یونس آية ۷۱
وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَاَ نُوْحٍۘ اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖ يٰقَوْمِ اِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَّقَامِىْ وَتَذْكِيْرِىْ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ فَعَلَى اللّٰهِ تَوَكَّلْتُ فَاَجْمِعُوْۤا اَمْرَكُمْ وَشُرَكَاۤءَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُنْ اَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً ثُمَّ اقْضُوْۤا اِلَىَّ وَ لَا تُنْظِرُوْنِ
طاہر القادری:
اور ان پر نوح (علیہ السلام) کا قصہ بیان فرمائیے، جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا: اے میری قوم (اولادِ قابیل!) اگر تم پر میرا قیام اور میرا اللہ کی آیتوں کے ساتھ نصیحت کرنا گراں گزر رہا ہے تو (جان لو کہ) میں نے تو صرف اللہ ہی پر توکل کرلیا ہے (اور تمہارا کوئی ڈر نہیں) سو تم اکٹھے ہوکر (میری مخالفت میں) اپنی تدبیر کو پختہ کرلو اور اپنے (گھڑے ہوئے) شریکوں کو بھی (ساتھ ملا لو اور اس قدر سوچ لو کہ) پھر تمہاری تدبیر (کا کوئی پہلو) تم پر مخفی نہ رہے، پھر میرے ساتھ (جو جی میں آئے) کر گزرو اور (مجھے) کوئی مہلت نہ دو،
English Sahih:
And recite to them the news of Noah, when he said to his people, "O my people, if my residence and my reminding of the signs of Allah has become burdensome upon you – then I have relied upon Allah. So resolve upon your plan and [call upon] your associates. Then let not your plan be obscure to you. Then carry it out upon me and do not give me respite.
1 Abul A'ala Maududi
اِن کو نوحؑ کا قصہ سناؤ، اُس وقت کا قصہ جب اُس نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ “اے برادران قوم، اگر میرا تمہارے درمیان رہنا اور اللہ کی آیات سنا سنا کر تمہیں غفلت سے بیدار کرنا تمہارے لیے ناقابل برداشت ہو گیا ہے تو میرا بھروسہ اللہ پر ہے، تم اپنے ٹھیرائے ہوئے شریکوں کو ساتھ لے کر ایک متفقہ فیصلہ کر لو اور جو منصوبہ تمہارے پیش نظر ہو اس کو خوب سوچ سمجھ لو تاکہ اس کا کو ئی پہلو تمہاری نگاہ سے پوشیدہ نہ رہے، پھر میرے خلاف اس کو عمل میں لے آؤ اور مجھے ہرگز مہلت نہ دو
2 Ahmed Raza Khan
اور انہیں نوح کی خبر پڑھ کر سناؤ جب اس نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم اگر تم پر شاق گزرا ہے میرا کھڑا ہونا اور اللہ کی نشانیاں یاد دلانا تو میں نے اللہ ہی پر بھروسہ کیا تو مِل کر کام کرو اور اپنے جھوٹے معبودوں سمیت اپنا کام پکا کرلو تمہارے کام میں تم پر کچھ گنجلک (الجھن) نہ رہے پھر جو ہو سکے میرا کرلو اور مجھے مہلت نہ دو
3 Ahmed Ali
اور انہیں نوح کا حال سنا جب اس نے اپنی قوم سے کہا اے قوم اگر تمہیں میرا تم میں رہنا اور الله کی آیتوں سے نصیحت کرنا ناگوار ہو تو میں الله پر بھروسہ کرتا ہوں اب تم سب ملکر اپنا کام مقرر کرو اور اپنے شریکوں کو جمع کرو پھر تمہیں اپنے کام میں شبہ نہ رہے پھر وہ کام میرے ساتھ کر گزرو اور مجھے مہلت نہ دو
4 Ahsanul Bayan
اور آپ ان کو نوح (علیہ السلام) کا قصہ پڑھ کر سنائیے جب کہ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ اے میری قوم! اگر تم کو میرا رہنا اور احکام الٰہی کی نصیحت کرنا بھاری معلوم ہوتا ہے تو میرا اللہ پر ہی بھروسہ ہے تم اپنی تدبیر مع اپنے شرکا کے پختہ کر لو (١) پھر تمہاری تدبیر تمہاری گھٹن کا باعث نہ ہونی چاہے (٢) پھر میرے ساتھ کر گزرو اور مجھ کو مہلت نہ دو۔
٧١۔١ یعنی جن کو تم نے اللہ کا شریک ٹھہرا رکھا ہے ان کی مدد بھی حاصل کر لو (اگر وہ گمان کے مطابق
تمہاری مدد کر سکتے ہیں)
٧١۔٢ غُمَّۃً کے دوسرے معنی ہیں، گول مول بات اور پوشیدگی۔ یعنی میرے خلاف تمہاری تدبیر واضح اور غیر مشکوک ہونی چاہئے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور ان کو نوح کا قصہ پڑھ کر سنادو۔ جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ اے قوم! اگر تم کو میرا تم میں رہنا اور خدا کی آیتوں سے نصیحت کرنا ناگوار ہو تو میں خدا پر بھروسہ رکھتا ہوں۔ تم اپنے شریکوں کے ساتھ مل کر ایک کام (جو میرے بارے میں کرنا چاہو) مقرر کرلو اور وہ تمہاری تمام جماعت (کو معلوم ہوجائے اور کسی) سے پوشیدہ نہ رہے اور پھر وہ کام میرے حق میں کر گزرو اور مجھے مہلت نہ دو
6 Muhammad Junagarhi
اور آپ ان کو نوح﴿علیہ السلام﴾ کا قصہ پڑھ کر سنائیے جب کہ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ اے میری قوم! اگر تم کو میرا رہنا اور احکام الٰہی کی نصیحت کرنا بھاری معلوم ہوتا ہے تو میرا تو اللہ ہی پر بھروسہ ہے۔ تم اپنی تدبیر مع اپنے شرکا کے پختہ کرلو پھر تمہاری تدبیر تمہاری گھٹن کا باعﺚ نہ ہونی چاہئے۔ پھر میرے ساتھ کر گزرو اور مجھ کو مہلت نہ دو
7 Muhammad Hussain Najafi
اور (اے رسول(ص)) انہیں (کفار کو) نوح کا حال سنائیں جب کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ اے میری قوم! اگر (تمہارے درمیان) میرا قیام کرنا اور آیاتِ الٰہیہ کا یاد دلانا (اور ان کے ساتھ پند و نصیحت کرنا) شاق گزرتا ہے تو میرا بھروسہ صرف اللہ پر ہے تو تم (میرے خلاف) اپنے خود ساختہ شریکوں کو بھی ساتھ ملا کر کوئی متفقہ فیصلہ کرلو اور (پھر خوب سوچ سمجھ لو تاکہ) تمہارا فیصلہ تم پر پوشیدہ نہ رہے اور تمہیں اس میں کوئی تذبذب باقی نہ رہے پھر میرے ساتھ جو کرنا ہے کر گزرو اور مجھے ذرا بھی مہلت نہ دو۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
آپ ان کّفار کے سامنے نوح علیھ السّلام کا واقعہ بیان کریں کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ اگر تمہارے لئے میرا قیام اور آیات الٰہٰیہ کا یاد دلانا سخت ہے تو میرا اعتماد اللہ پر ہے. تم بھی اپناارادہ پختہ کرلو اور اپنے شریکوں کو بلالو اور تمہاری کوئی بات تمہارے اوپر مخفی بھی نہ رہے -پھر جو جی چاہے کر گزرو اور مجھے کسی طرح کی مہلت نہ دو
9 Tafsir Jalalayn
اور ان کو نوح کا قصہ پڑھ کر سنا دو ۔ جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ اے قوم ! اگر تم کو میرا (تم میں) رہنا اور خدا کی آیتوں سے نصیحت کرنا ناگوار ہو تو میں تو خدا پر بھروسہ رکھتا ہوں تم اپنے شریکوں کے ساتھ مل کر ایک کام (جو میرے بارے میں کرنا چاہو) مقرر کرلو اور وہ تمہاری تمام جماعت (کو معلوم ہوجائے اور کسی) سے پوشیدہ نہ رہے پھر وہ کام میرے حق میں کر گزرو اور مجھے مہلت نہ دو ۔
آیت نمبر ٧١ تا ٨٢
ترجمہ : اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کفار مکہ کو نوح (علیہ السلام) کا اس وقت کا واقعہ سناؤ اِذْ قال، نَبَا نوح سے بدل ہے، جب نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ اے میری قوم کے لوگو اگر تم پر میرا تمہارے درمیان قیام کرنا اور اللہ کی آیتوں کے ذریعہ تم کو نصیحت کرنا گراں گزرتا ہے (تو گزرا کرے) میں نے تو اللہ پر بھروسہ کر رکھا ہے، تو تم اپنی تدبیروں کو جو تم میرے خلاف کرنا چاہتے ہو اپنے شرکاء کے ساتھ مل کر پختہ کرلو، یعنی جو تدبیریں تم میرے خلاف کرنا چاہتے ہو ان کو خوب مضبوط کرلو، (وشرکاء) میں واؤ بمعنی مع ہے پھر تمہاری تدبیر کا کوئی پہلو تم سے مخفی نہ رہنا چاہیے بلکہ اس کو ظاہر کردو اور مجھے بھی اس سے باخبر کردو، پھر جو کچھ تمہارا ارادہ ہو وہ میرے ساتھ کر گذرو اور مجھے مہلت نہ دو مجھے تمہاری کوئی پرواہ نہیں پھر بھی اگر تم میری نصیحت سے روگردانی کرتے ہو تو میں تم سے کسی اجرت کا (یعنی) اس پر ثواب کا تو سوال کیا نہیں ہے جس کی وجہ سے تم بےرخی کرتے ہو میرا اجر وثواب تو محض اللہ کے ذمہ ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تابع فرمان رہوں (نوح (علیہ السلام) کی قوم نے) ان کو جھٹلایا تو ہم نے نوح (علیہ السلام) کو اور کشتی میں جو ان کے ساتھ تھے بحا لیا اور جو لوگ (حضرت نوح علیہ الصلوٰۃ والسلام) کے ساتھ تھے ان ہی کو زمین میں خلیفہ بنایا اور بقیہ سب لوگوں کو طوفان میں غرق کردیا جنہوں نے ہماری آیت کو جھٹلایا تھا سو دیکھ لو جن لوگوں کو ہلاکت سے ڈرایا تھا ان کا کیا انجام ہوا ! چناچہ ہم ان لوگوں کے ساتھ بھی ایسا ہی کریں گے جو تم کو جھٹلائیں گے پھر ہم نے نوح (علیہ السلام) کے بعد ان کی قوم کی طرف بہت سے رسول بھیجے جیسا کہ ابراہیم (علیہ السلام) ہود (علیہ السلام) اور صالح (علیہ السلام) سو وہ ان کے پاس کھلے معجزات لے کر آئے مگر جس چیز کو انہوں نے پہلے یعنی ان کی طرف رسول بھیجنے سے پہلے جھٹلا دیا پھر مان کر نہ دیا، ہم اسی طرح حد سے تجاوز کرنے والوں کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں، پھر وہ ایمان کو قبول نہیں کرتے جیسا کہ ہم نے ان کے قلوب پر مہر لگا دی، پھر ان کے بعد ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کو ہماری و نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کی قوم کے پاس بھیجا مگر انہوں نے ایمان کے مقابلہ میں تکبر کیا، اور وہ مجرم لوگ تھے پھر جب ہماری طرف سے حق ان کے پاس آیا تو انہوں نے کہہ دیا کہ یہ تو کھلا جادو ہے موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ کیا تم حق کے بارے میں جب وہ تمہارے پاس آیا کہتے ہو کہ یہ جادو ہے، کیا یہ جادو ہے ؟ حالانکہ جو اس کو لے کر آیا ہے وہ کامیاب ہوگیا، اور جادو گروں کے جادو کو باطل کردیا اور ساحر (جادو گر) فلاح نہیں پاسکتا، اور استفہام دونوں جگہ انکار کیلئے ہے، انہوں نے جواب دیا کیا تو ہمارے پاس اس لئے آیا ہے کہ تو ہم کو اس طریقہ سے پھیر دے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے ؟ اور ملک مصر میں حکومت تم دونوں کی ہوجائے، اور ہم تم دونوں کی تصدیق کرنے والے نہیں اور فرعون نے کہا کہ میرے پاس یعنی علم سحر میں ہر فائق جادو گر کو لاؤ جب جادو گر آگئے تو جادوگروں کے یہ کہنے کے بعد کہ تم پہلے ڈالو یا ہم پہلے ڈالیں موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے کہا جو تم کو ڈالنا ہے وہ ڈالو چناچہ جب جادوگروں نے اپنی رسیوں کو اور اپنی لاٹھیوں کو ڈالا، موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا جو تم لائے ہو وہ جادو ہے، ما استفہامیہ مبتداء ہے اور (جئتم بہ السحر) اس کی خبر ہے اِلسّحر مَا جئتم سے بدل ہے اور ایک قراءت میں ایک ہمزہ کے ساتھ خبر ہے اور ما موصولہ مبتدأ ہے اللہ ابھی اسے باطل کئے دیتا ہے اللہ ایسے فسادیوں کا کام بننے نہیں دیتا اور اللہ اپنے وعدوں کے ذریعہ حق کو حق کر دکھاتا ہے خواہ مجرموں کو وہ کتنا ہی ناپسند ہو۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : وَاتْلُ ، فعل امر مبنی برحذف حرف علت میں واتلو تھا آخر سے واؤ حذف ہوگیا، عَلَیھم اُتُل سے متعلق ہے نَبَأ نوحٍ بترکیب اضافی اُتلُ کا مفعول بہ ہے، اِذ قال، اذ ظرفیہ برائے ماضی نَبَأ سے بدل الاشتمال ہونے کی وجہ سے محلاً منصوب ہے، اذ قال نَبأ کے متعلق بھی ہوسکتا ہے نوحٍ پر وقف لازم ہے اس لئے کہ اِذ قال کا تعلق اُتلُ سے فساد معنی کی وجہ سے جائز نہیں ہے اسلئے کہ اُتْل مستقبل ہے اور ظرف ماضی ہے اس صورت میں ترجمہ یہ ہوگا تم اس وقت سناؤ جب نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا تھا حالانکہ یہ ممکن نہیں ہے۔
قولہ : لِقومِہ، میں لام برائے تبلیغ ہے مَقَام بالفتح موضع قیام ” مکان “ مرتبہ، مراد خود اپنا وجود ہے اور مقام بالضم مصدر ہے قیام کرنا، ٹھہرنا القیام علی الدعوۃ خلال مدۃ اللبث، اسلئے کہ دعوت و تبلیغ کا کام عام طور پر کھڑے ہو کر ہی کیا جاتا ہے۔
قولہ : فَعَلی اللہ توکلتُ ، یہ انآ کان کَبُرَ کی جزاء ہے اور اگر فَعَلی اللہ توکلتُ ، کو جملہ معترضہ مانا جائے تو فَاَجْمعوا اَمْرَکم جواب شرط ہوگا۔
قولہ : فاجمعوا امرکم کی تفسیر اعزموا علی امرٍ سے کرکے اشارہ کردیا ہے کہ اَجْمَعَ متعدی بنفسہ بھی مستعمل ہے اور متعدی بالحرف بھی
قولہ : غمّۃ کٹھن، تاریک، مشتبہ، پوشیدہ، دشوار، جب چاند چھپ جاتا ہے تو عرب غم الھلال بولتے ہیں۔
قولہ : الواؤ بمعنی مع، یعنی شرکاء مفعول معہ ہو نیکی وجہ سے منصوب ہے، اس سے اس شبہ کو دور کردیا کہ شرکاء کا بظاہر عطف اجمعوا کی ضمیر فاعل پر ہے یعنی تم شرکاء اپنی تدبیروں کو مضبوط کرلو اس اعتبار سے شرکاء مرفوع ہونا چاہیے۔
قولہ : قال موسیٰ أتقولون للحق لما جاء کم، انّہ لَسحر أسحْرٌ ھذا۔ قال موسیٰ فعل بافاعل ہے، أتقولونَ میں ہمزہ استفہام انکاری ہے تقولون فعل مضارع بافاعل ہے انتم للحق متعلق تقولون سے ہے لَمّا جاء کم تقولون کا ظرف ہے، اِنّہ لَسِحْر، تقولون کا مقولہ ہے جو کہ محذوف ہے پورا جملہ قال موسیٰ کا مقولہ حکائی ہے (یعنی موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعونیوں کا مقولہ نقل کیا ہے) ۔
قولہ : اَسحْرٌ ھذا یہ قول موسیٰ محذوف کا مقولہ ہے ہمزہ استفہام انکاری ہے سِحْرٌ خبر مقدم ہے اور ھذا مبتدأ مؤخر ہے ولا یفلح السّٰحرون جملہ حالیہ ہے۔
وضاحت : مفسر علام نے اِنّہٗ لَسحْرٌ ھذا، محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ اللہ تعالیٰ کا قول اَسِحْرٌ ھذا۔ یقولون کا مقولہ نہیں ہے بلکہ اس کا مقولہ محذوف ہے اور وہ اِنّہٗ لَسِحْرٌ مبین ہے اس حذف کا قرینہ یہ ہے کہ فرعونیوں نے قطیعت کے ساتھ بطریق اخبار نہ کہ بطریق استفہام موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزہ کو سحر قرار دیتے ہوئے کہا تھا ” اِنَّ ھذا لَسِحْرٌ مبین “ اور اللہ تعالیٰ کا قول ” أسِحْرٌ ھذا “ یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا مقولہ ہے مطلب یہ کہ اے فرعونیو ! کیا تم ایسی کھلی اور واضح حقیقت کو سحر قرار دیتے ہو ؟ تم کو تو ایسی بات جو واقعہ کے خلاف ہو ہرگز منہ سے نہ نکالی چاہیے۔
مذکورہ ترکیب بطریق سوال و جواب :
سوال : موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعونیوں کے قول کی حکایت بطریق استفہام یعنی ” أتقولون للحق لَمَّا جاء کم أسحْرٌ ھذا “ سے کیوں کی ؟ حالانکہ فرعونیوں نے بطریق جزم و اخبار کے قطعیت کے ساتھ اپنے کلام کو انَّ اور لام سے مؤکد کرتے ہوئے کہا تھا ” کما قال اللہ تعالیٰ فلَما جاءھم الحق من عندنا قالوا اِنَّ ھذا لَسِحْرٌ مبین “۔
جواب : اس میں فرعونیوں کا مقولہ حکائی محذوف ہے اور تقدیر عبارت یہ ہے ” أتقولونَ للحق لمّا جاء کم اِنّ ھذا لَسِحْرٌ مبین “ اس کے جواب میں موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کے قول پر نکیر کرتے ہوئے فرمایا اسِحْرٌ ھذا ؟ کیا یہ جادو ہے ؟ تم کو حقیقت کے خلاف ایسی بات منہ سے نکالنی بھی نہ چاہیے۔
قولہ : بدلٌ یعنی اسحر، ما جئتم بہ سے حذف مبتدأ کے ساتھ بدل ہے ای اھو السِّحْرُ لہٰذا یہ اعتراض ختم ہوگیا کہ مفرد جملہ سے بدل واقع نہیں ہوتا۔
قولہ : فی قراءۃ یعنی ابو عمرو کی قراءت میں أسحْر ھذا، میں ایک ہمزہ استفہامیہ ہے، اس قراءت کے مطابق مَا جئتم میں مَا استفہامیہ ہوگا، اور اَلسّحْرُ ، ما سے بدل ہوگا، ای اَیّ شئٍ جئتم بہ أھو السحر اور دوسروں کی قراءت میں ایک ہمزہ اخبار کے ساتھ ہے اس صورت میں مَا موصولہ مبتداء ہوگا، اور جئتم بہ صلہ ہوگا، اور السحْرُ اس کی خبر ہوگی، ای الذی جئتم بہ السّحْرُ لا الِّذِی جئتُ بہ۔
تفسیر و تشریح
ربط آیات : سابق میں معقول اور دل لگتے دلائل اور شفقت آمیز نصائح سے سمجھایا گیا تھا کہ ان کے طریقہ اور عقائد و خیالات میں کیا غلطی ہے، اور وہ کیوں غلط ہیں، اور اس کے مقابلہ میں صحیح راہ کیا ہے ؟ اب ان کے اس طرز عمل کی طرف توجہ منعطف فرمائی جو وہ اس سیدھی اور صاف راہ کے جواب میں اختیار کر رہے تھے، دس گیارہ سال سے مشرکین مکہ کی روش یہ تھی کہ وہ بجائے اس کے کہ معقول تنقید اور صحیح رہنمائی پر غور کرکے اپنی گمراہیوں پر نظر ثانی کرتے الٹے اس شخص کی جان کے دشمن ہوگئے تھے جو ان باتوں کو اپنی کسی ذاتی غرض کیلئے نہیں بلکہ انہی کے بھلے کیلئے پیش کر رہا تھا، وہ دلیلوں کا جواب پتھروں سے اور نصیحتوں کا جواب گالیوں سے دے رہے تھے، اپنی بستی میں ایسے شخص کا وجود ان کے لئے سخت ناگوار تھا بلکہ ناقابل برداشت ہوگیا تھا، گویا کہ ان کا مطالبہ یہ تھا کہ ہم اندھوں کے درمیان جو آنکھوں والا پایا جاتا ہے وہ ہماری آنکھیں کھولنے کے بجائے اپنی بھی آنکھیں بند کرلے ورنہ ہم زبردستی اس کی آنکھیں پھوڑ دیں گے تاکہ بینائی جیسی چیز ہماری سرزمین میں نہ پائی جائئے، یہ طرز عمل جو انہوں نے اختیار کر رکھا تھا اس پر مزید کچھ اور فرمانے کے بجائے اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو حکم دیتا ہے کہ انھیں نوح (علیہ السلام) کا قصہ سنا دو ، اسی قصہ میں وہ اپنے اور تمہارے معاملہ کا جواب بھی پالیں گے، اس پر بھی جب اہل مکہ اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو ان کو چیلنچ دیدیا کہ میں اپنے کام سے باز نہ آؤں گا، تم میرے خلاف جو کچھ کرنا چاہتے ہو کر گزرو، اور جن کو تم نے اللہ کا شریک ٹھہرا رکھا ہے ان کی بھی مدد لے لو اگر وہ تمہارے عقیدے کے مطابق تمہاری مدد کرسکتے ہیں، غُمَّۃً کے ایک معنی ابہام اور پوشیدگی کے بھی ہیں، یعنی میرے خلاف تمہاری تدبیر واضح اور غیر مبہم ہونی چاہیے، جو کچھ کرنا ہے کھلم کھلا کرو چرانے چھپانے کی کیا ضرورت ہے ؟ اس قطیعت اور جرأت کے لب و لہجہ کے ساتھ دشمنوں سے گفتگو وہی کرسکتا ہے جس کا رشتہ اللہ سے تمام تر جڑا ہوا ہو، اور جو مخلوق کی قوت ضرر رسانی اور خوف نفع رسانی سے یکسر بےنیاز ہوچکا ہو۔
فکذّبوہ فنجینَاہ ومن مَعَہٗ فی الفلک، یعنی قوم نوح (علیہ السلام) نے تمام تر وعظ و نصیحت کے باوجود تکذیب کا راستہ نہیں چھوڑا، چناچہ اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) اور ان پر ایمان لانے والوں کو ایک کشتی میں بٹھا کر بچا لیا اور باقی سب کو حتی کہ نوح (علیہ السلام) کے ایک بیٹے کو بھی غرق کردیا، اور ان بچنے والوں کو پہلے لوگوں کا جانشین بنایا، پھر آئندہ نسل انہی لوگوں سے بالخصوص نوح (علیہ السلام) کے تین بیٹوں حام، سام، یافث سے چلی اسیلئے حضرت نوح (علیہ السلام) کو آدم ثانی کہا جاتا ہے
طوفان نوح (علیہ السلام) کے بقیہ آثار : اس طوفان نوح (علیہ السلام) کے آثار ماہرین سائنس کو آج بھی ارض نوح (علیہ السلام) میں مل رہے ہیں یہ طوفان ملک عراق میں دریائے دجلہ اور دریائے فرات کے درمیانی علاقہ میں آیا تھا اس علاقہ کا رقبہ موجودہ ماہرین اثریات کے تخمینہ کے مطابق چار سو میل طول میں اور ١٠٠ میل عرض میں تھا (ماجدی) کشتی نوح (علیہ السلام) کا طول تورات کی تصریح کے مطابق تین سو ہاتھ اور عرض پچاس ہاتھ کا اور بلندی تیس ہاتھ کی تھی۔ (ماجدی)
قوم نوح (علیہ السلام) کی غرق آبی کے بعد مخلصین و مومنین پھر اسی علاقہ میں آباد ہوگئے اور ان ہی سے سلسلہ نسل آدم چلا، نوح انسانی کی آبادی تاریخ کے اس ابتدائی دور میں صرف اسی سرزمین کی حدود تک محدود تھی، اسی لئے جن مفسرین نے طوفان نوح (علیہ السلام) کے عالم گیر ہونے کا دعوی کیا ہے انہوں نے کچھ غلط نہیں کہا، دنیا کی آبادی اس دور میں اسی خطہ عراق تک محدود تھی، اس لئے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے زمانہ سے اب تک کل دس پشتیں ہی ہوئی تھیں۔
غرق آبی عام اور عالم گیر تھی یا اسی امت نوح (علیہ السلام) کے ساتھ مخصوص تھی، یہ سوال متقدمین مفسرین کے سامنے بھی آچکا ہے اور محققین کی اکثریت شق ثانی ہی کی طرف گئی ہے اور ظواہر قرآن و حدیث بھی اسی کی تائید میں ہیں۔ (روح)
فما کانوا لیُوْمنوا بما کذّبوا بہ من قبلُ ، اس آیت میں حد سے گذر جانے والوں کے قلوب پر ٹھیہ لگانے کی بات کہی گئی ہے، حد سے گذر جانے والے یہ وہ لوگ ہیں جو ایک مرتبہ غلطی کر جانے کے بعد پھر اپنی بات کی پچ اور ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے اپنی اسی غلطی پر اڑے رہتے ہیں اور جس بات کا ایک بار انکار کردیتے ہیں اسے پھر کسی فہائش، کسی تلقین اور کسی معقول سے معقول دلیل سے بھی مان کر نہیں دیتے، اہل ضلال کی یہ ذہنیت آج تک چلی آرہی ہے، جہاں ایک بار شروع میں بےسوچے سمجھے زبان سے ” نہیں “ نکل گئی بس آخر تک اسی پر قائم رہیں گے، ایسے لوگوں پر اللہ کی ایسی پھٹکار پڑتی ہے کہ انھیں پھر راہ راست پر آنے کی توفیق نصیب نہیں ہوتی۔
فَاستکبروا وکانوا قوماً مجرمین الخ یعنی فرعون نے اپنی دولت و حکومت اور شوکت و حشمت کے نشے میں مدہوش ہو کر اپنے آپ کو بندگی کے مقام سے بالاتر سمجھ لیا اور اطاعت کیلئے سر جھکانے کے بجائے اکڑ دکھانی شروع کردی۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرماتا ہے : ﴿وَاتْلُ عَلَيْهِمْ﴾ ” اور ان کو سنائیے“ یعنی اپنی قوم کے سامنے تلاوت کر دیجئے ﴿ نَبَأَ نُوحٍ﴾ ” نوح کا حال“ یعنی جب نوح علیہ الصلوۃ السلام کی دعوت کا حال، جو انہوں نے اپنی قوم کے سامنے پیش کی تھی وہ ایک طویل مدت تک ان کو دعوت دیتے رہے۔ پس وہ اپنی قوم کے درمیان نو سو پچاس برس تک رہے مگر ان کی دعوت نے ان کی سرکشی میں اضافہ ہی کیا اور وہ آپ کی دعوت سے اکتا گئے اور سخت تنگ آگئے۔ نوح علیہ السلام نے ان کی دعوت دینے میں کسی سستی کا مظاہرہ کیا نہ کوتاہی کا‘ چنانچہ آپ ان سے کہتے رہے : ﴿يَا قَوْمِ إِن كَانَ كَبُرَ عَلَيْكُم مَّقَامِي وَتَذْكِيرِي﴾ ” اے میری قوم ! اگر بھاری ہوا ہے تم پر میرا کھڑا ہونا اور میرا نصیحت کرنا“ یعنی میرے تمہارے پاس ٹھہرنا اور تمہیں وعظ و نصیحت کرنا جو تمہارے لئے فائدہ مند ہے ﴿ بِآيَاتِ اللَّـهِ﴾ ”اللہ کی آیتوں سے“ یعنی واضح دلائل کے ذریعے سے اور یہ چیز تمہارے لئے بہت بڑی اور تم پر شاق گزرتی ہے اور تم مجھے نقصان پہنچانے یا دعوت حق کو ٹھکرانے کا ارادہ رکھتے ہو۔ ﴿فَعَلَى اللَّـهِ تَوَكَّلْتُ﴾ ” تو میں نے اللہ پر بھروسہ کیا ہے“ یعنی اس تمام شر کو دفع کرنے میں جو تم مجھے اور میری قوم کو پہنچانا چاہتے ہو، میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتا ہوں۔ یہی توکل، میرا لشکر اور میرا تمام ساز و سامان ہے اور تم اپنے تمام تر سر و سامان اور تعداد کے ساتھ جو کچھ کرسکتے ہو کرلو ﴿فَأَجْمِعُوا أَمْرَكُمْ ﴾ ” اب تم سب مل کر مقرر کرو اپنا کام“ تم تمام لوگ اکٹھے ہو کر، کہ تم میں سے کوئی پیچھے نہ رہے، میرے خلاف جدوجہد میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھو۔ ﴿وَشُرَكَاءَكُمْ﴾ ” اور جمع کرو اپنے شریکوں کو“ یعنی ان تمام شریکوں کو بلالو، جن کی تم اللہ رب العالمین کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو اور انہیں تم اپنا ولی و مددگار بناتے ہو۔ ﴿ثُمَّ لَا يَكُنْ أَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً﴾ ” پھر نہ رہے تم کو اپنے کام میں اشتباہ“ یعنی اس بارے میں تمہارا معاملہ مشتبہ اور خفیہ نہ ہو، بلکہ تمہارا معاملہ ظاہر اور اعلانیہ ہو۔ ﴿ثُمَّ اقْضُوا إِلَيَّ﴾ ” پھر وہ کام میرے حق میں کر گزرو“ یعنی میرے خلاف جو کچھ تمہارے بس میں ہے، سزا اور عقوبت کا فیصلہ سنا دو۔ ﴿وَلَا تُنظِرُونِ ﴾ ” اور مجھے مہلت نہ دو۔“ یعنی تم مجھے دن کی ایک گھڑی کے لئے بھی مہلت نہ دو۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur ( aey payghumber ! ) inn kay samney nooh ka waqiaa parh ker sunao , jab unhon ney apni qoam say kaha tha kay : meri qoam kay logo ! agar tumharay darmiyan mera rehna , aur Allah ki aayaat kay zariye khabrdar kerna tumhen bhari maloom horaha hai to mein ney to Allah hi per bharosa ker rakha hai . abb tum apney shareekon ko sath mila ker ( meray khilaf ) apni tadbeeron ko khoob pukhta kerlo , phir jo tadbeer tum kero woh tumharay dil mein kissi ghuttan ka baees naa banay , balkay meray khilaf jo faisla tum ney kiya ho , ussay ( dil khol ker ) ker guzro , aur mujhay zara bhi mohlat naa do ,
12 Tafsir Ibn Kathir
نوح (علیہ السلام) کی قوم کا کردار
اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو انہیں حضرت نوح (علیہ السلام) کے واقعہ کی خبر دے کہ ان کا اور ان کی قوم کا کیا حشر ہوا جس طرح کفار مکہ تجھے جھٹلاتے اور ستاتے ہیں، قوم نوح نے بھی یہی وطیرہ اختیار کر رکھا تھا۔ بالآخر سب کے سب غرق کردیئے گئے، سارے کافر دریا برد ہوگئے۔ پس انہیں بھی خبردار رہنا چاہیے اور میری پکڑ سے بےخوف نہ ہونا چاہئے۔ اس کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے ایک مرتبہ ان سے صاف فرما دیا کہ اگر تم پر یہ گراں گزرتا ہے کہ میں تم میں رہتا ہوں اور تمہیں اللہ کی باتیں سنا رہا ہوں، تم اس سے چڑتے ہو اور مجھے نقصان پہنچانے درپے ہو تو سنو میں صاف کہتا ہوں کہ میں تم سے نڈر ہوں۔ مجھے تمہاری کوئی پرواہ نہیں۔ میں تمہیں کوئی چیز نہیں سمجھتا۔ میں تم سے مطلقاً نہیں ڈرتا۔ تم سے جو ہو سکے کرلو۔ میرا جو بگاڑ سکو بگاڑ لو۔ تم اپنے ساتھ اپنے شریکوں اور اپنے جھوٹے معبودوں کو بھی بلا لو اور مل جل کر مشورے کر کے بات کھول کر پوری قوت کے ساتھ مجھ پر حملہ کرو، تمہیں قسم ہے جو میرا بگاڑ سکتے ہو اس میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھو، مجھے بالکل مہلت نہ دو ، اچانک گھیر لو، میں بالکل بےخوف ہوں، اس لیے کہ تمہاری روش کو میں باطل جانتا ہوں۔ میں حق پر ہوں، حق کا ساتھی اللہ ہوتا ہے، میرا بھروسہ اسی کی عظیم الشان ذات پر ہے، مجھے اس کی قدرت کے بڑائی معلوم ہے۔ یہی حضرت ہود نے فرمایا تھا کہ اللہ کے سوا جس جس کی بھی تم پوجا کر رہے ہو۔ میں تم سے اور ان سے بالکل بری ہوں، خوب کان کھول کر سن لو، اللہ بھی سن رہا ہے تم سب مل کر میرے خلاف کوشش کرو، میں تو تم سے مہلت بھی نہیں مانگتا۔ میرا بھروسہ اپنے اور تمہارے حقیقی مربی پر ہے۔
حضرت نوح (علیہ السلام) فرماتے ہیں اگر تم اب بھی مجھے جھٹلاؤ میری اطاعت سے منہ پھیر لو تو میرا اجر ضائع نہیں جائے گا۔ کیونکہ میرا اجر دینے والا میرا مربی ہے، مجھے تم سے کچھ نہیں لینا۔ میری خیر خواہی، میری تبلیغ کسی معاوضے کی بنا پر نہیں، مجھے تو جو اللہ کا حکم ہے میں اس کی بجا آوری میں لگا ہوا ہوں، مجھے اس کی طرف سے مسلمان ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔ سو الحمد اللہ میں مسلمان ہوں۔ اللہ کا پورا فرمان بردار ہوں۔ تمام نبیوں کا دین اول سے آخر تک صرف اسلام ہی رہا ہے۔ گو احکامات میں قدرے اختلاف رہا ہو۔ جیسے فرمان ہر ایک کے لیے راہ اور طریقہ ہے دیکھئے یہ نوح (علیہ السلام) جو اپنے آپ کو مسلم بتاتے ہیں یہ ہیں ابراہیم (علیہ السلام) جو اپنے آپ کو مسلم بتاتے ہیں۔ اللہ ان سے فرماتا ہے اسلام لا۔ وہ جواب دیتے ہیں رب العلمین کے لیے میں اسلام لایا۔ اسی کی وصیت آپ اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) اپنی اولاد کو کرتے ہیں کہ اے میرے بیٹو ! اللہ نے تمہارے لیے اسی دین کو پسند فرما لیا ہے۔ خبردار یاد رکھنا مسلم ہونے کی حالت میں ہی موت آئے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) اپنی دعا میں فرماتے ہیں اللہ مجھے اسلام کی حالت میں موت دینا موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم سے فرماتے ہیں کہ اگر تم مسلمان ہو تو اللہ پر توکل کرو۔ آپ کے ہاتھ پر ایمان قبول کرنے والے جادوگر اللہ سے دعا کرتے ہوئے کہتے ہیں تو ہمیں مسلمان اٹھانا بلقیس کہتی ہیں میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے ہاتھ پر مسلمان ہوتی ہوں۔ قرآن فرماتا ہے ہے کہ تورات کے مطابق وہ انبیاء حکم فرماتے ہیں جو مسلمان ہیں۔ حواری حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے کہتے ہیں آپ گواہ رہیے ہم مسلمان ہیں۔ خاتم الرسل سید البشر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز کے شروع کی دعا کے آخر میں فرماتے ہیں۔ میں اول مسلمان ہوں یعنی اس امت میں۔ ایک حدیث میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں ہم انبیاء ایسے ہیں جیسے ایک باپ کی اولاد دین ایک اور بعض بعض احکام جدا گانہ۔ پس توحید میں سب یکساں ہیں گو فروعی احکام میں علیحدگی ہو۔ جیسے وہ بھائی جن کا باپ ایک ہو مائیں جدا جدا ہوں۔ پھر فرماتا ہے قوم نوح نے نوح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نہ مانا بلکہ انہیں جھوٹا کہا آخر ہم نے انہیں غرق کردیا۔ نوح نبی (علیہ السلام) کو مع ایمانداروں کے اس بدترین عذاب سے ہم نے صاف بچا لیا۔ کشتی میں سوار کر کے انہیں طوفان سے محفوظ رکھ لیا۔ وہی وہ زمین پر باقی رہے پس ہماری اس قدرت کو دیکھ لے کہ کس طرح ظالموں کا نام و نشان مٹا دیا اور کس طرح مومنوں کو بچا لیا۔