التوبہ آية ۲۸
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَـرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰذَا ۚ وَ اِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً فَسَوْفَ يُغْنِيْكُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖۤ اِنْ شَاۤءَ ۗ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ
طاہر القادری:
اے ایمان والو! مشرکین تو سراپا نجاست ہیں سو وہ اپنے اس سال کے بعد (یعنی فتحِ مکہ کے بعد ۹ ھ سے) مسجدِ حرام کے قریب نہ آنے پائیں، اور اگر تمہیں (تجارت میں کمی کے باعث) مفلسی کا ڈر ہے تو (گھبراؤ نہیں) عنقریب اللہ اگر چاہے گا تو تمہیں اپنے فضل سے مال دار کر دے گا، بیشک اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے،
English Sahih:
O you who have believed, indeed the polytheists are unclean, so let them not approach al-Masjid al-Haram after this, their [final] year. And if you fear privation, Allah will enrich you from His bounty if He wills. Indeed, Allah is Knowing and Wise.
1 Abul A'ala Maududi
اے ایمان لانے والو، مشرکین ناپاک ہیں لہٰذا اس سال کے بعد یہ مسجد حرام کے قریب نہ پھٹکنے پائیں اور اگر تمہیں تنگ دستی کا خوف ہے تو بعید نہیں کہ اللہ چاہے تو تمہیں ا پنے فضل سے غنی کر دے، اللہ علیم و حکیم ہے
2 Ahmed Raza Khan
اے ایمان والو! مشرک نرے ناپاک ہیں تو اس برس کے بعد وہ مسجد حرام کے پاس نہ آنے پائیں اور اگر تمہاری محتاجی کا ڈر ہے تو عنقریب اللہ تمہیں دولت مند کردے گا اپنے فضل سے اگر چاہے بیشک اللہ علم و حکمت والا ہے،
3 Ahmed Ali
اے ایمان والو! مشرک تو پلید ہیں سو اس برس کے بعد مسجد حرام کے نزدیک نہ آنے پائیں اور اگر تم تنگدستی سے ڈرتے ہو تو آئندہ اگر الله چاہے تمہیں اپنے فضل سے غنسی کر دے گا بے شک الله جاننے والا حکمت والا ہے
4 Ahsanul Bayan
اے ایمان والو! بیشک مشرک بالکل ہی ناپاک ہیں (١) وہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے پاس بھی نہ پھٹکنے پائیں (٢) اگر تمہیں مفلسی کا خوف ہے تو اللہ تمہیں دولت مند کر دے گا اپنے فضل سے اگر چاہے (٣) اللہ علم و حکمت والا ہے۔
٢٨۔١ مشرک کے (پلید، ناپاک) ہونے کا مطلب، عقائد و اعمال کے لحاظ سے ناپاک ہونا ہے۔ بعض کے نزدیک مشرک ظاہر و باطن دونوں اعتبار سے ناپاک ہے۔ کیونکہ وہ طہارت (صفائی و پاکیزگی) کا اس طرح اہتمام نہیں کرتا، جس کا حکم شریعت نے دیا ہے۔
٢٨۔ ٢ یہ وہی حکم ہے جو سن ٩ ہجری میں اعلان برات کے ساتھ کیا گیا تھا، جس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے ممانعت بعض کے نزدیک صرف مسجد حرام کے لئے ہے۔ ورنہ حسب ضرورت مشرکین دیگر مساجد میں داخل ہو سکتے ہیں جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ثمامہ بن اثال کو مسجد نبوی کے ستون سے باندھے رکھا تھا حتیٰ کہ اللہ نے ان کے دل میں اسلام کی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ڈال دی اور وہ مسلمان ہوگئے۔ علاوہ ازیں اکثر علماء کے نزدیک یہاں مسجد حرام سے مراد پورا حرم ہے یعنی حدود حرم کے اندر مشرک کا داخلہ ممنوع ہے بعض آثار کی بنیاد پر اس حکم سے ذمی اور خدام کو مشثنیٰ کیا گیا ہے اسی طرح حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اس سے استدلال کرتے ہوئے اپنے دور حکومت میں یہود و نصاریٰ کو بھی مسلمانوں کی مسجدوں میں داخلے سے ممانعت کا حکم جاری فرمایا تھا (ابن کثیر)
٢٨۔٢ مشرکین کی ممانعت سے بعض مسلمانوں کے دل میں یہ خیال آیا کہ حج کے موسم میں زیادہ اجتماع کی وجہ سے جو تجارت ہوتی ہے، یہ متاثر ہوگی۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا، اس مفلسی (یعنی کاروبار کی کمی) سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، اللہ تعالٰی عنقریب اپنے فضل سے تمہیں غنی کر دے گا چنانچہ فتوحات کی وجہ سے کثرت سے مال غنیمت مسلمانوں کو حاصل ہوا۔ اور پھر بتدریج سارا عرب بھی مسلمان ہوگیا اور حج کے موسم میں حاجیوں کی ریل پیل پھر اسی طرح ہوگئی جس طرح پہلے تھی بلکہ اس سے کہیں زیادہ ہوئی اور جو مسلسل روز افزوں ہی ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
مومنو! مشرک تو پلید ہیں تو اس برس کے بعد وہ خانہٴ کعبہ کا پاس نہ جانے پائیں اور اگر تم کو مفلسی کا خوف ہو تو خدا چاہے گا تو تم کو اپنے فضل سے غنی کر دے گا۔ بےشک خدا سب کچھ جانتا (اور) حکمت والا ہے
6 Muhammad Junagarhi
اے ایمان والو! بے شک مشرک بالکل ہی ناپاک ہیں وه اس سال کے بعد مسجد حرام کے پاس بھی نہ پھٹکنے پائیں اگر تمہیں مفلسی کا خوف ہے تو اللہ تمہیں دولت مند کر دے گا اپنے فضل سے اگر چاہے اللہ علم وحکمت واﻻ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اے ایمان والو! مشرکین سراسر نجس و ناپاک ہیں سو وہ اس سال (سنہ ۹ ہجری) کے بعد مسجد الحرام کے قریب بھی نہ آنے پائیں۔ اور اگر تمہیں ان کی آمد و رفت کے بند ہونے سے تنگدستی کا اندیشہ ہے تو عنقریب خدا اپنے فضل و کرم سے تمہیں تونگر بنا دے گا۔ بے شک اللہ تعالیٰ بڑا جاننے والا، بڑا حکمت والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ایمان والو !مشرکین صررِ نجاست ہیں لہذا خبردار اس سال کے بعد مسجدالحرام میں داخل نہ ہونے پائیں اور اگر تمہیں غربت کا خوف ہے تو عنقریب خدا چاہے گا تو اپنے فضل و کرم سے تمہیں غنی بنادے گا کہ وہ صاحب هعلم بھی ہے اور صاحب هحکمت بھی ہے
9 Tafsir Jalalayn
مومنو ! مشرک تو نجس ہیں تو اس برس کے بعد وہ خانہ کعبہ کے پاس نہ جانے پائیں اور اگر تم کو مفلسی کا خوف ہو تو خدا چاہے گا تو تم کو اپنے فضل سے غنی کردے گا۔ بیشک خدا سب کچھ جانتا (اور) حکمت والا ہے۔
یَاَیُّھَا الَّذِیْنَ ۔۔۔۔ (الآیة) مشرکوں کے نجس ہونے کا مطلب عقائد و اعمال کے لحاظ سے نجس ہونا ہے، بعض کے نزدیک مشرک ظاہر و باطن دونوں اعتبار سے ناپاک ہیں اس لئے کہ وہ اس طہارت و صفائی کا لحاظ نہیں کرتے جس کا حکم شریعت نے دیا ہے، بعض ناپاک چیزوں کو مثلاً گائے کا پیشاب اور گوبر وغیرہ کو ناپاک نہیں سمجھتے اور معنوی نجاست مثلاً غسل جنابت وغیرہ بھی ضروری نہیں سمجھتے اسی لئے مشرکوں کو آیت مذکورہ میں نجاست محض قرار دے کر فلا یقربوا المسجد الحرام الخ میں مشرکوں کو مسجد حرام کے پاس آنے سے منع کیا گیا ہے، مسجد حرام عام طور پر اس جگہ کو کہا جاتا ہے جو بیت اللہ کے چاروں طرف چہار دیواری گھری ہوئی ہے، لیکن قرآن و حدیث میں بعض اوقات پورے حرم مکہ کے لئے بھی استعمال ہوا ہے جو کئی مربع میل کا رقبہ ہے اور چاروں طرف حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قائم کردہ حدود سے گھرا ہوا ہے جیسا کہ واقعہ معراج میں من المسجد الحرام سے بالاتفاق یہی معنی مراد لئے گئے ہیں اس لئے کہ واقعہ معراج معروف مسجد حرام کے اندر سے نہیں بلکہ ام ہانی کے مکان سے ہوا اسی طرح \&\& اِلاَّ الَّذِیْنَ عَاھَدْتُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدَ الْحَرَامِ \&\& میں مسجد حرام سے پورا حرام ہی مراد ہے اس لئے کہ جس واقعہ کا اس آیت میں ذکر ہے وہ مقام حدیبیہ میں پیش آیا تھا جو حدود حرم سے باہر اس سے متصل واقع ہے۔ (معارف، حصاص)
لہٰذا اب آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ اس سال کے بعد مشرکین کا داخلہ حدود حرم میں ممنوع ہے اس سال سے بعض حضرات نے ١٠ ھ مراد لیا ہے مگر جمہور کے نزدیک ٩ ھ راجع ہے اس لئے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعلان براءت حضرت ابوبکر صدیق اور علی مرتضیٰ (رض) کے ذریعہ موسم حج میں ٩ ھ میں کرایا تھا اس لئے
٩ ھ سے ١٠ ھ تک مہلت کا سال ہے ١٠ ھ سے یہ قانون نافذ ہوا۔
مسجد حرام میں مشرکین کے داخلہ کی ممانعت کا مطلب اور خصوصیت یا عدم خصوصیت کا مسئلہ : آیت مذکورہ میں مشرکوں کو حرم میں داخل نہ ہونے کا حکم دیا گیا ہے اس میں تین باتیں غور طلب ہیں۔
(1) یہ حکم مسجد حرام کے ساتھ مخصوص ہے یا دنیا کی کسی بھی مسجد میں مشرک کے داخلہ پر بابندی ہے ؟
(2) مشرکین کے داخلہ پر پابندی مطلقاً ہے یا صرف حج وعمرہ کے لئے داخلہ پر پابندی ہے ؟
(3) یہ کہ اس حکم میں کفار اہل کتاب بھی شامل ہیں یا نہیں ؟
روایات کو سامنے رکھ کر ائمہ مجتہدین نے اپنے اپنے اجتہاد کے مطابق احکام بیان کئے ہیں۔
امام مالک (رح) تعالیٰ اور فقہاء اہل مدینہ کا مسلک : فرمایا کہ مشرکین ہر معنی کے اعتبار سے نجس ہیں خواہ ظاہری ہو یا معنوی اس لئے یہ حکم تمام مساجد کے لئے ہے۔
امام شافعی (رح) تعالیٰ کا مسلک : امام شافعی (رح) تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ حکم مشرکین اور کفار اہل کتاب سب کے لئے عام ہے مگر مسجد حرام کے لئے مخصوص ہے، دیگر مساجد میں ان کا داخلہ ممنوع نہیں (قرطبی) دلیل یہ کہ ثمامہ بن اثال جب اسلام لانے سے پہلے گرفتار ہو کر آئے تھے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو مسجد نبوی میں ایک ستون سے باندھ دیا تھا۔
امام ابوحنیفہ (رح) تعالیٰ کا مسلک : فرمایا کہ مسجد حرام کے قریب نہ جانے کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ سال سے ان مشرکوں کو مشرکانہ طرز پر حج وعمرہ کرنے کی اجازت نہ ہوگی دلیل یہ پیش فرماتے ہیں کہ جس وقت حضرت علی کے ذریعہ اعلان براءت کردیا گیا تو اس میں اعلان اسی کا تھا کہ \&\& لا یحجنَّ بعد العام مشرک \&\& اس لئے فلا یقربوا المسجد الحرام کے معنی بھی یہی ہوں گے دیگر کسی ضرورت سے امیر المومنین کی اجازت سے داخل ہوسکتے ہیں وفد ثقیف کا واقعہ اس کا شاہد ہے کہ فتح مکہ کے بعد جب ان کا وفد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے ان کو مسجد میں ٹھہرایا تھا، حالانکہ یہ لوگ اس وقت کافر تھے صحابہ کرام نے عرض بھی کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ نجس قوم ہے تو آپ نے فرمایا کہ مسجد کی زمین پر ان لوگوں کی نجاست کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔ (جصاص)
وَاِنْ خِفْتُم عَیْلَةً فَسَوْفَ یُغْنِیْکُمُ اللہ الخ، حرم میں مشرکین کے داخلہ پر پابندی سے بعض مسلمانوں کے دل میں یہ خیال آیا کہ حج کے موسم میں زیادہ اجتماع کی وجہ سے جو تجارت ہوتی تھی وہ متاثر ہوگی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کا روباری نقصان کی وجہ سے فقرو فاقہ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں اللہ تعالیٰ عنقریب اپنے فضل سے تمہیں غنی کر دے گا چناچہ فتوحات کی وجہ سے مسلمانوں کو بکثرت مال حاصل ہوا اور پھر بتدریج سارا عرب بھی مسلمان ہوگیا اور موسم حج میں حاجیوں کی کثرت کی وجہ سے تجارتی نقصان کی کمی بھی پوری ہوگئی بلکہ اس سے بھی زیادہ ہوگئی اور یہ سلسلہ روز افزوں ہی ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ﴾ ” اے ایمان والو ! بے شک مشرکین“ یعنی جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا اور اس کے ساتھ غیروں کی عبادت کی ﴿نَجَسٌ﴾ ” ناپاک ہیں۔‘‘ یعنی اپنے عقائدو اعمال میں ناپاک ہیں اور اس شخص سے بڑھ کر ناپاک اور کون ہوسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خود ساختہ معبودوں کی عبادت کرتا ہے جو نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان اور نہ وہ کوئی کام آسکتے ہیں اور ان لوگوں کے اعمال اللہ تعالیٰ کے ساتھ جنگ کرنے، اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکنے، باطل کی مدد کرنے، حق کو ٹھکرانے اور زمین میں اصلاح کی بجائے فساد کے لئے کام کرنے جیسے افعال پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اس لئے تم پر فرض ہے کہ تم سب سے زیادہ شرف کے حامل اور سب سے زیادہ پاک گھر سے مشرکین کو پاک رکھو۔ ﴿فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَـٰذَا﴾ ” پس یہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب نہ جائیں“ اور یہ ٩ ھ کا سال تھا جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے ساتھ حج کیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچازاد بھائی علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو روانہ فرمایا کہ حج کے روز ” براء ت“ کا اعلان کردیں، چنانچہ انہوں نے اعلان کیا کہ سال رواں کے بعد کوئی مشرک حج کے لئے نہیں آٗے گا اور نہ کوئی شخص عریاں ہو کر بیت اللہ کا طواف کرے گا۔
یہاں نجاست سے مراد بدن کی نجاست نہیں، کیونکہ کافر کا بدن بھی دوسرے لوگوں کے بدن کی طرح پاک ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کتابیہ عورت کے ساتھ مباشرت جائز قراردی ہے مگر اس کا پسینہ وغیرہ لگ جانے کی صورت میں اسے دھونے کا حکم نہیں دیا۔ مسلمان ہمیشہ سے کفار کے ساتھ بدنی اختلاط رکھتے چلے آئے ہیں مگر ان سے یہ بات منقول نہیں کہ انہوں نے کفار کو اس طرح ناپاک سمجھا ہو جس طرح وہ گندگی کو ناپاک سمجھتے ہیں۔ درحقیقت اس سے مراد جیسا کہ گزشتہ صفحات میں گزرچکا ہے۔۔۔۔۔۔ معنوی نجاست، یعنی شرک ہے۔ تو جس طرح توحید اور ایمان معنوی طہارت ہے اسی طرح شرک معنوی نجاست ہے۔
﴿وَإِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً﴾ ”(اے مسلمانو !) اگر تمہیں محتاجی کا خوف ہو۔“ یعنی مشرکین کو مسجد حرام کے قریب جانے سےروک دینے کی وجہ سے تمہارے اور ان کے درمیان دنیاوی امور میں قطع تعلق کی بنا پر فقر و احتیاج کے لاحق ہونے کا ڈر ہو ﴿فَسَوْفَ يُغْنِيكُمُ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ ﴾ ” تو اللہ اپنے فضل سے تمہیں غنی کردے گا“ رزق کا ایک ہی دروازہ اور ایک ہی جگہ تو نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس اگر رزق کا ایک دروازہ بند ہوجاتا ہے تو بے شمار دوسرے دروازے کھل جاتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انتہا فضل و کرم سے مسلمانوں کو غنی کردیا۔ انہیں اس قدر کشادہ رزق عطا کیا کہ وہ بڑے بڑے مال داروں اور بادشاہوں میں شمار ہونے لگے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ﴿إِن شَاءَ﴾ ” اگر اس نے چاہا“ اللہ تعالیٰ کا غنی کرنا اس کی مشیت کے ساتھ معلق ہے، کیونکہ وہ دنیا کے اندر غنا کا حاصل ہونا لوازم ایمان میں شمار ہوتا ہے، نہ اللہ تعالیٰ کی محبت پر دلالت کرتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی مشیت کے ساتھ معلق کیا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ دنیا، ہر ایک کو دیتا ہے، اپنے محبوب بندے کو بھی اور اس کو بھی جس سے وہ محبت نہیں کرتا، مگر وہ ایمان اور دین صرف اسے عطا کرتا ہے جس کے ساتھ وہ محبت کرتا ہے۔ ﴿إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ﴾ ” بے شک اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔“ اس کا علم بڑا وسیع ہے، وہ خوب جانتا ہے کہ کون غنا عطا کئے جانے کے لائق ہے اور کون ہے جو اس کے لائق نہیں اور اللہ تعالیٰ تمام اشیاء کو ان کے لائق مقام پر رکھتا ہے۔
آیت کریمہ ﴿فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَـٰذَا﴾ دلالت کرتی ہے کہ مشرکین مکہ بیت اللہ کی وجہ سے ریاست اور بادشاہی کے مالک تھے پھر فتح مکہ کے بعد حکومت اور اقتدار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مومنین کے پاس آگیا اور مشرکین مکہ بیت اللہ اور مکہ مکرمہ میں مقیم رہے، پھر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی جب نبی اکریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وفات پائی تو (وفات کے وقت) آپ نے حکم دیا کہ مشرکین کو سرزمین حجاز سے نکال دیا جائے۔ حجاز میں بیک وقت دو دین نہیں رہ سکتے۔۔۔ اور یہ اس وجہ سے، تاکہ ہر کافر کو مسجد حرام سے دور رکھا جائے۔ پس ہر کافر اللہ تعالیٰ کے حکم ﴿فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَـٰذَا﴾ میں داخل ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aey emaan walo ! mushrik log to sarapa napaki hain , lehaza woh iss saal kay baad masjid-e-haram kay qareeb bhi naa aaney payen . aur ( musalmano ! ) agar tum ko muflisi ka andesha ho to agar Allah chahye ga to tumhen apney fazal say ( mushrikeen say ) bey niaz kerday ga . beyshak Allah ka ilm bhi kamil hai , hikmat bhi kamil .
12 Tafsir Ibn Kathir
مشرکین کو حدود حرم سے نکال دو
اللہ تعالیٰ احکم الحاکمین اپنے پاک دین والے پاکیزگی اور طہارت والے مسلمان بندوں کو حکم فرماتا ہے کہ وہ دین کی رو سے نجس مشرکوں کو بیت اللہ شریف کے پاس نہ آنے دیں یہ آیت سنہ 9 ہجری میں نازل ہوئی اسی سال آنحضرت رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت علی (رض) کو حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے ساتھ بھیجا اور حکم دیا کہ مجمع حج میں اعلان کردو کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کو نہ آئے اور کوئی ننگا شخص بیت اللہ شریف کا طواف نہ کرے اس شرعی حکم کو اللہ تعالیٰ قادر وقیوم نے یوں ہی پورا کیا کہ نہ وہاں مشرکوں کو داخلہ نصیب ہوا نہ کسی نے اس کے بعد عریانی کی حالت میں اللہ کے گھر کا طواف کیا۔ حضرت جابر بن عبداللہ غلام اور ذمی شخص کو مستثنیٰ بناتے ہیں۔ مسند کی حدیث میں فرمان رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے کہ ہماری اس مسجد میں اس کے بعد سوائے معاہدہ والے اور تمہارے غلاموں کے اور کوئی کافر نہ آئے۔ لیکن اس مرفوع سے زیادہ صحیح سند والی موقوف روایت ہے۔ خلیفتہ المسلمین حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) نے فرمان جاری کردیا تھا کہ یہود و نصرانی کو مسلمانوں کی مسجدوں میں نہ آنے دو ان کا یہ امتناعی حکم اسی آیت کے تحت تھا۔ حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ حرم سارا اس حکم میں مثل مسجد حرام کے ہے۔ یہ آیت مشرکوں کی نجاست پر بھی دلیل واثق ہے۔ صحیح حدیث میں ہے مومن نجس نہیں ہوتا۔ باقی رہی یہ بات کہ مشرکوں کا بدن اور ذات بھی نجس ہے یا نہیں ؟ پس جمہور کا قول تو یہ ہے کہ نجس نہیں۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کا ذبیحہ حلال کیا ہے۔ بعض ظاہریہ کہتے ہیں کہ مشرکوں کے بدن بھی ناپاک ہی۔ حسن فرماتے ہیں جو ان سے مصافحہ کرے وہ ہاتھ دھو ڈالے۔ اس حکم پر بعض لوگوں نے کہا کہ پھر تو ہماری تجارت کا مندا ہوجائے گا۔ ہمارے بازار بےرونق ہوجائیں گے اور بہت سے فائدے جاتے رہیں گے اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ غنی وحمید فرماتا ہے کہ تم اس بات سے نہ ڈرو اللہ تمہیں اور بہت سی صورتوں سے دلا دے گا تمہیں اہل کتاب سے جزیہ دلائے گا اور تمہیں غنی کر دے گا تمہاری مصلحتوں کو تم سے زیادہ رب جانتا ہے اس کا حکم اس کی ممانعت کسی نہ کسی حکمت سے ہی ہوتی ہے۔ یہ تجارت اتنے فائدے کی نہیں جتنا فائدہ وہ تمہیں جزیئے سے دیتا۔ ان اہل کتاب سے جو اللہ، اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، اور قیامت کے منکر ہیں جو کسی نبی کے صحیح معنی میں پورے متبع نہیں بلکہ اپنی خواہشوں کے اور اپنے بڑوں کی تقلید کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اگر انہیں اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اپنی شریعت پر پورا ایمان ہوتا تو وہ ہمارے اس نبی پر بھی ضرور ایمان لاتے ان کی بشارت تو ہر نبی دیتا رہا ان کی اتباع کا حکم ہر نبی نے دیا لیکن باوجود اس کے وہ اس اشرف الرسل کے انکاری ہیں پس اگلے نبیوں کے شرع سے بھی دراصل انہیں کوئی دور کا سروکار بھی نہیں اسی وجہ سے ان نبیوں کا زبانی اقرار ان کے لئے بےسود ہے کیونکہ یہ سید الانبیاء افضل الرسل خاتم النبین اکمل المرسلین سے کفر کرتے ہیں اس لئے ان سے بھی جہاد کرو۔ ان سے جہاد کے حکم کی یہ پہلی آیت ہے اس وقت تک آس پاس کے مشرکین سے جنگ ہوچکی تھی ان میں سے اکثر توحید کے جھنڈے تلے آ چکے تھے جزیرۃ العرب میں اسلام نے جگہ کرلی تھی اب یہود و نصاریٰ کی خبر لینے اور انہیں راہ حق دکھانے کا حکم ہوا۔ سنہ 9 ہجری میں یہ حکم اترا اور آپ نے رومیوں سے جہاد کی تیاری کی لوگوں کو اپنے ارادے سے مطلع کیا مدینہ کے ارد گرد کے عربوں کو آمادہ کیا اور تقریباً تیس ہزار کا لشکر لے کر روم کا رخ کیا۔ بجز منافقین کے یہاں کوئی نہ رکا سوائے بعض کے۔ موسم سخت گرم تھا پھلوں کا وقت تھا روم سے جہاد کیلئے شام کے ملک کا دور دراز کا کٹھن سفر تھا۔ تبوک تک تشریف لے گئے وہاں تقریباً بیس روز قیام فرمایا پھر اللہ سے استخارہ کر کے حالت کی تنگی اور لوگوں کی ضعیفی کی وجہ سے واپس لوٹے۔ جیسے کہ عنقریب اس کا واقعہ انشاء اللہ تعالیٰ بیان ہوگا۔ اسی آیت سے استدلال کر کے بعض نے فرمایا ہے کہ جزیہ صرف اہل کتاب سے اور ان جیسوں سے ہی لیا جائے جیسے مجوس ہیں چناچہ ہجر کے مجسیوں سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جزیہ لیا تھا۔ امام شافعی کا یہی مذہب ہے اور مشہور مذہب امام احمد کا بھی یہی ہے۔ امام ابوحنیفہ کہتے ہیں سب عجمیوں سے لیا جائے خواہ وہ اہل کتاب ہوں خواہ مشرک ہوں۔ ہاں عرب میں سے صرف اہل کتاب سے ہی لیا جائے۔ امام مالک فرماتے ہیں کہ جزیئے کا لینا تمام کفار سے جائز ہے خواہ وہ کتابی ہوں یا مجوسی ہوں یابت پرست وغیرہ ہوں۔ ان مذاہب کے دلائل وغیرہ کی تفصیل کی یہ جگہ نہیں واللہ اعلم۔ پس فرماتا ہے کہ جب تک وہ ذلت و خواری کے ساتھ اپنے ہاتھوں جزیہ نہ دیں انہیں نہ چھوڑو پس اہل ذمہ کو مسلمانوں پر عزت و توقیر دینی اور انہیں اوج و ترقی دینی جائز نہیں صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں یہود و نصاریٰ سے سلام کی ابتداء نہ کرو اور جب ان سے کوئی راستے میں مل جائے تو اسے تنگی سے مجبور کرو۔ یہی وجہ تھی جو حضرت عمر فاروق (رض) نے ان سے ایسی ہی شرطیں کی تھیں عبدالرحمٰن بن غنم اشعری کہتے ہیں میں نے اپنے ہاتھ سے عہد نامہ لکھ کر حضرت عمر (رض) کو دیا تھا کہ اہل شام کو فلاں فلاں شہری لوگوں کی طرف سے یہ معاہدہ ہے امیرالمومنین حضرت عمر فاروق (رض) سے کہ جب آپ کے لشکر ہم پر آئے ہم نے آپ سے اپنی جان مال اور اہل و عیال کے لئے امن طلب کی ہم ان شرطوں پر وہ امن حاصل کرتے ہیں کہ ہم اپنے ان شہروں میں اور ان کے آس پاس کوئی گرجا گھر اور خانقاہ نئی نہیں بنائیں گے۔ مندر اور نہ ایسے کسی خرابی والے مکان کی اصلاح کریں گے اور جو مٹ چکے ہیں انہی درست نہیں کریں گے ان میں اگر کوئی مسلمان مسافر اترنا چاہے تو روکیں گے نہیں خواہ دن ہو خواہ رات ہو ہم ان کے دروازے رہ گذر اور مسافروں کے لئے کشادہ رکھیں گے اور جو مسلمان آئے ہم اس کی تین دن تک مہمانداری کریں گے، ہم اپنے ان مکانوں یا رہائشی مکانوں وغیرہ میں کہیں کسی جاسوس کو نہ چھپائیں گے، مسلمانوں سے کوئی دھوکہ فریب نہیں کریں گے، اپنی اولاد کو قرآن نہ سکھائیں گے، شرک کا اظہار نہ کریں گے نہ کسی کو شرک کی طرف بلائیں گے، ہم میں سے کوئی اگر اسلام قبول کرنا چاہے ہم اسے ہرگز نہ روکیں گے، مسلمانوں کی توقیر و عزت کریں گے، ہماری جگہ اگر وہ بیٹھنا چاہیں تو ہم اٹھ کر انہیں جگہ دے دیں گے، ہم مسلمانوں سے کسی چیز میں برابری نہ کریں گے، نہ لباس میں نہ جوتی میں نہ مانگ نکالنے میں، ہم ان کی زبانیں نہیں بولیں گے، ان کی کنیتیں نہیں رکھیں گے، زین والے گھوڑوں پر سواریاں نہ کریں گے، تلواریں نہ لٹکائیں گے نہ اپنے ساتھ رکھیں گے۔ انگوٹھیوں پر عربی نقش نہیں کرائیں گے، شراب فروشی نہیں کریں گے، اپنے سروں کے اگلے بالوں کو تراشوا دیں گے اور جہاں کہیں ہوں گے زنار ضرورتاً ڈالے رہیں گے، صلیب کا نشان اپنے گرجوں پر ظاہر نہیں کریں گے۔ اپنی مذہبی کتابیں مسلمانوں کی گذر گاہوں اور بازاروں میں ظاہر نہیں کریں گے گرجوں میں ناقوس بلند آواز سے بجائیں گے نہ مسلمانوں کی موجودگی میں با آواز بلند اپنی مذہبی کتابیں پڑھیں گے نہ اپنے مذہبی شعار کو راستوں پر کریں گے نہ اپنے مردوں پر اونچی آواز سے ہائے وائے کریں گے نہ ان کے ساتھ مسلمانوں کے راستوں میں آگ لے کر جائیں گے مسلمانوں کے حصے میں آئے ہوئے غلام ہم نہ لیں گے مسلمانوں کی خیر خواہی ضرور کرتے رہیں گے ان کے گھروں میں جھانکیں گے نہیں۔ جب یہ عہد نامہ حضرت فاروق اعظم کی خدمت میں پیش ہوا تو آپ نے ایک شرط اور بھی اس میں بڑھوائی کہ ہم کسی مسلمانوں کو ہرگز ماریں گے نہیں یہ تمام شرطیں ہمیں قبول و منظور ہیں اور ہمارے سب ہم مذہب لوگوں کو بھی۔ انہی شرائط پر ہمیں امن ملا ہے اگر ان میں سے کسی ایک شرط کی بھی ہم خلاف ورزی کریں تو ہم سے آپ کا ذمہ الگ ہوجائے گا اور جو کچھ آپ اپنے دشمنوں اور مخالفوں سے کرتے ہیں ان تمام کے مستحق ہم بھی ہوجائیں گے۔