البلد آية ۱
لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ
طاہر القادری:
میں اس شہر (مکہ) کی قَسم کھاتا ہوں،
English Sahih:
I swear by this city [i.e., Makkah]
1 Abul A'ala Maududi
نہیں، میں قسم کھاتا ہوں اِس شہر کی
2 Ahmed Raza Khan
مجھے اس شہر کی قسم
3 Ahmed Ali
ا س شہر کی قسم ہے
4 Ahsanul Bayan
میں اس شہر کی قسم کھاتا ہوں (١)
١۔١ اس شہر سے مراد مکہ مکرمہ ہے جس میں اس وقت، جب سورت کا نزول ہوا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جائے پیدائش بھی یہی شہر تھا۔ یعنی اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مولد و مسکن کی قسم کھائی، جس سے اس کی عظمت کی مزید وضاحت ہوتی ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
ہمیں اس شہر (مکہ) کی قسم
6 Muhammad Junagarhi
میں اس شہر کی قسم کھاتا ہوں
7 Muhammad Hussain Najafi
نہیں! میں قَسم کھاتا ہوں اس شہر کی۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
میں اس شہر کی قسم کھاتا ہوں
9 Tafsir Jalalayn
ہمیں اس شہر کی قسم
ترجمہ :۔ شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، میں قسم کھاتا ہوں اس شہر مکہ کی (لا اقسم) میں، لازائدہ ہے اور اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے اس شہر میں قتال حلال ہونے والا ہے، بایں طور کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے قتال حلال کردیا جائے گا، سو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس میں قتال کریں گے، چناچہ اللہ تعالیٰ نے اس وعدہ کو فتح مکہ کے دن پورا فرما دیا (انت حل الخ) مقسم بہ اور اس کے درمیان جس کا مقسم بہ پر عطف کیا گیا ہے، جملہ معترضہ ہے، اور قسم ہے والد آدم (علیہ الصلوۃ والسلام) کی اور ان کی اولاد کی یعنی ان کی ذریت کی اور مابمعنی من ہے، یقیناہم نے انسان کو یعنی جنس انسان کو مشقت اور شدت میں پیدا کیا ہے کہ وہ دنیا کے مصائب اور آخرت کی مشقت برداشت کرتا ہے کیا انسان یعنی قریش کا طاقتور شخص اور وہ ابولاشد بن کلدہ ہے اپنی قوت کی وجہ سے یہ سمجھتا ہے کہ اس پر کوئی قابو نہ پا سکے گا ؟ حالانکہ اللہ اس پر قابو پانے والا ہے، ان مخففہ عن الثقلیہ ہے اور اس کا اسم محذوف ہے، ای انہ وہ کہتا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عداوت میں، میں نے ڈھیروں جمع شدہ مال خرچ کردیا کیا وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کو کسی نے دیکھا نہیں ہے کہ اس نے وہ مال کس میں خرچ کیا ہے ؟ (اور کتنا خرچ کیا ہے ؟ ) کہ وہ اس کی مقدار لوگوں کو بتارہا ہے اور حال یہ کہ اللہ اس کی مقدار کو خوب جانتا ہے اور وہ مال اس قدر نہیں کہ اس پر فخر کیا جائے اور وہ اس کی بدکرداری پر سزا دینے والا ہے کیا ہم نے اس کو دو آنکھیں اور ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں دیئے ؟ یہ استفہام تقریری ہے یعنی ہم نے اس کو (یہ چیزیں) دی ہیں اور ہم نے اس کو خیر و شر کے دونوں راستے بتا دیئے تو پھر کس لئے گھاٹی میں داخل نہیں ہوا ؟ اور تم کو کیا معلوم کہ کیا ہے وہ (دشوار گزار) گھاٹی ؟ جس میں وہ داخل ہوگا ، (یہ استفہام) عقبہ کی عظمت شان کو بیان کرنے کے لئے ہے اور جملہ معترضہ ہے اور گھاٹی میں دخول کا طریقہ اللہ تعالیٰ نے اپنے قول فک رقبۃ سے بیان فرما دیا، یعنی غلامی سے گردن کو چھڑانا بایں طور کہ اس کو آزاد کر دے یا فاقہ کے دن کسی قریبی یتیم یا کسی خاک نشین مسکین کو کھانا کھلانا، یعنی وہ فقیر کہ جو اپنے فقر کی وجہ سے خاک نشین ہوگیا ہو اول فقیر کو جو اپنے فقر کی وجہ سے خاک نشین ہوگیا ہو اور ایک قرأت میں دونوں فعلوں کے بجائے دونوں مرفوع مصدر ہیں اول مصدر رقبہ کا مضاف ہے اور دوسرا مصدر منون ہے، لہٰذا العقبہ سے پہلے اقتحام مقدر مانا جایء گا اور مذکورہ قرأت اقتحام کا بیان ہوگی اور پھر وہ اقتحام (یعنی گھاٹی میں داخل ہوتے وقت) مومنین میں سے ہو اور جنہوں نے آپس میں ایک دوسرے کو طاعت پر اور معصیت سے باز رہنے پر صبر کی اور خلق خدا پر رحم کی تلقین کی ہو یہ لوگ جو ان صفات سے متصف ہوں گے دائیں ہاتھ والے ہیں اور جنہوں نے ہماری آیات کے ماننے سے انکار کیا یہ ہیں بائیں ہاتھ والے، ان پر آگ چھائی ہوئی ہوگی (موصدۃ) ہمزہ کے ساتھ ہے اور ہمزہ کے بجائے وائو کے ساتھ بھی چھائی ہوئی۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : لازائدۃ یہ ایک قول ہے اور ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ منکرین بعث کے قول کی نفی ہے، مطلب یہ ہے کہ اے مشرکین مکہ ! ، جو تم کہتے ہو بات ایسی نہیں۔
قولہ : وانت حل بھذا البلد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی ہے اور آئندہ فتح مکہ کی خوشخبری ہے، یقینی الوقوع ہونے کی وجہ سے حال کے صیغہ سے تعبیر کیا ہے جیسا کہ انک میت وانھم میتون میں (وانت حل) جملہ معترضہ ہے، نہ ماقبل سے اس کا کوئی تعلق نہ ہے اور نہ مابعد سے، بلکہ اس جملہ سے آئندہ ہونے والے واقعہ کی خبر دی گئی ہے اور بہتر یہ ہے کہ اس جملہ کو حالیہ قرار دیا جائے۔
قولہ : بان یحل لک یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مصدر بمعنی مستقبل ہے۔ (صاوی)
قولہ : لقد خلقنا الانسان یہ مقسم علیہ (جواب قسم) ہے۔
قولہ : وما ولد، ما بمعنی من ہے۔
قولہ : فھلاً اس میں اشارہ ہے کہ ’ دلا “ بمعنی ھلا ہے اور اپنی اصل پر بھی ہوسکتا ہے۔
سوال : لا جب ماضی پر داخل ہوتا ہے تو لا کی تکرار ضروری ہوتی ہے، جیسا کہ فلا صدق ولا صلی ؟
جواب :۔ معنی تکرار ہے اگرچہ لفظاً تکرار نہیں، اس لئے کہ اصل میں فلافک رقبۃ ولا اطعم مسکیناً ہے۔
قولہ : العقبۃ، عقبہ پہاڑوں کے درمیان دشوار گزار راستہ کو کہتے ہیں اقتحام کے معنی گھاٹی میں داخل ہونے کے ہیں بعد میں مطلقاً ترک محرمات اور فعل الطاعات میں مجاہدہ پر اطلاق ہونے لگا ہے۔
قولہ : جاوزھا یہ اقتحام العقبۃ کی تفسیر ہے۔
قولہ : بین سبب جوازھا، ای بین طریق دخولھا، وفی قراء ۃ بدل الفعلین مصدر ان مرفوعان، یہ فک رقبۃ او اطعام میں دوسری قرأت کا بیان ہے، مفسر عالم فرماتے ہیں کہ بعض قرأتوں میں مذکورہ دونوں فعلوں کے بجائے یعنی فک کے بجائے فک اور اطعم کے بجائے اطعام ہیں، معلوم ہوتا ہے کہ مفسر عالم کے پیش نظر قرآن کا جو نسخہ ہے اس میں مصدر کے بجائے فعل ہیں اور ہمارے سامنے جو نسخہ ہے اس میں دونوں جگہ مصدر ہی ہیں، اگر مصدروں کے بجائے افعال مانے جائیں تو پھر دونوں فعل فلا اقتحم سے بدل ہوں گے یعنی وہ عقبہ میں داخل نہیں ہوئے یعنی گردنوں کو آزاد نہیں کرایا اور فاقہ کے دن کھانا نہیں کھلایا اور اگر دونوں فعلوں کے بجائے مصدر ہی مانا جائے جیسا کہ ہمارے پیش نظر نسخہ میں ہے تو یہ دونوں مصدر ما العقبۃ کی تفسیر ہوں گے مگر اس صورت میں ذات کی تفسیر مصدر سے ہونا لازم آئے گی، اس لئے کہ عقبہ ذات ہے اور فک اور اطعام مصدر ہیں اور یہ جائز نہیں ہے ؟ لہٰذا عقبہ سے پہلے اقتحام مصدر ماننا ضروری ہوگا، تقدیر عبارت ہوگی ما افتحام العقبۃ ؟ ھو فک رقبۃ اور اطعام یوم ذی مسغبۃ اس تقدیر کے بعد مصدر کا حمل ذات پر ہونا لازم نہیں آتا۔
قولہ : ثم للترتیب الذکری اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال :۔ اوپر کی آیت میں طاعات بدنیہ اور مالیہ کے ذریعہ مجاہدہ کا حکم دیا گیا ہے اور ثم کان من الذین امنوا میں ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے حالانکہ ایمان طاعت سے مقدم ہے ؟
جواب :۔ جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ ثم ترتیب ذکری کے لئے ہے ترتیب زمانی کے لئے نہیں اور مطلبب یہ ہے کہ مجاہدہ نفس بالا طاعت کے وقت مومن ہو۔
تفسیر و تشریح
لا اقسم بھذا البلد، بلد سے مراد مکہ مکرم ہے جس میں اس وقت جب کہ اس سورت کا نزول ہوا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قیام تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مولدو مسکن بھی یہی شہر مکہ تھا یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مولد و مسکن کی قسم کھائی ہے اس سے مکتہ المکرمہ کی دوسرے شہروں کی بہ نسبت شرافت اور فضیلت ثابت ہوتی ہے، حضرت عبداللہ بن عدی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہجرت کے وقت شہر مکہ کو خطاب کر کے فرمایا کہ، خدا تعالیٰ کی قسم، تو تمام روئے زمین پر اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ بہتر اور محبوب ہے اگر مجھے یہاں سے نکلنے پر مجبور نہ کردیا گیا ہوتا تو میں تیری زمین سے نہ نکلتا۔ (ترمذی و ابن ماجہ)
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک وتعالی ٰنے قسم کھائی ہے ﴿ بِہٰذَا الْبَلَدِ﴾ اس امن والے شہر مکہ مکرمہ کی، جو علی الاطلاق تمام شہروں پر فضیلت رکھتا ہے، خاص طور پر اس وقت جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس شہر میں رہ رہے تھے۔
11 Mufti Taqi Usmani
mein qasam khata hun iss shehar ki
12 Tafsir Ibn Kathir
مکہ مکرمہ کی قسم :
اللہ تبارک وتعالیٰ مکہ مکرمہ کی قسم کھاتا ہے درآں حالیکہ وہ آباد ہے اس میں لوگ بستے ہیں اور وہ بھی امن چین میں ہیں لا سے ان پر رد کیا پھر قسم کھائی اور فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! تیرے لیے یہاں ایک مرتبہ لڑائی حلال ہونے والی ہے، جس میں کوئی گناہ اور حرج نہ ہوگا اور اس میں جو ملے وہ حلال ہوگا صرف اسی وقت کے لیے یہ حکم ہے صحیح حدیث میں بھی ہے کہ اس بابرکت شہر مکہ کو پروردگار عالم نے اول دن سے ہی حرمت والا بنایا ہے اور قیامت تک اس کی یہ حرمت و عزت باقی رہنے والی ہے اس کا درخت نہکاٹا جائے اس کے کانٹے نہ اکھیڑے جائیں میرے لیے بھی صرف ایک دن ہی کی ایک ساعت کے لیے حلال کیا گیا تھا آج پھر اس کی حرمت اسی طرح لوٹ آئی جیسے کل تھی ہر حاضر کو چاہیے کہ غیر حاضر کو پہنچا دے ایک روایت میں ہے کہ اگر یہاں کے جنگ وجدال کے جواز کی دلیل میں کوئی میری لڑائی پیش کرے تو کہہ دینا کہ اللہ نے اپنے رسول کو اجازت دی تھی اور تمہیں نہیں دی پھر قسم کھاتا ہے باپ کی اور اولاد کی بعض نے تو کہا ہے کہ ماولد میں مانافیہ ہے یعنی قسم ہے اس کی جو اولاد والا ہے اور قسم ہے اس کی جو بےاولاد ہے یعنی عیادلدار اور بانجھ ما کو موصولہ مانا جائے تو معنی یہ ہوئے کہ باپ کی اور اولاد کی قسم، باپ سے مراد حضرت آدم اور اولاد سے مراد کل انسان، زیادہ قوی اور بہتر بات یہی معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس سے پہلے قسم ہے مکہ کی جو تمام زمین اور کل بستیوں کی ماں ہے تو اس کے بعد اس کے رہنے والوں کی قسم کھائی اور رہنے والوں یعنی انسان کے اصل اور اس کی جڑ یعنی حضرت آدم کی پھر ان کی اولاد کی قسم کھائی ابو عمران فرماتے ہیں مراد حضرت ابراہیم اور آپ کی اولاد ہے امام ابن جریر فرماتے ہیں عام ہے یعنی ہر باپ اور ہر اولاد پھر فرماتا ہے کہ ہم نے انسان کو بالکل درست قامت جچے تلے اعضاء والاٹھیک ٹھاک پیدا کیا ہے اس کی ماں کے پیٹ میں ہی اسے یہ پاکیزہ ترتیب اور عمدہ ترکیب دے دی جاتی ہے جیسے فرمایا الذی خلقک فسوک الخ یعنی اس اللہ نے تجھے پیدا کیا درست کیا ٹھیک ٹھاک بنایا اور پھر جس صورت میں چاہا ترکیب دی اور جگہ ہے لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم ہم نے انسان کو بہترین صورت پر بنایا ہے ابن عباس سے مروی ہے کہ قوت طاقت والا پیدا کیا ہے خود اسے دیکھو اس کی پیدائش کی طرف غور کرو اس کے دانتوں کا نکلنا دیکھو وغیرہ حضرت مجاد فرماتے ہیں پہلے نطفہ پھر خون بستہ پھر گوشت کا لوتھڑا غرض اپنی پیدائش میں خوب مشقتیں برداشت کی بلکہ دودھ پلانے میں بھی مشقت اور معیشت میں بھی تکلیف حضرت قتادہ فرماتے ہیں سختی اور طلب کسب میں پیدا کیا گیا ہے عکرمہ فرماتے ہیں شدت اور طول میں پیدا ہوا ہے قتادہ فرماتے ہیں سختی اور طلب کسب میں پیدا کیا گیا ہے عکرمہ فرماتے ہیں شدت اور طول میں پیدا ہوا ہے قتادہ فرماتے ہیں مشقت میں یہ بھی مروی ہے اعتدال اور قیام میں دنیا اور آخرت میں سختیاں سہنی پڑتی ہیں حضرت آدم چونکہ آسمان میں پیدا ہوئے تھے اس لیے یہ کہا گیا کہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کے مال کے لینے پر کوئی قادر نہیں اس پر کسی کا بس نہیں کیا وہ نہ پوچھا جائے گا کہ کہاں سے مال لایا اور کہاں خرچ کیا ؟ یقینا اس پر اللہ کا بس ہے اور وہ پوری طرح اس پر قادر ہے پھر فرماتا ہے کہ میں نے بڑے وارے نیارے کیے ہزاروں لاکھوں خرد کر ڈالے کیا وہ یہ خیال کرتا ہے کہ اسے کوئی دیکھ نہیں رہا ؟ یعنی اللہ کی نظروں سے وہ اپنے آپ کو غائب سمجھتا ہے کیا ہم نے اس انسان کو دیکھنے والی آنکھیں نہیں دیں ؟ اور دل کی باتوں کے اظہار کے لیے زبان عطا نہیں فرمائی ؟ اور دو ہونٹ نہیں دئیے ؟ جن سے کلام کرنے میں مدد ملے کھانا کھانے میں مدد ملے اور چہرے کی خوبصورتی بھی ہو اور منہ کی بھی ابن عساکر میں ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے ابن آدم میں نے بڑی بڑی بیحد نعمتیں تجھ پر انعام کیں جنہیں تو گن بھی نہیں سکتا نہ اس کے شکر کی تجھ میں طاقت ہے میری ہی یہ نعمت بھی ہے کہ میں نے تجھے دیکھنے کو دو آنکھیں دیں پھر میں نے ان پر پلکوں کا غلاف بنادیا ہے پس ان آنکھوں سے میری حلال کردہ چیزیں دیکھ اگر حرام چیزیں تیرے سامنے آئیں تو ان دونوں کو بند کرلے میں نے تجھے زبان دی ہے اور اس کا غلاف بھی عنایت فرمایا ہے میری مرضی کی باتیں زبان سے نکال اور میری منع کی ہوئی باتوں سے زبان بند کرلے میں نے تجھے شرمگاہ دی ہے اور اس کا پردہ بھی عطا فرمایا ہے حلال جگہ تو بیشک استعمال کر لیکن حرام جگہ پردہ ڈال لے ایے ابن آدم تو میری ناراضگی نہیں اٹھا سکتا اور میرے عذاب کے سہنے کی طاقت نہیں رکھتا پھر فرمایا کہ ہم نے اسے دونوں راستے دکھا دئیے بھلائی کا اور برائی کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں دو راستے ہیں پھر تمہیں برائی کا راستہ بھلائی کے راستے سے زیادہ اچھا کیوں لگتا ہے ؟ یہ حدیث بہت ضعیف ہے یہ حدیث مرسل طریقے سے بھی مروی ہے ابن عباس فرماتے ہیں مراد اس سے دونوں دودھ ہیں اور مفسرین نے بھی یہی کہا ہے امام ابن جریر فرماتے ہیں ٹھیک قول پہلا ہی ہے جیسے اور جگہ ہے انا خلقنا الانسان من نطفۃ الخ یعنی ہم نے انسان کو ملے جلے نطفے سے پیدا کیا پھر ہم نے اسے سنتا دیکھتا کیا ہم نے اس کی رہبری کی اور راستہ دکھا دیا پس یا تو شکر گذار ہے یا ناشکرا۔