یوسف آية ۵۳
وَمَاۤ اُبَرِّئُ نَفْسِىْۚ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌۢ بِالسُّوْۤءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّىْ ۗاِنَّ رَبِّىْ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ
طاہر القادری:
اور میں اپنے نفس کی برات (کا دعوٰی) نہیں کرتا، بیشک نفس تو برائی کا بہت ہی حکم دینے والا ہے سوائے اس کے جس پر میرا رب رحم فرما دے۔ بیشک میرا رب بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے،
English Sahih:
And I do not acquit myself. Indeed, the soul is a persistent enjoiner of evil, except those upon which my Lord has mercy. Indeed, my Lord is Forgiving and Merciful."
1 Abul A'ala Maududi
میں کچھ اپنے نفس کی براءَت نہیں کر رہا ہوں، نفس تو بدی پر اکساتا ہی ہے الا یہ کہ کسی پر میرے رب کی رحمت ہو، بے شک میرا رب بڑا غفور و رحیم ہے"
2 Ahmed Raza Khan
اور میں اپنے نفس کو بے قصور نہیں بتاتا بیشک نفس تو برائی کا بڑا حکم دینے والا ہے مگر جس پر میرا رب رحم کرے بیشک میرا رب بخشنے والا مہربان ہے
3 Ahmed Ali
اور میں اپنے نفس کو پاک نہیں کہتا بے شک نفس تو برائی سکھاتاہے مگر جس پرمیرا رب مہربانی کرے بے شک میرا رب بخشنے والا مہربان ہے
4 Ahsanul Bayan
میں اپنے نفس کی پاکیزگی بیان نہیں کرتا (١) بیشک نفس تو برائی پر ابھارنے والا ہی ہے (٢) مگر یہ کہ میرا پروردگار ہی اپنا رحم کے (٣) یقیناً میرا رب پالنے والا بڑی بخشش کرنے والا اور بہت مہربانی فرمانے والا ہے۔
٥٣۔١ اسے اگر حضرت یوسف علیہ السلام کا تسلیم کیا جائے تو بطور کسر نفسی کے ہے، ورنہ صاف ظاہر ہے کہ ان کی پاک دامنی ہر طرح سے ثابت ہو چکی تھی۔ اور اگر یہ عزیز مصر کا قول ہے (جیسا کہ امام ابن کثیر کا خیال ہے) تو یہ حقیقت پر مبنی ہے کیونکہ اپنے گناہ کا اور یوسف علیہ السلام کو بہلانے اور پھسلانے کا اعتراف کر لیا۔
٥٣۔٢یہ اس نے اپنی غلطی کی یا اس کی علت بیان کی کہ انسان کا نفس ہی ایسا ہے کہ برائی پر ابھارتا ہے اور اس پر آمادہ کرتا ہے۔
٥٣۔٣ یعنی نفس کی شرارتوں سے وہی بچتا ہے جس پر اللہ تعالٰی کی رحمت ہو، جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو اللہ تعالٰی نے بچا لیا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور میں اپنے تئیں پاک صاف نہیں کہتا کیونکہ نفس امارہ (انسان کو) برائی سکھاتا رہتا ہے۔ مگر یہ کہ میرا پروردگار رحم کرے گا۔ بےشک میرا پروردگار بخشنے والا مہربان ہے
6 Muhammad Junagarhi
میں اپنے نفس کی پاکیزگی بیان نہیں کرتا۔ بیشک نفس تو برائی پر ابھارنے واﻻ ہی ہے، مگر یہ کہ میرا پروردگار ہی اپنا رحم کرے، یقیناً میرا پالنے واﻻ بڑی بخشش کرنے واﻻ اور بہت مہربانی فرمانے واﻻ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
میں اپنے نفس کو (بھی) بری قرار نہیں دیتا بے شک نفس تو برائی کا بڑا حکم دینے والا (اور اس پر اکسانے والا) ہے مگر یہ کہ میرا پروردگار (کسی کے حال پر) رحم کرے یقینا میرا پروردگار بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور میں اپنے نفس کو بھی بری نہیں قرار دیتا کہ نفس بہرحال برائیوں کا حکم دینے والا ہے مگر یہ کہ میرا پروردگار رحم کرے کہ وہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور میں اپنے تئیں پاک صاف نہیں کہتا کیونکہ نفس امّارہ (انسان کو) برائی ہی سکھاتا رہتا ہے مگر یہ کہ میرا پروردگار رحم کرے۔ بیشک میرا پروردگار بخشنے والا مہربان ہے۔
آیت نمبر ٥٣ تا ٥٧
ترجمہ : پھر اللہ کیلئے تواضح کی اور پھر (یوسف (علیہ السلام) نے) کہا میں اپنے نفس کی لغزشوں سے پاکیزگی بیان نہیں کرتا جنس نفس تو بلاشبہ کثرت سے برائی کا حکم کرنے والا ہی ہے مگر یہ کہ میرا پروردگار ہی رحم کرے تو اس کو بچا لیتا ہے ما بمعنی من ہے، بادشاہ نے کہا اسے میرے پاس لاؤ تاکہ میں اسے اپنے لئے مخصوص کرلوں، یعنی میں اس کو بغیر کسی شریک کے حاصل کرلوں، چناچہ قاصد یوسف (علیہ السلام) کے پاس آیا اور کہا بادشاہ کا حکم مانو، تو حضرت یوسف (علیہ السلام) اٹھے اور رفقاء زندان کو رخصت کیا اور انکو دعاء دی، پھر غسل کیا اور عمدہ لباس پہنا اور بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، چناچہ جب آپس میں گفتگو ہوئی تو بادشاہ نے کہا اب آپ ہمارے یہاں قدرومنزلت رکھتے ہیں اور آپ کی امانتداری پر پورا بھروسہ ہے یعنی آپ ہمارے معاملات میں با اقتدار اور امین ہیں، اب آپ کا کیا مشورہ ہے ؟ ہم کو کیا کرنا چاہیے ؟ (حضرت یوسف (علیہ السلام) نے) فرمایا غلہ کا ذخیرہ کرو اور ان سرسبزی اور شادابی کے سالوں میں کثرت سے کھیتی کراؤ اور غلہ کو اس کے خوشوں ہی میں رہنے دو لوگ آپ کے پاس غلہ لینے آئیں گے، تو بادشاہ نے کہا میری طرف سے اس کی کون ذمہ داری لے گا، یوسف (علیہ السلام) نے کہا ملک مصر کے خزانے میرے سپرد کیجئے میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں، (یعنی) محافظ بھی ہوں اور اس کے معاملات (طریق کار) سے واقف بھی ہوں، کہا گیا ہے کہ میں لکھنا بھی جانتا ہوں اور حساب دان بھی ہوں، جس طرح ہم نے جیل سے رہائی دے کر اس پر انعام کیا، اسی طرح ہم نے یوسف کو ملک مصر میں تنگی اور قید کے بعد اقتدار بخشا اس طریقہ پر کہ (ملک میں) جہاں چاہے رہے قصہ یہ کہ بادشاہ نے اس کی تاج پوشی کی اور اس کو اپنی (شاہی) مہر سونپ دی، اور عزیز کے منصب پر ان کو مقرر کردیا، اور عزیز کو معزول کردیا، اس کے بعد عزیز کا انتقال ہوگیا تو بادشاہ نے یوسف (علیہ السلام) کا نکاح عزیز کی بیوی زلیخا سے کردیا، حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اس کو کنواری پایا حضرت یوسف کے اس سے دو بجے پیدا ہوئے اور (یوسف (علیہ السلام) نے) مصر میں ایسا عدل قائم کیا کہ گردنیں انکے سامنے جھک گئیں ہم جسے چاہتے ہیں اپنی رحمت پہنچا دیتے، نیکوکاروں کے اعمال کو ضائع نہیں کرتے اور یقیناً ایمان والوں اور پرہیزگاروں کا آخرت کا اجر دنیا کے اجر سے بدرجہا بہتر ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : وما ابرئُ نفسی یہ جملہ، ذلک لیعلم سے حال ہے، یعنی ذلک کے عامل مقدر یعنی اطلب البراءۃ لیعلم الخ سے حال ہے، مطلب یہ ہے کہ اطلب البراءۃ سے جو تنزیہ نفس مفہوم ہو رہی اس سے عزیز مصر کی بیوی کے معاملہ میں تنزیہ اور بےگناہ ہی مراد ہے نہ
کہ مطلقا لغزشوں اور خطاؤں سے، خلاصہ یہ ہے کہ ماقبل میں جو میں نے طلب براءت کی ہے سے تنزیہ نفس مراد نہیں۔
قولہ : الجنس، ای الذی فی ضمن جمیع الافراد، اگر مفسر علام جنس کے بجائے استغراق سے تعبیر کرتے تو بہتر ہوتا۔
قولہ : ما بمعنی من ہے اسلئے کہ نفس سے مراد ذوالعقول ہے اور یہ بھی جائز ہے کہ ما رحم معنی میں زمان کے ہو تو اس صورت میں ماکو من کے معنی میں لینے کی ضرورت نہ ہوگی، ای الا وقت رحمۃ ربی تقدیر عبارت یہ ہوگی، انھا امارۃ فی کل وقت الا وقت العصمۃ۔
قولہ :؛ اجعلہ، اس میں اشارہ ہے کہ استخلصہ معنی میں تصیر کے ہے اسلئے کہ طلب کے معنی درست نہیں ہیں۔
قولہ : فقال من لی بھذا، ای من یضمن ھذا لاجلی۔ قولہ : ومات بعدہ ای بعد العزل۔
تفسیر و تشریح
ایتونی۔۔۔۔۔۔۔۔ لنفسی، اس کو (جلد) میرے پاس لاؤ کہ میں اس کو اپنے کاموں کیلئے مخصوص کرلوں یوسف (علیہ السلام) جب بایں رعنائی و دلبری، بایں عصمت و پاکبازی، اور بایں عقل و دانش زندان سے نکل کر بادشاہ کے دربار میں تشریف لائے، بات چیت ہوئی تو بادشاہ حیران رہ گیا کہ اب تک جس کی راستبازی، امانت داری، اور وفاء عہد کا تجربہ کیا تھا وہ عقل و دانش اور حکمت و فطانت میں بھی اپنی نظیر آپ ہے اور مسرت کے ساتھ کہنے لگا، ” انک الیوم لدینا مکین امین “ پھر اس نے دریافت کیا کہ میرے خواب میں جس قحط سالی کا ذکر ہے اس کے متعلق مجھ کو کیا تدابیر اختیار کرنی چاہئیں ؟ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے جواب دیا۔
قال اجعلنی۔۔۔ علیم، یوسف (علیہ السلام) نے کہا اپنی مملکت کے خزانوں پر آپ مجھے مختار کیجئے میں حفاظت کرسکتا ہوں اور اس کام کا کرنے والا ہوں۔ چناچہ بادشاہ نے ایسا ہی کیا اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اپنی تمام مملکت کا امین و کفیل بنادیا اور شاہی خزانوں کی کنجیاں ان کے حوالہ کرکے مختار عام کردیا۔
حضرت یوسف (علیہ السلام) کی زلیخا سے شادی : بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اسی زمانہ میں زلیخا کے شوہر عزیز مصر (قطفیر) کا انتقال ہوگیا تو بادشاہ نے زلیخا کی شادی یوسف (علیہ السلام) سے کردی اس وقت یوسف (علیہ السلام) نے اس سے فرمایا کہ کیا یہ صورت اس سے بہتر نہیں ہے جو تو چاہتی تھی زلیخا نے اعتراف کرکے اپنا عذر بیان کیا۔ اللہ تعالیٰ نے بڑی عزت اور شان کے ساتھ ان کی مراد پوری فرمائی اور عیش و نشاط کے ساتھ زندگی گزری تاریخی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دو لڑکے بھی پیدا ہوئے جن کا نام افرائیم اور میشا تھا۔
مصر میں قحط کی ابتداء : غرض جب قحط سالی کا زمانہ شروع ہوا تو مصر اور اس کے قرب و جوار کے علاقہ میں بھی سخت کال پڑا، اور کنعان میں خاندان یعقوب بھی اس سے محفوظ نہ رہ سکا جب حالت نزاکت اختیار کرگئی تو حضرت یعقوب نے صاحبزادوں سے کہا کہ مصر میں عزیز مصر نے اعلان کیا ہے کہ اس کے پاس غلہ محفوظ ہے، تم سب جاؤ اور غلہ خرید کر لاؤ چناچہ باپ کے حکم کے مطابق یہ کنعانی قافلہ عزیز مصر سے غلہ لینے کیلئے مصر روانہ ہوا، خدا کی قدرت دیکھئے کہ برادران یوسف کا یہ قافلہ اسی بھائی سے غلہ لینے چلا ہے جس کو اپنے خیال میں وہ کسی مصری گھرانے کا معمولی اور گمنام غلام بنا چکے تھے مگر اس یوسف فروش قافلہ کو کیا معلوم کہ وہ کل کا غلام آج مصر کے تاج و تخت کا مالک و مختار ہے اور اس کو اسی کے سامنے عرض حال کرنا ہے بہر حال کنعان سے چلے اور مصر جا پہنچے، اور جب دربار یوسفی میں پیش ہوئے تو یوسف (علیہ السلام) نے ان کو پہچان لیا البتہ وہ یوسف (علیہ السلام) کو نہ پہچان سکے۔
10 Tafsir as-Saadi
چونکہ اس کلام میں عورت کے اپنے لئے تزکیہ کے دعوے کا شائبہ پایا جاتا ہے اور یہ دعویٰ بھی پایا جاتا ہے کہ یوسف علیہ السلام کے معاملے میں اس سے کوئی گناہ سرزد نہیں ہوا۔ اس لئے عورت نے استدارک کے طور پر کہا : ﴿وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي ﴾ ” اور میں اپنے تئیں پاک صاف نہیں کہتی۔“ یعنی میں نے یوسف علیہ السلام کو پھسلانے، اس کے ساتھ برائی کے ارادے اور اس کی شدید حرص اور اس کے بارے میں سازش کرنے میں اپنے آپ کو بری قرار نہیں دیتی۔ ﴿إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ ﴾ ” کیونکہ نفس امارہ )انسان کو( برائی ہی سکھاتا رہتا ہے۔“ یعنی نفس انسان کو بہت کثرت سے برائی، یعنی بے حیائی اور دیگر تمام گناہوں کا حکم دیتا ہے۔ نفس شیطان کی سواری ہے اور شیطان نفس کے راستے سے انسان میں داخل ہوتا ہے۔ ﴿إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي ۚ ﴾ ” سوائے اس شخص کے جس پر میرا رب رحم کر دے“ اور اسے اس کے نفس امارہ سے نجات دے دے اور اس طرح اس کا نفس امارہ نفس مطمئنہ میں بدل جائے۔ ہلاکت کے داعی کی نافرمانی کرکے ہدایت کے داعی کی آواز پر لبیک کہے۔ اس میں نفس کا کوئی کمال نہیں، بلکہ یہ اللہ کا اپنے بندے پر بے انتہا فضل و کرم اور اس کی بے پایاں رحمت ہے۔ ﴿إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ ﴾ ” بے شک میرا رب بخشنے والا“ جب کوئی گناہ اور معاصی کے ارتکاب کی جرات کرنے کے بعد توبہ کرکے اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹ آتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بخش دیتا ہے۔ ﴿رَّحِيمٌ ﴾ ” رحم کرنے والا ہے۔“ اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرکے اور اسے نیک اعمال کی توفیق عطا کرکے اس پر رحم کرتا ہے۔ ان آیات کریمہ کی تفسیر میں قرین صواب یہی ہے کہ یہ عزیز مصر کی بیوی کا قول ہے یوسف علیہ السلام کا نہیں، کیونکہ یہ بات عورت کے کلام کے سیاق میں آئی ہے اور یوسف علیہ السلام تو اس وقت قید میں تھے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur mein yeh dawa nahi kerta kay mera nafs bilkul pak saaf hai . waqiaa yeh hai kay nafs to burai ki talqeen kerta hi rehta hai , haan mera rab reham farmadey to baat aur hai ( kay uss soorat mein nafs ka koi dao nahi chalta ) beyshak mera rab boht bakhshney wala , bara meharban hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
عزیز مصر کی بیوی کہہ رہی ہے کہ میں اپنی پاکیزگی بیان نہیں کر رہی اپنے آپ کو نہیں سراہتی۔ نفس انسانی تمناؤں اور بری باتوں کا مخزن ہے۔ اس میں ایسے جذبات اور شوق اچھلتے رہتے ہیں۔ وہ برائیوں پر ابھارتا رہتا ہے۔ اسی کے پھندے میں پھنس کر میں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا۔ مگر جسے اللہ چاہے نفس کی برائی سے محفوظ رکھ لیتا ہے۔ اس لئے کہ اللہ بڑا غفور و رحیم ہے۔ بخشش کرنا معافی دینا اس کی ابدی اور لازمی صفت ہے۔ یہ قول عزیز مصر کی عورت کا ہی ہے۔ یہی بات مشہور ہے اور زیادہ لائق ہے اور واقعہ کے بیان سے بھی زیادہ مناسب ہے۔ اور کلام کے معنی کے ساتھ بھی زیادہ موافق ہے۔ اما ماوردی (رح) نے اپنی تفسیر میں اسے وارد کیا ہے۔ اور علامہ ابو العباس حضرت امام ابن تیمیہ (رح) نے تو اسے ایک مستقل تصنیف میں بیان فرمایا ہے اور اس کی پوری تائید کی ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ قول حضرت یوسف (علیہ السلام) کا ہے۔ لیعلم سے اس دوسری آیت کے ختم تک انہی کا فرمان ہے۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے تو صرف یہی ایک قول نقل کیا ہے۔ چناچہ ابن جریر میں ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ بادشاہ نے عورتوں کو جمع کر کے جب ان سے پوچھا کہ کیا تم نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو بہلایا پھسلایا تھا ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ حاش اللہ ہم نے اس میں کوئی برائی نہیں دیکھی۔ اس وقت عزیز مصر کی بیوی نے اقرار کیا کہ واقعی حق تو یہی ہے۔ تو حضرت یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا یہ سب اس لئے تھا کہ میری امانت درای کا یقین ہوجائے۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے آپ سے فرمایا وہ دن بھی یاد ہے ؟ کہ آپ نے کچھ ارادہ کرلیا تھا ؟ تب آپ نے فرمایا میں اپنے نفس کی برات تو نہیں کر رہا ؟ بیشک نفس برائیوں کا حکم دیتا ہے۔ الغرض ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ کلام حضرت یوسف (علیہ السلام) کا ہے۔ لیکن پہلا قول یعنی اس کلام کا عزیز کی موت کا کلام ہونا ہی زیادہ قوی اور زیادہ ظاہر ہے۔ اس لئے کہ اوپر سے انہی کا کلام چلا آ رہا ہے جو بادشاہ کے سامنے سب کی موجودگی میں ہو رہا تھا۔ اس وقت تو حضرت یوسف علی السلام وہاں موجود ہی نہ تھے۔ اس تمام قصے کے کھل جانے کے بعد بادشاہ نے آپ کو بلوایا۔