یوسف آية ۹۴
وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيْرُ قَالَ اَبُوْهُمْ اِنِّىْ لَاَجِدُ رِيْحَ يُوْسُفَ لَوْلَاۤ اَنْ تُفَـنِّدُوْنِ
طاہر القادری:
اور جب قافلہ (مصر سے) روانہ ہوا ان کے والد (یعقوب علیہ السلام) نے (کنعان میں بیٹھے ہی) فرما دیا: بیشک میں یوسف کی خوشبو پا رہا ہوں اگر تم مجھے بڑھاپے کے باعث بہکا ہوا خیال نہ کرو،
English Sahih:
And when the caravan departed [from Egypt], their father said, "Indeed, I find the smell of Joseph [and would say that he was alive] if you did not think me weakened in mind."
1 Abul A'ala Maududi
جب یہ قافلہ (مصر سے) روانہ ہوا تو ان کے باپ نے (کنعان میں) کہا "میں یوسفؑ کی خوشبو محسوس کر رہا ہوں، تم لوگ کہیں یہ نہ کہنے لگو کہ میں بڑھاپے میں سٹھیا گیا ہوں"
2 Ahmed Raza Khan
جب قافلہ مصر سے جدا ہوا یہاں ان کے باپ نے کہا بیشک میں یوسف کی خوشبو پا تا ہوں اگر مجھے یہ نہ کہو کہ سٹھ (بہک) گیا ہے،
3 Ahmed Ali
اور جب قافلہ روانہ ہوا تو ان کے باپ نے کہا بے شک میں یوسف کی بو پاتا ہوں اگر مجھے دیوانہ نہ بناؤ
4 Ahsanul Bayan
جب یہ قافلہ جدا ہوا تو ان کے والد نے کہا کہ مجھے تو یوسف کی خوشبو آرہی ہے اگر تم مجھے سٹھیایا ہوا قرار نہ دو (١)
٩٤۔١ ادھر یہ قمیص لے کر قافلہ مصر سے اور ادھر حضرت یعقوب علیہ السلام کو اللہ تعالٰی کی طرف سے اعجاز کے طور پر حضرت یوسف علیہ السلام کی خوشبو آنے لگ گئی یہ گویا اس بات کا اعلان تھا کہ اللہ کے پیغمبر کو بھی، جب تک اللہ تعالٰی کی طرف سے اطلاع نہ پہنچے، پیغمبر بےخبر ہوتا ہے، چاہے بیٹا اپنے شہر کے کسی کنوئیں ہی میں کیوں نہ ہو، اور جب اللہ تعالٰی انتظام فرما دے تو پھر مصر جیسے دور دراز کے علاقے سے بھی بیٹے کی خوشبو آجاتی ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جب قافلہ (مصر سے) روانہ ہوا تو ان کے والد کہنے لگے کہ اگر مجھ کو یہ نہ کہو کہ (بوڑھا) بہک گیا ہے تو مجھے تو یوسف کی بو آ رہی ہے
6 Muhammad Junagarhi
جب یہ قافلہ جدا ہوا تو ان کے والد نے کہا کہ مجھے تو یوسف کی خوشبو آرہی ہے اگر تم مجھے سٹھیایا ہوا قرار نہ دو
7 Muhammad Hussain Najafi
اور جب (مصر سے) قافلہ روانہ ہوا تو ان کے باپ نے (کنعان میں) کہا اگر تم مجھے مخبوط الحواس نہ سمجھو تو میں یوسف (ع) کی خوشبو محسوس کر رہا ہوں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اب جو قافلہ مصر سے روانہ ہوا تو ان کے پدر بزرگوار نے کہا کہ میں یوسف کی خوشبو محسوس کررہا ہوں اگر تم لوگ مجھے سٹھیایا ہوا نہ کہو
9 Tafsir Jalalayn
اور جب قافلہ (مصر سے) روانہ ہوا تو ان کے والد کہنے لگے کہ اگر مجھ کو یہ نہ کہو کہ (بوڑھا) بہک گیا ہے تو مجھے تو یوسف کی بو آرہی ہے۔
آیت نمبر ٩٤ تا ١٠٤
ترجمہ : اور جب یہ قافلہ مصر کی آبادی سے باہر نکلا تو ان کے والد نے حاضرین میں سے ان سے جو ان کے بیٹے اور پوتوں میں سے موجود تھے کہا میں یوسف (علیہ السلام) کی خوشبو محسوس کر رہا ہوں اگر تم مجھے سٹھیایا ہوا قرار نہ دو تو تم میری تصدیق کروگے بادصبا نے باذن خداوندی یوسف (علیہ السلام) کی خوشبو کو یعقوب تک تین دن کی یا آٹھ دن کی یا اس سے زیادہ کی مسافت سے پہنچا دیا تھا، تو حاضرین نے ان سے کہا واللہ تم تو اپنے پرانے خبط میں مبتلا ہو اس سے بیحد محبت کرنے اور اس سے ملاقات کی (شدید) خواہش کی وجہ سے باوجود عرصہ دراز گذر جانے کے، چناچہ جب خوشخبری دینے والا یہودا کرتہ لے کر آیا اور یہودا ہی خون آلود کرتہ لے کر گیا تھا لہٰذا اس نے چاہا کہ جس طرح میں نے اباجان کو رنج پہنچایا تھا اسی طرح میں ہی ان کو پیغام مسرت سناؤں (اور) یعقوب (علیہ السلام) کے چہرے پر کرتہ ڈالا تو ان کی بینائی لوٹ آئی، یعقوب (علیہ السلام) نے کہا میں تم سے نہ کہا کرتا تھا کہ میں اللہ کی طرف سے وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے، انہوں نے کہا اباجان ہمارے لئے ہماری خطاؤں کی معافی طلب کیجئے بیشک ہم قصور وار ہیں، فرمایا میں عنقریب تمہارے لئے اپنے رب سے معافی مانگو نگا وہ بہت بڑا بخشنے والا بہت بڑا مہربان ہے، اس استغفار کو صبح (صادق) تک مؤخر کیا تاکہ قبولیت کے زیادہ قریب ہوجائے، اور کہا گیا ہے کہ جمعہ کی رات تک مؤخر کیا پھر مصر کی طرف متوجہ ہوئے، اور یوسف اور عمائدین سلطنت ان کی ملاقات کیلئے (شہر سے) باہر نکلے، جب (برادران یوسف کا) پورا گھر انا یوسف کے پاس خیمہ میں پہنچ گیا تو اپنے والدین کو اپنے پاس جگہ دی (یعنی) اپنے والد اور والدہ کو یا اپنی خالہ کو، اور کہا بمشئیت خداوندی تم لوگ امن وامان کے ساتھ مصر میں آؤ، چناچہ یہ لوگ داخل ہوئے اور یوسف (علیہ السلام) تخت پر بیٹھے اور اپنے والدین کو بھی اپنے ساتھ تخت پر بٹھا لیا اور ان کے والدین اور ان کے بھائی یوسف کے سامنے سجدہ میں گرگئے اور یہ سجدہ جھکنے کے طور پر تھا نہ کہ زمین پر پیشانی رکھ کر، اور اس زمانہ میں ان لوگوں کو سلام کا یہی طریقہ تھا، تب (یوسف نے) کہا اباجان یہ میرے سابق خواب کی تعبیر ہے میرے پروردگار نے اسے سچ کر دکھایا، اس نے میرے ساتھ بڑا احسان کیا جبکہ اس نے مجھے جیل سے نکالا اور یہ نہیں کہا کہ کنویں سے نکالا بھائیوں کے اکرام کی وجہ سے تاکہ وہ شرمندہ نہ ہوں اور آپ لوگوں کو اس اختلاف کے بعد کہ جو شیطان نے مجھ میں اور میرے بھائیوں میں ڈالدیا تھا، صحرا سے آئے میرا رب جو چاہے اس کیلئے بہترین تدبیر کرنے والا ہے اور وہ اپنی مخلوق کے بارے میں بہت علم والا (اور) اپنی صنعت کے بارے میں حکمت والا ہے اور یوسف (علیہ السلام) نے اپنے والدین کو اپنے پاس ٢٤ سال مقیم رکھا، اور جدائی کی مدت ١٨ سال یا، ٤٩ سال یا ٨٠ سال تھی مصر ہی میں یعقوب (علیہ السلام) کا انتقال ہوا اور یوسف (علیہ السلام) کو وصیت کی کہ ان (کے تابوت) کو اٹھا کرلیجائیں اور ان کے والد (اسحٰق) کے پاس دفن کریں، چناچہ یوسف بذات خود اس کو لے گئے اور ان کو (وصیت کے مطابق) دفن کیا، پھر مصر واپس آگئے، اور اس کے بعد مصر میں، ٢٣ سال رہے، اور جب ان کا کام (مصر میں) مکمل ہوگیا اور سمجھ گئے کہ وہ ہمیشہ رہنے والے نہیں ہیں اور ان پر ملک بقاء کا شوق غالب آگیا، تو یوسف (علیہ السلام) نے کہا اے میرے پروردگار تو نے مجھے ملک عطا فرمایا اور خوابوں کی تعبیر سکھلائی، اے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے تو ہی میرا مصلحتوں کا والی ہے دنیا اور آخرت میں تو مجھے اسلام کی حالت میں وفات دے اور تو مجھے صالحین (یعنی) میرے آباء (و اجداد) کے ساتھ ملا دے اس کے بعد حضرت یوسف (علیہ السلام) ایک ہفتہ یا اس سے (کچھ) زائد بقید حیات رہے اور ان کی عمر ١٢٠ سال ہوئی اور اہل مصر نے یوسف (علیہ السلام) کے مقام دفن میں اختلاف کیا چناچہ ان کا یک سنگ مرمر کے صندوق میں رکھ کر دریائے نیل کے اوپر کی جانب دفن کردیا تاکہ دونوں جانب کو برکت حاصل ہو، پاک ہے وہ ذات جس کے ملک کا کبھی اختتام نہیں ہے، یوسف کا یہ واقعہ غیب کی ان خبروں میں سے ہے اے محمد جو تجھ سے مخفی ہیں، جس کی ہم آپ کی طرف وحی کر رہے ہیں اور آپ یوسف کے بھائیوں کے پاس نہیں تھے جبکہ انہوں نے یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں سازش کی تھی، یعنی اس کا پختہ ارادہ کرلیا تھا، حال یہ کہ وہ یوسف کے ساتھ مکر کر رہے تھے یعنی (اے محمد) تم برادران یوسف کے پاس موجود نہیں تھے کہ ان کے قصہ سے واقف ہوتے کہ اس واقعہ کی خبر دیتے، آپ کو اس کا علم بذریعہ وحی ہوا ہے اور اکثر لوگ یعنی اہل مکہ اگرچہ آپ ان کے ایمان کے خواہشمند ہیں قرآن پر ایمان لانے والے نہیں ہیں، اور آپ قرآن پر ان سے اجرت کا سوال نہیں کر رہے ہیں کہ آپ اس کو وصول کرتے ہوں، یہ یعنی قرآن تو تمام جہانوں کے لئے نصیحت ہی نصیحت ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : خرج من عریش مصر، عریش ایک قول کے مطابق ملک مصر و شام کی سرحد پر ایک مشہور شہر کا نام ہے دوسرا قول یہ ہے کہ عریش آبادی کو کہتے ہیں مراد مصر کی آبادی ہے۔
قولہ : من بنیہ واولادھم اس سے معلوم ہوا ہے کہ برادران یوسف میں سے کچھ اپنے والد کے پاس بھی رہ گئے تھے حالانکہ سابق میں معلوم ہوچکا ہے کہ تمام بھائی مصر چلے گئے تھے، تفسیر خازن میں ہے من اولاد بنیہ، اور شیخ زادہ کی عبارت ہے ” من ولد ولدہ “
قولہ : اوصلتہ الیہ الصبا، ای ریح الصبا مضاف محذوف ہے ای باد صبا، یہاں ایک قوی شبہ یہ ہے کہ صبا مشرق سے جانب مغرب چلنے والی ہوا کو کہتے اور مغرب سے مشرق کی جانب چلنے والی ہوا کو دبور کہتے ہیں اور شام مصر سے جانب مشرق میں واقع ہے لہٰذا شام کی طرف سے آنیوالی ہوا صبا کہلائے گی لہٰذا صبا شام (کنعان) سے مصر کی طرف خوشبو کو لاسکتی ہے مگر لیجا نہیں سکتی البتہ دبور مصر سے شام کی طرف خوشبو لیجا سکتی ہے مناسب ہوتا کہ مفسر علام صبا کے بجائے دبور فرماتے۔ (واللہ اعلم)
قولہ : تفندون (تفعیل، تفنید) صیغہ جمع مذکر حاضر درازی عمر کی وجہ سے عقل کا کمزور ہوجانا، سٹھیا جانا، عقل میں فتور یا نقصان کا آجانا۔ قولہ : لصدقتمونی یہ لولا کا جواب ہے۔ قولہ : فی مضربۃ بڑا خیمہ۔
سوال : مضربۃ محذوف ماننے کی کیا ضرورت پیش آئی ؟
جواب : اسلئے کہ دخلوا علی یوسف کہنے کے بعد ادخلوا مصر کہنے کی کوئی ضرورت نہیں رہتی اسلئے کہ دخول کے بعد دخول کا کوئی مطلب نہیں ہوتا اسلئے فی مضربۃ محذوف مانا تاکہ اول دخول سے خیمہ میں دخول مراد ہو جو استقبال کیلئے شہر سے باہر بنایا تھا اس کے بعد دوسرا دخول شہر مصر میں ہوا۔
قولہ : امہ او خالتہ اس میں اس اختلاف کی طرف اشارہ ہے کہ آیا یوسف کی والدہ راحیل اس وقت زندہ تھیں یا نہیں، بعض حضرات کا قول ہے کہ بقید حیات تھیں، لیکن جمہور مفسرین کی رائے یہ ہے کہ بنیامین کی ولادت کے وقت انتقال ہوگیا تھا ان کے انتقال کے بعد حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے راحیل کی بہن لیّا سے نکال کرلیا تھا اور مجازا خالہ کو بھی ماں کہہ دیا جاتا ہے جس طرح چچا کو مجازا ابا کہہ دیا جاتا ہے عبرانی میں بنیام دردزہ کو کہتے ہیں اسی مناسبت سے بنیامین نام رکھا گیا تھا یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کی والدہ کا انتقال ہوچکا تھا۔ (حاشیہ جلالین)
قولہ : آمنین، ای آمنین من القحط وسائر المکارہ۔ قولہ : الی اس میں اشارہ ہے کہ یاء بمعنی الی ہے۔
تفسیر و تشریح
ولما فصلت العیر یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا جو کچھ ہونا تھا وہ ہوچکا ہم سب کو یہ داستان فراموش کر دینی چاہیے میں درگاہ الہٰی میں دعاء کرتا ہوں کہ وہ تمہاری غلطی معاف فرما دے کیونکہ وہی سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔ اب تم کنعان واپس جاؤ اور میرے پیراہن کو لیتے جاؤ یہ والد کی آنکھوں پر ڈال دینا انشاء اللہ شمیم یوسف ان کی آنکھوں کو روشن کر دے گا، اور تمام خاندان کو مصر لے آؤ۔
برادران یوسف کا کاروان کنعان کیلئے روانہ : ادھر برادران یوسف کا کاروان پیراہن یوسفی ساتھ لے کر کنعان کیلئے روانہ ہوا ادھر خدا کے برگزیدہ پیغمبر یعقوب (علیہ السلام) کو شمیم یوسف نے مہکا دیا فرمانے لگے اے خاندان یعقوب اگر تم یہ نہ کہو کہ بڑھاپے میں اس کی عقل ماری گئی ہے تو میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ مجھے یوسف کی مہک آرہی ہے، سب کہنے لگے واللہ تم تو اپنے اسی پرانے خبط میں پڑے ہو، یعنی اس قدر عرصہ گذر جانے کے بعد بھی جبکہ یوسف کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہا تمہیں یوسف ہی کی رٹ لگی ہوئی ہے۔
غرضیکہ یہ کنعانی قافلہ بخیر و عافیت کنعان پہنچ گیا، اور برادران یوسف نے یوسف (علیہ السلام) کے حکم کے مطابق ان کا پیراہن یعقوب (علیہ السلام) کی آنکھوں پر ڈال دیا یعقوب (علیہ السلام) کی آنکھیں فورا روشن ہوگئیں، فرمانے لگے دیکھو میں نہ کہتا تھا کہ میں اللہ کی جانب سے وہ بات جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ برادران یوسف کیلئے یہ وقت بڑا کٹھن تھا، شرم و ندامت میں غرق سر جھکائے ہوئے بولے اے ابا جان آپ ہمارے لئے جناب باری میں گناہوں کی مغفرت کی دعاء کر دیجئے کیونکہ اب یہ تو ظاہر ہو ہی چکا ہے کہ بلاشبہ ہم سخت خطاکار اور قصور وار ہیں، یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا سوف استغفر لکم ربی انہ ھو الغفور الرحیم میں عنقریب تمہارے لئے دعاء کروں گا بلاشبہ وہ غفور الرحیم ہے۔
یعقوب (علیہ السلام) نے فوراً دعا کرنے کے بجائے وعدہ فرمایا کہ عنقریب دعاء کروں گا، اسکی وجہ عام مفسرین نے یہ لکھی ہے کہ اس وعدہ کا مقصد یہ تھا کہ رات یا آخر شب میں اہتمام سے دعاء کروں گا، ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اصل معاملہ حضرت یوسف کے ساتھ زیادتی کا تھا گو بالواسطہ حضرت یعقوب کو بھی تکلیف پہنچی تھی، حضرت یوسف چونکہ اصل صاحب معاملہ تھے اس لئے انہوں نے فوراً دعاء مغفرت کردی مگر چونکہ یعقوب (علیہ السلام) کا براہ راست معاملہ نہیں تھا سلئے وعدہ کرلیا تاکہ اصل صاحب معاملہ سے بھی مشورہ ہوجائے۔ (قصص القرآن)
خاندان یعقوب (علیہ السلام) مصر میں : غرض یعقوب (علیہ السلام) اپنے پورے خاندان کو لیکر مصر پہنچے، جس وقت یعقوب (علیہ السلام) کا خاندان مصر پہنچا تو اس کی تعداد بائبل کے بیان کے مطابق ٦٧ یا ٧٠ تھی اس وقت حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی عمر ١٣٠ سال تھی اور اس کے بعد وہ مصر میں ١٧ سال زندہ رہے۔
جب یوسف (علیہ السلام) کو اطلاع ہوئی کہ ان کے والد مع خاندان شہر کے قریب پہنچ گئے ہیں تو وہ فورا استقبال کیلئے شہر سے باہر نکلے، جب دونوں نے ایک دوسرے کو مدت دراز کے بعد دیکھا تو فرط محبت میں یعقوب (علیہ السلام) نے یوسف (علیہ السلام) کو سینہ سے لگالیا، اور جب یہ پر مسرت اور رقت آمیز ملاقات ہوچکی تو حضرت یوسف نے والد سے عرض کیا کہ اب تو آپ عزت و احترام اور امن و حفاظت کے ساتھ شہر میں تشریف لے چلیں۔ اس وقت مصر کا دار السلطنت رعمیس تھا، حضرت یوسف (علیہ السلام) اپنے والد ماجد اور تمام دیگر افراد خاندان کو بڑے کرّوفر اور تزک و احتشام کے ساتھ شاہی سواریوں میں بیٹھا کر شہر میں لائے اور شاہی محل میں قیام کرایا۔
جب ان تمام باتوں سے فراغت پائی تو اب ارادہ کیا کہ دربار منعقد کریں تاکہ اہل مصر کا بھی حضرت یعقوب اور ان کے خاندان سے تعارف ہوجائے اور تمام درباری ان کے عزت و احترام سے واقف ہوجائیں، دربار منعقد ہوا تمام درباری اپنی مقررہ نشستوں پر بیٹھ گئے، یوسف (علیہ السلام) کے حکم سے ان کے والدین کو تخت شاہی پر جگہ دی گئی اور باقی تمام خاندان نے حسب مراتب نیچے جگہ پائی، جب یہ سب انتظامات مکمل ہوگئے تب حضرت یوسف (علیہ السلام) شاہی محل سے باہر تشریف لائے اور شاہی تخت پر جلوہ افروز ہوئے، اسی وقت تمام درباری حکومت کے دستور کے مطابق تخت شاہی کے سامنے تعظیم کیلئے سجدہ میں گرپڑے موجودہ صورت کو دیکھ کر خاندان یوسف نے بھی یہی عمل کیا، یہ دیکھ کر یوسف (علیہ السلام) کو فورا اپنے بچپن کا خواب یاد آگیا اپنے والد سے کہنے لگے وقال یا ابت ھذا تاویل رء یای من قبل الخ۔ تورات میں ہے کہ اس واقعہ کے بعد یوسف (علیہ السلام) کا تمام خاندان مصر میں آباد ہوگیا کیونکہ اس وقت کے فرعون ریان نے اصرار کے ساتھ یہ کہا تھا کہ تم
اپنے خاندان کو مصر ہی میں آباد کرو، میں ان کو بہت عمدہ زمین دوں گا اور ہر طرح ان کی عزت کروں گا۔
حضرت یوسف (علیہ السلام) کی وفات : حضرت یوسف (علیہ السلام) کا انتقال ایک سو بیس سال کی عمر میں ہوا اور دریائے نیل کے کنارے دفن کئے گئے، ابن اسحٰق نے عروہ بن زبیر کی روایت سے بیان کیا ہے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر مصر سے نکل جائیں تو بذریعہ وحی یہ بھی کہا گیا کہ ان ہڈیوں کو اپنے ساتھ لے کر ملک شام چلے جائیں اور ان کے آباواجداد کے پاس دفن کریں اس حکم کے مطابق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے تفتیش کرکے ان کی قبر دریافت کی جو ایک سنگ مر مر کے تابوت میں تھی اس کو اپنے ساتھ ارض فلسطین (کنعان) میں لے گئے اور حضرت اسحٰق و یعقوب کے برابر دفن کردیا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بعد قوم عمالیق کے فراعنہ مصر پر مسلط ہوگئے اور بنو اسرائیل ان کی حکومت میں رہتے ہوئے دین یوسف (علیہ السلام) پر قائم رہے مگر ان کو غیر ملکی سمجھ کر طرح طرح کی ایذائیں دی جانے لگیں یہاں تک کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس عذاب سے نجات دی۔ (مظھری)
حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی وفات : تفسیر قرطبی میں اہل تاریخ کے حوالہ سے مذکور ہے کہ مر میں ٢٤ سال رہنے کے بعد یعقوب (علیہ السلام) کی وفات ١٤٧ سال کی عمر میں ہوئی، حضرت سعید بن جبیر نے فرمایا کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو سال کی لکڑی کے تابوت میں رکھ کر بیت المقدس کی طرف ان کی وصیت کے مطابق منتقل کیا گیا۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيرُ﴾ ” اور جب یہ قافلہ جدا ہوا“ یعنی مصر سے فلسطین کی طرف روانہ ہوا تو یعقوب علیہ السلام نے قمیص کی خوشبو سونگھ لی اور کہنے لگے : ﴿إِنِّي لَأَجِدُ رِيحَ يُوسُفَ ۖ لَوْلَا أَن تُفَنِّدُونِ﴾ ” میں یوسف علیہ السلام کی خوشبو پاتا ہوں، اگر تم میرا تمسخر نہ اڑاؤ“ اور یہ نہ سمجھو کہ بات مجھ سے غیر شعوری طور پر صادر ہوئی ہے، کیونکہ یعقوب علیہ السلام نے اس حال میں ان کی طرف سے تعجب کا مظاہرہ ہی دیکھا جو اس قول کا موجب بنا۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur jab yeh qafla ( misir say kanaan ki taraf ) rawana huwa to unn kay walid ney ( kanaan mein aas paas kay logon say ) kaha kay : agar tum mujhay yeh naa kaho kay boorha sathiya gaya hai , to mujhay to yousuf ki khushboo aarahi hai .