اور اگر آپ ان سے دریافت کریں تو وہ ضرور یہی کہیں گے کہ ہم تو صرف (سفر کاٹنے کے لئے) بات چیت اور دل لگی کرتے تھے۔ فرما دیجئے: کیا تم اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مذاق کر رہے تھے،
English Sahih:
And if you ask them, they will surely say, "We were only conversing and playing." Say, "Is it Allah and His verses and His Messenger that you were mocking?"
1 Abul A'ala Maududi
اگر ان سے پوچھو کہ تم کیا باتیں کر رہے تھے، تو جھٹ کہہ دیں گے کہ ہم تو ہنسی مذاق اور دل لگی کر رہے تھے ان سے کہو، "کیا تمہاری ہنسی دل لگی اللہ اور اُس کی آیات اور اس کے رسول ہی کے ساتھ تھی؟
2 Ahmed Raza Khan
اور اے محبوب اگر تم ان سے پوچھو تو کہیں گے کہ ہم تو یونہی ہنسی کھیل میں تھے تم فرماؤ کیا اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنستے ہو،
3 Ahmed Ali
اور اگر تم ان سے دریافت کرو تو کہیں گے کہ ہم یونہی بات چیت اور دل لگی کر رہے تھےکہہ دو کیا الله سے اور اس کی آیتوں سے اور اس کے رسول سے تم ہنسی کرتے تھے
4 Ahsanul Bayan
اگر آپ ان سے پوچھیں تو صاف کہہ دیں گے کہ ہم تو یونہی آپس میں ہنس بول رہے تھے۔ کہہ دیجئے کہ اللہ اس کی آیتیں اور اس کا رسول ہی تمہارے ہنسی مذاق کے لئے رہ گئے ہیں (١)۔
٦٥۔١ منافقین آیات الٰہی کا مذاق اڑاتے، مومنین کا استہزا کرتے حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخانہ کلمات کہنے سے گریز نہ کرتے جس کی اطلاع کسی نہ کسی طریقے سے بعض مسلمانوں کو اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہو جاتی۔ لیکن جب ان سے پوچھا جاتا تو صاف مکر جاتے اور کہتے کہ ہم تو یوں ہی ہنسی مذاق کر رہے تھے۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا ہنسی مذاق کے لئے کیا تمہارے سامنے اللہ اور اس کی آیات و رسول ہی رہ گیا ہے؟ مطلب یہ ہے کہ اگر مقصد تمہارا آپس میں ہنسی مذاق کا ہوتا تو اس میں اللہ، اس کی آیات و رسول درمیان میں کیوں آتے، یہ یقینا تمہارے اس خبث اور نفاق کا اظہار ہے جو آیات الٰہی اور ہمارے پیغمبر کے خلاف تمہارے دلوں میں موجود ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور اگر تم ان سے (اس بارے میں) دریافت کرو تو کہیں گے ہم تو یوں ہی بات چیت اور دل لگی کرتے تھے۔ کہو کیا تم خدا اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنسی کرتے تھے
6 Muhammad Junagarhi
اگر آپ ان سے پوچھیں تو صاف کہہ دیں گے کہ ہم تو یونہی آپس میں ہنس بول رہے تھے۔ کہہ دیجئے کہ اللہ، اس کی آیتیں اور اس کا رسول ہی تمہارے ہنسی مذاق کے لئے ره گئے ہیں؟
7 Muhammad Hussain Najafi
(اے رسول(ص)) اگر آپ ان سے پوچھ گچھ کریں تو وہ ضرور کہیں گے کہ ہم تو صرف بحث کر رہے تھے اور تفریح طبعی کر رہے تھے۔ کیا تم اللہ، اس کے رسول اور اس کی آیات سے تمسخر کرتے ہو؟
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور اگر آپ ان سے باز پرس کریں گے تو کہیں گے کہ ہم تو صرف بات چیت اور دل لگی کررہے تھے تو آپ کہہ دیجئے کہ کیا اللہ اور اس کی آیات اور رسول کے بارے میں مذاق اڑارہے تھے
9 Tafsir Jalalayn
اور اگر تم ان سے (اس بارے میں) دریافت کرو تو کہیں گے کہ ہم تو یوں ہی بات چیت اور دل لگی کرتے تھے۔ کہو کیا تم خدا اور اسکی آیتوں اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہنسی کرتے تھے ؟ شان نزول : لئن سَالتھم، تفسیر ابن ابی حاتم وغیرہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس اور قتادہ سے اس آیت کا جو شان نزول مروی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں ایک جماعت منافقین کی تھی کبھی تو وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں خفیہ طور پر بدگوئی کرتے اور کبھی قرآن کے بارے میں نکتہ چینی کرتے اور جب ان سے کہا جاتا تو فورا مکر جاتے اور قسمیں کھانے لگتے، اور کہہ دیتے کہ ہم تو آپس میں یوں ہی ہنسی مذاق کر کے ٹائم پاس کر رہے تھے، ان کے حال کو ظاہر کرنے کی غرض سے اللہ تعالیٰ نے ان آیات کو نازل فرمایا۔ اِنْ یُّسعْفَ یاء کے ساتھ بصیغہ مجہول اور نون کے ساتھ بصیغہ معروف، اگر تم میں کی کوئی جماعت اس حرکت سے باز آجائے اور دل سے توبہ کرلے تو معاف کردیا جائے گا، جیسا کہ مخشی بن حمیر اور بعض نسخوں میں حجش بن حمیر ہے یہ شخص بھی ان لوگوں میں شامل تھا جو اللہ کے رسول اور قرآن کا مذاق اڑایا کرتے مگر جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس نے سچے دل سے توبہ کرلی اور جنگ یمامہ میں شہید ہوا، اس نے دعاء کی تھی کہ اے اللہ تو مجھے اپنے راستہ میں شہادت نصیب فرما، کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ مجھے غسل دیا گیا یا مجھے کفنایا گیا یا مجھے دفن کیا گیا چناچہ جنگ یمامہ میں شہید ہوئے اور کسی کو معلوم نہ ہوسکا کہ ان کی جائے شہادت کہا تھی اور کس نے ان کو کفن دیا ؟
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَلَئِن سَأَلْتَهُمْ﴾ ” اور اگر آپ ان سے دریافت کریں۔“ اس بارے میں جو وہ مسلمانوں اور ان کے دین کی بابت طعن و تشنیع کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک گروہ غزوہ تبوک کے موقع پر کہتا تھا ” ہم نے ان جیسے لوگ نہیں دیکھے“ ان کی مراد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے اصحاب کرام تھے۔۔۔” جو کھانے میں پیٹو، زبان کے جھوٹے اور میدان جنگ میں بزدلی دکھانے والے ہیں۔“ [تفسیر طبری، 6؍ 220] جب انہیں یہ بات پہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کی ہر زہ سرائی کا علم ہوگیا ہے تو معذرت کرتے اور یہ کہتے ہوئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ﴿ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ ﴾ ” ہم تو بات چیت کرتے تھے اور دل لگی“ یعنی ہم تو ایک ایسی بات کہہ رہے تھے جس سے کسی کو نشانہ بنانا یا طعن اور رعیب جوئی ہمارا مقصود نہ تھا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کا عدم عذر اور ان کا جھوٹ واضح کرتے ہوئے فرمایا : ﴿قُلْ﴾ ان سے کہہ دیجیے : ﴿ أَبِاللَّـهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ ۚ﴾ ” کیا تم اللہ سے، اس کے حکموں سے اور اس کے رسول سے ٹھٹھے کرتے تھے؟ تم بہانے مت بناؤ تم ایمان لانے کے بعد کافر ہوچکے ہو۔“ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ استہزاء اور تمسخر کفر ہے جو دائرہ اسلام سے خارج کردیتا ہے، کیونکہ دین کی اساس اللہ تعالیٰ، اس کے دین اور اس کے رسول کی تعظیم پر مبنی ہے۔ ان میں سے کسی کے ساتھ استہزاء کرنا اس اساس کے منافی اور سخت متناقض ہے۔ بنا بریں جب وہ معذرت میں یہ بات کہتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے اس سے زیادہ کچھ نہ فرمایا ﴿ أَبِاللَّـهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ﴾ ” کیا تم اللہ، اس کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ دل لگی کرتے تھے؟ اب معذرتیں نہ کرو تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کا ارتکاب کیا۔“ فرمایا :
11 Mufti Taqi Usmani
aur agar tum unn say poocho to yeh yaqeenan yun kahen gay kay : hum to hansi mazaq aur dil lagi ker rahey thay . kaho kay : kiya tum Allah aur uss ki aayaton aur uss kay Rasool kay sath dil lagi ker rahey thay ?
12 Tafsir Ibn Kathir
مسلمان باہم گفتگو میں محتاط رہا کریں ایک منافق کہہ رہا تھا کہ ہمارے یہ قرآن خواں لوگ بڑے شکم دار شیخی باز اور بڑے فضول اور بزدل ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جب اس کا ذکر ہوا تو یہ عذر پیش کرتا ہوا آیا کہ یا رسول اللہ ہم تو یونہی وقت گزاری کے لئے ہنس رہے تھے آپ نے فرمایا ہاں تمہارے ہنسی کے لئے اللہ رسول اور قرآن ہی رہ گیا ہے یاد رکھو اگر کسی کو ہم معاف کردیں گے تو کسی کو سخت سزا بھی دیں گے۔ اس وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی اونٹنی پر سوار جا رہے تھے یہ منافق آپ کی تلوار پر ہاتھ رکھے پتھروں سے ٹھوکریں کھاتا ہوا معذرت کرتا ساتھ ساتھ جا رہا تھا آپ اس کی طرف دیکھتے بھی نہ تھے۔ جس مسلمان نے اس کا یہ قول سنا تھا اس نے اسی وقت جواب بھی دیا تھا کہ تو بکتا ہے جھوٹا ہے تو منافق ہے یہ واقعہ جنگ تبوک کے موقعہ کا ہے مسجد میں اس نے یہ ذکر کیا تھا۔ سیرت ابن اسحاق میں ہے کہ تبوک جاتے ہوئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ منافقوں کا ایک گروہ بھی تھا جن میں ودیعہ بن ثابت اور فحش بن حمیر وغیرہ تھے یہ آپس میں گفتگو کر رہے تھے کہ نصرانیوں کی لڑائی کو عربوں کی آپس کی لڑائی جیسی سمجھنا سخت خطرناک غلطی ہے اچھا ہے انہیں وہاں پٹنے دو پھر ہم بھی یہاں ان کی درگت بنائیں گے۔ ان پر ان کے دوسرے سردار فحش نے کہا بھئی ان باتوں کو چھوڑو ورنہ یہ ذکر پھر قرآن میں آئے گا۔ کوڑے کھا لینا ہمارے نزدیک تو اس رسوائی سے بہتر ہے۔ آگے آگے یہ لوگ یہ تذکرے کرتے جا ہی رہے تھے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمار سے فرمایا جانا ذرا دیکھنا یہ لوگ جل گئے ان سے پوچھ تو کہ یہ کیا ذکر کر رہے تھے ؟ اگر یہ انکار کریں تو تو کہنا کہ تم یہ باتیں کر رہے تھے۔ حضرت عمار نے جا کر ان سے یہ کہا یہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور عذر معذرت کرنے لگے کہ حضور ہنسی ہنسی میں ہمارے منہ سے ایسی بات نکل گئی، ودیعہ نے تو یہ کہا لیکن فحش بن حمیر نے کہا یا رسول اللہ آپ میرا اور میرے باپ کا نام ملاحظہ فرمائیے پس اس وجہ سے یہ لغو حرکت اور حماقت مجھ سے سرزد ہوئی معاف فرمایا جاؤں۔ پس اس سے جناب باری نے درگذر فرما لیا اور اس آیت میں اسی سے درگذر فرمانے کا ذکر بھی ہوا ہے اس کے بعد اس نے اپنا نام بدل لیا عبدالرحمن رکھا سچا مسلمان بن گیا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ یا اللہ مجھے اپنی راہ میں شہید کرنا کہ یہ دھبہ دھل جائے چناچہ یمامہ والے دن یہ بزرگ شہد کردیئے گئے اور ان کی نعش بھی نہ ملی (رض) ورضاء۔ ان منافقوں نے بطور طعنہ زنی کے کہا تھا کہ لیجئے کیا آنکھیں پھٹ گئیں ہیں اب یہ چلے ہیں کہ رومیوں کے قلعے اور ان کے محلات فتح کریں بھلا اس عقلمندی اور دوربینی کو تو دیکھئے جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے ان کی ان باتوں پر مطلع کردیا تو یہ صاف منکر ہوگئے اور قسمیں کھا کھا کر کہا کہ ہم نے یہ بات نہیں کہی ہم تو آپس میں ہنسی کھیل کر رہے تھے ہاں ان میں ایک شخص تھا جسے انشاء اللہ اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا ہوگا یہ کہا کرتا تھا کہ یا اللہ میں تیرے کلام کی ایک آیت سنتا ہوں جس میں میرے گناہ کا ذکر ہے جب بھی سنتا ہوں میرے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور میرا دل کپکپانے لگتا ہے۔ پروردگار تو میری توبہ قبول فرما اور مجھے اپنی راہ میں شہید کر اور اس طرح کہ نہ کوئی مجھے غسل دے نہ کفن دے نہ دفن کرے یہی ہوا جنگ یمامہ میں یہ شہداء کے ساتھ شہید ہوئے تمام شہداء کی لاشیں مل گئیں لیکن انکی نعش کا پتہ ہی نہ چلا۔ جناب باری کی طرف سے اور منافقوں کو جواب ملا کہ اب بہانے نہ بناؤ تم زبانی ایماندار بنے تھے لیکن اب اسی زبان سے تم کافر ہوگئے یہ قول کفر کا کلمہ ہے کہ تم نے اللہ رسول اور قرآن کی ہنسی اڑائی۔ ہم اگر کسی سے درگذر بھی کر جائیں لیکن تم سب سے یہ معاملہ نہیں ہونے کا تمہارے اس جرم اور اس بدترین خطا اور اس کافرانہ گفتگو کی تمہیں سخت ترین سزا بھگتنا پڑے گی۔