Skip to main content

فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَهَاۤ اِيْمَانُهَاۤ اِلَّا قَوْمَ يُوْنُسَ ۗ لَمَّاۤ اٰمَنُوْا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْىِ فِى الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَمَتَّعْنٰهُمْ اِلٰى حِيْنٍ

So why not
فَلَوْلَا
پھر کیوں نہ
was
كَانَتْ
ہوئی
any town
قَرْيَةٌ
کوئی بستی
that believed
ءَامَنَتْ
جو ایمان لاتی
and benefited it
فَنَفَعَهَآ
تو نفع دیتا اس کو
its faith
إِيمَٰنُهَآ
اس کا ایمان
except
إِلَّا
سوائے
the people
قَوْمَ
قوم
(of) Yunus?
يُونُسَ
یونس کے
When
لَمَّآ
جب
they believed
ءَامَنُوا۟
وہ ایمان لائے
We removed
كَشَفْنَا
ٹال دیا ہم نے۔ ہٹا دیا ہم نے
from them
عَنْهُمْ
ان سے
(the) punishment
عَذَابَ
عذاب
(of) the disgrace
ٱلْخِزْىِ
رسوائی کا
in
فِى
میں
the life
ٱلْحَيَوٰةِ
زندگی
of the world
ٱلدُّنْيَا
دنیا کی
and We granted them enjoyment
وَمَتَّعْنَٰهُمْ
اور فائدہ دیا ہم نے ان کو
for
إِلَىٰ
تک
a time
حِينٍ
ایک وقت

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

پھر کیا ایسی کوئی مثال ہے کہ ایک بستی عذاب دیکھ کر ایمان لائی ہو اور اس کا ایمان اس کے لیے نفع بخش ثابت ہوا ہو؟ یونسؑ کی قوم کے سوا (اس کی کوئی نظیر نہیں) وہ قوم جب ایمان لے آئی تھی تو البتہ ہم نے اس پر سے دنیا کی زندگی میں رسوائی کا عذاب ٹال دیا تھا اور اس کو ایک مدت تک زندگی سے بہرہ مند ہونے کا موقع دے دیا تھا

English Sahih:

Then has there not been a [single] city that believed so its faith benefited it except the people of Jonah? When they believed, We removed from them the punishment of disgrace in worldly life and gave them enjoyment [i.e., provision] for a time.

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

پھر کیا ایسی کوئی مثال ہے کہ ایک بستی عذاب دیکھ کر ایمان لائی ہو اور اس کا ایمان اس کے لیے نفع بخش ثابت ہوا ہو؟ یونسؑ کی قوم کے سوا (اس کی کوئی نظیر نہیں) وہ قوم جب ایمان لے آئی تھی تو البتہ ہم نے اس پر سے دنیا کی زندگی میں رسوائی کا عذاب ٹال دیا تھا اور اس کو ایک مدت تک زندگی سے بہرہ مند ہونے کا موقع دے دیا تھا

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

تو ہوئی ہوتی نہ کوئی بستی کہ ایمان لاتی تو اس کا ایمان کام آتا ہاں یونس کی قوم، جب ایمان لائے ہم نے ان سے رسوائی کا عذاب دنیا کی زندگی میں ہٹادیا اور ایک وقت تک انہیں برتنے دیا

احمد علی Ahmed Ali

سو کوئی بستی ایسی کیوں نہ ہوئی جو ایمان لاتی تو اس کا ایمان اسے نفع دیتا سوائے یونس کی قوم کے کہ جب وہ ایمان لائے تو ہم نے دنیا کی زندگی میں ان سے ذلت کا عذاب دور کر دیا اور ہم نے انہیں ایک وقت تک فائدہ پہنچایا

أحسن البيان Ahsanul Bayan

چنا نچہ کوئی بستی ایمان نہ لائی کہ ایمان لانا اس کو نافع ہوتا سوائے یونس (علیہ السلام) کی قوم کے (١) جب وہ ایمان لے آئے تو ہم نے رسوائی کے عذاب کو دنیاوی زندگی میں ان پر سے ٹال دیا اور ان کو ایک وقت (خاص) تک کے لئے زندگی سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیا۔

٩٨۔١ لولا یہاں تحضیض کے لیے ھلا کے معنی میں ہے یعنی جن بستیوں کو ہم نے ہلاک کیا، ان میں کوئی ایک بستی بھی ایسی کیوں نہ ہوئی جو ایسا ایمان لاتی جو اس کے لئے فائدہ مند ہوتا۔ ہاں صرف یونس علیہ السلام کی قوم ایسی ہوئی ہے کہ جب وہ ایمان لے آئی تو اللہ نے ان سے عذاب دور کر دیا مختصر پس منظر یہ کہ یونس علیہ السلام نے جب دیکھا کہ ان کی تبلیغ و دعوت سے ان کی قوم متاثر نہیں ہو رہی تو انہوں نے قوم میں اعلان کیا کہ فلاں فلاں دن تم پر عذاب آجائے گا اور وہ خود وہاں سے نکل گئے۔ جب عذاب بادل کی طرح ان پر امڈ آیا تو وہ بچوں عورتوں سمیت ایک میدان میں جمع ہوگئے اور اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں توبہ و استفغار شروع کر دیا۔ اللہ تعالٰی نے ان کی توبہ قبول فرما لی اور ان سے عذاب ٹال دیا۔ حضرت یونس علیہ السلام آنے جانے والے مسافروں سے اپنی قوم کا حال معلوم کرتے رہتے تھے، انہیں جب معلوم ہوا کہ اللہ تعالٰی نے ان کی قوم سے عذاب ٹال دیا ہے، تو انہوں نے اپنی تکذیب کے بعد اس قوم میں جانا پسند نہیں کیا بلکہ ان سے ناراض ہو کر وہ کسی اور طرف روانہ ہوگئے، جس پر وہ کشتی کا واقعہ پیش آیا (جس کی تفصیل اپنے مقام پر آئے گی) البتہ مفسرین کے درمیان اس امر میں اختلاف ہے کہ قوم یونس ایمان کب لائی؟ عذاب دیکھ کر لائی جب کہ ایمان لانا نافع نہیں ہوتا۔ لیکن اللہ تعالٰی نے اسے اپنے اس قانون سے مستثنی کر کے اس کے ایمان کو قبول کرلیا۔ یا ابھی عذاب نہیں آیا تھا یعنی وہ مرحلہ نہیں آیا تھا کہ جب ایمان نافع نہیں ہوتا۔ لیکن قرآن کریم قوم یونس کا الا کے ساتھ جو استثنا کیا ہے وہ پہلی تفسیر کی تائید کرتا ہے۔ واللہ اعلم با الصواب۔
٩٨۔۲ قرآن نے دنیاوی عذاب کے دور کرنے کی صراحت تو کی ہے، اخروی عذاب کی بابت صراحت نہیں کی، اس لیے بعض مفسرین کے خیال میں اخروی عذاب ان سے ختم نہیں کیا گیا۔ لیکن جب قرآن نے یہ وضاحت کردی کہ دنیاوی عذاب، ایمان لانے کی وجہ سے ٹالا گیا تھا، تو پھر اخروی عذاب کی بابت صراحت کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی ہے۔ کیونکہ اخروی عذاب کا فیصلہ تو ایمان اور عدم ایمان کی بنیاد پر ہی ہونا ہے۔ اگر ایمان لانے کے بعد قوم یونس اپنے ایمان پر قائم رہی ہوگی، تو یقینا وہ اخروی عذاب سے بھی محفوظ رہے گی۔ البتہ بصورت دیگر عذاب سے بچنا صرف دنیا ہی کی حد تک ہی ہوگا۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

تو کوئی بستی ایسی کیوں نہ ہوئی کہ ایمان لاتی تو اس کا ایمان اسے نفع دیتا ہاں یونس کی قوم۔ جب ایمان لائی تو ہم نے دنیا کی زندگی میں ان سے ذلت کا عذاب دور کردیا اور ایک مدت تک (فوائد دنیاوی سے) ان کو بہرہ مند رکھا

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

چنانچہ کوئی بستی ایمان نہ ﻻئی کہ ایمان ﻻنا اس کو نافع ہوتا سوائے یونس ﴿علیہ السلام﴾ کی قوم کے۔ جب وه ایمان لے آئے تو ہم نے رسوائی کے عذاب کو دنیوی زندگی میں ان پر سے ٹال دیا اور ان کو ایک وقت (خاص) تک کے لیے زندگی سے فائده اٹھانے (کا موقع) دیا

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

قومِ یونس کے سوا کیوں کوئی ایسی بستی نہیں ہوئی جو (عذاب دیکھ کر) ایمان لائی ہو اور اس کے ایمان نے اسے فائدہ بھی پہنچایا ہو؟ جب وہ (قومِ یونس والے) ایمان لائے تو ہم نے اس دنیاوی زندگی میں ان سے رسوائی والا عذاب ٹال دیا اور ان کو ایک مدت تک زندگی کے سرو سامان سے فائدہ اٹھانے کی مہلت دے دی۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

پس کوئی بستی ایسی کیوں نہیں ہے جو ایمان لے آئے اور اس کا ایمان اسے فائدہ پہنچائے علاوہ قوم یونس کے کہ جب وہ ایمان لے آئے تو ہم نے ان سے زندگانی دنیا میں رسوائی کا عذاب دفع کردیا اور انہیں ایک مّدت تک چین سے رہنے دیا

طاہر القادری Tahir ul Qadri

پھر قومِ یونس (کی بستی) کے سوا کوئی اور ایسی بستی کیوں نہ ہوئی جو ایمان لائی ہو اور اسے اس کے ایمان لانے نے فائدہ دیا ہو۔ جب (قومِ یونس کے لوگ نزولِ عذاب سے قبل صرف اس کی نشانی دیکھ کر) ایمان لے آئے تو ہم نے ان سے دنیوی زندگی میں (ہی) رسوائی کا عذاب دور کردیا اور ہم نے انہیں ایک مدت تک منافع سے بہرہ مند رکھا،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

افسوس انسان نے اکثر حق کی مخالفت کی
کسی بستی کے تمام باشندے کسی نبی پر کبھی ایمان نہیں لائے۔ یا تو سب نے ہی کفر کیا یا اکثر نے۔ سورة یٰسین میں فرمایا بندوں پر افسوس ہے ان کے پاس جو رسول آئے انہوں نے ان کا مذاق اڑایا۔ ایک آیت میں ہے ان سے پہلے رسول آئے، انہیں لوگوں نے جادوگر یا مجنون کا ہی خطاب دیا۔ تجھ سے پہلے جتنے رسول آئے سب کو ان کی قوم کے سرکشوں ساہو کاروں نے یہی کہا کہ ہم نے تو اپنے بڑوں کو جس لکیر پر پایا اسی کے فقیر بنے رہیں گے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں مجھ پر انبیاء پیش کئے گئے کسی نبی کے ساتھ تو لوگوں کا ایک گروہ تھا۔ کسی کے ساتھ صرف ایک آدمی کوئی محض تنہا۔ پھر آپ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی امت کی کثرت کا بیان کیا۔ پھر اپنی امت کا، اس سے بھی زیادہ ہونا۔ زمین کے مشرق مغرب کی سمت کو ڈھانپ لینا بیان فرمایا۔ الغرض تمام انبیاء میں سے کسی کی ساری امت نے انہیں نبی نہیں مانا۔ سوائے اہل نینویٰ کے جو حضرت یونس (علیہ السلام) کی امت کے لوگ تھے۔ یہ بھی اس وقت جب نبی (علیہ السلام) کی زبان سے عذاب کی خبر معلوم ہوگئی۔ پھر اس کے ابتدائی آثار بھی دیکھ لیے۔ ان کے نبی (علیہ السلام) انہیں چھوڑ کر چلے بھی گئے۔ اس وقت یہ سارے کے سارے اللہ کے سامنے جھک گئے اس سے فریاد شروع کی، اس کی جناب میں عاجزی اور گریہ وزاری کرنے لگے، اپنی مسکینی ظاہر کرنے لگے۔ اور دامن رحمت سے لپٹ گئے۔ سارے کے سارے میدان میں نکل کھڑے ہوئے اپنی بیویوں، بچوں اور جانوروں کو بھی ساتھ اٹھا کرلے گئے۔ اور آنسوؤں کی جھڑیاں لگا کر اللہ تعالیٰ سے فریاد کرنے دعائیں مانگنے لگے کہ یا رب عذاب ہٹا لے۔ رحمت رب جوش میں آئی، پروردگار نے ان سے عذاب ہٹا لیا اور دنیا کی رسوائی کے عذاب سے انہیں بچالیا۔ اور ان کی عمر تک کی انہیں مہلت دے دی اور اس دنیا کا فائدہ انہیں پہنچایا۔ یہاں جو فرمایا کہ دنیا کا عذاب ان سے ہٹا لیا۔ اس سے بعض نے کہا ہے کہ اخروی عذاب دور نہیں۔ لیکن یہ ٹھیک نہیں اس لے کے دوسری آیت میں ہے ( فَاٰمَنُوْا فَمَتَّعْنٰهُمْ اِلٰى حِيْنٍ\014\08ۭ ) 37 ۔ الصافات ;148) وہ ایمان لائے اور ہم نے انہیں زندگی کا فائدہ دیا۔ اس سے ثابت ہوا کہ وہ ایمان لائے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ ایمان آخرت کے عذاب سے نجات دینے والا ہے۔ واللہ اعلم۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں آیت کا مطلب یہ ہے کہ کس بستی اہل کفر کا عذاب دیکھ لینے کے بعد ایمان لانا ان کے لیے نفع بخش ثابت نہیں ہوا۔ سوائے قوم یونس (علیہ السلام) کی قوم کے کہ جب انہوں نے دیکھا کہ ان کے نبی ان میں سے نکل گئے اور انہوں نے خیال کرلیا کہ اب اللہ کا عذاب آیا چاہتا ہے، اس وقت توبہ استغفار کرنے لگے ٹاٹ پہن کر خشوع و خضوع سے میلے کچیلے میدان میں آکھڑے ہوئے بچوں کو ماؤں سے دور کردیا۔ جانوروں کے تھنوں سے ان کے بچوں کو الگ کردیا۔ اب جو رونا دھونا اور فریاد شروع کی تو چالیس دن رات اسی طرح گزار دیئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دل کی سچائی دیکھ لی۔ ان کی توبہ و ندامت قبول فرمائی اور ان سے عذاب دور کردیا، یہ لوگ موصل کے شہر نینویٰ کے رہنے والے تھے۔ فلو لا کی فھلا قرأت بھی ہے ان کے سروں پر عذاب رات کی سیاہی کے ٹکڑوں کی طرح گھوم رہا تھا ان کے علماء نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ جنگل میں نکل کھڑے ہو اور اللہ سے دعا کرو کہ وہ ہم سے اپنے عذاب کو دور کر دے اور یہ کہو یاحی حین لاحی یاحی محیی الموتی یاحی لا الہ الا انت قوم یونس کا پورہ قصہ سورة الصافات کی تفسیر میں انشاء اللہ العزیز ہم بیان کریں گے۔