التوبہ آية ۱۹
اَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَـاۤجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَـرَامِ كَمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَجَاهَدَ فِىْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۗ لَا يَسْتَوٗنَ عِنْدَ اللّٰهِ ۗ وَ اللّٰهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَۘ
طاہر القادری:
کیا تم نے (محض) حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجدِ حرام کی آبادی و مرمت کا بندوبست کرنے (کے عمل) کو اس شخص کے (اعمال) کے برابر قرار دے رکھا ہے جو اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان لے آیا اور اس نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا، یہ لوگ اللہ کے حضور برابر نہیں ہو سکتے، اور اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں فرماتا،
English Sahih:
Have you made the providing of water for the pilgrim and the maintenance of al-Masjid al-Haram equal to [the deeds of] one who believes in Allah and the Last Day and strives in the cause of Allah? They are not equal in the sight of Allah. And Allah does not guide the wrongdoing people.
1 Abul A'ala Maududi
کیا تم لوگوں نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کی مجاوری کرنے کو اس شخص کے کام کے برابر ٹھیرا لیا ہے جو ایمان لایا اللہ پر اور روز آخر پر اور جس نے جانفشانی کی اللہ کی راہ میں؟ اللہ کے نزدیک تو یہ دونوں برابر نہیں ہیں اور اللہ ظالموں کی رہنمائی نہیں کرتا
2 Ahmed Raza Khan
تو کیا تم نے حا جیوں کی سبیل اور مسجد حرام کی خدمت اس کے برابر ٹھہرا لی جو اللہ اور قیامت پر ایمان لایا اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا، وہ اللہ کے نزدیک برابر نہیں، اور اللہ ظالموں کو راہ نہیں دیتا
3 Ahmed Ali
کیا تم نے حاجیوں کا پانی پلانا اور مسجد حرام کا آباد کرنا اس کے برابر کر دیا جو الله پر اور آخرت کے دن پر ایمان لایا اور الله کی راہ میں لڑا الله کہ ہاں یہ برابر نہیں ہیں اور الله ظالم لوگوں کو راستہ نہیں دکھاتا
4 Ahsanul Bayan
کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلا دینا اور مسجد حرام کی خدمت کرنا اس کے برابر کر دیا جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا، یہ اللہ کے نزدیک برابر کے نہیں (١) اور اللہ تعالٰی ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا (٢)۔
١٩۔١ مشرکین حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کی دیکھ بھال کا کام جو کرتے تھے، اس پر انہیں بڑا فخر تھا اور اس کے مقابلے میں وہ ایمان و جہاد کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے جس کا اہتمام مسلمانوں کے اندر تھا۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا کیا تم سقایت حاج اور عمارت مسجد حرام کو ایمان باللہ اور جہاد فی سبیل اللہ کے برابر سمجھتے ہو؟ یاد رکھو اللہ کے نزدیک یہ برابر نہیں، بلکہ مشرک کا کوئی عمل بھی قبول نہیں، چاہے وہ صورۃً خیر ہی ہو۔ جیسا کہ پہلی آیت کے جملے (حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ) 2۔ البقرۃ;217) میں واضح کیا جا چکا ہے۔ بعض روایت میں اس کا سبب نزول مسلمانوں کی آپس میں ایک گفتگو کو بتلایا گیا ہے کہ ایک روز منبر نبوی کے قریب کچھ مسلمان جمع تھے اس میں سے ایک نے کہا کہ اسلام لانے کے بعد میرے نزدیک سب سے بڑا عمل حاجیوں کو پانی پلانا ہے دوسرے نے کہا مسجد حرام کو آباد کرنا ہے تیسرے نے کہا بلکہ جہادفی سبیل اللہ ان تمام عملوں سے بہتر ہے جو تم نے بیان کیے ہیں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جب انہیں اس طرح باہم تکرار کرتے ہوئے سنا تو انہیں ڈانٹا اور فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے پاس آوازیں اونچی مت کرو یہ جمعہ کا دن تھا راوی حدیث حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں کہ جمعہ کے بعد نبی صلی اللہ تعالٰی عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی آپس کی اس گفتگو کی بابت استفسار کیا جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (صحیح مسلم) جس میں گو یا یہ واضح کردیا گیا کہ ایمان باللہ ایمان بالآخرت اور جہاد فی سبیل اللہ سب سے زیادہ اہمیت وفضیلت والے عمل ہیں گفتگو کے حوالے سے اصل اہمیت وفضیلت تو جہاد کی بیان کرنی تھی لیکن ایمان باللہ کے بغیر چونکہ کوئی بھی عمل مقبول نہیں اس لیے پہلے اسے بیان کیا گیا بہرحال اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ جہاد فی سبیل اللہ سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں۔ دوسرا یہ معلوم ہوا کہ اس کا سبب نزول مشرکین کے مزعومات فاسدہ کے علاوہ خود مسلمانوں کا بھی اپنے اپنے طور پر بعض عملوں کو بعض پر زیادہ اہمیت دینا تھا جب کہ یہ کام شارع کا ہے نہ کہ مومنوں کا مومنوں کا کام تو ہر اس بات پر عمل کرنا ہے جو اللہ اور رسول کی طرف سے انہیں بتلائی جائے۔
١٩۔٢ یعنی یہ لوگ چاہے کیسے بھی دعوے کریں۔ حقیقت میں ظالم ہیں یعنی مشرک ہیں، اس لئے کہ شرک سب سے بڑا ظلم ہے۔ اس ظلم کی وجہ سے یہ ہدایت الٰہی سے محروم ہیں۔ اس لئے ان کا اور مسلمانوں کا، جو ہدایت الٰہی سے بہرہ ور ہیں، آپس میں کوئی مقابلہ نہیں ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانا اور مسجد محترم یعنی (خانہٴ کعبہ) کو آباد کرنا اس شخص کے اعمال جیسا خیال کیا ہے جو خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور خدا کی راہ میں جہاد کرتا ہے۔ یہ لوگ خدا کے نزدیک برابر نہیں ہیں۔ اور خدا ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا
6 Muhammad Junagarhi
کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلا دینا اور مسجد حرام کی خدمت کرنا اس کے برابر کر دیا ہے جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان ﻻئے اور اللہ کی راه میں جہاد کیا، یہ اللہ کے نزدیک برابر کے نہیں اور اللہ تعالیٰ ﻇالموں کو ہدایت نہیں دیتا
7 Muhammad Hussain Najafi
کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد الحرام کے آباد رکھنے کو اس شخص (کے کام کے) برابر قرار دیا ہے جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لایا اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ یہ دونوں اللہ کے نزدیک برابر نہیں ہیں۔ اور اللہ ظالموں کو منزلِ مقصود تک نہیں پہنچاتا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
کیا تم نے حاجیوں کے پانی پلانے اور مسجد الحرام کی آبادی کو اس کا جیسا سمجھ لیا ہے جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور راسِ خدا میں جہاد کرتا ہے -ہرگز یہ دونوں اللہ کے نزدیک برابر نہیں ہوسکتے اور اللہ ظالم قوم کی ہدایت نہیں کرتا ہے
9 Tafsir Jalalayn
کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانا اور مسجد محترم (یعنی خانہ کعبہ) کو آباد کرنا اس شخص کے اعمال جیسا خیال کیا ہے جو خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے۔ اور خدا کی راہ میں جہاد کرتا ہے ؟ یہ لوگ خدا کے نزدیک برابر نہیں ہیں۔ اور خدا ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔
شان نزول : اَجَعَلْتُمْ سِقَایَةَ الْحَاجَ (الآیة) مشرکین حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کی دیکھ بھال کا جو کام کرتے تھے اس پر انہیں بڑا فخر تھا، اس کے مقابلہ میں وہ ایمان و جہاد کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے جس کا اہتمام مسلمانوں کے اندر تھا، اس غلط فہمی اور زعم باطل کو رد کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اَجَعَلتم سقایة الحاج الخ کیا تم سقایة حاج اور عمارت مسجد حرام کا ایمان باللہ اور جہاد فی سبیل اللہ کے برابر سمجھتے ہو ؟ یاد رکھو یہ اللہ کے نزدیک برابر نہیں بلکہ مشرک کا کوئی عمل بھی عند اللہ مقبول نہیں۔
اس آیت کے شان نزول کے سلسلہ میں تین واقعات نقل کئے گئے ہیں۔
پہلا واقعہ : ایک روایت میں اس کا شان نزول مسلمانوں کی ایک آپسی گفتگو کو بتایا گیا ہے اس گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک روز کچھ مسلمان منبر نبوی کے پاس جمع ہوئے ان میں سے ایک نے کہا اسلام لانے کے بعد میرے نزدیک سب سے بڑا عمل حاجیوں کو پانی پلانا ہے، دوسرے نے کہا مسجد کو آباد کرنا ہے، تیسرے نے کہا میرے نزدیک جہاد فی سبیل اللہ سب سے بڑا عمل ہے، حضرت عمر (رض) نے جب لوگوں کو آپس میں اس طرح بحث و تکرار اور اختلاف کرتے سنا تو انہیں ڈانٹا اور فرمایا کہ منبر رسول کے پاس آوازیں بلند نہ کرو یہ جمعہ کا دن تھا، راوی حدیث حضرت نعمان بن بشیر کہتے ہیں کہ میں جمعہ کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی آپس کی گفتگو کے بارے میں آپ سے استفسار کیا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ (صحیح مسلم کتاب الامارة باب فضل الشھادة فی سبیل اللہ)
دوسرا واقعہ : بہت سے مشرکین مسلمانوں کے مقابلہ میں اس بات پر فخر کیا کرتے تھے کہ ہم مسجد حرام کی آبادی اور حجاج کو پانی پلانے کا انتظام کرتے ہیں اس سے بڑھ کر کسی کا عمل کوئی عمل نہیں ہوسکتا اسلام لانے سے پہلے حضرت عباس (رض) غزوہ بدر میں گرفتار ہو کر مسلمانوں کی قید میں آئے اور ان کے مسلم عزیزوں نے ان کو اس پر ملامت کی کہ آپ نعمت ایمان سے محروم ہیں تو حضرت عباس (رض) نے بھی یہی جواب دیا تھا کہ آپ لوگ ایمان و ہجرت کو اپنا بڑا سرمایہ فضیلت سمجھتے ہو مگر ہم بھی تو مسجد حرام کی عمارت اور حجاج کرام کو پانی پلانے کی اہم خدمت انجام دیتے ہیں جس کے برابر کسی کا کوئی عمل نہیں ہوسکتا اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں۔
تیسرا واقعہ : مصنف عبد الرزاق کی روایت میں ہے کہ حضرت عباس (رض) کے مسلمان ہوجانے کے بعد طلحہ بن شیبہ اور حضرت عباس اور حضرت علی (رض) کی آپس میں گفتگو ہو رہی تھی حضرت طلحہ (رض) نے کہا مجھے وہ فضیلت حاصل ہے جو تم میں سے کسی کو حاصل نہیں کہ بیت اللہ کی چابی میرے ہاتھ میں ہے، اگر میں چاہوں تو بیت اللہ کے اندر جا کر رات گذار سکتا ہوں حضرت عباس (رض) نے فرمایا میں حجاج کو پانی پلانے کا متولی اور منتظم ہوں اور مسجد حرام میں میرے اختیارات ہیں، حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ حضرات کس چیز پر فخر کر رہے ہیں میرا حال تو یہ ہے کہ میں نے تم سب لوگوں سے چھ مہینہ پہلے بیت اللہ کی طرف نمازیں پڑھی ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جہاد میں شریک ہوا ہوں اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں واضح کردیا گیا کہ کوئی عمل خواہ ہی اعلیٰ اور افضل ہو ایمان کے بغیر اللہ کے نزدیک اس کی کوئی قیمت نہیں۔
تینوں واقعات کے سبب نزول ہونے میں کوئی بعد نہیں کہ اصل آیات کا نزول مشرکین کے فخروتکبر کے جواب میں ہوا ہو، پھر اس کے بعد جو واقعات مسلمانوں کے باہم پیش آئے ان میں بھی ان ہی آیات کو استدلال کے لئے پیش کیا گیا ہو جس سے سننے والوں کو یہ محسوس ہوا کہ یہ آیات اس واقعہ میں نازل ہوئی ہیں۔
یَاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخذُوْا اٰبَائَ کُمْ وَاِخْوَانَکُمْ اَوْ لِیائَ ، یہ خطاب قیامت تک آنے والے اہل ایمان کے لئے ہے اس کا مقصد مومنین اور کافرین کے درمیان قطع ولایت کو بیان کرنا ہے، آیت کا مطلب یہ ہے کہ ایمان والوں کو چاہیے کہ ان کے ماں باپ اور بھائی بہن وغیرہ اگر کفر پر قائم ہوں تو ان کو اپنا رفیق اور دوست نہ بنائیں اگر کوئی اس کے خلاف کرے گا تو وہ ظالموں اور نافرمانوں میں شمار ہوگا، اگرچہ والدین کے حقوق کے بارے میں قرآن اور احادیث میں بڑی تاکید آئی ہے اسی طرح عزیزو اقارب اور رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی ہدایت و تاکید بار بار آئی ہے مگر اس آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ ہر تعلق کی ایک حد ہے ان میں سے ہر تعلق خواہ والدین اور اولاد کا ہو یا حقیقی بھائی بہن کا اللہ اور اس کے رسول کے تعلق کے مقابلہ میں نظر انداز کرنے کے قابل ہے جس موقع پر یہ دونوں رشتے ٹکراتے ہوں تو پھر رشتہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کا باقی رکھنا چاہیے۔
شان نزول : مجاہد اور قتادہ نے کہا ہے کہ یہ آیت بھی ماقبل میں مذکور حضرت عباس اور طلحہ (رض) کے قصہ سے متعلق ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ دونوں حضرات ابتداء ً نہ ہجرت میں شریک تھے اور نہ ایمان میں بلکہ ان کو اپنے سقایہ وحجابہ پر فخرو غرور تھا۔
حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم فرمایا تو بعض حضرات ان میں ایسے بھی تھے کہ ان کے بیوی بچے ان سے چمٹ گئے اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے اور کہنے لگے کہ ہم تم کو اللہ کی قسم دیتے ہیں تم ہم کو ضائع نہ کرو، ان حضرات کا اپنے اہل و عیال کی گریہ وزاری کی وجہ سے دل نرم ہوگیا جس کی وجہ سے ہجرت سے باز رہے، تو یہ آیت نازل ہوئی۔
مقاتل نے کہا ہے مذکورہ آیت ان نولوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ جو مرتد ہو کر مکہ چلے گئے
تھے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے ساتھ تعلقات اور دوستی رکھنے سے منع فرمادیا تھا یہ آیت اسی سلسلہ میں نازل ہوئی، مگر اس آیت کو ہجرت کے واقعہ سے متعلق کرنے میں یہ قباحت لازم آتی ہے کہ یہ سورت نزول کے اعتبار سے آخری سورتوں میں سے ہے تو پھر ان آیات کا تعلق ہجرت نہ کرنے والوں سے کیسے ہوسکتا ہے اس سورت کا نزول تو فتح مکہ کے بعد ہوا ہے جبکہ ہجرت کی فرضیت منسوخ ہوچکی تھی، لہٰذا زیادہ مناسب اور قرین قیاس واقعہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ مشرکین سے اظہار بیزاری کریں اور ان سے دلی اور راز دارانہ دوستی نہ رکھیں تو بعض لوگوں نے کہا یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان اپنے والدین نیز عزیز و اقارب سے قطع تعلق کرلے، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔
10 Tafsir as-Saadi
جب بعض مسلمانوں کے درمیان یا بعض مسلمانوں اور مشرکوں کے درمیان اس امر میں اختلاف واقع ہوگیا کہ مسجد حرام کی تعمیر، اس کے اندر نماز پڑھنا، اس میں عبادت کرنا اور حاجیوں کو پانی پلانا افضل ہے یا اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور اس کے راستے میں جہاد کرنا؟ تو اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ ان دونوں کے درمیان بہت تفاوت ہے۔ چنانچہ فرمایا ﴿أَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجِّ﴾” کیا کردیا تم نے حاجیوں کے پانی پلانے کو“ یعنی ان کو آپ زم زم پلانا، جیسا کہ معروف جب پلانے کا ذکر مطلق کیا جائے تو اس سے مراد آب زم زم پلانا ہی ہوتا ہے﴿ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَجَاهَدَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ ۚ لَا يَسْتَوُونَ عِندَ اللَّـهِ ﴾” اور مسجد حرام کے بسانے کو اس شخص کے برابر جو ایمان لایا اللہ اور یوم آخرت پر اور لڑا اللہ کی راہ میں یہ برابر نہیں ہیں اللہ کے نزدیک ۔‘‘ پس جہاد اور ایمان باللہ حاجیوں کو آب زم زم پلانے اور مسجد حرام کی تعمیر سے کئی درجے افضل ہیں کیونکہ ایمان دین کی اساس ہے اور اسی کے ساتھ اعمال قابل قبول ہوتے ہیں اور خصائل کا تزکیہ ہوتا ہے۔
رہا جہاد فی سبیل اللہ تو وہ دین کو کوہان ہے جہاد ہی کے ذریعے سے دین اسلام کی حفاظت ہوتی ہے اور اس میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔ جہاد ہی کے ذریعے سے حق کی مدد کی جاتی ہے اور باطل بےیار و مددگار ہوتا ہے۔ رہا مسجد کو آباد کرنا اور حاجیوں کو آب زم زم پلانا، یہ اگرچہ نیک اعمال ہیں مگر ان کی قبولیت ایمان باللہ پر موقوف ہے اور ان اعمال میں وہ مصالح نہیں ہیں جو ایمان باللہ اور جہاد میں ہیں۔ اسی لئے فرمایا : یہ اللہ کے ہاں برابر نہیں۔﴿وَاللَّـهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ﴾” اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا“ یعنی وہ لوگ جن کا وصف ہی ظلم ہے جو بھلائی کی کسی چیز کو بھی قبول کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے بلکہ برائی کے سوا کوئی چیز ان کے لائق نہیں۔ پھر نہایت صراحت کے ساتھ اہل ایمان کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا :
11 Mufti Taqi Usmani
kiya tum logon ney hajiyon ko paani pilaney aur masjid-e-haram kay abad rakhney ko uss shaks kay ( aemal kay ) barabar samajh rakha hai jo Allah aur yoam-e-aakhirat per emaan laya hai , aur jiss ney Allah kay raastay mein jihad kiya hai . Allah kay nazdeek yeh sabb barabar nahi hosaktay . aur Allah zalim logon ko manzil-e-maqsood tak nahi phonchata .
12 Tafsir Ibn Kathir
سب سے بری عبادت اللہ کی راہ میں جہاد ہے
ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ کافروں کا قول تھا کہ بیت اللہ کی خدمت اور حاجیوں کے پانی پلانے کی سعادت ایمان وجہاد سے بہتر ہے ہم چونکہ یہ دونوں خدمتیں انجام دے رہے ہیں اس لیے ہم سے بہتر کوئی نہیں۔ اللہ نے ان کے فخر و غرور اور حق سے تکبر اور منہ پھیرنے کو بےنقاب کیا کہ میری آیتوں کی تمہارے سامنے تلاوت ہوتے ہوئے تم ان سے بےپرواہی سے منہ موڑ کر اپنی بات چیت میں مشغول رہتے ہو۔ پس تمہارا گمان بیجا تمہارا غرور غلط، تمہارا فخر نامناسب ہے یوں بھی اللہ کے ساتھ ایمان اور اس کی راہ میں جہاد بہت بڑی چیز ہے لیکن تمہارے مقابلے میں تو وہ اور بھی بڑی چیز ہے کیونکہ تمہاری تو کوئی نیکی ہو بھی تو اسے شرک کا کیڑا کھا جاتا ہے۔ پس فرماتا ہے کہ یہ دونوں گروہ برابر کے بھی نہیں یہ اپنے تئیں آبادی کرنے والا کہتے تھے اللہ نے ان کا نام ظالم رکھا ان کی اللہ کے گھر کی خدمت بیکار کردی گئی۔ کہتے ہیں کہ حضرت عباس نے اپنی قید کے زمانے میں کہا تھا کہ تم اگر اسلام و جہاد میں تھے تو ہم بھی اللہ کے گھر کی خدمت اور حاجیوں کو آرام پہنچانے میں تھے اس پر یہ آیت اتری کہ شرک کے وقت کی نیکی بیکار ہے۔ صحابہ نے جب ان سے پر لے دے شروع کی تو حضرت عباس نے کہا تھا کہ ہم مسجد حرام کے متولی تھے، ہم غلاموں کو آزاد کرتے تھے، ہم بیت اللہ کو غلاف چڑھاتے تھے، ہم حاجیوں کو پانی پلاتے تھے، اس پر یہ آیت اتری، مروی ہے کہ یہ گفتگو حضرت عباس (رض) اور حضرت علی (رض) میں ہوئی تھی۔ مروی ہے کہ طلحہ بن شیبہ، عباس بن عبد المطلب، علی بن ابی طالب بیٹھے بیٹھے اپنی اپنی بزرگیاں بیان کرنے لگے، عثمان (رض) نے کہا میں بیت اللہ کا کنجی بردار ہوں میں اگر چاہوں وہاں رات گزار سکتا ہوں۔ عباس (رض) نے کہا میں زمزم کا پانی پلانے والا ہوں اور اس کا نگہبان ہوں اگر چاہوں تو مسجد ساری رات رہ سکتا ہوں۔ علی (رض) نے کہا میں نہیں جانتا کہ تم دونوں صاحب کیا کہہ رہے ہو ؟ میں لوگوں سے چھ ماہ پہلے قبلہ کی طرف نماز پڑھی ہے میں مجاہد ہوں اور اس پر یہ آیت پوری اتری۔ عباس (رض) نے اپنا ڈر ظاہر کیا کہ کہیں میں چاہ زمزم کے پانی پلانے کے عہدے سے نہ ہٹا دیا جاؤں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نہیں تم اپنے اس منصب پر قائم رہو تمہارے لیے اس میں بھلائی ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں ایک مرفوع حدیث وارد ہوئی ہے جس کا ذکر بھی یہاں ضروری ہے حضرت نعمان بن بشیر کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا اسلام کے بعد اگر میں کوئی عمل نہ کروں تو مجھے پرواہ نہیں بجز اس کے کہ میں حاجیوں کو پانی پلاؤں دوسرے نے اسی طرح مسجد حرام کی آبادی کو کہا تیسرے نے اسی طرح راہ رب کے جہاد کو کہا حضرت عمر (رض) نے انہیں ڈانٹ دیا اور فرمایا منبر رسول اللہ کے پاس آوازیں بلند نہ کرو یہ واقعہ جمعہ کے دن کا ہے جمعہ کے بعد ہم سب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوئے اور آپ سے پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور روایت میں ہے کہ حضرت عمر (رض) نے وعدہ کیا تھا کہ نماز جمعہ کے بعد میں آپ جا کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بات دریافت کرلوں گا۔