اسی کے لئے حق (یعنی توحید) کی دعوت ہے، اور وہ (کافر) لوگ جو اس کے سوا (معبودانِ باطلہ یعنی بتوں) کی عبادت کرتے ہیں، وہ انہیں کسی چیز کا جواب بھی نہیں دے سکتے۔ ان کی مثال تو صرف اس شخص جیسی ہے جو اپنی دونوں ہتھیلیاں پانی کی طرف پھیلائے (بیٹھا) ہو کہ پانی (خود) اس کے منہ تک پہنچ جائے اور (یوں تو) وہ (پانی) اس تک پہنچنے والا نہیں، اور (اسی طرح) کافروں کا (بتوں کی عبادت اور ان سے) دعا کرنا گمراہی میں بھٹکنے کے سوا کچھ نہیں،
English Sahih:
To Him [alone] is the supplication of truth. And those they call upon besides Him do not respond to them with a thing, except as one who stretches his hands toward water [from afar, calling it] to reach his mouth, but it will not reach it [thus]. And the supplication of the disbelievers is not but in error [i.e., futility].
1 Abul A'ala Maududi
اسی کو پکارنا برحق ہے رہیں وہ دوسری ہستیاں جنہیں اس کو چھوڑ کر یہ لوگ پکارتے ہیں، وہ اُن کی دعاؤں کا کوئی جواب نہیں دے سکتیں اُنہیں پکارنا تو ایسا ہے جیسے کوئی شخص پانی کی طرف ہاتھ پھیلا کر اُس سے درخواست کرے کہ تو میرے منہ تک پہنچ جا، حالانکہ پانی اُس تک پہنچنے والا نہیں بس اِسی طرح کافروں کی دعائیں بھی کچھ نہیں ہیں مگر ایک تیر بے ہدف!
2 Ahmed Raza Khan
اسی کا پکارنا سچا ہے اور اُس کے سوا جن کو پکارتے ہیں وہ ان کی کچھ بھی نہیں سنتے مگر اس کی طرح جو پانی کے سامنے اپنی ہتھیلیاں پھیلائے بیٹھا ہے کہ اس کے منہ میں پہنچ جائے اور وہ ہرگز نہ پہنچے گا، اور کافروں کی ہر دعا بھٹکتی پھرتی ہے،
3 Ahmed Ali
اسی کو پکارنا بجا ہے اوراس کے سوا جن لوگوں کو پکارتے ہیں وہ ان کے کچھ بھی کام نہیں آتے مگر جیسا کوئی پانی کی طرف اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے کہ اس کے منہ میں آجائے حالانکہ وہ اس کے منہ تک نہیں پہنچتا اور کافروں کی جتنی پکار ہے سب گمراہی ہے
4 Ahsanul Bayan
اسی کو پکارنا حق ہے (١) جو لوگ اوروں کو اس کے سوا پکارتے ہیں وہ ان (کی پکار) کا کچھ بھی جواب نہیں دیتے مگر جیسے کوئی شخص اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلائے ہوئے ہو کہ اس کے منہ میں پڑ جائے حالانکہ وہ پانی اس کے منہ میں پہنچنے والا نہیں (٢) ان منکروں کی جتنی پکار ہے سب گمراہی میں ہے (٣)۔
١٤۔١ یعنی خوف اور امید کے وقت اسی ایک اللہ کو پکارنا صحیح ہے کیونکہ وہی ہر ایک کی پکار سنتا ہے اور قبول فرماتا ہے یا دعوت۔ عبادت کے معنی میں ہے یعنی، اسی کی عبادت حق اور صحیح ہے اس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں، کیونکہ کائنات کا خالق، مالک اور مدبر صرف وہی ہے اس لئے عبادت صرف اسی کا حق ہے۔ ١٤۔٢ یعنی جو اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو مدد کے لئے پکارتا ہیں۔ ان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص دور سے پانی کی طرف اپنی دونوں ہتھلیاں پھیلا کر پانی سے کہے کہ میرے منہ تک آجا، ظاہر بات ہے کہ پانی جامد چیز ہے، اسے پتہ ہی نہیں کہ ہتھیلیاں پھیلانے والے کی حاجت کیا ہے، اور نہ اسے پتہ ہے کہ وہ مجھ سے اپنے منہ تک پہنچنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ اور نہ اس میں یہ قدرت ہے کہ اپنی جگہ سے حرکت کر کے اس کے ہاتھ یا منہ تک پہنچ جائے اسی طرح یہ مشرک اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں انہیں نہ یہ پتہ ہے کہ کوئی انہیں پکار رہا ہے اور اس کی فلاں حاجت ہے اور نہ اس حاجت روائی کی ان میں قدرت ہی ہے۔ ١٤۔٣ اور بےفائدہ بھی ہے، کیونکہ اس سے ان کو کئی نفع نہیں ہوگا ۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
سودمند پکارنا تو اسی کا ہے اور جن کو یہ لوگ اس کے سوا پکارتے ہیں وہ ان کی پکار کو کسی طرح قبول نہیں کرتے مگر اس شخص کی طرح جو اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلا دے تاکہ (دور ہی سے) اس کے منہ تک آ پہنچے حالانکہ وہ (اس تک کبھی بھی) نہیں آسکتا اور (اسی طرح) کافروں کی پکار بیکار ہے
6 Muhammad Junagarhi
اسی کو پکارنا حق ہے۔ جو لوگ اوروں کو اس کے سوا پکارتے ہیں وه ان (کی پکار) کا کچھ بھی جواب نہیں دیتے مگر جیسے کوئی شخص اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلائے ہوئے ہو کہ اس کے منھ میں پڑ جائے حاﻻنکہ وه پانی اس کے منھ میں پہنچنے واﻻ نہیں، ان منکروں کی جتنی پکار ہے سب گمراہی میں ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
(تکلیف کے وقت) اسی کو پکارنا برحق ہے اور اسے چھوڑ کر جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں وہ انہیں کچھ بھی جواب نہیں دے سکتے ان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی (پیاسا) اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلائے کہ وہ (پانی) اس کے منہ تک پہنچ جائے حالانکہ وہ اس تک پہنچنے والا نہیں ہے اور کافروں کی دعا و پکار گمراہی میں بھٹکتی پھرتی ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
برحق پکارنا صرف خدا ہی کا پکارنا ہے اور جو لوگ اس کے علاوہ دوسروں کو پکارتے ہیں وہ ان کی کوئی بات قبول نہیں کرسکتے سوائے اس شخص کے مانند جو پانی کی طرف ہتھیلی پھیلائے ہو کہ منہ تک پہنچ جائے اور وہ پہنچنے والا نہیں ہے اور کافروں کی دعا ہمیشہ گمراہی میں رہتی ہے
9 Tafsir Jalalayn
سودمند پکارنا تو اسی کا ہے۔ اور جن کو یہ لوگ اس کے سوا پکارتے ہیں وہ ان کی پکار کو کسی طرح قبول نہیں کرتے۔ مگر اس شخص کی طرح جو اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلا دے تاکہ (دو رہی سے) اس کے منہ تک آپہنچے۔ حالانکہ وہ (اس تک کبھی بھی) نہیں آسکتا۔ اور (اسی طرح) کافروں کی پکار بیکار ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿لَهُ دَعْوَةُ الْحَقِّ ﴾ ”سود مند پکارنا تو اسی کا ہے۔“ یعنی صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لئے دعوت حق ہے۔ دعوت حق سے مراد، صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا اور دعائے عبادت اور دعائے مسئلہ کو صرف اسی کے لئے خالص کرنا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ ہی اس بات کا مستحق ہے کہ اس کو پکارا جائے، اس سے ڈرا جائے، اس پر امیدیں باندھی جائیں، اس سے محبت کی جائے، اس کی طرف رغبت رکھی جائے، اس سے خوف کھایا جائے اور اسی کی طرف رجوع کیا جائے کیونکہ اسی کی الوہیت حق ہے اور غیر اللہ کی الوہیت باطل ہے۔ ﴿وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِهِ ﴾ ” اور جن کو یہ لوگ اس کے سوا پکارتے ہیں“ یعنی جو اللہ تعالیٰ کے سوا بتوں اور خود ساختہ معبودوں کو، جن کو ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرا رکھا ہے، پکارتے ہیں ﴿ لَا يَسْتَجِيبُونَ لَهُم بِشَيْءٍ ﴾ ”وہ ان کی پکار کو کسی طرح قبول نہیں کرسکتے۔“ یعنی یہ خود ساختہ معبود ان کو تھوڑا یا بہت کوئی جواب نہیں دے سکتے جو ان کو پکارتے اور عبادت کرتے ہیں خواہ اس پکار کا تعلق امور دنیا سے ہو یا آخرت سے ﴿إِلَّا كَبَاسِطِ كَفَّيْهِ إِلَى الْمَاءِ ﴾ ” مگر جیسے کسی نے پھیلائے دونوں ہاتھ پانی کی طرف“ یعنی وہ شخص جس کے ہاتھ دور ہونے کی بنا پر پانی تک پہنچ نہیں سکتے۔ ﴿ لِيَبْلُغَ ﴾ ” کہ آ پہنچے وہ پانی“ یعنی اپنے ہاتھوں کو پانی کی طرف پھیلانے کی وجہ سے ﴿فَاهُ﴾ ” اس کے منہ تک“ کیونکہ وہ پیاسا ہے اور شدت پیاس کی وجہ سے اپنا ہاتھ پانی کی طرف بڑھاتا ہے مگر وہ پانی اس تک پہنچ نہیں پاتا۔ اسی طرح کفار جو اللہ کے ساتھ خود ساختہ معبودوں کو پکارتے ہیں، یہ معبو ان کو کوئی جواب دے سکتے ہیں نہ ان کی حاجت کے شدید ترین اوقات میں ان کو کچھ فائدہ پہنچاسکتے ہیں۔ کیونکہ وہ خود اسی طرح محتاج ہیں جس طرح ان کو پکارنے والے محتاج ہیں۔ وہ زمین و آسمان میں ذرہ بھر کسی چیز کے مالک نہیں، نہ وہ ان میں شریک ہیں اور نہ ان میں کوئی اللہ کا مددگار ہے۔ ﴿ وَمَا دُعَاءُ الْكَافِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ ﴾ ” اور کافروں کی ساری پکار گمراہی میں ہے“ کیونکہ جن کو وہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں، باطل ہیں۔ پس ان کی عبادت کرنا اور ان کو پکارنا سب باطل ٹھہرا، مقاصد کے بطلان کے ساتھ وسائل بھی باطل ہوجاتے ہیں اور چونکہ اللہ تعالیٰ ہی واضح حقیقی بادشاہ ہے، اس لئے اس کی عبادت حق ہے اور عبادت گزار کو دنیا و آخرت میں نفع پہنچاتی ہے۔ غیر اللہ کو پکارنے والے کفار کی پکار کو اس شخص سے تشبیہ دینا جو پانی کی طرف ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ پانی اس کے منہ تک پہنچ جائے۔۔۔ ایک بہترین تشبیہ ہے، کیونکہ یہ ایک امر محال سے تشبیہ ہے جس طرح یہ امر محال ہے اسی طرح مشبہ بہ بھی محال ہے۔ کسی چیز کی نفی کے لئے اس کو امر محال پر معلق ٹھہرانا، نفی کا بلیغ ترین پیرا یہ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ﴿إِنَّ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّىٰ يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ ﴾(الاعراف:7؍40) ” بے شک وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور ان کے ساتھ تکبر سے پیش آئے ان کے لئے آسمان کے دروازے نہ کھولے جائیں گے۔ ان کا جنت میں داخل ہونا اتنا ہی محال ہوگا جتنا اونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے گزرنا۔ “
11 Mufti Taqi Usmani
wohi hai jiss say dua kerna bar-haq hai . aur uss ko chorr ker yeh log jinn ( deotaon ) ko pukartay hain , woh unn ki duaon ka koi jawab nahi detay , albatta unn ki misal uss shaks ki si hai jo paani ki taraf apney dono haath phela ker yeh chahye kay paani khud uss kay mun tak phonch jaye , halankay woh kabhi khud mun tak nahi phonch sakta . aur ( button say ) kafiron kay dua kernay ka nateeja iss kay siwa kuch nahi kay woh bhatakti hi phirti rahey .
12 Tafsir Ibn Kathir
دعوت حق حضرت علی بن ابو طالب (رض) فرماتے ہیں اللہ کے لئے دعوت حق ہے، اس سے مراد توحید ہے۔ محمد بن منکدر کہتے ہیں مراد لا الہ الا اللہ ہے۔ پھر مشرکوں کافروں کی مثال بیان ہوئی کہ جیسے کوئی شخص پانی کی طرف ہاتھ پھیلائے ہوئے ہو کہ اس کے منہ میں خود بخود پہنچ جائے تو ایسا نہیں ہونے کا۔ اسی طرح یہ کفار جنہیں پکارتے ہیں اور جن سے امیدیں رکھتے ہیں، وہ ان کی امیدیں پوری نہیں کرنے کے۔ اور یہ مطلب بھی ہے کہ جیسے کوئی اپنی مٹھیوں میں پانی بند کرلے تو وہ رہنے کا نہیں۔ پس باسط قابض کے معنی میں ہے۔ عربی شعر میں بھی قابض ماء آیا ہے پس جیسے پانی مٹھی میں روکنے والا اور جیسے پانی کی طرف ہاتھ پھیلانے والا پانی سے محروم ہے، ایسے ہی یہ مشرک اللہ کے سوا دوسروں کو گو پکاریں لیکن رہیں گے محروم ہی دین دنیا کا کوئی فائدہ انہیں نہ پہنچے گا۔ ان کی پکار بےسود ہے۔