یوسف آية ۲۱
وَقَالَ الَّذِى اشْتَرٰٮهُ مِنْ مِّصْرَ لِامْرَاَتِهٖۤ اَكْرِمِىْ مَثْوٰٮهُ عَسٰۤى اَنْ يَّـنْفَعَنَاۤ اَوْ نَـتَّخِذَهٗ وَلَدًا ۗ وَكَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوْسُفَ فِى الْاَرْضِ ۖوَلِنُعَلِّمَهٗ مِنْ تَأْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِۗ وَاللّٰهُ غَالِبٌ عَلٰۤى اَمْرِهٖ وَلٰـكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ
طاہر القادری:
اور مصر کے جس شخص نے اسے خریدا تھا (اس کا نام قطفیر تھا اور وہ بادشاہِ مصر ریان بن ولید کا وزیر خزانہ تھا اسے عرف عام میں عزیزِ مصر کہتے تھے) اس نے اپنی بیوی (زلیخا) سے کہا: اسے عزت و اکرام سے ٹھہراؤ! شاید یہ ہمیں نفع پہنچائے یا ہم اسے بیٹا بنا لیں، اور اس طرح ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو زمین (مصر) میں استحکام بخشا اور یہ اس لئے کہ ہم اسے باتوں کے انجام تک پہنچنا (یعنی علمِ تعبیرِ رؤیا) سکھائیں، اور اﷲ اپنے کام پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے،
English Sahih:
And the one from Egypt who bought him said to his wife, "Make his residence comfortable. Perhaps he will benefit us, or we will adopt him as a son." And thus, We established Joseph in the land that We might teach him the interpretation of events [i.e., dreams]. And Allah is predominant over His affair, but most of the people do not know.
1 Abul A'ala Maududi
مصر کے جس شخص نے اسے خریدا اس نے اپنی بیوی سے کہا "اِس کو اچھی طرح رکھنا، بعید نہیں کہ یہ ہمارے لیے مفید ثابت ہو یا ہم اسے بیٹا بنا لیں" اس طرح ہم نے یوسفؑ کے لیے اُس سرزمین میں قدم جمانے کی صورت نکالی اور اسے معاملہ فہمی کی تعلیم دینے کا انتظام کیا اللہ اپنا کام کر کے رہتا ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں
2 Ahmed Raza Khan
اور مصر کے جس شخص نے اسے خریدا وہ اپنی عورت سے بولا انہیں عزت سے رکھو شاید ان سے ہمیں نفع پہنچے یا ان کو ہم بیٹا بنالیں اور اسی طرح ہم نے یوسف کو اس زمین میں جماؤ (رہنے کا ٹھکانا) دیا اور اس لیے کہ اسے باتوں کا انجام سکھائیں ۰ف۵۳) اور اللہ اپنے کام پر غالب ہے مگر اکثر آدمی نہیں جانتے،
3 Ahmed Ali
اور جس نے اسے مصر میں خرید کیا اس نے اپنی عورت سے کہا اس کی عزت کر شاید ہمارے کام آئے یا ہم اسے بیٹا بنا لیں اس طرح ہم نے یوسف کو اس ملک میں جگہ دی اور تاکہ ہم اسے خواب کی تعبیر سکھائیں اور الله اپنا کام جیت کر رہتا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے
4 Ahsanul Bayan
مصر والوں میں سے جس نے اسے خریدا تھا اس نے اپنی بیوی (١) سے کہا کہ اسے بہت عزت و احترام کے ساتھ رکھو، بہت ممکن ہے کہ یہ ہمیں فائدہ پہنچائے یا اسے ہم اپنا بیٹا ہی بنا لیں، یوں ہم نے مصر کی سرزمین پر یوسف کا قدم جما دیا (٢)، کہ ہم اسے خواب کی تعبیر کا کچھ علم سکھا دیں۔ اللہ اپنے ارادے پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ بےعلم ہوتے ہیں۔
٢١۔١ کہا جاتا ہے کہ مصر پر اس وقت ریان بن ولید حکمران تھا اور یہ عزیز مصر، جس نے یوسف علیہ السلام کو خریدا اس کا وزیر خزانہ تھا، اس کی بیوی کا نام بعض نے راعیل اور بعض نے زلیخا بتلایا ہے واللہ اعلم۔
٢١۔٢ یعنی جس طرح ہم نے یوسف علیہ السلام کو کنویں سے ظالم بھائیوں سے نجات دی، اسی طرح ہم نے یوسف علیہ السلام کو سرزمین مصر میں ایک معقول اچھا ٹھکانا عطا کیا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور مصر میں جس شخص نے اس کو خریدا اس نے اپنی بیوی سے (جس کا نام زلیخا تھا) کہا کہ اس کو عزت واکرام سے رکھو عجب نہیں کہ یہ ہمیں فائدہ دے یا ہم اسے بیٹا بنالیں۔ اس طرح ہم نے یوسف کو سرزمین (مصر) میں جگہ دی اور غرض یہ تھی کہ ہم ان کو (خواب کی) باتوں کی تعبیر سکھائیں اور خدا اپنے کام پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے
6 Muhammad Junagarhi
مصر والوں میں سے جس نے اسے خریدا تھا اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ اسے بہت عزت واحترام کے ساتھ رکھو، بہت ممکن ہے کہ یہ ہمیں فائده پہنچائے یا اسے ہم اپنا بیٹا ہی بنا لیں، یوں ہم نے مصر کی سرزمین میں یوسف کا قدم جما دیا کہ ہم اسے خواب کی تعبیر کا کچھ علم سکھا دیں۔ اللہ اپنے ارادے پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ بے علم ہوتے ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
اور پھر (اس قافلہ والوں سے) مصر کے جس شخص (عزیزِ مصر) نے اسے (دوبارہ) خریدا تھا اس نے اپنی بیوی (زلیخا) سے کہا اسے عزت کے ساتھ رکھنا ہو سکتا ہے کہ ہمیں کچھ فائدہ پہنچائے یا ہم اسے اپنا بیٹا بنا لیں! اور اسی طرح (حکمتِ عملی سے) ہم نے اس (یوسف (ع)) کو سر زمینِ مصر میں تمکین دی (زمین ہموار کی تاکہ اسے اقتدار کیلئے منتخب کریں) اور خوابوں کی تعبیر کا علم عطا کریں اور اللہ اپنے ہر کام پر غالب ہے (اور اس کے انجام دینے پر قادر ہے) لیکن اکثر لوگ (یہ حقیقت) نہیں جانتے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور مصر کے جس شخص نے انہیں خریدا تھا اس نے اپنی بیوی سے کہاکہ اسے عزّت و احترام کے ساتھ رکھو شاید یہ ہمیں کوئی فائدہ پہنچائے یا ہم اسے اپنا فرزند بنالیں اور اس طرح ہم نے یوسف کو زمین میں اقتدار دیا اور تاکہ اس طرح انہیں خوابوں کی تعبیر کا علم سکھائیں اور اللہ اپنے کام پر غلبہ رکھنے والا ہے یہ اور بات ہے کہ اکثر لوگوں کو اس کا علم نہیں ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور مصر میں جس شخص نے اس کو خریدا اس نے اپنی بیوی سے (جس کا نام زلیخا تھا) کہ اس کو عزت و اکرام سے رکھو \& عجب نہیں کہ یہ ہمیں فائدہ دے یا ہم اسے بیٹا بنالیں۔ اس طرح ہم نے یوسف کو سر زمین (مصر) میں جگہ دی اور غرض یہ تھی کہ ہم ان کو (خواب کی) باتوں کی تعبیر سکھائیں اور خدا اپنے کام پر غالب ہے اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔
آیت نمبر ٢١ تا ٢٩
ترجمہ : اور اس مصری شخص نے جس نے یوسف کو خریدا تھا جس کا نام قِطْفیر اور (لقب) عزیز تھا، اپنی بیوی زلیخا سے کہا اس کو عزت اور احترام کے ساتھ رکھنا (یعنی اس کو عزت کا مقام دینا اور اچھی طرح دیکھ بھال کرنا) بعید نہیں کہ ہمارے لئے نفع بخش ثابت ہو یا ہم اس کو اپنا بیٹا ہی بنالیں اور عزیز عنّین (نامرد) تھا، اور جس طرح ہم نے یوسف کو قتل اور کنویں سے نجات دی اور عزیز مصر کے دل کو اس کی طرف مائل کیا، اسی طرح ہم نے یوسف کو ملک مصر میں اقتدار عطا کیا حتی کہ وہ پہنچے جس مرتبہ پر پہنچے، (اور ہم نے ان کو قدرت دی) تاکہ ہم اس کو خوابوں کی تعبیر سکھائیں (لِنعلِّمَہٗ ) کا عطف لنملکہٗ محذوف پر ہے جو مکَّنا سے متعلق ہے (تقدیر یہ ہے) ای مکّنا لِنُعلَّمہٗ ، یا واؤ زائدہ ہے، اور اللہ اپنے ارادہ پر غالب ہے اس کو کوئی شئ عاجز نہیں کرسکتی، لیکن اکثر لوگ کہ وہ کافر ہیں اس سے بیخبر ہیں جب یوسف پختہ عمر کو پہنچ گئے اور وہ ٣٠ یا ٣٣ سال ہے، تو ہم نے ان کو حکمت اور تفقہ فی الدین منصب نبوت پر فائز کرنے سے پہلے عطا کئے اور ہم اپنے اعمال میں نیکوکاروں کو اسی طرح کی جزاء دیتے ہیں اور وہ عورت کہ جس کے گھر میں وہ تھے اور وہ زلیخا تھی ان پر ڈورے ڈالنے لگی (یعنی پھنسانے کی کوشش کرنے لگی) یعنی اس سے اپنا مقصد پورا کرنے کا مطالبہ کرنے لگی، اور (ایک روز) دروازے بند کرکے بولی جلدی آجاؤ، (اے یوسف) تم ہی سے کہتی ہوں، لک کا لام تبین کیلئے ہے اور ایک قراءت میں (ھیتَ ) ہاء کے کسرہ کے ساتھ ہے، اور ایک دوسری قراءت میں تاء کے ضمہ کے ساتھ ہے (یوسف (علیہ السلام) نے کہا خدا کی پناہ (یعنی) میں زنا سے خدا کی پناہ چاہتا ہوں، وہ جس نے مجھے خریدا اور عزت بخشی میرا مالک ہے اس کی ناموس میں خیانت نہیں کرسکتا، بات یہ ہے کہ ظالم (یعنی) زنا کار فلاح نہیں پایا کرتے اور وہ پختہ ارادہ کرچکی تھی یعنی اس سے زنا کا پختہ قصد کرچکی تھی، یوسف بھی اس کا ارادہ کرلیتے اگر وہ اپنے رب کی برہان نہ دیکھ لیتے، ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ یوسف کے سامنے یعقوب (علیہ السلام) کی صورت کردی گئی (یعقوب (علیہ السلام) نے) ان کے سینے پر (ہاتھ) مارا جس کی وجہ سے ان کو شہوت انگلیوں کے ذریعہ نکل گئی، اور لولا کا جواب لجامعھا محذوف ہے، ہم نے برہان اسلئے دکھائی کہ ہم اس کو خیانت اور زنا سے باز رکھیں درحقیقت وہ ہمارے مخلص بندوں میں سے تھے، یعنی اطاعت میں اور ایک قراءت میں (مخلصین) کے لام کے فتحہ کے ساتھ ہے یعنی برگزیدہ (بندوں میں) اور دونوں (آگے پیچھے) دروازہ کی طرف بھاگے یوسف فرار کیلئے اور وہ اس کو پکڑنے کیلئے چناچہ عورت نے یوسف کا کپڑا پکڑ لیا اور اس کو اپنی طرف کھینچا آخر کار عورت نے یوسف کا کرتہ پیچھے سے پھاڑ دیا، اور دونوں نے اس کے شوہر کو دروازہ پر پایا تو عورت نے اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے کہا کیا سزا ہے اس شخص کی جو تیری بیوی سے زنا کا ارادہ کرے ؟ سوائے اس کے کہ اس کو جیل میں قید کردیا جائے یا یہ کہ اس کو زدو کو ب کی سخت سزا دی جائے، یوسف نے اپنی براءت ظاہر کرتے ہوئے کہا اسی نے مجھے اپنے ساتھ پھانسنے کی کوشش کی، تو اس عورت کے خاندان والوں میں سے ایک گواہ نے یعنی اس کے چچا زاد بھائی نے جو کہ گہوارہ میں تھا گواہی دی، کہا اس کا کرتہ اگر آگے سے پھٹا ہے تو عورت سچی ہے اور وہ جھوٹا ہے اور اگر اس کا کرتہ پیچھے سے پھٹا ہے تو عورت جھوٹی ہے اور وہ سچا ہے، چناچہ جب اس کے شوہر نے یوسف کے کرتے کو پیچھے سے پھٹا ہوا دیکھا، کہا تیرا یہ کہنا ” ماجزاء مَنْ اراد الخ “ تم عورتوں کا مکر ہے اے عورت بلاشبہ تمہارا مکر بھی غضب کا ہے پھر کہا اے یوسف تم اس بات کو جانے دو اور اس کا تذکرہ نہ کرو تاکہ اس کی شہرت نہ ہو، اور اے زلیخا تو اپنی خطاء کی معافی مانگ بلاشبہ تو ہی خطا کاروں میں سے ہے اور یہ خبر پھیل کر مشہور ہوگئی۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : وقال واؤ عاطفہ ہے، معطوف علیہ ” فاشتراہُ عزیز مِصْرَ “ ہے، ای فاشتراہُ وقال لامْرأتِہٖ الّذِی اشْتَرَاہُ ، قال کا فاعل ہے مِنْ مصرَ کائنًا کے متعلق ہو کر فاعل سے حال ہے بعض حضرات نے لفظ مصر سے پہلے اہل محذوف مانا ہے تقدیر یہ ہوگی الذی اشتراہ من اھل مصر اور بعض نے من کوفی کے معنی میں لیا ہے ای اشتراہ فی مصر، اس صورت میں کوئی التباس نہیں رہتا۔ (تفسیر ماجدی) لامرأتہ قال کے متعلق ہے، اور اکرمی مثواہ مقولہ ہے۔
قولہ : قطفیر، بروزن قندیل، مصر کے وزیر خزانہ کا نام ہے اس کا لقب عزیز ہے۔
قولہ : اکرمی مقامہ عندنا یعنی ان کو اپنے یہاں عزت و احترام سے رکھو۔
قولہ : حصورا یہ مبالغہ کا صیغہ ہے، جماع پر قدرت نہ رکھنے والا۔
قولہ : لنعلمہ فعل مضارع ہے جو کہ لام کے بعد أن مقدرہ کی وجہ سے منصوب ہے، علامہ سیوطی نے ولنعلمہ میں دو ترکیبوں کی طرف اشارہ کیا ہے اولؔ یہ کہ واؤ عاطفہ ہو اس صورت میں تقدیر عبارت یہ ہوگی، مکناہ فی الارض لنمل کہ ما فیھا ولنعلمہ من تاویل الاحادیث اس صورت میں لنعلمہ کا عطف لنمل کہ محذوف پر ہوگا مفسر کے قول عطف علی مقدر کا یہی مطلب ہے دوسریؔ صورت یہ کہ واؤ زائدہ ہو اس صورت میں تقدیر عبارت یہ ہوگی، مکنا لہ فی الارض لنعلمہ تاویل الاحادیث، نمل کہ اگر ملک بکسر المیم سے مشتق ہو تو معنی ہوں گے تاکہ ہم اس کو مالک بنائیں اور اگر ملک بضم المیم سے مشتق ہو تو معنی ہوں گے تاکہ اس کو بادشاہ بنائیں۔
قولہ : اشدہ یہ واحد بروزن جمع ہے۔
تنبیہ : احقر کے پیش نظر جلالین کے نسخے میں عبارت لنمکنہ ہے صحیح نسخہ لنمل کہ ہے۔
قولہ : راودتہ، اس عورت نے اس کو پھسلایا، ماضی واحد مؤنث غائب اور ضمیر واحد مذکر غائب کی ہے۔
قولہ : طلب منہ سے اشارہ کردیا کہ مفاعلہ یہاں طرف واحد کے لئے ہے۔
قولہ : ھیت لک یہ کلمہ دو لفظوں سے مرکب ہے ھیت اور لک، ھیت اسم فعل بمعنی امر ہے بمعنی آ، لک میں لام جارہ ہے اور کاف مجرور ہے جار مجرور اقول فعل محذوف سے متعلق ہیں، اس کے معنی ہیں، میں تجھ ہی سے کہتی ہوں جلدی آ (روح) سراج میں خطیب نے لکھا ہے کہ ھیت لک پورا اسم فعل ہے یہ ھلم کے معنی میں ہے جس کے معنی ہیں آ، اور ھیت کے تاء میں تینوں اعراب ہیں لک میں لام مخاطب کی وضاحت کیلئے ہے، یعنی ھیت میں جو مخاطب ہے اسی کو لک سے واضح کردیا ہے کاف مخاطب کی ضرورت نہ ہونے کے باوجود وضاحت کیلئے لایا گیا ہے اسلئے کہ ھیت کے معنی وہی ہیں جو ھیت لک کے ہیں، جیسا کہ سقیالک بولتے ہیں حالانکہ سقیاً کاف خطاب کا محتاج نہیں ہے اسلئے کہ سقیاً کے معنی سقاک اللہ سقیا کے ہیں، لک کو محض تاکید کیلئے لایا گیا ہے۔
قولہ : معاذ اللہ یہ عاذ یعوذ کے مصادر میں سے ایک ہے۔
قولہ : و جواب لولا لجامعھا یہ اضافہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ لولا کا جواب محذوف ہے نہ کہ ماقبل میں مذکورھم بھا، اس لئے کہ لولا کا جواب لولا پر مقدم نہیں ہوتا۔
قولہ : اریناہ اس میں اشارہ ہے کہ کذلک محذوف کا مفعول ہونے کی وجہ سے محل میں نصب کے ہے، ای أریناہ کذلک اور لنصرف کا لام ارینا محذوف کے متعلق ہے۔
تفسیر وتشریح
یوسف اور غلامی : سلسلۂ واقعہ کی اگلی کڑی یہ ہے کہ یوسف کے بھائیوں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو ایک اسماعیلی مدیانی قافلے کے ہاتھوں ایک قلیل قیمت میں غلام گریختہ قرار دے کر فروخت کردیا، یہ قافلہ شام سے مصر کو بخورات، بلسان اور مسالہ جات لے کر جا رہا تھا، بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ یوسف کو خود ان کے بھائیوں نے ہی کنویں سے نکال کر قافلہ کے ہاتھوں فروخت کیا تھا، مگر مفسرین کے اس قول کی تائید و موافقت نہ تو تورات کرتی ہے اور نہ قرآن عزیز، بلکہ دونوں سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ قافلے والوں ہی نے یوسف (علیہ السلام) کو کنویں سے نکالا اور اپنا غلام بنا لیا، اور مال تجارت کے ساتھ اس کو بھی مصر لے گئے۔
حضرت یوسف کی زندگی اور عظمتیں : حضرت یوسف (علیہ السلام) کی زندگی کا یہ پہلو اپنے اندر کس قدر عظمتیں پنہاں رکھتا ہے اس کا اندازہ وہی کرسکتا ہے جو چشم بصیرت رکھتا ہے، چھوٹی سی عمر ہے، والدہ کا انتقال ہوچکا ہے، باپ کی آغوش محبت تھی وہ بھی چھوٹی، وطن چھوٹا بھائیوں نے بےوفائی کی، آزادی کی جگہ غلامی نصیب ہوگئی، مگر ان تمام باتوں کے باوجود نہ آہ وزاری ہے اور نہ جزع و فزع، قسمت پر شاکر، مصائب پر صابر اور قضائے الٰہی پر راضی برضاء سرِ نیازخم کئے ہوئے بازار مصر میں فروخت ہونے کیلئے جا رہے ہیں، کسی نے خوب کیا ہے۔
نزریکاں رابیش بود حیرانی
یوسف مصر میں : تقریباً دو ہزار سال قبل مسیح مصر تمدن و تہذیب کا گہوارہ سمجھا جاتا تھا یہاں کے حکمراں عمالقہ (ہکیسوس) تھے مصر کے حکمراں کا لقب فرعون ہوا کرتا تھا، جس وقت حضرت یوسف (علیہ السلام) ایک غلام کی حیثیت سے مصر میں داخل ہوئے، مصر کا دار السلطنت رعمیس تھا یہ غالباً اسی جگہ واقع تھا جہاں آج صان کی بستی واقع ہے، ان دنوں مصر کا حکمراں ریّان بن ولید تھا اور بعض نے ریان بن اسید بتایا ہے، اتفاق کی بات ہے کہ ملک مصر کا وزیر مالیات جس کو تورات نے فوطیفار یا قطفیر اور قرآن نے عزیز بتایا ہے ایک روز بازار مصر سے گزر رہا تھا کہ اس کی نظر یوسف (علیہ السلام) پر پڑی جن کی بولی لگ رہی تھی، لوگ بڑھ چڑھ کر قیمت لگا رہے تھے یہاں تک کہ یوسف (علیہ السلام) کے وزن کے برابر سونا اور اسی کے برابر مشک اور اتنے ہی ریشمی کپڑے قیمت لگ گئی، یہ دولت اللہ تعالیٰ نے عزیز مصر کیلئے مقدر کی تھی اس نے بڑی بھاری قیمت دیکر یوسف (علیہ السلام) کو خرید لیا۔
خدا کی قدرت و حکمت : خدائے تعالیٰ کی کارسازی دیکھئے کہ ایک بدوی اور وہ بھی غلام ایک متمدن اور صاحب شوکت و حشمت رئیس کے یہاں جب پہنچتا ہے تو اہنی عصمت مآب زندگی، حلم و وقار اور امانت و سلیقہ مندی کے پاس اوصاف کی بدولت اس کی آنکھوں کا تارا اور دل کا دلارا بن جاتا ہے اور وہ اپنی بیوی سے جس کا نام راعیل یا زلیخا بتایا جاتا ہے کہتا ہے اکرمی مثواہ عسی ان ینفعنا او نتخذہ ولدا دیکھو، اسے عزت سے رکھو کچھ عجب نہیں کہ یہ ہم کو فائدہ بخشے یا اس کو ہم اپنا بیٹا بنالیں۔
معلوم ہونا چاہیے کہ جو کچھ یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ ہو رہا ہے یہ کوئی اتفاقی واقعات نہیں ہیں بلکہ رب العلمین کی بنائی ہوئی مستحکم تدبیر کے اجزاء ہیں جس کے تحت ایک بدوی یتیم بچہ کو جو حضارت و مدنیت سے یکسر ناآشنا ہے جہانداری اور جہانبانی کیلئے تیار کیا جا رہا ہے جو عنقریب سپرد کی جانے والی ہے، گویا اس کی تمہید ہے اسی لئے ارشاد ہوا، وکذلک مکنا لیوسف فی الارض ولنعلمہ من تاویل الاحادیث۔ (الآیۃ)
عزیز مصر کی بیوی اور یوسف (علیہ السلام) : ایک مشہور مقولہ ہے ” ربما کمنت المنن فی المحن “ اللہ تعالیٰ کے اکثر احسانات و کرم مصائب میں مستور ہوتے ہیں، یوسف (علیہ السلام) کی ساری زندگی ہو بہو اس کا مصداق ہے، بچپن کی پہلی مصیبت یا آزمائش نے کنعان کی بدوی زندگی سے نکال کر تہذیب و تمدن کے گہوارہ مصر کے ایک بڑے گھرانے کا مالک بنادیا، غلامی میں آقائی اسی کو کہتے ہیں۔
اب زندگی کی سب سے بری اور کٹھن آزمائش شروع ہوتی ہے، وہ یہ کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا جوانی کا عالم تھا حسن و خوبروئی کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جو ان کے اندر موجود نہ ہو، جمال و رعنائی کا پیکر مجسم، رخ روشن شمس و قمر کی طرح منور، عصمت و حیا کی فراوانی سونے پر سہاگہ، اور ہر وقت کا ساتھ، عزیز مصر کی بیوی دل پر قابو نہ رکھ سکی دامن صبر ہاتھ سے چھوٹ گیا، یوسف پر بہ ہزار جان پروانہ وار قربان ہونے لگی، مگر ابراہیم (علیہ السلام) کا پوتا اسحاق و یعقوب کا نور دیدہ، خانوادۂ نبوت کا چشم و چراغ اور منصب نبوت کیلئے منتخب بھلا اس سے یہ کس طرح ممکن تھا کہ ناپاکی اور فحش میں مبتلا ہو اور عزیز مصر کی بیوی کے ناپاک عزم کو پورا کرے۔
زلیخا کا جادو نہ چل سکا : لیکن مصر کی اس آزاد عورت نے جب اس طرح جادو چلتے نہ دیکھا تو ایک روز بےقابو ہو کر مکان کے دروازے بند کر دئیے اور اصرار کرنے لگی کہ مجھے شاد کام کر، حضرت یوسف (علیہ السلام) کیلئے یہ وقت سخت آزمائش کا تھا، شاہی خاندان کی نوجوان عورت، شعلۂ حسن سے لالہ رو، محبوب نہیں بلکہ عاشق، آرائش حسن کی بےپناہ نمائش، عشوہ طرازیوں کی بارش، ادھر یوسف (علیہ السلام) خود نوجوان، دروازے بند کسی کا نہ خوف اور نہ ڈر، مالکہ خود ذمہ دار، حالات ہر طرح سازگار، مگر کیا حالات کی سازگاری سے یوسف نے ایک لمحہ کیلئے بھی عزیز مصر کی بیوی کی حوصلہ افزائی کی، کیا اس کے دل نے قرار چھوڑ کر بےقراری کی، کیا نفس نے ثبات قلب کو ایک لمحہ کیلئے بھی متزلزل کیا ؟ نہیں ہرگز نہیں، بلکہ اس کے برعکس اس پیکر عصمت، امین نبوت مہبط وحی الٰہی نے دو ایسے معقول و محکم دلائل سے اس مصری حسینہ کو سمجھانے کی کوشش کی جو ایک ایسی ہستی ہی سے ممکن تھے جس کی تربیت براہ راست آغوش الٰہی میں ہوئی ہو، فرمایا یہ ناممکن ہے، پناہ بخدا، میں اور اس کی نافرمانی کروں جس کا اسم جلالت اللہ ہے اور وہ تمام کائنات کا مالک و مولا ہے، اور کیا میں اپنے اس مربی عزیز مصر کی امانت میں خیانت کروں جس نے غلام سمجھنے کے بجائے مجھے یہ عزت و حرمت بخشی، اگر میں ایسا کروں تو ظالم ٹھہروں گا اور ظالموں کیلئے انجام و مآل کے اعتبار سے کبھی فلاح نہیں ہے۔ مگر عزیز مصر کی بیوی پر اس نصیحت کا مطلق اثر نہ ہوا، اور اس نے اپنے ارادہ کو عملی شکل دینے پر اصرار کیا، تب یوسف نے اپنے اس برہان ربی کے پیش نظر جس کو وہ دیکھ چکے تھے صاف انکار کردیا۔
وراودتہ التی ھو فی بیتھا عن نفسہ وغلقت الابواب وقالت ھیت لک قال معاذ اللہ انا ربی احسن مثوای انہ لا یفلح الظلمون ولقد ھمت بہ ربھم بھا لولا أن راٰبرھان ربہ کذلک لنصرف عنہ السوء و الفحشاء انہ من عبادنا المخلصین۔
اور پھسلایا یوسف کو اس عورت نے جس کے گھر میں وہ رہتے تھے اس کے نفس کے بارے میں اور دروازے بند کر دئیے اور کہنے لگی آمیرے پاس آ، یوسف نے کہا خدا کی پناہ بلاشبہ (عزیز مصر) میرا مربی ہے جس نے مجھے عزت سے رکھا، بلاشبہ ظالم فلاح نہیں پاتے اور البتہ اس عورت نے یوسف سے ارادہ کیا اور وہ بھی ارادہ کرتے اگر اپنے پروردگار کی برہان نہ دیکھ لیتے، اور اس
طرح ہوا تاکہ ہٹائیں ہم ان سے برائی اور بےحیائی کو بیشک وہ ہمارے مخلص بندوں میں ہے۔
ولقد ھمت بہ ربھم بھا کی تفسیر : مفسرین نے آیت مذکورہ کی مختلف تفسیریں کی ہیں، لیکن اوپر آیت کے جو معنی کئے گئے ہیں وہی مقام و موقع کے لحاظ سے زیادہ موزوں و مناسب ہیں، مطلب یہ ہے کہ عزیز مصر کی بیوی حضرت یوسف (علیہ السلام) کی زبان سے برہان رب سن لینے کے بعد بھی اپنی ہٹ سے باز نہ آئی اور اپنا ارادہ و بکار لانے پر مصر رہی یوسف (علیہ السلام) نے اس کے ارادہ کو قطعاً رد کردیا اور اس کے سامنے اس کے ارادہ کی بالکل پرواہ نہیں کی اور نتیجہ یہ نکلا کہ یوسف اس سے بچنے کیلئے دروازہ کی طرف بھاگے اور عزیز مصر کی بیوی نے ان کا پیچھا کیا۔
بعض مفسرین نے اس تفسیر پر یہ اعتراض کیا ہے کہ نحوی قواعد کا تقاضا ہے کہ لولا، کلام کے شروع میں استعمال ہوا ہے اسلئے کہ عربی قاعدہ کے لحاظ سے اس کا درمیان کلام میں استعمال درست نہیں ہے تقدیر عبارت یہ ہوگی ” وھم بھا لو لاأن راٰی برھان ربہ “ یوسف بھی گناہ کا ارادہ کرلیتے اگر اپنے رب کے برہان کو نہ دیکھ لیتے مگر یہ اعتراض اسلئے درست نہیں کہ اس مقام پر بھی لولا کا استعمال شروع کلام ہی میں ہوا ہے دال علی الجواب مقدم ہے اور لولا کا جواب جو بعد میں مذکور ہوتا اس دال علی الجواب کی وجہ سے محذوف ہے، علامہ سیوطی نے بھی لجامعھا محذوف مان کر اسی کی طرف اشارہ کیا ہے۔
اس قاعدہ کی نظیر قرآن مجید میں موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کے تذکرہ سے متعلق یہ آیت ہے، ان کا دت لتبدی بہ لولا ان ربطنا علی قلبھا (قریب تھا کہ وہ اس کو ظاہر کر دے اگر ہم اس کے دل کو مضبوط نہ کرتے) یہاں بھی لولا کا جواب تبدی بہ محذوف ہے اور دال علی الجواب مقدم ہے، اسی طرح یہاں بھی یہ معنی ہیں، اگر یوسف (علیہ السلام) کو برہان رب حاصل نہ ہوتا تو وہ بھی ارادہ کرلیتا لیکن انہوں نے ارادہ نہیں کیا کیونکہ وہ برہان رب دیکھ چکے تھے۔
وہ برہان رب کیا تھا ؟ جس برہان کو دیکھ کر حضرت یوسف (علیہ السلام) بدی کے ارادہ سے بھی باز رہے وہ کیا تھا ؟ قرآن کریم نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ برہان رب کیا تھا ؟ قرآن مجید نے اپنی بلیغانہ اور معجزانہ خطابت میں خود ہی اس کو اس طرح بیان کردیا ہے کہ اس کے بعد سوال کی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی دروازہ بند ہوجانے پر عزیز کی بیوی کو حضرت یوسف (علیہ السلام) نے جواب دیا ایسے مقام کے لحاظ سے اس سے بہتر جواب کیا ہوسکتا تھا، سو یہی وہ برہان رب تھا جو یوسف کو عطا ہوا اور جس نے عصمت یوسف کو بےداغ رکھا، یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اسے اس کے بعد بڑے شدومد سے بیان کیا، ” کذلک “ یوں ہی ہوا۔ ” تاکہ ہٹا دیں ہم اس سے برائی اور بےحیائی، بیشک وہ ہمارے مخلص بندوں میں سے ہے “۔
خلاصہ یہ ہے کہ حضرت یعقوب کی صورت کا نظر آنا اور ان کا اشارہ سے منع کرنا یا فرشتہ کا ظاہر ہو کر اس کو اس سے روکنا یا عزیز کے گھر میں رکھے ہوئے بت پر عزیز مصر کی بیوی کا پردہ ڈالنا، اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کا اس سے عبرت حاصل کرنا ان تمام اقوال کے مقابلہ میں ” برہان رب “ کی وہی تفسیر بہتر ہے جو قرآن عزیز کی نظم و ترتیب سے ثابت ہے یعنی (١) ایمان باللہ کا حقیقی تصور (٢) مربی مجازی کے احسان کی احسان شناسی اور وصف امانت۔
بہرحال حضرت یوسف جب دروازے کے طرف بھاگے تو عزیز کی بیوی نے پیچھا کی دروازہ کسی طرح کھل گیا سامنے عزیز مصر اور عورت کا چچا زاد بھائی کھڑے ہوئے تھے عورت ان کو دیکھ کر سٹپٹاگئی اور اصل حقیقت کو چھپانے کیلئے غیظ و غضب میں آکر کہنے لگی کہ ایسے شخص کی سزا قید خانہ یا دردناک سزا کے علاوہ اور کیا ہوسکتی ہے جو تیرے اہل کے ساتھ ارادۂ بد رکھتا ہو، حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اس کے مکر و فریب کو سنا تو فرمایا، یہ اس کا بہتان ہے اصل حقیقت یہ ہے کہ خود اس نے میرے ساتھ ارادۂ بد کیا تھا مگر میں نے کسی طرح نہ مانا اور بھاگ کر باہر نکل جانا چاہتا تھا کہ اس نے پیچھا کیا اتفافاً سامنے آپ نظر آگئے تو اس نے یہ جھوٹ گھڑ لیا۔
عزیز کی بیوی کا چچا زاد بھائی ذکی یعنی سمجھدار اور ہوشیار تھا اس نے کہا یوسف کا پیراہن دیکھنا چاہیے اگر وہ سامنے سے چاک ہے تو عورت راستباز ہے اور اگر پیچھے سے چاک ہے تو یوسف صادق القول ہے اور عورت جھوٹی ہے جب دیکھا گیا تو یوسف کا پیراہن پیچھے سے چاک تھا عزیز مصر نے اصل حقیقت کو سمجھ لیا مگر اپنی عزت و ناموس کی خاطر معاملہ کو ختم کرتے ہوئے کہا، یوسف سچے تم ہی ہو اور اس عورت کے معاملہ سے درگزر کرو اور اس کو یہیں ختم کردو اور پھر بیوی سے کہا یہ سب تیرا مکر ہے اور تم عورتوں کا مکرو فریب بہت ہی بڑا ہوتا ہے بلاشبہ تو ہی خطا کار ہے لہٰذا اپنی اس حرکت بد کیلئے استغفار کر اور معافی مانگ۔
بعض روایات میں کہا گیا ہے کہ یہ شہادت پیش کرنے والا ایک شیر خوار بچہ تھا خدا نے اسے قوت گویائی عطا فرمائی اور اس بچہ نے یہ شہادت دی، لیکن یہ روایت کسی صحیح قوی سند سے ثابت نہیں ہے اور نہ اس معاملہ میں خواہ مخواہ معجزہ سے مدد لینے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اس شاہد نے جس قرینہ کی بنیاد پر جس شہادت کی طرف توجہ دلائی ہے وہ سراسر ایک معقول شہادت ہے اور اسکو دیکھنے سے بیک نظر معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ شخص ایک معاملہ فہم اور جہاندیدہ آدمی تھا جو صورت معاملہ سامنے آتے ہی معاملہ کی تہ تک پہنچ گیا، مفسرین کے یہاں شیرخوار بچہ کا قصہ دراصل یہودی روایات سے آیا ہے۔ (ملاحظہ ھو تلمود)
تفسیروں میں ایک مرفوع روایت کے حوالہ سے آتا ہے کہ یہ گواہ ایک شیرخوار بچہ تھا جو بطور خرق عادت حضرت یوسف (علیہ السلام) کی صفائی میں بول اٹھا تھا، لیکن بہت سے ائمہ تفسیر نے اسکے علاوہ کہا ہے کہ یہ شخص زلیخا کا چچا زاد بھائی تھا جو شاہی درباریوں میں سے تھا، ما کان بصبی ولکن کان رجلا حکیما (ابن جریر عن عکرمہ) یہاں شہادت سے عرفی اور اصطلاحی شہادت مراد نہیں ہے جس کیلئے عاقل بالغ مسلمان عادل اور موقع پر موجود ہونا شرط ہے یہ اصطلاحات بعد کی پیداوار ہیں، یہ گواہی تو صرف اس معنی میں تھی کہ اس نے فریقین کے متضاد بیانات کے درمیان فیصلے کا ایک عاقلانہ طریقہ سمجھا دیا۔
10 Tafsir as-Saadi
یعنی قافلہ یوسف علیہ السلام کو لے کر مصر چلا گیا اور وہاں جا کر ان کو فروخت کردیا اور عزیز مصر نے انہیں خرید لیا۔ جب عزیز مصر نے یوسف علیہ السلام کو خریدا تو وہ ان کو اچھے لگے، چنانچہ اس نے یوسف علیہ السلام کے بارے میں اپنی بیوی کو وصیت کرتے ہوئے کہا﴿اَکْرِمِیْ مَثْوٰیہُ عَسٰٓی اَنْ یَّنْفَعَنَآ اَوْ نَتَّخِذَہٗ وَلَدًا﴾ ’’اس کو عزت سے رکھ، شاید یہ ہمارے کام آئے یا ہم اس کو بیٹا بنا لیں۔‘‘ یعنی یہ ہمیں یا تو اس طرح فائدہ دے گا جس طرح خدمت کے ذریعہ سے غلام فائدہ دیتے ہیں یا ہم اس سے اس انداز سے فائدہ اٹھائیں گے جیسے اولاد سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ یہ بات اس نے اس لیے کہی کہ شاید ان کے ہاں اولاد نہ تھی۔﴿ وَکَذٰلِکَ مَکَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ ﴾ ’’اسی طرح ہم نے جگہ دی یوسف کو اس ملک میں۔‘‘ یعنی جس طرح ہم نے نہایت آسان کردیا کہ عزیز مصر یوسف علیہ السلام کو خرید لے اور آپ کو عزت و تکریم دے، تو اسی طریقے سے ہم نے یوسف علیہ السلام کو اقتدار عطا کرنے کے لیے راہ ہموار کی۔﴿ وَلِنُعَلِّمَہٗ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ ﴾ ’’اور اس واسطے کہ اس کو سکھائیں کچھ ٹھکانے پر بٹھانا باتوں کا۔‘‘ یعنی انہیں کوئی شغل اور کوئی ہم و غم لاحق نہ رہا سوائے حصول علم کے اور یہ چیز ان کے لیے علم الاحکام اور علم التعبیر وغیرہ کے حصول کا باعث بن گئی۔﴿ وَاللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰٓی اَمْرِہ﴾یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ کا حکم نافذ ہے کوئی ہستی اسے باطل کرسکتی ہے نہ اللہ تعالیٰ پر غالب آسکتی ہے۔﴿ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ﴾’’لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘ اسی وجہ سے ان سے اللہ تعالیٰ کے احکام قدریہ کے مقابلے میں افعال سرزد ہوتے ہیں حالانکہ وہ انتہائی عاجز اور انتہائی کمزور ہیں، کوئی مقابلہ کرنے والا اللہ تعالیٰ پر غالب نہیں آسکتا۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur misir kay jiss aadmi ney unhen khareeda , uss ney apni biwi say kaha kay : iss ko izzat say rakhna . mujhay aisa lagta hai kay yeh hamen faeeda phonchaye ga , ya phir hum issay beta bana len gay . iss tarah hum ney uss sarzameen mein yousuf kay qadam jamaye , takay unhen baaton ka sahih matlab nikalna sikhayen , aur Allah ko apney kaam per poora qaboo hasil hai , lekin boht say log nahi jantay .
12 Tafsir Ibn Kathir
بازار مصر سے شاہی محل تک
رب کا لطف بیان ہو رہا ہے کہ جس نے آپ کو مصر میں خریدا، اللہ نے اس کے دل میں آپ کی عزت و وقعت ڈال دی۔ اس نے آپ کے نورانی چہرے کو دیکھتے ہی سمجھ لیا کہ اس میں خیر و صلاح ہے۔ یہ مصر کا وزیر تھا۔ اس کا نام قطفیر تھا۔ کوئی کہتا ہے اطفیر تھا۔ اس کے باپ کا نام دوحیب تھا۔ یہ مصر کے خزانوں کا داروغہ تھا۔ مصر کی سلطنت اس وقت ریان بن ولید کے ہاتھ تھی۔ یہ عمالیق میں سے ایک شخص تھا۔۔ عزیز مصر کی بیوی صاحبہ کا نام راعیل تھا۔ کوئی کہتا ہے زلیخا تھا۔ یہ رعابیل کی بیٹی تھیں۔ ابن عباس کا بیان ہے کہ مصر میں جس نے آپ کو خریدا اس کا نام مالک بن ذعربن قریب بن عنق بن مدیان بن ابراہیم تھا۔ واللہ اعلم۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں سب سے زیادہ دوربین اور دور رس اور انجام پر نظریں رکھنے والے اور عقلمندی سے تاڑنے والے تین شخص گزرے ہیں۔ ایک تو یہی عزیز مصر کہ بیک نگاہ حضرت یوسف کو تاڑ لیا گیا اور جاتے ہی بیوی سے کہا کہ اسے اچھی طرح آرام سے رکھو۔ دوسری وہ بچی جس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بیک نگاہ جان لیا اور جا کر باپ سے کا کہ اگر آپ کو آدمی کی ضرورت ہے تو ان سے معاملہ کرلیجئے یہ قوی اور باامانت شخص ہے۔ تیسرے حضرت صدیق اکبر (رض) کہ آپ نے دنیا سے رخت ہوتے ہوئے خلافت حضرت عمر (رض) جیسے شخص کو سونپی۔ یہاں اللہ تعالیٰ اپنا ایک اور احسان بیان فرما رہا ہے کہ بھائیوں کے پھندے سے ہم نے چھڑایا پھر ہم نے مصر میں لا کر یہاں کی سرزمین پر ان کا قدم جما دیا۔ کیونکہ اب ہمارا یہ ارادہ پورا ہونا تھا کہ ہم اسے تعبیر خواب کا کچھ علم عطا فرمائیں۔ اللہ کے ارادہ کو کون ٹال سکتا ہے۔ کون روک سکتا ہے ؟ کون خلاف کرسکتا ہے ؟ وہ سب پر غالب ہے۔ سب اس کے سامنے عاجز ہیں جو وہ چاہتا ہے ہو کر ہی رہتا ہے جو ارادہ کرتا ہے کر چکتا ہے۔ لیکن اکثر لوگ علم سے خالی ہوتے ہیں۔ اس کی حکمت کو مانتے ہیں نہ اس کی حکمت کو جانتے ہیں نہ اس کی باریکیوں پر ان کی نگاہ ہوتی ہے۔ نہ وہ اس کی حکمتوں کو سمجھ سکتے ہیں۔ جب آپ کی عقل کامل ہوئی جب جسم اپنی نشو و نما تمام کرچکا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت عطا فرمائی اور اس سے آپ کو مخصوص کیا۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہم نیک کاروں کو اسی طرح بھلا بدلہ دیتے ہیں۔ کہتے ہیں اس سے مراد تینتیس برس کی عمر ہے۔ یا تیس سے کچھ اوپر کی یا بیس کی یا چالیس کی یا پچیس کی یا تیس کی یا اٹھارہ کی۔ یا مراد جوانی کو پہنچنا ہے اور اس کے سوا اوراقوال بھی ہیں واللہ اعلم