التوبہ آية ۳۶
اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِىْ كِتٰبِ اللّٰهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْهَاۤ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ۗ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ ۙ فَلَا تَظْلِمُوْا فِيْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ ۗ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِيْنَ كَاۤفَّةً كَمَا يُقَاتِلُوْنَكُمْ كَاۤفَّةً ۗ وَاعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ
طاہر القادری:
بیشک اللہ کے نزدیک مہینوں کی گنتی اللہ کی کتاب (یعنی نوشتۂ قدرت) میں بارہ مہینے (لکھی) ہے جس دن سے اس نے آسمانوں اور زمین (کے نظام) کو پیدا فرمایا تھا ان میں سے چار مہینے (رجب، ذو القعدہ، ذو الحجہ اور محرم) حرمت والے ہیں۔ یہی سیدھا دین ہے سو تم ان مہینوں میں (ازخود جنگ و قتال میں ملوث ہو کر) اپنی جانوں پر ظلم نہ کرنا اور تم (بھی) تمام مشرکین سے اسی طرح (جوابی) جنگ کیا کرو جس طرح وہ سب کے سب (اکٹھے ہو کر) تم سے جنگ کرتے ہیں، اور جان لو کہ بیشک اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے،
English Sahih:
Indeed, the number of months with Allah is twelve [lunar] months in the register of Allah [from] the day He created the heavens and the earth; of these, four are sacred. That is the correct religion [i.e., way], so do not wrong yourselves during them. And fight against the disbelievers collectively as they fight against you collectively. And know that Allah is with the righteous [who fear Him].
1 Abul A'ala Maududi
حقیقت یہ ہے کہ مہینوں کی تعداد جب سے اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے اللہ کے نوشتے میں بارہ ہی ہے، اور ان میں سے چار مہینے حرام ہیں یہی ٹھیک ضابطہ ہے لہٰذا ان چار مہینوں میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو اور مشرکوں سے سب مل کر لڑو جس طرح وہ سب مل کر تم سے لڑتے ہیں اور جان رکھو کہ اللہ متقیوں ہی کے ساتھ ہے
2 Ahmed Raza Khan
بیشک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہے اللہ کی کتاب میں جب سے اس نے آسمان اور زمین بنائے ان میں سے چار حرمت والے ہیں یہ سیدھا دین ہے، تو ان مہینوں میں اپنی جان پر ظلم نہ کرو اور مشرکوں سے ہر وقت لڑو جیسا وہ تم سے ہر وقت لڑتے ہیں، اور جان لو کہ اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے
3 Ahmed Ali
بے شک الله کے ہاں مہینوں کی گنتی بارہ مہینے ہیں الله کی کتاب میں جس دن سے الله نے زمین اور آسمان پیدا کیے ان میں سے چار عزت والے ہیں یہی سیدھا دین ہے سو ان میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو اور تم سب مشرکوں سے لڑو جیسے وہ سب تم سے لڑتے ہیں اور جان لو کہ الله پرہیزگاروں کے ساتھ ہے
4 Ahsanul Bayan
مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں بارہ کی ہے، اسی دن سے جب سے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے ان میں سے چار حرمت و ادب کے ہیں (١) یہی درست دین ہے (٢) تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو (٣) اور تم تمام مشرکوں سے جہاد کرو جیسے کہ وہ تم سب سے لڑتے ہیں (٤) اور جان رکھو کہ اللہ تعالٰی متقیوں کے ساتھ ہے۔
٣٦۔ ١ فی کتاب اللہ سے مراد لوح محفوظ یعنی تقدیر الٰہی ہے۔ یعنی ابتداء آفرینش سے ہی اللہ تعالٰی نے بارہ مہینے مقرر فرمائے ہیں، جن میں چار حرمت والے ہیں جن میں قتال و جدال کی بالخصوص ممانعت ہے۔ اسی بات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے بیان فرمایا ہے کہ ' زمانہ گھوم گھما کر پھر اسی حالت پر آگیا ہے جس حالت پر اس وقت تھا جب اللہ نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق فرمائی۔ سال بارہ مہینوں کا ہے، جن میں چار حرمت والے ہیں، تین پے درپے ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم اور چوتھا رجب جو جمادی الاخری اور شعبان کے درمیان ہے۔ (صحیح بخاری) زمانہ اسی حالت پر آگیا ہے کا مطلب، مشرکین عرب مہینوں میں جو تاخیر و تقدیم کرتے تھے جس کی تفصیل آگے آرہی ہے اس کا خاتمہ ہے۔
٣٦۔٢ یعنی ان مہینوں کا اسی ترتیب سے ہونا جو اللہ نے رکھی ہے اور جن میں چار حرمت والے ہیں۔ اور یہی حساب صحیح اور عدد مکمل ہے۔
٣٦۔٣ یعنی حرمت والے مہینوں میں قتال کر کے ان کی حرمت پامال کر کے اور اللہ کی نافرمانی کا ارتکاب کر کے۔
٣٦۔٤ لیکن حرمت والے مہینے گزرنے کے بعد الا یہ کہ وہ لڑنے پر مجبور کر دیں، پھر حرمت والے مہینوں میں بھی تمہارے لئے لڑنا جائز ہوگا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
خدا کے نزدیک مہینے گنتی میں (بارہ ہیں یعنی) اس روز (سے) کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ کتاب خدا میں (برس کے) بارہ مہینے (لکھے ہوئے) ہیں۔ ان میں سے چار مہینے ادب کے ہیں۔ یہی دین (کا) سیدھا راستہ ہے۔ تو ان (مہینوں) میں (قتال ناحق سے) اپنے آپ پر ظلم نہ کرنا۔ اور تم سب کے سب مشرکوں سے لڑو جیسے وہ سب کے سب تم سے لڑتے ہیں۔ اور جان رکھو کہ خدا پرہیز گاروں کے ساتھ ہے
6 Muhammad Junagarhi
مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں باره کی ہے، اسی دن سے جب سے آسمان وزمین کو اس نے پیدا کیا ہے اس میں سے چار حرمت وادب کے ہیں۔ یہی درست دین ہے، تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ﻇلم نہ کرو اور تم تمام مشرکوں سے جہاد کرو جیسے کہ وه تم سب سے لڑتے ہیں اور جان رکھو کہ اللہ تعالی متقیوں کے ساتھ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
بے شک اللہ کے نزدیک مہینوں کی تعداد نوشتہ خداوندی میں جب سے اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے بارہ ہے، جن میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں۔ یہی دینِ مستقیم ہے۔ پس ان میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو اور تمام مشرکین سے اسی طرح جنگ کرو جس طرح کہ وہ تم سب سے کرتے ہیں اور جان لو کہ بے شک اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
بیشک مہینوں کی تعداد اللہ کے نزدیک کتابِ خدا میں اس دن سے بارہ ہے جس دن اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے -ان میں سے چار مہینے محترم ہیں اور یہی سیدھا اور مستحکم دین ہے لہٰذا خبردار ان مہینوں میں اپنے اوپر ظلم نہ کرنا اور تمام مشرکین سے اسی طرح جہاد کرنا جس طرح وہ تم سے جنگ کرتے ہیں اور یہ یاد رکھنا کہ خدا صرف متقی اور پرہیزگار لوگوں کے ساتھ ہے
9 Tafsir Jalalayn
خدا کے نزدیک مہینے گنتی میں (بارہ ہیں یعنی) اس روز (سے) کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا کتاب خدا میں (برس کے) بارہ مہینے (لکھے ہوئے) ہیں ان میں سے چار مہینے ادب کے ہیں۔ یہی دین (کا) سیدھا راستہ ہے۔ تو ان (مہینوں) میں (قتال ناحق سے) اپنے آپ پر ظلم نہ کرنا اور اور تم سب کے سب مشرکوں سے لڑو۔ جیسے وہ سب کے سب تم سے لڑتے ہیں۔ اور جان رکھو کہ خدا پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔
اِنَّ عِدَّةَ الشُّھُوْرِ عِنْدَ اللہ اِثْنَا عَشَرَ شَھْرًا فِیْ کِتَابِ اللہ، یعنی جب سے اللہ تعالیٰ نے چاند سورج اور زمین پیدا کئے ہیں اسی وقت سے یہ حساب چلا آتا ہے کہ سال کے بارہ مہینے ہی ہوتے ہیں اور چاند ایک ماہ میں ایک مرتبہ ہی طلوع ہوتا ہے یہ بات اس لئے فرمائی گئی ہے کہ عرب اپنی ضرورتوں اور مصلحتوں کی خاطر مہینوں کی تعداد ١٣ یا ١٤ کرلیتے تھے۔ اپنے اوپر ظلم نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جن مہینوں میں جنگ کرنا حرام کیا گیا ہے ان کو ضائع نہ کرو اور ان ایام میں بدامنی پھیلا کر اپنے اوپر ظلم نہ کرو محترم مہینوں کو مقدم ومؤخر کردینا یہ کافرانہ دستوروں میں ایک اور دستور کا اضافہ ہے، ہندوستان میں سنہ فصلی حساب سے رائج ہے اس کے مہینوں میں حساب کو پورا کرنے کے لئے ہندو پنڈت کبھی کبھی ایک مہینے کو دہرادیتے ہیں مثلاً اس سال دو اساڑ ہیں اس کو اصطلاح میں لوند کا مہینہ کہتے ہیں ایسا حسابی ضرورتوں سے کرتے تھے، مگر عرب اور ان کے رؤساء محض اپنی ضرورتوں اور مصلحتوں کے لئے سنہ قمری کے جس مہینے کو چاہتے مقدس قرار دے دیتے اور جس مقدس مہینے کو چاہتے غیر مقدس قرار دے دیتے اس سے تمام نظام تقویمی میں خلل پڑتا تھا۔
عرب میں نسیء (تاخیر) دو طرح کی تھی۔ اس کی ایک صورت تو یہ تھی کہ جنگ وجدال اور غارت گری اور خون کا انتقام لینے کے لئے کسی حرام مہینے کو حلال قرار دے لیتے اور اس کے بدلے میں کسی حلال مہینے کو حرام قرار دے کر حرام مہینوں کی تعداد پوری کردیتے مگر ترتیب باقی نہیں رہتی تھی دوسری صورت یہ تھی کہ قمری سال کو شمسی کے مطابق کرنے کے لئے اس میں کبیسہ کا مہینہ بڑھا دیتے یہ طریقہ یہود سے سیکھا تھا اس کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ اس زمانہ میں قمری مہینوں کا امتیاز ہی دشوار ہوگیا تھا ہجرت کے آٹھویں سال جب مکہ فتح ہوا اور ٩ ہجری میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو موسم حج میں اعلان براءت کرنے کے لئے بھیجا تو پرانے دستور کے مطابق اس سال ان کے نزدیک حج کا مہینہ بجائے ذی الحجہ کے ذی القعدہ تھا پھر ١٠ ھ میں جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حج کے لئے تشریف لے گئے تو قدرتی طور پر ایسا نظام بن گیا کہ یہ مہینہ اصلی ذی الحجہ کا تھا اور اہل عرب کے حساب میں بھی ذی الحجہ قرار پایا تھا، اس سے یہ بات مفہوم ہوتی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باوجودیکہ نیکی اور خیر کی طرف بہت زیادہ سبقت کرنے والے تھے مگر آپ نے ٩ ھ میں خود حج کو جانے کے بجائے حضرت ابوبکر کو امیر الحج بنا کر بھیجا تاکہ آپ کا حج اپنے صحیح وقت پر ادا ہو ١٠ ھ میں جب آپ نے حج ادا فرمایا تو منٰی کے مقام پر آپ نے خطبہ میں ارشاد فرمایا \&\& اَلا اِنَّ الزمان قد استدار کھیئتہ یوم خلق اللہ السمٰوات والارض \&\& یعنی زمانہ پھر پھرا کر اپنی اصلی ہیئت پر آگیا جس پر اس کو اللہ نے زمین و آسمان کی پیدائش کے وقت رکھا تھا۔
عبادات کو شمسی مہینے کے بجائے قمری مہینہ پر رکھنے کی حکمت : اہل جاہلیت نے جو نسیء (تاخیر تقدیم) کا طریقہ اختیار کیا تھا اس کی دو اغراض تھیں ایک تو غار تگری اور جنگ وجدال اور انتقام لینے کی خاطر حلال مہینہ کو حرام اور حرام کو حلال کرلیتے تھے، دوسری غرض قمری کو شمسی سال کے مطابق کرنے کے لئے اس میں کبیسہ کا مہینہ بڑھا دیتے تھے، تاکہ حج ہمیشہ ایک ہی موسم میں آئے اور وہ ان زحمتوں سے بچ جائیں جو قمری حساب کے مطابق مختلف موسموں میں حج کے گردش کرتے رہنے سے پیش آتی ہیں، اس طرح ٣٣ سال تک حج اپنے اصلی وقت کے خلاف دوسری تاریخوں میں ہوتا رہتا تھا اور صرف چونتیسویں مرتبہ اصل ذی الحجہ کی ٩۔ ١٠ کو ادا ہوا تھا، اس آیت کے ذریعہ جہلاء عرب کی دونوں اغراض کو باطل قرار دے دیا، دوسری غرض گو بظاہر مبنی بر مصلحت ہوتی ہے لیکن در حقیقت یہ بھی خدا کے قانون سے بدترین بغاوت تھی اللہ تعالیٰ نے اپنے عائد کردہ فرائض کے لئے شمسی حساب کے بجائے قمری حساب جن اہم مصالح کی بنا پر اختیار فرمایا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کے بندے زمانہ کی تمام گردشوں میں ہر قسم کے حالات و کیفیات میں اس کے احکام کی اطاعت کے خوگر ہوں، مثلاً رمضان ہے تو کبھی گرمی میں اور کبھی سردیوں اور کبھی برسات میں آتا ہے اور اہل ایمان ان سب بدلتے ہوئے حالات میں روزہ رکھ کر فرمانبرداری کا ثبوت بھی دیتے ہیں، اور بہترین اخلاقی تربیت بھی پاتے ہیں اسی طرح حج بھی قمری حساب سے مختلف موسموں میں آتا ہے اور ان سب طرح کے اچھے برے حالات میں خدا کی رضاء کے لئے سفر کر کے بندے اپنے خدا کی آزمائش میں پورے بھی اترتے ہیں، اور بندگی میں پختگی بھی حاصل کرتے ہیں، اگر کوئی گروہ یا قوم اپنی تجارتی یا دیگر مصلحتوں اور سہولتوں کے پیش نظر کسی ایک ہی خوشگوار موسم میں ہمیشہ کے لئے قائم کر دے تو خدائی قانون کے ساتھ بڑی جسارت اور بغاوت ہے اور اسی کا نام کفر ہے۔
علاوہ ازیں ایک عالم گیر دین جو سب انسانوں کے لئے ہے اگر کسی شمسی مہینہ کو روزے اور حج کے لئے مقرر کر دے جو مہینہ بھی مقرر کیا جائے گا وہ زمین کے تمام باشندوں کے لئے یکساں سہولت کا موسم نہیں ہوسکتا کہیں وہ گرمی کا زمانہ اور کہیں سردی کا تو کہیں برسات کا کہیں فصلیں کاٹنے کا موسم ہوگا تو کہیں بونے کا، لہٰذا ایک عالم گیر دین و مذہب کے لئے ضروری ہے کہ تمام انسانوں کے لئے یکساں طور پر مختلف موسموں میں عبادت کرنے کا موقع ملے تاکہ ہر شخص مختلف موسموں میں خواہ موافق ہوں یا مخالف فرائض و احکام ادا کرنے کا خوگر اور عادی ہو۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللَّـهِ ﴾ ” اللہ کے ہاں مہینوں کی گنتی“ یعنی اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر میں۔ ﴿اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا﴾ ” بارہ مہینے ہے“ یہ وہی معروف مہینے ہیں۔ ﴿فِي كِتَابِ اللَّـهِ﴾ ” اللہ کی کتاب میں“ یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم قدری میں ﴿يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ﴾ ” جس دن اس نے پیدا کئے تھے آسمان اور زمین“ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیل و نہار جاری کئے، اس کے اوقات کی مقدار مقرر کی اور اس کو ان بارہ مہینوں میں تقسیم کیا۔ ﴿مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ﴾ ” ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں“ اور یہ ہیں رجب، ذیقعد، ذوالحج اور محرم۔۔۔ اور ان کے احترام کی وجہ سے ان کو حرام مہینوں سے موسوم کیا گیا ہے۔ نیز ان کو اس وجہ سے بھی حرام مہینے کہا گیا ہے کہ ان میں قتال کرنا حرام ٹھہرایا گیا ہے۔
﴿فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ﴾ ” پس ان میں تم اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو“ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ ضمیر بارہ مہینوں کی طرف لوٹتی ہے اور یہ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے واضح فرمایا کہ اس نے ان مہینوں کو بندوں کے لئے وقت کی مقدار کے تعین کے لئے مقرر فرمایا ہے۔ پس ان مہینوں کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے معمور رکھا جائے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان پر اس کا شکر ادا کیا جائے، نیز یہ کہ اس نے ان مہینوں کو اپنے بندوں (کے مصالح) کے لئے مقرر فرمایا۔ پس اپنے آپ پر ظلم کرنے سے بچو۔ اس میں یہ احتمال بھی ہوسکتا ہے کہ ضمیر صرف چار حرام مہینوں کی طرف لوٹتی ہو یعنی ان کے لئے ممانعت ہے کہ وہ خاص طور پر ان چار مہینوں میں ظلم کریں۔ حالانکہ تمام اوقات میں ظلم کرنے کی ممانعت ہے، لیکن چونکہ ان چار مہینوں کی حرمت زیادہ ہے اور ان مہینوں میں دوسرے مہینوں کی نسبت ظلم کے گناہ کی شدت بھی زیادہ ہے، اس لئے ان مہینوں میں ظلم کرنے سے بطور خاص منع کیا گیا۔
ان چار مہینوں میں ان علماء کے نزدیک، جو یہ کہتے ہیں کہ حرام مہینوں میں لڑائی کی تحریم منسوخ نہیں، لڑائی کرنا ممنوع ہے۔ وہ ان مہینوں میں قتال کی تحریم کے بارے میں عام نصوص پر عمل کرتے ہیں۔
بعض اہل علم کہتے کہ ان مہینوں میں قتال کی تحریم منسوخ ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی عمومیت پر عمل کرتے ہیں۔ ﴿وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً ﴾ ” اور تم سب کے سب مشرکوں سے لڑو جیسے وہ سب کے سب تم سے لڑتے ہیں۔“ یعنی تمام قسم کے مشرکین اور رب العالمین کا انکار کرنے والوں سے لڑو اور لڑائی کے لئے کسی کو مخصوص نہ کرو، بلکہ تمام مشرکین اور کفار کو اپنا دشمن سمجھو جیسا کہ تمہارے ساتھ ان کا رویہ ہے۔ وہ اہل ایمان کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور شرارت سے کبھی نہیں چوکتے۔
اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ ﴿كَافَّةً﴾ ” قاتلوا“ کی واؤ سے حال ہو، تب معنی یہ ہوگا کہ تم سب اکٹھے ہو کر مشرکین سے جنگ کرو، اس صورت میں تمام اہل ایمان پر جہاد کے لئے نکلنا فرض ہے۔ اس احتمال کے مطابق یہ آیت کریمہ، اللہ تبارک و تعالیٰ کے ارشاد ﴿وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً ﴾(التوبة:9؍122) ” اہل ایمان کے لئے ضروری نہ تھا کہ وہ سارے کے سارے نکل کھڑے ہوتے۔“ کے لئے ناسخ قرار پائے گی۔
﴿وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ ﴾” اور جان رکھو کہ اللہ پرہیز گاروں کے ساتھ ہے۔“ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی مدد، نصرت اور تائید کے ذریعے سے تقویٰ شعار لوگوں کے ساتھ ہے۔ پس تم اپنے ظاہر و باطن اور اطاعت الٰہی پر قائم رہنے میں اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے کے حریص بنو۔ خاص طور پر کفار کے خلاف قتال کے وقت، کیونکہ ایسی صورت حال میں جنگ میں شریک کفار دشمنوں کے معاملہ میں مومن سے تقویٰ کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
haqeeqat yeh hai kay Allah kay nazdeek maheenon ki tadaad baara maheenay hai , jo Allah ki kitab ( yani loah-e-mehfooz ) kay mutabiq iss/uss din say nafiz chali aati hai jiss din Allah ney aasmano aur zameen ko peda kiya tha . inn/unn ( baara maheenon ) mein say chaar hurmat walay maheenay hain . yehi deen ( ka ) seedha saada ( taqaza ) hai , lehaza inn/unn maheenon kay moamlay mein apni janon per zulm naa kero , aur tum sabb milker mushrikon say ussi/issi tarah larro jaisay woh sabb tum say larrtay hain , aur yaqeen rakho kay Allah muttaqi logon kay sath hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
احترام آدمیت کا منشور
مسند احمد میں ہے کہ رسول مقبول صادق و مصدوق حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے حج کے خطبے میں ارشاد فرمایا کہ زمانہ گھوم پھر کر اپنی اصلیت پر آگیا ہے سال کے بارہ مہینے ہوا کرتے ہیں جن میں سے چار حرمت و ادب والے ہیں۔ تین پے درپے ذوالقعدہ ذوالحجہ، محرم اور چوتھا رجب جو مضر کے ہاں ہے جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے درمیان میں ہے پھر پوچھا یہ کون سا دن ہے ؟ ہم نے کہا اللہ کو اور اس کے رسول کو ہی پورا علم ہے۔ آپ نے سکوت فرمایا ہم سمجھے کہ شاید آپ اس دن کا کوئی اور ہی نام رکھیں گے پھر پوچھا کیا یہ یوم النحر یعنی قربانی کا دن نہیں ؟ ہم نے کہا ہاں پھر پوچھا یہ کونسا مہینہ ہے ؟ ہم نے کہا اللہ جانے اور اس کا رسول آپ نے پھر سکوت فرمایا یہاں تک کہ ہم نے خیال کیا کہ شاہد آپ اس مہینے کا نام کوئی اور رکھیں گے آپ نے فرمایا کیا یہ ذوالحجہ نہیں ہے ؟ ہم نے کہا ہاں۔ پھر آپ نے پوچھا یہ کونسا شہر ہے ؟ ہم نے کہا اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خوب جاننے والے ہیں ؟ آپ پھر خاموش ہو رہے اور ہمیں پھر خیال آنے لگا کہ شاید آپ کو اس کا کوئی اور ہی نام رکھنا ہے پھر فرمایا یہ بلدہ (مکہ) نہیں ہے ؟ ہم نے کہا بیشک۔ آپ نے فرمایا یاد رکھو تمہارے خون تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تم میں آپس میں ایسی ہی حرمت والی ہیں جیسی حرمت و عزت تمہارے اس دن کی تمہارے اس مہینہ میں تمہارے اس شہر میں، تم ابھی ابھی اپنے رب سے ملاقات کرو گے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کا حساب لے گا سنو میرے بعد گمراہ نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردن زدنی کرنے لگو بتاؤ کیا میں نے تبلیغ کردی ؟ سنو تم میں سے جو موجود ہیں انہیں چاہئے کہ جو موجود نہیں ان تک پہنچا دیں۔ بہت ممکن ہے کہ جسے وہ پہنچائے وہ ان بعض سے بھی زیادہ نگہداشت رکھنے والا ہو اور روایت میں ہے کہ وسط ایام تشریق میں منیٰ میں حجتہ الوداع کے خطبے کے موقعہ کا یہ ذکر ہے۔ ابو حرہ رقاشی کے چچا جو صحابی ہیں کہتے ہیں کہ اس خطبے کے وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ناقہ کی نکیل تھامے ہوئے تھا اور لوگوں کی بھیڑ کو روکے ہوئے تھا۔ آپ کے پہلے جملے کا یہ مطلب ہے کہ جو کمی بیشی تقدیم تاخیر مہینوں کی جاہلیت کے زمانے کے مشرک کرتے تھے وہ الٹ پلٹ کر اس وقت ٹھیک ہوگئی ہے جو مہینہ آج ہے وہی درحقیقت بھی ہے۔ جیسے کہ فتح مکہ کے موقعہ پر آپ نے فرمایا کہ یہ شہر ابتداء مخلوق سے باحرمت و باعزت ہے وہ آج بھی حرمت والا ہے اور قیامت تک حرمت والا ہی رہے گا پس عربوں میں جو رواج پڑگیا تھا کہ ان کے اکثر حج ذی الحجہ کے مہینے میں نہیں ہوتے تھے اب کی مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حج کے موقعہ پر یہ بات نہ تھی بلکہ حج اپنے ٹھیک مہینے پر تھا۔ بعض لوگ اس کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ صدیق اکبر (رض) کا حج ذوالقعدہ میں ہوا لیکن یہ غور طلب قول ہے جیسے کہ ہم مع ثبوت بیان کریں گے ( اِنَّمَا النَّسِيْۗءُ زِيَادَةٌ فِي الْكُفْرِ يُضَلُّ بِهِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا يُحِلُّوْنَهٗ عَامًا وَّيُحَرِّمُوْنَهٗ عَامًا لِّيُوَاطِــــُٔــوْا عِدَّةَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ فَيُحِلُّوْا مَا حَرَّمَ اللّٰهُ ۭ زُيِّنَ لَهُمْ سُوْۗءُ اَعْمَالِهِمْ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ 37 ) 9 ۔ التوبہ :37) کی تقسیر میں اس قول سے بھی زیادہ غرابت والا ایک قول بعض سلف کا یہ بھی ہے کہ اس سال یہود و نصاریٰ مسلمان سب کے حج کا دن اتفاق سے ایک ہی تھا یعنی عید الاضحیٰ کا دن۔
٭ فصل ٭ شیخ علم الدین سخاوی نے اپنی کتاب المشہور فی اسماء الایام و المشہور میں لکھا ہے کہ محرم کے مہینے کو محرم اس کی تعظیم کی وجہ سے کہتے ہیں لیکن میرے نزدیک تو اس نام کی وجہ سے اس کی حرمت کی تاکید ہے اس لئے کہ عرب جاہلیت میں اسے بدل ڈالتے تھے کبھی حلال کر ڈالتے کبھی حرام کر ڈالتے۔ اس کی جمع محرمات حارم محاریم۔ صفر کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس مہینے میں عموماً ان کے گھر خالی رہتے تھے کیونکہ یہ لڑائی بھڑائی اور سفر میں چل دیتے تھے۔ جب مکان خالی ہوجائے تو عرب کہتے ہیں صفر المکان اس کی جمع اصفار ہے جیسے جمل کی جمع اجمال ہے۔ ربیع الاول کے نام کا سبب یہ ہے کہ اس مہینہ میں ان کی اقامت ہوجاتی ہے ارتباع کہتے ہیں اقامت کو اس کی جمع اربعا ہے جیسے نصیب کی جمع انصبا اور جمع اس کی اربعہ ہے جیسے رغیف کی جمع ارغفہ ہے۔ ربیع الاخر کے مہینے کا نام رکھنا بھی اسی وجہ سے ہے۔ گویا یہ اقامت کا دوسرا مہینہ ہے۔ جمادی الاولی کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس مہینے میں پانی جمع جاتا تھا ان کے حساب میں مہینے گردش نہیں کرتے یعنی ٹھیک ہر موسم پر ہی ہر مہینہ آتا تھا لیکن یہ بات کچھ جچتی نہیں اسلئے کہ جب ان مہینوں کا حساب چاند پر ہے تو ظاہر ہے کہ موسمی حالت ہر ماہ میں ہر سال یکساں نہیں رہے گی ہاں یہ ممکن ہے کہ اس مہینہ کا نام جس سال رکھا گیا ہو اس سال یہ مہینہ کڑکڑاتے ہوئے جاڑے میں آیا ہو اور پانی میں جمود ہوگیا ہو۔ چناچہ ایک شاعر نے یہی کہا ہے کہ جمادی کی سخت اندھیری راتیں جن میں کتا بھی بمشکل ایک آدھ مرتبہ ہی بھونک لیتا ہے اس کی جمع جمادیات ہے۔ جیسے حباری حباریات۔ یہ مذکر مونث دونوں طرح مستعمل ہے۔ جمادی الاول اور جمادی الاخر بھی کہا جاتا ہے۔ جمادی الاخری کی وجہ تسمیہ بھی یہی ہے گویا یہ پانی کے جم جانے کا دوسرا مہینہ ہے۔ رجب یہ ماخوذ ہے ترجیب سے، ترجیب کہتے ہیں تعظیم کو چونکہ یہ مہینہ عظمت و عزت والا ہے اس لئے اسے رجب کہتے ہیں اس کی جمع ارجاب رجاب اور رجبات ہے۔ شعبان کا نام شعبان اس لئے ہے کہ اس میں عرب لوگ لوٹ مار کے لئے ادھر ادھر متفرق ہوجاتے تھے۔ شعب کے معنی ہیں جدا جدا ہونا پس اس مہینے کا بھی یہی نام رکھ دیا گیا اس کی جمع شعابین شعبانات آتی ہے۔ رمضان کو رمضان اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں اونٹینوں کے پاؤں بوجہ شدت گرما کے جلنے لگتے ہیں رمضت الفصال اس وقت کہتے ہیں جب اونٹنیوں کے بچے سخت پیاسے ہوں اس کی جمع رمضانات اور رماضین اور رامضہ آتی ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے یہ محض غلط اور ناقابل التفات قول ہے۔ میں کہتا ہوں اس بارے میں ایک حدیث بھی وارد ہوئی ہے لیکن وہ ضعیف ہے۔ میں نے کتاب الصیام کے شروع میں اس کا بیان کردیا ہے۔ شوال ماخوذ ہے شالت الابل سے یہ مہینہ اونٹوں کے مستیوں کا مہینہ تھا یہ دمیں اٹھا دیا کرتے تھے اس لئے اس مہینہ کا یہی نام ہوگیا اس کی جمع شواویل شواول شوالات آتی ہے۔ ذوالقعدہ یا ذوالقعدہ کا نام ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس ماہ میں عرب لوگ بیٹھ جایا کرتے تھے نہ لڑائی کے لئے نکلتے نہ کسی اور سفر کے لئے۔ اس کی جمع ذوات القعدہ ہے۔ ذوالحجہ کو ذوالحجہ بھی کہہ سکتے ہیں چونکہ اسی ماہ میں حج ہوتا تھا اس لئے اس کا یہ نام مقرر ہوگیا ہے۔ اس کی جمع ذوات الحجہ آتی ہے۔ یہ تو ان مہینوں کے ناموں کی وجہ تسمیہ تھی۔ اب ہفتے کے سات دنوں کے نام اور ان ناموں کی جمع سنئے۔ اتوار کے دن کو یوم الاحد کہتے ہیں اس کی جمع احاد اوحاد اور وحود آتی ہے۔ پیر کے دن کو اثنین کہتے ہیں اس کی جمع اثانین آتی ہے۔ منگل کو ثلاثا کہتے ہیں یہ مذکر بھی بولا جاتا ہے اور مونث بھی اس کی جمع ثلاثات اور اثالث آتی ہے۔ بدھ کے دن کو اربعاء کہتے ہیں جمع اربعاوات اور ارابیع آتی ہے۔ جمعرات کو خمیس کہتے ہیں جمع اخمسہ اخامس آتی ہے۔ جمعہ کو جمعہ اور جمعہ اور جمعہ کہتے ہیں اس کی جمع جمع اور جماعات آتی ہے۔ سنیچر یعنی ہفتے کے دن کو سبت کہتے ہیں سبت کے معنی ہیں قطع کے چونکہ ہفتے کی دنوں کی گنتی یہیں پر ختم ہوجاتی ہے اس لئے اسے سبت کہتے ہیں۔ قدیم عربوں میں ہفتے کے دن کے نام یہ تھے اول، رھون، جبار، دبار، مونت، عروبہ، شبار۔ قدیم خالص عربوں کے اشعار کے عربوں میں دنوں کے نام پائے جاتے ہیں قرآن کریم فرماتا ہے کہ ان بارہ ماہ میں چار حرمت والے ہیں۔ جاہلیت کے عرب بھی انہیں حرمت والے مانتے تھے لیکن بسل نامی ایک گروہ اپنے تشدد کی بنا پر آٹھ مہینوں کو حرمت والا خیال کرتے تھے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان میں رجب کو قبیلہ مضر کی طرف اضافت کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جس مہینے کو وہ رجب مہینہ شمار کرتے تھے دراصل وہی رجب کا مہینہ عند اللہ بھی تھا۔ جو جمادی الاخر اور شعبان کے درمیان میں ہے۔ قبیلہ ربیعہ کے نزدیک رجب شعبان اور شوال کے درمیان کے مہینے کا یعنی رمضان کا نام تھا پس حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھول دیا کہ حرمت والا رجب مضر کا ہے نہ کہ ربیعہ کا۔ ان چار ذی حرمت مہینوں میں سے تین پے درپے اس مصلحت سے ہیں کہ حاجی ذوالقعدہ کے مہینے میں نکلے تو اس وقت لڑائیاں مار پیٹ جنگ وجدال قتل و قتال بند ہو لوگ اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے ہوں پھر ذی الحجہ میں احکام حج کی ادائیگی امن وامان عمدگی اور شان سے ہوجائے پھر وہ ماہ محرم کی حرمت میں واپس گھر پہنچ جائے درمیانہ سال میں رجب کو حرمت والا بنانے کی غرض یہ ہے کہ زائرین اپنے طواف بیت اللہ کے شوق کو عمرے کی صورت میں ادا کرلیں گو دور دراز علاقوں والے ہوں وہ بھی مہینہ بھر میں آ مد و رفت کریں یہی اللہ کا سیدھا اور سچا دین ہے۔ پس اللہ کے فرمان کے مطابق تم ان پاک مہینوں کی حرمت کرو۔ ان میں خصوصیت کے ساتھ گناہوں سے بچو۔ اس لئے کہا اس میں گناہوں کی برائی اور بڑھ جاتی ہے جیسے کہ حرم شریف کا گناہ اور جگہ کے گناہ سے بڑھ جاتا ہے۔ فرمان ربانی ہے کہ جو حرم میں الحاد کا ارادہ کرے ہم اسے درد ناک عذاب دیں گے اسی طرح سے ان محترم مہینوں میں کیا ہوا گناہ اور دنوں میں کئے ہوئے گناہوں سے بڑھ جاتا ہے۔ اسی لئے حضرت امام شافعی اور علماء کی ایک بڑی جماعت کے نزدیک ان مہینوں کے قتل کی دیت بھی سخت ہے اسی طرح حرم کے اندر قتل کی اور ذی محرم رشتے دار کے قتل کی بھی دیت سخت ہے۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں فیھن سے مراد سال بھر کے کل مہینے ہیں۔ پس ان کل مہینوں میں گناہوں سے بچو خصوصاً ان چار مہینوں میں کہ یہ حرمت والے ہیں ان کی بڑی عزت ہے ان میں گناہ سزا کے اعتبار سے اور نیکیاں اجر وثواب کے اعتبار سے بڑھ جاتی ہیں۔ حضرت قتادہ (رض) کا قول ہے کہ ان حرمت والے مہینوں کی سزا اور بوجھ بڑھ جاتا ہے گو ظلم ہر حال میں بری چیز ہے لیکن اللہ تعالیٰ اپنے جس امر کو چاہے بڑھا دے دیکھئے اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے بھی پسند فرما لیا فرشتوں میں انسانوں میں اپنے رسول چن لئے اسیطرح کلام میں سے اپنے ذکر کو پسند فرما لیا اور زمین میں سے مسجدوں کو پسند فرما لیا اور مہینوں میں سے رمضان شریف کو اور ان چاروں مہینوں کو پسند فرما لیا اور دنوں میں سے جمعہ کے دن اور راتوں میں لیلتہ القدر کو پس تمہیں ان چیزوں کی عظمت کا لحاظ رکھنا چاہئے جنہیں اللہ نے عظمت دی ہے۔ امور کی تعظیم عقل مند اور فہیم لوگوں کے نزدیک اتنی ضروری ہے جتنی ان کی تعظیم اللہ تعالیٰ سبحانہ نے بتائی ہے۔ ان کی حرمت کا ادب نہ کرنا حرام ہے ان میں جو کام حرام ہیں انہیں حلال نہ کرلو جو حلال ہیں انہیں حرام نہ بنا لو جیسے کہ اہل شرک کرتے تھے یہ ان کے کفر میں زیادتی کی بات تھی۔ پھر فرمایا کہ تم سب کے سب کافروں سے جہاد کرتے رہو جیسے کہ وہ سب کے سب تم میں سے برسر جنگ ہیں۔ حرمت والے ان چار مہینوں میں جنگ کی ابتداء کرنا منسوخ یا محکم ہونے کے بارے میں علماء کے دو قول ہیں پہلا تو یہ کہ یہ منسوخ ہے یہ قول زیادہ مشہور ہے اس آیت کے الفاظ پر غور کیجئے کہ پہلے تو فرمان ہوا کہ ان مہینوں میں ظلم نہ کرو پھر مشرکوں سے جنگ کرنے کا ذکر فرمایا۔ ظاہری الفاظ سے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم عام ہے حرمت کے مہینے بھی اس میں آگئے اگر یہ مہینے اس سے الگ ہوتے تو ان کے گذر جانے کی قید ساتھ ہی بیان ہوتی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طائف کا محاصرہ ماہ ذوالقعدہ میں کیا تھا جو حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے جیسے کہ بخاری و مسلم میں ہے کہ آپ ہوازن قبیلے کی طرف ماہ شوال میں چلے جب ان کو ہزیمت ہوئی اور ان میں سے بچے ہوئے افراد بھاگ کر طائف میں پناہ گزین ہوئے تو آپ وہاں گئے اور چالیس دن تک محاصرہ رکھا پھر بغیر فتح کئے ہوئے وہاں سے واپس لوٹ آئے پس ثابت ہے کہ آپ نے حرمت والے مہینے میں محاصرہ کیا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ حرمت والے مہینوں میں جنگ کی ابتداء کرنا حرام ہے اور ان مہینوں کی حرمت کا حکم منسوخ نہیں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ شعائر الہیہ کو اور حرمت والے مہینوں کو حلال نہ کیا کرو اور فرمان ہے حرمت والے مہینے حرمت والے مہینوں کے بدلے ہیں اور حرمتیں قصاص ہیں پس جو تم پر زیادتی کرے تو تم بھی ان سے ویسی ہی زیادتی کا بدلہ لو اور فرمان ہے ( فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُــوْهُمْ وَخُذُوْهُمْ وَاحْصُرُوْهُمْ وَاقْعُدُوْا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَــلُّوْا سَـبِيْلَهُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ) 9 ۔ التوبہ :5) حرمت والے مہینوں کے گذر جانے کے بعد مشرکوں سے جہاد کرو۔ یہ پہلے بیان گذر چکا ہے کہ یہ ہر سال میں چار مہینے ہیں۔ نہ کہ تیسرے مہینے جو کہ دو قولوں میں سے ایک قول ہے۔ پھر فرمایا کہ تم سب مسلمان ان سے اسی طرح لڑو جیسے کہ وہ تم سے سب کے سب لڑتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ یہ اپنے پہلے سے جداگانہ ہو اور ہوسکتا ہے کہ یہ حکم بالکل نیا اور الگ ہو مسلمانوں کو رغبت دلانے اور انہیں جہاد پر آمادہ کرنے کے لئے تو فرماتا ہے کہ جیسے تم سے جنگ کرنے کے لئے وہ مڈ بھیڑ آپس میں مل کر چاروں طرف سے ٹوٹ پڑتے ہیں تم بھی اپنے سب کلمہ گو اشخاص کو لے کر ان سے مقابلہ کرو یہ بھی ممکن ہے کہ اس جملے میں مسلمانوں کو حرمت والے مہینوں میں جنگ کرنے کی رخصت دی ہو جبکہ حملہ ان کی طرف سے ہو۔ جیسے ( اَلشَّهْرُ الْحَرَام بالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمٰتُ قِصَاصٌ ۭ فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ ۠ وَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ\019\04 ) 2 ۔ البقرة :194) میں ہے اور جیسے) وَلَا تُقٰتِلُوْھُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰى يُقٰتِلُوْكُمْ فِيْهِ ۚ فَاِنْ قٰتَلُوْكُمْ فَاقْتُلُوْھُمْ ۭكَذٰلِكَ جَزَاۗءُ الْكٰفِرِيْنَ\019\01 ) 2 ۔ البقرة :191) میں بیان ہے کہ ان سے مسجد حرام کے پاس نہ لڑو جب تک کہ وہاں لڑائی نہ کریں ہاں اگر وہ تم سے لڑیں تو تم بھی ان سے لڑو۔ یہی جواب حرمت والے مہینے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طائف کے محاصرے کا ہے کہ دراصل ہوازن اور ثقیف کے ساتھ جنگ کا یہ لڑائی تتمہ تھی انہوں نے ہی جنگ کی ابتداء کی تھی ادھر ادھر سے آپ کے مخالفین کو جمع کر کے لڑائی کی دعوت دی تھی پس حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی طرف پیش قدمی کی یہ پیش قدمی بھی حرمت والے مہینے میں نہ تھی یہاں شکست کھا کر یہ لوگ طائف میں جا چھپے اور وہاں قلعہ بند ہوگئے آپ اس مرکز کو خالی کرانے کے لئے اور آگے بڑھے انہوں نے مسلمانوں کو نقصان پہنچایا یا مسلمانوں کی ایک جماعت کو قتل کر ڈالا ادھر محاصرہ جاری رہا منجنیق وغیرہ سے چالیس دن تک ان کو گھیرے رہے الغرض اس جنگ کی ابتداء حرمت والے مہینے میں نہیں ہوئی تھی لیکن جنگ نے طول کھینچا حرمت والا مہینہ بھی آگیا جب چند دن گذر گئے آپ نے محاصرہ ہٹا لیا پس جنگ کا جاری رکھنا اور چیز ہے اور جنگ کی ابتدء اور چیز ہے اس کی بہت سی نظیریں ہیں واللہ اعلم۔ اب اس میں جو حدیثیں ہیں ہم انہیں وارد کرتے ہیں ہم انہیں سیرت میں بھی بیان کرچکے ہیں۔ واللہ اعلم۔