التوبہ آية ۹۰
وَ جَاۤءَ الْمُعَذِّرُوْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ لِيُؤْذَنَ لَهُمْ وَقَعَدَ الَّذِيْنَ كَذَبُوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ ۗ سَيُصِيْبُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابٌ اَ لِيْمٌ
طاہر القادری:
اور صحرا نشینوں میں سے کچھ بہانہ ساز (معذرت کرنے کے لئے دربارِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں) آئے تاکہ انہیں (بھی) رخصت دے دی جائے، اور وہ لوگ جنہوں نے (اپنے دعویٰ ایمان میں) اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جھوٹ بولا تھا (جہاد چھوڑ کر پیچھے) بیٹھے رہے، عنقریب ان میں سے ان لوگوں کو جنہوں نے کفر کیا دردناک عذاب پہنچے گا،
English Sahih:
And those with excuses among the bedouins came to be permitted [to remain], and they who had lied to Allah and His Messenger sat [at home]. There will strike those who disbelieved among them a painful punishment.
1 Abul A'ala Maududi
بدوی عربوں میں سے بھی بہت سے لوگ آئے جنہوں نے عذر کیے تاکہ انہیں بھی پیچھے رہ جانے کی اجازت دی جائے اِس طرح بیٹھ رہے وہ لوگ جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے ایمان کا جھوٹا عہد کیا تھا ان بدویوں میں سے جن لوگوں نے کفر کا طریقہ اختیار کیا ہے عنقریب وہ دردناک سزا سے دوچار ہوں گے
2 Ahmed Raza Khan
اور بہانے بنانے والے گنوار آئے کہ انہیں رخصت دی جائے اور بیٹھ رہے وہ جنہوں نے اللہ و رسول سے جھوٹ بولا تھا جلد ان میں کے کافروں کو دردناک عذاب پہنچے گا
3 Ahmed Ali
اور بہانے کرنے والے گنوار آئے تاکہ انہیں رخصت مل جائے اوربیٹھ رہے وہ جنہوں نے الله اوراس کے رسول سے جھوٹ بولا تھا جو ان میں سے کافر ہیں عنقریب انہیں دردناک عذاب پہنچے گا
4 Ahsanul Bayan
بادیہ نشینوں میں سے عذر والے لوگ حاضر ہوئے کہ انہیں رخصت دے دی جائے اور وہ بیٹھ رہے جنہوں نے اللہ سے اور اس کے رسول سے جھوٹی باتیں بنائی تھیں۔ اب تو ان میں جتنے کفار ہیں انہیں دکھ دینے والی مار پہنچ کر رہے گی (١)۔
٩٠۔١ ان مُعَذرِیْن کے بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک یہ شہر سے دور رہنے والے وہ اعرابی ہیں جنہوں نے جھوٹے عذر پیش کر کے اجازت حاصل کی۔ دوسری قسم ان میں وہ تھی جنہوں نے آکر عذر پیش کرنے کی بھی ضرورت نہیں سمجھی اور بیٹھے رہے۔ اس طرح گویا آیت میں منافقین کے دو گروہوں کا تذ کرہ ہے اور عذاب الیم کی وعید میں دونوں شامل ہیں۔ اور منھم سے جھوٹے عذرپیش کرنے والے اور بیٹھ رہنے والے دونوں مراد ہوں گے اور دوسرے مفسرین نے معذرون سے مراد ایسے بادیہ نشین مسلمان لیے ہیں جنہوں نے معقول عذر پیش کر کے اجازت لی تھی اور معذرون ان کے نزدیک اصل میں معتذرون ہے تا کو ذال میں مدغم کر دیا گیا ہے اور معتذر کے معنی ہیں واقعی عذر رکھنے والا اس اعتبار سے آیت کے اگلے جملے میں منافقین کا تذکرہ ہے اور آیت میں دو گروہوں کا ذکر ہے پہلے جملے میں ان مسلمانوں کا جن کے پاس واقعی عذر تھے اور دوسرے منافقین جو بغیر عذر پیش کیے بیٹھے رہے اور آیت کے آخری حصے میں جو وعید ہے اسی دوسرے گروہ کے لیے ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور صحرا نشینوں میں سے بھی کچھ لوگ عذر کرتے ہوئے (تمہارے پاس) آئے کہ ان کو بھی اجازت دی جائے اور جنہوں نے خدا اور اس کے رسول سے جھوٹ بولا وہ (گھر میں) بیٹھ رہے سو جو لوگ ان میں سے کافر ہوئے ہیں ان کو دکھ دینے والا عذاب پہنچے گا
6 Muhammad Junagarhi
بادیہ نشینوں میں سے عذر والے لوگ حاضر ہوئے کہ انہیں رخصت دے دی جائے اور وه بیٹھ رہے جنہوں نے اللہ سے اور اس کے رسول سے جھوٹی باتیں بنائی تھیں۔ اب تو ان میں جتنے کفار ہیں انہیں دکھ دینے والی مار پہنچ کر رہے گی
7 Muhammad Hussain Najafi
اور صحرائی بَدوؤں میں عذر کرنے والے (آپ کے پاس) آئے کہ انہیں پیچھے رہ جانے کی اجازت دے دی جائے۔ اور جنہوں نے (اسلام کا اظہار کرکے) خدا و رسول سے جھوٹ بولا تھا وہ (بلا اجازت) گھروں میں بیٹھے رہے۔ ان میں سے جنہوں نے کفر اختیار کیا ہے انہیں عنقریب دردناک عذاب پہنچے گا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور آپ کے پاس دیہاتی معذرت کرنے والے بھی آگئے کہ انہیں بھی گھر بیٹھنے کی اجازت دے دی جائے اور وہ بھی بیٹھ رہے جنہوں نے خدا و رسول سے غلط بیانی کی تھی تو عنقریب ان میں کے کافروں پر بھی دردناک عذاب نازل ہوگا
9 Tafsir Jalalayn
اور صحرا نشینوں میں سے بھی کچھ لوگ عذر کرتے ہوئے (تمہارے پاس) آئے کہ ان کو بھی اجازت دی جائے۔ اور جنہوں نے خدا اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جھُوٹ بولا وہ (گھر میں) بیٹھ رہے۔ سو جو لوگ ان میں سے کافر ہوئے انکو دکھ دینے والا عذاب پہنچے گا۔
آیت نمبر ٩٠ تا ٩٣
ترجمہ : اور آئے عذر کرنے والے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس عرب کے کچھ بدو، اصل میں تاء کو ذال میں اور ادغام کر کے یعنی مُعْتَذِرُوْنَ میں ( اور معتذرون) معنی میں معذورین کے ہے، اور ایک قراءت میں معتذرون بھی پڑھا گیا ہے تاکہ ان کو (مدینہ ہی میں) بیٹھ رہنے کی اجازت مل جائے ان کے عذر کی وجہ سے چناچہ ان کو اجازت دے دی گئی، اور بدو منافقین میں سے جنہوں نے دعوائے ایمان میں اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کی وہ تو عذر کرنے سے بھی بیٹھ گئے (یعنی عذر کرنے بھی نہ آئے) ان میں سے جن لوگوں نے کفر کیا ان کو دردناک عذاب لاحق ہوگا اور کمزوروں مثلاً بوڑھے اور مریضوں پر مثلاً اندھے اور اپاہج پر اور ان لوگوں پر جن کو جہاد کا خرچ میسر نہ ہو جہاد سے پیچھے رہ جانے میں کوئی گناہ نہیں بشرطیکہ یہ لوگ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ خلوص رکھیں یعنی (گھر) بیٹھ رہنے کی صورت میں فتنہ پردازی نہ کریں اور لوگوں کو جہاد سے نہ روکیں اور اطاعت میں لگے رہیں، ان نیکوکاروں پر اس بیٹھ رہنے کی وجہ سے کوئی الزام کی راہ نہیں ہے (مؤاخذہ نہیں) اور اللہ ان کو معاف کرنے والا ہے اس معاملہ میں ان کو وسعت دے کر ان پر رحم کرنے والا ہے اسی طرح ان لوگوں پر بھی کوئی الزام عائد نہیں ہوتا جو آپ کے پاس آئے تاکہ آپ ان کو سواریاں بہم پہنچا کر اپنے ساتھ غزوہ میں لے چلیں اور وہ سات انصاری تھے اور کہا گیا ہے کہ بنو مقرن کے لوگ تھے آپ نے ان سے کہہ دیا کہ میرے پاس سواریاں نہیں ہیں اور قُلْتَ ، اتوکَ کی ضمیر سے حال ہے تو وہ (مجبوراً ) واپس چلے گئے حال یہ کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے من بیانیہ ہے اور انہیں اس بات کا بڑا غم تھا کہ انہیں وہ (وسعت) میسر نہیں کہ جس کو جہاد میں خرچ کریں، البتہ الزام ان لوگوں پر ہے جو مالدار ہیں پھر بھی آپ سے پیچھے رہنے کی درخواست کرتے ہیں، انہوں نے گھر بیٹھے والیوں میں شامل ہونا پسند کیا ہے، اور اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے اس لئے اب یہ کچھ جانتے نہیں ہیں ایسی ہی آیت سابق میں گذر چکی ہے۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد :
قولہ : اَلْمُعَذِّرُوْنَ (تَعْذیر، تفعیل سے) اسم فاعل جمع مذکر، جھوٹا عذر پیش کرنے والے، مفسر علام نے مُعَذِّرُون، کی اصل معتذرون بتا کر اشارہ کردیا کہ مُعَذِّرونَ باب افتعال سے ہے، اس وقت اس کے معنی ہوں گے حقیقت میں معذور، المعذّرون کو باب افتعال سے قرار دینے کے دو مقصد ہیں اول یہ کہ باب تفعیل متعدی ہوتا ہے حالانکہ یہاں غیر متعدی استعمال ہوا ہے جواب کا حاصل یہ ہے کہ مُعَذِّرُوْنَ باب افتعال ہی سے ہے اس میں تاء کو ذال سے بدل کر ذال کو ذال میں ادغام کردیا گیا ہے لہٰذا اب کوئی اعتراض نہیں ہے۔ دوسرے یہ شبہ بھی دفع ہوگیا کہ عَذّرَ (تفعیل) کے معنی ہیں جھوٹا عذر ظاہر کرنا، حالانکہ آنے والے حقیقت میں معذور تھے اس شبہ کو المعتذرون بمعنی معذورین کا ذکر آگے جملہ \&\& وقَعَدَ الّذین کذبوا \&\& الخ میں آرہا ہے۔
قولہ : الزّمنٰی یہ زمانہ سے ماخوذ ہے اس کے معنی ہیں اپاہج، عاجز۔
ٍقولہ : اِرجَاف، افواہ پھیلانا، فتنہ پردازی کرنا مومنوں میں بری خبر کی اشاعت کرنا۔
قولہ : بعدمِ الارجاف، نصحوا، کے متعلق ہے۔ قولہ : التثبیط، روکنا، باز رکھنا۔
قولہ : والطاعةِ ، اس کا عطف عدم الا رجاف پر ہے نہ کہ ارجاف پر لہٰذا اب معنی درست ہوگئے۔
قولہ : حال یعنی قلت لا اجدُ ، اَتَوْکَ کے کاف سے تقدیر قد کے ساتھ حال ہے لہٰذا یہ اعتراض ختم ہوگیا کہ ماضی بغیر قد کے حال واقع نہیں ہوتا۔
تفسیر وتشریح
وَجَائَ المعذِّ رون من الاعراب الخ، ان معذرین کے بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے بعض کے نزدیک یہ شہر سے دور ہنے والے وہ اعرابی تھے جنہوں نے جھوٹے عذر پیش کر کے اجازت حاصل کی، ان میں دوسری قسم وہ تھی جنہوں نے آپ کی خدمت میں آکر عذر پیش کرنے کی بھی ضرورت نہیں سمجھی، اور بیٹھے رہے، اس طرح آیت میں گویا منافقین کے دو گروہوں کا تذکرہ ہے اور عذاب الیم کی وعید میں دونوں شامل ہیں، اور منھم سے بھی دونوں گروہ مراد ہیں، اور دوسرے مفسرین نے مُعَذِّ رُونَ سے بادیہ نشین (بدوی) مسلمان مراد لئے ہیں جنہوں نے معقول عذر پیش کر کے اجازت چاہی تھی، اور مُعَذِّرُوْنَ ان کے نزدیک اصل میں مُعْتَذِرُوْنَ تھا تاء کو ذال کر کے ذال کو ذال میں مدغم کردیا گیا ہے اور مُعْتَذِر کے معنی ہیں واقعی عذر رکھنے والا، اس اعتبار سے آیت کے اگلے جملے میں منافقین کا تذکرہ ہے اور آیت میں دو گروہوں کا ذکر ہے، پہلے جملے میں ان مسلمانوں کا جن کے پاس واقعی عذر تھے اور دوسرے میں ان منافقین کا جو بغیر عذر پیش کئے بیٹھے رہے اور آیت کے آخری حصہ میں جو وعید ہے وہ اسی دوسرے گروہ کے لئے ہے۔
یہ عذر بیان کرنے والے کون تھے : مفسرین کا اس بات میں اختلاف ہے کہ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے عذر کیا تھا بعضوں نے کہا کہ یہ لوگ قبیلہ بنی اسد اور غطفان کے لوگ تھے انہوں نے یہ عذر کیا تھا کہ ہمارے اہل و عیال ہیں جن کے لئے ہمیں بڑی محنت ومشقت کرنی پڑتی ہے آپ ہمیں گھر پر رہ جانے کی اجازت دے دیں اور بعض مفسرین نے بیان کیا ہے کہ عامر بن طفیل کے قبیلے کے یہ لوگ تھے انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آکر یہ بات کہی تھی کہ اگر ہم آپ کے ساتھ چلیں اور شریک غزوہ ہوجائیں تو ہمارے بیوی بچے اور مویشی اکیلے رہ جائیں گے اور قبیلہ بنی طے کے بدّو آکر ہمارے پیچھے انہیں برباد کردیں گے اور سب مال لوٹ کرلے جائیں گے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان لوگوں سے فرمایا کہ خیر خدا نے میرے لئے تمہاری ضرورت نہیں رکھی ہے، اور بعض مفسرین نے کہا ہے کہ قبیلہ غفار کے چند لوگوں نے کہا تھا، صحیح قول یہ ہے کہ اطراف مدینہ میں چند قبیلے رہتے تھے ان میں سے بعضے لوگ جھوٹے عذر بیان کر کے اور بعضے بغیر عذر بیان کئے اپنے گھروں میں بیٹھ رہے تھے اور اس غزوہ میں لشکر اسلام کا ساتھ نہیں دیا۔
شان نزول : لَیْس علی الضعفاء ولا علی المرضیٰ الخ تفسیر ابن ابی حاتم اور مغازی محمد بن اسحاق میں زید بن ثابت کی روایت سے ان آیات کا جو شان نزول بیان کیا گیا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ توانا وتندرست اور مالدار لوگ جو بلا کسی معقول عذر کے شریک غزوہ نہیں ہوئے تھے جب مذکورہ آیات میں ان لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی خفگی اور وعید ظاہر کی گئی تو ناتواں بوڑھے، بیمار اور ایسے مفلس صحابہ کہ جن کے پاس اتنا سرمایہ نہیں تھا کہ سواری اور زادراہ کا خرچ برداشت کرسکیں، اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہم رکاب ہو سکیں، وہ لوگ بہت ہراساں ہوئے کہ شاید ہم لوگ بھی اس خفگی اور وعید میں داخل ہیں تو ان کی تسکین کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ صحیح بخاری میں انس بن مالک اور صحیح مسلم میں جابر بن عبدا للہ کی روایتیں موجود ہیں جن میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بہت سے ہمارے ساتھ مدینہ میں ایسے ہیں کہ ہر کام میں گویا ہمارے ساتھ ہیں جو راستہ ہم نے طے کیا ہے انہوں نے بھی گویا وہی راستہ طے کیا ہے اس لئے کہ عذر کے سبب وہ ہمارے ساتھ نہیں آسکے، ایسے معذورین سے اللہ تعالیٰ نے سرزنش اٹھا لی ہے، مگر اس کے ساتھ ایک شرط بھی لگا دی ہے کہ اس طرح کا معذور آدمی گھر بیٹھے کوئی فساد کی ایسی بات نہ نکالے جس سے معلوم ہو کہ وہ دین کا خیر خواہ نہیں ہے۔
شان نزول : وَلا علی الّذین اِذَا مَا اَتَوْکَ ، صحیح بخاری میں ابو موسیٰ اشعری کی روایت سے اس آیت کا جو شان نزول معلوم ہوتا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ ابو موسیٰ اشعری اپنے قبیلے کے لوگوں کے ساتھ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے شرکت جہاد کے لئے سواری کی درخواست کی اس وقت آپ کسی وجہ سے غصہ میں میں تھے آپ نے سواری دینے سے قسم کھا کر انکار کردیا اس وجہ سے ابو موسیٰ اشعری اور ان کے ساتھ بچشم گریاں اور بدل بریاں مایوس ہو کر واپس چلے گئے، اتنے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس مال غنیمت کے کچھ اونٹ آگئے، تو آپ نے ان لوگوں کو واپس بلایا اور چھ اونٹ ان کو عنایت فرمائے، جب یہ لوگ اونٹ لے کر واپس چلے گئے تو ان کو راستہ میں خیال آیا کہ شاید آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی قسم یاد نہیں رہی، واپس چل کر آپ کو قسم یاد لانی چاہیے چناچہ یہ لوگ واپس آئے اور آپ کو قسم یاد دلائی تو آپ نے فرمایا، جائو تمہیں اللہ نے سواری دے دی، میں جب قسم کھاتا ہوں اور جس کام پر وہ قسم ہو اس کام سے بہتر اگر کوئی کام مجھے نظر آئے تو قسم کا کفارہ دے کر میں اس کام کو کرلیتا ہوں۔ (احسن التفاسیر)
بلاغة : لِتَحْمِلَھُمْ ، محاورہ میں اس کے معنی ہیں کہ آپ ان کے لئے سواری کا انتظام کردیں، احملنی ای اعطنی ظھرًا ارکبَہ۔ (تاج)
اَعْیُنُھم تفیض من الدمع، یہ طرف زیادہ بلیغ ہے یفیض دمعھا سے اس لئے کہ اس میں آنکھ ہی کو بہتا آنسو بنادیا ہے یہ زید عدل کے قبیل سے ہے۔
اِنَّما السَبِیْلُ علی الَّذِیْن یَسْتأذنونکَ الخ اوپر کی آیات میں ان لوگوں کا ذکر تھا جو اپاہج، بوڑھے، ضعیف، معذور، مریض یا مفلس ہونے کے سبب غزوہ تبوک میں شریک نہیں ہو سکے تھے، اور ان لوگوں کو معذور قرار دے کر یہ فرمایا تھا کہ یہ لوگ سرزنش کے قابل نہیں، ان آیتوں میں فرمایا کہ اصل سرزنش کے قابل وہ لوگ ہیں جو ہٹے کٹے اور دولتمند ہونے کے باوجود اللہ کے رسول کا ساتھ چھوڑ کر گھروں میں بیٹھے رہے۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿وَجَاءَ الْمُعَذِّرُونَ مِنَ الْأَعْرَابِ لِيُؤْذَنَ لَهُمْ ﴾ ” اور آئے بہانے کرنے والے گنوار، تاکہ ان کو رخصت مل جائے“ یعنی وہ لوگ جنہوں نے سستی کی اور جہاد کے لئے نکلنے سے قاصر رہے، اس لئے آئے کہ انہیں ترک جہاد کی اجازت مل جائے۔ انہیں اپنی جفا، عدم حیا اور اپنے کمزور ایمان کی بنا پر معذرت کرنے کی بھی پروا نہیں۔۔۔ اور وہ لوگ جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کو جھٹلایا، انہوں نے اعتذار کو بالکل ہی ترک کردیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے ارشاد ﴿الْمُعَذِّرُونَ ﴾ ” عذر کرنے والے“ میں یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہوں جو کوئی حقیقی عذر رکھتے تھے اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، تاکہ آپ ان کی معذرت قبول فرمائیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادت شریفہ یہ تھی کہ آپ عذر پیش کرنے والے کا عذر قبول فرما لیا کرتے تھے۔ ﴿وَقَعَدَ الَّذِينَ كَذَبُوا اللَّـهَ وَرَسُولَهُ ﴾ ” اور بیٹھ رہے وہ لوگ جنہوں نے جھوٹ بولا اللہ اور اس کے رسول سے“ یعنی جنہوں نے اپنے دعوائے ایمان میں، جو جہاد کے لئے نکلنے کا تقاضا کرتا ہے اور اس کے ساتھ ان کے عمل نہ کرنے میں، اللہ اور رسول سے جھوٹ بولا۔ پھر ان کو وعید سناتے ہوئے فرمایا : ﴿سَيُصِيبُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴾ ” اب پہنچے گا ان کو جو کافر ہیں ان میں درد ناک عذاب“ دنیا و آخرت میں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے معذرت پیش کرنے والوں کا ذکر فرمایا۔ ان کی دو قسمیں ہیں :
(١)جو شرعی طور پر معذور ہیں۔
(٢) جو شرعی طور پر غیر معذور ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur dehaatiyon mein say bhi bahana baaz log aaye kay unn ko ( jihad say ) chutti di jaye , aur ( iss tarah ) jinn logon ney Allah aur uss kay Rasool say jhoot bola tha , woh sabb beth rahey . unn mein say jinhon ney kufr ( mustaqil tor per ) apna liya hai , unn ko dardnak azab hoga .
12 Tafsir Ibn Kathir
جہاد اور معذور لوگ
یہ بیان ان لوگوں کا ہے جو حقیقتاً کسی شرعی عذر کے باعث جہاد میں شامل نہ ہوسکتے تھے۔ مدینہ کے ارد گرد کے یہ لوگ آ کر اپنی کمزوری و ضعیفی بےطاقتی بیان کر کے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت لیتے ہیں کہ اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں واقعی معذور سمجھیں تو اجازت دے دیں۔ یہ بنو غفار کے قبیلے کے لوگ تھے۔ ابن عباس کی قرأت میں ( وَجَاۗءَ الْمُعَذِّرُوْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ لِيُؤْذَنَ لَهُمْ وَقَعَدَ الَّذِيْنَ كَذَبُوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ ۭسَيُصِيْبُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ 90) 9 ۔ التوبہ :90) ہے یعنی اہل عذر لوگ۔ یہی معنی مطلب زیادہ ظاہر ہے کیونکہ اسی جملے کے بعد ان لوگوں کا بیان ہے جو جھوٹے تھے۔ یہ نہ آئے نہ اپنا رک جانے کا سبب پیش کیا نہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے رک رہنے کی اجازت چاہی۔ بعض بزرگ فرماتے ہیں کہ عذر پیش کرنے والے بھی دراصل عذر والے نہ تھے۔ اسی لئے ان کے عذر مقبول نہ ہوئے لیکن پہلا قول پہلا ہی ہے وہی زیادہ ظاہر ہے۔ واللہ اعلم اس کی ایک وجہ تو وہی ہے جو ہم نے اوپر بیان کی دوسری وجہ یہ ہے کہ عذاب کا حکم بھی ان کے لئے ہوگا جو بیٹھے رہی رہے۔