النحل آية ۱۲۰
اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّـلّٰهِ حَنِيْفًاۗ وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَۙ
طاہر القادری:
بیشک ابراہیم (علیہ السلام تنہا ذات میں) ایک اُمت تھے، اللہ کے بڑے فرمانبردار تھے، ہر باطل سے کنارہ کش (صرف اسی کی طرف یک سُو) تھے، اور مشرکوں میں سے نہ تھے،
English Sahih:
Indeed, Abraham was a [comprehensive] leader, devoutly obedient to Allah, inclining toward truth, and he was not of those who associate others with Allah.
1 Abul A'ala Maududi
واقعہ یہ ہے کہ ابراہیمؑ اپنی ذات سے ایک پوری امت تھا، اللہ کا مطیع فرمان اور یک سو وہ کبھی مشرک نہ تھا
2 Ahmed Raza Khan
بیشک ابراہیم ایک امام تھا اللہ کا فرمانبردار اور سب سے جدا اور مشرک نہ تھا،
3 Ahmed Ali
بے شک ابراہیم ایک پوری امت تھا الله کا فرمانبردار تمام راہوں سے ہٹا ہوا اور مشرکوں میں سے نہ تھا
4 Ahsanul Bayan
بیشک ابراہیم پیشوا (١) اور اللہ تعالٰی کے فرمانبردار اور ایک طرفہ مخلص تھے۔ وہ مشرکوں میں نہ تھے۔
١٢٠۔١ اُ مَّۃٌ کے معنی پیشوا اور قائد کے بھی ہیں۔ جیسا کہ ترجمے سے واضح ہے اور امت بمعنی امت بھی ہے، اس اعتبار سے حضرت ابرہیم علیہ السلام کا وجود ایک امت کے برابر تھا۔ (امت کے معانی کے لئے (وَلَىِٕنْ اَخَّرْنَا عَنْهُمُ الْعَذَابَ اِلٰٓى اُمَّةٍ مَّعْدُوْدَةٍ لَّيَقُوْلُنَّ مَا يَحْبِسُهٗ ۭ اَلَا يَوْمَ يَاْتِيْهِمْ لَيْسَ مَصْرُوْفًا عَنْهُمْ وَحَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ ) 11۔ہود;8) کا حاشیہ دیکھئے)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
بےشک ابراہیم (لوگوں کے) امام اور خدا کے فرمانبردار تھے۔ جو ایک طرف کے ہو رہے تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے
6 Muhammad Junagarhi
بےشک ابراہیم پیشوا اور اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار اور یک طرفہ مخلص تھے۔ وه مشرکوں میں سے نہ تھے
7 Muhammad Hussain Najafi
بے شک ابراہیم(ع) (اپنی ذات میں) ایک پوری امت تھے اللہ کے مطیع فرمان تھے (سب سے کٹ کر) یکسوئی سے (خدا کی طرف) مائل تھے اور ہرگز مشرکوں میں سے نہیں تھے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
بیشک ابراہیم علیھ السّلامایک مستقل امّت اور اللہ کے اطاعت گزار اور باطل سے کترا کر چلنے والے تھے اور مشرکین میں سے نہیں تھے
9 Tafsir Jalalayn
بیشک ابراہیم (لوگوں کے) امام (اور) خدا کے فرمانبرادار تھے۔ جو ایک طرف کے ہو رہے تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے۔
آیت نمبر 120 تا 128
ترجمہ : بیشک ابراہیم (علیہ السلام) امام، پیشوا تھے کہ جو تمام اچھی خصلتوں کے جامع تھے اللہ کے فرمانبردار دین قیم کی طرف رخ کرنے والے تھے وہ مشرکوں میں سے نہ تھے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے شکر گذار تھے اللہ نے ان کو برگزیدہ بنایا تھا اور انھیں راہ راست سمجھا دی تھی، اور ہم نے ان کو دنیا میں بھی بہتری دی تھی اور ہر مذہب (وملت) کے لوگوں میں ان کا ذکر جمیل ہے، اس میں غیبت سے (تکلم) کی جانب التفات ہے اور وہ آخرت میں بھی نیکوں کاروں میں ہوں گے ایسے لوگوں میں کہ ان کے لئے بلند درجات ہوں گے پھر اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے آپ کی طرف وحی بھیجی کہ آپ ملت ابراہیم حنیف کی پر وی کریں اور ابراہیم مشرکوں میں سے نہ تھے اس آیت کو یہود و نصاری کے اس دعوے کو رد کرنے کے لئے مکرر لایا گیا ہے کہ وہ ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت پر ہیں ہفتہ کے دن کی عظمت ان ہی لوگوں پر فرض کی گئی تھی جنہوں نے اپنے نبی سے اختلاف کیا تھا اور وہ یہود ہیں، ان کو حکم دیا گیا کہ وہ عبادت کے لئے جمعہ کے دن فارغ رہیں تو انہوں نے کہا ہم اس کا ارادہ نہیں رکھتے (یعنی ہم اس کو پسند نہیں کرتے) اور انہوں نے ہفتہ کے دن کو پسند کرلیا، تو اللہ نے ہفتہ کے دن میں سختی فرمائی، اور یقیناً آپ کا رب جس چیز میں یہ لوگ اختلاف کررہے ہیں قیامت کے روز اس کے بارے میں فیصلہ کردے گا اس طریقہ پر کہ فرمانبردار کو ثواب دے گا، اور یوم السبت کی بےحرمتی کرکے نافرمانی کرنے والوں کو عذاب دیگا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ لوگوں کو اپنے رب کے دین کی طرف حکمت (یعنی) قرآن کے ذریعہ اور اچھی نصیحتوں کے ذریعہ دعوت دیجئے یا نرم گفتاری کے ساتھ دعوت دیجئے، اور ان سے بہتر طریقہ سے بحث کیجئے مثلاً اللہ کی آیات کے ذریعہ اللہ کی طرف بلانا اور اس کے دلائل کی طرف دعوت دینا، یقیناً آپ کا رب ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں، اور وہ ہدایت یافتہ لوگوں سے بھی بخوبی واقف ہے لہٰذا وہ ان کو سزا دے گا، اور یہ حکم جہاد کا حکم نازل ہونے سے پہلے کا ہے اور (آئندہ آیت) اس وقت نازل ہوئی جب حضرت حمزہ قتل کردیئے گئے اور ان کو مسخ کردیا گیا، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب ان کو دیکھا تو فرمایا کہ میں ان کے بدلے میں ان کے ستر آدمیوں کو ضرور مثلہ (مسخ) کروں گا، اور اگر تم بدلہ لو تو اتنا ہی جتنا تمہیں صدمہ پہنچا ہے اور اگر تم انتقام سے صبر کرو تو یہ صبر، صبر کرنے والوں کے لئے بہتر ہے چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ارادہ سے رک گئے اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کردیا (رواہ البزار) آپ صبر کریں اور آپ کا صبر کرنا بھی اللہ ہی کی توفیق سے ہے اور آپ کے ان ایمان کے بارے میں شدید حریص ہونے کی وجہ سے اگر وہ ایمان نہ لائیں تو آپ غم زدہ نہ ہوں اور ان کے مکر سے آپ تنگدل نہ ہوں یعنی ان کے مکر سے رنجیدہ نہ ہوں اسلئے کہ ہم یقیناً ان کے مقابلہ میں آپ کے مددگار ہیں بیشک اللہ ان لوگوں کیساتھ ہے جو کفر و معاصی سے بچتے ہیں اور مدد و نصرت کے ذریعہ ان لوگوں کیساتھ ہے جو طاعت و صبر کے ذریعہ نیکو کار ہیں
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : اُمُّۃ، لفظِ اُمَّۃ کے بارے میں مفسرین سے متعدد اقوال منقول ہیں، اس آیت میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر اُمَّۃ کا اطلاق کیا گیا ہے، یا تو اس لئے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تنہا صفات کمالیہ کے جامع ہونے کے اعتبار سے ایک امت کے قائم مقام تھے جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے۔
لیس من اللہ بمستنکر ان یجمعَ العالمَ فی واحد
دوسری وجہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو امت کہنے کی یہ ہوسکتی ہے کہ آپ اپنے زمانہ میں تنہا مومن تھے باقی سب کفار تھے اسی وجہ سے آپ کو امت کہا گہا ہے، تیسری وجہ یہ ہے کہ امّۃ بمعنی ماموم یعنی مقتداء و امام جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” اِنِّیْ جاعلک للناس اماما “ مذکورہ تینوں توجیہوں کی روشنی میں یہ اعتراض ختم ہوگیا کہ امّۃ کا اطلاق حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر درست نہیں ہے اسلئے کہ حضرت ابراہیم واحد تھے اور امتہ کا اطلاق جمع پر ہوتا ہے۔ قولہ : اجتباہ، ای للنبوۃ .
قولہ : فُرِضَ ، اس میں اشارہ ہے کہ جُعلَ بمعنی فُرِضَ ہے۔
قولہ : تعظیمہ، اس میں حذف مضاف کی طرف اشارہ ہے، اسلئے کہ فرض کا تعلق فعل سے ہوتا ہے نہ کہ اشیاء اور ازمان سے اور سبت زمان ہے۔ قولہ : القول الرفین، رفیق، رِفق سے ماخوذ ہے اس کے معنی نرمی اور سہولت کے مطلب یہ ہے کہ دین کی دعوت نرم گفتاری، شریں بیانی سے دیجئے۔
تفسیر وتشریح
ربط آیات : سابقہ آیات میں اصول شرک و کفر یعنی انکار توحید و رسالت پر رد اور حلت و حرمت کے بعض فروعی احکام کا ذکر
تھا، مشرکین مکہ قرآن مجید کے اولین مخاطب تھے اپنے کفر وبت پرستی کے باوجود دعویٰ یہ کرتے تھے کہ ہم ملت ابراہیمی کے پابند ہیں اور ہم جو کچھ کرتے ہیں یہ سب ابراہیم (علیہ السلام) کی تعلیمات ہیں، اس لئے ان مذکورہ چار آیتوں میں ان کے اس دعوے کی تردید کی گئی ہے۔
ان۔۔۔ امۃ، یعنی وہ اکیلا انسان بجائے خود اپنی ذات میں ایک امت تھا، جب دنیا میں کوئی مسلمان نہ تھا تو ایک طرف وہ اکیلا اسلام کا علمبردار تھا اور دوسری طرف ساری دنیا کفر کی علمبردار تھی اس اکیلے بندۂ خدا نے وہ کام کیا جو ایک امت کے کرنے کا تھا وہ ایک شخص نہ تھا بلکہ پوری ایک امت تھا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے مقتداء ہونے کا تو عالم ہے کہ پوری دنیا کے تمام مشہور مذاہب کے لوگ سب آپ پر اعتماد کرتے ہیں اور آپ کی اتباع کو عزت اور فخر جانتے ہیں، یہود ” نصاریٰ “ مسلمان تو ان کی تعظیم کرتے ہی ہیں مشرکین عرب بت پرستی کے باوجود اس بت شکن کے معتقد اور ان کی ملت پر چلنے کو فخر سمجھتے تھے، اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قانِتْ و مطیع ہونے کا خاص امتیاز ان امتحانات سے واضح ہوجاتا ہے جن سے اللہ کے یہ خلیل گذرے ہیں، آتش نمرود، اہل و عیال کو لق و مطیع ہونے کا خاص امتیاز ان امتحانات سے واضح ہوجاتا ہے جن سے اللہ کے یہ خلیل گذرے ہیں، آتش نمرود، اہل و عیال کو لق ودق میدان میں چھوڑ کر چلے آنے کا حکم، پھر بڑی آرزؤں، اور تمناؤں اور دعاؤں سے ہونے والے بیٹے کی قربانی پر آمادگی یہ سب وہ امتیازات ہیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو ان القاب سے معزز فرمایا۔ غرضیکہ جتنی خوبیاں ہوسکتی ہیں وہ سب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ذات میں جمع ہوگئی تھیں، صاحب مال، صاحب اولاد، پاکیزہ رو، پسندیدہ خو، حوصلہ مند، فیاض، مہمان نواز، صابر وشاکر سب ہی کچھ آپ تھے۔
انما۔۔۔ فیہ، اس اختلاف کی نوعیت کیا ہے، اس میں چند اقوال ہیں، بعض کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کے لئے جمہ کا دن عبادت کے لئے فارغ رکھنے کے لئے فرمایا تھا لیکن بنی اسرائیل نے ان سے اختلاف کیا اور ہفتہ کا دن اپنے اس اجتہاد سے کہ ہفتہ کے دن اللہ نے بھی چھٹی رکھی تھی اس لئے ہمیں بھی یہی دن رکھنا چاہیے، حق تعالیٰ نے حضرت موسیٰعلیہ الصلاۃ والسلام سے فرمایا اے موسیٰ انہوں نے جو دن پسند کیا ہے وہی دن رہنے دو اللہ تعالیٰ نے ہفتہ کے دن میں مچھلی کا شکار کرنے سے ممانعت فرما کر ان کی آزمائش فرمائی اور مچھلیاں دیگر دنوں کی بہ نسبت ہفتہ کے دن زیادہ نمودار ہوتی تھیں، اور نصاری نے یہود کی ضد میں اتوار کا دن عبادت کے لئے فارغ کیا اور دلیل یہ دی کہ کائنات کی تخلیق کی ابتداء چونکہ اللہ تعالیٰ نے اتوار سے فرمائی تھی اسلئے ہمیں اس روز چھٹی رکھنی چاہیے اور مسلمانوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے جمعہ کا دن مقرر کردیا۔
ادع۔۔۔ والموعظۃ (الآیۃ) اس آیت میں تبلیغ و دعوت کے اصول بیان کئے گئے ہیں جو حکمت، موعظۂ حسنہ اور رفق و ملائمت پر مبنی ہیں، جدال بالا حسن، درشتی و تلخی سے بچتے ہوئے نرم و مشفقانہ لب و لہجہ اختیار کرنا ہے، یعنی آپ کا کام مذکورہ اصولوں کے مطابق و عظ و تبلیغ ہے، ہدایت کے راستہ پر چلا دینا یہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے اور وہ جانتا ہے کہ ہدایت قبول کرنے والا کون
ہے اور کون نہیں ؟
وان۔۔۔ عوقبتم، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ بدلہ لینے کی اجازت ہے بشرطیکہ تجاوزنہ ہو ورنہ یہ خود ظالم ہوجائیگا، تاہم معاف کردینے اور صبر اختیار کرنے کو زیادہ بہتر قرار دیا گیا ہے۔
تم بحمد اللہ
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے اپنے خلیل ابراہیم علیہ السلام کو فضیلت بخشی اور انہیں فضائل عالیہ اور مناقب کاملہ سے مختص کیا۔ فرمایا : ﴿ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً ﴾ ” بے شک ابراہیم ایک امت تھے“ یعنی امام، بھلائی کے خصائل کے جامع، ہدایت یافتہ اور راہنما تھے۔ ﴿قَانِتًا لِّلّٰـهِ﴾ ” اللہ کے فرماں بردار“ اپنے رب کے دائمی مطیع اور اس کے لئے دین کو خالص کرنے والے۔ ﴿ حَنِيفًا﴾ ” سب سے ایک طرف ہو کر“ یعنی محبت، انابت اور عبودیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہنے والے اور ماسوا سے منہ موڑنے والے : ﴿وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ﴾ ” اور وہ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے“ اپنے قول و عمل اور اپنے تمام احوال میں مشرکین میں سے نہ تھے کیونکہ وہ یک سوموحدین کے امام تھے۔
11 Mufti Taqi Usmani
beyshak Ibrahim aesay peshwa thay jinhon ney her taraf say yaksoo ho ker Allah ki farmanbardaari ikhtiyar kerli thi , aur woh unn logon mein say nahi thay jo Allah kay sath kissi ko shareek thehratay hain .
12 Tafsir Ibn Kathir
جد از انبیاء حضرت ابراہیم (علیہ الصلوۃ والسلام) ہدیات کے امام
امام حنفا، والد انبیاء، خلیل الرحمان، رسول جل وعلا، حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والتسلیم کی تعریف بیان ہو رہی ہے اور مشرکوں یہودیوں اور نصرانیوں سے انہیں علیحدہ کیا جا رہا ہے۔ امتہ کے معنی امام کے ہیں جن کی اقتدا کی جائے قانت کہتے ہیں اطاعت گزار فرماں بردار کو، حنیف کے معنی ہیں شرک سے ہٹ کر توحید کی طرف آجانے والا۔ اسی لئے فرمایا کہ وہ مشرکوں سے بیزار تھا۔ حضرت ابن مسعود (رض) سے جب امت قانت کے معنی دریافت کئے گئے تو فرمایا لوگوں کو بھلائی سکھانے والا اور اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ماتحتی کرنے والا۔ ابن عمر (رض) فرماتے ہیں امت کے معنی ہیں لوگوں کے دین کا معلم۔ ایک مرتبہ حضرت ابن مسعود (رض) نے فرمایا کہ حضرت معاذ امت قانت اور حنیف تھے اس پر کسی نے اپنے دل میں سوچا کہ عبداللہ غلطی کر گئے ایسے تو قرآن کے مطابق حضرت خلیل الرحمن تھے۔ پھر زبانی کہا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو امت فرمایا ہے تو آب نے فرمایا جانتے بھی ہو امت کے کیا معنی ؟ اور قانت کے کیا معنی ؟ امت کہتے ہیں اسے جو لوگوں کو بھلائی سکھائے اور قانت کہتے ہیں اسے جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں لگا رہے۔ بیشک حضرت معاذ ایسے ہی تھے۔ حضرت مجاہد (رح) فرماتے ہیں وہ تنہا امت تھے اور تابع فرمان تھے۔ وہ اپنے زمانہ میں تنہا موحد و مومن تھے۔ باقی تمام لوگ اس وقت کافر تھے۔ قتادہ فرماتے ہیں وہ ہدایت کے امام تھے اور اللہ کے غلام تھے۔ اللہ کی نعمتوں کے قدر دان اور شکر گزار تھے اور رب کے تمام احکام کے عامل تھے جیسے خود اللہ نے فرمایا جد از انبیاء حضرت ابراہیم (علیہ الصلوۃ والسلام) ہدیات کے امام٭٭ امام حنفائ، والد انبیائ، خلیل الرحمان، رسول جل وعلا، حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والتسلیم کی تعریف بیان ہو رہی ہے اور مشرکوں یہودیوں اور نصرانیوں سے انہیں علیحدہ کیا جا رہا ہے۔ امتہ کے معنی امام کے ہیں جن کی اقتدا کی جائے قانت کہتے ہیں اطاعت گذار فرماں بردار کو، حنیف کے معنی ہیں شرک سے ہٹ کر توحید کی طرف آ جان والا۔ اسی لئے فرمایا کہ وہ مشرکوں سے بیزار تھا۔ حضرت ابن مسعود (رض) سے جب امت قانت کے معنی دریافت کئے گئے تو فرمایا لوگوں کو بھلای سکھانے والا اور اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ماتحتی کرنے والا۔ ابن عمر (رض) فرماتے ہیں امت کے معنی ہیں لوگوں کے دین کا معلم۔ ایک مرتبہ حضرت ابن مسعود (رض) نے فرمایا کہ حضرت معاذ امت قانت اور حنیف تھے اس پر کسی نے اپنے دل میں سوچا کہ عبداللہ غلطی کر گئے ایسے تو قرآن کے مطابق حضرت خلیل الرحمن تھے۔ پھر زبانی کہا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو امت فرمایا ہے تو آب نے فرمایا جانتے بھی ہو امت کے کیا معنی ؟ اور قانت کے کیا معنی ؟ امت کہتے ہیں اسے جو لوگوں کو بھلائی سکھائے اور قانت کہتے ہیں اسے جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں لگا رہے۔ بیشک حضرت معاذ ایسے ہی تھے۔ حضرت مجاہد (رح) فرماتے ہیں وہ تنہا امت تھے اور تابع فرمان تھے۔ وہ اپنے زمانہ میں تنہا موحد و مومن تھے۔ باقی تمام لوگ اس وقت کافر تھے۔ قتادہ فرماتے ہیں وہ ہدایت کے امام تھے اور اللہ کے غلام تھے۔ اللہ کی نعمتوں کے قدرداں اور شکر گزار تھے اور رب کے تمام احکام کے عامل تھے جیسے خود اللہ نے فرمایا وابراہیم الذی وفی وہ ابراہیم جس نے پورا کیا یعنی اللہ کے تمام احکام کو تسلیم کیا۔ اور ان پر علم بجا لایا۔ اسے اللہ نے مختار اور مصطفیٰ بنالیا۔ جیسے فرمان ہے ولقد اتینا ابراہیم رشدہ الخ ہم نے پہلے ہی سے ابراہیم کو رشد و ہدایت دے رکھی تھی اور ہم اسے خوب جانتے تھے۔ اسے ہم نے راہ مستقیم کی رہبری کی تھی صرف ایک اللہ وحدہ لا شریک لہ کی وہ عبادت واطاعت کرتے تھے اور اللہ کی پسندیدہ شریعت پر قائم تھے۔ ہم نے انہیں دین دنیا کی خبر کا جامع بنایا تھا اپنی پاکیزہ زندگی کے تمام ضروری اوصاف حمیدہ ان میں تھے۔ ساتھ ہی آخرت میں بھی نیکوں کے ساتھی اور صلاحیت والے تھے۔ ان کا پاک ذکر دنیا میں بھی باقی رہا اور آخرت میں بڑے عظیم الشان درجے ملے۔ ان کے کمال، ان کی عظمت، ان کی محبت، توحید اور ان کے پاک طریق پر اس سے بھی روشنی پڑتی ہے کہ اے خاتم رسل اے سیدالانبیاء تجھے بھی ہمارا حکم ہو رہا ہے کہ ملت ابراہیم حنیف کی پیروی کر جو مشرکوں سے بری الذمہ تھا۔ سورة انعام میں ارشاد ہے۔ قل اننی ہدانی ربی الا صراط مستقیم الخ کہہ دے کہ مجھے میرے رب نے صراط مستقیم کی رہبری کی ہے۔ مضبوط اور قائم دین ابراہیم حنیف کی جو مشرکوں میں نہ تھا۔ پھر یہودیوں پر انکار ہو رہا ہے اور فرمایا جا رہا ہے۔ آیت (وابراہیم الذی وفی) وہ ابراہیم جس نے پورا کیا یعنی اللہ کے تمام احکام کو تسلیم کیا۔ اور ان پر علم بجا لایا۔ اسے اللہ نے مختار اور مصطفیٰ بنا لیا۔ جیسے فرمان ہے ( وَلَـقَدْ اٰتَيْنَآ اِبْرٰهِيْمَ رُشْدَهٗ مِنْ قَبْلُ وَكُنَّا بِهٖ عٰلِمِيْنَ 51ۚ ) 21 ۔ الأنبیاء :51) ہم نے پہلے ہی سے ابراہیم کو رشد و ہدایت دے رکھی تھی اور ہم اسے خوب جانتے تھے۔ اسے ہم نے راہ مستقیم کی رہبری کی تھی صرف ایک اللہ وحدہ لا شریک لہ کی وہ عبادت و اطاعت کرتے تھے اور اللہ کی پسندیدہ شریعت پر قائم تھے۔ ہم نے انہیں دین دنیا کی خبر کا جامع بنایا تھا اپنی پاکیزہ زندگی کے تمام ضروری اوصاف حمیدہ ان میں تھے۔ ساتھ ہی آخرت میں بھی نیکوں کے ساتھی اور صلاحیت والے تھے۔ ان کا پاک ذکر دنیا میں بھی باقی رہا اور آخرت میں بڑے عظیم الشان درجے ملے۔ ان کے کمال، ان کی عظمت، ان کی محبت، توحید اور ان کے پاک طریق پر اس سے بھی روشنی پڑتی ہے کہ اے خاتم رسل اے سید الانبیاء تجھے بھی ہمارا حکم ہو رہا ہے کہ ملت ابراہیم حنیف کی پیروی کر جو مشرکوں سے بری الذمہ تھا۔ سورة انعام میں ارشاد ہے۔ آیت ( قُلْ اِنَّنِيْ هَدٰىنِيْ رَبِّيْٓ اِلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ ڬ دِيْنًا قِــيَمًا مِّلَّةَ اِبْرٰهِيْمَ حَنِيْفًا ۚ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ\016\01 ) 6 ۔ الانعام :161) کہہ دے کہ مجھے میرے رب نے صراط مستقیم کی رہبری کی ہے۔ مضبوط اور قائم دین ابراہیم حنیف کی جو مشرکوں میں نہ تھا۔ پھر یہودیوں پر انکار ہو رہا ہے اور فرمایا جا رہا ہے۔