یوسف آية ۷
لَقَدْ كَانَ فِىْ يُوْسُفَ وَاِخْوَتِهٖۤ اٰيٰتٌ لِّـلسَّاۤٮِٕلِيْنَ
طاہر القادری:
بیشک یوسف (علیہ السلام) اور ان کے بھائیوں (کے واقعہ) میں پوچھنے والوں کے لئے (بہت سی) نشانیاں ہیں،
English Sahih:
Certainly were there in Joseph and his brothers signs for those who ask, [such as]
1 Abul A'ala Maududi
حقیقت یہ ہے کہ یوسفؑ اور اس کے بھائیوں کے قصہ میں اِن پوچھنے والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں
2 Ahmed Raza Khan
بیشک یوسف اور اس کے بھائیوں میں پوچھنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں
3 Ahmed Ali
البتہ یوسف اور اس کے بھائیوں کے قصہ میں پوچھنے والو ں کے لیے نشانیاں ہیں
4 Ahsanul Bayan
یقیناً یوسف اور اس کے بھائیوں میں دریافت کرنے والوں کے لئے (بڑی) نشانیاں (١) ہیں۔
٧۔١ یعنی اس قصے میں اللہ تعالٰی کی عظیم قدرت اور نبی کریم کی نبوت کی صداقت کی بڑی نشانیاں ہیں۔ بعض مفسرین نے یہاں ان بھائیوں کے نام اور ان کی تفصیل بھی بیان کی ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
ہاں یوسف اور ان کے بھائیوں (کے قصے) میں پوچھنے والوں کے لیے (بہت سی) نشانیاں ہیں
6 Muhammad Junagarhi
یقیناً یوسف اور اس کے بھائیوں میں دریافت کرنے والوں کے لئے (بڑی) نشانیاں ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
بے شک یوسف اور اس کے بھائیوں کے قصہ میں پوچھنے والوں کے لیے (غیب کی) بڑی نشانیاں ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
یقینا یوسف اور ان کے بھائیوں کے واقعہ میں سوال کرنے والوں کے لئے بڑی نشانیاں پائی جاتی ہیں
9 Tafsir Jalalayn
ہاں یوسف اور انکے بھائیوں کے (قصے) میں پوچھنے والوں کے لئے (بہت سی) نشانیاں ہیں۔
آیت نمبر ٧ تا ٢٠
ترجمہ : حقیقت یہ ہے کہ یوسف (علیہ السلام) اور ان کے بھائیوں کے قصہ میں کہ وہ گیارہ تھے سوال کرنے والوں کیلئے
بڑی عبرتیں ہیں، اس وقت کا تذکرہ کرو کہ جب یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے آپس میں کہا یوسف اور اس کا حقیقی بھائی بن یامین ہمارے اباجان کیلئے ہمارے مقابلہ میں زیادہ چہیتے ہیں، لَیُوسف مبتداء ہے اور اَحَبُّ اس کی خبر ہے، حالانکہ ہمارا ایک جتھا ہے، ہمارے اباجان ان دونوں کو ہم پر ترجیح دینے کے معاملہ میں کھلی غلطی پر ہیں (ایسا کرو) کہ یوسف کو قتل کردو یا کسی دور ملک میں پہنچا دو (اس تدبیر سے) تمہارے ابا جان کی توجہ خالص تمہاری طرف ہوجائے گی، اس طریقہ پر کہ تمہاری طرف متوجہ رہیں گے تمہارے علاوہ کسی اور کی طرف توجہ نہ کریں گے، یوسف کو قتل کرنے یا دور پہنچانے کے بعد، پھر توبہ کرکے نیک بن جانا ان میں سے ایک بولا یوسف کو قتل نہ کرو (بلکہ) کسی اندھیرے کنویں میں ڈال دو ، اور ایک قراءت میں (غیابات) جمع کے ساتھ ہے، (اباجان سے) جدا کرنے کے سلسلہ میں اگر تمہیں کچھ کرنا ہے تو اسی پر اکتفا کرو، اسے مسافروں کا کوئی قافلہ نکال لے جائیگا (اس تجویز کے مطابق) انہوں نے (جاکر) کہا ابا جان کیا وجہ ہے کہ آپ یوسف کے معاملہ میں ہمارے اوپر اعتماد نہیں کرتے ؟ حالانکہ ہم اس کے سچے خیر خواہ ہیں، یعنی اس کی مصلحتوں کا خیال رکھنے والے ہیں، کل اس کو ہمارے ساتھ جنگل کی طرف بھیج دیجئے تاکہ مزے سے کھائے کھیلے (اور ایک قراءت میں) دونوں (فعل) نون کے ساتھ ہیں تاکہ ہم تیر اندازی کریں اور کھیلیں کودیں، اور اس کی حفاظت کے ہم ذمہ دار ہیں، یعقوب (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ تمہارا اس کو لیجانا اس کی جدائی کی وجہ سے مجھے بہت رنجیدہ کرے گا اور مجھے یہ بھی اندیشہ ہے کہ کہیں اسے بھیڑیا نہ کھاجائے اور (ذئب سے) جنس ذئب مراد ہے، اور ان کے علاقہ میں بھیڑئیے بکثرت تھے، اور تم اس سے غافل رہو یعنی کھیل کود میں مشغول رہو ان لوگوں نے جواب دیا واللہ اگر اسے بھیڑیا کھاجائے حال یہ کہ ہم ایک (بڑی) جماعت ہیں تو ہم ناکارہ ہی ٹھہرے، القصہ (یعقوب (علیہ السلام) نے) یوسف (علیہ السلام) کو ان کے ساتھ بھیج دیا، چناچہ جب اس کو لے گئے اور پختہ ارادہ کرلیا کہ اس کو کسی اندھے کنویں ڈال دیں (لمَّا) کا جواب محذوف ہے اور وہ (فَعَلوا ذلک) ہے یعنی انہوں نے یہ کیا کہ اس کی قمیص اتارنے اور اس کو زدو کو ب کرنے اور اس کی تذلیل کرنے کے بعد اس کو قتل کے ارادہ سے کنویں میں لٹکا دیا، جب یوسف (علیہ السلام) درمیان کنویں تک پہنچ گئے تو اس کو چھوڑ دیا تاکہ مرجائے، غرضیکہ یوسف (علیہ السلام) پانی میں جاگرے پھر اس نے ایک پتھر کا سہارا لیا، تو بھائیوں نے اس کو آواز دی (یوسف نے) ان کی آواز پر یہ خیال کرتے ہوئے کہ شاید ان کو رحم آگیا ہو لبیک کہا، تو انہوں نے پتھر سے سرکچلنے کا ارادہ کیا، مگر یہودا نے ان کو اس حرکت سے منع کیا، اور ہم نے کنویں ہی میں یوسف کے پاس اطمینان قلبی کیلئے حقیقۃً وحی بھیجی اور یوسف اس وقت سترہ سال یا اس سے کچھ کم کے تھے کہ (اے یوسف) تو مستقبل میں ان کی اس حرکت کی خبر دے گا حال یہ کہ خبر دیتے وقت وہ تجھ کو نہ پہچان سکیں گے، اور شام کے وقت سب بھائی اپنے ابا جان کے پاس روتے ہوئے آئے کہا اے ہمارے ابا جان ہم تو تیر اندازی کے مقابلہ بازہ میں مشغول ہوگئے تھے اور یوسف کو ہم نے اپنے کپڑے وغیرہ سامان کے پاس چھوڑ دیا تھا اس کو تو بھیڑیا کھا گیا، آپ تو ہماری بات کا یقین کرنے والے ہیں نہیں اگرچہ ہم تمہارے نزدیک سچے ہیں مگر تم اس معاملہ میں یوسف کی محبت کی وجہ سے، ہمیں یقیناً متہم کرو گے، اور آپ ہماری بات کا یقین کر بھی کیسے سکتے ہیں ؟ جبکہ آپ ہمارے بارے میں بدگمانی رکھتے ہیں، اور برادران یوسف، یوسف (علیہ السلام) کی قمیص پر جھوٹ موٹ کا خون لگا لائے علی قمیصہ ظرفیت کی وجہ سے محل میں نصب کے ہے، ای فوق قمیصہٖ ، یعنی جھوٹا خون اس طریقہ پر کہ ایک بھیڑ کے بچہ کو ذبح کیا اور اس قمیص کو اس کے خون میں آلودہ کرلیا مگر قمیص کو پھاڑنا ان کے خیال سے نکل گیا اور کہہ دیا کہ یہ یوسف کا خون ہے، یعقوب (علیہ السلام) نے جب قمیص کو صحیح سدالم دیکھا تو ان کے جھوٹ کو سمجھ گئے (یعقوب (علیہ السلام) نے کہا (جو تم کہہ رہے ہو) بات ایسی نہیں ہے بلکہ تم نے اپنی طرف سے بات گھڑ لی جس کو تم نے اس کے ساتھ عملی جامہ پہنایا ہے، (اب تو) میرے لئے صبر جمیل وہ ہے کہ جس میں کوئی شکوہ نہ ہو (آہ و فغاں نہ ہو) فصبرٌ جمیل، امری مبتداء محذوف کی خبر ہے اور یوسف کے معاملہ میں جو تم باتیں بنا رہے ہو اس کے بارے میں اللہ ہی سے مدد مانگی جاسکتی ہے یعنی اس سے مدد مطلوب ہے اور مدین کے مسافروں کا ایک قافلہ مصر جانے کے لئے آیا اور اس کنویں کے قریب پڑاؤ کیا جس میں یوسف (علیہ السلام) پڑے ہوئے تھے، اور اہل قافلہ نے اپنے سقے کو پانی لانے کیلئے بھیجا جس کی ذمہ داری پانی کا نظم کرنے کی تھی تاکہ اس سے سیرابی حاصل کریں، سو سقے نے جب کنویں میں ڈول ڈالا تو اس سے لٹک گئے اور یوسف (علیہ السلام) کو سقے نے نکال لیا اور (وہ سقا) چلا اٹھا مبارک ہو اور ایک قراءت میں بُشْریْ ہے اور اس کو ندا مجازاً ہے، اے میری خوشخبری تو حاضر ہوجایہ تیرے حاضر ہونے کا وقت ہے، یہ تو ایک لڑکا ہے، چناچہ اس کا علم اس (یوسف) کے بھائیوں کو بھی ہوگیا، چناچہ وہ قافلہ والوں کے پاس آئے، اور بھائیوں نے یوسف کو مال تجارت قرار دیتے ہوئے (واقعہ) کی اصل حقیقت کو چھپایا، اس طریقہ پر کہ انہوں نے کہا ہمارا بھاگا ہوا غلام ہے اور یوسف اس خیال سے خاموش رہے کہ کہیں ان کو قتل نہ کردیں، حالانکہ وہ جو کچھ کر رہے تھے اللہ اس سے باخبر تھا اور یوسف کے بھائیوں نے یوسف کو قافلے والوں میں سے ایک شخص کے ہاتھ بہت ہی قلیل قیمت یعنی گنتی کے چند درہموں یعنی بیس یا بائیس درہم کے عوض فروخت کردیا، اور یوسف کے بھائی یوسف سے کوئی رغبت نہیں رکھتے تھے، چناچہ قافلہ یوسف کو مصر لے آیا، اور جس شخص نے یوسف کو خریدا تھا اس نے بیس دینار اور دو جوڑی جوتوں اور دو جوڑے کپڑوں میں یوسف کو بیچ دیا۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : خبر مفسر علام نے خبر مضاف محذوف مان کر ایک سوال کا جواب دیا ہے سوال یہ ہے کہ آیت میں یوسف (علیہ السلام) فی کا ظرف واقع ہے حالانکہ یوسف چونکہ ذات ہے اسلئے اس میں ظرف بننے کی صلاحیت نہیں جواب کا حاصل یہ ہے کہ یوسف ظرف نہیں ہے بلکہ یوسف سے پہلے خبر محذوف ہے جیسا کہ مفسر علام نے ظاہر کردیا ہے لہٰذا اب کوئی اعتراض نہیں ہے۔
قولہ : مبتدأ، اس میں اشارہ ہے کہ لیوسف پر لام ابتدائیہ ہے نہ کہ قسمیہ۔
قولہ : شقیقہٗ اس میں اشارہ ہے کہ بنیامین حضرت یوسف (علیہ السلام) کے حقیقی بھائی تھے اور بقیہ تمام بھائی علاتی بھائی تھے
قولہ : بارض بعیدۃ، بعیدۃ کے اضافہ میں اشارہ ہے کہ ارضاً کی تنوین تعظیم کے لئے ہے۔
قولہ : غیابۃ الجُبِّ ، تاریک کنواں، کنویں کی اندھیری، گہرائی۔ قولہ : فاکتفوا بذلک، یہ ان کنتم کا جواب ہے جو محذوف ہے۔
قولہ : یرتع مضارع واحد مذکر غائب (فتح) پھل کھائے، مزے اڑائے، راتع چرنے والا۔ قولہ : فعلوا ذلک یہ لَمَّا کا جواب ہے۔
قولہ : بأن نزعوا قمیصہٗ ، باء تصویر یہ ہے کہ جو کہ صورت فعل کو بتانے کیلئے ہے، یعنی کنویں میں یوسف (علیہ السلام) کو کس طرح ڈالا۔
قولہ : بالنون والیاء فیھا ننشط ونتسع اس اضافہ کا مقصد یرتع ویلعب میں دو قراءتوں کو بیان کرنا ہے یعنی یرفع اور یلعب واحد مذکر غائب اور جمع متکلم دونوں قراءتیں ہیں، اور ننشط نلعب کی تفسیر ہے یعنی تاکہ ہم تیر اندازی میں مسابقت کریں اور نتسع یہ نرتع کی تفسیر ہے یعنی تاکہ ہم کھائیں اور مزے اڑائیں، اس تفسیر میں لف و نشر غیر مرتب ہے۔
قولہ : المراد بہ الجنس اس اضافہ سے یہ بتانا مقصود ہے الذئب میں الف لام عہد کا نہیں ہے اس لئے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے ذہن میں کوئی متعین بھیڑیا نہیں تھا بلکہ الف لام جنس کا ہے یعنی بھیڑئیے کا کوئی بھی فرد اس کو کھاجائے۔
قولہ : انّا اذًا لخاسرون، جواب قسم ہے۔
قولہ : جوابُ لَمَّا محذوف یہ اس اعتراض کا جواب ہے کہ کلام تام نہیں ہے اسلئے کہ فَلَمَّا ذھبوا کا جواب مذکور نہیں ہے جواب کا حاصل یہ ہے کہ لَمَّا کا جواب محذوف ہے اور وہ فعلوا ذلک ہے۔
قولہ : رَضَخَہٗ (ف) رَضخًا پتھر سے کچلنا، ٹکرانا۔ قولہ : ولو کنّا صادقین، ای فرضًا۔
قولہ : لا تَّھَمْتَنَا یہ لو کنا کا جواب محذوف ہے۔
قولہ : محلّہ نصبٌ علی الظرفیۃ، یعنی علی قمیصہ ظرف ہونے کی وجہ سے محلاً منصوب ہے، تقدیر عبارت یہ ہے ” وجاء و فوق قمیصہ بدم کذبٍ “۔
قولہ : ای ذی کذب اس اضافہ کا مقصد اس اعتراض کو دفع کرنا ہے کہ بدمٍ کذبٍ میں مصدر کا حمل ذات پر ہے جو کہ درست نہیں ہے ذی کا اضافہ کرکے بتادیا کہ مصدر بمعنی اسم فاعل ہے لہذٰا اب کوئی اعتراض نہیں، اور اگر ذی محذوف نہ مانا جائے تو بطور مبالغہ حمل درست ہوگا جیسا کہ زید عدل میں ہے۔
قولہ : الذی یرد الماء یہ واردٌ کی تفسیر ہے یعنی وہ شخص جو پانی کا انتظام کرتا ہے جس کو سقا کہتے ہیں اس سقے کا نام مالک ابن ذعر خزاعی تھا۔ قولہ : لیستسقی منہ تاکہ کنویں سے پانی لائے، بعض نسخوں میں لیستقی ہے دونوں کا صلہ من آتا ہے، استقٰی من النھر، نہر سے پانی لایا۔
قولہ : فی قراءۃ بُشرِیْ میری خوشخبری، بشارت کو نداء مجازًا کہہ دیا ہے اس لئے کہ بشارت میں مخاطب بننے کی صلاحیت نہیں ہے
تفسیر و تشریح
لقد کان۔۔۔۔ للسائلین، اس آیت میں اس بات پر متنبہ کیا گیا ہے کہ قصۂ یوسف کو محض ایک قصہ مت سمجھو بلکہ اس میں تحقیق کرنے والوں اور سوال کرنے والوں کیلئے بڑی نشانیاں ہیں۔
سائلین کون تھے : سورة یوسف کے شان نزول کے سلسلہ میں یہ بات گذر چکی ہے کہ پوری سورة یوسف مشرکین مکہ کے ایک سوال کے جواب میں بیک وقت نازل ہوئی تھی، مکہ میں جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا چرچا ہوا تو مشرکین مکہ نے اس کی بڑی شدت سے مخالفت کی اور ایذا رسانی کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کردیا اور کوشش کی (نزعم خویش) اس فتنہ کو بہر صورت ختم کردیا جائے، مگر وہ اس میں کامیاب نہ ہوئے اور اسلامی تحریک دن بدن ترقی کرتی رہی آخر کار مشرکین نے تنگ آکر یہود مدینہ سے اس سلسلہ میں گفتگو کی اور اپنی پریشانی اور لاچاری کا اظہار کیا اس پر یہود نے کہا کہ تم اس مدعی نبوت سے دو سوال کرو ایک یہ کہ یعقوب کی اولاد شام سے مصر کیوں منتقل ہوئی ؟ دوسرے حضرت یوسف (علیہ السلام) سے متعلق واقعات کی تفصیل کیا ہے ؟ اگر نبی نہیں ہے تو ہرگز نہ بتاسکے گا۔ کفار نے یہود کی ہدایت کے مطابق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ دونوں سوال کئے اور آپ نے وحی الٰہی کے ذریعہ وہ سب کچھ ان کو سنا دیا جو سورة یوسف میں موجود ہے۔
یہ واقعہ یہودیوں نے اس لئے منتخب کیا تھا کہ نہ اس واقعہ کی کوئی عام شہرت تھی اور نہ مکہ میں اس واقعہ سے کوئی واقف تھا اور اس وقت مکہ میں اہل کتاب میں سے بھی کوئی موجود نہیں تھا کہ ان کے ذریعہ تورات کے حوالہ سے یہ واقعہ معلوم ہوسکتا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اس تفصیل سے واقعہ یوسف کو بیان کردینا یہ آپ کا معجزہ اور نبوت کی کھلی دلیل ہے اس لئے کہ ایک امّی کیلئے اس بسط و
تفصیل سے واقعہ کو بیان کردینا کہ تورات میں بھی اتنی تفصیل نہیں ہے یہ وحی الٰہی سے ہی ہوسکتا تھا۔
قطع نظر یہود کے سوال کے خود یہ واقعہ ایسے امور پر مشتمل ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی بڑی نشانیاں اور تحقیق کرنے والوں کیلئے بڑی ہدایتیں اور احکام و مسائل موجود ہیں کہ جس بچہ کو بھائیوں نے ہلاکت کیلئے کنویں میں ڈالا تھا اللہ تعالیٰ کی قدرت نے اس کو کہاں سے کہاں پہنچایا، اس واقعہ کو سنکر قلوب میں حق تعالیٰ کی عظیم قدرت و حکمت کا نقش جم جاتا ہے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کا بین ثبوت ملتا ہے، اس واقعہ میں خصوصاً مشرکین مکہ کیلئے جو یہود کے اکسانے پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کر رہے تھے بڑی عبرت ہے کہ جس طرح یوسف (علیہ السلام) کو بھائیوں نے گھر سے نکالا ازراہ حسد قتل اور جلاوطن کرنے کے مشورہ کئے قسم قسم کی اذیتیں پہنچائیں، اہانت اور استخفاف میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا آخر ایک وقت آیا کہ یوسف کی طرف نادم و محتاج ہو کر آئے، یوسف (علیہ السلام) کو خدا تعالیٰ نے دین و دنیا کے اعلیٰ مناصب پر فائز کیا اور انہوں نے اپنے عروج و اقتدار کے وقت بھائیوں کے جرائم سے چشم پوشی کی اور نہایت دریا دلی سے سب کے قصور معاف کر دئیے ٹھیک اسی طرح محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی برادری نے آپ کے متعلق ناپاک منصوبے بنائے اذیتیں پہنچائیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عزت و آبرو پر حملے کئے حتی کہ وطن چھوڑنے پر مجبور کیا، لیکن جلد ہی وہ دن آگیا کہ وطن سے علیحدہ ہو کر آپ کی کامیابی اور رفعت شان کا آفتاب چمکا اور چند ہی سالوں کے بعد فتح مکہ کا وہ تاریخی دن آگیا کہ جب آپ نے اپنے وطنی اور قومی بھائیوں اور جانی دشمنوں کی تمام تقصیرات پر بعینہ حضرت یوسف والے کلمات ” لاتثریب علیکم الیوم “ فرما کر قلم عفو پھیر دیا۔
واقعہ کی تفصیل : حضرت یوسف (علیہ السلام) اور ان کے بھائیوں کے واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے کل بارہ بیٹے تھے ان میں سے ہر لڑکا صاحب اولاد ہوا ہے اور سب کے خاندان خوب پھلے پھولے، چونکہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا لقب اسرائیل تھا اسلئے یہ بارہ خاندان بنی اسرائیل کہلائے، (معارف) ان بارہ بیٹوں میں سے دس بیٹے یعقوب (علیہ السلام) کی پہلی بیوی لیّا بنت لیّان کے بطن سے تھے، ان کی وفات کے بعد یعقوب (علیہ السلام) نے لیّا کہ بہن راحیل بنت لیان سے نکاح کرلیا ان کے بطن سے دو لڑکے یوسف (علیہ السلام) اور نبی امین پیدا ہوئے، بن یامین حضرت یوسف (علیہ السلام) کے حقیقی بھائی تھے اور باقی دس علاتی بھائی تھے جن کے ناموں کی تفصیل اوپر گزر چکی ہے، حضرت یوسف (علیہ السلام) کی والدہ راحیل کا انتقال بھی ان کے بچپن میں بنیامین کی ولادت کے وقت ہوگیا تھا۔
دوسری آیت سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کا قصہ شروع ہوا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے اپنے والد صاحب کو دیکھا کہ وہ یوسف (علیہ السلام) سے غیر معمولی محبت رکھتے ہیں، اس پر ان کو حسد ہوا، اور یہ بھی ممکن ہے کہ کسی طرح بھائیوں کو یوسف (علیہ السلام) کے خواب کا علم ہوگیا ہو جس سے انہوں نے محسوس کیا ہو کہ یوسف کی بڑی شان ہونے والی ہے اس سے حسد ہوا اور وہ سمجھتے ہوں کہ محبت تو ہم سے زیادہ ہونی چاہیے اسلئے کہ ہم ایک بڑی اور طاقتور جماعت ہیں وقت پڑنے پر ہم ہی کام آسکتے ہیں یہ بچے کیا کام آسکتے ہیں ؟ اسلئے ہمارے والد صاحب کی یہ کھلی ناانصافی ہے اس کے علاج کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں یا تو یوسف کو قتل کرو دو تاکہ قصہ پاک ہوجائے یا پھر ان کو کسی دور دراز ملک میں پہنچا دو اس طرح والد صاحب کی توجہ اور محبت تمہارے ساتھ مخصوص ہوجائیگی، رہا قتل یا کنویں میں ڈالنے کا گناہ تو بعد میں توبہ کرکے تم نیک بن سکتے ہو
وتکونوا۔۔۔ صالحین، کے ایک معنی یہ بھی بیان کئے گئے ہیں کہ یوسف کو راستہ سے ہٹانے کے بعد تمہارے حالات درست ہوجائیں گے کیونکہ باپ کی توجہ کا یہ مرکز ختم ہوجائیگا۔
قال۔۔۔ منھم، ان ہی بھائیوں میں سے ایک بھائی نے جو کہ ان میں سب سے زیادہ صائب الرائے تھے جس کا نام بعض مفسرین نے یہوذ اور بعض نے روبیل اور بعض نے شمعون بتایا ہے کہا یوسف کو قتل نہ کرو اگر کچھ کرنا ہے تو اسے کنویں میں ایسی جگہ ڈال دو جہاں یہ زندہ رہے اور جب مسافر اس کنویں پر آئیں تو اس کو نکال کرلے جائیں، اس طرح تمہارا مقصد بھی پورا ہوجائیگا اور اس کو لے کر تمہیں کہیں دور مقام پر جانا بھی نہ پڑے گا۔
قالوا۔۔۔۔ یوسف، جب بھائیوں کے درمیان مشورہ میں یہ بات طے ہوگئی کہ یوسف کو کسی اندھیرے کنویں میں ڈال دیا جائے تو اپنے والد صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور خیر خواہانہ انداز میں یہ درخواست پیش کی کہ ابا جان یہ کیا بات ہے کہ آپ کو یوسف کے بارے میں ہم پر اطمینان نہیں حالانکہ ہم اس کے پورے خیر خواہ اور ہمدرد ہیں، کل آپ اس کو ہمارے ساتھ سیرو تفریح کیلئے بھیج دیجئے کہ وہ بھی آزادی کے ساتھ کھائے پیئے اور کھیلے کودے، اور ہم اس کی پوری طرح حفاظت کریں گے، حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا میں اس کو تمہارے ساتھ بھیجنا دو وجہ سے پسند نہیں کرتا اول مجھے اس نور نظر کے بغیر
چین نہیں آتا دوسرے یہ کہ مجھے خطرہ ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہاری غفلت کی ووجہ سے اسے کوئی بھیڑیا کھاجائے۔
یعقوب (علیہ السلام) کو بھیڑیئے کا خطرہ محسوس ہونے کی وجہ : یعقوب (علیہ السلام) نے بھیڑئیے کا خطرہ یا تو اس وجہ سے محسوس کیا کہ سر زمین کنعان میں بھیڑئیے زیادہ تھے، اور یا اس وجہ سے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے ایک خواب دیکھا تھا کہ وہ خود ایک پہاڑ کے اوپر ہیں اور یوسف (علیہ السلام) پہاڑ کے دامن میں ہیں اچانک دس بھیڑیوں نے یوسف پر حملہ کرنا چاہا مگر ان میں سے ایک بھیڑئیے نے مدافعت کرکے چھڑا دیا، پھر یوسف (علیہ السلام) زمین کے اندر چھپ گئے، جس کی تعبیر بعد میں اس طرح ظاہر ہوئی کہ دس بھیڑئیے یہ دس بھائی تھے اور جس بھیڑیئے نے مدافعت کرکے ان کو ہلاکت سے بچایا وہ بڑے بھائی یہوذا تھے، اور زمین میں چھپ جانا کنوئیں کے گہرائی کی تعبیر ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس سے ایک روایت میں منقول ہے کہ یعقوب (علیہ السلام) کو اس خواب کی بنا پر خود ان بھائیوں سے خطرہ تھا ان ہی کو بھیڑیا کہا تھا مگر مصلحتاً پوری بات ظاہر نہیں کی۔
امام قرطبی نے یوسف (علیہ السلام) کو کنوئیں میں ڈالنے کا واقعہ یہ بیان کیا ہے کہ جب ان کو کنوئیں میں ڈالنے لگے تو وہ کنوئیں کی من سے چمٹ گئے بھائیوں نے ان کے ہاتھ باندھ دئیے تاکہ کسی چیز کو پکڑ نہ سکیں، اس وقت یوسف (علیہ السلام) نے پھر ان سے فریاد کی مگر بجائے ان پر رحم کرنے کے جواب یہ ملا کہ گیارہ ستارے جو تجھے سجدہ کرتے ہیں ان کو بلا، وہی تیری مدد کریں گے، پھر ایک ڈول میں رکھ کر کنویں میں لٹکایا اور درمیان ہی میں رسی کاٹ دی اللہ تعالیٰ نے یوسف (علیہ السلام) کی حفاظت فرمائی اور قریب ہی ایک پتھر کی چٹان جو باہر کو نکلی ہوئی تھی صحیح سالم اس پر بیٹھ گئے، بعض روایات میں ہے کہ جبرائیل نے ان کو چٹان پر بٹھا دیا۔ یوسف (علیہ السلام) تین روز کنوئیں میں رہے ان کا بھائی یہوذا دوسرے بھائیوں سے چھپ کر روزانہ ان کیلئے کھانا لاتا اور ڈول کے ذریعہ ان تک پہنچا دیتا۔
شام کو بھائیوں کا روتے ہوئے آنا : وجاء۔۔۔۔ یبکون، یعنی عشاء کے وقت یہ بھائی روتے ہوئے اپنے باپ کے پاس پہنچے حضرت یعقوب ان کے رونے کی آواز سن کر باہر آئے، معلوم کیا کیا حادثہ پیش آیا ہے کیا تمہاری بکریوں پر کسی نے حملہ کیا ہے ؟ اور یوسف کہاں ہے ؟ تو بھائیوں نے کہا، ہم آپس میں دوڑ لگانے میں مشغول ہوگئے اور یوسف کو اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا، اس درمیان یوسف کو بھیڑیا کھا گیا، اور ہم کتنے ہی سچے ہوں آپ کو ہمارا یقین تو آئیگا نہیں۔
شریعت میں جائز کھیلوں کا حکم : ابن عربی نے احکام القرآن میں فرمایا کہ باہمی مسابقت (دوڑ) شریعت میں مشروع اور اچھی بات ہے جو جنگ و جہاد میں کام آتی ہے خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بنفس نفیس مسابقت کرنا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے، صحابۂ کرام میں سے سلمہ بن اکوع نے ایک شخص کے ساتھ دو ڈ میں مسابقت کی تو سلمہ غالب آگئے تھے۔
وجاء۔۔۔۔ کذب، یعنی یوسف (علیہ السلام) کے بھائی یوسف کے کرتے پر ایک بکری کا بچہ ذبح کرکے اس کا خون لگا لائے تاکہ والد صاحب کو یقین دلائیں کہ یوسف کو بھیڑیا کھا گیا، مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو جھوٹ ظاہر کرنے کیلئے ان کو اس بات سے غافل کردیا کہ کرتے پر خون لگانے کے ساتھ اس کو پھاڑ بھی دیتے تاکہ بھیڑئیے کا کھانا ثابت ہوجاتا، یعقوب (علیہ السلام) نے کرتہ کو صحیح سالم دیکھ کر فرمایا، بیٹو ! یہ بھیڑیا کیسا حکیم اور عقلمند تھا کہ اس نے یوسف کو اس طرح کھایا کہ کرتہ نہیں سے نہیں پھٹا ؟ اس طرح حضرت یعقوب پر ان کی جعل سازی کا راز فاش ہوگیا، تو فرمایا ” بل سوّلت لکم انفسکم امراً فصبرٌ جمیل “۔
فائدہ : حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے کرتہ کے صحیح سالم ہونے سے برادران یوسف کے جھوٹ پر استدلال کیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ قاضی یا حاکم کو فریقین کے دعوے اور دلائل کے ساتھ حالات اور قرائن پر بھی نظر کرنا چاہیے (قرطبی، معارف
قافلہ کا ورود اور یوسف (علیہ السلام) کو کنوئیں سے نکالنا : اتفاقاً ایک قافلہ اس سرزمین پر آنکلا یہ قافلہ شام سے مصر جا رہا تھا اور راستہ بھٹک کر اس غیر آباد میدان میں پہنچ گیا اور پانی کیلئے پانی کے منتظم سقے کو کنوئیں پر بھیجا، گو لوگوں کی نظر میں یہ اتفافی واقعہ تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حکمت تکوینی میں کوئی بخت و اتفاق نہیں، حق تعالیٰ شانہ، جس کی شان فَعّالٌ لما یرید ہے مخفی حکمتوں کے تحت ایسے حالات پیدا فرما دیتے ہیں کہ ظاہری واقعات سے ان کو جوڑ سمجھ میں نہیں آتا تو انسان ان کو اتفافی حوادث قرار دیتا ہے۔
بہرحال قافلہ والوں نے اپنے ایک شخص کو جس کے ذمہ پانی کی فراہمی کی ذمہ داری تھی اس کا نام مالک بن ذعر بتلایا جاتا ہے پانی لانے کیلئے بھیجا، جب اسنے کنوئیں میں ڈول ڈالا تو یوسف (علیہ السلام) نے ڈول پکڑ لیا اور جو ڈول نکالا تو ایک کمسن نہایت ہی خوبرو بچہ برآمد ہوا بچہ کو دیکھ کر وہ فوراً ہی چلا اٹھا ” یا بشریٰ ھذا غلام “ بڑی خوشی کی بات ہے یہ تو بڑا اچھا لڑکا نکل آیا، جب یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کو معلوم ہوا کہ قافلہ والوں نے یوسف کو کنوئیں سے نکال لیا ہے تو دوڑے ہوئے پہنچے، اس مقام پر بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ برادران یوسف کو قافلے والوں کے ساتھ فروخت کردیا مگر مفسرین کے اس قول کی تائید نہ تورات سے ہوتی ہے اور نہ روایات سے اور نہ قرآن عزیز کی آیات سے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ قافلے والوں ہی نے یوسف (علیہ السلام) کو کنوئیں سے نکالا اور غلام بنا لیا، اور مال تجارت کے ساتھ ان کو مصر لے گئے۔
وشروہ۔۔۔ معدودۃ، لفظ شراء عربی زبان میں خریدو فروخت دونوں معنی میں استعمال ہوتا ہے، یہاں دونوں ہی معنی کا احتمال ہے، ضمیر اگر برادران یوسف کی طرف لوٹائی جائے تو فروخت کرنے کے معنی ہوں گے اور اگر قافلہ والوں کی طرف لوٹائی جائے تو خریدنے کے معنی ہوں گے، ابن کثیر نے بروایت عبد اللہ بن مسعود لکھا ہے کہ بیس درہم میں سودا ہوا اور دس بھائیوں نے دو دو درہم آپس میں تقسیم کرلئے، تعداد کے سلسلہ میں ٢٢ اور ٤٠ دراہم کی روایات بھی ہیں۔
وکانوا۔۔۔ زاھدین، زاھدین، زاھد کی جمع ہے جو زھد سے مشتق ہے زھد کے لفظی معنی بےرغبتی اور بےتوجہی کے ہیں محاورات میں دنیا کے مال و دولت سے بےرغبتی کے ہیں آیت کے معنی یہ ہیں کہ برادران یوسف اس معاملہ میں دراصل مال کے خواہشمند نہ تھے ان کا اصل مقصد یوسف (علیہ السلام) کو باپ سے جدا کرنا تھا اس لئے قلیل دراہم میں معاملہ کرلیا۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿لَقَدْ کَانَ فِیْ یُوْسُفَ وَاِخْوَتِہٖٓ اٰیٰتٌ﴾ ’’یقیناً یوسف اور ان کے بھائیوں کے قصہ میں نشانیاں ہیں۔‘‘ یعنی قصہ یوسف میں عبرتیں اور بہت سے مطالب حسنہ پر دلائل ہیں۔﴿ لِّلسَّاۗیِٕلِیْنَ﴾ ’’پوچھنے والوں کے لیے۔‘‘ یعنی ہر اس شخص کے لیے جو زبان حال یا زبان قال کے ذیعے سے اس قصے کے بارے میں سوال کرتا ہے، کیونکہ سوال کرنے والے لوگ ہی آیات الٰہی اور عبرتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور رہے روگردانی کرنے والے، تو وہ آیات الٰہی سے فائدہ اٹھاتے ہیں، نہ قصوں اور واضح دلائل سے۔
11 Mufti Taqi Usmani
haqeeqat yeh hai kay jo log ( tum say yeh waqiaa ) pooch rahey hain , unn kay liye yousuf aur unn kay bhaiyon ( kay halaat mein ) bari nishaniyan hain .
12 Tafsir Ibn Kathir
یوسف (علیہ السلام) کے خاندان کا تعارف
فی الواقع حضرت یوسف اور ان کے بھائیوں کے واقعات اس قابل ہیں کہ ان کا دریافت کرنے والا ان سے بہت سی عبرتیں حاصل کرسکے اور نصیحتیں لے سکے۔ حضرت یوسف کے ایک ہی ماں سے دوسرے بھائی بنیامین تھے باقی سب بھائی دوسری ماں سے تھے۔ یہ سب آپس میں کہتے ہیں ہے کہ واللہ ابا جان ہم سے زیادہ ان دونوں کو چاہتے ہیں۔ تعجب ہے کہ ہم پر جو جماعت ہیں ان کو ترجیح دیتے ہیں جو صرف دو ہیں۔ یقینا یہ تو والد صاحب کی صریح غلطی ہے۔ یہ یاد رہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کی نبوت پر در اصل کوئی دلیل نہیں اور آیت کا طرز بیان تو بالکل اس کے خلاف پر ہے۔ بعض لوگوں کا بیان ہے کہ اس واقعہ کے بعد انہیں نبوت ملی لیکن یہ چیز بھی محتاج دلیل ہے اور دلیل میں آیت قرآنی ( قُوْلُوْٓا اٰمَنَّا باللّٰهِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْنَا وَمَآ اُنْزِلَ اِلٰٓى اِبْرٰھٖمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ وَمَآ اُوْتِيَ مُوْسٰى وَعِيْسٰى وَمَآ اُوْتِيَ النَّبِيُّوْنَ مِنْ رَّبِّهِمْ ۚ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ ڮ وَنَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ\013\06 ) 2 ۔ البقرة :136) میں سے لفظ اسباط پیش کرنا بھی احتمال سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا۔ اس لیے کہ بطون بنی اسرائیل کو اسباط کہا جاتا جا ہے جیسے کہ عرب کو قبائل کہا جاتا ہے اور عجم کو شعوب کہا جاتا ہے۔ پس آیت میں صرف اتنا ہی ہے کہ بنی اسرائیل کے اسباط پر وحی الٰہی نازل ہوگئی انہیں اس لیے اجمالاً ذکر کیا گیا کہ یہ بہت تھے لیکن ہر سبط برادران یوسف میں سے ایک کی نسل تھی۔ پس اس کی کوئی دلیل نہیں کہ خاص ان بھائیوں کو اللہ تعالیٰ نے خلعت نبوت سے نوازا تھا واللہ اعلم۔ پھر آپس میں کہتے ہیں ایک کام کرو نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ یوسف کا پاپ ہی کاٹو۔ نہ یہ ہو نہ ہماری راہ کا کانٹا بنے۔ ہم ہی ہم نظر آئیں۔ اور ابا کی محبت صرف ہمارے ہی ساتھ رہے۔ اب اسے باپ سے ہٹانے کی دو صورتیں ہیں یا تو اسے مار ہی ڈالو۔ یا کہیں ایسی دور دوراز جگہ پھینک آؤ کہ ایک کی دوسرے کو خبر ہی نہ ہو۔ اور یہ واردات کر کے پھر نیک بن جانا توبہ کرلینا اللہ معاف کرنے والا ہے یہ سن کر ایک نے مشورہ دیا جو سب سے بڑا تھا اس کا نام روبیل تھا۔ کوئی کہتا ہے یہودا تھا کوئی کہتا ہے شمعون تھا۔ اس نے کہا بھئی یہ تو ناانصافی ہے۔ بےوجہ، بےقصور صرف عداوت میں آکر خون ناحق گردن پر لینا تو ٹھیک نہیں۔ یہ بھی کچھ اللہ کی حکمت تھی رب کو منظور ہی نہ تھا ان میں قتل یوسف کی قوت ہی نہ تھی۔ منظور رب تو یہ تھا کہ یوسف کو نبی بنائے، بادشاہ بنائے اور انہیں عاجزی کے ساتھ اس کے سامنے کھڑا کرے۔ پس ان کے دل روبیل کی رائے سے نرم ہوگئے اور طے ہوا کہ اسے کسی غیر آباد کنویں کی تہ میں پھینک دیں۔ قتادہ کہتے ہیں یہ بیت المقدس کا کنواں تھا انہیں یہ خیال ہوا کہ ممکن ہے مسافر وہاں سے گزریں اور وہ اسے اپنے قافلے میں لے جائیں پھر کہاں یہ اور کہاں ہم ؟ جب گڑ دیئے کام نکلتا ہو تو زہر کیوں دو ؟ بغیر قتل کئے مقصود حاصل ہوتا ہے تو کیوں ہاتھ خون سے آلود کرو۔ ان کے گناہ کا تصور تو کرو۔ یہ رشتے داری کے توڑنے، باپ کی نافرمانی کرنے، چھوٹے پر ظلم کرنے، بےگناہ کو نقصان پہنچانے بڑے بوڑھے کو ستانے اور حقدار کا حق کاٹنے حرمت و فضلیت کا خلاف کرنے بزرگی کو ٹالنے اور اپنے باپ کو دکھ پہنچانے اور اسے اس کے کلیجے کی ٹھنڈک اور آنکھوں کے سکھ سے ہمیشہ کے لیے دور کرنے اور بوڑھے باپ، اللہ کے لاڈلے پیغمبر کو اس بڑھاپے میں ناقابل برداشت صدمہ پہنچانے اور اس بےسمجھ بچے کو اپنے مہربان باپ کی پیار بھری نگاہوں سے ہمیشہ اوجھل کرنے کے درپے ہیں۔ اللہ کے دو نبیوں کو دکھ دینا چاہتے ہیں۔ محبوب اور محب میں تفرقہ ڈالنا چاہتے ہیں، سکھ کی جانوں کو دکھ میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ پھول سے نازک بےزبان بچے کو اس کے مشفق مہربان بوڑھے باپ کی نرم و گرم گودی سے الگ کرتے ہیں۔ اللہ انہیں بخشے آہ شیطان نے کیسی الٹی پڑھائی ہے۔ اور انہوں نے بھی کیسی بدی پر کمر باندھی ہے۔