یوسف آية ۴۳
وَقَالَ الْمَلِكُ اِنِّىْۤ اَرٰى سَبْعَ بَقَرٰتٍ سِمَانٍ يَّأْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَّسَبْعَ سُنْۢبُلٰتٍ خُضْرٍ وَّاُخَرَ يٰبِسٰتٍۗ يٰۤاَيُّهَا الْمَلَاُ اَفْتُوْنِىْ فِىْ رُءْيَاىَ اِنْ كُنْتُمْ لِلرُّءْيَا تَعْبُرُوْنَ
طاہر القادری:
اور (ایک روز) بادشاہ نے کہا: میں نے (خواب میں) سات موٹی تازی گائیں دیکھی ہیں، انہیں سات دبلی پتلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات سبز خوشے (دیکھے) ہیں اور دوسرے (سات ہی) خشک، اے درباریو! مجھے میرے خواب کا جواب بیان کرو اگر تم خواب کی تعبیر جانتے ہو،
English Sahih:
And [subsequently] the king said, "Indeed, I have seen [in a dream] seven fat cows being eaten by seven [that were] lean, and seven green spikes [of grain] and others [that were] dry. O eminent ones, explain to me my vision, if you should interpret visions."
1 Abul A'ala Maududi
ایک روز بادشاہ نے کہا "میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ سات موٹی گائیں ہیں جن کو سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں، اور اناج کی سات بالیں ہری ہیں اور دوسری سات سوکھی اے اہل دربار، مجھے اس خواب کی تعبیر بتاؤ اگر تم خوابوں کا مطلب سمجھتے ہو"
2 Ahmed Raza Khan
اور بادشاہ نے کہا میں نے خواب میں دیکھیں سات گائیں فربہ کہ انہیں سات دُبلی گائیں کھارہی ہیں اور سات بالیں ہری اور دوسری سات سوکھی اے درباریو! میرے خواب کا جواب دو اگر تمہیں خواب کی تعبیر آتی ہو،
3 Ahmed Ali
اور بادشاہ نے کہا میں خواب دیکھتا ہوں کہ سات موٹی گائیں ہیں انہیں سات دبلی گائی ں کھاتی ہیں اور سات سبز خوشے ہیں اور سات خشک اے دربار والو مجھے میرے خواب کی تعبیر بتلاؤ اگر تم خواب کی تعبیر دینے والے ہو
4 Ahsanul Bayan
بادشاہ نے کہا، میں نے خواب دیکھا ہے سات موٹی تازی فربہ گائے ہیں جن کو سات لاغر دبلی پتلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات بالیاں ہیں ہری ہری اور دوسری سات بالکل خشک۔ اے درباریو! میرے اس خواب کی تعبیر بتلاؤ اگر تم خواب کی تعبیر دے سکتے ہو۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور بادشاہ نے کہا کہ میں (نے خواب دیکھا ہے) دیکھتا (کیا) ہوں کہ سات موٹی گائیں ہیں جن کو سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات خوشے سبز ہیں اور (سات) خشک۔ اے سردارو! اگر تم خوابوں کی تعبیر دے سکتے ہو تو مجھے میرے خواب کی تعبیر بتاؤ
6 Muhammad Junagarhi
بادشاه نے کہا، میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ سات موٹی تازی فربہ گائیں ہیں جن کو سات ﻻغر دبلی پتلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات بالیاں ہیں ہری ہری اور دوسری سات بالکل خشک۔ اے درباریو! میرے اس خواب کی تعبیر بتلاؤ اگر تم خواب کی تعبیر دے سکتے ہو
7 Muhammad Hussain Najafi
(کچھ مدت کے بعد) بادشاہ نے کہا میں نے (خواب میں) سات موٹی تازی گائیں دیکھی ہیں جنہیں سات دبلی پتلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات بالیاں ہری ہیں اور سات دوسری سوکھی اے سردارو (درباریو) اگر تم خواب کی تعبیر دے سکتے ہو تو پھر مجھے میرے خواب کی تعبیر بتاؤ۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور پھر ایک دن بادشاہ نے لوگوں سے کہا کہ میں نے خواب میں سات موٹی گائیں دیکھی ہیں جنہیں سات پتلی گائیں کھائے جارہی ہیں اور سات ہری تازی بالیاں دیکھی ہیں اور سات خشک بالیاں دیکھی ہیں تم سب میرے خواب کے بارے میں رائے دو اگر تمہیں خواب کی تعمبیر دینا آتا ہو تو
9 Tafsir Jalalayn
اور بادشاہ نے کہا کہ میں (نے خواب دیکھا) دیکھتا (کیا) ہوں کہ سات موٹی گائیں ہیں جن کو سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات خوشے سبز ہیں اور اور (سات) خشک۔ اے سردارو ! اگر تم خوابوں کی تعبیر دے سکتے ہو تو مجھے میرے خواب کی تعبیر بتاؤ۔
آیت نمبر ٤٣ تا ٥٢
ترجمہ : مصر کے بادشاہ ریان بن ولید نے کہا میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ سات فربہ گایوں کو سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں (عجاف) عجفاء کی جمع ہے اور سات ہری بالیں ہیں اور دوسری سات خشک بالیں ہیں اور سوکھی بالیں ہری بالوں پر لپٹی ہوئی ہیں اور سوکھی بالیں ہری بالوں پر غالب آگئی ہیں، اے درباریو تم میرے خواب کی تعبیر بتاؤ، اگر تم تعبیر بتاسکتے ہو تو بتاؤ درباریوں نے خواب دیا یہ منتشر خیالات کے خواب ہیں اور ہم منتشر خیالات کے خوابوں کی تعبیر نہیں جانتے، اور اس نوجوان نے جو دو نوجوانوں میں سے (جیل سے) رہا ہوا تھا اور وہ ساقی تھا جس کو ایک مدت دراز کے بعد یوسف (علیہ السلام) کا حال یاد آگیا کہا (وادکر) میں اصل میں تاء دال سے بدلی ہوئی ہے اور دال کا دال میں ادغام ہے، یعنی یاد آیا، اس نے کہا میں تمہیں اس کی تعبیر بتلا دوں گا، مجھے اجازت دیجئے چناچہ اس کو یوسف کے پاس جانے کی اجازت دیدی، اس نے (جاکر) کہا اے سراپا راستی، یوسف، آپ ہمیں اس خواب کی تعبیر بتلائیے کہ سات فربہ گائیں ہیں جنہیں سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات ہری بالیں ہیں اور سات دوسری خشک، تاکہ میں لوگوں یعنی بادشاہ اور اسکے درباریوں کے پاس جا کر خواب کی تعبیر بتاؤں را کہ وہ خواب کی تعبیر جان لیں یوسف نے کہا تم سات سال تک مسلسل کھیتی کرو (دأبا) ہمزہ کے سکون اور فتحہ کے ساتھ بمعنی مسلسل یہ سات فربہ گایوں کی تعبیر ہے اور جو فصل تم کاٹو اس کو خوشوں (بالوں) میں ہی رہنے دینا تاکہ غلہ خراب نہ ہو، صرف کھانے کی ضرورت کے مطابق ہی غلہ (خوشہ) سے نکالو، پھر ان شادابی کے ساتھ سالوں کے بعد سات سال نہایت خشک سالی یعنی تکلیف کے آئیں گے اور یہ سات دبلی گایوں کی تعبیر ہے، شادابی کے سالوں کا اگایا ہوا غلہ جس کو تم نے خشکی کے سالوں کیلئے جمع کیا ہے وہ (خشکی کے سال) اس کو کھا جائیں گے، یعنی تم ان سالوں میں اس (ذخیرہ شدہ) غلہ کو کھا جاؤ گے مگر اس میں بہت تھوڑا سا جس کو تم بحفاظت بچا سکو (باقی رہیگا) پھر اسکے بعد ایک سال ایسا آئے گا یعنی خشک سالی کے سات سالوں کے بعد کہ اس میں لوگوں پر بارش کے ذریعہ فریادرسی کی جائے گی (یعنی خوب بارش برسائی جائے گی) اور اس سال میں لوگ شادابی کی وجہ سے (خوب) انگور وغیرہ نچوڑیں گے، جب قاصد (واپس) آیا اور بادشاہ کو اس کے خواب کی تعبیر بتائی تو بادشاہ نے کہا جس نے خواب کی تعبیر بتائی ہے اسے میرے پاس لاؤ جب قاصد یوسف (علیہ السلام) کے پاس آیا اور ان سے جیل سے باہر آنے کی درخواست کی تو (یوسف) نے قاصد سے اپنی اظہار براءت کے طور کہا اپنے بادشاہ کے پاس واپس جا اور اس سے پوچھ کہ ان عورتوں کا حقیقی واقعہ کیا ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لئے تھے ؟ میرا آقا (عزیز) ان عورتوں کے مکر سے بخوبی واقف ہے چناچہ قاصد واپس گیا اور بادشاہ سے صورت حال بیان کی چناچہ بادشاہ نے ان عورتوں کو جمع کیا (اور) ان سے پوچھا تمہارا کیا معاملہ تھا کہ تم نے یوسف کو اس کے نفس کے بارے میں رجھانے (پھسلانے) کی کوشش کی تھی، کیا تم نے اس کا ادنی میلان بھی تمہاری طرف پایا ؟ انہوں نے جواب دیا معاذ اللہ (حاشا و کلا ہم نے اس کے اندر کوئی برائی نہیں پائی عزیز کی بیوی بولی اب تو سچی بات ظاہر ہوگئی میں نے ہی اس کو اس کی ذات کے بارے میں رجھانے کی کوشش کی تھی وہ یقیناً اپنے قول ” ھی راودتنی عن نفسی “ میں سچا ہے، یوسف کو اس کی اطلاع دی گئی، اور یہ بےگنا ہی ثابت کرنا اسلئے تھا کہ عزیز جان لے کہ پیٹھ پیچھے اس کی اہل میں خیانت نہیں کی (بالغیب) (اخنہ کے) فاعل یا مفعول سے حال ہے، اور یہ کہ یقیناً اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کے مکر کو چلنے نہیں دیتا۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : رأیت، اس میں اشارہ ہے کہ مضارع ماضی کے معنی میں ہے حالت ماضیہ کی منظر کشی کے طور ہر مضارع سے تعبیر کیا ہے
قولہ : عجاف جمع عجفاء، عجاف، عجفاء کی جمع ہے نہ کہ وجیف کی اس لئے کہ یہ بقرۃ کی صفت ہے۔
سوال : افعل اور فعلاء کی جمع فعال کے وزن پر نہیں آتی، قیاس کے مطابق عجف ہونا چاہیے جیسا کہ حمراء کی جمع حمر آتی ہے۔
جواب : یہ حمل النقیض علی النقیض کے قبیل سے ہے عجاف چونکہ سمان کی ضد ہے اسلئے عجاف کو سمان پر قیاس کرکے عجاف جمع لائے ہیں۔
قولہ : سبع سنبلات کو سبع بقرات پر قیاس کرتے ہوئے سنبلات میں سبع کو حذف کردیا ہے جس کو مفسر علام نے ظاہر کردیا ہے
سوال : گایوں کی حالت کو بیان کیا کہ سات دبلی گائیں سات فربہ گایوں کو کھا گئیں مگر سنبلات کی حالت بیان نہیں کی جس کو مفسر علام نے التوت سے بیان کیا ہے۔ جواب : بقرات کی حالت پر قیاس کرتے ہوئے سنبلات کی حالت کے بیان کو ترک کردیا۔
قولہ : فاعبروھا، یہ حذف کی طرف اشارہ ہے۔
قولہ : ھذہ اس میں اشارہ ہے کہ اضغاث مبتداء محذوف کی خبر ہے لہٰذا کلام کے غیر مفید ہونے کا شبہ ختم ہوگیا، اضغاث، ضعث کی جمع ہے گھاس کے مٹھے کو کہتے ہیں جس میں تروخشک ہر قسم کی گھاس ہو یہاں خوابہائے پریشان مراد ہیں جن میں وسوسوں اور حدیث نفس کا دخل ہوتا ہے۔
قولہ : احلام، حلم کی جمع ہے خواب کو کہتے ہیں۔
قولہ : امۃ، امت سے یہاں لوگوں کی جماعت مرا نہیں ہے بلکہ جماعت ایام یعنی مدت طویلہ مراد ہے مفسر علام نے امۃ کی تفسیر حین سے کرکے اسی کی طرف اشارہ کیا ہے۔
قولہ : حال یوسف اس میں اشارہ ہے کہ واد کر میں واؤ حالیہ ہے لہٰذا عامل قال، اور معمول أنا انبئکم کے درمیان فصل کا اعتراض ختم ہوگیا۔ قولہ : یوسف یہ اد کر کا مفعول ہے۔
قولہ : بالمطر اس میں اشارہ ہے کہ یغاث، غیث سے ہے نہ کہ غوث سے۔
قولہ : سیدی، ربی کی تفسیر سیدی سے کرکے اشارہ کردیا کہ ربی سے سردار عزیز مراد ہے نہ کہ خالق، اللہ۔
تفسیر و تشریح
پردۂ غیب سے یوسف (علیہ السلام) کی رہائی کی صورت : آیات مذکورہ میں یہ بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پردۂ غیب سے یوسف (علیہ السلام) کی رہائی کی صورت پیدا فرمائی، کہ بادشاہ مصر نے ایک خواب دیکھا جس سے وہ بہت پریشان ہوا اور اپنی مملکت کے تعبیر دانوں، کاہنوں اور نجومیوں کو بلایا تاکہ ان سے خواب کی تعبیر دریافت کرے۔
حضرت یوسف (علیہ السلام) کا واقعہ فراعنۂ مصر کے زمانہ سے تعلق رکھتا ہے، فراعنہ کا خاندان نسلی اعتبار سے عمالقہ میں سے تھا، مصر کی تاریخ میں ان کو ہکسوس کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے، اور ان کی اصلیت کے متعلق کہا گیا ہے کہ یہ چرواہوں کی ایک قوم تھی، جدید تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ یہ قوم عرب سے آئی تھی دراصل یہ عرب عاربہ کی ایک شاخ تھی۔ مصر کے مذہبی تخیل کی بنا پر ان کا لقب فاراع (فرعون) تھا اسلئے کہ مصری دیوتاؤں میں سب سے بڑا اور مقدس دیوتائے امن، راع (سورج دیوتا) تھا اور بادشاہ وقت اس کا اوتار (یعنی) فاراع کہلاتا تھا یہی فاراع عبرانی میں فارعن ہوا اور عربی میں فرعون کہلایا، حضرت یوسف (علیہ السلام) کے زمانہ کے فرعون کا نام ریان بن ولید بتایا گیا ہے اور مصری جدید تحقیقات آثار میں آیونی کے نام سے موسوم ہے۔
بہرحال یوسف (علیہ السلام) بھی زندان ہی میں تھے کہ وقت کے فرعون نے ایک خواب دیکھا، فرعون نے تعبیر دانوں نجومیوں اور کاہنوں کو خواب کی تعبیر معلوم کرنے کیلئے بلایا گیا مگر خواب سنکر سب نے کہہ دیا کہ یہ تواضغاث احلام ہیں ہم ایسے خوابوں کی تعبیر نہیں جانتے اگر کوئی صحیح خواب ہو تو ہم اس کی تعبیر بتاسکتے ہیں، بادشاہ کو کاہنوں اور تعبیر دانوں کے جواب سے اطمینان نہ ہوا، اسی اثناء میں ساقی کو اپنا خواب اور یوسف (علیہ السلام) کی تعبیر کا واقعہ آگیا، اس نے بادشاہ کی خدمت میں عرض کیا کہ اگر اجازت ہو تو میں اس کی تعبیر لاسکتا ہوں، بادشاہ کی اجازت سے وہ اسی وقت قید خانہ پہنچا اور یوسف (علیہ السلام) کو بادشاہ کا خواب سنایا اور کہا کہ آپ اس کو حل کیجئے کیوں کہ آپ سچائی اور تقدس کے پیکر ہیں، آپ ہی اس کو حل کرسکتے ہیں اور کیا عجب ہے کہ جن لوگوں نے مجھے بھیجا ہے جب میں صحیح تعبیر لے کر انکے پاس واپس جاؤں تو وہ آپکی حقیقی قدرومنزلت سمجھ لیں۔
خواب کی حقیقت : تفسیر مظہری میں ہے کہ واقعات کی جو صورتیں عالم مثال میں ہوتی ہیں وہی انسان کو خواب میں نظر آتی ہیں، اس عالم میں اس کے خاص معنی ہوتے ہیں فن کا تمام تر مدار اس بات کے جاننے پر ہے کہ فلاں صورت مثالی سے اس عالم میں کیا مراد ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ یوسف (علیہ السلام) کو یہ فن مکمل عطا فرمایا تھا آپ نے خواب سنکر سمجھ لیا کہ سات فربہ گائیں (بیل) اور سات ہرے بھرے خوشوں سے خوشحالی کے سات سال مراد ہیں کہ جن میں معمول کے مطابق بلکہ کچھ زیادہ ہی پیداوار ہوگی کیونکہ بیل کو زمین کے ہموار کرنے نیز جوتنے اور بونے سے خاص تعلق ہے، اور سات دبلے اور کمزور بیلوں اور سات خشک خوشوں سے مراد یہ ہے کہ پہلے خوشحالی کے سات سالوں کے بعد سات سال سالوں کے بعد سات سال نہایت خشک سالی کے آئیں گے، اور دبلی گایوں کے فربہ گایوں کے کھانے کا مطلب کہ سات سالوں کا ذخیرہ کیا ہوا غلہ بعد کے سات سالوں میں خرچ ہوجائیگا صرف بیج وغیرہ کیلئے کچھ غلہ بچے گا۔
حضرت یوسف (علیہ السلام) کا کمال صبر : حضرت یوسف کے کمال صبر و استقلال کا اندازہ کیجئے اور جلالت قدر کا اندازہ لگائیے کہ جن ظالموں نے مجھ بےقصور کو زندان میں ڈالا ہے وہ اگر تباہ ہوجائیں اور اس خواب کا حل نہ پاکر برباد ہوجائیں تو اچھا ہے ان کی یہی سزا ہے، ایسا کچھ بھی نہیں بلکہ اس سلسلہ میں صحیح تدبیر بھی بتلا دی اور ساقی کو پوری طرح مطمئن کرکے فرمایا اس خواب کی تعبیر اور اس کی بنا پر جو کچھ تم کو کرنا چاہیے وہ یہ کہ تم سات سال تک لگاتار کھیتی کرتے رہو اور یہ تمہاری خوشحالی کے سال ہوں گے جب کھیتی کٹنے کا وقت آئے تو جو مقدار تمہارے سال بھر کھانے کیلئے ضروری ہو اس کو الگ کرلو اور باقی غلہ کو ان کے خوشوں میں رہنے دو تاکہ محفوظ رہے اور گلے سڑے نہیں اس کے بعد سات سال سخت قحط سالی کے آئیں گے وہ تمہارا جمع کیا ہوا تمام ذخیرہ ختم کردیں گے، اسکے بعد پھر ایک سال ایسا آئیگا کہ خوب بارش ہوگی کھیتیاں ہری بھری ہوں گی اور لوگ پھلوں اور دانوں سے عرق اور تیل بہتات کے ساتھ نکالیں گے۔ ساقی نے دربار میں جاکر پورا واقعہ بادشاہ کو سنا دیا خواب کی تعبیر سنکر بادشاہ یوسف (علیہ السلام) کے علم و دانش اور جلالت قدر کا قائل ہوگیا اور نادیدہ مشتاق بنکر کہنے لگا ایسے شخص کو میرے پاس لاؤ۔
بادشاہ کا قاصد یوسف (علیہ السلام) کی خدمت میں : جب بادشاہ کا قاصد یوسف (علیہ السلام) کے پاس پہنچا اور بادشاہ کی طلب و اشتیاق کا حال سنایا تو حضرت یوسف (علیہ السلام) نے قید خانہ سے باہر آنے سے انکار کردیا اور فرمایا کہ اس طرح تو میں جانے کو تیار نہیں ہوں تم اپنے آقا کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ وہ یہ تحقیق کرے کہ ان عورتوں کا معاملہ کیا تھا جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لئے تھے ؟ پہلے یہ بات صاف ہوجائے کہ انہوں نے کیسی کچھ مکاریاں کی تھیں اور میرا مالک تو ان مکاریوں سے بخوبی واقف ہے۔
حضرت یوسف (علیہ السلام) کا واقعہ کی تحقیق کا مطالبہ : حضرت یوسف (علیہ السلام) بےقصور اور بےخطا برسوں جیل میں رہے بلاوجہ ان کو زندانی بنا کر رکھا اب جبکہ بادشاہ نے مہربان ہو کر رہائی کا مژدہ سنایا تو چاہیے تھا کہ وہ مسرت اور خوشی کے ساتھ زندان سے باہر نکل آتے، مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا اور گزشتہ معاملہ کی تحقیق کا مطالبہ شروع کردیا، اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) خانوادۂ نبوت سے ہیں اور خود بھی نبی ہیں اسلئے غیرت و حمیت اور عزت نفس کے بدرجہ اتم مالک ہیں انہوں نے سوچا کہ اگر بادشاہ کی اس مہربانی پر میں رہا ہوگیا تو یہ بادشاہ کا رحم و کرم سمجھا جائیگا اور میرا بےقصور ہونا پردۂ خفا میں رہ جائے گا اس طرح صرف عزت نفس ہی کو ٹھیس نہیں لگے گی بلکہ دعوت و تبلیغ کے اس اہم مقصد کو بھی نقصان پہنچے گا جو میری زندگی کا عین مقصد ہے، لہٰذا اب بہترین وقت ہے کہ معاملہ کی اصل حقیقت سامنے آجائے، اور حق ظاہر اور واضح ہوجائے
صحیحین میں واقعۂ یوسف کا ذکر : بخاری اور مسلم کی روایت میں ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے صبر و ضبط کو بہت سراہا اور کسر نفسی کی حد تک اس کو بڑھا کر یہ ارشاد فرمایا۔ لو لبثت فی السجن ما لبث یوسف لأجبت الداعی۔ (بخاری کتاب الانبیاء)
اگر میں اس قدر دراز مدت تک قید میں رہتا جس قدر یوسف رہے تو بلانے والے کی دعوت فوراً قبول کرلیتا۔
اس جگہ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ اگرچہ یوسف (علیہ السلام) کا معاملہ براہ راست عزیزمصر کی بیوی کے ساتھ پیش آیا تھا مگر حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اس کا ذکر نہیں کیا بلکہ ان مصری عورتوں کا حوالہ دیا جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لئے تھے حضرت یوسف (علیہ السلام) نے ایسا کیوں کیا ؟ اس کی دو وجہ تھیں ایک یہ کہ حضرت یوسف کو اگرچہ عزیز کی بیوی سے زیادہ تکلیف پہنچی تھی مگر قید کے معاملہ میں ان عورتوں کی بھی سازش تھی ان سب نے مل کر عزیز مصر کی بیوی کو قید کے مشورہ کو عملی جامہ پہنانے پر آمادہ کیا یہی وجہ ہے کہ زندان کا معاملہ ان عورتوں کے قضیہ کے بعد پیش آیا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) سمجھتے تھے کہ عزیز مصر نے میرے ساتھ ہر ممکن حسن سلوک برتا ہے اس لئے مناسب نہیں کہ میں ان کی بیوی کا نام لے کر اس کی رسوائی کا باعث بنوں۔
غرضیکہ بادشاہ نے جب یہ سنا تو ان عورتوں کو بلوایا اور ان سے کہہ دیا کہ صاف صاف اور صحیح صحیح بتاؤ کہ اس معاملہ کی اصل حقیقت کیا ہے، جب تم نے یوسف پر ڈورے ڈالے تھے تاکہ تم اس کو اپنی طرف مائل کرلو تو وہ ایک زبان ہو کر بولیں۔
قلن حاش للہ ما علمنا علیہ من سوء۔ ” بولیں حاشا للہ ہم نے اس میں کوئی برائی نہیں پائی “۔
مجمع میں عزیز مصر کی بیوی بھی موجود تھی اس نے جب یہ دیکھا کہ یوسف کی خواہش ہے کہ حقیقت حال سامنے آجائے تو بےاختیار بول اٹھی۔
الئٰن حصحص الحق انارا ودتہ عن نفسہ وانہ لمن الصّٰدقین۔
” جو حقیقت تھی وہ اب ظاہر ہوگئی ہاں وہ میں ہی تھی جس نے یوسف پر ڈورے ڈالے کہ اپنا دل ہار بیٹھی بلاشبہ وہ (اپنے بیان میں) بالکل سچا ہے “۔
10 Tafsir as-Saadi
جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے یوسف علیہ السلام کو قید خانے سے نکالنا چاہا تو بادشاہ کو ایک عجیب و غریب خواب دکھایا۔ جس کی تعبیر تمام قوم کو متاثر کرتی تھی۔۔۔ تاکہ یوسف علیہ السلام اس خواب کی تعبیر بتائیں اور یوں ان کا علم و فضل ظاہر ہو اور دین و دنیا میں ان کو رفعت حاصل ہو۔ اس میں تقدیر کی مناسبت یہ ہے کہ بادشاہ نے۔۔۔ جو رعایا کے تمام امو کا ذمہ دار ہوتا ہے۔۔۔ یہ خواب دیکھا، کیونکہ قوم کے مصالح کا تعلق بادشاہ سے ہوتا ہے۔ اس بادشاہ نے ایک خواب دیکھا جس نے بادشاہ کو خوف زدہ کردیا۔ اس نے اپنی قوم کے اہل علم اور اصحاب الرائے کو اکٹھا کیا اور ان سے کہا : ﴿إِنِّي أَرَىٰ سَبْعَ بَقَرَاتٍ سِمَانٍ يَأْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ ﴾’’میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ سات موٹی گائیں، ان کو کھاتی ہیں سات کمزور اور لاغر گائیں۔“ یہ عجیب بات ہے کہ لاغر اور کمزور گائیں، جن میں قوت ختم ہوچکی ہے وہ ایسی سات موٹی گایوں کو کھا جائیں جو انتہائی طاقتور ہوں۔ ﴿وَ ﴾ اور میں نے دیکھا ہے ﴿سَبْعَ سُنبُلَاتٍ خُضْرٍ وَأُخَرَ يَابِسَاتٍ ﴾ ’’سات خوشے سبز ہیں اور سات خشک۔‘‘ یعنی ان سات ہری بالیوں کو سوکھی بالیاں کھا رہی ہیں۔ ﴿ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ أَفْتُونِي فِي رُؤْيَايَ ﴾ ” اے دربار والو ! مجھے میرے خواب کی تعبیر بتلاؤ“ کیونکہ سب کی تعبیر ایک تھی اس خواب کی تاویل بھی ایک ہی چیز تھی۔ ﴿ إِن كُنتُمْ لِلرُّؤْيَا تَعْبُرُونَ ﴾ ” اگر ہو تم خواب کی تعبیر کرنے والے“
11 Mufti Taqi Usmani
aur ( chand saal baad misir kay ) badshah ney ( apney darbariyon say ) kaha kay : mein ( khuwab mein ) kiya dekhta hun kay saat moti tazi gayen hain jinhen saat dubli patli gayen kha rahi hain , neez saat khoshay haray bharay hain , aur saat aur hain jo sookhay huye hain . aey darbariyo ! agar tum khuwab ki tabeer dey saktay ho to meray iss khuwab ka matlab batao .
12 Tafsir Ibn Kathir
شاہ مصر کا خواب اور تلاش تعبیر میں یوسف (علیہ السلام) تک رسائی
قدرت الٰہی نے یہ مقرر رکھا تھا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) قید خانے سے بعزت و اکرام پاکیزگی برات اور عصمت کے ساتھ نکلیں۔ اس کے لیے قدرت نے یہ سبب بنایا کہ شاہ مصر نے ایک خواب دیکھا جس سے بھونچکا سا ہوگیا۔ دربار منعقد کیا اور تمام امراء، رؤسا، کاہن، منجم اور علماء کو خواب کی تعبیر بیان کرنے والوں کو جمع کیا۔ اور اپنا خواب بیان کر کے ان سب سے تعبیر دریافت کی۔ لیکن کسی کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ اور سب نے لاچار ہو کر یہ کہہ کر ٹال دیا کہ یہ کوئی باقاعدہ لائق تعبیر سچا خواب نہیں جس کی تعبیر ہو سکے۔ یہ تو یونہی پریشان خواب مخلوط خیالات اور فضول توہمات کا خاکہ ہے۔ اس کی تعبیر ہم نہیں جانتے۔ اس وقت شاہی ساقی کو حضرت یوسف (علیہ السلام) یاد آگئے کہ وہ تعبیر خواب کے پورے ماہر ہیں۔ اس علم میں ان کو کافی مہارت ہے۔ یہ وہی شخص ہے جو حضرت یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ جیل خانہ بھگت رہا تھا یہ بھی اور اس کا ایک اور ساتھی بھی۔ اسی سے حضرت یوسف (علیہ السلام) نے کہا تھا کہ بادشاہ کے پاس میرا ذکر بھی کرنا۔ لیکن اسے شیطان نے بھلا دیا تھا۔ آج مدت مدید کے بعد اسے یاد آگیا اور اس نے سب کے سامنے کہا کہ اگر آپ کو اس کی تعبیر سننے کا شوق ہے اور وہ بھی صحیح تعبیر تو مجھے اجازت دو ۔ یوسف صدیق (علیہ السلام) جو قید خانے میں ہیں ان کے پاس جاؤں اور ان سے دریافت کر آؤں۔ آپ نے اسے منظور کیا اور اسے اللہ کے محترم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بھیجا۔ امتہ کی دوسری قرأت امتہ بھی ہے۔ اس کے معنی بھول کے ہیں۔ یعنی بھول جانے کے بعد اسے حضرت یوسف (علیہ السلام) کا فرمان یاد آیا۔ دربار سے اجازت لے کر یہ چلا۔ قید خانے پہنچ کر اللہ کے نبی ابن نبی ابن نبی ابن نبی (علیہ السلام) سے کہا کہ اے نرے سچے یوسف (علیہ السلام) بادشاہ نے اس طرح کا ایک خواب دیکھا ہے۔ اسے تعبیر کا اشتیاق ہے۔ تمام دربار بھرا ہوا ہے۔ سب کی نگاہیں لگیں ہوئی ہیں۔ آپ مجھے تعبیر بتلا دیں تو میں جا کر انہیں سناؤں اور سب معلوم کرلیں۔ آپ نے نہ تو اسے کوئی ملامت کی کہ تو اب تک مجھے بھولے رہا۔ باوجود میرے کہنے کے تو نے آج تک بادشاہ سے میرا ذکر بھی نہ کیا۔ نہ اس امر کی درخواست کی کہ مجھے جیل خانے سے آزاد کیا جائے بلکہ بغیر کسی تمنا کے اظہار کے بغیر کسی الزام دینے کے خواب کی پوری تعبیر سنا دی اور ساتھ ہی تدبیر بھی بتادی۔
فرمایا کہ سات فربہ گایوں سے مراد یہ ہے کہ سات سال تک برابر حاجت کے مطابق بارش برستی رہے گی۔ خوب ترسالی ہوگی۔ غلہ کھیت باغات خوب پھلیں گے۔ یہی مراد سات ہری بالیوں سے ہے۔ گائیں بیل ہی ہلوں میں جتتے ہیں ان سے زمین پر کھیتی کی جاتی ہے۔ اب ترکیب بھی بتلا دی کہ ان سات برسوں میں جو اناج غلہ نکلے۔ اسے بطور ذخیرے کے جمع کرلینا اور رکھنا بھی بالوں اور خوشوں سمیت تاکہ سڑے گلے نہیں خراب نہ ہو۔ ہاں اپنی کھانے کی ضرورت کے مطابق اس میں سے لے لینا۔ لیکن خیال رہے کہ ذرا سا بھی زیادہ نہ لیا جائے صرف حاجت کے مطابق ہی نکالا جائے۔ ان سات برسوں کے گزرتے ہی اب جو قحط سالیاں شروع ہوں گی وہ برابر سات سال تک متواتر رہیں گی۔ نہ بارش برسے گی نہ پیداوار ہوگی۔ یہی مراد ہے سات دبلی گایوں اور سات خشک خوشوں سے ہے کہ ان سات برسوں میں وہ جمع شدہ ذخیرہ تم کھاتے پیتے رہو گے۔ یاد رکھنا ان میں کوئی غلہ کھیتی نہ ہوگی۔ وہ جمع کردہ ذخیرہ ہی کام آئے گا۔ تم دانے بوؤ گے لیکن پیداوار کچھ بھی نہ ہوگی۔ آپ نے خواب کی پوری تعبیر دے کر ساتھ ہی یہ خوشخبری بھی سنا دی کہ ان سات خشک سالیوں کے بعد جو سال آئے گا وہ بڑی برکتوں والا ہوگا۔ خوب بارشیں برسیں گی خوب غلے اور کھیتیاں ہوں گی۔ ریل پیل ہوجائے گی اور تنگی دور ہوجائے گی اور لوگ حسب عادت زیتون وغیرہ کا تیل نکالیں گے اور حسب عادت انگور کا شیرہ نچوڑیں گے۔ اور جانوروں کے تھن دودھ سے لبریز ہوجائیں گے کہ خوب دودھ نکالیں پئیں۔