انہوں نے کہا: اے ہمارے باپ! آپ کو کیا ہوگیا ہے آپ یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں ہم پر اعتبار نہیں کرتے حالانکہ ہم یقینی طور پر اس کے خیر خواہ ہیں،
English Sahih:
They said, "O our father, why do you not entrust us with Joseph while indeed, we are to him sincere counselors?
1 Abul A'ala Maududi
اس قرارداد پر انہوں نے جا کر اپنے باپ سے کہا "ابا جان، کیا بات ہے کہ آپ یوسفؑ کے معاملہ میں ہم پر بھروسہ نہیں کرتے حالانکہ ہم اس کے سچے خیر خواہ ہیں؟
2 Ahmed Raza Khan
بولے اے ہمارے باپ! آپ کو کیا ہوا کہ یوسف کے معامل ہ میں ہمارا اعتبار نہیں کرتے اور ہم تو اس کے خیر خواہ ہیں،
3 Ahmed Ali
انہوں نے کہااےباپ کیا بات ہے کہ تو یوسف پر ہمارا اعتبار نہیں کرتا اور ہم تو اس کے خیر خواہ ہیں
4 Ahsanul Bayan
انہوں نے کہا ابا! آخر آپ یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں ہم پر اعتبار کیوں نہیں کرتے ہم تو اس کے خیر خواہ ہیں (١)۔
١١۔١ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید اس سے قبل بھی برداران یوسف علیہ السلام نے یوسف علیہ السلام کو اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش کی ہوگی اور باپ نے انکار کر دیا ہوگا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(یہ مشورہ کر کے وہ یعقوب سے) کہنے لگے کہ اباجان کیا سبب ہے کہ آپ یوسف کے بارے میں ہمارا اعتبار نہیں کرتے حالانکہ ہم اس کے خیرخواہ ہیں
6 Muhammad Junagarhi
انہوں نے کہا ابا! آخر آپ یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں ہم پر اعتبار کیوں نہیں کرتے ہم تو اس کے خیر خواه ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
(اس قرارداد کے بعد) انہوں نے کہا اے ہمارے والد! کیا بات ہے کہ آپ یوسف کے بارے میں ہمارا اعتبار نہیں کرتے حالانکہ ہم تو اس کے بڑے خیرخواہ ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ان لوگوں نے یعقوب سے کہا کہ بابا کیا بات ہے کہ آپ یوسف کے بارے میں ہم پر بھروسہ نہیں کرتے ہیں حالانکہ ہم ان پر شفقت کرنے والے ہیں
9 Tafsir Jalalayn
(یہ مشورہ کرکے وہ یعقوب سے) کہنے لگے کہ ابا جان کیا سبب ہے کہ آپ یوسف کے بارے میں ہمارا اعتبار نہیں کرتے حالانکہ ہم اسکے خیر خواہ ہیں ؟
10 Tafsir as-Saadi
یعنی جناب یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے اپنے باپ سے کہا ﴿یٰٓاَبَانَا مَالَکَ لَا تَاْمَنَّا عَلٰی یُوْسُفَ﴾اباجان کیا وجہ ہے کہ آپ یوسف کے بارے میں ہمارا اعتبار نہیں کرتے۔ یعنی کون سی چیز بغیر کسی سبب اور موجب کے یوسف کے بارے میں آپ کو ہم سے خائف کر رہی ہے اور حال یہ ہے کہ﴿ وَاِنَّا لَہٗ لَنٰصِحُوْنَ﴾’’ہم اس کے خیر خواہ ہیں۔‘‘ یعنی ہم اس پر شفقت رکھتے ہیں اور ہم اس کے لیے وہی کچھ چاہتے ہیں جو اپنے لیے چاہتے ہیں۔ برادران یوسف کا یہ قول دلالت کرتا ہے کہ یعقوب علیہ السلام حضرت یوسف علیہ السلام کو ان کے بھائیوں کے ساتھ جنگل وغیرہ کی طرف نہیں جانے دیا کرتے تھے۔ جب انہوں نے اپنے آپ سے اس تہمت کو رفع کردیا جو یوسف علیہ السلام کو ان کے ساتھ بھیجنے سے مانع تھی تو انہوں نے یوسف علیہ السلام کے بارے میں اس مصلحت کا ذکر کیا جسے یعقوب علیہ السلام پسند کرتے تھے جو اس امر کا تقاضا کرتی تھی کہ وہ یوسف علیہ السلام کو ان کے ساتھ بھیج دیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
. ( chunacheh ) unn bhaiyon ney ( apney walid say ) kaha kay : abba ! yeh aap ko kiya hogaya hai kay aap yousuf kay moamlay mein hum per itminan nahi kertay-? halankay iss mein koi shak naa hona chahiye kay hum uss kay pakay khair khuwa hain .
12 Tafsir Ibn Kathir
بڑے بھائی کی رائے پر اتفاق بڑے بھائی روبیل کے سمجھانے پر سب بھائیوں نے اس رائے پر اتفاق کرلیا کہ یوسف کو لے جائیں اور کسی غیر آباد کنویں میں ڈال آئیں۔ یہ طے کرنے کے بعد باپ کو دھوکہ دینے اور بھائی کو پھسلا کرلے جانے اور اس پر آفت ڈھانے کے لیے سب مل کر باپ کے پاس آئے۔ باوجود یکہ تھے بد اندیش بد خواہ برا چاہنے والے لیکن باپ کو اپنی باتوں میں پھنسانے کے لیے اور اپنی گہری سازش میں انہیں الجھانے کے لیے پہلے ہی جال بچھاتے ہیں کہ ابا جی آخر کیا بات ہے جو آپ ہمیں یوسف کے بارے میں امین نہیں جانتے ؟ ہم تو اس کے بھائی ہیں اس کی خیر خواہیاں ہم سے زیادہ کون کرسکتا ہے۔ ؟ (يَّرْتَعْ وَيَلْعَبْ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ 12 ) 12 ۔ یوسف :12) کی دوسری قرآت (آیت ترتع و نلعب) بھی ہے۔ باپ سے کہتے ہیں کہ بھائی یوسف کو کل ہمارے ساتھ سیر کے لیے بھیجئے۔ ان کا جی خوش ہوگا، دو گھڑی کھیل کود لیں گے، ہنس بول لیں گے، آزادی سے چل پھر لیں گے۔ آپ بےفکر رہیے ہم سب اس کی پوری حفاظت کریں گے۔ ہر وقت دیکھ بھال رکھیں گے۔ آپ ہم پر اعتماد کیجئے ہم اس کے نگہبان ہیں۔