(اے حبیبِ مکرّم!) اس لئے کہ آپ اس شہر میں تشریف فرما ہیں٭، ٭ یہ ترجمہ ”لا زائدہ“ کے اعتبار سے ہے۔ لا ”نفئ صحیح“ کے لئے ہو تو ترجمہ یوں ہوگا: میں (اس وقت) اس شہر کی قَسم نہیں کھاؤں گا (اے حبیب!) جب آپ اس شہر سے رخصت ہو جائیں گے۔
English Sahih:
And you, [O Muhammad], are free of restriction in this city.
1 Abul A'ala Maududi
اور حال یہ ہے کہ (اے نبیؐ) اِس شہر میں تم کو حلال کر لیا گیا ہے
2 Ahmed Raza Khan
کہ اے محبوب! تم اس شہر میں تشریف فرما ہو
3 Ahmed Ali
حالانکہ آپ اس شہر میں مقیم ہیں
4 Ahsanul Bayan
اور آپ اس شہر میں مقیم ہیں (١)
٢۔١ یہ اشارہ ہے اس وقت کی طرف جب مکہ فتح ہوا، اس وقت اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اس شہر حرام میں قتال کو حلال فرما دیا تھا جب کہ اس میں لڑائی کی اجازت نہیں ہے چنانچہ حدیث میں ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس شہر کو اللہ نے اس وقت سے حرمت والا بنایا ہے، جب سے اس نے آسمان و زمین پیدا کئے۔ پس یہ اللہ کی ٹھہرائی ہوئی حرمت سے قیامت تک حرام ہے، نہ اس کا درخت کاٹا جائے نہ اس کے کانٹے اکھیڑے جائیں، میرے لئے اسے صرف دن کی ایک ساعت کے لئے حلال کیا گیا تھا اور آج اس کی حرمت پھر اسی طرح لوٹ آئی ہے جیسے کل تھی۔ اگر کوئی یہاں قتال کے لئے دلیل میری لڑائی کو پیش کرے تو اس سے کہو کہ اللہ کے رسول کو تو اس کی اجازت اللہ نے دی تھی جب کہ تمہیں یہ اجازت اس نے نہیں دی (صحیح بخاری)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور تم اسی شہر میں تو رہتے ہو
6 Muhammad Junagarhi
اور آپ اس شہر میں مقیم ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
درآنحالیکہ آپ(ص) اس شہر میں قیام پذیر ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور تم اسی شہر میں تو رہتے ہو
9 Tafsir Jalalayn
اور تم اسی شہر میں تو رہتے ہو وانت حل بھذا البلد اس فقرہ کے تین معنی مفسرین نے بیان کئے ہیں، ایک یہ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس شہر میں مقیم ہیں، اس وقت یہ حلول سے مشتق ہوگا جس کے معنی حلول کرنے، اترنے اور فروکش ہونے کے ہیں یوں تو شہر مکہ خود بھی محترم اور مکرم ہے مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس میں مقیم ہونے کی وجہ سے اس کی عظمت میں اور اضافہ ہوگیا ہے۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ لفظ حل مصدر ہے جو حلت سے مشتق ہے جس کے منی کسی چیز کے حلال ہونے کے ہیں اس اعتبار سے لفل حل کے دو معنی ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ کفار مکہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حلال سمجھ رکھا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قتل کے درپے ہیں حالانکہ وہ خود بھی شہر مکہ میں کسی شکار تک کو بھی حلال نہیں سمجھتے مگر ان کا ظلم اور سرکشی اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ جس مقدس مقام پر کسی جانور کا قتل بھی جائز نہیں اور خود ان لوگوں کا بھی یہی عقیدہ ہے وہاں انہوں نے اللہ کے رسول کا قتل اور خون حلال مسجھ لیا ہے۔ تیسرے معنی یہ ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ خصوصیت ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے حرم مکہ میں کفار کے ساتھ قتال حلال ہونے والا ہے جیسا کہ فتح مکہ میں ایک روز کے لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے احکام حرم اٹھا لئے گئے تھے اور کفار کا قتل حلال کردیا گیا تھا، چناچہ عبد اللہ بن خطل کو فتح مکہ کے دن اس وقت قتل کردیا گیا جب کہ وہ بیت اللہ کے پردوں سے چمٹا ہوا تھا، یہ شخص قریش تھا لوگ اس کو ذو قلبین کہا کرتے تھے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے اس کو ابوبرزہ بن سعید بن حرب اسلمی نے قتل کردیا، اس نے اپنے مسلمان ہونے کا اظہار کیا تھا اور چند روز وحی کی کتاب بھی کی تھی مگر بعد میں مرتدہو گیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں ستاخی کرنے لگا تھا اور کہتا تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو وحی لکھاتے ہیں وہ خدا کی طرف سے نہیں ہوتی بلکہ خود ان کی طرف سے ہوتی ہے۔ (روح المعانی) ووالدوما ولد بعض مفسرین نے اس سے حضرت آدم اور ان کی صلبی اولاد مراد لی ہے اور بعض کے نزدیک عام ہے ہر باپ اور اس کی اولاد میں شامل ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
...
11 Mufti Taqi Usmani
jabkay ( aey payghumber ! ) tum iss shehar mein muqeem ho ,