(اے مسلمانو!) تم اہلِ کتاب میں سے ان لوگوں کے ساتھ (بھی) جنگ کرو جو نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں نہ یومِ آخرت پر اور نہ ان چیزوں کو حرام جانتے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حرام قرار دیا ہے اور نہ ہی دینِ حق (یعنی اسلام) اختیار کرتے ہیں، یہاں تک کہ وہ (حکمِ اسلام کے سامنے) تابع و مغلوب ہو کر اپنے ہاتھ سے خراج ادا کریں،
English Sahih:
Fight against those who do not believe in Allah or in the Last Day and who do not consider unlawful what Allah and His Messenger have made unlawful and who do not adopt the religion of truth [i.e., IsLam] from those who were given the Scripture – [fight] until they give the jizyah willingly while they are humbled.
1 Abul A'ala Maududi
جنگ کرو اہل کتاب میں سے اُن لوگوں کے خلاف جو اللہ اور روز آخر پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے اسے حرام نہیں کرتے اور دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے (ان سے لڑو) یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں
2 Ahmed Raza Khan
لڑو ان سے جو ایمان نہیں لاتے اللہ پر اور قیامت پر اور حرام نہیں مانتے اس چیز کو جس کو حرام کیا اللہ اور اس کے رسول نے اور سچے دین کے تابع نہیں ہوتے یعنی وہ جو کتاب دیے گئے جب تک اپنے ہاتھ سے جزیہ نہ دیں ذلیل ہوکر
3 Ahmed Ali
ان لوگوں سے لڑو جو الله پر اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں لاتے اور نہ اسے حرام جانتے ہیں جسے الله اور اس کے رسول نے حرام کیا ہے اور سچا دین قبول نہیں کرتے ان لوگوں میں سے جو اہلِ کتاب ہیں یہاں تک کہ ذلیل ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں
4 Ahsanul Bayan
ان لوگوں سے لڑو جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں لاتے جو اللہ اور اس کے رسول کی حرام کردہ شے کو حرام نہیں جانتے، نہ دین حق کو قبول کرتے ہیں ان لوگوں میں سے جنہیں کتاب دی گئی ہے، یہاں تک کہ وہ ذلیل و خوار ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں (١)۔
٢٩۔١ مشرکین سے قتال عام کے حکم کے بعد اس آیت میں یہود و نصاریٰ سے قتال کا حکم دیا جا رہا ہے (اگر وہ اسلام نہ قبول کریں) یا پھر وہ جزیہ دے کر مسلمانوں کی ماتحتی میں رہنا قبول کرلیں جزیہ ایک متعین رقم ہے جو سالانہ ایسے غیر مسلموں سے لی جاتی ہے جو کسی اسلامی مملکت میں رہائش پذیر ہوں اس کے بدلے میں ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی ذمے داری اسلامی مملکت کی ہوتی ہے۔ یہود و نصاریٰ باوجود اس بات کے وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے تھے، ان کی بابت کہا گیا کہ وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے تھے، اس سے واضح کر دیا گیا کہ انسان جب تک اللہ پر اس طرح ایمان نہ رکھے جس طرح اللہ نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے بتلایا ہے، اس وقت تک اس کا ایمان باللہ قابل اعتبار نہیں۔ اور یہ بھی واضح ہے کہ ان کے ایمان باللہ کو غیر معتبر اس لئے قرار دیا گیا کہ یہود و نصاریٰ نے حضرت عزیز و حضرت مسیح علیہما السلام کی ابنیت (یعنی بیٹا ہونے کا) اور الوہیت کا عقیدہ گھڑ لیا تھا، جیسا کہ اگلی آیت میں ان کے عقیدے کا اظہار ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
جو اہل کتاب میں سے خدا پر ایمان نہیں لاتے اور نہ روز آخرت پر (یقین رکھتے ہیں) اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو خدا اور اس کے رسول نے حرام کی ہیں اور نہ دین حق کو قبول کرتے ہیں ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ ذلیل ہوکر اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں
6 Muhammad Junagarhi
ان لوگوں سے لڑو، جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں ﻻتے جو اللہ اور اس کے رسول کی حرام کرده شے کو حرام نہیں جانتے، نہ دین حق کو قبول کرتے ہیں ان لوگوں میں جنہیں کتاب دی گئی ہے، یہاں تک کہ وه ذلیل وخوار ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں
7 Muhammad Hussain Najafi
(اے مسلمانو!) اہلِ کتاب میں سے جو لوگ اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور خدا و رسول کی حرام کردہ چیزوں کو حرام نہیں جانتے اور دینِ حق (اسلام) کو اختیار نہیں کرتے ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ وہ چھوٹے بن کر (ذلیل ہوکر) ہاتھ سے جزیہ دیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ان لوگوں سے جہاد کرو جو خدا اور روز هآخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور جس چیز کو خدا و رسول نے حرام قرار دیا ہے اسے حرام نہیں سمجھتے اور اہل کتاب ہوتے ہوئے بھی دین حق کا التزام نہیں کرتے .... یہاں تک کہ اپنے ہاتھوں سے ذلّت کے ساتھ تمہارے سامنے جزیہ پیش کرنے پر آمادہ ہوجائیں
9 Tafsir Jalalayn
جو لوگ اہل کتاب میں سے خدا پر ایمان نہیں لاتے اور نہ روز آخرت پر (یقین رکھتے ہیں) اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو خدا اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حرام کی ہیں اور نہ دین حق کو قبول کرتے ہیں ان سے جنگ کرو۔ یہاں تک کہ ذلیل ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں۔ قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لاَ یُؤمِنُوْنَ باِ اللہ وَلاَ باِ الْیُوْمِ الْاٰخِرِ ، مشرکین سے قتال عام کے حکم کے بعد اس آیت میں یہود و نصاری سے قتال کا حکم دیا جا رہا ہے (اگر وہ اسلام قبول نہ کریں) یا پھر وہ جزیہ دینا قبول کر کے مسلمانوں کی بالادستی قبول کرلیں، جزیہ ایک متعین رقم ہے جو سالانہ ایسے غیر مسلموں سے لی جاتی ہے جو کسی اسلامی مملکت میں رہائش پذیر ہوں، اسلئے بدلے انکے جان ومال، اور عزت و آبرو کی حفاظت کی ذمہ اری اسلامی مملکت کی ہوتی ہے۔ جزیہ کی غایت اسلام نہیں : قتال و جہاد کی غایت یہ نہیں ہے کہ وہ ایمان لے آئیں اور دین حق کے پیرو بن جائیں بلکہ اس کی غایت یہ ہے کہ اسلام کی بالادستی قبول کریں وہ خود حاکم اور صاح امر بن کر نہ رہیں بلکہ نظام زندگی کی باگ ڈور اور امامت کے اختیارات متعین دین حق کے ہاتھوں میں ہوں مطلب یہ ہے کہ قتال اس وقت تک جاری رہے گا جب تک وہ ماتحت بن کر جزیہ دینا قبول نہ کرلیں۔ جزیہ امان و حفاظت کا بدل ہے نہ کہ اسلام کا : جزیہ بدل ہے اس امان وحفاطت کا جو ذمیوں کو اسلامی حکومت میں عطا کی جاتی ہے نیز یہ اس بات کی علامت ہے کہ انہوں نے اسلامی حکومت کی تابع داری قبول کرلی ہے، ہاتھ سے دینے کا مطلب یہ ہے کہ سیدھے طریقہ سے بغیر کسی حیلہ وحجت کے مطیعانہ شان سے جزیہ ادا کریں۔ جزیہ کی مقدار : جزیہ کی مقدار کا تعین اگر باہمی مصالحت اور رضا مندی سے ہو تو شرعاً اس کی کوئی تحدید نہیں جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل نجران کے ساتھ ایسا ہی معاملہ فرمایا تھا کہ ان کی پوری جماعت سے سالانہ دو ہزار حلے (جوڑے، دو چادریں) جوڑوں کی قیمت کا تخمینہ بھی طے ہوگیا تھا اسی طرح نصاری بنی تغلب سے عمر فاروق (رض) کا اس پر معاہدہ ہوا کہ ان کا جزیہ اسلامی زکوٰة کے حساب سے وصول کیا جائے گا مگر زکوٰة سے دوگنا، ابتداء ً یہ حکم یہود و نصاری کے لئے تھا لیکن بعد میں خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجوس سے جزیہ لے کر انہیں ذمیوں میں شامل فرما لیا اور اس کے بعد بالاتفاق صحابہ کرام نے بیرون عرب کی تمام قوموں پر اس حکم کو عام کردیا۔ بذریعہ جنگ مفتوحہ قوموں کا حکم : اگر مسلمانوں نے کسی ملک کو جنگ کے ذریعہ فتح کیا اور وہاں کے باشندوں کو ان کی جائیدادوں پر برقرار رکھا، اور وہ اسلامی مملکت کی رعیت بن کر رہنے پر رضا مند ہوگئے تو ان کے جزیہ کی مقدار کی شرح وہ ہوگی جو حضرت عمر (رض) نے اپنی عہد خلافت میں نافذ فرمائی کہ مالداروں سے چار درہم ماہوار اور متوسط الحال لوگوں سے اس کا نصف اور غریب لوگوں سے جو تندرست ہوں اور محنت و مزدوری کرسکتے ہوں ان سے صرف ایک درہم ماہوار اور جو بالکل مفلس اور اپاہج ہوں ان سے کچھ نہ لیا جائے گا اسی طرح عورتوں، بوڑھوں، بچوں، تارک الدنیا راہبوں سے بھی کچھ نہ لیا جائے گا۔ جزیہ پر اعتراض اور معذرت خواہانہ جواب : جزیہ کے متعلق بعض حضرات نے انیسویں صدی عیسوی کے دور ذلت میں مسلمانوں کی طرف سے بڑی بڑی معذرتیں پیش کی ہیں اور اس دور کی کچھ یاد گار شخصیتیں، نام نہاد دانشور آج بھی موجود ہیں جو صفائی دینے میں لگے ہوئے ہیں، لیکن خدا کا دین اس سے بہت بالاوبرتر ہے کہ اسے خدا کے باغیوں کے سامنے معذرت پیش کرنے کی کوئی حاجت ہو سیدھی اور صاف بات یہ ہے کہ جو لوگ خدا کے دین کو اختیار نہیں کرتے اور اپنی یا دوسروں کی نکالی ہوئی غلط راہوں پر چلتے ہیں وہ زیادہ سے زیادہ بس اتنی ہی آزادی کے مستحق ہیں کہ خود جو غلطی کرنا چاہتے ہیں کریں، لیکن انہیں اس کا قطعاً کوئی حق نہیں ہے کہ خدا کی زمین پر کسی جگہ اقتدار و فرماں روائی کی باگیں ان کے ہاتھوں میں ہوں اور وہ انسانوں کی اجتماعی زندگی کا نظام اپنی گمراہیوں کے مطابق قائم کریں اور چلائیں، یہ چیز جہاں ہوگی وہاں فساد برپا ہوگا، اہل ایمان پر فرض اور ضروری ہے کہ خدا کی زمین سے خدا کے باغیوں کو بےدخل کر کے نظام صالح قائم کریں جس سے زمین کا فساد ختم ہو کر امن وامان قائم ہو اور خدا کی مخلوق خدا کی زمین پر امن وامان کے ساتھ رہ سکے۔
10 Tafsir as-Saadi
اس آیت کریمہ میں یہود و نصاریٰ کے ساتھ قتال کا حکم ہے۔ ﴿الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ﴾ ” جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں لاتے“ ایسا ایمان جس کی تصدیق ان کے افعال و اعمال کرتے ہوں۔ ﴿لَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّـهُ وَرَسُولُ﴾ ” اور نہ حرام سمجھتے ہیں ان چیزوں کو جن کو اللہ اور اس کے رسول نے حرام کیا ہے“ یعنی محرمات کی تحریم میں اللہ تعالیٰ کی شریعت کی اتباع نہیں کرتے۔ ﴿وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ﴾ ” اور نہ وہ دین حق کو اختیار کرتے ہیں۔‘‘ اگرچہ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ایک دین رکھتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک باطل دین پر عمل پیرا ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے دین میں تغیر و تبدل اور تحریف واقع ہوگئی ہے اور یہ (تحریف شدہ) وہ دین ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مشروع نہیں کیا یا وہ اس دین پر عمل پیرا ہیں جو منسوخ ہے یعنی جسے اللہ تعالیٰ نے مشروع فرمایا تھا، پھر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت کے ذریعے سے منسوخ کردیا۔ پس اس کے منسوخ ہونے کے بعد اس کے ساتھ تمسک کرناجائز نہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ جہاد کرنے کا حکم اور اس کی ترغیب دی ہے، کیونکہ وہ لوگوں کو اپنے باطل نظریات کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ اس سے لوگوں کو اس سبب سے بہت نقصان پہنچتا ہے کہ وہ اہل کتاب ہیں اور اس قتال و جہاد کی غایت و انتہا یہ مقرر کی ہے۔ ﴿حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ ﴾ ” یہاں تک کہ وہ جزیہ دیں“ یعنی وہ مال ادا کریں جو ان کے خلاف مسلمانوں کے قتال ترک کرنے اور مسلمانوں کے درمیان اپنے مال و متاع سمیت پرامن رہنے کا عوض ہے جو ہر سال ہر شخص سے اس کے حسب حال خواہ وہ امیر ہے یا غریب، وصول کیا جائے گا۔ جیسا کہ امیر المومنین حضرت عمر اور دیگر سربراہان نے کیا تھا۔ ﴿عَن يَدٍ﴾ ” اپنے ہاتھوں سے“ یعنی مطیع ہو کر اور اقتدار چھوڑ کر یہ مالی عوض ادا کریں اور اپنے ہاتھ سے ادا کریں اور اس کی ادائیگی کے لئے خادم وغیرہ نہ بھیجیں’ بلکہ یہ جزیہ صرف انہی کے ہاتھ سے وصول کیا جائے۔ ﴿وَهُمْ صَاغِرُونَ﴾ اور وہ زیردست اور مطیع بن کر رہیں۔ جب ان کا یہ حال ہو اور وہ مسلمانوں کو جزیہ ادا کرنا، مسلمانوں کے غلبہ اور ان کے احکامات کے تحت آنا قبول کرلیں، حالات ان کے شر اور فتنہ سے مامون ہوں۔ وہ مسلمانوں کی ان شرائط کو تسلیم کرلیں جو ان پر عائد کی گئی ہوں جن سے ان کے اقتدار اور تکبر کی نفی ہوتی ہو اور جو ان کی زیردستی کی موجب ہوں۔۔۔ تو مسلمانوں کے امام یا اس کے نائب پر واجب ہے کہ وہ ان کے ساتھ معاہدہ کرلے۔ اگر وہ معاہدے کو پورا نہ کریں اور زیر دست رہ کر جزیہ ادا نہ کریں، تو ان کو امان دینا جائز نہیں، بلکہ ان کے ساتھ قتال کیا جائے یہاں تک کہ اطاعت کرلیں۔ اس آیت کریمہ سے جمہور اہل علم استدلال کرتے ہیں کہ جزیہ صرف اہل کتاب سے لیا جائے، کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے صرف اہل کتاب سے جزیہ وصول کرنے کا حکم دیا ہے۔ رہے اہل کتاب کے علاوہ دیگر کافر تو ان کے خلاف اس وقت تک لڑنے کا ذکر ہے جب تک کہ وہ اسلام قبول نہ کرلیں۔ جزیہ ادا کرنے اور اس کے عوض مسلمانوں کے شہروں میں رہنے کے احکام میں مجوس بھی شامل ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علاقہ ہجر کے مجوسیوں سے جزیہ وصول کیا۔ پھر امیر المومنین حضرت عمر فاورق رضی اللہ عنہ نے ایران کے مجوسیوں سے جزیہ وصول کیا۔ بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اہل کتاب اور غیر اہل کتاب تمام کفار سے جزیہ قبول کیا جائے گا کیونکہ یہ آیت کریمہ مشرکین عرب کے ساتھ قتال سے فراغت کے بعد اور اہل کتاب وغیرہ کے ساتھ قتال شروع ہونے پر نازل ہوئی ہے۔ تب یہ قید واقعہ کی خبر ہے اس کا مفہوم نہیں۔ اور اس کی دلیل یہ ہے کہ مجوسیوں سے جزیہ لیا گیا ہے حالانکہ وہ اہل کتاب میں شمار نہیں ہوتے۔ نیز صحابہ کرام اور بعد میں آنے والے مسلمانوں سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ وہ جس قوم کے خلاف جنگ کرتے انہیں سب سے پہلے تین میں سے ایک چیز قبول کرنے کی دعوت دیتے تھے۔ (١)اسلام قبول کرنا۔ (٢) جزیہ ادا کرنا۔ (٣) یا تلوار کا فیصلہ قبول کرنا۔۔۔ اور اس میں انہوں نے اہل کتاب اور غیر اہل کتاب کے درمیان کبھی کوئی فرق نہیں رکھا۔
11 Mufti Taqi Usmani
woh ehal-e-kitab jo naa Allah per emaan rakhtay hain , naa yoam-e-aakhirat per , aur jo Allah aur uss kay Rasool ki haram ki hoi cheezon ko haram nahi samajhtay , aur naa deen-e-haq ko apna deen mantay hain , unn say jang kero , yahan tak kay woh khuwar ho ker apney haath say jiziya ada keren .