یونس آية ۹۳
وَلَقَدْ بَوَّأْنَا بَنِىْۤ اِسْرَاۤءِيْلَ مُبَوَّاَ صِدْقٍ وَّرَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِۚ فَمَا اخْتَلَفُوْا حَتّٰى جَاۤءَهُمُ الْعِلْمُۗ اِنَّ رَبَّكَ يَقْضِىْ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ فِيْمَا كَانُوْا فِيْهِ يَخْتَلِفُوْنَ
طاہر القادری:
اور فی الواقع ہم نے بنی اسرائیل کو رہنے کے لئے عمدہ جگہ بخشی اور ہم نے انہیں پاکیزہ رزق عطا کیا تو انہوں نے کوئی اختلاف نہ کیا یہاں تک کہ ان کے پاس علم و دانش آپہنچی۔ بیشک آپ کا رب ان کے درمیان قیامت کے دن ان امور کا فیصلہ فرما دے گا جن میں وہ اختلاف کرتے تھے،
English Sahih:
And We had certainly settled the Children of Israel in an agreeable settlement and provided them with good things. And they did not differ until [after] knowledge had come to them. Indeed, your Lord will judge between them on the Day of Resurrection concerning that over which they used to differ.
1 Abul A'ala Maududi
ہم نے بنی اسرائیل کو بہت اچھا ٹھکانا دیا اور نہایت عمدہ وسائل زندگی انہیں عطا کیے پھر انہوں نے باہم اختلاف نہیں کیا مگراُس وقت جبکہ علم اُن کے پاس آ چکا تھا یقیناً تیرا رب قیامت کے روز اُن کے درمیان اُس چیز کا فیصلہ کر دے گا جس میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں
2 Ahmed Raza Khan
اور بیشک ہم نے بنی اسرائیل کو عزت کی جگہ دی اور انہیں ستھری روزی عطا کی تو اختلاف میں نہ پڑے مگر علم آنے کے بعد بیشک تمہارا رب قیامت کے دن ان میں فیصلہ کردے گا جس بات میں جھگڑتے تھے
3 Ahmed Ali
اور البتہ تحقیق ہم نے بنی اسرائیل کو رہنے کی عمدہ جگہ دی اور کھانے کو ستھری چیزیں دیں وہ باوجود علم ہونے کے خلاف کرتے رہے بےشک تیرا رب قیامت کے دن ان میں فیصلہ کرے گا جس بات میں کہ وہ اختلاف کرتے تھے
4 Ahsanul Bayan
اور ہم نے بنی اسرائیل کو بہت اچھا ٹھکانا رہنے کو دیا اور ہم نے انہیں پاکیزہ چیزیں کھانے کو دیں۔ سو انہوں نے اختلاف نہیں کیا یہاں تک کہ ان کے پاس علم پہنچ گیا (١) یقینی بات ہے کہ آپ کا رب ان کے درمیان قیامت کے دن ان امور میں فیصلہ کرے گا جن پر وہ اختلاف کرتے تھے۔
۔١ یعنی ایک تو اللہ کا شکر ادا کرنے کی بجائے، آپس میں اختلاف شروع کر دیا، پھر یہ اختلاف بھی لا علمی اور جہالت کی وجہ سے نہیں کیا، بلکہ علم آجانے کے بعد کیا، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ اختلاف محض عناد اور تکبر کی بنیاد پر تھا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور ہم نے بنی اسرائیل کو رہنے کو عمدہ جگہ دی اور کھانے کو پاکیزہ چیزیں عطا کیں لیکن وہ باوجود علم ہونے کے اختلاف کرتے رہے۔ بےشک جن باتوں میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں تمہارا پروردگار قیامت کے دن ان میں ان باتوں کا فیصلہ کردے گا
6 Muhammad Junagarhi
اور ہم نے بنی اسرائیل کو بہت اچھا ٹھکانا رہنے کو دیا اور ہم نے انہیں پاکیزه چیزیں کھانے کو دیں۔ سو انہوں نے اختلاف نہیں کیا یہاں تک کہ ان کے پاس علم پہنچ گیا۔ یقینی بات ہے کہ آپ کا رب ان کے درمیان قیامت کے دن ان امور میں فیصلہ کرے گا جن میں وه اختلاف کرتے تھے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور ہم نے (حسب الوعدہ) بنی اسرائیل کو (رہنے کے لئے) بہت اچھا ٹھکانا دیا اور پاکیزہ چیزوں سے ان کی روزی کا انتظام کیا پس جب تک ان کے پاس توراۃ وغیرہ کی شکل میں علم نہیں آگیا تب تک انہوں نے باہم اختلاف نہیں کیا۔ (پھر جان بوجھ کر اختلاف کیا)۔ یقینا آپ کا پروردگار قیامت کے دن ان کے درمیان فیصلہ کرے گا ان باتوں میں جن میں وہ اختلاف کیا کرتے تھے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور ہم نے بنی اسرائیل کو بہترین منزل عطا کی ہے اور انہیں پاکیزہ رزق عطا کیا ہے تو ان لوگوں نے آپس میں اختلاف نہیں کیا یہاں تک کہ ان کے پاس توریت آگئی تو اب خدا ان کے درمیان روزِ قیامت ان کے اختلافات کا فیصلہ کردے گا
9 Tafsir Jalalayn
اور ہم نے بنی اسرائیل کو رہنے کو عمدہ جگہ دی اور کھانے کو پاکیزہ چیزیں عطا کیں لیکن وہ باوجود علم حاصل ہونے کے اختلاف کرتے رہے۔ بیشک جن باتوں میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں تمہارا پروردگار قیامت کے دن ان میں ان باتوں کا فیصلہ کر دے گا۔
آیت نمبر ٩٣ تا ١٠٣
ترجمہ : اور ہم نے بنی اسرائیل کو بہت اچھا ٹھکانہ دیا اور وہ شام اور مصر تھا، اور ہم نے ان کو پاکیزہ چیزیں کھانے کو دیں، پھر انہوں نے اختلاف نہیں کیا مگر اس وقت جبکہ علم ان کے پاس آچکا بایں طور کہ بعض لوگ ایمان لائے اور بعض نے انکار کیا، یقیناً تیرا رب قیامت کے دن ان کے درمیان اس چیز کا فیصلہ کر دے گا جس امر دین میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں مومنین کو نجات دے کر اور کافروں کو عذاب دیکر، پس اے محمد ! بالفرض اگر تم ان قصوں کے بارے میں جو ہم نے تمہاری طرف نازل کئے ہیں، شک میں ہو تو ان لوگوں سے پوچھ دیکھئے جو تم سے پہلی کتاب تورات کو پڑھتے ہیں اس لئے کہ وہ نازل کردہ (واقعات) ان کے نزدیک ثابت ہیں وہ ان کی صداقت کی تم کو خبر دیں گے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب دیا کہ نہ مجھے شک ہے اور نہ میں پوچھتا ہوں، بیشک تمہارے پاس تمہاے رب کی طرف سے حق آیا ہے لہٰذا تم اس میں شک کرنے والوں میں سے نہ ہو اور نہ لوگوں میں سے ہو جنہوں نے اللہ کی آیتوں کو جھٹلایا کہیں آپ زیاں کاروں میں نہ جائیں، یقیناً وہ لوگ جن پر تمہارے رب کے عذاب کا فیصلہ ثابت ہوچکا ہے وہ ایمان نہ لائیں گے اگرچہ ان کے سامنے تمام نشانیاں کیوں نہ آجائیں یہاں تک کہ وہ درد ناک عذاب کو نہ دیکھ لیں مگر اس وقت ان کو (ایمان سے) کوئی فائدہ نہ ہوگا، چناچہ کسی بستی والے، بستی سے بستی والے مراد ہیں، ایمان نہ لائے ان پر عذاب نازل ہونے سے پہلے کہ ایمان لانا ان کیلئے نافع ہوا ہو سوائے یونس (علیہ السلام) کی قوم کے کہ جب وہ عذاب موعود کے دیکھنے کے وقت ایمان لائے اور انہوں نے عذاب کے نزول تک (ایمان) کو مؤخر نہیں کیا تو ہم نے ان سے دنیا کی زندگی میں رسوائی کے عذاب کو ٹال دیا اور ان کو ایک (خاص وقت) تک کیلئے زندگی سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیا (یعنی) ان کی مدت عمر پوری ہونے تک، اور اگر آپ کا رب چاہتا تو روئے زمین کے سب لوگ ایمان لے آتے تو کیا آپ لوگوں کو اس چیز پر مجبور کرسکتے ہیں جو اللہ ان سے نہ چاہے یہاں تک رہ مومن ہی ہوجائیں ایسا نہیں ہوسکتا، حالانکہ کسی شخص کیلئے ممکن نہیں کہ خدا کے ارادہ کے بغیر ایمان لے آئے اور اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر عذاب ڈال دیتا ہے جو لوگ اللہ کی آیتوں میں غور و فکر نہیں کرتے آپ کفار سے کہہ دیجئے کہ تم غور کرو کہ کیا کیا چیزیں آسمانوں اور زمین میں ہیں اللہ کی وحدانیت پر دلالت کرنے والی نشانیوں میں سے اور جو لوگ اللہ کے علم میں ایمان لانے والے نہیں ہیں، ان کو نشانیاں اور ڈرانے والے یعنی رسول کوئی فائدہ نہیں دیتے نُذُر نذیر کی جمع ہے یعنی مرسلین سو اب یہ لوگ تیری تکذیب کرکے اس کے سوا اور کسی چیز کے منتظر ہیں کہ ویسے ہی (برے) دن دیکھیں جو ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگ دیکھ چکے ہیں، تو ان سے کہو اس کا انتظار کرو میں تمہارے ساتھ انتظار کر رہا ہوں، پھر ہم اپنے رسولوں کو اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے ہوں عذاب سے بچالیتے ہیں، (نُنجی) حالت ماضیہ کی حکایت کرنے کیلئے مضارع کا صیغہ ہے، اسی طرح ہمارے ذمہ ہے کہ ہم ایمان والوں کو بچا لیا کرتے ہیں۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : بَوَّأنا، تَبْوئۃً ، سے ماضی جمع متکلم، ٹھکانہ دینا، مناسب جگہ فروکش کرنا۔
قولہ : مُبوَّأ، صِدقٍ ، مُبَوَّأ اسم مکان ہے یا مصدر ہے اور مصدق کی جانب اضافت عرب کی عادت کے مطابق ہے عرب جب کسی شئی کی تعریف کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کی اضافت صدق کی جانب کردیتے ہیں، مثلاً ھذا رجل صدق، وقدم صدق مراد یہاں منزل محمود ہے، مقام صدق سے بعض حضرات نے مصر اعر بعض نے اردن و فلسطین اور بعض نے شام مراد لیا ہے۔
قولہ : المضارع لحکایۃ الحال الماضیۃ، یہ عبارت ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال : یہ ہے کہ نُنجی مضارع کا صیغہ ہے جو کہ حال و استقبال پر دلالت کرتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل کو نجات زمانہ حال میں دی جا رہی ہے یا آئندہ دی جائے گی حالانکہ نجات زمانہ ماضی میں دی جا چکی ہے۔
جواب : یہ حکایت حال ماضیہ کے طور پر فرمایا گیا ہے گویا کہ حالات ماضیہ کی فی الحال منظر کشی کی جا رہی ہے۔
تفسیر و تشریح
ربط آیات : وَلَقَدْ بَوَّأنا الخ یہ کلام مستانف ہے نعمت نجات کے بیان کے بعد ان نعمتوں کا بیان ہے جو فرعون سے نجات کے بعد بنی اسرائیل پر پانی کی طرح بہائی گئیں، ان ہی میں سے ایک نعمت مقام محمود میں سکونت پذیری عطاء کرنا ہے، بعض مفسرین نے جائے سکونت مصر کو قرار دیا ہے مگر مشہور یہ ہے کہ بنی اسرائیل غرق فرعون کے بعد مصر واپس نہیں آئے، اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کا ظاہری اور معنوی بہت سی نعمتوں سے نوازا تھا، ملک شام میں سکونت عطاء کی جو کہ اپنی سرسبزی اور شادابی کیلئے آج تک مشہور تورات میں بھی شام اور اس اطراف کے علاقوں کی شادابی کا ذکر ہے۔
میں نازل ہوا ہوں کہ انھیں مصریوں سے چھڑاؤں اور اس زمین سے نکال کر اچھی وسیع زمین میں جہاں دودھ اور شہد موج مارتا ہے کنعانیوں کی جگہ میں لاؤں۔ (خروج ٣٠ ء ٨)
ان میں سے بہت سے لوگوں نے اقتدار پانے کے بعد اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی قدر نہ کی اور اس کی اطاعت سے پھرگئے تورات میں جو نشانیاں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ لوگ پڑھتے تھے اس کا تقاضا یہ تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تشریف لانے کے بعد سے پہلے یہی لوگ ایمان لاتے مگر یہ عجیب بات ہوئی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری سے پہلے تو یہ سب لوگ نبی آخر الزمان پر اعتقاد رکھتے تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وسیلہ سے دعائیں کیا کرتے تھے، مگر جب آخری نبی اپنی پوری شہادت اور تورات کی بتلائی ہوئی نشانیوں کے ساتھ تشریف لائے تو یہ لوگ آپس میں اختلاف کرنے لگے، کچھ لوگ ایمان لائے اور باقی نے انکار کردیا، اس آیت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تشریف لانے کو جاءھم العلم سے تعبیر کیا ہے یہاں علم سے مراد یقین بھی ہوسکتا ہے یعنی مشاہدہ کے ساتھ یقین کے اسباب بھی جمع ہوگئے تو یہ لوگ اختلاف کرنے لگے، بعض مفسرین نے علم سے معلوم مراد لیا ہے، یعنی جب وہ ہستی آگئی جو تورات کی پیشین گویوں کے ذیعہ معلوم تھی تو اختلاف کرنے لگے۔ (یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ۔
فاِن کنت فی شک، اگرچہ بظاہرخطاب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے مگر مخالف امت ہے اس لئے کہ آپ کو وحی میں شک ہونے کا احتمال ہی نہیں ہے۔
فَلَوْ لا، فَھَلَّا، لَوْلا یہاں تحضیضیہ ہَلَّا کے معنی میں ہے، یعنی جن بستیوں کو ہم نے ہلاک کیا ان میں کوئی ایک بستی بھی ایسی کیوں نہ ہوئی جو ایمان لے آتی جا اس کے لئے فائدہ مند ہوتا۔ ہاں صرف یونس (علیہ السلام) کی قوم ایسی ہوئی ہے کہ عذاب کی علامات دیکھنے کے بعد ایمان لے آئی تو اللہ نے اس سے عذاب ٹال دیا۔ اس کا مختصر حال یہ ہے کہ یونس (علیہ السلام) نے جب دیکھا کہ انکی تبلیغ و دعوت سے ان کی قوم متاثر نہیں ہورہی تو اپنی قوم میں اعلان کو دیا کہ فلاں فلاں دن تم پر عذاب آجائیگا اور خودوہاں سے نکل گئے جب عذاب بادل کی طرح امڈ آیا تو وہ بچوں، عورتوں حتی کہ جانوروں کو لیکر ایک میدان میں جمع ہوگئے اور بارگاہ الہیٰ میں عاجزی و انکساری اور توبہ و استغفار شروع کردی، اللہ نے ان کی توبہ قبول فرمائی اور عذاب کو ٹال دیا، تو حضرت یونس (علیہ السلام) نے اپنی تکذیب کے بعد اپنی قوم میں جانا پسند نہیں کیا، بلکہ ان سے ناراض ہو کر کسی دوسری طرف نکل گئے، جس پر کشتی کا واقعہ پیش آیا۔
مفسرین کا اس بات میں اختلاف ہے کہ قوم یونس (علیہ السلام) ایمان کب لائی ؟ عذاب دیکھ کر لائی ؟ جبکہ ایمان نافع نہیں ہوتا، یا ابھی عذاب کا وہ مرحلہ نہیں آیا تھا کہ جب ایمان نافع نہیں ہوتا، لیکن قرآن کریم نے قوم یونس (علیہ السلام) کا الاَّ کے ساتھ جو استثناء کیا ہے وہ پہلی تفسیر کی تائید کرتا ہے۔
قرآن کریم نے دنیوی عذاب کے دور کرنے کی صراحت تو کی ہے اخروی عذاب کی بابت صراحت نہیں کی اسلئے بعض مفسرین کے قول کے مطابق ان سے اخروی عذاب ختم نہیں کیا گیا، لیکن قرآن نے جب یہ وضاحت کردی کہ دنیوی عذاب ایمان کی وجہ سے ٹالا گیا تھا، تو پھر اخروی عذاب کی بابت صراحت کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی، اسلئے کہ اخروی عذاب کا فیصلہ تو ایمان اور عدم ایمان ہی کی بنیاد پر ہوتا ہے اگر ایمان لانے کے بعد قوم یونس (علیہ السلام) اپنے ایمان پر قائم رہی ہوگی، (جس کی صراحت یہاں نہیں ہے) تو یقیناً وہ اخروی عاب سے بھی محفوظ رہے گی، البتہ بصورت دیگر عذاب سے بچنا صرف دنیا کی حد تک ہی ہوگا، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ دنیا کا عذاب سامنے آجانے کے بعد بھی توبہ کا دروازہ بند نہیں ہوتا، البتہ آخرت کا عذاب سامنے آجانے کے وقت توبہ قبول نہیں ہوتی، اور عذاب آخرت کا سامنے آجانا قیامت کے روز ہوگا یا پھر موت کے وقت خواہ طبی موت ہو یا کسی دنیوی عذاب میں مبتلا ہو کر جیسے فرعون کو پیش آیا۔ اس لئے قوم یونس (علیہ السلام) کی توبہ قبول ہوجانا عام ضابطہ الہٰیہ کے خلاف نہیں بلکہ ضابطہ کے تحت ہی ہے کیونکہ انہوں نے اگرچہ عذاب کو دیکھ کر توبہ کی مگر عذاب میں مبتلا ہونے اور موت سے پہلے توبہ کرلی نخلاف فرعون کے جس نے موت کے وقت غرغرہ کی حالت میں توبہ کی اور ایمان کا اقرار کیا اسلئے اس کا ایمان معتبر نہ ہوا اور توبہ قبول نہ ہوئی۔
حضرت یونس (علیہ السلام) کا مفصل واقعہ : حضرت یونس (علیہ السلام) کا واقعہ اجمالاً سابق میں بیان کیا جا چکا ہے اس واقعہ کا کچھ حصہ تو قرآن میں مذکور ہے اور کچھ روایات حدیث سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ یونس (علیہ السلام) کی قوم عراق میں موصل کے مشہور مقام نینویٰ میں رہتی تھی، ان کی تعداد قرآن کریم میں ایک لاکھ سے زیادہ بتائی گئی ہے، ان کی ہدایت کیلئے اللہ تعالیٰ نے یونس (علیہ السلام) کو بھیجا تھا مگر قوم نے ایمان لانے سے انکار کردیا اللہ نے حکم دیا کہ ان کو آگاہ کردو کہ تین دن کے اندر اندر تم پر عذاب آنے والا ہے، حضرت یونس (علیہ السلام) نے اس کا اعلان کردیا، قوم یونس نے آپس میں مشورہ کیا تو اس پر سب کا اتفاق ہوگیا کہ ہم نے کبھی یونس (علیہ السلام) کو جھوٹ بولتے نہیں دیکھا اسلئے ان کی بات نظر انداز کرنے کے لائق نہیں، مشورہ میں یہ بھی طے ہوا کہ یہ دیکھا جائے کہ یونس (علیہ السلام) رات کو ہمارے درمیان اپنی جگہ مقیم رہتے ہیں تو سمجھ لو کہ کچھ نہیں ہوگا اور اگر وہ یہاں سے کہیں چلے جاتے ہیں تو یقین کرلو کہ صبح کو ہمارے اوپر عذاب آئیگا، حضرت یونس رات کو اس بستی سے نکل گئے، جب صبح ہوئی تو عذاب کا ایک سیاہ بادل دھوئیں کی شکل میں سروں پر منڈلانے لگا، اور یہ دیکھ کر حضرت یونس (علیہ السلام) کو تلاش کیا کہ ان کے ہاتھ پر مشرف باسلام ہوجائیں اور کفر و انکار سے توبہ کرلیں مگر یونس (علیہ السلام) کو نہ پایا تو خود ہی اخلاص نیت کے ساتھ توبہ و استغفار میں لگ گئے بستی سے ایک میدان میں نکل آئے عورتیں بچے اور جانور سب اس میدان میں جمع کر دئیے گئے ٹاٹ کے کپڑے پہن کر عجزو زاری کے ساتھ اس میدان میں توبہ کرنے اور عذاب سے پناہ مانگنے میں اس طرح مشغول ہوئے کہ پورا میدان آہ و بکاء سے گونجنے لگا، اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمالی اور عذاب کو ان سے ٹال دیا جیسا کہ اس آیت میں مذکور ہے روایات میں آیا ہے کہ یہ عاشورہ یعنی دس محرم کا دن تھا۔
ادھر حضرت یونس (علیہ السلام) بستی سے باہر اس انتظار میں تھے کہ اب اس قوم پر عذاب نازل ہوگا قوم کو ان کی توبہ و استغفار کا حال معلوم نہ تھا، جب عذاب ٹل گیا تو ان کو فکر ہوئی کہ مجھے جھوٹا قرار دیا جائے گا کیونکہ میں نے اعلان کیا تھا کہ تین دن کے اندر عذاب آئیگا، اس قوم میں قانون یہ تھا کہ جس شخص کا جھوٹ ثابت ہوجائے اور وہ اپنے کلام پر کوئی شہادت پیش نہ کرے تو اس کو قتل کردیا جاتا تھا، یونس (علیہ السلام) کو فکر ہوئی کہ مجھے جھوٹا قرار دیکر قتل کردیا جائیگا۔
انبیاء (علیہم السلام) ہر گناہ سے معصوم ہوتے ہیں : مگر انبیاء انسانی فطرت و طبیعت سے جدا نہیں ہوتے اس وقت یونس (علیہ السلام) پر طبعی طور پر یہ ملال ہوا کہ میں نے بحکم الہیٰ اعلان کیا تھا اور اب میں اعلان کی وجہ سے جھوٹا قرار دیا جاؤں تو کس منہ سے جاؤں اور قومی قانون کے مطابق گردن زدنی بنوں اس رنج و غم اور پریشانی کے عالم میں اس شہر سے نکل جانے کا ارادہ کرکے چل دئیے یہاں تک کہ بحر روم کے کنارہ پر پہنچ گئے وہاں ایک کشتی دیکھی جس میں لوگ سوار تھے، یونس (علیہ السلام) کو ان لوگوں نے پہچان لیا اور بغیر کرایہ کے سوار کرلیا، کشتی روانہ ہو کر جب وسط دریا میں پہنچی تو وہ دفعۃً ٹھہر گئی نہ آگے بڑھتی ہے اور نہ پیچھے ہٹتی ہے کشتی والوں نے منادی کرا دی کہ ہماری کشتی کی منجانب اللہ یہی شان ہے کہ جب اس میں کوئی ظالم گنہگار یا بھاگا ہوا غلام سوار ہوجاتا ہے تو یہ کشتی خودبخود رک جاتی ہے اس آدمی کو ظاہر کردینا چاہیے تاکہ ایک آدمی کی وجہ سے سب پر غضب نہ آئے۔ حضرت یونس (علیہ السلام) بول اٹھے کہ وہ بھاگا ہوا گنہگار غلام میں ہوں بغیر اذن خداوندی بستی چھوڑ کر چلے آنا پیغمبر انہ شان کی وجہ سے گناہ قرار دیا کہ پیغمبر کی کوئی نقل و حرکت بغیر اذن خداوندی کے نہ ہونی چاہیے تھی اسلئے فرمایا کہ مجھے دریا میں ڈال دو کشتی والے اس پر تیار نہ ہوئے بلکہ انہوں نے قرعہ اندازی کی تاکہ قرعہ میں جس کا نام نکل آئے اس کو دریا میں ڈال دیا جائے اتفاق سے قرعہ حضرت یونس (علیہ السلام) ہی کے نام سے نکل آیا، ان لوگوں کو اس پر تعجب ہوا تو کئی مرتبہ قرعہ اندازی کی ہر مرتبہ حضرت یونس (علیہ السلام) ہی کے نام قرعہ نکلتا رہا، قرآن کریم میں بھی اس قرعہ اندازی کا ذکر موجود ہے، ” فَسَاھم فکانَ من المدحضین “ یونس (علیہ السلام) کے ساتھ حق تعالیٰ کا یہ معاملہ ان کے مخصوص پیغمبرانہ مقام کی وجہ سے تھا کہ اگرچہ انہوں نے اللہ کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں کی تھی جس کو گناہ اور معصیت کہا جائے اور کسی پیغمبر سے اس کا امکان بھی نہیں ہے اسلئے کہ وہ معصوم ہوتے ہیں لیکن بغیر اجازت چلے جانا پیغمبرانہ شان بلند کے مناسب نہیں تھا اس خلاف شان عمل پر بطور عتاب یہ معاملہ کیا گیا۔
ادھر حضرت یونس (علیہ السلام) کو دریا میں آئیں تو ان کو اپنے پیٹ میں جگہ دے جس کو حق تعالیٰ نے پہلے سے حکم دے رکھا تھا، اور بتادیا تھا کہ یونس (علیہ السلام) تیری غذا نہیں ہے بلکہ تیرا پیٹ اس کا مسکن ہے چناچہ ایسا ہی ہوا، حضرت عبد اللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ حضرت یونس (علیہ السلام) مچھلی کے پیٹ میں چالیس دن رہے، بعض حضرات نے سات دن اور بعض نے پانچ اور بعض نے ایک دن چند گھنٹے مدت بتائی ہے، اس حالت میں حضرت یونس (علیہ السلام) نے یہ دعاء کی ” لا اِلہٰ اِلا انت سبحانک اِنّی کنت من الظَّلمین “ اللہ تعالیٰ نے اس دعاء کو قبول فرما لیا اور بالکل صحیح سالم حضرت یونس (علیہ السلام) کو دریا کے کنارے ڈال دیا۔ مچھلی کے پیٹ کی گرمی سے آپ کے بدن پر کوئی بال نہیں رہا تھا، اللہ نے ان کے قریب ایک کدو کا درخت اگا دیا جس کے پتوں کا سایہ حضرت یونس (علیہ السلام) کیلئے درخت کا سایہ بن گیا، اور ایک جنگلی بکری کو اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا کہ وہ صبح و شام ان کے پاس جاکر کھڑی ہوجایا کرے چناچہ وہ ایسا ہی کرتی اور حضرت یونس (علیہ السلام) اس کا دودھ پی لیتے تھے، اس طرح حضرت یونس (علیہ السلام) کو اس لغزش پر تنبیہ ہوگئی اور بعد میں ان کی قوم کو بھی پورا حال معلوم ہوگیا۔
اس قصہ کے جتنے اجزاء قرآن میں مذکور ہیں یا مستند روایات سے ثابت ہیں وہ تو یقینی ہیں باقی اجزاء تاریخی روایات کے ہیں جن پر کسی شرعی مسئلہ کا مدار نہیں رکھا جاسکتا۔ (معارف القرآن)
فائدہ : حضرت یونس (علیہ السلام) کو تنبیہ کسی معصیت یا فرائض منصبی میں کوتاہی کا نتیجہ نہیں تھی جیسا کہ بعض مفسرین کو دھوکا ہوا ہے، اس لئے کہ یہ بات بالاتفاق طے ہے کہ انبیاء معصوم ہوتے ہیں اختلاف صرف اس بات میں ہے کہ صغائر سے بھی معصوم ہوتے ہیں یا نہیں اہل سنت والجماعت کا مسلک ہے کہ صغائر سے بھی معصوم ہوتے ہیں، البتہ خلاف اولی کا صدور ہوسکتا ہے مگر اس کو معصیت نہیں کہا جاسکتا اور نہ اس پر مواخذہ ہوتا ہے البتہ انبیاء کی شان بلند کی نسبت سے ان کو تنبیہ کردی جاتی ہے، حضرت یونس (علیہ السلام) کے متعلق یہ خیال کہ انہوں نے رسالت کے فرض منصبی میں کوتاہی کی تھی جس کی وجہ سے ان کو سزا دی گئی یہ کسی طرح بھی اہل سنت والجماعت کے مسلک سے میل نہیں کھاتا۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿ وَلَقَدْ بَوَّأْنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ مُبَوَّأَ صِدْقٍ﴾ ”اور جگہ دی ہم نے بنی اسرائیل کو بہت اچھی جگہ“ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو آل فرعون کے مسکنوں میں آباد کیا اور ان کو آل فرعون کی اراضی اور ان کے گھروں کا مالک بنا دیا۔ ﴿ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ﴾ ” اور کھانے کو ستھری چیزیں دیں“ مطعومات اور مشروبات وغیرہ ﴿فَمَا اخْتَلَفُوا﴾ ” پس ان میں پھوٹ نہیں پڑی“ یعنی حق کے بارے میں ﴿حَتَّىٰ جَاءَهُمُ الْعِلْمُ﴾ ” حتیٰ کہ ان کے پاس علم آگیا“ جو ان کے اتحاد و اجتماع کا موجب تھا مگر انہوں نے ایک دوسرے کے خلاف ظلم اور تعدی سے کام لیا اور ان میں سے بہت سے لوگ اپنی اپنی خواہشات اور اغراض کے پیچھے لگ گئے جو حق کے خلاف تھیں اور یوں ان میں بہت زیادہ اختلاف واقع ہوگیا۔ ﴿إِنَّ رَبَّكَ يَقْضِي بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ﴾ ” بے شک جن باتوں میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں، تمہارا رب قیامت کے دن ان میں ان باتوں کا فیصلہ کرے گا۔“ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی حکمت عدل سے جو علم کامل اور قدرت شاملہ سے جنم لیتی ہے، قیامت کے روز ان کے اختلافات کا فیصلہ کرے گا۔
یہی وہ بیماری ہے، جس سے دین صحیح کے پیروکاروں کو سابقہ پڑتا ہے۔ شیطان جب کلی طور پر بندوں کو اپنی اطاعت کروانے اور دین ترک کروانے سے عاجز آجاتا ہے، تب وہ ان کے درمیان اختلافات ابھارتا ہے اور ان کے درمیان عداوت اور بغض ڈال دیتا ہے اس طرح وہ ان میں اختلافات پیدا کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے جو شیطان کا مقصد پورا کرنے کا موجب بنتے ہیں، پھر ایک دوسرے پر گمراہی کے فتوے لگانے سے ایک دوسرے کے خلاف عداوت پیدا ہوتی ہے اور یہ چیز اس لعین کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔
ورنہ جب ان کا رب ایک ہے، ان کا رسول ایک ہے، ان کا دین ایک ہے اور ان کے مصالح عامہ بھی متفق علیہ ہیں، پھر کس لئے وہ ایسے اختلافات میں مبتلا ہوتے ہیں جو ان کی وحدت کو پارہ پارہ کرتے ہیں، ان کے اتحاد کو پراگندہ کرتے ہیں، ان کے نظم و ربط کی رسی کو کھول دیتے ہیں اور یوں ان کے دینی اور دنیاوی مصالح فوت ہوجاتے ہیں اور اختلافات کے سبب سے دین کے بہت سے امور معدوم ہوجاتے ہیں۔
اے اللہ ! ہم تیرے مومن بندوں کے لئے تیرے لطف و کرم کا سوال کرتے ہیں، جو ان کے بکھرے ہوئے امور کو مجتمع کر دے، جو ان کے درمیان حائل خلیج کو پر کر دے، جو ان کے دور اور نزدیک کے لوگوں کو اکٹھا کر دے۔۔۔۔۔ یا ذالجلال و الاکرام
11 Mufti Taqi Usmani
aur hum ney bano Israel ko aesi jagah basaya jo sahih maani mein basney kay laeeq jagah thi , aur unn ko pakeezah cheezon ka rizq bakhsha . phir unhon ney ( deen-e-haq kay baaray mein ) uss waqt tak ikhtilaf nahi kiya jab tak unn kay paas ilm nahi aagaya . yaqeen rakho kay jinn baaton mein woh ikhtilaf kiya kertay thay , unn ka faisla tumhara perwerdigar qayamat kay din keray ga .
12 Tafsir Ibn Kathir
بنی اسرائیل پر اللہ کے انعامات
اللہ نے جو نعمتیں بنی اسرائیل پر انعام فرمائیں ان کا ذکر ہو رہا ہے کہ شام اور ملک مصر میں بیت المقدس کے آپس پاس انہیں جگہ دی۔ تمام و کمال ملک مصر پر ان کی حکومت ہوگئ۔ فرعون کی ہلاکت کے بعد دولت موسویہ قائم ہوگئی۔ جیسے قرآن میں بیان ہے کہ ہم نے ان کمزور بنی اسرائیلیوں کے مشرق مغرب کے ملک کا مالک کردیا۔ برکت والی زمین انکے قبضے میں دے دی اور ان پر اپنی سچی بات کی سچائی کھول دی ان کے صبر کا پھل انہیں مل گیا۔ فرعون، فرعونی اور ان کے کاریگریاں سب نیست و نابود ہوئیں اور آیتوں میں ہے کہ ہم نے فرعونیوں کو باغوں سے دشمنوں سے، خزانوں سے بہترین مقامات اور مکانات سے نکال باہر کیا۔ اور بنی اسرائیل کے قبضے میں یہ سب کچھ کردیا۔ اور آیتوں میں ہے ( كَمْ تَرَكُوْا مِنْ جَنّٰتٍ وَّعُيُوْنٍ 25ۙ ) 44 ۔ الدخان :25) باوجود اس کے خلیل الرحمن (علیہ السلام) کے شہر بیت المقدس کی محبت ان کے دل میں چٹکیاں لیتی رہی۔ وہاں عمالقہ کی قوم کا قبلہ تھا انہیوں نے اپنے پیغمبر (علیہ السلام) سے درخواست کی، انہیں جہاد کا حکم ہوا یہ نامردی کر گئے جس کے بدلے انہیں چالیس سال تک میدان تیہ میں سرگرداں پھرنا پڑا۔ وہیں حضرت ہارون (علیہ السلام) کا انتقال ہوا پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا۔ ان کے بعد یہ حضرت یوشع بن نون (علیہ السلام) کے ساتھ نکلے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں پر بیت المقدس کو فتح کیا۔ یہاں بخت نصر کے زمانے تک انہیں کا قبضہ رہا پھر کچھ مدت کے بعد دوبارہ انہوں نے اسے لے لیا پھر یونانی بادشاہوں نے وہاں قبضہ کیا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے تک وہاں یونانیوں کا ہی قبضہ رہا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ضد میں ان ملعون یہودیوں نے شاہ یونان سے ساز باز کی اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی گرفتاری کے احکام انہیں باغی قرار دے کر نکلوا دیئے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ (علیہ السلام) کو تو اپنی طرف چڑھا لیا اور آپ کے کسی حواری پر آپ کی شباہت ڈال دی انہوں نے آپ کے دھوکے میں اسے قتل کردیا اور سولی پر لٹکا دیا۔ یقینا جناب روح اللہ (علیہ الصلوۃ والسلام) ان کے ہاتھوں قتل نہیں ہوئے۔ انہیں تو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف بلند کرلیا۔ اللہ عزیز و حکیم ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے تقریباً تین سو سال بعد قسطنطنیہ نامی یونانی بادشاہ عیسائی بن گیا۔ وہ بڑا پاجی اور مکار تھا۔ دین عیسوی میں یہ بادشاہ صرف سیاسی منصوبوں کے پورا کرنے اور اپنی سلطنت کو مضبوط کرنے اور دین نصاری کو بدل ڈالنے کے لیے گھسا تھا۔ حیلہ اور مکر و فریب اور چال کے طور پر یہ مسیحی بنا تھا کہ مسیحیت کی جڑیں کھوکھلی کر دے۔ نصرانی علماء اور درویشوں کو جمع کرکے ان سے قوانین شریعت کے مجموعے کے نام سے نئی نئی تراشی ہوئی باتیں لکھوا کر ان بدعتوں کو نصرانیوں میں پھیلا دیا اور اصل کتاب و سنت سے انہیں ہٹا دیا۔ اس نے کلیسا، گرجے، خانقاہیں، ہیکلیں وغیرہ بنائیں اور بیسیوں قسم کے مجاہدے اور نفس کشی کے طریقے اور طرح طرح کی عبادتیں ریاضتیں نکال کر لوگوں میں اس نئے دین کی خوب اشاعت کی اور حکومت کے زور اور زر کے لالچ سے اسے دور تک پہنچا دیا۔ جو بےچارے موحد، متبع انجیل اور سچے تابعدار حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے اصلی دن پر قائم رہے انہیں ان ظالموں نے شہر بدر کردیا۔ یہ لوگ جنگلوں میں رہنے سہنے لگے اور یہ نئے دین والے جن کے ہاتھوں میں تبدیلی اور مسخ والا دین رہ گیا تھا اٹھ کھڑے ہوئے اور تمام جزیرہ روم پر چھا گئے۔ قسطنطنیہ کی بنیادیں اس نے رکھیں۔ بیت لحم اور بیت المقدس کے کلیسا اور حواریوں کے شہر سب اسی کے بسائے ہوئے ہیں۔ بڑی بڑی شاندار، دیرپا اور مضبوط عمارتیں اس نے بنائیں۔ صلیب کی پرستش، مشرق کا قبلہ، کنیسوں کی تصویریں، سور کا کھانا وغیرہ یہ سب چیزیں نصرانیت میں اسی نے داخل کیں۔ فروع اصول سب بدل کر دین مسیح کو الٹ پلٹ کردیا۔ امانت کبیرہ اسی کی ایجاد ہے اور دراصل ذلیل ترین خیانت ہے۔ لمبے چوڑے فقہی مسائل کی کتابیں اسی نے لکھوائیں۔ اب بیت المقدس انہیں کے ہاتھوں میں تھا یہاں تک کہ صحابہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے فتح کیا۔ امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب (رض) کی خلافت میں یہ مقدس شہر اس مقدس جماعت کے قبضے میں آیا۔ الغرض یہ پاک جگہ انہیں ملی تھی اور پاک روزی اللہ نے دے رکھی تھی جو شرعا بھی حلال اور طبعا بھی طیب۔ افسوس باوجود اللہ کی کتاب ہاتھ میں ہونے کے انہوں نے خلاف بازی اور فرقہ بندی شروع کردی۔ ایک دو نہیں بہتر \07\02 فرقے قائم ہوگئے۔ اللہ اپنے رسول پر درود سلام نازل فرمائے آپ نے ان کی اس پھوٹ کا ذکر فرما کر فرمایا کہ میری امت میں بھی یہی بیماری پھیلے گی اور ان کے تہتر فرقے ہوجائیں گے جس میں سے ایک جنتی باقی سب دوزخی ہوں گے پوچھا گیا کہ جنتی کون ہیں ؟ فرمایا وہ جو اس پر ہوں جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں۔ (مستدرک حاکم) اللہ فرماتا ہے ان کے اختلاف کا فیصلہ قیامت کے دن میں آپ ہی کروں گا