(بھلا ان سے عہد کی پاسداری کی توقع) کیونکر ہو، ان کا حال تو یہ ہے کہ اگر تم پر غلبہ پا جائیں تو نہ تمہارے حق میں کسی قرابت کا لحاظ کریں اور نہ کسی عہد کا، وہ تمہیں اپنے مونہہ سے تو راضی رکھتے ہیں اور ان کے دل (ان باتوں سے) انکار کرتے ہیں اور ان میں سے اکثر عہد شکن ہیں،
English Sahih:
How [can there be a treaty] while, if they gain dominance over you, they do not observe concerning you any pact of kinship or covenant of protection? They satisfy you with their mouths, but their hearts refuse [compliance], and most of them are defiantly disobedient.
1 Abul A'ala Maududi
مگر اِن کے سوا دوسرے مشرکین کے ساتھ کوئی عہد کیسے ہوسکتا ہے جبکہ اُن کا حال یہ ہے کہ تم پر قابو پا جائیں تو نہ تمہارے معاملہ میں کسی قرابت کا لحاظ کریں نہ کسی معاہدہ کی ذمہ داری کا وہ اپنی زبانوں سے تم کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر دل ان کے انکار کرتے ہیں اور ان میں سے اکثر فاسق ہیں
2 Ahmed Raza Khan
بھلا کیونکر ان کا حال تو یہ ہے کہ تم پر قابو پائیں تو نہ قرابت کا لحاظ کریں نہ عہد کا، اپنے منہ سے تمہیں راضی کرتے ہیں اور ان کے دلوں میں انکار ہے اور ان میں اکثر بے حکم ہیں
3 Ahmed Ali
کیوں کر صلح ہو اور اگر وہ تم پر غلبہ پائیں تو نہ تمہاری قرابت کا لحاظ کریں اور نہ عہد کا تمہیں اپنی منہ کی باتوں سے راضی کرتے ہیں اور ان کے دل نہیں مانتے اور ان میں سے اکثر بد عہد ہیں
4 Ahsanul Bayan
ان کے وعدوں کا کیا اعتبار ان کا اگر تم پر غلبہ ہو جائے تو نہ یہ قرابت داری کا خیال کریں نہ عہد و پیمان کا (١) اپنی زبانوں سے تمہیں پرچا رہے ہیں لیکن ان کے دل نہیں مانتے ان میں اکثر فاسق ہیں۔
٨۔١ مشرکین کی زبانی باتوں کا کیا اعتبار، جب کہ ان کا یہ حال ہے کہ اگر تم پر غالب آجائیں تو کسی قرابت اور عہد کا پاس نہیں کریں گے۔ بعض مفسرین کے نزدیک پہلا کیف مشرکین کے لئے ہے اور دوسرے سے یہودی مراد ہیں، کیونکہ ان کی صفت بیان کی گئی ہے کہ اللہ کی آیتوں کو کم قیمت پر بیچ دیتے ہیں۔ اور یہ وطیرہ یہودیوں کا ہی رہا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(بھلا ان سے عہد) کیونکر (پورا کیا جائے جب ان کا یہ حال ہے) کہ اگر تم پر غلبہ پالیں تو نہ قرابت کا لحاظ کریں نہ عہد کا۔ یہ منہ سے تو تمہیں خوش کر دیتے ہیں لیکن ان کے دل (ان باتوں کو) قبول نہیں کرتے۔ اور ان میں اکثر نافرمان ہیں
6 Muhammad Junagarhi
ان کے وعدوں کا کیا اعتبار ان کا اگر تم پر غلبہ ہو جائے تو نہ یہ قرابت داری کا خیال کریں نہ عہدوپیمان کا، اپنی زبانوں سے تو تمہیں پرچا رہے ہیں لیکن ان کے دل نہیں مانتے ان میں سے اکثر تو فاسق ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
(ان کے سوا دوسرے) مشرکین سے کس طرح کوئی معاہدہ ہو سکتا ہے؟ حالانکہ اگر وہ تم پر غلبہ پا جائیں تو وہ تمہارے بارے میں نہ کسی قرابت کا پاس کریں اور نہ کسی عہد و پیمان کی ذمہ داری کا۔ وہ صرف تمہیں اپنے منہ (کی باتوں) سے راضی کرنا چاہتے ہیں اور ان کے دل انکار کرتے ہیں۔ اور ان میں سے زیادہ تر لوگ فاسق (نافرمان) ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ان کے ساتھ کس طرح رعایت کی جائے جب کہ یہ تم پر غالب آجائیں تو نہ کسی ہمسائگی اور قرابت کی نگرانی کریں گے اور نہ کوئی عہد و پیمان دیکھیں گے - یہ تو صرف زبانی تم کو خوش کررہے ہیں ورنہ ان کا دل قطعی منکر ہے اور ان کی اکثریت فاسق اور بدعہد ہے
9 Tafsir Jalalayn
(بھلا ان سے عہد) کیونکر (پورا کیا جائے جب انکا حال یہ ہے) کہ اگر تم پر غلبہ پالیں تو نہ قرابت کا لحاظ کریں نہ عہد کا ؟ یہ منہ سے تو تمہیں خوش کردیتے ہیں لیکن ان کے دل (ان باتوں کو قبول نہیں کرتے) اور ان میں سے اکثر نافرمان ہیں۔ آیت نمبر ٨ تا ١٦ ترجمہ : مشرکوں کے لئے اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک کوئی عہد کیسے ہوسکتا ہے ؟ یعنی نہیں ہوسکتا، مراد وہ مشرکین ہیں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ (عہد شکنی کر کے) غداری کی، البتہ جن لوگوں سے تم نے مسجد حرام (حرم) کے قریب حدیبیہ کے مقام پر معاہدہ کیا اور وہ قریش ہیں جن کا ماقبل میں استثنا ہوچکا ہے، تو جب تک وہ تمہارے ساتھ عہد پر قائم رہیں اور معاہدہ کو نہ توڑیں، تو تم بھی ان کے ساتھ وفاء عہد پر قائم رہو، اور ما شرطیہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ متقیوں سے محبت رکھتا ہے، اور رسول ان کے ساتھ عہد پر قائم رہے یہاں تک کہ قریش نے خزاعہ کے خلاف بنی بکر کی مدد کر کے عہد کو توڑ دیا ان مشرکوں کے ساتھ عہد کیسے باقی رہ سکتا ہے جبکہ ان کا حال یہ ہے کہ اگر وہ تمہارے اوپر غلبہ حاصل کرلیں (یعنی) فتح مند ہوجائیں تو نہ تمہاری قرابت داری کا لحاظ کریں اور نہ عہد کا، بلکہ حتی المقدور تم کو ایذاء پہنچائیں اور جملہ شرطیہ حال ہے وہ اپنی باتوں سے یعنی (زبانی) خوش کن باتوں سے تم کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ ان کے دل وفاء عہد سے انکار کرتے ہیں اور ان میں سے اکثر نقض عہد کر کے حد سے تجاوز کرنے والے ہیں ان لوگوں نے اللہ کی آیات کے بدلے دنیا کی حقیر قیمت قبول کرلی ہے یعنی آیات کی اتباع کو شہوتوں اور خواہشوں کے بدلے ترک کردیا ہے، پھر اللہ کے راستہ یعنی دین کے راستہ میں سد راہ بن کر کھڑے ہوگئے ہیں، بہت برے کرتوت ہیں جو یہ کرتے رہے ہیں یعنی ان کے یہ اعمال، کسی مومن کے معاملہ میں نہ یہ قرابتداری کا لحاظ کرتے ہیں اور نہ (عہد کی) ذمہ داری کا، یہ ہیں ہی زیادتی کرنے والے پس اگر یہ لوگ توبہ کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰة ادا کریں تو تمہارے دینی بھائی ہیں اور جاننے والوں (یعنی) غور و فکر کرنے والوں کے لئے ہم احکام واضح کردیتے ہیں، اور اگر وہ عہد کرنے کے بعد اپنی قسموں (عہدوں) کو توڑ دیں اور تمہارے دین میں طعنہ زنی (عیب جوئی) کریں تو تم ان کفر کے پیشوائوں سے قتال کرو اس میں اسم ضمیر کے بجائے اسم ظاہر لایا گیا ہے، (یعنی قاتلوھم کے بجائے قاتلوا أئمة الکفر کہا گیا ہے) اس لئے کہ ان کی قسموں (معاہدوں) کا کوئی اعتبار نہیں اور ایک قراءت میں ایمان کسرہ کے ساتھ ہے، (یعنی ان کے ایمان کا کوئی اعتبار نہیں) ممکن ہے کہ وہ اس طرح کفر سے باز آجائیں، کیا تم ایسے لوگوں سے نہ لڑو گے کہ جنہوں نے اپنے عہد توڑ دئیے اور رسول کو مکہ سے نکال دینے کا قصد کیا، جبکہ انہوں نے دارالندوہ میں اسی سلسلہ میں مشورہ کیا، اور ان ہی نے اول مرتبہ تم پر قتال کی ابتداء کی، اس طریقہ پر کہ خزاعہ سے جو کہ تمہارے حلیف تھے بنی بکر کے ساتھ مل کر قتال کیا، پس تمہارے لئے کیا چیز مانع ہے کہ تم ان سے قتال نہ کرو کیا تم ان سے ڈرتے ہو ؟ یعنی خوف کھاتے ہو اگر تم مومن ہو تو اللہ اس کا زیادہ مستحق ہے کہ تم ان سے ترک قتال کے بارے میں اس سے ڈرو، تم ان سے لڑو اللہ تمہارے ہاتھوں قتل کر کے ان کو سزا دے گا اور قید و غلبہ کے ذریعہ ان کو رسوا کرے گا اور ان کے مقابلہ میں تمہاری مدد کرے گا، اور جو کچھ ان کے ساتھ کیا جائے گا اس کے ذریعہ بہت سے مومنوں کے دلوں کو ٹھنڈا کر دے گا اور وہ بنو خزاعہ ہیں اور ان کے قلوب کی بےچینی کو دور کر دے گا، اور اللہ جسے چاہے گا اسلام کی طرف مائل کر کے توبہ کی توفیق دے گا، جیسا کہ ابو سفیان کو اور اللہ سب کچھ جاننے والا حکمت والا ہے کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تم یوں ہی چھوڑ دئیے جائو گے ؟ اَمْ ہمزہ استفہام انکاری کے معنی میں ہے حالانکہ اللہ نے ابھی یہ ظاہر کیا ہی نہیں کہ تم میں سے وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے اخلاص کے ساتھ جہاد کیا ؟ (اور کس نے) اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنوں کے سوا کسی کو راز دار جگری دوست نہیں بنایا، مطلب یہ کہ مخلصوں سے ابھی ممتاز نہیں کیا، اور مخلصین وہ ہیں جو مذکورہ صفات سے متصف ہیں اور اللہ تمہارے کاموں سے بخوبی واقف ہے۔ تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد قولہ : ای لا اس میں اشارہ ہے کہ کَیْفَ استفھام تعجبی بمعنی نفی ہے یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد اَلاَّ سے استثناء درست ہے کَیْفَ ، یکون کی خبر مقدم ہے اور عھد اسم مؤخر ہے کَیْفَ کو صدارت کلام کا مقتضی ہونے کی وجہ سے مقدم کردیا گیا ہے للمشرکین ثابتًا یا باقیًا کے متعلق ہو کر عھد کا حال مقدم ہے اور اگر للمشرکین عھد سے مؤخر ہوتا تو اس کی صفت ہوتا، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یکون ، تامہ ہو اور کَیْفَ حال ہونے کی وجہ سے محل نصب کے ہو۔ قولہ : ما شرطیة ما شرطیہ ہے نہ کہ موصولہ اور فاسْتَقَامُوا لھُمْ ، جزاء ہے۔ قولہ : کیفَ ، کیفَ کے بعد یکون فعل محذوف ہے جس کو مفسر علام نے ظاہر کردیا ہے ما قبل کے قرینہ کی وجہ سے فعل کو حذف کردیا گیا ہے۔ سوال : کیفَ کو مکرر کیوں لائے ہیں ؟ جواب : مشرکین کے عہد پر قائم رہنے کے استبعاد کو ظاہر کرنے کے لئے اور عدم ثبات کی علت کو بیان کرنے کے لئے، اور علت، واِنْ یُظْھَرُوْا ہے۔ قولہ : اِلاَّ ، اِلّ کے معنی متعدد ہیں، قرابت، عہد، پڑوس، عداوت، کینہ، حسد۔ قولہ : وجملة الشرط حال، یعنی واِنْ یظفروا علیکم شرط ہے اور لا یرقبوا الخ جزاء جملہ شرطیہ کَیْف یَکون لھم سے حال ہے لہٰذا اب یہ اعتراض ختم ہوگیا کہ جملہ شرطیہ کا عطف جملہ حملیہ پر درست نہیں ہے۔ قولہ : ای فھم اخوانکم یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : یہ ہے کہ فھم مقدر ماننے کی کیا ضرورت پیش آئی ہے۔ جواب : یہ ہے کہ اخوانکم چونکہ فاِن تابوا کی جزاء ہے اور جزاء کے لئے جملہ ہونا شرط ہے مفسر علام نے ھم محذوف مان کر جملہ تامہ بنادیا۔ قولہ : خزاعة حلفاء کم خزاعہ موصوف ہے اور حلفاء کم اس کی صفت ہے۔ قولہ : ھم بنو خزاعة اس کا مقصد خزاعة اس کا مقصد مومنین کا مصداق متعین کرنا ہے اس سے معلوم ہوا کہ بنو خزاعہ غائبانہ طور پر ایمان لے آئے تھے۔ قولہ : وَلِیْجَة یہ ولوج سے ماخوذ ہے بمعنی دخول، جگری راز دار دوست، مفسر علام نے ولیجة کا ترجمہ بطانة سے کیا ہے بطانة استر کو کہتے ہیں جو کہ پوشیدہ رہتا ہے۔ تفسیر وتشریح اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب سے براءت کی حکمت : کَیْفَ یَکُوْنُ لِلْمُشْرِکِیْنَ عَھْد عِنْدَ اللہ، یہ استفہام نفی کے لئے ہے یعنی جن مشرکوں سے تمہارا معاہدہ ہے ان کے علاوہ اب کسی سے معاہدہ باقی نہیں رہا، سابقہ آیات میں براءت کی حکمت یہ ہے کہ ان مشرکوں سے معاہدہ کس طرح قائم رہ سکتا ہے اور معاہدہ سے کیا فائدہ ؟ کہ جن کا حال یہ ہے کہ اگر کسی وقت تم پر قابو حاصل کرلیں تو ایذاء رسانی میں ہرگز نہ قرابت کا خیال کریں اور نہ قول وقرار کا، چونکہ اتفاق سے تم پر غلبہ حاصل نہیں ہے اس لئے محض زبانی عہدو پیمان کر کے تم کو خوش رکھنا چاہتے ہیں ورنہ تو ان کے دل اس عہد پر ایک منٹ کے لئے بھی راضی نہیں ہر وقت عہد شکنی کا موقع تلاش کرتے رہتے ہیں خلاصہ یہ کہ ایسی دغا باز اور غدار قوم سے خدا اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کیا عہد ہوسکتا ہے ؟ البتہ جن قبائل سے تم معاہدہ کرچکے ہو اور بالخصوص مسجد حرام یعنی حرم کے قریب حدیبیہ میں معاہدہ کیا ہے تو تم اپنی طرف سے عہد شکنی نہ کرو جب تک وہ وفاداری کے راستہ پر چلیں تم بھی ان کے ساتھ سیدھے طریقہ پر رہو تم اپنے دامن کو عہد شکنی کی گندگی سے محفوظ رکھو خدا کو ایسے ہی لوگ محبوب ہیں، چناچہ بنو کنانہ وغیرہ نے مسلمانوں سے عہد شکنی نہیں کی تھی اور مسلمانوں نے بھی نہایت احتیاط اور دیانتداری کے ساتھ اپنا عہد پورا کیا، اعلان براءت کے وقت بنو کنانہ کی مدت معاہدہ نو ماہ باقی تھی ان کے ساتھ مسلمانوں نے مکمل طور پر معاہدہ کی پا بندی کی۔ بعض مفسرین کے نزدیک پہلا کَیْفَ مشرکین کے لئے ہے اور دوسرے سے مراد یہودی ہیں اس لئے کہ ان کی صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ اللہ کی آیتوں کو حقیر دنیا کے لئے فروخت کردیتے ہیں اور یہ خصلت یہود ہے بار بار وضاحت سے مقصد مشرکین اور یہود کی اسلام دشمنی اور ان کے سینوں میں مخفی عداوت کے جذبات کو بےنقاب کرنا ہے۔ واِنْ نَّکَثُوْا اَیْمَانَھُمْ مِنْ بَعْد عَھْدِھِمْ الخ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ اگر مشرکین مکہ اپنا عہد توڑ دیں اور تمہارے دین میں طعنہ زنی اور عیب جوئی کریں تو ائمہ کفر، پیشوایان شرک کو چن چن کر قتل کرو اس لئے کہ پورا فساد ان ہی کی وجہ سے ہے ان ہی لوگوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عہد کر کے اس کو توڑ ڈالا، اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ سے نکلنے پر مجبور کیا ( واقعہ اور مسائل کی پوری تفصیل سابق رکوع میں گذر چکی ہے ) ۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿كَيْفَ﴾ ” کیسے“ یعنی اللہ تعالیٰ کے ہاں مشرکین کے لئے کیسے عہد و میثاق ہوسکتا ہے۔ ﴿وَإِن يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ﴾ ” کہ اگر وہ تم پر غلبہ پا لیں‘‘ ان کا حال تو یہ ہے کہ اگر ان کو تم پر قدرت اور غلبہ حاصل ہو تو تم پر کوئی رحم نہیں کریں گے۔﴿لَا يَرْقُبُوا فِيكُمْ إِلًّا وَلَا ذِمَّةً﴾ ” تو نہ قرابت کا لحاظ کریں نہ عہد کا۔“ یعنی وہ کسی عہد اور قرابت کا لحاظ نہیں رکھیں گے، وہ تمہارے بارے میں اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈریں گے، بلکہ وہ تمہیں بدترین عذاب دیں گے۔ اگر وہ غالب آجائیں تو ان کا تمہارے ساتھ یہ حال ہوگا لیکن اگر وہ تم سے ڈر کر تمہارے ساتھ کوئی معاملہ کرتے ہیں تو تمہیں ان کے بارے میں دھوکے میں نہیں آنا چاہئے، کیونکہ ﴿يُرْضُونَكُم بِأَفْوَاهِهِمْ وَتَأْبَىٰ قُلُوبُهُمْ﴾ ” وہ اپنے منہ سے تمہیں خوش کردیتے ہیں اور ان کے دل تمہاری طرف میلان اور محبت سے انکار کرتے ہیں“ بلکہ وہ تمہارے حقیقی دشمن ہیں اور تمہارے ساتھ دلی بغض رکھتے ہیں۔ ﴿وَأَكْثَرُهُمْ فَاسِقُونَ﴾ ” اور ان کے اکثر بد عہد ہیں۔“ ان میں کوئی دیانت اور مروت نہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
. ( lekin doosray mushrikeen kay sath ) kaisay moahida barqarar reh sakta hai jabkay unn ka haal yeh hai kay agar kabhi tum per ghalib aajayen to tumharay moamlay mein naa kissi rishta daari ka khayal keren , aur naa kissi moahiday ka ? yeh tumhen apni zabani baaton say razi kerna chahtay hain , halankay inn kay dil inkar kertay hain , aur inn mein say aksar log nafarman hain .
12 Tafsir Ibn Kathir
کافروں کی دشمنی اللہ تعالیٰ کافروں کے مکر و فریب اور ان کی دلی عداوت سے مسلمانوں کو آگاہ کرتا ہے تاکہ وہ ان کی دوستی اپنے دل میں نہ رکھیں نہ ان کے قول وقرار پر مطمئن رہیں ان کا کفر شرک انہیں وعدوں کی پابندی پر رہنے نہیں دیتا۔ یہ تو وقت کے منتظر ہیں ان کا بس چلے تو یہ تو تمہیں کچے چبا ڈالیں نہ قرابت داری کو دیکھیں نہ وعدوں کی پاسداری کریں۔ ان سے جو ہو سکے وہ تکلیف تم پر توڑیں اور خوش ہوں۔ آل کے معنی قرابت داری کے ہیں۔ ابن عباس سے بھی یہی مروی ہے اور حضرت حسان کے شعر میں بھی یہی معنی کئے گئے ہیں کہ وہ اپنے غلبہ کے وقت اللہ کا بھی لحاظ نہ کریں گے نہ کسی اور کا۔ یہی لفظ ال ایل بن کر جبریل میکائیل اور اسرافیل میں آیا ہے یعنی اس کا معنی اللہ ہے لیکن پہلا قول ہی ظاہر اور مشہور ہے اور اکثر مفسرین کا بھی یہی قول ہے۔ مجاہد کہتے ہیں مراد عہد ہے قتادہ کا قول ہے مراد قسم ہے۔