الرعد آية ۳۲
وَلَـقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَاَمْلَيْتُ لِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا ثُمَّ اَخَذْتُهُمْۗ فَكَيْفَ كَانَ عِقَابِ
طاہر القادری:
اور بیشک آپ سے قبل (بھی کفار کی جانب سے) رسولوں کے ساتھ مذاق کیا جاتا رہا سو میں نے کافروں کو مہلت دی پھر میں نے انہیں (عذاب کی) گرفت میں لے لیا۔ پھر (دیکھئے) میرا عذاب کیسا تھا،
English Sahih:
And already were [other] messengers ridiculed before you, and I extended the time of those who disbelieved; then I seized them, and how [terrible] was My penalty.
1 Abul A'ala Maududi
تم سے پہلے بھی بہت سے رسولوں کا مذاق اڑایا جا چکا ہے، مگر میں نے ہمیشہ منکر ین کو ڈھیل دی اور آخر کار ان کو پکڑ لیا، پھر دیکھ لو کہ میری سزا کیسی سخت تھی
2 Ahmed Raza Khan
اور بیشک تم سے اگلے رسولوں سے بھی ہنسی کی گئی تو میں نے کافروں کو کچھ دنوں ڈھیل دی پھر انہیں پکڑا تو میرا عذاب کیسا تھا،
3 Ahmed Ali
اور تجھ سے پہلے کئی رسولوں سے ہنسی کی گئی ہے پھر میں نے کافروں کو مہلت دی پھر انہیں پکڑ لیا پھر ہمارا عذاب کیسا تھا
4 Ahsanul Bayan
یقیناً آپ سے پہلے کے پیغمبروں کا مذاق اڑایا گیا تھا اور میں نے بھی کافروں کو ڈھیل دی تھی پھر انہیں پکڑ لیا تھا، پس میرا عذاب کیسا رہا (١)۔
٣٢۔١ حدیث میں آتا ہے '(ان اللہ لیملی للظالم حتی اذا اخذہ لم یفلتہ) اللہ ظالم کو مہلت دیئے جاتا ہے حتٰی کہ جب اسے پکڑتا ہے تو پھر چھوڑتا نہیں ' اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی (وَكَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَآ اَخَذَ الْقُرٰي وَهِىَ ظَالِمَةٌ ۭ اِنَّ اَخْذَهٗٓ اَلِيْمٌ شَدِيْدٌ ) (11۔ہود;102) اسی طرح تیرے رب کی پکڑ ہے جب وہ ظلم کی مرتکب بستیوں کو پکڑتا ہے۔ یقینا اس کی پکڑ بہت ہی الم ناک اور سخت ہے۔ (صحیح بخاری)۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور تم سے پہلے بھی رسولوں کے ساتھ تمسخر ہوتے رہے ہیں تو ہم نے کافروں کو مہلت دی پھر پکڑ لیا۔ سو (دیکھ لو کہ) ہمارا عذاب کیسا تھا
6 Muhammad Junagarhi
یقیناً آپ سے پہلے کے پیغمبروں کا مذاق اڑایا گیا تھا اور میں نے بھی کافروں کو ڈھیل دی تھی پھر انہیں پکڑ لیا تھا، پس میرا عذاب کیسا رہا؟
7 Muhammad Hussain Najafi
(اے رسول(ص)) آپ سے پہلے بھی بہت سے پیغمبروں کا مذاق اڑایا گیا ہے مگر میں نے کافروں کو (کچھ مدت تک) ڈھیل دی پھر میں نے انہیں پکڑ لیا۔ تو (دیکھو) میرا عذاب کیسا تھا؟
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
پیغمبر آپ سے پہلے بہت سے رسولوں کا مذاق اڑایا گیا ہے تو ہم نے کافروں کو تھوڑی دیر کی مہلت دیدی اور اس کے بعد اپنی گرفت میں لے لیا تو کیسا سخت عذاب ہوا
9 Tafsir Jalalayn
اور تم سے پہلے بھی رسولوں کے ساتھ تمسخر ہوتے رہے ہیں تو ہم نے کافروں کو مہلت دی پھر پکڑ لیا۔ سو (دیکھ لو کہ) ہمارا عذاب کیسا تھا ؟
آیت نمبر ٣٢ تا ٣٧
ترجمہ : یقیناً آپ سے پہلے (بھی) رسولوں کا مذاق اڑایا گیا جیسا کہ آپ کا مذاق اڑایا گیا، اور یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی ہے، تو میں نے کافروں کو ڈھیل دی پھر میں نے ان کو سزا میں پکڑ لیا پس میرا عذاب کیسا رہا یعنی وہ اپنے محل میں واقع ہوا، تو میں ہر اس شخص کے ساتھ ایسا ہی کروں گا جو آپ کا مذاق اڑائیگا، کیا وہ ذات جو ہر متنفس کے اچھے برے عمل کی نگراں ہے اور وہ اللہ ہے، اس کے مانند ہوگا کہ جو ایسا نہیں ہے کہ وہ بت ہیں نہیں، اس (حذف جواب) پر وَجَعَلُوا للہ الخ دلالت کر رہا ہے، آپ ان سے کہئے کہ ان کے نام تو بتاؤ وہ کون ہیں ؟ بلکہ تم اللہ کو اس کے شریک کی خبر دے رہے رہو جس کو وہ زمین میں نہیں جانتا، استفہام انکاری ہے یعنی اس کا کوئی شریک نہیں اسلئے کہ اگر (شریک) ہوتا تو وہ اس کے علم میں ہوتا، اللہ تعالیٰ اس سے برتر ہے، یا تم نے یوں ہی یہ بات گمان باطل سے کہی ہے کہ واقع میں اس کی کوئی حقیقت نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ کافروں کیلئے ان کے مکر کو یعنی کفر کو آراستہ کردیا گیا ہے، اور ان کو راہ ہدایت سے روکدیا گیا ہے اور اللہ جس کو گمراہ کرے اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں ان کیلئے دنیوی زندگی میں قتل و قید کا عذاب ہے اور آخرت کا عذاب تو اس سے بہت ہی زیادہ سخت ہے اور انھیں اللہ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں اس جنت کی صفت جس کا متقیوں سے وعدہ کیا گیا ہے، (الجنۃ التی الخ) مبتداء ہے اس کی خبر محذوف ہے، اور وہ فیما نقصُّ علیکم ہے، اس میں نہریں جاری ہوں گی اور اس کے پھل دائمی ہوں گے (یعنی) جنت کے ماکولات دائمی ہوں گے وہ کبھی فنا نہ ہوں گے اور اس کا سایہ بھی دائمی ہوگا، اس کو سورج ختم نہ کرسکے گا، اس لئے جنت میں سورج نہیں ہوگا یہ یعنی جنت ان لوگوں کا انجام ہوگا جو شرک سے بچتے رہے ہوں گے اور کافروں کا انجام دوزخ ہوگی اور وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب دی ہے جیسا کہ عبد اللہ بن سلام مومنین یہود میں سے اس سے خوش ہوتے ہیں جو آپ کی طرف نازل کیا جاتا ہے اسکے مطابق ہونے کی وجہ سے جو ان کے پاس ہے اور یہود و مشرکین کے کچھ گروہ جو دشمنی کی وجہ سے متحدہ محاذ بنا کر آپ پر حملہ آور ہوئے وہ ہیں جو قرآن کی بعض باتوں کا انکار کرتے ہیں اور قصوں کے علاوہ (احکام) کا انکار کرتے ہیں آپ اعلانیہ کہہ دیجئے کہ جو چیز مجھ پر نازل کی گئی ہے مجھے تو اس میں حکم دیا گیا ہے کہ میں (صرف) اللہ کی بندگی کروں اور اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ کروں، میں اسی کی طرف بلا رہا ہوں، اور اسی کی طرف میرا ٹھکانہ ہے اور اسی طرح ہم نے قرآن کو عربی کا فرمان بنا کر عربی زبان میں نازل کیا تاکہ آپ اسکے ذریعہ لوگوں کے درمیان فیصلے کریں، اور اگر آپ کے پاس توحید کا علم آنے کے بعد آپ نے کفار کی خواہشات کی بالفرض اگر ان باتوں میں جسکی طرف وہ آپ کو دعوت دے رہے ہیں اتباع کرلی تو اللہ کی جانب سے نہ آپ کا کوئی مددگار ہوگا اور نہ اس کے عذاب سے کوئی بچانے والا، مِن زائدہ ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : کیف کان عقاب ، ای عَلیٰ ایِّ حالَۃٍ کان عقابی ؟ ھل کان ظلماً لَھُمْ او کان عَدْلاً ؟ یعنی میرا عقاب ظالمانہ رہا یا عادلانہ، اس کا جواب شارح نے اپنے قول ” ھُوَ واقعٌ موقِعہٗ “ سے دیدیا۔
قولہ : کمن لَیسَ کذلک یہ أفَمَنْ ھو قائمٌ متداء کی خبر محذوف ہے، قرینۂ مقابلہ سے چونکہ خبر کا حذف مفہوم ہے اسلئے کلام بےفائدہ ہونے کا اعتراض نہیں ہوگا۔
قولہ : دَلّ علیٰ ھذا، یعنی مذکور پر وَجَعَلوا للہ شرکاء دلالت کر رہا ہے اور مذکورہ سے مراد استفہام کا انکاری ہونا اور خبر محذوف پر دلالت کا ہونا، یعنی اجعلوا الخ دونوں باتوں پر دلالت کر رہا ہے۔
قولہ : مثل جنۃ التی وُعِدَ المتقون جملہ ہو کر مبتداء اس کی خبر محذوف ہے اور وہ فیما نقص علیکم ہے تجری من تحتھا الانھارُ ضمیر محذوف سے حال ہے، تقدیر عبارت یہ ہے، ” مَثَلُ الجنۃ التی وُعِدَھَا المتقون تجری من تحتھا الانھٰرُ ۔
قولہ : اُکُلُھا دَائمٌ، وظلُّھا دائمٌ، یہ دونوں جملے بھی مبتداء خبر ہو کر حال ہیں، اور ظِلُّھا مبتداء کی خبر دائمٌ ماقبل کے قرینہ کی وجہ سے محذوف ہے۔ قولہ : مایوکل فیھا۔
سوال : اُکُلُھا کی تفسیر ما یوکل سے کس مقصد سے کی ہے۔
جواب : اس کا مقصد دو اعتراضوں کو دفع کرنا ہے، (١) اگر اُکُلُھا کو مصدر مانا جائے تو دائمٌ کا حمل اس پر درست نہیں اور اگر اُکُلٌ بمعنی ما کولٌ لیا جائے تو ماکول تو کھانے کے بعد معدوم ہوجاتا ہے لہٰذا دوام کے کوئی معنی نہیں ہیں۔
جواب : اُکُلٌ سے مراد ما مِنْ شانہ اَنْ یوکل ہے اس تفسیر سے دونوں اعتراض ختم ہوگئے۔
قولہ : فیھا، اس میں اشارہ ہے کہ اُکُلُھا میں اضافت بمعنی فی ہے اور یہ اسناد مجازی ہے، اور اس میں علاقہ ظرفیت کا ہے۔
قولہ : حُکمًا عربیًا، یہ دونوں انزلناہ کی ضمیر یعنی قرآن سے حال ہیں حالانکہ حُکْماً اور عربیًا کا قرآن پر حمل درست نہیں ہے۔
جواب : کا حاصل یہ ہے کہ حکْمًا مصدر بمعنی مفعول یعنی ما یحکم بہ بین الناس۔
تفسیر و تشریح
ولقد استھزی۔۔۔ قبلک، اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ حالات جو آپ کو درپیش ہیں صرف آپ ہی کو پیش نہیں آئے آپ سے پہلے انبیاء کو بھی اسی قسم کے حالات سے سابقہ پڑتا رہا ہے کہ انبیاء کے ساتھ تمسخر کرتے رہے ہیں مگر مجرموں اور منکروں کی فوراً پکڑ نہیں کی گئی جب حد اور بس ہوگئی اور مجرموں کا جرم انتہاء کو پہنچ گیا تو پھر ان کو عذاب الہٰی نے پکڑ لیا اور کیسا پکڑا ؟ کہ کسی کو اس کے مقابلہ کی تاب نہ رہی۔ حدیث میں آتا ہے ” اِنَّ اللہ لَیُمْلِیْ للظالم حَتٰی اذا اخذَہٗ لَمْ یُفْلِتْہُ “ اللہ تعالیٰ ظالم کو مہلت دئیے جاتا ہے حتی کہ جب اسے پکڑتا ہے تو چھوڑتا نہیں اس کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی، وکذلک اَخْذُ رَبِّکَ اِذآ اخذ القریٰ وھی ظالمۃ اِنَّ اخذہ الیم شدید “ (سورۂ ھود) اسی طرح تیرے رب کی پکڑ ہے جب وہ ظالم کی مرتکب بستیوں کو پکڑتا ہے یقیناً اس کی پکڑ بہت الم ناک اور سخت ہے۔ (صحیح بخاری)
اَفَمَنْ ۔۔۔ نفس، اس آیت میں مشرکین کی جہالت اور بےعقلی کو اس طرح واضح فرمایا ہے کہ یہ کیسے بیوقوف ہیں کہ بےجان و بےشعور بتوں کو اس ذات پاک کے برابر ٹھہراتے ہیں جو ہر نفس پر نگراں اور اس کے اعمال و افعال کا محاسبہ کرنے والی ہے، پھر فرمایا کہ اصل سبب اس کا یہ ہے کہ شیطان نے ان کی اس جہالت ہی کو ان کی نظروں میں مزین کررکھا ہے وہ اسی کو بڑا کمال اور کامیابی سمجھتے ہیں۔ (معارف)
قل سموھم، لہ ای قل یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جَعَلْتُمْ لَہٗ شرکاء فَسَمَّوھم، مَنْ ھم ؟ یعنی اے محمد آپ مشرکوں سے کہیں کہ تم نے اللہ تعالیٰ کے جو شریک ٹھہرا رکھے ہیں تم ان کا نام تو لو وہ کون ہیں ؟ یعنی ہمیں بھی بتاؤ تاکہ انھیں پہچان سکیں، اسلئے کہ ان کی کوئی حقیقت ہی نہیں ہے یعنی ان کا وجود ہی نہیں ہے اسلئے کہ اگر زمین میں ان کا وجود ہوتا تو اللہ تعالیٰ کے علم میں تو ضرور ہوتا اس پر تو کوئی شئ مخفی نہیں ہے۔
اہل کتاب صحابہ اور صحابیات کی تعداد : الذین آتیناھم الکتاب، اس آیت میں ان اہل کتاب کا ذکر ہے جو مشرف باسلام ہو کر اصحاب رسول کی مبارک جماعت میں شامل ہوئے، ان کی تعداد ٦٣ بتائی گئی ہے اور ٧ نام کتابیات کے ان کے علاوہ ہیں کل تعداد ٧٠ ہوتی ہے۔ (ماجدی، ملخصاً )
وکذلک انزلناہ۔۔۔ (الآیۃ) جس طرح انبیاء سابقین پر کتابیں ان کی مقامی زبان میں نازل کیں اسی طرح آپ پر قرآن ہم نے عربی زبان میں نازل کیا اس لئے کہ قرآن کے اولین مخاطب عرب ہی ہیں جو صرف عربی زبان ہی جانتے ہیں اگر یہ قرآن کسی اور زبان میں نازل کیا جاتا تو ان کو سمجھ سے بالا ہوتا اور قبول ہدایت میں ان کیلئے عذر بن جاتا ہم نے قرآن کو عربی زبان میں نازل کرکے ان کا یہ عذر بھی دور کردیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مشرکین مکہ اور اہل کتاب کی خواہشات کی اتباع کرنے سے منع کیا گیا ہے مثلاً اہل کتاب کی خواہش تھی کہ بیت المقدس کو ہمیشہ کیلئے قبلہ رہنے دیا جائے اور ان کی معتقدات کی مخالفت نہ کی جائے اسی طرح مشرکین کی خواہش تھی کہ ہمارے بتوں کی تنقیص نہ کی جائے بلکہ ان کی شان میں کچھ تو صیفی کلمے فرمائے جائیں، یا یہ کہ ایک سال ہم تمہارے معبود کی بندگی کریں اور ایک سال تم ہمارے معبودوں کی بندگی کرو وغیرہ وغیرہ۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے رسول اللہ ﷺ کوثبات کی تلقین کرتے اور تسلی دیتے ہوئے فرمایا : ﴿وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّن قَبْلِكَ﴾”اور ٹھٹھا کیاگیا آپ سے پہلے کتنے رسولوں کے ساتھ”یعنی آپ پہلے رسول نہیں ہیں جس کی تکذیب کی گئی اور جسے ایذا پہنچائی گئی ہو، ﴿فَأَمْلَيْتُ لِلَّذِينَ كَفَرُوا ﴾ ” پس میں نے کافروں کو ڈھیل دی“ یعنی جنہوں نے اپنے رسولوں کا انکار کیا، میں نے ایک مدت تک ان کو مہلت دی حتیٰ کہ وہ اس گمان باطل میں مبتلا ہوگئے کہ ان کو عذاب نہیں دیا جائے گا ﴿ثُمَّ أَخَذْتُهُمْ ﴾ ” پھر میں نے انکو ﴿مختلف قسم کے عذاب کے ذریعے سے﴾ پکڑلیا“ ﴿فَكَيْفَ كَانَ عِقَابِ ﴾ ” پس کیسا تھا میرا عقاب؟“ اللہ تعالیٰ کی سزا بڑی سخت اور اس کا عذاب بڑا دردناک ہے۔ وہ لوگ جو آپ کو جھٹلاتے ہیں اور آپ کا تمسخر اڑاتے ہیں، ہماری دی ہوئی مہلت سے دھوکے میں مبتلا نہ ہوں، ان کے سامنے ان سے پہلے گزری ہوئی قوموں کا نمونہ موجود ہے، لہٰذا انہیں ڈرنا چاہیے کہ کہیں ان کے ساتھ بھی وہی سلوک نہ کیا جائے جو گزشتہ نافرمان قوموں کے ساتھ کیا گیا۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur ( aey payghumber ! ) haqeeqat yeh hai kay tum say pehlay payghumberon ka bhi mazaq uraya gaya tha , aur aesay kafiron ko bhi mein ney mohlat di thi , magar kuch waqt kay baad mein ney unn ko girift mein ley liya , abb dekh lo kay mera azab kaisa tha-?
12 Tafsir Ibn Kathir
سچائی کا مذاق اڑانا آج بھی جاری ہے
اللہ تعالیٰ اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیتا ہے کہ آپ اپنی قوم کے غلظ رویہ سے رنج وفکر نہ کریں آپ سے پہلے کے پیغمبروں کا بھی یونہی مذاق اڑایا گیا تھا میں نے ان کافروں کو بھی کچھ دیر تو ڈھیل دی تھی آخرش بری طرح پکڑ لیا تھا اور نام ونشان تک مٹا دیا تھا۔ تجھے معلوم ہے کہ کس کیفیت سے میرے عذاب ان پر آئے ؟ اور ان کا انجام کیسا کچھ ہوا ؟ جیسے فرمان ہے بہت سی بستیاں ہیں جو ظلم کے باوجود ایک عرصہ سے دنیا میں مہلت لئے رہیں لیکن آخرش اپنی بداعمالیوں کی پاداش میں عذابوں کا شکار ہوئیں۔ بخاری ومسلم میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے اللہ تعالیٰ ظالم کو ڈھیل دیتا ہے پھر جب پکڑتا ہے تو وہ حیران رہ جاتا ہے پھر آپ نے آیت (وَكَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَآ اَخَذَ الْقُرٰي وَهِىَ ظَالِمَةٌ ۭ اِنَّ اَخْذَهٗٓ اَلِيْمٌ شَدِيْدٌ) 11 ۔ ہود :102) ، کی تلاوت کی۔