یونس آية ۸۳
فَمَاۤ اٰمَنَ لِمُوْسٰۤى اِلَّا ذُرِّيَّةٌ مِّنْ قَوْمِهٖ عَلٰى خَوْفٍ مِّنْ فِرْعَوْنَ وَمَلَاۡ ٮِٕهِمْ اَنْ يَّفْتِنَهُمْ ۗ وَاِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِى الْاَرْضِ ۚ وَاِنَّهٗ لَمِنَ الْمُسْرِفِيْنَ
طاہر القادری:
پس موسٰی (علیہ السلام) پر ان کی قوم کے چند جوانوں کے سوا (کوئی) ایمان نہ لایا، فرعون اور اپنے (قومی) سرداروں (وڈیروں) سے ڈرتے ہوئے کہ کہیں وہ انہیں (کسی) مصیبت میں مبتلا نہ کر دیں، اور بیشک فرعون سرزمینِ (مصر) میں بڑا جابر و سرکش تھا، اور وہ یقیناً (ظلم میں) حد سے بڑھ جانے والوں میں سے تھا،
English Sahih:
But no one believed Moses, except [some] offspring [i.e., youths] among his people, for fear of Pharaoh and his establishment that they would persecute them. And indeed, Pharaoh was haughty within the land, and indeed, he was of the transgressors.
1 Abul A'ala Maududi
(پھر دیکھو کہ) موسیٰؑ کو اس کی قوم میں سے چند نوجوانوں کے سوا کسی نے نہ مانا، فرعون کے ڈر سے اور خود اپنی قوم کے سر بر آوردہ لوگوں کے ڈر سے (جنہیں خوف تھا کہ) فرعون ان کو عذاب میں مبتلا کرے گا اور واقعہ یہ ہے کہ فرعون زمین میں غلبہ رکھتا تھا اور وہ اُن لوگوں میں سے تھا جو کسی حد پر رکتے نہیں ہیں
2 Ahmed Raza Khan
تو موسیٰ پر ایمان نہ لائے مگر اس کی قوم کی اولاد سے کچھ لوگ فرعون اور اس کے درباریوں سے ڈرتے ہوئے کہ کہیں انہیں ہٹنے پر مجبور نہ کردیں اور بیشک فرعون زمین پر سر اٹھانے والا تھا، اور بیشک وہ حد سے گزر گیا
3 Ahmed Ali
پھر کوئی بھی موسیٰ پر ایمان نہ لایا مگر اس کی قوم کے چند لڑکے اور وہ بھی فرعون اور ان کے سرداروں سے ڈرتے ڈرتے کہ کہیں وہ انہیں مصیبت میں نہ ڈال دے اور بے شک فرعون زمین میں سرکشی کرنے والا تھا اوربے شک وہ حد سے گزرنے والوں میں سے تھا
4 Ahsanul Bayan
پس موسیٰ (علیہ السلام) پر ان کی قوم میں سے صرف قدرے قلیل آدمی ایمان لائے (١) وہ بھی فرعوں سے اور اپنے حکام سے ڈرتے ڈرتے کہ کہیں ان کو تکلیف پہنچائے (٢) اور واقع میں فرعون اس ملک میں زور رکھتا تھا، اور یہ بھی بات تھی کہ وہ حد سے باہر ہو جاتا تھا (٣)۔
٨٣۔١ قومہ کے "ہ" ضمیر کے مرجع میں مفسرین کا اختلاف ہے، بعض نے اس کا مرجع حضرت موسیٰ علیہ السلام کو قرار دیا ہے۔ کیونکہ آیت میں ضمیر سے پہلے انہی کا ذکر ہے یعنی فرعون کی قوم میں سے تھوڑے سے لوگ ایمان لائے، ان کی دلیل یہ ہے کہ بنی اسرائیل کے لوگ تو ایک رسول اور نجات دہندہ کے انتظار میں تھے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی صورت میں انہیں مل گئے اور اس اعتبار سے سارے بنی اسرائیل (سوائے قارون کے) ان پر ایمان رکھتے تھے۔ اس لئے صحیح بات یہی ہے کہ (ذُ رِیَّۃُ مِنْ قَوْمِہٖ) سے مراد، فرعون کی قوم سے تھوڑے سے لوگ ہیں، جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے۔ انہیں میں سے اس کی بیوی (حضرت آسیہ) بھی ہیں۔
٨٣۔٢ قرآن کریم کی یہ صراحت بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یہ ایمان لانے والے تھوڑے سے لوگ فرعون کی قوم میں سے تھے، کیونکہ انہی کو فرعون اس کے درباریوں اور حکام سے تکلیف پہنچانے کا ڈر تھا۔ بنی اسرئیل، ویسے تو فرعون کی غلامی و محکومی کی ذلت ایک عرصے سے برداشت کر رہے تھے۔ لیکن موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا، نہ انہیں اس وجہ سے مذید تکالیف کا اندیشہ تھا۔
٨٣۔٣ اور ایمان لانے والے اس کے اسی ظلم و ستم کی عادت سے خوف زدہ تھے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
تو موسیٰ پر کوئی ایمان نہ لایا۔ مگر اس کی قوم میں سے چند لڑکے (اور وہ بھی) فرعون اور اس کے اہل دربار سے ڈرتے ڈرتے کہ کہیں وہ ان کو آفت میں نہ پھنسا دے۔ اور فرعون ملک میں متکبر ومتغلب اور (کبر وکفر) میں حد سے بڑھا ہوا تھا
6 Muhammad Junagarhi
پس موسیٰ (علیہ السلام) پر ان کی قوم میں سے صرف قدرے قلیل آدمی ایمان ﻻئے وه بھی فرعون سے اور اپنے حکام سے ڈرتے ڈرتے کہ کہیں ان کو تکلیف پہنچائے اور واقع میں فرعون اس ملک میں زور رکھتا تھا، اور یہ بھی بات تھی کہ وه حد سے باہر ہو جاتا تھا
7 Muhammad Hussain Najafi
پس موسیٰ پر ان کی قوم کے چند نوجوانوں کے ایک گروہ کے سوا اور کوئی ایمان نہیں لایا اور وہ (ایمان لانے والے) بھی فرعون اور اپنی قوم کے سرداروں سے ڈرتے ہوئے ایمان لائے۔ کہ کہیں وہ انہیں آزمائش (اور مصیبت) میں نہ ڈال دے اور بے شک فرعون بڑا سرکش (بادشاہ) تھا اور حد سے بڑھ جانے والوں میں سے تھا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
پھر بھی موسٰی پر ایمان نہ لائے مگر ان کی قوم کی ایک نسل اور وہ بھی فرعون اور اس کی جماعت کے خوف کے ساتھ کہ کہیں وہ کسی آزمائش میں نہ مبتلا کردے کہ فرعون بہت اونچا ہے اور وہ اسراف اور زیادتی کرنے والا بھی ہے
9 Tafsir Jalalayn
تو موسیٰ پر کوئی ایمان نہ لایا مگر اس کی قوم میں سے چند لڑکے (اور وہ بھی) فرعون اور اس کے اہل دربار سے ڈرتے ڈرتے کہ کہیں وہ ان کو آفت میں نہ پھنسا دے اور فرعون ملک میں متکبر اور متغلب اور (کبر و کفر میں) حد سے بڑھا ہوا تھا۔
آیت نمبر ٨٣ تا ٩٢
ترجمہ : فرعون کی قوم کے نوجوانوں میں سے ایک مٹھی بھر نوجوانوں کے علاوہ کسی نے فرعون اور اپنے سرداروں کے خوف کی وجہ سے موسیٰ (علیہ السلام) کی بات نہیں مانی کہ وہ ان کو تکلیف دیکر ان کے دین سے پھیر دیں گے اور اس میں شک نہیں کہ فرعون ملک مصر میں (زور وتکبر میں) بہت چڑھا ہوا تھا، اور وہ تھا ہی دعوائے ربوبیت کرکے حد سے تجاوز کرنے والوں میں اور موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اے میری قوم اگر تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو تو اسی پر بھروسہ کرو اگر تم فرمانبردار ہو، انہوں نے عرض کیا کہ ہم نے اللہ ہی پر بھروسہ کیا اے ہمارے پروردگار تو ہم کو ظالموں کے لئے تختہ مشق نہ بنا یعنی تو ان کو ہم پر غالب نہ فرما کہ وہ یہ سمجھنے لگیں کہ وہ حق پر ہیں پھر ہم کو تختہ شق بنائیں، اور تو ہم کو اپنی رحمت سے کافر قوم سے نجات عطا فرما اور ہم نے موسیٰ اور ان کے بھائی کو وحی بھیجی کہ تم دونوں اپنی قوم کیلئے مصر میں گھر برقرار رکھو اور اپنے گھروں کو قبلہ (یعنی) جائے نماز بنا لو کہ ان میں نماز پڑھو تاکہ تم خوف سے مامون رہو اور فرعون نے ان کو نماز پڑھنے سے منع کردیا تھا، اور نماز کو مکمل طریقہ پر قائم کرو اور اے موسیٰ تم نصرت اور جنت کی مسلمانوں کو خوشخبری سنا دو ، اور موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا اے ہمارے پروردگار تو نے فرعون کو اور اس کے سرداروں کو سامان زینت اور طرح طرح کے مال دنیوی زندگی میں دئیے اے ہمارے پروردگار یہ چیزیں تو نے ان کو عطا کیں تاکہ وہ اس کے نتیجے میں تیرے راستہ سے (لوگوں کو) گمراہ کرے، اے ہمارے رب ان کے مالوں کو نیست و نابود کر دیجئے اور ان کے قلوب کو (اور زیادہ) سخت کر دیجئے ان کے قلوب پر مہر لگا دیجئے اور مسدود کر دیجئے کہ پھر وہ ایمان نہ لاسکیں یہاں تک کہ دردناک عذان کو دیکھ لیں، موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کیلئے بددعاء کی اور ہارون (علیہ السلام) نے ان کی بددعاء پر آمین کہی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” تمہاری دعاء قبول کرلی گئی “ جس کی وجہ سے ان کے مال (سیم وزر) پتھروں میں تبدیل کر دئیے گئے، اور فرعون ایمان نہ لایا حتی کہ وہ غرق کردیا گیا، اور تم دونوں تبلیغ و دعوت پر قائم رہو یہاں تک کہ ان پر دردناک عذاب آجائے، اور تم ایسے لوگوں کے طریقہ کی پیروی نہ کرو جو قضا کے معاملہ میں جلد بازی کے انجام کو نہیں جانتے روایت کیا گیا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) بددعاء کے بعد ان میں چالیس سال مقیم رہے، اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کردیا پھر فرعون اور اس کے لشکر نے ظلم و زیادتی کے ارادہ سے ان کا پیچھا کیا بغیاً وعدوا (اتبعھم کا) مفعول لہٗ ہے حتی کہ جب فرعون ڈوبنے لگا تو بول اٹھا کہ میں نے مان لیا کہ معبود حقیقی اس کے سوا نہیں ہے کہ جس پر بنو اسرائیل ایمان لائے، أنَّہ اصل میں بأنّہ ہے، اور ایک قراءت میں انّہ کسرہ کے ساتھ ہے جملہ مستانفہ ہونے کی وجہ سے، اور میں بھی سرِ طاعت خم کردینے والوں میں ہوں، اس نے ایمان اور تسلیم کو مکرر ذکر کیا تاکہ قبول کرلیا جائے، مگر قبول نہیں کیا گیا، اور جبرائیل (علیہ السلام) نے اس کے منہ میں دریا کی کیچڑ ٹھونس دی اس اندیشہ سے کہ کہیں اس کی طرف رحمت متوجہ نہ ہوجائے (جبرائیل نے) اس کو جواب دیا اب ایمان لاتا ہے حالانکہ تو اس سے پہلے نافرمانی کرتا رہا اور تو خود گمراہ ہوا اور دوسروں کو ایمان سے گمراہ کرنے کی وجہ سے فساد برپا کرنے والوں میں سے تھا، اب تو ہم تیری لاش ہی کو کہ جو بےروح ہے دریا سے نکالیں گے تاکہ تو بعد کی نسلوں کے لئے نشان عبرت بنے تاکہ وہ تیرے بندہ ہونے کو جان لیں، اور تیرے جیسے اقدام کی جرأت نہ کریں، اور حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ بعض بنی اسرائیل نے فرعون کی موت میں شک کیا تو اس کی لاش نکالی گئی تاکہ اس کو دیکھ لیں، اور واقعہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ اہل مکہ ایسے ہیں جو ہماری آیتوں (قدرت کی نشانیوں) سے غفلت برتتے ہیں، یعنی ان سے عبرت حاصل نہیں کرتے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : فَمَا اٰمَنَ لِموسیٰ اِلاَّ ذُرَّیّۃ من قومِہٖ ، فاء عاطفہ ہے معطوف علیہ محذوف ہے جو سیاق سے مفہوم ہے اور وہ ” فالقیٰ موسیٰ عَصَاہ فاِذَا ھِیَ تلقفُ مَا یأفکون “ ہے، (اعراب القرآن) فما اٰمَنَ لموسیٰ کے معنی ہیں موسیٰ (علیہ السلام) کی بات نہیں مانی، اس کو ایمان بالتسلیم کہتے ہیں، یہ متعدی بالام ہوتا ہے اور ایک ایمان بالتصدیق ہوتا ہے وہ متعدی بالباء ہوتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے یؤمن باللہ ویؤمن للمؤمنین۔
قولہ : ذرّیۃ، ذّریۃ بتثلیث الذال، ذرّیۃ الرجل، اولاد، نسل جمع ذراری وذُرّیات، ذّریۃ، یہاں قلت عدد کے معنی میں مستعمل ہے مفسر علام نے ذرّیۃ کی تفسیر طائفۃ سے کرکے اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے یعنی مٹھی بھر لوگ، تفسیر کبیر میں ہے ” ھٰھُنا مَعناھا التقلیل ” (کبیر) حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ ذرّیۃ کا لفظ جب کسی قوم پر بولا جاتا ہے تو مقصود اس کی تحقیر یا تصغیر ہوتی ہے۔
قال ابن عباس (رض) لفظ الذریۃ یعبربہ عن القوم علی وجہ التحقیر والتصغیر (کبیر) چونکہ یہاں تحقیر کا کوئی قرینہ نہیں اس لئے مقصود تصغیر عدد ہی ہے۔
قولہ : من قومہٖ ، قومہٖ ، کی ضمیر نے دو مختلف معنی پیدا کر دئیے ہیں مراد قوم موسیٰ بھی ہوسکتی ہے اور قوم فرعون بھی، پہلی صورت میں مراد یہ لی جائے گی کہ فرعون اور فرعونیوں کے ڈر سے ابتداء میں اسرائیلیوں کے بہت تھوڑے لوگوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بات کی تصدیق کی، اور دوسری شق کی صورت میں فرعونیوں کی ایک جماعت مراد ہوگی، جس میں وہ جادوگر شامل ہیں جو موسیٰ (علیہ السلام) کا مقابلہ کرنے کیلئے آئے تھے ان کے علاوہ فرعون کی بیوی آسیہ اور فرعون کا خازن اور اس کی بیوی اور بنت فرعون کی مشاطہ (بال سنوارنے والی) اور رجل من آل فرعون بھی، مفسر علام نے دوسری شق کو اختیار کرکے قومہٖ کی ضمیر فرعون کی طرف لوٹائی ہے۔
قولہ : ارض مصر، اس سے اشارہ کردیا کہ فی الارض میں الف لام عہد کا ہے۔
قولہ : وأمَنَ ہارون علی دعاءہ، یہ اس سوال کا جواب ہے کہ بددعا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کی تو پھر ” قد اجیبت دعوتکما “ میں تثنیہ کا صیغہ کیوں استعمال ہوا ہے ؟ جواب کا حاصل یہ ہے کہ دعاء کرنا اور دعاء پر آمین کہنا ایک ہی درجہ میں ہیں۔
قولہ : حمأۃ، کالی مٹی، کیچڑ۔
تفسیر و تشریح
فَمَا اٰمَنَ لِمُوْسٰی اِلاَّ ذُرَّیَۃٌ مِنْ قومِہٖ ، قومِہٖ کے ضمیر کے مرجع میں مفسرین کا اختلاف ہے، بعض نے اس کا مرجع حضرت موسیٰ
(علیہ السلام) کو قرار دیا ہے اسلئے کہ آیت میں ماقبل میں ان ہی کا ذکر ہے، مطلب یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم میں سے بہت تھوڑے آدمی ایمان لائے، لیکن امام ابن کثیر وغیرہ نے اس کا مرجع فرعون کو قرار دیا ہے یعنی فرعون کی قوم میں سے بہت تھوڑے آدمی ایمان لائے، ان کی دلیل یہ ہے کہ بنی اسرائیل کے لوگ ایک رسول اور نجات دہندہ کے انتظار میں تھے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی صورت میں ان کو مل گیا اس اعتبار سے تمام بنی اسرائیل (سوائے قارون کے) ان پر ایمان رکھتے تھے اسلئے صحیح اور راجح بات یہی ہے ذرّیۃ من قومہٖ سے فرعون کی قوم کے تھوڑے لوگ مراد ہیں جن میں فرعون کی بیوی آسیہ اور فرعون کا خازن اور اس کی بیوی، اذر بنت فرعون کی مشاطہ (بال سنوارنے والی) اور رجل من آل فرعون شامل ہیں۔
وَاجْعَلوا بُیُوتکم قبلۃً ، پہلی امتوں کو عبادت خانوں کے علاوہ میں عبادت کرنے کی اجازت نہیں تھی مگر فرعون نے عبادت خانوں میں نماز پڑھنے پر پابندی عائد کردی تھی اس لئے بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا کہ گھروں ہی میں نماز پڑھ لیا کرو۔
فرعون کے زرو جواہر کا پتھروں میں تبدیل ہوجانا : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جب فرعون کی اصلاح سے مایوس ہوگئے اور اس کے مال و دولت سے دوسروں کے گمراہ ہونے کا خطرہ محسوس کیا تو ربنا اطمس علی اموالھم کہہ کر بددعاء کردی یعنی اے میرے پروردگار اس کے اموال کی صورت بدل کر مسخ کر دے۔
حضرت قتادہ کا بیان ہے کہ اس دعاء کا اثر یہ ہوا کہ تمام فرعون کے تمام زیورات اور زرو جواہر اور نقد سکے اور باغوں اور کھیتوں کی سب پیداوار پتھروں کی شکل میں تبدیل ہوگئے، حضرت عمر بن عبد العزیز کے زمانہ میں ایک تھیلہ دستیاب ہوا جس میں فرعون کے زمانہ کی چیزیں تھیں ان میں انڈے اور بادام بھی تھے جو بالکل پتھر تھے۔ (معارف)
بنی اسرائیل کا خروج اور فرعون کا تعاقب : جب فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کے تمام معجزوں کو جھٹلا دیا اور وہ کسی طرح بھی موسیٰ (علیہ السلام) کی بات ماننے کیلئے تیار نہ ہوا تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ تم بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر اپنے آباء و اجداد کی سرزمین فلسطین کی طرف نکل جاؤ مصر سے فلسطین جانے کے دوراستے ہیں ایک خشکی کا راستہ ہے اور وہ قریب کا راستہ ہے اور دوسرا راستہ بحر احمر (قلزم) کا راستہ ہے اس راستہ میں دریا عبور کرکے صحراء سینا (تیہ) سے گذرتا ہوتا ہے، اور یہ راستہ دور کا ہے، مگر خدا کی مصلحت کا تقاضا یہی ہوا کہ قریب اور آسان راستہ چھوڑ کر دور کا اور دشوار گذار راستہ اختیار کریں، اس طویل راستہ کی حکمتوں اور مصلحتوں میں سے ایک بڑی مصلحت یہ تھی کہ درعون کو غرق دریا کیا جائے۔
غرض یہ کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو لے کر راتوں رات بحر احمر کے راستہ سے روانہ ہو لئے اور روانہ ہونے سے پہلے مصری عورتوں کے زیورات اور قیمتی پارچہ جات جو ایک تہوار کے بہانہ مستعار لئے تھے وہ بھی واپس نہ کرسکے، فرعون کو جب بنی اسرائیل کے نکلنے کا علم ہوا تو فرعون نے ایک زبردست فوج کے ساتھ بنی اسرائیل کا تعاقب کیا اور صبح ہونے سے پہلے ہی ان کے سروں پر جا پہنچا، تورات کے مطابق بنی اسرائیل کی تعداد چھ لاکھ تھی، صبح ہونے کے بعد جب بنو اسرائیل نے فرعون کو اپنے سروں پر دیکھا تو گھبرا گئے اور اپنی مصیبتوں اور پریشانیوں کا سارا الزام موسیٰ (علیہ السلام) کو دینے لگے۔
فرعون کا غرق ہونا : موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کو تسلی دی اور فرمایا خوف نہ کرو خدا کا وعدہ سچا ہے وہ تم کو ضرور نجات دیگا، اور پھر بارگاہ الہیٰ میں دست بدعاء ہوگئے، اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ اپنا عصا دریا پر مارو چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) نے دریائے قلزم پر اپنا عصا مارا تو پانی پھٹ کر دونوں جانب پہاڑوں کے مانند کھڑا ہوگیا، اور حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل درمیانی راستہ سے بخیر عافیت نکل گئے۔ جب فرعون نے دریا کو دو لخت دیکھا تو اپنی قوم سے کہنے لگا یہ میری کرشمہ سازی ہے کہ دریا نے راستہ دیدیا لہٰذا بڑھے چلو، چناچہ وہ اور اس کا پورا لشکر بنی اسرائیل کے پیچھے اسی راستہ پر ہولیا جب بنی اسرائیل کا ہر فرد دریا پار ہوگیا تو پانی بحکم الہیٰ اپنی پہلی حالت پر آگیا، اسی میں فرعون اور اس کا پورا لشکر غرق ہوگیا۔ جب فرعون غرق ہونے لگا اور ملائکہ عذاب نظر آنے لگے تو پکار کر کہنے لگا ” میں اسی وحدہ لاشریک لہٗ پر ایمان لاتا ہوں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے، اور میں فرماں برداروں میں سے ہوں “ ، مگر یہ ایمان چونکہ مضطر بانہ حالت نزع کا تھا اس لئے خدا کی جانب سے جواب ملا ” آلاٰنَ وقد عصیت قبلُ وکنت من المفسدین “ یعنی خدا کو خوب معلوم ہے کہ تو مسلمین میں سے نہیں ہے بلکہ مفسدین میں سے ہے
مصری عجائب خانہ میں فرعون کی لاش : فالیون نُنَجِّیکَ بِبَدَنکَ لِتکونَ لِمَنْ خلفکَ آیۃ، یہ معلوم ہی ہے کہ فرعون کسی خاص شخص کا نام نہیں ہے بلکہ شاہان مصر کا لقب ہے جس طرح چین کے بادشاہ کو خاقان اور روس کے بادشاہ کو زار اور روم کے بادشاہ کو قیصر اور ایران کے بادشاہ کو کسریٰ کہتے تھے اسی طرح مصر کے بادشاہ کو فرعون کہتے تھے۔
فرعون اصل میں فارا، اَوْہ تھا، مصری زبان میں فارا محل کو کہتے ہیں اور اَوْہ کے معنی اونچا کے ہیں فارا اوہ کے معنی ہوئے اونچا محل، اس سے شاہ مصر کی ذات مراد ہوتی تھی، جیسے خلافت عثمانی کے زمانہ میں باب عالی سے مراد خلیفہ کی ذات ہوتی تھی، موسیٰ (علیہ السلام) کو جس فرعون نے پرورش کیا تھا اس کا نام رعمیس یا رعمسیس دوم تھا اور رعمیس کے بیٹے منفتاح کے زمانہ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت ہوئی اور اسی سے مقابلہ ہوا اور یہی ١٤٩١ قبل مسیح میں غرق ہوا، (لغات القرآن، عبد الدائم جلالی) جب فرعون غرق کردیا گیا تو اس کی موت کا بہت سے لوگوں کو یقین نہیں آیا، اللہ نے سمندر کو حکم دیا کہ فرعون کی لاش کو دریا کے کنارے پر ڈال دے چناچہ دریا نے فرعون کی لاش کو دریا کے کنارہ پر ڈال دیا، اس وقت لوگوں نے اس کی لاش کا مشاہدہ کیا اور اس کے مرنے کا یقین آگیا، مشہور ہے کہ آج بھی وہ لاش مصر کے عجائب خانہ میں محفوظ ہے۔ (واللہ اعلم بالصواب)
مصری مقالہ نگار کی رائے : اگر مصری مقالہ نگار کی رائے صحیح ہے کہ منفتاح (رعمیس یا رعمیس ثانی) ہی فرعون موسیٰ تھا تب تو بلاشبہ اس کی لاش آج تک مصری عجائب خانہ میں محفوظ ہے اور سمندر میں تھوڑی دیر غرق رہنے کی وجہ سے اس کی ناک کو مچھلی نے کھالیا ہے۔ آج تک وہ مقام جزیرہ نمائے سینا کے مغربی ساحل پر موجود ہے جہاں فرعون کی لاش سمندر میں تیرتی ہوئی ملی تھی، اس کا نام موجودہ زمانہ میں جبل فرعون ہے، اور اسی کے قریب ایک گرم چشمہ ہے جس کو مقامی آبادی نے حمام فرعون کے نام سے موسوم کر رکھا ہے اس کی جائے وقوع ابوزنیمہ سے چند میل اوپر شمال کی جانب ہے اور علاقہ کے باشندے نشاندہی کرتے ہیں کہ فرعون کی لاش اسی جگہ پڑی ملی تھی۔ اگر یہ ڈوبنے والا ہی فرعون منفتاح ہے جس کو زمانہ حال کی تحقیق نے فرعون موسیٰ قرار دیا ہے تو اس کی لاش آج تک قاہرہ کے عجائب خانہ میں موجود ہے، ١٩٠٧ ء میں سرگرزفئن الیٹ سمتھ نے جب اس کی ممی سے پٹیاں کھولی تھیں تو اس کی لاش پر نمک کی ایک تہ جمی ہوئی تھی جو کھارے پانی میں اس کی غرقابی کی ایک کھلی علامت تھی۔
فائدہ : رعمیس، رعمسیس اور رعیس اور عمیسس یہ شخص کے نام میں تلفظ کا فرق ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
رہا فرعون، اس کے اشراف قوم اور اس کے متبعین، تو ان میں سے کوئی بھی ایمان نہ لایا، بلکہ وہ اپنی سرکشی پر جمے رہے اور اسی میں سرگرداں رہے۔ بنابریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَمَا آمَنَ لِمُوسَىٰ إِلَّا ذُرِّيَّةٌ مِّن قَوْمِهِ ﴾ ” پس نہیں ایمان لایا موسیٰ پر، مگر کچھ لڑکے اس کی قوم کے“ یعنی بنی اسرائیل کے کچھ نوجوان ایمان لے آئے، جنہوں نے دلوں میں ایمان کے جاگزیں ہوجانے کی وجہ سے خوف کے مقابل میں صبر سے کام لیا۔ ﴿عَلَىٰ خَوْفٍ مِّن فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِمْ أَن يَفْتِنَهُمْ﴾ ” فرعون اور اس کے سرداروں سے ڈرتے ہوئے کہ کہیں ان کو آزمائش میں نہ ڈال دیں“ یعنی ان کے دین کے معاملے میں ﴿وَإِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِي الْأَرْضِ﴾ ” اور بے شک فرعون ملک میں متکبر و متغلب تھا“ یعنی زمین میں فرعون کو غلبہ اور اقتدار حاصل تھا اس لئے وہ اس کی گرفت سے سخت خائف تھے۔ ﴿وَ﴾ ” اور“ خاص طور پر ﴿وَإِنَّهُ لَمِنَ الْمُسْرِفِينَ﴾ ” وہ حد سے بڑھا ہوا تھا۔“ یعنی ظلم اور تعدی میں حد سے تجاوز کرنے والا تھا۔ موسیٰ علیہ السلام پر ان کی قوم کے نوجوانوں کے ایمان لانے میں حکمت یہ ہے۔ واللہ اعلم۔۔۔۔۔۔ کہ حق کو نوجوان زیادہ قبول کرتے ہیں اور اس کی اطاعت میں زیادہ سرعت سے آگے بڑھتے ہیں۔ اس کے برعکس بوڑھے جنہوں نے کفر میں پرورش پائی ہوتی ہے، ان کے دلوں میں چونکہ عقائد فاسد راسخ ہوتے ہیں، اس وجہ سے وہ، دوسروں کی نسبت حق سے زیادہ دور ہوتے ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
phir huwa yeh kay musa per koi aur nahi , lekin khud unn ki qoam kay kuch nojawan firon aur apney sardaron say dartay dartay emaan laye kay kahen firon unhen naa sataye . aur yaqeenan firon zameen mein bara zor aawar tha , aur woh unn logon mein say tha jo kissi hadd per qaeem nahi rehtay .
12 Tafsir Ibn Kathir
بزدلی ایمان کے درمیان دیوار بن گئی
ان زبردست روشن دلیلوں کے اور معجزوں کے باوجود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر بہت کم فرعونی ایمان لاسکے۔ کیونکہ ان کے دل میں فرعون کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔ یہ خبیث رعب دبدبہ والا بھی تھا اور ترقی پر بھی تھا۔ حق ظاہر ہوگیا تھا لیکن کسی کو اس کی مخالفت کی جرت نہ تھی ہر ایک کا خوف تھا کہ اگر آج میں ایمان لے آیا تو کل اس کی سخت سزاؤں سے مجبور ہو کر دین حق چھوڑنا پڑے گا۔ پس بہت سے ایسے جانباز موحد جنہوں نے اس کی سلطنت اور سزا کی کوئی پرواہ نہ کی اور حق کے سامنے سر جھکا دیا۔ ان میں خصوصیت سے قابل ذکر فرعون کی بیوی تھی اس کی آل کا ایک اور شخص تھا ایک جو فرعون کا خزانچی تھا۔ اس کی بیوہ تھی وغیرہ (رض) اجمعین۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد اس سے حضرت موسیٰ پر بنی اسرائیل کی تھوڑی سی تعداد کا ایمان لانا ہے۔ یہ بھی مروی ہے کہ ذریت سے مراد قلیل ہے یعنی بہت کم لوگ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اولاد بھی مراد ہے۔ یعنی جب حضرت موسیٰ نبی بن کر آئے اس وقت جو لوگ ہیں ان کی موت کے بعد ان کی اولاد میں سے کچھ لوگ ایمان لائے۔ امام ابن جریر تو قول مجاہد کو پسند فرماتے ہیں کہ قومہ میں ضمیر کا مرجع حضرت موسیٰ ہیں کیونکہ یہی نام اس سے قریب ہے۔ لیکن یہ محل نظر ہے کیونکہ ذریت کے لفظ کا تقاضا جوان اور کم عمر لوگ ہیں اور بنو اسرائیل تو سب کے سب مومن تھے جیسا کہ مشہور ہے یہ تو حضرت موسیٰ کے آنے کی خوشیاں منا رہے تھے ان کی کتابوں میں موجود تھا کہ اس طرح نبی اللہ آئیں گے اور ان کے ہاتھوں انہیں فرعون کی غلامی کی ذلت سے نجات ملے گی ان کی کتابوں کی یہی بات تو فرعون کے ہوش و حواس گم کئے ہوئی تھی جس کی وجہ سے اس نے حضرت موسیٰ کی دشمنی پر کمر کس لی تھی اور آپ کی نبوت کے ظاہر ہونے سے پہلے اور آپ کے آنے سے پہلے اور آپ کے آجانے کے بعد ہم تو اس کے ہاتھوں بہت ہی تنگ کئے گئے ہیں۔ آپ نے انہیں تسلی دی کہ جلدی نہ کرو۔ اللہ تمہارے دشمن کا ناس کرے گا، تمہیں ملک کا مالک بنائے گا پھر دیکھے گا کہ تم کیا کرتے ہو ؟ پس یہ تو سمجھ میں نہیں آتا کہ اس آیت سے مراد قوم موسیٰ کی نئی نسل ہو۔ اور یہ کہ بنو اسرائیل میں سے سوائے قارون کے اور کوئی دین کا چھوڑنے والا ایسا نہ تھا جس کے فتنے میں پڑجانے کا خوف ہو۔ قارون گو قوم موسیٰ میں سے تھا لیکن وہ باغی تھا فرعون کا دوست تھا۔ اس کے حاشیہ نشینوں میں تھا، اس سے گہرے تعلق رکھتا تھا۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ ملھم میں ضمیر فرعون کی طرف عائد ہے اور بطور اس کے تابعداری کرنے والوں کی زیادتی کے ضمیر جمع کی لائی گئی ہے۔ یا یہ کہ فرعون سے پہلے لفظ ال جو مضاف تھا محذوف کردیا گیا ہے۔ اور مضاف الیہ اس کے قائم مقام رکھ دیا ہے۔ ان کا قول بھی بہت دور کا ہے۔ گو امام ابن جریر نے بعض نحویوں سے بھی ان دونوں اقوال کی حکایت کی ہے اور اس سے اگلی آیت جو آرہی ہے وہ بھی دلالت کرتی ہے کہ بنی اسرائیل سب مومن تھے۔