العادیات آية ۱
وَالْعٰدِيٰتِ ضَبْحًا ۙ
طاہر القادری:
(میدانِ جہاد میں) تیز دوڑنے والے گھوڑوں کی قَسم جو ہانپتے ہیں،
English Sahih:
By the racers, panting,
1 Abul A'ala Maududi
قسم ہے اُن (گھوڑوں) کی جو پھنکارے مارتے ہوئے دوڑتے ہیں
2 Ahmed Raza Khan
قسم ان کی جو دوڑتے ہیں سینے سے آواز نکلتی ہوئی
3 Ahmed Ali
ان گھوڑوں کی قسم جو ہانپتے ہوئے دوڑتے ہیں
4 Ahsanul Bayan
ہانپتے ہوئے دوڑنے والے گھوڑوں کی قسم (١)
١۔١ عادیات، عادیۃ کی جمع ہے۔ یہ عدو سے ہے جیسے غزو ہے غازیات کی طرح اس کے واؤ کو بھی یا سے بدل دیا گیا ہے۔ تیز رو گھوڑے۔ ضبح کے معنی بعض کے نزدیک ہانپنا اور بعض کے نزدیک ہنہنانا ہے۔ مراد وہ گھوڑے ہیں جو ہانپتے یا ہنہناتے ہوئے جہاد میں تیزی سے دشمن کی طرف دوڑتے ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
ان سرپٹ دوڑنے والے گھوڑوں کی قسم جو ہانپ اٹھتےہیں
6 Muhammad Junagarhi
ہانپتے ہوئے دوڑنے والے گھوڑوں کی قسم!
7 Muhammad Hussain Najafi
قَسم ہے ان گھوڑوں کی جو پھنکارے مارتے ہوئے دوڑتے ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
فراٹے بھرتے ہوئے تیز رفتار گھوڑوں کی قسم
9 Tafsir Jalalayn
ان سرپٹ دوڑنے والے گھوڑوں کی قسم جو ہانپ اٹھتے ہیں
ترجمہ :۔ شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، قسم ہے ان گھوڑوں کی جو جہاد میں پھنکارتے ہوئے (ہانپتے ہوئے) دوڑتے ہیں، ضبح جوف (پیٹ) کی اس آواز کو کہتے ہیں جو دوڑتے وقت نکلتی ہے، پھر ان گھوڑوں کی جو ٹاپوں سے چنگاریاں جھاڑتے ہیں پھر ان گھوڑوں کی جو صبح سویرے دشمن پر شب خون مارتے ہیں، اپنے سوار کے شب خوب مارنے سے پھر اس موقع پر یعنی اپنے دوڑنے کی جگہ یا اس وقت اپنی شدید حرکت کی وجہ سے غبار اڑاتے ہیں پھر اسی غبار میں دشمن کے مجمع میں گھس جاتے ہیں یعی ان کے وسط تک پہنچ جاتے ہیں اور فعل کا عطف اسم پر اس لئے درست ہے کہ اسم فعل کی تاویل میں ہے، یعنی معنی میں واللاتی عدون، فاورین فاعزن کے ہے حقیقت یہ ہے کہ کافر انسان اپنے رب کی نعمتوں کا انکار کر کے بڑا ناشکرا ہے اور وہ خود اس اپنی ناشکری پر گواہ ہے کہ وہ اپنے عمل سے اپنے نفس پر گواہ ہے اور وہ مال کی محبت میں بر طرح مبتلا ہے یعنی وہ مال سے بےحد محبت رکھنے والا ہے جس کی وجہ سے وہ اس (کے خرچ کرنے) میں بخل کرتا ہے تو کیا وہ اس وقت کو نہیں جانتا کہ جب قبروں میں مدفون مردوں کو نکالا جائے گا ؟ اور دلوں میں جو کفر و ایمان (مخفی) ہے اس کو برآمد کرلیا جائے گا، یعنی ظاہر اور عیا کردیا جائے گا، ان کا رب اس روز ان سے خوب باخبر ہوگا پھر ان کو ان کے کفر کی سزا دے گا، (ھم) ضمیر کو انسان کے معنی کا لحاظ کرتے ہوئے جمع لایا گیا ہے اور یہ جملہ یعلم کے مفعول پر دلالت کرتا ہے یعنی ہم انسان کو مذکورہ وقت میں جزاء دیں گے اور خبیر کا تعلق یومئذ سے ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ باخبر ہے اس لئے کہ وہ صلہ دینے کا دن ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ :۔ والعدیت، عادیۃ کی جمع ہے تیز دوڑنے والیاں، یہ عدو سے مشتق ہے جس کے معنی تجاوز کرنے اور تیز دوڑنے کے ہیں، واو کے ماقبل کسرہ ہونے کی وجہ سے وائو کو یاء سے بدل دیا ہے، چناچہ عدو سے عادیات ہوگیا، جیسا کہ عزو سے غازیات (لغات القرآن)
قولہ :۔ صبحاً (ف) یہ ضبح یضبح کا مصدر ہے، گھوڑوں کے دوڑنے کے وقت ہانپنا، پھنکار مارنا، مفسر علام کا ضبحاً سے پہلے تضبح کا اضافہ کرنا یہ بتانے کے لئے ہے کہ ضبحاً فعل مقدر کی وجہ سے منصوب ہے۔
قولہ :۔ الموریات، موریۃ سے اسم فاعل جمع مئونث ہے، یہ ایراء سے مشتق ہے، آگ روشن کرنے والے، ایراء (افعال) آگ نکالنا، مراد وہ گھوڑے ہیں جو پتھر یلی زمین پر چلتے ہیں تو ان کی ٹاپوں کی رگڑ سے چنگاریاں نکلتی ہیں۔
قولہ :۔ قدحاً (ف) قدح کا صدر ہے، پتھر پر پتھر مار کر آگ نکالنا، قدح الزند چقماق رگڑ کر آگ نکالی، قدحاً بھی ضبحاً کی طرح فعل مقدر کی وجہ سے مصوب ہے، ای یقدح قدحاً
قولہ :۔ فالمغیرات صبحاً صبح کے وقت شب خون مارنے والے، غارت گری کرنے والے وبالفارسیہ، پس قسم باسپان غارت کنندہ بوقت صبح، المغیرات اسم فاعل جمع مئونث، واح دالمغیرۃ مصدر اغارۃ لوٹنا چھاپہم ارنا مراد چھاپہ مار دستے ہیں۔
قولہ :۔ فائزن (ض ن) ماضی صیغہ جمع مئونث غائب، یہ اثارۃ سے ہے، بمعنی برانگیختہ کرنا، اڑانا۔
قولہ :۔ فوسطن بہ بہ ای ذالک الوقت
سوال : فائرن اور فوسطن کا عطف والعدیت فالموریت فالمغیرات پر ہے، اس میں معطوف علیہ اسماء ہیں اور معطوف افعال ہیں جو درست نہیں ہے ؟
جواب : ماقبل میں مذکور تینوں اسماء تاویل میں افعال کے ہیں، اس لئے کہ موصول کا صلہ واقع ہیں، جیسا کہ مفسر علام نے واللاتی عدون کہہ کر اشارہ کردیا ہے، والعدیت معنی میں اللاتی عدون کے ہیں، ھکذا الموریت اور فالمغیرات
قولہ :۔ وھذہ الجملۃ دلت علی مفعول یعلم اس جملہ کا مقصد اس اعتراض کا جواب ہے کہ یعلم فعل متعدی ہے جس کے لئے مفعول کا ہونا ضروری ہے، مگر یہاں اس کا مفعول نہیں ہے ؟
جواب : یعلم کا مفعول محذوف ہے اور حذف پر جملہ ان ربھم بھم یومئذ لخبیر دلالت کر رہا ہے اور مفعول محذوف انا جازیہ ہے تقدیر عبارت یہ ہے : افلایعلم اذا بعثر ما فی القبور و حصل مافی الصدور انا جنزیہ
قولہ :۔ حصل یہ تحصیل سے ہے جس کے معنی چھلکے سے مغزیا خوشے سے غلہ نکالنے کے ہیں۔
قولہ :۔ تعلق خبیر بیومئذ یہ ایک سوال مقدار کا جواب ہے ؟
سوال : سوال یہ ہے کہ یومئذ لخبیر کیوں کہا جب کہ اللہ تعالیٰ ہر زمان و مکان سے باخبر ہے ؟
جواب : جواب کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس روز ہر شخص کو اس کے ہر عمل کی جزا دیں گے اور ظاہر ہے کہ جزا علم کے بغیر ممکن نہیں ہے اور اس سے اللہ تعالیٰ کے عمومی علم کی نفی نہیں ہوتی۔
تفسیر و تشریح
اس سورت میں پانچ صفات کی قسم کھا کر ایک بات کہی گئی ہے اور وہ ہے صان الانسان لربہ لکنود) بلاشبہ انسان بڑا ناشکرا ہے مذکورہ پانچ صفات کا قرآن مجید میں موصوف بیان نہیں کیا گی گیا، اس لئے مقسم بہ میں مفسرین کا اختلاف ہوا ہے کہ دوڑنے والوں اور آگ جھاڑنے والوں، شب خون مارنے والوں، غبار اڑانے والوں اور مجمع میں داخل ہونے والوں سے کیا مردا ہے۔ صحابہ (رض) اور تابعین کی ایک جماعت اس طرف گئی ہے کہ مذکورہ صفات کے موصوفات گھوڑے ہیں اور ایک دوسری جماعت اس طرف گئی ہے کہ اونٹ مراد ہیں مگر دوڑتے ہوئے ایک خاص قسم کی آواز نکالنا جس کو عربی میں صبح کہتے ہیں وہ گھوڑا ہی نکالتا ہے اور بعد کی آیات بھی جن میں چنگاریاں جھاڑنے صبح سویرے چھاپہ مارنے کا ذکر ہے یہ بات بھی گھوڑوں ہی پر صادق آتی ہے، اس لئے اکثر محققین نے ان سے مراد گھوڑے ہی لئے ہیں ابن جریر (رض) فرماتے ہیں کہ مذکورہ دونوں قولوں میں گھوڑوں والا قول قابل ترجیح ہے۔
یہاں جنگی گھوڑوں کی سخت خدمات کا ذکر گویا اس بات کی شہادت میں لایا گیا ہے کہ انسان بڑا ناشکرا ہے، تشریح اس کی یہ ہے کہ گھوڑوں کے اور بالخصوص جنگی گھوڑوں کے حالات پر نظر ڈالئے کہ وہ میدان جنگ میں اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر کیسی کیسی سخت خدمات، انسان کے حکم و اشارہ کے تابع انجام دیتے ہیں، حالانکہ انسان نے ان گھوڑوں کو پیدا نہیں کیا، ان کو جو گھاس دانہ انسان دیتا ہے وہ بھی اس کا پیدا کیا ہوا نہیں ہے، اس کا کام صرف اتنا ہے کہ خدا کے پیدا کئے ہوئے رزق کو ان تک پہنچانے کا ایک واسطہ ہے، اب گھوڑوں کو دیکھئے کہ انسان کے اتنے سے احسان کو کیسا پہچانتا ہے کہ اس کے ادنیٰ اشارہ پر اپنی جان کو خطرہ میں ڈال دیتا ہے، اس کے بالمقابل انسان کو دیکھو کہ ایک حقیر قطرہ سے اللہ نے اس کو پیدا کیا اور اس کو مختلف کاموں کی صلاحیت بخشی، عقل و شعور بخشا، نیز اس کی تمام ضروریات کو کس قدر آسان کر کے اس تک پہنچا دیا کہ عقل حیران رہ جاتی ہے، مگر انسان ان احسانات کا شکر گذار نہیں ہوتا، اسی مناسبت سے گھوڑوں کی قسم کھا کر فرمایا ہے بلاشبہ انسان ناشکرا ہے۔
مذکورہ آیت میں جہاد گھوڑوں کی قسم کھا کردو باتیں کہی گئی ہیں : ایک یہ کہ انسان ناشکرا ہے، مصیبتوں اور تکلیفوں کو یاد رکھتا ہے، نعمتوں اور احسانات کو بھول جاتا ہے، دوسرے یہ کہ وہ مال کی محبت میں شدید ہے، یہ دونوں باتیں شرعاً اور عقلاً مذموم ہیں، ناشکری کا مذموم ہونا تو بالکل ظاہر ہے، مال کی محبت کو بھی مذموم قرار دیا گیا ہے، حالانکہ مال پر انسانی بہت سی ضروریات کا مدار ہے، بہت سی عبادات کا تعلق مال ہی سے ہے، مال کے کسب اور اکتساب کو شریعت نے نہ صرف یہ کہ حلال کیا ہے، بلکہ بقدر ضرورت فرض قرار دیا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ مطلقاً مال کی محبت مذموم نہیں ہے، بلکہ شدت کے وصف کے ساتھ مذموم ہے کہ انسان مال کی محبت میں ایسا مغلوب ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام سے غافل ہوجائے اور حلال و حرام کی پروا نہ رہے، حاصل یہ ہوا کہ مال کو بقدر ضرورت حاصل کرنا اور اس سے کام لینا تو امر محمود ہے، مگر دل میں اس کی محبت کا جاگزیں ہوجانا مذموم ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک وتعالیٰ نے گھوڑوں کی قسم کھائی ہے ،کیونکہ ان کے اندر اللہ تعالیٰ کی روشنی اور نمایاں اور ظاہری نعمتیں ہیں جو تمام خلائق کو معلوم ہیں اور اللہ تعالیٰ نے گھوڑوں کی ان کے اس حال میں قسم کھائی جس حال میں حیوانات کی تمام انواع میں سے کوئی حیوان ان کے ساتھ مشارکت نہیں کرسکتا۔ فرمایا: ﴿وَالْعٰدِیٰتِ ضَبْحًا﴾ یعنی بہت قوت کے ساتھ دوڑنے والے گھوڑوں کی قسم جبکہ ان سے ہانپنے کی آواز آرہی ہے۔ الضبح گھوڑوں کے سانس کی آواز جو تیز دوڑتے وقت ان کے سینوں سے نکلتی ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
qasam hai unn ghorron ki jo haanp haanp ker dorrtay hain ,
12 Tafsir Ibn Kathir
انسان کا نفسیاتی تجزیہ :
مجاہدین کے گھوڑے جبکہ اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے ہانپتے اور ہنہاتے ہوئے دوڑتے ہیں ان کی اللہ تبارک و تعالیٰ قسم کھاتا ہے پھر اس تیزی میں دوڑتے ہوئے پتھروں کے ساتھ ان کے نعل کا ٹکرانا اور اس رگڑ سے آگ کی چنگاڑیاں اڑنا پھر صبح کے وقت دشمن پر ان کا چھاپہ مارنا اور دشمنان رب کو تہہ وبالا کرنا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہی عادت مبارک تھی کہ دشمن کی کسی بستی پر آپ جاتے تو وہاں رات کو ٹھہر کر کام لگا کر سنتے اگر اذان کی آواز آگئی تو آپ رک جاتے نہ آتی تو لشکر کو حکم دیتے کہ بزن بول دیں پھر ان گھوڑوں کا گردو غبار اڑانا اور ان سب کا دشمنوں کے درمیان گھس جانا ان سب چیزوں کی قسم کھا کر پھر مضمون شروع ہوتا ہے۔ حضرت عبداللہ سے مروی ہے کہ والعادیات سے مراد اونٹ ہیں حضرت علی بھی یہی فرماتے ہیں حضرت ابن عباس کا قول کہ اس سے مراد گھوڑے ہیں جب حضرت علی کو معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا گھوڑے ہمارے بدر والے دن تھے ہی کب یہ تو اس چھوٹے لشکر میں تھے جو بھیجا گیا تھا حضرت عبداللہ بن عباس (رض) ایک مرتبہ خطیم میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص نے آ کر اس آیت کی تفسیر پوچھی تو آپ نے فرمایا اس سے مراد مجاہدین کے گھوڑے ہیں جو بوقت جہاد دشمنوں پر دھاوا بولتے ہیں پھر رات کے وقت یہ گھڑ سوار مجاہد اپنے کیمپ میں آ کر کھانے پکانے کے لیے آگ جلاتے ہیں وہ یہ پوچھ کر حضرت علی کے پاس گیا آپ اس وقت زمزم کا پانی لوگوں کو پلا رہے تھے اس نے آپ سے بھی یہی سوال کیا آپ نے فرمایا مجھ سے پہلے کسی اور سے بھی تم نے پوچھا ہے ؟ کہا ہاں حضرت ابن عباس سے پوچھا ہے تو انہوں نے فرمایا مجاہدین کے گھوڑے ہیں جو اللہ کی راہ میں دھاوا بولیں حضرت علی نے فرمایا جانا ذرا انہیں میرے پاس بلانا جب وہ آگئے تو حضرت علی نے فرمایا تمہیں معلوم نہیں اور تم لوگوں کو فتوے دے رہے ہو اللہ کی قسم پہلا غزوہ اسلام میں بدر کا ہوا اس لڑائی میں ہمارے ساتھ صرف دو گھوڑے تھے ایک شخص حضرت زبیر (رض) کا دوسرا حضرت مقداد (رض) کا تو عادیات ضبحا یہ کیسے ہوسکتے ہیں اس سے مراد تو عرفات سے مزدلفہ کی طرف جانے والے اور پھر مزدلفہ سے منیٰ کی طرف جانے والے ہیں حضرت عبدالہل فرماتے ہیں یہ سن کر میں نے اپنے اگلے قول سے رجوع کرلیا اور حضرت علی نے جو فرمایا تھا وہی کہنے لگا مزدلفہ میں پہنچ کر حاجی بھی اپنی ہنڈیا روٹی کے لیے آگ سلگاتے ہیں، غرض حضرت علی کا فرمان یہ ہوا کہ اس سے مراد اون ٹ ہیں اور یہی قول ایک جماعت کا ہے جن میں ابراہیم عبید بن عمیر وغیرہ ہیں اور حضرت ابن عباس سے گھوڑے مروی ہیں مجاہد، عکرمہ، عطاء قتادہ اور ضحاک بھی یہی کہتے ہیں اور امام ابن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں بلکہ حضرت ابن عباس اور حضرت عطا سے مروی ہے کہ ضبح یعنی ہانپنا کسی جانور کے لیے نہیں ہوتا سوائے گھوڑے اور کتے کے ابن عباس فرماتے ہیں ان کے منہ سے ہانپتے ہوئے جو آواز اح اح کی نکلتی ہے یہی ضبح ہے اور دوسرے جملے کے ایک تو معنی یہ کیے گئے ہیں کہ ان گھوڑوں کی ٹاپوں کا پتھر سے ٹکرا کر آگ پیدا کرنا اور دوسرے معنی یہ بھی کیے گئے ہیں کہ ان کے سواروں کا لڑائی کی آگ کو بھڑکانا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ لڑائی میں مکرو دھوکہ کرنا اور یہ بھی مروی ہے کہ راتوں کو اپنی قیام گاہ پر پہنچ کر آگ روشن کرنا اور مزدلفہ میں حاجیوں کا بعد از مغرب پہنچ کر آگ جلانا امام ابن جریر فرماتے ہیں میرے نزدیک سب سے زیادہ ٹھیک قول یہی ہے کہ گھوڑوں کی ٹاپوں اور سموں کا پتھر سے رگڑ کھا کر آگ پیدا کرنا پھر صبح کے وقت مجاہدین کا دشمنوں پر اچانک ٹوٹ پڑنا اور جن صاحبان نے اس سے مراد اونٹ لیے ہیں وہ فرماتے ہیں اس سے مراد مزدلفہ سے منیٰ کی طرف صبح کو جانا ہے پھر یہ سب کہتے ہیں کہ پھر ان کا جس مکان میں یہ اترے ہیں خواہ جہاد میں ہوں خواہ حج میں غبار اڑانا پھر ان مجاہدین کا کفار کی فوجوں میں مردانہ گھس جانا اور چیرتے پھاڑتے مارتے پچھاڑتے ان کے بیچ لشکر میں پہنچ جانا اور یہ بھی مراد ہوسکتی ہے کہ سب جمع ہو کر اس جگہ درمیان میں آجاتے ہیں تو اس صورت میں جمعا حال موکد ہونے کی وجہ سے منصوب ہوگا ابوبکر بزار میں اس جگہ ایک غریب حدیث ہے جس میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک لشکر بھیجا تھا ایک مہینہ گذر گیا لیکن اس کی کوئی خبر نہ آئی اس پر یہ آیتیں اتریں اور اس لشکر کی اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ ان کے گھوڑے ہانپتے ہوئے تیز چال سے گئے ان کے سموں کی ٹکر سے چنگاڑیاں اڑ رہی تھیں انہوں نے صبح ہی صبح دشمنوں پر پوری یلغار کے ساتھ حملہ کردیا ان کی ٹاپوں سے گرد اڑ رہی تھی پھر غالب آ کر سب جمع ہو کر بیٹھ گئے ان قسموں کے بعد اب وہ مضمون بیان ہو رہا ہے جس پر قسمیں کھائیں گئی تھیں کہ انسان اپنے رب کی نعمتوں کا قدردان نہیں اگر کوئی دکھ درد کسی وقت آگیا ہے تو وہ تو بخوبی یاد رکھتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی ہزارہا نعمتیں جو ہیں سب کو بھلائے ہوئے ہے ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے کہ کنود وہ ہے جو تنہا کھائے غلاموں کو مارے اور آسان سلوک نہ کرے اس کی اسناد ضعیف ہے پھر فرمایا اللہ اس پر شاہد ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ خود اس بات پر اپنا گواہ آپ ہے اس کی ناشکری اس کے افعال و اقوال سے صاف ظاہر ہے جیسے اور جگہ ہے شاہدین علی انفسھم بالکفر یعنی مشرکین سے اللہ تعالیٰ کی مسجدوں کی آبادی نہیں ہوسکتی جبکہ یہ اپنے فکر کے آپ گواہ ہیں پھر فرمایا یہ مال کی چاہت میں بڑا سخت ہے یعنی اسے مال کی بیحد محبت ہے اور یہ بھی معنی ہیں کہ اس کی محبت میں پھنس کر ہماری راہ میں دینے سے جی چراتا اور بخل کرتا ہے پھر پروردگار عالم اسے دنیا سے بےرغبت کرنے اور آخرت کی طرف متوجہ کرنے کے لیے فرما رہا ہے کہ کیا انسان کو یہ معلوم نہیں کہ ایک وقت وہ آ رہا ہے کہ جب تمام مردے قبروں سے نکل کھڑے ہوں گے اور جو کچھ باتیں چھپی لگی ہوئی تھیں سب ظاہر ہو جائی گی سن لو ان کا رب ان کے تمام کاموں سے باخبر ہے اور ہر ایک عمل کا بدلہ پورا پورا دینے والا ہے ایک ذرے کے برابر ظلم وہ روا نہیں رکھتا اور نہ رکھے۔ سورة عادیات کی تفسیر اللہ کے فضل و احسان سے ختم ہوئی، فالحمد اللہ۔