اللیل آية ۱
وَالَّيْلِ اِذَا يَغْشٰىۙ
طاہر القادری:
رات کی قَسم جب وہ چھا جائے (اور ہر چیز کو اپنی تاریکی میں چھپا لے)،
English Sahih:
By the night when it covers
1 Abul A'ala Maududi
قسم ہے رات کی جبکہ وہ چھا جائے
2 Ahmed Raza Khan
اور رات کی قسم جب چھائے
3 Ahmed Ali
رات کی قسم ہے جب کہ وہ چھاجائے
4 Ahsanul Bayan
قسم ہے رات کی جب چھا جائے، (۱)
۱۔۱یعنی افق پر چھا جائے جس سے دن کی روشنی ختم اور اندھیرا ہو جائے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
رات کی قسم جب (دن کو) چھپالے
6 Muhammad Junagarhi
قسم ہے اس رات کی جب چھا جائے
7 Muhammad Hussain Najafi
قَسم ہے رات کی جب کہ وہ (دن کو) ڈھانپ لے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
رات کی قسم جب وہ دن کو ڈھانپ لے
9 Tafsir Jalalayn
رات کی قسم جب (دن کو) چھپالے
ترجمہ :۔ شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، قسم ہے رات کی جب وہ اپنی تاریکی سے آسمان اور زمین کی ہر شئی پر چھا جائے اور قسم ہے دن کی جب وہ روشن ہو (یعنی) جب کہ وہ واضح اور ظاہر ہو اور اذا دونوں جگہ ظریفیت کے لئے ہے اور اس میں عامل فعل قسم ہے اور ما بمعنی من یا مصدریہ ہے اور قسم ہے اس ذات کی جس نے نر و مادہ پیدا کئے (یعنی) آدم و حواء یا مذکر و مئونث کو پیدا کیا اور خنثیٰ مشکل ہمارے نزدیک ہے (مگر) اللہ کے نزدیک وہ مذکر یا مئونث ہے لہٰذا وہ شخص جس نے قسم کھائی کہ وہ مرد اور عورت سیبات نہ کرے گا تو وہ خنثیٰ مشکل سے کلام کرنے سے حانث ہوجائے گا، یقیناً تمہاری کوشش (یعنی) عمل مختلف قسم کے ہیں کچھ لوگ طاعت کے ذریعہ جنت کے لئے عمل کرنے والے ہیں اور کچھ لوگ معصیت کے ذریعہ جہنم کیلئے عمل کرنے والے ہیں سو جس نے اللہ کا حق ادا کیا اور اللہ سے ڈرا اور سچی بات کی تصدیق کی یعنی لا الہ الا اللہ کی، دونوں جگہ، تو ہم اس کے لئے جنت کا راستہ آسان کردیں گے اور جس نے اللہ کے حق میں بخل کیا اور اس کے ثواب سے بےنیازی برتی اور اچھی بات کو جھٹلایا تو اس کو ہم سخت راستہ یعنی آگ کے لئے سہولت مہیا کریں گے اور اس کا مال اس کے کچھ کام نہ آئے گا جب کہ وہ آگ میں ہلاک ہوجائے گا بیشک راہ دکھانا ہمارے ذمہ ہے یعنی ہدیات کے راستہ کو گمراہی کے راستہ سے ممتاز کرنا، تاکہ اول راستہ پر چل کر ہمارے حکم کی تعمیل کرے اور ہماری نہی پر عمل کرے ثانی راستہ کو اختیار نہ کر کے اور بلاشبہ آخرت اور اولی یعنی دنیا ہماری ہی ملک ہے لہٰذا دنیا کو جس نے ہمارے غیر سے طلب کیا اس نے خطا کی، پس میں نے تم کو اے اہل مکہ بھڑکتی ہوئی آگ سے خبر دار کردیا ہے، اصل میں ایک تاء کو حذف کر کے اور تاء کو باقی رکھتے ہوئے بھی، یعنی تتوقد بھی پڑھا گیا ہے، جس میں صرف وہی بدبخت داخل ہوگا جس نے نبی کی تکذیب کی اور ایمان سے اعراض کیا اور اشقی بمعنی شقی ہے اور یہ حصر موول ہے اللہ تعالیٰ کے قول ’ دو یغفرمادون ذالک لمن یشاء “ کی وجہ سے لہٰذا دائمی دخول مراد ہوگا اور اس سے وہ متقی دور رکھا جائے گا جو اپنے مال کو عند اللہ پاکیزہ ہونے کی خاطر دیتا ہے اور اتقی بمعنی تقی ہے، بایں طور کہ وہ مال اللہ کے لئے خرچ کرتا ہے نہ کہ دکھانے اور سنان کے لئے، لہٰذا یہ شخص عند اللہ پاکیزہ ہوگا اور یہ آیت ابوبکر صدیق (رض) کے بارے میں نازل ہوئی جب کہ انہوں نے بال (رض) کو اس وقت جب کہ وہ اپنے ایمان کی وجہ سے تکلیف میں مبتلا تھے خرید کر آزاد کردیا تھا تو کافر نے کہا، ابوبکر نے یہ عمل اس لئے کیا کہ بلال (رض) کا ان پر ایک احسان تھا، تو یہ نازل ہوئی ” وما لاحد الخ “ یعنی بلال وغیرہ کا ان پر کوئی احسان نہیں ہے کہ جس کا بدلہ اسے چکانا ہو وہ تو صرف اپنے رب برتر کی رضا جوئی (یعنی) اللہ کی جانب سے صلہ حاصل کرنے کے لئے یہ کام کرتا ہے اور وہ اس ثواب سے ضرور خوش ہوگا، جو اس کو جنت میں دیا جائے ا اور آیت ہر اس شخص پر مشتمل ہے جس نے حضرت ابوبکر (رض) جیسا عمل کیا تو اس کو دوزخ سے دور رکھا جائے گا اور اس کو اجر دیا جائے گا۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : کل مابین السماء والارض اس میں اشارہ ہے کہ یغشی کا مفعول بہ محذوف ہے۔
قولہ : لمجرد الظرفیۃ ای المجرد عن الشرط
قولہ : آدم و حواء (علیہما السلام) اس میں اشارہ ہے کہ الذکر والانثی میں الف لام عہد کا ہے۔
قولہ : او کل ذکر و کل انثی اس سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ الذکر و الانثی کا الف لام استغراق کا بھی ہوسکتا ہے۔
قولہ : والخنثی المشکل عندنا، الخنثی المشکل مبتداء ہے اور عندنا خبر، اور عند اللہ ذکر اونثی کا ظرف ہے اور یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال : سوال یہ ہے کہ خنثی مشکل نہ مذکر کے عموم میں داخل ہے اور نہ انثیٰ کے عموم میں تو وہ اس حکم میں کیسے داخل ہوا ؟
جواب :۔ جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ خنثی مشکل ہمارے علم کے اعتبار سے ہے، مگر اللہ کے علم کے اعتبار سے خنثی یا تو مذکر ہے یا مئونث ہے، لہذا یہ ذکر اور انثی کے عموم میں داخل ہے خنثی کوئی تیسری جنس نہیں ہے اس کی تائید اللہ تعالیٰ کے اس قول سے بھی ہوتی ہے ’ دیھب لمن یشاء اناثا ویھب لمن یشاء الذکور “
قولہ : ان سعیکم لشتی یہ جواب قسم ہے سعیکم مصدر مضاف ہے جو عموم کا فائدہ دیتا ہے لہٰذا معنی کے اعتبار سے جمع ہے اگرچہ لفظوں کے اعتبار سے مفرد ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کی خبر جمع لائی گئی ہے اور شتی بمعنی مساعیکم ہے۔
قولہ : حق اللہ اور اتقی کے بعد لفظ اللہ کے اضافہ کا مقصد اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ اعطی اور اتقی کے مفعول بہ محذوف ہیں۔
قولہ : نھیئہ اس لفظ کے اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب دینا ہے۔
سوال :۔ فسنیسرہ للعسری سے معلوم ہوتا ہے کہ عسر کے لئے بھی یسر ہے، حالانکہ عسر میں یسر کا کوئی مطلب نہیں ہے ؟
جواب :۔ جواب کا ماحصل یہ ہے کہ یہاں یسر سے مراد اسباب مہیا کرنا ہے جو یسر اور عسر دونوں کے لئے ہوسکتا ہے یعنی ہم اس کے لئے ایسے اعمال آسان کردیتے ہیں جو اس کو جہنم کی طرف لے جائیں۔
قولہ : وھذا الحصر موول یعنی یہ حصر اپنے ظاہر سے پھرا ہوا ہے، اس عبارت کے اضافہ کا مقصد فرقہ مرجئہ پر رد کرنا ہے، جن کا عقیدہ ہے کہ ایمان کے ساتھ کوئی گناہ مضر نہیں ہے اور استدلال مذکورہ آیت ” لایصلھا الا الاشقی “ سے کرتے ہیں یعنی جہنم میں شقی ترین شخص ہی داخل ہوگا اور شی ترین کافر ہوتا ہے، مومن داخل نہ ہوگا اگرچہ مرتکب گناہ کبیرہ ہی کیوں نہ ہو۔
رد کا خلاصہ یہ ہے کہ دخول سے مراد خول مئوبد ہے لہٰذا یہ اس کے منافی نہیں کہ گنہگار مومن جہنم میں داخل ہو اور بعد میں نکال لیا جائے۔
قولہ : یتزکی اس میں دو احتمال ہیں ایک یہ کہ یوتی سے بدل ہو اور دوسرے یہ کہ یوتی کے فاعل سے حال ہو مفسر علام نے متز کیا کہہ کر اس بات کی طرف اشارہ کردیا کہ ان کے نزدیک حال ہونا راجح ہے۔۔
تفسیر و تشریح
والیل اذا یغشی الخ تین چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے اور مقسم علیہ ان سعیکم لشتی ہے اس کے بعد نیک و بدسعی کا ذکر ہے، پھر ہر ایک کی تین تین صفت بیان فرمائی ہیں، نیک سعی کی تین صفتیں فاما من اعطی واتقی وصدق بیان فرمائی ہیں اور سعی بد کی تین صفتیں واما من بخل واستغنی و کذب بالحسنی بیان فرمائی ہیں، مطلب یہ ہے کہ انسان فطری طور پر کسی نہ کسی کام کے لئے سعی اور جدوجہد کا عادی ہے، بعض لوگ اپنی جدوجہد سے دائمی راحت کا سامان کرلیتے ہیں اور بعض اپنی اسی سعی کے ذریعہ دائمی عذبا خرید لیتے ہیں، حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ ہر انسان جب صبح کو اٹھتا ہے تو وہ اپنے نفس کو تجارت پر لگا دیتا ہے کوئی تو اپنی سعی میں کامیاب ہوتا ہے اور اپنے آپ کو آخرت کے دائمی عذاب سے آزدا کرا لیتا ہے اور بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان کی سعی اور محنت ہی ان کی ہلاکت کا سبب بن جاتی ہیں۔
سعی اور عمل کے اعتبار سے انسانوں کی قسمیں :
آئندہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے سعی اور عمل کے اعتبار سے انسانوں کے دو گروہ بتلائے ہیں اور دونوں کے تین تین اوصاف ذکر کئے ہیں، پہلا گروہ کامیاب لوگوں کا ہے ان کے تین عمل یہ ہیں، (١) راہ خدا میں خرچ کرنا، (٢) اللہ سے ڈرنا اور (٣) اچھی بات کی تصدیق کرنا، اچھی بات سے مراد کلمہ لا الہ الا اللہ کی تصدیق ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے زمانے کی قسم ہے جس میں بندوں کے احوال کے تفاوت کے مطابق ان کے افعال واقع ہوتے ہیں۔ فرمایا : ﴿وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰی﴾” رات کی قسم!جب وہ چھا جائے۔“ یعنی جب تمام مخلوق کو اپنی تاریکی سے ڈھانپ لے۔
11 Mufti Taqi Usmani
qasam hai raat ki jab woh chah jaye ,
12 Tafsir Ibn Kathir
نیکی کے لیے قصد ضروری ہے :
مسند احمد میں ہے حضرت علقمہ شام میں آئے اور دمشق کی مسجد میں جاکر دو رکعت نماز ادا کی اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ الٰہی مجھے نیک ساتھی عطا فرما پھر چلے تو حضرت ابو الدرداء سے ملاقات ہوئی پوچھا کہ تم کہاں کے ہو تو حضرت علقمہ نے کہا میں کوفے والا ہوں پوچھا ام عبد اس سورت کو کس طرح پڑھتے تھے ؟ میں نے کہا والذکر والانثٰی پڑھتے تھے، حضرت ابو الدرداء فرمانے لگے میں نے بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یونہی سنا ہے اور یہ لوگ مجھے شک و شبہ میں ڈال رہے ہیں پھر فرمایا کیا تم میں تکئے والے یعنی جن کے پاس سفر میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بسترہ رہتا تھا اور راز دان ایسے بھیدوں سے واقف جن کا علم اور کسی کو نہیں وہ جو شیطان سے بہ زبان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بچالئے گئے تھے وہ نہیں ؟ یعنی حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) ۔ یہ حدیث بخاری میں ہے اس میں یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کے شاگرد اور ساتھی حضرت ابو الدردا کے پاس آئے آپ بھی انہیں ڈھونڈتے ہوئے پہنچے پھر پوچھا کہ تم میں حضرت عبداللہ کی قرأت پر قرآن پڑھنے والا کون ہے ؟ کہا کہ ہم سب ہیں، پھر پوچھا کہ تم سب میں حضرت عبداللہ کی قرأت کو زیادہ یاد رکھنے والاکون ہے ؟ لوگوں نے حضرت علقمہ کی طرف اشارہ کیا تو ان سے سوال کیا کہ واللیل اذا یغشیکو حضرت عبداللہ سے تم نے کس طرح سنا ؟ تو کہا وہ والذکر والانثی پڑھتے تھے کہا میں نے بھیحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح سنا ہے اور یہ لوگ چاہتے ہیں کہ میں وما خلق الذکر والا انثی پڑھوں اللہ کی قسم میں تو ان کی مانوں گا نہیں، الغرض حضرت ابن مسعود اور حضرت ابو الدرداء (رض) کو قرأت یہی ہے اور حضرت ابو الدرداء نے تو اسے مرفوع بھی کہا ہے۔ باقی جمہور کی قرأت وہی ہے جو موجودہ قرآن وں میں ہے، پس اللہ تعالیٰ رات کی قسم کھاتا ہے جبکہ اس کا اندھیرا تمام مخلوق پر چھا جائے اور دن کی قسم کھاتا ہے جبکہ وہ تمام چیزوں کو روشنی سے منور کر دے اور اپنی ذات کی قسم کھاتا ہے جو نر و مادہ کا پیدا کرنے والا ہے، جیسے فرمایا وخلقنا کم ازواجاہم نے تمہیں جوڑا جوڑا پیدا کیا ہے اور فرمایا۔ وکل شئی خلقنا زوجین ہم نے ہر چیز کے جوڑے پیدا کئے ہیں، ان متضاد اور ایک دوسری کے خلاف قسمیں کھاکر اب فرماتا ہے کہ تمہاری کوششیں اور تمہارے اعمال بھی متضاد اور ایک دوسرے کے خلاف ہیں۔ بھلائی کرنے والے بھی ہیں اور برائیوں میں مبتلا رہنے والے بھی ہیں پھر فرمایا ہے کہ جس نے دیا یعنی اپنے مال کو اللہ کے حکم کے ماتحت خرچ کیا اور پھونک پھونک کر قدم رکھا ہر ایک امر میں خوف الہ کرتا رہا اور اس کے بدلے کو سچا جانتا رہا اس کے ثواب پر یقین رکھا حسنیٰ کے معنی لا الہ الا اللہ کے بھی کئے گئے ہیں۔ اللہ کی نعمتوں کے بھی کئے گئے ہیں، نماز زکوٰۃ صدقہ فطر جنت کے بھی مروی ہیں پھر فرمایا ہے کہ ہم آسانی کی راہ آسان کردیں گے یعنی بھلائی، جنت اور نیک بدلے کی اور جس نے اپنے مال کو راہ اللہ میں نہ دیا اور اللہ تعالیٰ سے بےنیازی برتی اور حسنٰی کی یعنی قیامت کے بدلے کی تکذیب کی تو اس پر ہم برائی کا راستہ آسان کردیں گے جیسے فرمایا ونقلب افیدتگم وابصارھم الخ، یعنی ہم ان کے دل اور ان کی آنکھیں الٹ دیں گے جس طرح وہ پہلی بار قرآن پر ایمان نہ لائے تھے اور ہم انہیں ان کی سرکشی میں ہی بہکنے دیں گے، اس مطلب کی آیتیں قرآن کریم کی جگہ موجد ہیں کہ ہر عمل کا بدلہ اسی جیسا ہوتا ہے خیر کا قصد کرنے والے کو توفیق خیر ملتی ہے اور شر کا قصد رکھنے والوں کو اسی کی توفیق ہوتی ہے۔ اس معنی کی تائید میں یہ حدیثیں بھی ہیں، حضرت صدیق اکبر نے ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ ہمارے اعمال فارغ شدہ تقدیر کے ماتحت ہیں یا نوپید ہماری طرف سے ہیں ؟ آپ نے فرمایا بلکہ تقدیر کے لکھے ہوئے کے مطابق، کہنے لگے پھر عمل کی کیا ضرورت ؟ فرمایا ہر شخص پر وہ عمل آسان ہوں گے جس چیز کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے (مسند احمد) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ بقیع غرقد میں ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک جنازے میں تھے تو آپ نے فرمایا سنو تم میں سے ہر ایک کی جگہ جنت و دوزخ میں مقرر کردہ ہے۔ اور لکھی ہوئی ہے لوگوں نے کہا پھر ہم اس پر بھروسہ کرکے بیٹھ کیوں نہ رہیں ؟ تو آپ نے فرمایا عمل کرتے رہو ہر شخص سے وہی اعمال صادر ہوں گے جن کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے پھر آپ نے یہی آیتیں تلاوت فرمائیں (صحیح بخاری شریف) اسی روایت کے اور طریق میں ہے کہ اس بیان کے وقت آپ کے ہاتھ میں ایک تنکا تھا اور سر نیچا کئے ہوئے زمین پر اسے پھیر رہے تھے۔ الفاظ میں کچھ کمی بیشی بھی ہے، مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن عمر کا بھی ایسا ہی سوال جیسا اوپر کی حدیث میں حضرت صدیق کا گذرا مروی ہے اور آپ کا جواب بھی تقریبا ً ایسا ہی مروی ہے۔ ابن جریر میں حضرت جابر سے بھی ایسی ہی روایت مروی ہے، ابن جریر کی ایک حدیث میں دو نوجوانوں کا ایسا ہی سوال اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایسا ہی جواب مروی ہے، اور پھر ان دونوں حضرات کا یہ قول بھی ہے کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم بہ کوشش نیک اعمال کرتے رہیں گے حضرت ابو الدرداء سے بھی اسی طرح مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں ہر دن غروب کے وقت سورج کے دونوں طرف دو فرشتے ہوتے ہیں اور وہ با آواز بلند دعا کرتے ہیں جسے تمام چیزیں سنتی ہیں سوائے جنات اور انسان کے کہ اے اللہ سخی کو نیک بدلہ دے اور بخیل کا مال تلف کر یہی معنی ہیں قرآن کی ان چاروں آیتوں کے۔ ابن ابی حاتم کی ایک بہت ہی غریب حدیث میں اس پوری سورت کا شان نزول یہ لکھا ہے کہ ایک شخص کا کھجوروں کا باغ تھا ان میں سے ایک درخت کی شاخیں ایک مسکین شخص کے گھر میں جا کر وہاں کی کھجوریں اتارتا اس میں جو کھجوریں نیچے گرتیں انہیں اس غریب شخص کے بچے چن لیتے تو یہ آکر ان سے چھین لیتا بلکہ اگر کسی بچے نے منہ میں ڈال لی ہے تو انگلی ڈال کر اس کے منہ سے نکلوا لیتا، اس مسکین نے اسکی شکایت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کی آپ نے اس سے فرما دیا کہ اچھا تم جاؤ اور آپ اس باغ والے سے ملے اور فرمایا کہ تو اپنا وہ درخت جس کی شاخیں فلاں مسکین کے گھر میں ہیں مجھے دے دے، اللہ تعالیٰ اس کے بدلے تجھے جنت کا ایک درخت دے گا وہ کہنے لگا اچھا حضرت میں نے دیا مگر مجھے اس کی کھجوریں بہت اچھی لگتی ہیں میرے تمام باغ میں ایسی کھجوریں کسی اور درخت کی نہیں، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ سن کر خاموشی کے ساتھ واپس تشریف لے گئے۔ ایک شخص جو یہ بات چیت سن رہا تھا وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا حضرت اگر یہ درخت میرا ہوجائے اور میں آپ کا کردوں تو کیا مجھے اس کے بدلے جنتی درخت مل سکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں، یہ شخص اس باغ والے کے پاس آئے ان کا بھی باغ کھجوروں کا تھا یہ پہلا شخص ان سے وہ ذکر کرنے لگا کہ حضرت مجھے فلاں درخت کھجور کے بدلے جنت کا ایک درخت دینے کو کہہ رہے تھے۔ میں نے یہ جواب دیا یہ سن کر خاموش ہو رہے پھر تھوڑی دیر بعد فرمایا کہ کیا تم اسے بیچنا چاہتے ہو ؟ اس نے کہا نہیں۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ جو قیمت اس کی مانگوں وہ کوئی مجھے دے دے۔ لیکن کون دے سکتا ہے ؟ پوچھا کیا قیمت لینا چاہتے ہو ؟ کہا چالیس درخت خرما کے۔ اس نے کہا یہ تو بڑی زبردست قیمت لگا رہے ہو ایک کے چالیس ؟ پھر اور باتوں میں لگ گئے پھر کہنے لگے اچھا میں اسے اتنے ہی میں خریدتا ہوں اس نے کہا اچھا اگر سچ مچ خریدنا ہے تو گواہ کرلو، اس نے چند لوگوں کو بلا لیا اور معاملہ طے ہوگیا گواہ مقرر ہوگئے پھر اسے کچھ سوجھی تو کہنے لگا کہ دیکھئے صاحب جب تک ہم تم الگ نہیں ہوئے یہ معاملہ طے نہیں ہوا۔ اس نے بھی کہا بہت اچھا میں بھی ایسا احمق نہیں ہوں کہ تیرے ایک درخت کے بدلے جو خم کھایا ہوا ہے اپنے چالیس درخت دے دوں تو یہ کہنے لگا کہ اچھا اچھا مجھے منظور ہے۔ لیکن درخت جو میں لوں گا وہ تنے والے بہت عمدہ لوں گا اس نے کہا اچھا منظور۔ چناچہ گواہوں کے روبرو یہ سودا فیصل ہوا اور مجلس برخاست ہوئی۔ یہ شخص خوشی خوشی رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اب وہ درخت میرا ہوگیا اور میں نے اسے آپ کو دے دیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس مسکین کے پاس گئے اور فرمانے لگے۔ یہ درخت تمہارا ہے اور تمہارے بال بچوں کا، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اس پر یہ سورت نازل ہوئی ابن جریر میں مروی ہے کہ یہ آیتیں حضرت ابوبکر صدیق کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔ آپ مکہ شریف میں ابتداء میں اسلام کے زمانے میں بڑھیا عورتوں اور ضعیف لوگوں کو جو مسلمان ہوجاتے تھے آزاد کردیا کرتے تھے اس پر ایک مرتبہ آپ کے والد حضرت ابو قحافہ نے جو اب تک مسلمان نہیں ہوئے تھے کہا کہ بیٹا تم جو ان کمزور ہستیوں کو آزاد کرتے پھرتے ہو اس سے تو یہ اچھا ہو کہ نوجوان طاقت والوں کو آزاد کراؤ تاکہ وقت پر وہ تمہارے کام آئیں، تمہاری مدد کریں اور دشمنوں سے لڑیں۔ تو صدیق اکبر (رض) نے جواب دیا کہ ابا جی میرا ارادہ دینوی فائدے کا نہیں میں تو صرف رضائے رب اور مرضی مولا چاہتا ہوں۔ اس بارے میں یہ آیت نازل ہوئیں۔ تروی کے معنی مرنے کے بھی مروی ہیں اور آگ میں گرنے کے بھی۔