ براء ة واصلة الی الذین عاھدتم من اللہ ورسولہ۔
10 Tafsir as-Saadi
یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے تمام مشرکین و معاندین سے اظہار برأت ہے۔ انہیں چار ماہ کی مہلت دی گئی ہے کہ وہ مسلمانوں کی طرف سے مامون ہیں، اس میں وہ اپنے اختیار سے زمین میں چل پھر لیں۔ چار ماہ کے بعد ان کے ساتھ کوئی معاہدہ و میثاق نہیں۔ یہ معاملہ ان کفار کے ساتھ ہے جن کے ساتھ لامحدود مدت کے لئے معاہدہ یا معاہدہ کی مدت چار ماہ یا اس سے کم ہے۔ رہا وہ معاہدہ جو چار ماہ سے زیادہ مدت کے لئے کیا گیا ہو، اگر معاہدے سے خیانت کا خدشہ نہ ہو اور اس سے نقض عہد کی بھی ابتدا نہ ہوئی ہو تو مدت معینہ تک اس کے ساتھ کئے گئے معاہدے کو پورا کیا جائے گا۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے معاہدین کو ان کی مدت عہد کے بارے میں ڈرایا ہے کہ اگرچہ وہ اس دوران میں مامون و محفوظ ہیں مگر وہ اللہ تعالیٰ کو عاجز کرسکیں گے نہ اس سے بچ سکیں گے اور ان میں سے جو کوئی اپنے شرک پر قائم رہے گا اللہ تعالیٰ ضرور اسے رسوا کرے گا اور یہ چیز ان کے اسلام میں داخل ہونے کا باعث بن گئی۔ سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے معاندانہ رویہ اختیار کیا اور اپنے کفر پر اصرار اور اللہ تعالیٰ کی وعید کی کوئی پروا نہیں کی۔
11 Mufti Taqi Usmani
. ( musalmano ! ) yeh Allah aur uss kay Rasool ki taraf say dastbardari ka aelaan hai unn tamam mushrikeen kay khilaf jinn say tum ney moahida kiya huwa hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
یہ سورت سب سے آخر رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اتری ہے بخاری شریف میں ہے سب سے آخر ( آیت یسفتونک الخ، ) اتری اور سب سے آخری سورت سورة براۃ اتری ہے۔ اس کے شروع میں بسم اللہ نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ صحابہ نے امیرالمومنین حضرت عثمان بن عفان (رض) کی اقتدا کر کے اسے قرآن میں لکھا نہیں تھا۔ ترمذی شریف میں ہے کہ حضرت ابن عباس نے حضرت عثمان سے پوچھا کہ آخر کیا وجہ ہے آپ نے سورة انفال کو جو مثانی میں سے ہے اور سورة براۃ کو جو مئین میں سے ہے ملا دیا اور ان کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھی اور پہلے کی سات لمبی سورتوں میں انہیں رکھیں ؟ آپ نے جواب دیا کہ بسا اوقات حضور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایک ساتھ کوئی سورتیں اترتی تھیں۔ جب آیت اترتی آپ وحی کے لکھنے والوں میں سے کسی کو بلا کر فرما دیتے کہ اس آیت کو فلاں سورت میں لکھ دو جس میں یہ یہ ذکر ہے۔ سورة انفال مدینہ شریف میں سب سے پہلے نازل ہوئی اور سورة براۃ سب سے آخر میں اتری تھی بیانات دونوں کے ملتے جلتے تھے مجھے ڈر لگا کہ کہیں یہ بھی اسی میں سے نہ ہو حضور صلی اللہ علیہ کا انتقال ہوگیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم سے نہیں فرمایا کہ یہ اس میں سے ہے اس لیے میں نے دونوں سورتیں متصل لکھیں اور انکے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھیں اور سات پہلی لمبی سورتوں میں انہیں رکھا۔ اس سورت کا ابتدائی حصہ اس وقت اترا جب آپ غزوہ تبوک سے واپس آرہے تھے۔ حج کا زمانہ تھا مشرکین اپنی عادت کے مطابق حج میں آکر بیت اللہ شریف کا طواف ننگے ہو کر کیا کرتے تھے۔ آپ نے ان میں خلا ملا ہونا ناپسند فرما کر حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو حج کا امام بنا کر اس سال مکہ شریف روانہ فرمایا کہ مسلمانوں کو احکام حج سکھائیں اور مشرکوں میں اعلان کردیں کہ وہ آئندہ سال سے حج کو نہ آئیں اور سورة براۃ کا بھی عام لوگوں میں اعلان کردیں۔ آپ کے پیچھے پھر حضرت علی (رض) کو بھیجا کہ آپ کا پیغام بحیثیت آپ کے نزدیکی قرابت داری کے آپ بھی پہنچا دیں جیسے کہ اس کا تفصیلی بیان آرہا ہے۔ انشاء اللہ۔ پس فرمان ہے کہ یہ بےتعلق ہے۔ اور اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے بعض تو کہتے ہیں یہ اعلان اس عہد و پیمان کے متعلق پہچان سے کوئی وقت معین نہ تھا یا جن سے عہد چار ماہ سے کم کا تھا لیکن جن کا لمبا عہد تھا وہ بدستور باقی رہا۔ جیسے فرمان ہے کہ ( فَاَتِمُّــوْٓا اِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ اِلٰى مُدَّتِهِمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ ) 9 ۔ التوبہ :4) ان کی مدت پوری ہونے تک تم ان سے ان کا عہد نبھاؤ۔ حدیث شریف میں بھی ہے کہ آپ نے فرمایا ہم سے جن کا عہد و پیمان ہے ہم اس پر مقررہ وقت تک پابندی سے قائم ہیں گو اس بارے میں اوراقوال بھی ہیں لیکن سب سے اچھا اور سب سے قوی قول یہی ہے۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ جن لوگوں سے عہد ہوچکا تھا ان کے لیے چار ماہ کی حد بندی اللہ تعالیٰ نے مقرر کی اور جن سے عہد نہ تھا ان کے لیے حرمت والے مہینوں کے گذر جانے کی عہد بندی مقرر کردی یعنی دس ذی الحجہ سے محرم الحرام تک کے پچاس دن۔ اس مدت کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان سے جنگ کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے جب تک وہ اسلام قبول نہ کرلیں۔ اور جن سے عہد ہے وہ دس ذی الحجہ کے اعلان کے دن سے لے کر بیس ربیع الآخر تک اپنی تیاری کرلیں پھر اگر چاہیں مقابلے پر آجائیں یہ واقعہ سنہ\0\09ھ کا ہے۔ آپ نے حضرت ابوبکر کو امیر حج مقرر کر کے بھیجا تھا اور حضرت علی کو تیس یا چالیس آیتیں قرآن کی اس صورت کی دے کر بھیجا کہ آپ چار ماہ کی مدت کا اعلان کردیں۔ آپ نے ان کے ڈیروں میں گھروں میں منزلوں میں جا جا کر یہ آیتیں انہیں سنا دیں اور ساتھ ہی سرکار نبوت کا یہ حکم بھی سنا دیا کہ اس سال کے بعد حج کے لیے کوئی مشرک نہ آئے اور بیت اللہ شریف کا طواف کوئی ننگا شخص نہ کرے۔ قبیلہ خزاعہ قبیلہ مدلج اور دوسرے سب قبائل کے لیے بھی یہی اعلان تھا۔ تبوک سے آکر آپ نے حج کا ارادہ کیا تھا لیکن مشرکوں کا وہاں آنا ان کا ننگے ہو کر وہاں کا طواف کرنا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ناپسند تھا اس لیے حج نہ کیا اور اس سال حضرت ابوبکر کو اور حضرت علی کو بھیجا انہوں نے ذی المجاز کے بازاروں میں اور ہر گلی کوچے اور ہر ہر پڑاؤ اور میدان میں اعلان کیا کہ چار مہینے تک کی تو شرک اور مشرک کو مہلت ہے اس کے بعد ہماری اسلامی تلواریں اپنا جو ہر دکھائیں گی بیس دن ذی الحجہ کے محرم پورا صفر پورا اور ربیع الاول پورا اور دس دن ربیع الآخر کے۔ زہری کہتے ہیں شوال محرم تک کی ڈھیل تھی لیکن یہ قول غریب ہے۔ اور سمجھ سے بھی بالا تر ہے کہ حکم پہنچنے سے پہلے ہی مدت شماری کیسے ہوسکتی ہے ؟