اور (اے حبیبِ مکرّم!) آپ جس حال میں بھی ہوں اور آپ اس کی طرف سے جس قدر بھی قرآن پڑھ کر سناتے ہیں اور (اے امتِ محمدیہ!) تم جو عمل بھی کرتے ہو مگر ہم (اس وقت) تم سب پر گواہ و نگہبان ہوتے ہیں جب تم اس میں مشغول ہوتے ہو، اور آپ کے رب (کے علم) سے ایک ذرّہ برابر بھی (کوئی چیز) نہ زمین میں پوشیدہ ہے اور نہ آسمان میں اور نہ اس (ذرہ) سے کوئی چھوٹی چیز ہے اور نہ بڑی مگر واضح کتاب (یعنی لوحِ محفوظ) میں (درج) ہے،
English Sahih:
And, [O Muhammad], you are not [engaged] in any matter and do not recite any of the Quran and you [people] do not do any deed except that We are witness over you when you are involved in it. And not absent from your Lord is any [part] of an atom's weight within the earth or within the heaven or [anything] smaller than that or greater but that it is in a clear register.
1 Abul A'ala Maududi
اے نبیؐ، تم جس حال میں بھی ہوتے ہو اور قرآن میں سے جو کچھ بھی سُناتے ہو، اور لوگو، تم بھی جو کچھ کرتے ہو اُس سب کے دوران میں ہم تم کو دیکھتے رہتے ہیں کوئی ذرہ برابر چیز آسمان اور زمین میں ایسی نہیں ہے، نہ چھوٹی نہ بڑی، جو تیرے رب کی نظر سے پوشیدہ ہو اور ایک صاف دفتر میں درج نہ ہو
2 Ahmed Raza Khan
اور تم کسی کام میں ہو اور اس کی طرف سے کچھ قرآن پڑھو اور تم لوگ کوئی کام کرو ہم تم پر گواہ ہوتے ہیں جب تم اس کو شروع کرتے ہو، اور تمہارے رب سے ذرہ بھر کوئی چیز غائب نہیں زمین میں نہ آسمان میں اور نہ اس سے چھوٹی اور نہ اس سے بڑی کوئی چیز نہیں جو ایک روشن کتاب میں نہ ہو
3 Ahmed Ali
اور تم جس حال میں ہوتے ہو یا قرآن میں سے کچھ پڑھتے ہو یا تم لوگ کوئی کام کرتے ہوتو ہم وہاں موجود ہوتے ہیں جب تم اس میں مصروف ہوتے ہو اور تمہارے رب سے ذرہ بھر بھی کوئی چیز پوشدیہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں اور نہ کوئی چیز اس سے چھوٹی اور نہ بڑی مگر کتاب روشن میں ہے
4 Ahsanul Bayan
اور آپ کسی حال میں ہوں آپ کہیں سے قرآن پڑھتے ہوں اور جو کام بھی کرتے ہوں ہم کو سب کی خبر رہتی ہے جب تم اس کام میں مشغول ہوتے ہو اور آپ کے رب سے کوئی چیز ذرہ برابر بھی غائب نہیں نہ زمین میں نہ آسمان میں اور نہ کوئی چیز اس سے چھوٹی اور نہ کوئی چیز بڑی مگر یہ سب کتاب مبین میں ہے (١)
٦١۔١ اس آیت میں اللہ تعالٰی نے نبی اور مومنین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ تمام مخلوقات کے احوال سے واقف ہے اور لحاظہ اور ہر گھڑی انسانوں پر اس کی نظر ہے۔ زمین آسمان کی کوئی بڑی چھوٹی چیز اس سے مخفی نہیں۔ یہ وہی مضمون ہے جو اس سے قبل سورۃ انعام، آیت ٥٩ میں گزر چکا ہے ' اسی کے پاس غیب کے خزانے ہیں، جنہیں وہ جانتا ہے، اسے جنگلوں اور دریاؤں کی سب چیزوں کا علم ہے، اور کوئی پتہ نہیں جھڑتا مگر وہ اس کو جانتا ہے اور زمین کے اندھیروں میں کوئی دانہ اور کوئی ہری اور سوکھی چیز نہیں ہے مگر کتاب مبین میں (لکھی ہوئی) ہے ' وہ آسمان اور زمین میں موجود اشیاء کی حرکتوں کو جانتا ہے تو انسان اور جنوں کی حرکات و اعمال سے کیوں کر بےخبر رہ سکتا ہے جو اللہ کی عبادت کے مکلف اور مامور ہیں؟
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور تم جس حال میں ہوتے ہو یا قرآن میں کچھ پڑھتے ہو یا تم لوگ کوئی (اور) کام کرتے ہو جب اس میں مصروف ہوتے ہو ہم تمہارے سامنے ہوتے ہیں اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں نہ آسمان میں اور نہ کوئی چیز اس سے چھوٹی ہے یا بڑی مگر کتاب روشن میں (لکھی ہوئی) ہے
6 Muhammad Junagarhi
اور آپ کسی حال میں ہوں اور منجملہ ان احوال کے آپ کہیں سے قرآن پڑھتے ہوں اور جو کام بھی کرتے ہوں ہم کو سب کی خبر رہتی ہے جب تم اس کام میں مشغول ہوتے ہو۔ اور آپ کے رب سے کوئی چیز ذره برابر بھی غائب نہیں نہ زمین میں اور نہ آسمان میں اورنہ کوئی چیز اس سے چھوٹی اور نہ کوئی چیز بڑی مگر یہ سب کتاب مبین میں ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
(اے رسول(ص)) آپ جس حال میں بھی ہوں اور قرآن میں سے جو کچھ بھی پڑھ کر سنائیں اور (اے لوگو) تم بھی جو کوئی کام کرتے ہو ہم ضرور تم پر ناظر و نگران ہوتے ہیں جب تم اس (کام) میں مشغول و منہمک ہوتے ہو۔ اور آپ کے پروردگار سے کوئی ذرہ بھر چیز بھی پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں۔ اور کوئی چیز خواہ ذرہ سے چھوٹی ہو یا اس سے بڑی مگر یہ کہ وہ ایک واضح کتاب میں موجود ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور پیغمبر آپ کسی حال میں رہیں اور قرآن کے کسی حصہ کی تلاوت کریں اور اے لوگوں تم کوئی عمل کرو ہم تم سب کے گواہ ہوتے ہیں جب بھی کوئی عمل کرتے ہو اور تمہارے پروردگار سے زمین و آسمان کا کوئی ذرّہ دور نہیں ہے اور کوئی شے ذرّہ سے بڑی یا چھوٹی ایسی نہیں ہے جسے ہم نے اپنی کھلی کتاب میں جمع نہ کردیا ہو
9 Tafsir Jalalayn
اور تم جس حال میں ہوتے ہو یا قرآن میں سے کچھ پڑھتے ہو یا تم لوگ کوئی (اور) کام کرتے ہو جب اس میں مصروف ہوتے ہو ہم تمہارے سامنے ہوتے ہیں۔ اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔ نہ زمین میں اور نہ آسمان میں۔ اور نہ کوئی چیز اس سے چھوٹی ہے یا بڑی مگر کتاب روشن میں (لکھی ہوئی) ہے۔ آیت نمبر ٦١ تا ٧٠ ترجمہ : اور اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم جس شان (حال) میں بھی ہوتے ہو اور اس شان (حال) کی وجہ سے قرآن سے جو آپ پر نازل کیا گیا ہے، جو کچھ تلاوت کرتے ہو، یا من جانب اللہ جو قرآن تلاوت کرتے ہو، اور تم جو بھی عمل کرتے ہو یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور آپ کی امت کو خطاب ہے ہم (اس عمل سے) باخبر ہوتے ہیں جبکہ تم اس کام میں مشغول ہوتے ہو، ذرہ برابر کوئی چیز (ایسی نہیں) نہ زمین میں اور نہ آسمان میں (اور نہ اس مقدار سے) چھوٹی اور نہ بڑی کہ وہ کتاب مبین (یعنی) لوح محفوظ میں موجود نہ ہو، ذرّہ چھوٹی چیونٹی کو کہتے ہیں، یاد رکھو یہ امر واقعہ ہے کہ اللہ کے دوستوں کیلئے آخرت میں نہ کوئی اندیشہ ہوگا اور نہ ان کو کوئی غم اور یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور اس کے امر و نہی پر عمل کرکے اللہ سے ڈرے ان لوگوں کیلئے دنیوی زندگی میں خوشخبری ہے، ایک حدیث میں جس کو حاکم نے صحیح قرار دیا ہے (خوشخبری) کی تفسیر اچھے خوابوں سے کی ہے جن کو انسان دیکھتا ہے یا اس کیلئے دکھایا جاتا ہے اور آخرت میں جنت اور ثواب (کی خوشخبری ہے) اللہ کی باتوں یعنی اس کے وعدوں میں تخلف نہیں ہوا کرتا یہی مذکورہ بات بڑی کامیابی ہے آپ کو ان کی باتیں یہ کہ آپ نبی نہیں ہیں وغیرہ، غم میں نہ ڈالیں امر واقعہ یہ ہے کہ تمام تر قوت اللہ کیلئے ہے یہ جملہ مستانفہ ہے وہ (تمام) باتوں کو سنتا ہے اور کاموں کو جانتا ہے وہ ان کو جزاء دے گا اور آپ کی مدد کرے گا، یاد رکھو زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے غلام اور ملک اور تخلیق کے اعتبار سے اللہ کا ہے جو لوگ اللہ کو چھوڑ کر اللہ کے علاوہ اس کے شرکاء کی بندگی کرتے ہیں امر واقعہ یہ ہے کہ اللہ اس سے وراء الوراء ہے یہ لوگ اس معاملہ میں محض گمان کی پیروی کرتے ہیں یعنی ان کا یہ گمان ہے کہ یہ بت ان کے معبود ہیں ان کی سفارش کریں گے، یہ لوگ محض اٹکل سے باتیں کرتے ہیں یعنی اس معاملہ میں دروغ گوئی سے کام لیتے ہیں وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لئے رات بنائی تاکہ تم اس میں سکون (راحت) حاصل کرو اور دن کو روشن بنایا ان کی طرف ابصار کی اسناد مجازی ہے اس لئے کہ دن میں دیکھا جاتا ہے بلاشبہ اس میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی نشانیاں ہیں ان لوگوں کیلئے جو نصیحت اور غور و فکر کے طور پر سنتے ہیں یہود اور نصاری اور جن کا یہ عقیدہ ہے کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں کہتے ہیں کہ اللہ اولاد رکھتا ہے اللہ تعالیٰ نے ان سے کہا سبحان اللہ وہ تو اولاد سے پاک ہے وہ تو ہر چیز سے مستغنی ہے ولد کی حاجت تو اس کو ہوتی ہے جو اس کا محتاج ہو زمین میں اور آسمانوں میں جو کچھ ہے وہ اسی کی ہے ملک ہونے کے اعتبار سے مخلوق ہونے کے اعتبار سے اور غلام ہونے کے اعتبار سے جو کچھ تم کہتے ہو تمہارے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں ہے کیا تم اللہ کے متعلق ایسی باتیں کہتے ہو جن کا تمہارے پاس علم نہیں استفہام توبیخ کیلئے ہے، (اے محمد) کہہ دو کہ جو لوگ اس کی طرف ولد کی نسبت کرکے اللہ پر بہتان باندھتے ہیں وہ فلاح پانیوالے نہیں ان کے لئے دنیا میں چند دن کے مزے ہیں تاحیات ان کو لوٹ لیں پھر موت کے ذریعہ ان کو ہمارے پاس آنا ہے پھر ہم ان کو ان کے کفر کے بدلے موت کے بعد شدید عذاب کا مزا چکھائیں گے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : وَمَا تکونُ فی شان اس میں خطاب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے، شان کے معنی حال، کام، فکر، اہم معاملہ کے ہیں، جمع شئون ہے واؤ عاطفہ، ما نافیہ، تکونُ فعل مضارع ناقص اس کے اندر ضمیر انت اس کا اسم، فی شان کائنا کے متعلق ہو کر تکون کی خبر، وَمَا تَتْلُوْا واؤ عاطفہ، ما نافیہ، تتلوا فعل مضارع اس کے اندر ضمیر انت اس کا فاعل، مِنہ تتلوا سے متعلق، منہُ کی ضمیر قرآن کی طرف یا شأن کی طرف راجع ہے، اگر شأن کی طرف راجع ہو تو مِنْ تعلیلیہ ہوگا اور من القرآن میں مِن زائد قرآن محلاً مفعول بہ ہے۔ سوال : اس صورت میں اضمار قبل الذکر لازم آئیگا۔ جواب : تفخیم اور تعظیم کی وجہ سے اضمار قبل الذکر جائز ہوتا ہے، مِنہُ کی ضمیر شان بھی ہوسکتی ہے اور اللہ کی طرف بھی لوٹ سکتی ہے جیسا کہ مفسر علام نے دونوں احتمالوں کی طرف ” ای من الشان او اللہ “ کہہ کر اشارہ کردیا ہے۔ یعنی آپ کسی حال میں نہیں ہوتے اور نہ شان (حال) تلاوت میں ہوتے ہو مگر یہ کہ اللہ اس حال سے باخبر ہوتا ہے۔ قولہ : خاطَبَہ وامتہ یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : یہ ہے کہ ماقبل میں خطاب تنہا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تھا یہی وجہ ہے کہ ضمیر مفرد لائے اور یہاں تعملون میں جمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے جو کہ سیاق کے خلاف ہے۔ جواب : کا حاصل یہ ہے کہ یہاں خطاب میں امت بھی شامل ہے۔ قولہ : الّا کنا علیھم شھوداً یہ مخاطبین کے عموم احوال سے استثناء مفرغ ہے۔ قولہ : وزن ذرّۃ اس اضافہ کا مقصد بھی ایک سوال کا جواب ہے۔ سوال : یہ ہے کہ مثقال ایک متعین مقدار کا نام ہے حالانکہ یہاں مخصوص مقدار کے معنی مراد نہیں ہیں۔ جواب : کا حاصل یہ ہے کہ مفسر علام نے مثقال کی تفسیر وزن سے کرکے اسی اعتراض کے جواب کی طرف اشارہ کیا ہے کہ یہاں معین مخصوص مقدار مراد نہیں بلکہ مطلقاً وزن مراد ہے۔ قولہ : ھم، اشارہ کردیا کہ اَلَّذِیْنَ آمَنُوا الخ ھم مبتدا محذوف کی خبر ہے۔ قولہ : لانّہٗ مبصر فیہ، اس عبارت سے مفسر علام نے اشارہ کردیا کہ والنھار مبصراً میں علاقہ ظرفیت کا ہے، جیسا کہ والنھارٗ صائمٌ والیہٗ قائمٌ میں علاقہ ظرفیت کا ہے۔ تفسیر و تشریح وَما تکونُ فی شانٍ (الآیۃ) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنین کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ تمام مخلوقات کے احوال سے واقف ہے اور ہر لحظہ اور ہر گھڑی پوری مخلوق پر اس کی نظر ہے، زمین و آسمان کی کوئی بڑی چھوٹی چیز ایسی نہیں کہ اس سے مخفی ہو، یہ مضمون متعدد آیات میں مختلف انداز سے بیان کیا گیا ہے سورة انعام آیت ٥٩ اور ٣٧ اور سورة ھود کی آیت ٦ میں بھی اسی مضمون کا بیان کیا گیا ہے، جب واقعہ یہ ہے تو وہ انسانوں اور جنوں کی حرکات سے کیوں کرنا وواقف ہوسکتا ہے ؟ جبکہ یہ مکلف و مامور بھی ہیں۔ اسی ضابطہ کے مطابق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور امت کو مخاطب کرکے فرمایا اے نبی ! تم جس حال و شان میں بھی ہوتے ہو، یا قرآن پڑھنے پڑھانے میں مشغول ہوتے ہو اس کا کوئی جز ہم سے مخفی نہیں، اسی طرح تمام انسان جو کچھ کرتے ہیں وہ بھی ہماری نظروں کے سامنے ہوتا ہے غرضیکہ آسمان و زمین کا کوئی ذرہ ہم سے پوشیدہ نہیں ہوتا۔ اَلا اِنَّ اَوْلِیَاءَاللہ لاخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلاَھم یَحْزنون، سابق میں نافرمانوں کا ذکر تھا، اب یہاں فرماں برداروں کا ذکر فرما رہے ہیں، اور وہ ہیں اولیاء اللہ، اولیاء ولیٌ کی جمع ہے جس کے معنی لغت میں قریب کے ہیں اس اعتبار سے اولیاء اللہ کے معنی ہوں گے وہ سچے اور مخلص مومن جنہوں نے اللہ کی اطاعت اور معاصی سے اجتناب کرکے اللہ کا قرب حاصل کرلیا، اسیلئے اللہ تعالیٰ نے مخلصین مومنین کی ان الفاظ میں تعریف فرمائی، جو ایمان لائے اور تقوی اختیار کیا، اور ایمان اور تقوی ہی قرب الی اللہ کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ فائدہ : خوف کا تعلق آئندہ ہونے والے نقصان سے ہوتا ہے اور حزن و ملال کا تعلق مافات سے ہوتا ہے، مطلب یہ ہے کہ چونکہ انہوں نے زندگی خدا خوفی سے گزاری ہوتی ہے، اسلئے قیامت کی ہولناکیوں کا اتنا خوف ان کو نہیں ہوگا جتنا ناخدا ترس لوگوں کو ہوگا۔ اولیاء اللہ کی شناخت : اولیاء اللہ کی علامت اور شناخت تفسیر مظہری میں ایک حدیث قدسی کے حوالہ سے یہ نقل کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” میرے اولیاء میرے بندوں میں سے وہ لوگ ہیں جو میری یاد کے ساتھ یاد آئیں اور جن کی یاد کے ساتھ میں یاد آؤں “۔ اور ابن ماجہ میں حضرت اسماء بنت یزید کی روایت سے مذکور ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اولیاء اللہ کی پہچان یہ بتلائی کہ جن کو دیکھ کر خدا یاد آئے۔ ولی سے کرامات کا صدور ضروری نہیں : جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کا متبع نہ ہو وہ درجہ ولایت سے محروم ہے چاہے اس سے کشف و کرامات کتنی ہی کیوں نہ صادر ہوں۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے عمومی مشاہدہ کے بارے میں خبر دیتا ہے، نیز وہ فرماتا ہے کہ وہ بندوں کے تمام احوال اور ان کی حرکات و سکنات سے آگاہ اور اس ضمن میں اللہ تعالیٰ انہیں دائمی مراقبہ کی دعوت دیتا ہے۔ فرمایا : ﴿وَمَا تَكُونُ فِي شَأْنٍ﴾ ” اور تم جس حال میں ہوتے ہو“ یعنی آپ اپنے دینی اور دنیاوی احوال میں سے جس حال میں بھی ہوتے ہیں۔ ﴿وَمَا تَتْلُو مِنْهُ مِن قُرْآنٍ﴾ ” یا قرآن میں کچھ پڑھتے ہو“ یعنی آپ قرآن میں سے جو کچھ تلاوت کرتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف وحی کیا ﴿وَلَا تَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ﴾ ” اور جو بھی عمل آپ کرتے ہیں“ یعنی کوئی چھوٹا یا بڑا عمل۔ ﴿ إِلَّا كُنَّا عَلَيْكُمْ شُهُودًا إِذْ تُفِيضُونَ فِيهِ ۚ﴾ ” مگر ہم تم پر گواہ ہوتے ہیں جب تم مصروف ہوتے ہو اس میں“ یعنی تمہارے کام شروع کرنے اور اس کام میں تمہارے استمرار کے وقت، لہٰذا اپنے تمام اعمال میں اللہ تعالیٰ کی نگہبانی کو مد نظر رکھو اور تمام اعمال کو خیر خواہی اور خوب کوشش سے بجا لاؤ۔ جو امور اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہیں ان اسے بچو، کیونکہ اللہ تعالیٰ تمہارے تمام باطنی اور ظاہری امور سے آگاہ ہے۔ ﴿ وَمَا يَعْزُبُ عَن رَّبِّكَ﴾ ” ور نہیں غائب رہتا آپ کے رب سے“ یعنی اللہ تعالیٰ کے علم، اس کے سمع و بصر اور اس کے مشاہدہ سے باہر نہیں۔ ﴿مِن مِّثْقَالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَلَا أَصْغَرَ مِن ذَٰلِكَ وَلَا أَكْبَرَ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ ﴾ ” ایک ذرہ بھر، زمین میں نہ آسمان میں اور نہ چھوٹا اس سے اور نہ بڑا، مگر وہ کھلی ہوئی کتاب میں ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کے ذریعے سے اس کا احاطہ کر رکھا ہے اور اس پر اس کا قلم جاری ہوچکا ہے۔ یہ دونوں مراتب اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر کے مراتب ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اکثر ان کو مقرون بیان کیا ہے۔ ١۔ تمام اشیا کا احاطہ کرنے والا علم الٰہی۔ ٢۔ تمام حوادث کا احاطہ کرنے والی تقدیر (کتاب) الٰہی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّـهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ إِنَّ ذَٰلِكَ فِي كِتَابٍ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّـهِ يَسِيرٌ﴾ (الحج : 22؍70) ” یا تجھے معلوم نہیں کہ اللہ جانتا ہے جو کچھ آسمان میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے یہ سب کچھ کتاب یعنی لوح محفوظ پر لکھا ہوا ہے اور بے شک یہ سب کچھ اللہ کے لئے بہت آسان ہے۔ “
11 Mufti Taqi Usmani
aur ( aey payghumber ! ) tum jiss halat mein bhi hotay ho , aur Quran ka jo hissa bhi tilawat kertay ho , aur ( aey logo ! ) tum jo kaam bhi kertay ho , toh jiss waqt tum iss kaam mein mashghool hotay ho , hum tumhen dekhtay rehtay hain . aur tumharay rab say koi zarra barabar cheez bhi posheeda nahi hai , naa zameen mein naa aasman mein , naa uss say choti , naa bari , magar woh aik wazeh kitab mein darj hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے اور دیکھتا ہے اللہ تعالیٰ عزوجل اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر دیتا ہے کہ خود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تمام امت کے تمام احوال ہر وقت اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔ ساری مخلوق کے کل کام اس کے علم میں ہیں۔ اس کے علم سے اور اس کی نگاہ سے آسمان و زمین کا کوئی ذرہ بھی پوشیدہ نہیں۔ سب چھوٹی بڑی چیزیں ظاہر کتاب میں لکھی ہوئی ہیں۔ جیسے فرمان ہے ( وَعِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَآ اِلَّا هُوَ ۭ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۭ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ اِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِيْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا يَابِسٍ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ 59) 6 ۔ الانعام :59) غیب کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں۔ جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ وہ خشکی و تری کی ہر چیز کا علم رکھتا ہے ہر پتے کے جھڑنے کی اسے خبر ہے۔ زمین کے اندھیروں میں جو دانہ ہو، جو تر و خشک چیز ہو، سب کتاب مبین میں موجود ہے۔ الغرض درختوں کا ہلنا۔ جمادات کا ادھر ادھر ہونا، جانداروں کا حرکت کرنا، کوئی چیز روئے زمین کی اور تمام آسمانوں کی ایسی نہیں، جس سے علیم وخبیر اللہ بیخبر ہو۔ فرمان ہے ( وَمَا مِنْ دَاۗبَّةٍ فِي الْاَرْضِ وَلَا طٰۗىِٕرٍ يَّطِيْرُ بِجَنَاحَيْهِ اِلَّآ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ ۭمَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتٰبِ مِنْ شَيْءٍ ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ يُحْشَرُوْنَ 38) 6 ۔ الانعام :38) ایک اور آیت میں ہے کہ زمین کے ہر جاندار کا روزی رساں اللہ تعالیٰ ہے۔ جب کہ درختوں، ذروں جانوروں اور تمام تر و خشک چیزوں کے حال سے اللہ عزوجل واقف ہے بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ بندوں کے اعمال سے وہ بیخبر ہو۔ جنہیں عبادت رب کی بجا آوری کا حکم دیا گیا ہے۔ چناچہ فرمان ہے اس ذی عزت بڑے رحم وکرم والے اللہ پر تو بھروسہ رکھ جو تیرے قیام کی حالت میں تجھے دیکھتا رہتا ہے سجدہ کرنے والوں میں تیرا آنا جانا بھی دیکھ رہا ہے۔ یہی بیان یہاں ہے کہ تم سب ہماری آنکھوں اور کانوں کے سامنے ہو۔ حضرت جبرائیل نے جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے احسان کی بابت سوال کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہی فرمایا کہ اللہ کی عبادت اس طرح کر کہ گویا تو اسے دیکھ رہا ہے، اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا تو وہ تو تجھے یقیناً دیکھ ہی رہا ہے