ہود آية ۹
وَلَٮِٕنْ اَذَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَةً ثُمَّ نَزَعْنٰهَا مِنْهُۚ اِنَّهٗ لَيَـــُٔوْسٌ كَفُوْرٌ
طاہر القادری:
اور اگر ہم انسان کو اپنی جانب سے رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں پھر ہم اسے (کسی وجہ سے) اس سے واپس لے لیتے ہیں تو وہ نہایت مایوس (اور) ناشکرگزار ہو جاتا ہے،
English Sahih:
And if We give man a taste of mercy from Us and then We withdraw it from him, indeed, he is despairing and ungrateful.
1 Abul A'ala Maududi
اگر کبھی ہم انسان کو اپنی رحمت سے نوازنے کے بعد پھر اس سے محروم کر دیتے ہیں تو وہ مایوس ہوتا ہے اور ناشکری کرنے لگتا ہے
2 Ahmed Raza Khan
اور اگر ہم آدمی کو اپنی کسی رحمت کا مزہ دیں پھر اسے اس سے چھین لیں ضرور وہ بڑا ناامید ناشکرا ہے
3 Ahmed Ali
اور اگر ہم انسان کو اپنی رحمت کا مزہ چکھا کر پھر اس سے چھین لیتے ہیں تو وہ ناامید ناشکرا ہو جاتا ہے
4 Ahsanul Bayan
اگر ہم انسان کو اپنی کسی نعمت کا ذائقہ چکھا کر پھر اسے اس سے لے لیں تو وہ بہت ہی ناامید اور بڑا نا شکرا بن جاتا ہے (١)
٩۔١ انسانوں میں عام طور پر جو مذموم صفات پائی جاتی ہیں اس میں اور اگلی آیت میں ان کا بیان ہے۔ نا امیدی کا تعلق مستقبل سے ہے اور ناشکری کا ماضی و حال سے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور اگر ہم انسان کو اپنے پاس سے نعمت بخشیں پھر اس سے اس کو چھین لیں تو ناامید (اور) ناشکرا (ہوجاتا) ہے
6 Muhammad Junagarhi
اور اگر ہم انسان کو اپنی کسی نعمت کا ذائقہ چکھا کر پھر اسے اس سے لے لیں تو وه بہت ہی ناامید اور بڑا ہی ناشکرا بن جاتا ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور اگر ہم انسان کو اپنی طرف سے رحمت کا مزہ چکھائیں (کسی نعمت سے نوازیں) اور پھر اسے اس سے چھین لیں تو وہ بڑا مایوس اور بڑا ناشکرا ہو جاتا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور اگر ہم انسان کو رحمت دے کر چھین لیتے ہیں تو مایوس ہوجاتا ہے اور کفر کرنے لگتا ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور اگر ہم انسان کو اپنے پاس سے نعمت بخشیں پھر اس سے اسکو چھین لیں تو ناامید (اور) ناشکرا (ہوجاتا ہے )
آیت نمبر ٩ تا ٢٤
ترجمہ : اور اگر ہم کافر انسان کو اپنی رحمت) مثلاً ( مالداری اور صحت سے نوازنے کے بعد اس کو رحمت سے محروم کردیتے ہیں تو وہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہو کر اس رحمت کی بےحد ناشکری کرنے لگتا ہے، اور اگر اس مصیبت کے بعد جو اس پر آپڑی تھی) مثلاً ( فقر اور سختی، ہم اس کو نعمتوں کا مزا چکھا دیتے ہیں تو کہنے لگتا ہے کہ میرے سب دکھ دور ہوگئے اور ان نعمتوں کے زوال کا خیال بھی نہیں کرتا اور نہ ان پر شکر ادا کرتا ہے) اور ( وہ اترانے لگتا ہے اور جو کچھ اس کا دیا گیا ہے اس کی وجہ سے لوگوں پر شیخی بگھارنے لگتا ہے، مگر جو لوگ مصیبتوں پر صبر کرتے ہیں اور نعمتوں میں نیک عمل کرتے ہیں یہی ہیں وہ لوگ ہیں کہ جن کیلئے مغفرت ہے اور بڑا اجر ہے وہ جنت ہے، تو اے محمد ایسا نہ ہو کہ قرآن سے ان کی بےتوجہی کہ وجہ سے اس وحی کے کچھ حصے کو جو آپ کی طرف بھیجی جاتی ہے ان تک پہنچانے کو چھوڑ دیں اور ان کو قرآن سنانے سے ان کی اس بات کی وجہ سے تنگ دل ہوتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ کس لئے ان پر ہماری تجویز کے مطابق خزانہ نازل نہیں کیا گیا یا کس لئے ان کے ساتھ فرشتہ نہیں آیا جو ان کی تصدیق کرتا، آپ تو صرف آگاہ کرنے والے ہیں آپ کی ذمہ داری تو صرف پہنچا دینا ہے نہ کہ وہ سب کچھ کردکھانا جس کا انہوں نے مطالبہ کیا ہے اور اللہ ہر شئ پر پورا اختیار رکھنے والا ہے تو وہ ان کو سزا دے گا کیا یہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس نے قرآن خود گھڑ لیا ہے تو) جواب میں ( آپ کہئے کہ تم بھی فصاحت و بلاغت میں میرے جیسے فصیح عرب ہو لہٰذا اس کے جیسی دس سورتیں گھڑ کرلے آو، اولاً ان کو دس سورتوں سے چیلنج دیا) اور ( پھر ایک سورت سے۔ اور اس کام میں مدد کے لئے اللہ کے سوا جس کو تم بلاسکتے ہو بلالو اگر تم اس دعوے میں سچے ہو کہ اس کو اس نے خود گھڑ لیا ہے۔ پس اگر وہ غیر جن کو تم نے مدد کیلئے پکارا ہے تمہاری پکار کا جواب نہ دیں تو سمجھ لو خطاب مشرکوں کو ہے کہ یہ) قرآن ( خدا ہی کے علم کے ساتھ اتارا گیا ہے اور اس پر افتراء نہیں ہے اور یہ بھی یقین کرلو انْ مخففہ عن الثقیلہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو کیا تم اس حجت قاطعہ کے بعد بھی مسلمان ہوتے ہو ؟ یعنی مسلمان ہوجاو، جس شخص نے دنیوی زندگی اور اس کی رونق ہی کو مقصد بنا لیا ہے بایں طور کہ اس نے شرک پر اصرار کیا، اور کہا گیا ہے کہ یہ آیت ریاکاروں کے بارے میں نازل ہوئی ہے تو ہم ان کے اعمال خیر مثلاً صدقہ اور صلہ رحمی کا صلہ) دنیا ہی میں ( پورا پورا دیتے ہیں بایں طور کہ ہم ان کے رزق میں وسعت کردیتے ہیں اور دنیا میں ان کے صلہ میں کچھ کمی نہیں کی جاتی) سو ( یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کے لئے آخرت میں ناز جہنم کے سوا کچھ نہیں، اور جو کچھ انہوں نے عمل خیر کیا آخرت میں سب ضائع ہوگا تو ان کو کچھ اجر نہ ملے گا اور جو) عمل خیر (وہ کرتے رہے ہیں سب باطل ہوجائیگا، کیا وہ شخص جو اپنے رب کی جانب سے دلیل پر ہو اور وہ) دلیل ( قرآن ہے اور وہ شخص نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا مومنین ہیں اور اس کے ساتح اللہ کی طرف سے شاہد بھی ہو کہ جو اس کی تصدیق کرتا ہو اور وہ جبرئیل (علیہ السلام) ہیں اور قرآن سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) کی کتاب تورات بھی اس کی شاہد ہے، حال یہ ہے کہ وہ پیشوا اور رحمت ہے اس شخص کے برابر جو ایسا نہیں ہے، ہوسکتا ہے ؟ نہیں ہوسکتا اور یہی لوگ جو دلیل پر ہیں قرآن پر ایمان رکھتے ہیں تو ان کیلئے جنت ہے اور تمام کفار میں سے جو فریق بھی اس کا منکر ہوگا تو اس کیلئے جس جگہ کا وعدہ ہے وہ دوزخ ہے تو قرآن کے بارے میں کسی شک میں نہ رہ بالقین قرآن تیرے رب کی جانب سے سراسر حق ہے لیکن اکثر لوگ) یعنی ( اہل مکہ یقین کرنے والے نہیں ہیں اور اس سے بڑا ظالم کون ہوگا کہ جو اللہ کی طرف شریک اور ولد کی نسبت کرکے اللہ پر جھوٹا بہتان لگاتا ہے ؟ کوئی نہیں ہوگا ایسے لوگ منجملہ دیگر لوگوں کے قیامت کے دن اپنے رب کے سامنے پیش کئے جائیں گے) اشھاد ( شاھد کی جمع ہے مراد فرشتے ہیں رسولوں کے بارے میں پیغام رسانی کی اور کفار کے بارے میں جھٹلانے کی گواہی دیں گے گواہ کہیں گے یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کے متعلق جھوٹی باتیں کہی تھیں، سب سن لو ایسے ظالموں مشرکوں پر اللہ کی لعنت ہے جو اللہ کے راستے سے دین اسلام سے روکتے تھے اور ٹیڑھے راستہ کی جستجو میں لگے رہتے تھے اور یہ لوگ آخرت کے بھی منکر تھے، ھُمْ سابق ھم کی تاکید ہے یہ لوگ روئے زمین پر اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے تھے اور نہ کوئی غیر اللہ ان کا مددگار ہوگا جو ان سے اللہ کے عذاب کو دفع کرسکے، دوسروں کو گمراہ کرنے کی وجہ سے ایسوں کو دوگنی سزا ہوگی یہ لوگ نفرت کی وجہ سے نہ حق بات سن سکتے تھے اس سے شدید کراہت کی وجہ سے گویا کہ ان میں اس کی طاقت ہی نہیں تھی یہ وہ لوگ ہیں جو دائمی آگ کی طرف لوٹنے کی وجہ سے خود کو برباد کر بیٹھے اللہ پر جو دعوائے شریک گھڑا تھا سب بھول جائیں گے یقینی بات ہے کہ آخرت میں یہی لوگ سب سے زیادہ خسارہ میں ہوں گے، بلاشبہ وہ لوگ جو اللہ پر ایمان لائے اور نیک عمل کئے اور) دل سے ( اپنے رب کی جانب جھکے اور ان کو اطمینان ہوا اور) اس کی طرف ( رجوع کیا، ایسے لوگ اہل جنت ہیں اور اس میں ہمیشہ رہیں گے دونوں فریقوں یعنی کافروں اور مومنوں کی حالت ایسی ہے جیسے ایک شخص اندھا اور بہرا ہو یہ مثال کافر کی ہے اور ایک شخص ایسا ہو کہ جو دیکھتا بھی ہو اور سنتا بھی ہو یہ مثال مومن کی ہے، کیا دونوں شخص حالت میں برابر ہوسکتے ہیں ؟ نہیں ہوسکتے، کیا تم سمجھتے نہیں ہو ؟ اس میں اصل میں تاء کا ذال میں ادغام، کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے ؟
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : وَلَئِن اَذَقْنَا الْانسَانَ مِنّا رحمۃً ) الآیۃ (لَئنْ میں لام قسمیہ ہے، انَّہ لَیئوس کفور، جواب قسم ہے اور جواب شرط محذوف ہے مِنّا
حال ہے رحمۃً ۔ اَذَقنا کا مفعول ثانی ہے، مِنّا اصل میں رحمۃً کی صفت ہے مقدم ہونے کی وجہ سے حال ہوگئی۔
قولہ : لیئوس اور کفور، یہ دونوں مبالغہ کے صیغے ہیں اور یہ دونوں اِنَّ کی خبریں ہیں۔
قولہ : الکافر، اس میں اشارہ ہے کہ الانسان میں الف لام عہد کا ہے۔
قولہ : شدید الکفر بہ یہ کفور کے صیغہ مبالغہ ہونے کی طرف اشارہ ہے۔
قولہ : ولم یتوقع زوَالَھا اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ذھَبَ السیئات میں مصائب کے صرف ختم ہونے ہی کی طرف اشارہ نہیں ہے بلکہ قائل نے ان مصائب کے عدم عود کا ارادہ کیا ہے، یعنی اب حاصل شدہ نعمتوں کے زوال کا اندیشہ نہیں ہے۔
قولہ : لکن اِلاّ کی تفسیر لکن سے کرکے اشارہ کردیا کہ یہ مستثنیٰ ہے اسلئے کہ لئن اَذقنا الانسانَ میں انسان سے مراد انسان کافر ہے لہٰذا اَلَّذینَ صبروا اس میں داخل نہ ہوں گے۔
قولہ : بیان، بیّنۃ کی تفسیر بیان سے کرکے ایک سوال کا جواب دینا مقصود ہے۔
سوال : اللہ تعالیٰ کے قول یتلوہ کی ضمیر بینۃ کی طرف راجع ہے ضمیر اور مرجع میں مطابقت نہیں ہے۔
جواب : جواب کا حاصل یہ ہے کہ بینۃ معنی میں بیان کے ہے۔
قولہ : ھو النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) او المومنون یہ مَنْ کانَ علیٰ بیْنۃ میں مَنْ کے مصداق کی وضاحت ہے مَن کے مصداق میں دو احتمال ہیں ایک تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دوسرا مومنون اور وھی القرآن، بینۃ کے مصداق کا بیان ہے۔
قولہ : حَال، ای ھما حالان من کتاب موسیٰ (علیہ السلام) ۔
قولہ : کمن لیس کذلک، مفسر علام نے اس جملہ کا اضافہ کرکے اشارہ کردیا کہ اَفَمَنْ کانَ الخ مبتداء کی خبر محذوف ہے اور وہ کمنْ لیسَ کذلک ہے۔
قولہ : لا اس میں اشارہ ہے کہ اَفَمَنْ کان علی بینۃ میں ہمزہ انکاری ہے۔
قولہ : یَطلبُون السبیل یہ اس سوال کا جواب ہے کہ یَبْغونھا کی ضمیر سبیل کی طرف لوٹ رہی ہے حالانکہ ضمیر مونث ہے اور سبیل مذکر ہے جواب کا حاصل یہ ہے کہ لفظ سبیل مذکر اور مونث دونوں طرح مستعمل ہے۔
تفسیر و تشریح
وَلَئِن اَذقنَا الْانسَانَ ) الآیۃ ( پہلی اور دوسری آیت میں بشری طبیعت اور ایک طبعی عادت قبیحہ کا ذکر ہے، اور مسلمانوں کو
اس سے بچنے کی ہدایت ہے، ارشاد ربانی ہے کہ اگر ہم انسان کو کوئی نعمت چکھا دیتے ہیں اور پھر اس سے واپس لے لیتے ہیں تو ناامید اور ناشکرا ہوجاتا ہے، اور اگر کسی تکلیف کے بعد کسی نعمت کا مزا چکھا دیتے ہیں تو کہنے لگتا ہے کہ میرے سب دکھ درد دور ہوگئے، اور وہ اترانے اور دوسروں پر فوقیت جتانے اور شیخی بگھارنے لگتا ہے مطلب یہ کہ انسان فطرۃ عجلت پسند اور زود رنج واقع ہوا ہے گذشتہ پر ناشکری اور آئندہ سے مایوسی یہی اس کی زندگی کا حاصل ہے، اگر خدا چند روز اپنی مہربانی سے عیش و آرام میں رکھنے کے بعد کسی تکلیف سے دو چار کردیتا ہے تو پچھلی مہربانیاں بھی بھلا دیتا ہے اور ناامید ہو کر آئندہ کیلئے آس توڑ بیٹھتا ہے۔
اِلا الذین صَبَروا وعملوا لصّٰلحٰت) الآیۃ ( اوپر جو عام لوگوں کا حال بیان ہوا ہے اس سے اللہ کے وہ بندے مستثنی ہیں جو تکلیف و مصیبت کا مقابلہ صبر و استقامت سے کرتے ہیں اور امن و راحت کے وقت شکر گزاری کے ساتھ عمل صالح میں مستعدی سے لگے رہتے ہیں، مذکورہ صفات کے حاملین کے بارے میں کہا گیا ہے کہ انکی خطائیں بخشدی جائیں گی اور ان کو ان کے اعمال کا بڑا اجر ملے گا
شان نزول : فَلَعلَّکَ تارِک بعض ما یوحٰی اِلیکَ یہ آیت ایک واقعہ میں نازل ہوئی ہے واقعہ یہ تھا کہ مشرکین مکہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے مختلف قسم کی فرمائشیں پیش کیں جن میں ایک یہ کہ اس قرآن میں چونکہ ہمارے بتوں کو برا کہا گیا ہے اس لئے ہم اس پر ایمان نہیں لاسکتے اسلئے آپ یا تو کوئی دوسرا قرآن لائیں یا اسی میں ترمیم کرکے ہمارے بتوں کی مذمت نکال دیں، ائتِ بقرآن غیر ھذا او بدّلہُ ۔ دوسرے یہ کہ ہم آپ کے رسول ہونے پر جب یقین کریں گے کہ یا تو دنیا کے بادشاہوں کی طرح آپ پر کوئی خزانہ نازل ہوجائے جس سے سب لوگ استفادہ کریں، یا پھر کوئی فرشتہ آسمان سے آجائے وہ آپ کے ساتھ یہ تصدیق کرتا پھرے کہ بیشک یہ اللہ کے رسول ہیں۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی بیہودہ فرمائشوں سے بہت دل تنگ ہوتے تھے اسلئے کہ یہ فرمائشیں محض بےعقلی پر مبنی تھیں، تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی دل جوئی اور تسلی کیلئے یہ آیت نازل فرمائی جس میں کہا گیا ہے کہ کچھ باتیں جو آپ کی جانب وحی کی گئی ہیں اور وہ مشرکین کو گراں گذرتی ہیں، ممکن ہے کہ آپ وہ باتیں انھیں سنانا پسند نہ کریں آپ کا کام صرف انذار و تبلیغ ہے وہ آپ ہر صورت میں کئے جائیں۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کی فطرت کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے کہ وہ جاہل اور ظالم ہے بایں طور کہ جب اللہ تعالیٰ اسے اپنی رحمت کا مزا چکھاتا ہے، مثلاً اسے صحت، رزق اور اولاد وغیرہ سے نوازتا ہے، پھر وہ اس سے چھین لیتا ہے، تو مایوسی اور ناامیدی کے سامنے جھک جاتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے ثواب کی اسے ذرہ بھر امید نہیں رہتی ہے اور اس کے دل میں یہ خیال تک نہیں گزرتا کہ اللہ تعالیٰ کی یہ تمام چیزیں دوبارہ عطا کرسکتا ہے یا ان جیسی اور چیزوں سے یا ان سے بہتر چیزوں سے اسے نواز سکتا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur jab hum insan ko apni taraf say kissi rehmat ka maza chakha detay hain , phir woh uss say wapis ley letay hain to woh mayyus ( aur ) nashukra ban jata hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
انسان کا نفسیاتی تجزیہ
سوائے کامل ایمان والوں کے عموماً لوگوں میں جو برائیاں ہیں ان کا بیان ہو رہا ہے کہ راحت کے بعد کی سختی پر مایوس اور محض ناامید ہوجاتے ہیں اللہ سے بدگمانی کر کے آئندہ کے لیے بھلائی کو بھول بیٹھتے ہیں گویا کہ نہ کبھی اس سے پہلے کوئی آرام اٹھایا تھا نہ اس کے بعد کسی راحت کی توقع ہے۔ یہی حال اس کے برخلاف بھی ہے اگر سختی کے بعد آسانی ہوگئی تو کہنے لگتے ہیں کہ بس اب برا وقت ٹل گیا۔ اپنی راحت اپنی تن آسانیوں پر مست و بےفکر ہوجاتے ہیں۔ دوسروں کا استہزاء کرنے لگتے ہیں۔ اکڑ فوں میں پڑجاتے ہیں اور آئندہ کی سختی کو بالکل فراموش کردیتے ہیں۔ ہاں ایماندار اس بری خصلت سے محفوظ رہتے ہیں، وہ دکھ درد میں صبر و استقامت سے کام لیتے ہیں راحت و آرام میں اللہ کی فرمان برداری کرتے ہیں۔ یہ صبر پر مغفرت اور نیکی پر ثواب پاتے ہیں۔ چناچہ حدیث شریف میں ہے۔ اس کی قسم جس کے ہاتھ میری جان ہے کہ مومن کو کوئی سختی کوئی مصیبت کوئی دکھ، کوئی غم ایسا نہیں پہنچتا جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کی خطائیں معاف نہ فرماتا ہو، یہاں تک کہ کانٹا لگنے پر بھی۔ بخاری و مسلم کی ایک اور حدیث میں ہے مومن کے لیے اللہ تعالیٰ کا ہر فیصلہ سراسر بہتر ہے۔ یہ راحت پاکر شکر کرتا ہے اور بھلائی سمیٹتا ہے۔ تکلیف اٹھاکر صبر کرتا ہے، نیکی پاتا ہے اور ایسا حال مومن کے سوا اور کسی کا نہیں ہو۔ اسی کا بیان سورة والعصر میں ہے۔ یعنی عصر کے وقت کی قسم تمام انسان نقصان میں ہیں سوائے ان کے جو ایمان لائیں اور ساتھ ہی نیکیاں بھی کریں اور ایک دوسرے کو دین حق کی اور صبر کی ہدایت کرتے رہیں یہی بیان ( اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ هَلُوْعًا 19ۙ ) 70 ۔ المعارج :19) میں ہے۔