التین آية ۵
ثُمَّ رَدَدْنٰهُ اَسْفَلَ سَافِلِيْنَۙ
طاہر القادری:
پھر ہم نے اسے پست سے پست تر حالت میں لوٹا دیا،
English Sahih:
Then We return him to the lowest of the low,
1 Abul A'ala Maududi
پھر اُسے الٹا پھیر کر ہم نے سب نیچوں سے نیچ کر دیا
2 Ahmed Raza Khan
پھر اسے ہر نیچی سے نیچی حالت کی طرف پھیردیا
3 Ahmed Ali
پھر ہم نے اسے سب سے نیچے پھینک دیا ہے
4 Ahsanul Bayan
پھر اسے نیچوں سے نیچا کر دیا۔ (۱)
۵۔۱یہ اشارہ ہے انسان کی ارذل العمر کی طرف جس میں جوانی اور قوت کے بعد بڑھاپا اور ضعف آ جاتا ہے اور انسان کی عقل اور ذہن بچے کی طرح ہو جاتا ہے۔ بعض نے اس سے کردار کا وہ سفلہ پن لیا ہے جس میں مبتلا ہو کر انسان انتہائی پست اور سانپ بچھو سے بھی گیا گزرا ہو جاتا ہے بعض نے اس سے ذلت ورسوائی کا وہ عذاب مراد لیا ہے جو جہنم میں کافروں کے لیے ہے، گویا انسان اللہ اور رسول کی اطاعت سے انحراف کر کے اپنے احسن تقویم کے بلند رتبہ واعزاز سے گرا کر جہنم کے اسفل السافلین میں ڈال لیتا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
پھر (رفتہ رفتہ) اس (کی حالت) کو (بدل کر) پست سے پست کر دیا
6 Muhammad Junagarhi
پھر اسے نیچوں سے نیچا کر دیا
7 Muhammad Hussain Najafi
پھر اسے (اس کی کج رفتاری کی وجہ سے) پست ترین حالت کی طرف لوٹا دیا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
پھر ہم نے اس کو پست ترین حالت کی طرف پلٹا دیا ہے
9 Tafsir Jalalayn
پھر (رفتہ رفتہ) اس (کی حالت) کو (بدل کر) پست سے پست کردیا
ثمر رددناہ اسفل سافلین، مفسرین نے بالعموم اس کے دو مطلب بیان کئے ہیں ایک یہ کہ ہم نے اسے ارذل العمر یعنی بڑھاپے کی ایسی حالت کی طرف پھیر دیا جس میں وہ کچھ سوچنے سمجھنے اور کام کرنے کے قال نہ رہا، دوسرے یہ کہ ہم نے اسے جہنم کے سب سے نیچے درجے کی طرف پھیر دیا، لیکن یہ دونوں معنی اس مقصود کلام کے لئے دلیل نہیں بن سکتے جسے ثابت کرنے کے لئے یہ سورت نازل ہوئی ہے، سورت کا مقصد جزا اور سزا کے برحق ہونے پر استدلال کرنا ہے اس پر نہ یہ بات دلالت کرتی ہے کہ انسانوں میں سے بعض لوگ بڑھاپے کی انتہائی کمزور حالت کو پہنچا دیئے جاتے ہیں اور نہ یہ بات دلالت کرتی ہے کہ انسانوں کا ایک گروہ جہنم میں ڈالا جائے گا پہلی بات اس لئے جزا سوزا کی دلیل نہیں بن سکتی کہ بڑھاپے کی حالت اچھے اور برے دونوں قسم کے لوگوں پر طاری ہوتی ہے اور کسی کا اس حالت کو پہنچنا کوئی سزا نہیں ہے جو اسے اس کے اعمال پر دی جاتی ہو، رہی دوسری بات تو وہ آخرت میں پیش آنے والا معاملہ ہے اسے ان لوگوں کے سامنے دلیل کے طور پر کیسے پیش کیا جاسکتا ہے ؟ جنہیں آخرت ہی کی جزا سزا کا قائل کرنے کے لئے یہ سارا استدلال کیا جا رہا ہے اس لئے آیت کا صحیح مفہوم یہ معلوم ہوتا ہے کہ بہترین ساخت پر پیدا کرنے کے بعد انسان اپن جسم اور ذہن کی طاقتوں کو برائی کے راستے میں استعمال کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے برائی ہی کی توفیق دیتا ہے اور گراتے گراتے اسے گراوٹ کی اس انتہاء تک پہنچا دیتا ہے کہ کوئی مخلوق گراوٹ میں اس حد کو پہنچی ہوئی نہیں ہوتی، یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو انسانی معاشرے کے اندر بکثرت مشاہدہ میں آتی ہے، حرص، طمع، خود غرضی، شہوت پرستی، نشہ بازی، کمینہ پن، غیظ و غضب اور ایسی ہی دوسری خصلتوں میں جو لوگ غرق ہوجاتے ہیں وہ اخلاقی حیثیت سے فی الواقع سب نیچوں سے نیچ ہو کر رہ جاتے ہیں، مثال کے طور پر صرف اسی بات کو لے لیجیے کہ ایک قوم جب دوسری قوم کی دشمنی میں اندھی ہوجاتی ہے تو کس طرح درندگی میں تمام درندوں کو مات کردیتی ہے، درندہ تو صرف اپنی غذا کے لئے کسی جانور کا شکار کرتا ہے جانوروں کا قتل عام نہیں کرتا مگر انسان خود اپنے ہی ہم جنس انسانوں کا قتل عام کرتا ہے، درندہ صرف اپنے پنجوں اور دانتوں ہی سے کام لیتا ہے مگر یہ احسن تقویم پر پیدا ہونے والا انسان اپنی عقل سے کام لے کر توپ، بندوق، ٹینک، ہوائی جہاز، راکٹ، میزائل، اور ایٹم بم جیسے خطرناک ہتھیار بناتا ہے، تاہ آن کی آن میں پوری بستیوں کی بستیوں کو تباہ کر کے رکھ دے اور انتقام کی آگ ٹھنڈی کرنے کے لئے کمینہ پن کی اس انتہاء کو پہنچتا ہے کہ عورتوں کے ننگے جلوس نکالتا ہے، ایک ایک عورت کو دس دس بیس بیس آدمی اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں اور باپوں اور بھائیوں اور شوہروں کے سامنے ان کے گھر کی عورتوں کی عصمت لوٹتے ہیں، بچوں کو ان کے ماں باپ کے سامنے قتل کرتے ہیں، مائوں کو اپنے بچوں کا خون پینے پر مجبور کرتے ہیں، انسانوں کو زندہ جلانے میں جھجک محسوس نہیں کرتے، دنیا میں وحشی سے وحشی جانوروں کی بھی کوئی قسم ایسی نہیں ہے جو انسان کی اس وحشت کا کسی درجہ میں بھی مقابلہ کرسکتی ہو، شاہ ولی اللہ صاحب انسان کی اسی ارذل صفت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : اس کو لائق بنایا فرشتوں کے مقام کا پھر جب منکر ہوا تو جانوروں سے بدتر ہے۔ (فوائد عثمانی)
یہی حال دوسری بری صفات کا بھی ہے کہ ان میں سے جس طرف بھی انسان رخ کرتا ہے اپنے آپ کو ارذل المخلوقات ثابت کردیا ہے حتی کہ مذہب جو انسان کے لئے مقدس ترین شئی ہے اس کو بھی وہ اتنا گرا دیتا ہے کہ درختوں اور جانوروں اور پتھروں کو پوجتے پوجتے پستی کی انتہاء کو پہنچ کر مرد اور عورت کی شرمگاہوں کو پوج ڈالتا ہے۔
جن مفسرین نے اسفل سافلین سے مراد بڑھاپے کی وہ حالت لی ہیں جس میں انسا ناپنے ہوش و حواس کھو بیٹھتا ہے، وہ اس آیت کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں، جن لوگوں نے اپنی جوانی اور تندرتی کی حالت میں ایمان لا کر نیک عمل کئے ہوں ان کے لئے بڑھاپے کی اس حالت میں بھی وہی نیکیاں لکھی جائیں گی، ان کے اجر میں اس بنا پر کوئی کمی نہ کی جائے گی کہ عمر کے اس دور میں ان سے وہ نیکیاں صادر نہیں ہوئیں، اور جو مفسرین اسفل سافلین کی طرف پھیرے جانے کا مطلب، جہنم کے اسفل ترین درجہ میں پھینک دیا جانا لیتے ہیں، ان کے نزدیک اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ ایمان لا کر عمل صالح کرنے والے لوگ اس سے مستثنیٰ ہیں، وہ اس درجہ کی طرف نہیں پھیرے جائیں گے، بلکہ ان کو وہ اجر ملے گا جو کبھی منقطع نہ ہوگا۔
10 Tafsir as-Saadi
...
11 Mufti Taqi Usmani
phir hum ussay pasti walon mein sabb say ziyada nichli halat mein ker-detay hain ,