اور نوح (علیہ السلام) نے اپنے رب کو پکارا اور عرض کیا: اے میرے رب! بیشک میرا لڑکا (بھی) تو میرے گھر والوں میں داخل تھا اور یقینًا تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب سے بڑا حاکم ہے،
English Sahih:
And Noah called to his Lord and said, "My Lord, indeed my son is of my family; and indeed, Your promise is true; and You are the most just of judges!"
نوحؑ نے اپنے رب کو پکارا کہا "اے رب، میرا بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے اور تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب حاکموں سے بڑا اور بہتر حاکم ہے"
2 Ahmed Raza Khan
اور نوح نے اپنے رب کو پکارا عرض کی اے میرے رب میرا بیٹا بھی تو میرا گھر والا ہے اور بیشک تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب سے بڑا حکم والا
3 Ahmed Ali
اور نوح نے اپنے رب کو پکارا اے رب میرا بیٹا میرے گھر والو ں میں سے ہے اوربے شک تیار وعدہ سچا ہے اور تو سب سے بڑا حاکم ہے
4 Ahsanul Bayan
نوح نے اپنے پروردگار کو پکارا اور کہا میرے رب میرا بیٹا تو میرے گھر والوں میں سے ہے، یقیناً تیرا وعدہ بالکل سچا ہے اور تو تمام حاکموں سے بہتر حاکم ہے (١)۔
٤٥۔١ حضرت نوح علیہ السلام نے غالبا شفقت پدری کے جذبے سے مغلوب ہو کر بارگاہ الٰہی میں یہ دعا کی اور بعض کہتے ہیں کہ انہیں یہ خیال تھا کہ شاید یہ مسلمان ہو جائے گا، اس لئے اس کے بارے میں یہ استدعا کی۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور نوح نے اپنے پروردگار کو پکارا اور کہا کہ پروردگار میرا بیٹا بھی میرے گھر والوں میں ہے (تو اس کو بھی نجات دے) تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب سے بہتر حاکم ہے
6 Muhammad Junagarhi
نوح ﴿علیہ السلام﴾ نے اپنے پروردگار کو پکارا اور کہا کہ میرے رب میرا بیٹا تو میرے گھر والوں میں سے ہے، یقیناً تیرا وعده بالکل سچا ہے اور تو تمام حاکموں سے بہتر حاکم ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور نوح(ع) نے اپنے پروردگار کو پکارا اور کہا اے میرے پروردگار میرا بیٹا میرے اہل میں سے ہے اور یقینا تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور نوح نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ پروردگار میرا فرزند میرے اہل میں سے ہے اور تیرا وعدہ اہل کو بچانے کا برحق ہے اور تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور نوح نے اپنے پروردگار کو پکارا اور کہا کہ پروردگار ! میرا بیٹا بھی میرے گھر والوں میں ہے (تو اسکو بھی نجات دے) تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب سے بہتر حاکم ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿ وَنَادَىٰ نُوحٌ رَّبَّهُ فَقَالَ رَبِّ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي وَإِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ ﴾ ” اور نوح نے اپنے رب کو پکارا اور کہا، بے شک میرا بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے، اور تیرا وعدہ سچا ہے“ اور تو نے مجھ سے فرمایا تھا : ﴿احْمِلْ فِيهَا مِن كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ﴾ ” ہر قسم کے جانداروں میں سے جوڑا جوڑا کشتی میں سوار کرلو اور اپنے گھر والوں کو بھی“ اور تو نے جو وعدہ مجھ سے کیا ہے، تو اس کی خلاف ورزی نہیں کرے گا۔ شاید کہ نوح علیہ السلام کی شفقت پدری نے جوش مارا ہو، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے گھروں والوں کو بچانے کا وعدہ کیا تھا، تو نوح علیہ السلام نے سمجھاکہ یہ وعدہ تمام لوگوں کوشامل ہے خواہ وہ ایمان لائے ہوں یا نہ لائے ہوں، اس لئے انہوں نے اپنے رب سے یہ دعا مانگی۔ مگر اس کے باوجود انہوں نے دعامانگتے ہوئے تمام معاملہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی حکمت بالغہ کے سپرد کردیا اور عرض کیا : ﴿ وَأَنتَ أَحْكَمُ الْحَاكِمِينَ﴾ ” اور تو سب سے بڑا حاکم ہے۔‘‘
11 Mufti Taqi Usmani
aur nooh ney apney perwerdigar ko pukara aur kaha kay : aey meray perwerdigar ! mera beta meray ghar hi ka aik fard hai , aur beyshak tera wada sacha hai , aur tu saray hakimon say barh ker hakim hai !
12 Tafsir Ibn Kathir
نوح (علیہ السلام) کی اپنے بیٹے کے لیے نجات کی دعا اور جواب یاد رہے کہ یہ دعا حضرت نوح (علیہ السلام) کی محض اس غرض سے تھی کہ آپ کو صحیح طور پر اپنے ڈوبے ہوئے لڑکے کا حال معلوم ہوجائے۔ کہتے ہیں کہ پروردگار یہ بھی ظاہر ہے کہ میرا لڑکا میرے اہل میں سے تھا۔ اور میری اہل کو بچانے کا تیرا وعدہ تھا اور یہ بھی ناممکن ہے کہ تیرا وعدہ غلط ہو۔ پھر یہ میرا بچہ کفار کے ساتھ کیسے غرق کردیا گیا ؟ جواب ملا کہ تیری جس اہل کو نجات دینے کا میرا وعدہ تھا ان میں تیرا یہ بچہ داخل نہ تھا، میرا یہ وعدہ ایمانداروں کی نجات کا تھا۔ میں کہہ چکا تھا کہ (وَاَهْلَكَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ مِنْهُمْ ۚ وَلَا تُخَاطِبْنِيْ فِي الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا ۚ اِنَّهُمْ مُّغْرَقُوْنَ 27) 23 ۔ المؤمنون :27) یعنی تیرے اہل کو بھی تو کشتی میں چڑھا لے مگر جس پر میری بات بڑھ چکی ہے وہ بوجہ اپنے کفر کے انہیں میں سے تھا جو میرے سابق علم میں کفر والے اور ڈوبنے والے مقرر ہوچکے تھے۔ یہ بھی یاد رہے کہ جن بعض لوگوں نے کہا ہے یہ دراصل حضرت نوح (علیہ السلام) کا لڑکا تھا ہی نہیں کیونکہ آپ کے بطن سے نہ تھا۔ بلکہ بدکاری سے تھا اور بعض نے کہا ہے کہ یہ آپ کی بیوی کا اگلے گھر کا لڑکا تھا۔ یہ دونوں قول غلط ہیں بہت سے بزرگوں نے صاف لفظوں میں اسے غلط کہا ہے بلکہ ابن عباس اور بہت سے سلف سے منقول ہے کہ کسی نبی کی بیوی نے کبھی زنا کاری نہیں کی۔ پس یہاں اس فرمان سے کہ وہ تیرے اہل میں سے نہیں یہی مطلب ہے کہ تیرے جس اہل کی نجات کا میرا وعدہ ہے یہ ان میں سے نہیں۔ یہی بات سچ ہے اور یہی قول اصلی ہے۔ اس کے سوا اور طرف جانا محض غلطی ہے اور ظاہر خطا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی غیرت اس بات کو قبول نہیں کرسکتی کہ اپنے کسی نبی کے گھر میں زانیہ عورت دے۔ خیال فرمائیے کہ حضرت عائشہ (رض) کی نسبت جنہوں نے بہتان بازی کی تھی ان پر اللہ تعالیٰ کس قدر غضبناک ہوا اس لڑکے کے اہل میں سے نکل جانے کی وجہ خود قرآن نے بیان فرما دی ہے کہ اس کے عمل نیک نہ تھے عکرمہ فرماتے ہیں ایک قرأت (آیت انہ عمل عملا غیر صالح) ہے مسند کی حدیث میں ہے حضرت اسماء بنت یزید فرماتی ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو (اِنَّهٗ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ 46) 11 ۔ ھود :46) پڑھتے سنا ہے اور ( قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ 53) 39 ۔ الزمر :53) پڑھتے سنا ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) سے سوال ہوا کہ (آیت فخانتا ھما) کا کیا مطلب ہے ؟ آپ نے فرمایا اس سے مراد زنا نہیں بلکہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی بیوی کی خیانت تو یہ تھی کہ لوگوں سے کہتی تھی یہ مجنون ہے۔ اور حضرت لوط کی بیوی کی خیانت یہ تھی کہ جو مہمان آپ کے ہاں آتے اپنی قوم کو خبر کردیتی۔ پھر آپ نے فرمایا اللہ سچا ہے اس نے اسے حضرت نوح کا لڑکا فرمادیا ہے۔ پس وہ یقیناً حضرت نوح کا ثابت النسب لڑکا ہی تھا۔ دیکھو اللہ فرماتا ہے ( ونادی نوح نبنہ) اور یہ بھی یاد رہے کہ بعض علماء کا قول ہے کہ کسی نبی کی بیوی نے کبھی زنا کاری نہیں کی ایسا ہی حضرت مجاہد سے مروی ہے۔ اور یہی ابن جریر کا پسندیدہ ہے۔ اور فی الواقع ٹھیک اور صحیح بات بھی یہی ہے۔