النحل آية ۳۵
وَقَالَ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا لَوْ شَاۤءَ اللّٰهُ مَا عَبَدْنَا مِنْ دُوْنِهٖ مِنْ شَىْءٍ نَّحْنُ وَلَاۤ اٰبَاۤؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِنْ دُوْنِهٖ مِنْ شَىْءٍۗ كَذٰلِكَ فَعَلَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْۚ فَهَلْ عَلَى الرُّسُلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُ
طاہر القادری:
اور مشرک لوگ کہتے ہیں: اگر اللہ چاہتا تو ہم اس کے سوا کسی بھی چیز کی پرستش نہ کرتے، نہ ہی ہم اور نہ ہمارے باپ دادا، اور نہ ہم اس کے (حکم کے) بغیر کسی چیز کو حرام قرار دیتے، یہی کچھ ان لوگوں نے (بھی) کیا تھا جو اِن سے پہلے تھے، تو کیا رسولوں کے ذمہ (اللہ کے پیغام اور احکام) واضح طور پر پہنچا دینے کے علاوہ بھی کچھ ہے،
English Sahih:
And those who associate others with Allah say, "If Allah had willed, we would not have worshipped anything other than Him, neither we nor our fathers, nor would we have forbidden anything through other than Him." Thus did those do before them. So is there upon the messengers except [the duty of] clear notification?
1 Abul A'ala Maududi
یہ مشرکین کہتے ہیں "اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم اور نہ ہمارے باپ دادا اُس کے سوا کسی اور کی عبادت کرتے اور نہ اُس کے حکم کے بغیر کسی چیز کو حرام ٹھیراتے" ایسے ہی بہانے اِن سے پہلے کے لوگ بھی بناتے رہے ہیں تو کیا رسولوں پر صاف صاف بات پہنچا دینے کے سوا اور بھی کوئی ذمہ داری ہے؟
2 Ahmed Raza Khan
اور مشرک بولے اللہ چاہتا تو اس کے سوا کچھ نہ پوجنے نہ ہم اور نہ ہمارے باپ دادا اور نہ اس سے جدا ہو کر ہم کوئی چیز حرام ٹھہراتے جیسا ہی ان سے اگلوں نے کیا تو رسولوں پر کیا ہے مگر صاف پہنچا دینا،
3 Ahmed Ali
اور مشرک کہتے ہیں اگر الله چاہتا تو ہم اس کے سوا کسی چیز کی عبادت نہ کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا اور اس کے حکم کے سوا ہم کسی چیز کو حرام نہ ٹھیراتے اسی طرح کیا ان لوگو ں نے جو ان سے پہلے تھے پھر رسولوں کے ذمہ تو صرف صاف پہنچا دینا ہے
4 Ahsanul Bayan
مشرک لوگوں نے کہا اگر اللہ تعالٰی چاہتا تو ہم اور ہمارے باپ دادے اس کے سوا کسی اور کی عبادت ہی نہ کرتے، نہ اس کے فرمان کے بغیر کسی چیز کو حرام کرتے۔ یہی فعل ان سے پہلے لوگوں کا رہا۔ تو رسولوں پر تو صرف کھلم کھولا پیغام پہنچا دینا ہے (١)
٣٥۔١ اس آیت میں اللہ تعالٰی نے مشرکین کے ایک وہم اور مغالطے کا ازالہ فرمایا ہے وہ کہتے تھے کہ ہم اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کی عبادت کرتے ہیں یا اس کے حکم کے بغیر ہی کچھ چیزوں کو حرام کر لیتے ہیں، اگر ہماری یہ باتیں غلط ہیں تو اللہ تعالٰی اپنی قدرت کاملہ سے ہمیں ان چیزوں سے روک کیوں نہیں دیتا، وہ اگر چاہے تو ہم ان کاموں کو کر ہی نہیں سکتے۔ اگر وہ نہیں روکتا تو اس کا مطلب ہے کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں، اس کی مشیت کے مطابق ہے۔ اللہ تعالٰی نے ان کے اس شبہے کا ازالہ ' رسولوں کا کام صرف پہنچا دینا ہے ' کہہ کر فرمایا۔ مطلب یہ ہے کہ تمہارا یہ گمان صحیح نہیں ہے کہ اللہ تعالٰی نے تمہیں اس سے روکا نہیں ہے۔ اللہ تعالٰی نے تو تمہیں ان مشرکانہ امور سے بڑی سختی سے روکا ہے۔ اسی لئے وہ ہر قوم میں رسول بھیجتا اور کتابیں نازل کرتا رہا ہے اور ہر نبی نے آ کر سب سے پہلے اپنی قوم کو شرک ہی سے بچانے کی کوشش کی ہے اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالٰی ہرگز یہ پسند نہیں کرتا کہ لوگ شرک کریں کیونکہ اگر اسے یہ پسند ہوتا کہ تکذیب کر کے شرک کا راستہ اختیار کیا اور اللہ نے اپنی مشیت تکوینیہ کے تحت قہراً و جبراً تمہیں اس سے نہیں روکا، تو یہ اس کی حکمت ومصلحت کا ایک حصہ ہے، جس کے تحت اس نے انسانوں کو ارادہ و اختیار کی آزادی دی ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر ان کی آزمائش ممکن ہی نہ تھی۔ ہمارے رسول ہمارا پیغام تم تک پہنچا کر یہی سمجھاتے رہے کہ اس آزادی کا غلط استعمال نہ کرو بلکہ اللہ کی رضا کے مطابق اسے استعمال کرو۔ ہمارے رسول یہی کچھ کر سکتے تھے، جو انہوں نے کیا اور تم نے شرک کے آزادی کا غلط استعمال کیا جس کی سزا دائمی عذاب ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور مشرک کہتے ہیں کہ اگر خدا چاہتا تو نہ ہم ہی اس کے سوا کسی چیز کو پوجتے اور نہ ہمارے بڑے ہی (پوجتے) اور نہ اس کے (فرمان کے) بغیر ہم کسی چیز کو حرام ٹھہراتے۔ (اے پیغمبر) اسی طرح ان سے اگلے لوگوں نے کیا تھا۔ تو پیغمبروں کے ذمے (خدا کے احکام کو) کھول کر سنا دینے کے سوا اور کچھ نہیں
6 Muhammad Junagarhi
مشرک لوگوں نے کہا کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ہم اور ہمارے باپ دادے اس کے سوا کسی اور کی عبادت ہی نہ کرتے، نہ اس کے فرمان کے بغیر کسی چیز کو حرام کرتے۔ یہی فعل ان سے پہلے کے لوگوں کا رہا۔ تو رسولوں پر تو صرف کھلم کھلا پیغام کا پہنچا دینا ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور مشرک لوگ کہتے ہیں کہ اگر اللہ چاہتا تو ہم اور ہمارے آباء و اجداد اس کے سوا نہ کسی اور کی عبادت کرتے اور نہ ہی ہم اس کے حکم کے بغیر کسی چیز کو حرام کرتے ایسا ہی ان لوگوں نے کیا جو ان سے پہلے تھے (بتاؤ) پیغمبروں کے ذمے کھلا پیغام دینے کے سوا اور کیا ہے؟
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور مشرکین کہتے ہیں کہ اگر خدا چاہتا تو ہم یا ہمارے بزرگ اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرتے اور نہ اس کے حکم کے بغیر کسی شے کو حرام قرار دیتے - اسی طرح ان کے پہلے والوں نے بھی کیا تھا تو کیا رسولوں کی ذمہ دری واضح اعلان کے علاوہ کچھ اور بھی ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور مشرک کہتے ہیں کہ اگر خدا چاہتا تو نہ ہم ہی اس کے سوا کسی چیز کو پوجتے اور نہ ہمارے بڑے ہی (پوجتے) اور نہ اس کے (فرمان کے) بغیر ہم کسی چیز کو حرام ٹھراتے۔ (اے پیغمبر) اسی طرح ان سے اگلے لوگوں نے کیا تھا۔ تو پیغمبروں کے ذمے (خدا کے احکام کو) کھول کر پہنچا دینے کے سوا اور کچھ نہیں۔
آیت نمبر 35 تا 40
ترجمہ : اور مکہ کے مشرکوں نے کہا اگر اللہ چاہتا تو ہم اور ہمارے باپ دادا اس کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہ کرتے اور نہ بحائر اور سوائب میں سے کسی کو اس کی مرضی کے بغیر حرام ٹھہراتے، تو معلوم ہوا کہ ہمارا شرک کرنا اور حرام ٹھہرانا اسی کی مشیت سے ہے اور وہ اس سے راضی ہے، اور اسی طرح ( کی حرکت) ان سے پہلے لوگوں نے کی، یعنی رسول جو حکم لیکر آئے تھے اس میں انہوں نے اپنے رسولوں کو جھٹلایا، تو کیا رسولوں پر صاف صاف بات پہچانے کے علاوہ اور کوئی ذمہ داری ہے ؟ (یعنی) واضح طور پر پہنچانے کی اور ان پر ہدایت دینے کی ذمہ داری نہیں ہے جس طرح ہم نے ان میں رسول بنا کر بھیجا ہے ہم نے ہر قوم میں رسول بھیجا کہ اے (لوگو) صرف اللہ ہی کی بندگی کرو اس کی توحید کا عقیدہ رکھو، اور بتوں سے بچو (یعنی) ان کی بندگی سے بچو تو ان میں سے کچھ ایسے بھی ہوئے کہ جن کو اللہ کے اللہ نے ہدایت دیدی تو وہ ایمان لے آئے، اور ان میں کچھ ایسے بھی ہوئے کہ جن پر اللہ کے علم میں گمراہی ثابت ہوچکی تھی جس کی وجہ سے وہ ایمان نہ لائے، لہٰذا اے مکہ کے کافرو تم زمین میں چلو پھر و اور دیکھو کہ اپنے رسولوں کو جھٹلانے والوں کا ہلاکت کے ذریعہ کیسا کچھ انجام ہوا ؟ اے محمد آپ ان کی ہدایت کے خواہ کتنے ہی خواشمند ہوں اور اللہ نے ان کو گمراہ کردیا تو آپ ان کی ہدایت پر قادر نہیں، اس لئے کہ اللہ جس لہ گمراہی کا فیصلہ فرمالیتے ہیں تو پھر اس کو ہدایت نہیں دیا کرتے، (یَھدی) مجھول اور معروف (دونوں قراءتیں ہیں) اور نہ ان کا کوئی مددگار ہوتا ہے یعنی اللہ کے عذاب سے بچانے والا، وہ لوگ بڑی زوردار قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں یعنی انتہائی مؤکد قسمیں کہ اللہ ہوگز مردوں کو زندہ نہ کریگا، کیوں نہیں ضرور زندہ کرے گا، یہ تو اس کا برحق وعدہ ہے (وعدًا اور حقًا) دونوں مصدر تاکیدی ہیں جو اپنے فعل مقدر کی وجہ سے منصوب ہیں، تقدیر عبارت یہ ہے وَعَدَ ذلک وَعْدًا وَحَقَّہٗ حَقَّا لیکن اکثر لوگ یعنی اہل مکہ اس کو جانتے نہیں ہیں، ایسا ہونا اس لئے ضروری ہے کہ اللہ ان کے سامنے اس حقیقت کو کھول دے کہ جس دین کی بات میں یہ مومنوں کے ساتھ جھگڑ رہے ہیں، ان کو عذاب دے کر اور مومنین کو ثواب دے کر، اور اسلئے بھی ضروری ہے کہ کافر جان لیں کہ وہ بعث بعد الموت سے انکار کے بارے میں غلطی پر ہیں، (لیُبَیّن) یَبْعثھم مقدر کے متعلق ہے جب ہم کسی شئ کے ایجاد کا ارادہ کرلیتے ہیں تو ہم کہہ دیتے ہیں کہ ہوجا تو وہ ہوجاتی ہے، قولنا مبتداء ہے ان نقول لہ الخ اس کی خبر ہے اور ایک قراءت میں (یکون) کے نصیب کے ساتھ نقول پر عطف کی وجہ سے، اور آیت مرنے کے بعد زندہ کرنے پر قدرت کو ثابت کرنے کے لئے ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : فَھُوَ راضٍ یہ اضافہ اس شبہ کا جواب ہے کہ کفار و مشرکین کا یہ کہنا کہ ہمارا شریک کرنا اور کسی چیز کو حرام کرنا اللہ کی مشیت اور اس کے ارادہ سے ہے یہ بات تو بالکل درست ہے اسلئے کہ اللہ کی مشیت اور ارادہ کے بغیر تو کچھ نہیں ہوتا پھر اس پر نکیر کرنے اور اس کو رد کرنے کا کیا مقصد ہے ؟
جواب : فھو راضٍ بہ سے اسی شبہ کا جواب ہے خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کی مشیت اور ارادہ سے ان کا مقصد اللہ کی رضا مندی اور پسندیدگی ہے، حالانکہ مشیت اور ارادہ کے لئے رضا مندی ضروری نہیں ہے۔
قولہ : الابلاغ البین، البلاغ المبین کی تفسیر الا بلاغ البین سے اشارہ کردیا کہ دونوں معنی میں متعدی کے ہیں۔
قولہ : أن تعبدوھا اس میں حذف مضارف کی طرف اشارہ ہے اسلئے کہ نفس اوثان سے اجتناب کا کوئی مقصد نہیں ہے۔
قولہ : اٰمَنَ اس میں اشارہ ہے کہ ہدایت سے مراد ایصال الی ایصال الی المطلوب ہے، لہٰذا یہ شبہ ختم ہوگیا کہ اللہ کی ہدایت و رہنمائی تو عام ہے تو پھر تحصیص کا کیا مطلب ہے ؟
قولہ : لا تقدر اس میں اشارہ ہے کہ ان تحرص کی جزاء محذوف ہے اور لا تقدر علی ذلک ہے۔
قولہ : بالبناء للمفعول اس کی وجہ یہ ہے کہ مَنْ یُّضلُّ ، مبتداء ہے اور لایھدی اس میں خبر ہے، معنی یہ ہیں مَنْ یضل اللہ لا یُھُدیٰ الیہ لعدم تغییر فعل اللہ تعالیٰ.
قولہ : من یرید اضلالہ الخ یعنی اگر من یُضلُّ سے حقیقۃ ضلالۃ مراد ہے تو پھر ہدایت کی نفی کی ضرورت نہیں ہے۔
قولہ : لِیُبَیِّنَ متعلق بیبعثھم المقدر اس عبارت کا مطلب یہ ہے کہ (لِیُبیِّنَ ) کا تعلق یَبْعَثُھُمْ سے ہے نہ کہ لا یعلمون سے لہٰذا یہ شبہ ختم ہوگیا کہ وَلِیُبَیِّنَ کا، لا یعلمون کی علت بننا صحیح نہیں ہے، اب تقدیر عبارت یہ ہوگی انّھم یُبعثونَ لِیبَیّنَ لھم الذی یختلفون فیہ .
قولہ : ای فھو یکون اس میں اشارہ ہے کہ یہ مبتداء محذوف کی خبر ہے اور جملہ ہو کر محل میں نصب کے ہے اور جن حضرات نے یکون کو جواب امرقرار دیکر منصوب قرار دیا ہے درست نہیں ہے اسلئے کہ دونوں مصدر ہیں حالانکہ جواب امر میں یہ شرط ہے کہ اول ثانی کے لئے سبب ہو اور یہ تغایر کو چاہتا ہے، نصب کی صورت بھی صحیح ہے اگر نقول پر عطف ہو نہ کہ جواب امر کی وجہ سے، ورنہ تو ایک موجود (مکون) کے لئے (دو وجودوں) یعنی دو کونوں کا ہونا لازم آئے گا کہ ان میں ایک دوسرے کا سبب ہوگا۔
قولہ : والآ یۃ لتقریر القدرۃ علی البعث اس عبارت کے اضافہ کا مقصد اس اعتراض کو دفع کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قول ” کُنْ “ یا تو موجود سے ہوگا اس صورت میں تحصیل حاصل لازم آئے گا یا یہ معدوم سے خطاب ہوگا تو معدوم کو خطاب لازم آئے گا جو کہ محال ہے۔ جواب کا حاصل یہ کہ (کن) کا مقصد قدرت علی البعث کا اثبات ہے اور سرعت فی الایجاد ہے لہٰذا اب کوئی اعتراض نہیں۔
تفسیر وتشریح
وقال۔۔۔ اشرکوا (الآیۃ) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے ایک وہم اور مغالطہ کو دور فرمایا ہے، وہ کہتے تھے کہ ہم
جو اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کی بندگی کرتے ہیں یا اس کے حکم کے بغیر ہی کچھ چیزوں کو حلال اور کچھ کو حرام ٹھہرالیتے ہیں اگر ہماری یہ باتیں غلط ہیں تو اللہ اپنی قدرت کاملہ سے ہمیں زبردستی روک کیوں نہیں دیتا ؟ اگر وہ نہ چاہیے تو ہم ان کاموں کو کر ہی نہیں سکتے جب وہ نہیں روکتاتو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہم جو کچھ کررہے ہیں وہ اس سے راضی ہے اور وہ کام اس کے نزدیک پسندیدہ ہے۔
مشرکین کے مذکورہ مغالطہ کا یہ کہہ کر ازالہ فرمادیا، کہ تمہارا خیال صحیح نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس سے روکا نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے تو تمہیں ان مشرکانہ امور سے بڑی سختی اور تاکید کے ساتھ روکا ہے اسی لئے اس نے ہر قوم میں رسول بھیجے اور کتابیں نازل کیں اور ہر نبی نے سب سے پہلے شرک ہی سے بچانے کی کوشش کی ہے اب رہا یہ سوال کہ اللہ تعالیٰ زبردستی ہاتھ پکڑ کر ان کاموں سے روک کیوں نہیں دیتا، اس کی قدرت میں تو سب کچھ ہے۔
اس شبہ بلکہ حماقت اور عناد کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس عالم دنیا کا نظام ہی اس بنیاد پر قائم فرمایا ہے کہ انسان کو بالکل مجبور نہیں رکھا بلکہ انسان کو ایک گونہ اختیار دیا گیا ہے، اب وہ اس اختیار کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں استعمال کرے تو اجرو ثواب کا مستحق قرار پائے اور اگر نافرمانی میں استعمال کرے تو زجروتوبیخ و عید اور عذاب کا مستحق قرار پائے، اسی کے پس منظر میں قیامت اور حشر و نشر کے سارے ہنگامے ہیں اگر اللہ تعالیٰ چاہیے تو سب کو اپنی اطاعت پر مجبور کردے کس کی مجال کہ اطاعت و فرمانبرداری سے سر موانحراف کرسکے، مگر بتقا ضائے حکمت مجبور کیوں نہیں کردیتا ایک احمقانہ اور معاندانہ سوال ہے۔
وَلَقَد۔۔۔ رسولاً ، یعنی تم اپنے شرک اور اپنی خود مختارانہ تحلیل و تحریم کے حق میں ہماری مشیت کو کیسے سند جواز بنا سکتے ہو جبکہ ہم نے ہر امت میں اپنے رسول بھیجے اور ان کے ذریعہ سے لوگوں کو صاف صاف بتادیا کہ تمہارا کام صرف ہماری بندگی کرنا ہے طاغوت کی بندگی کے لئے تمہیں پیدا نہیں کیا گیا اب ہماری مشیت کی آڑ لیکر اپنی گمراہیوں کو جائز ٹھہراناکسی طرح بھی معقولیت نہیں رکھتا۔
اِنْ ۔۔۔ ھداھم (الآیۃ) اب پھر خطاب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے آپ کی افراط شفقت علی الخلق کی بنا پر آپ کو اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے کہ جو لوگ خود اپنی ہدایت کی پرواہ نہیں رکھتے ان کے لئے قانون تکوینی بدلا نہیں جائیگا وہ یوں ہی بدستور گمراہی میں پڑے رہیں گے اور آخری انجام کو پہنچ کر ہی رہیں گے جہاں ان کا کوئی مددگار نہ ہوگا۔
أن۔۔۔۔ فیکون، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ حق تعالیٰ اس کلمہ ” کن “ کا (جوخود ایک دو حرفی حادث لفظ ہے) تلفظ بھی کرتے ہوں، مراد صرف اس قدر ہے کہ چھوٹی بڑی کوئی بھی شئ ہو اس کی تکوین کے لئے اس کے باوجود میں آگئی، شئ کا اطلاق موجود فی الخارج ہونے سے پہلے وجود ذہینی پر بھی درست ہے اسلئے کہ علم الٰہی میں شئ کے وجود سے پہلے اس کا علم ہوتا ہی ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
مشرکین اپنے شرک پر مشیت الٰہی کو دلیل بناتے ہیں اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو وہ کبھی شرک نہ کرتے اور نہ وہ ان مویشیوں کو حرام ٹھہراتے جن کو اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا ہے، مثلاً بحیرہ، وصیلہ اور حام وغیرہ۔۔۔ مگر ان کی یہ دلیل باطل ہے اگر ان کی یہ دلیل صحیح ہوتی تو اللہ تعالیٰ ان سے پہلے لوگوں کو ان کے شرک کی پاداش میں کبھی عذاب نہ دیتا اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے ان کو سخت عذاب کا مزا چکھایا۔ اگر اللہ تعالیٰ ان کے شرک کو پسند کرتا تو ان کو کبھی عذاب نہ دیتا۔ دراصل حق کو، جسے رسول لے کر آئے، رد کرنے کے سوا ان کا کوئی اور مقصد نہیں ہے ورنہ وہ خوب جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے خلاف ان کے پاس کوئی دلیل نہیں، کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو امرونہی کا پابند بنایا ہے، ان کو اسی چیز کا مکلف ٹھہرایا ہے جس پر عمل پیرا ہونا ممکن ہے اور اس پر عمل پیرا ہونے اور دو چیزوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کی ان کو قوت عطا کی ہے جس سے ان کے افعال صادر ہوتے ہیں۔ اس لئے ان کا قضاء و قدر کو دلیل بنانا سب سے بڑا باطل ہے اور ہر شخص حسی طور پر جانتا ہے کہ انسان جس فعل کا ارادہ کرتا ہے، اسے اس کو کرنے کی قدرت حاصل ہوتی ہے، اس میں کوئی نزاع نہیں ہے، پس انہوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں کی تکذیب اور عقلی اور حسی امور کی تکذیب کا ارتکاب کیا۔ ﴿فَهَلْ عَلَى الرُّسُلِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ﴾ ” پس رسولوں کی ذمے داری، کھول کر پہنچا دینا ہے“ یعنی واضح اور ظاہر ابلاغ جو دل کی گہرائیوں تک پہنچ جائے اور کسی کے پاس اللہ تعالیٰ کے خلاف کوئی حجت نہ رہے۔ جب انبیاء و رسل ان کو اللہ تبارک و تعالیٰ کے اوامرنواہی پہنچا دیتے ہیں اور وہ اس کے مقابلے میں تقدیر کا بہانہ کرتے ہیں، تو رسولوں کے اختیار میں کچھ نہیں، ان کا حساب اللہ عزوجل کے ذمے ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur jinn logon ney shirk ikhtiyar kiya hai , woh kehtay hain kay : agar Allah chahta to hum uss kay siwa kissi aur cheez ki ibadat naa kertay , naa hum , naa humaray baap dada , aur naa hum uss kay ( hukum kay ) baghair koi cheez haram qarar detay . jo ummaten inn say pehlay guzri hain , unhon ney bhi aisa hi kiya tha . lekin payghumberon ki zimma daari iss kay siwa kuch nahi kay woh saaf saaf tareeqay per paygham phoncha den .
12 Tafsir Ibn Kathir
الٹی سوچ
مشرکوں کی الٹی سوچ دیکھئے گناہ کریں، شرک پر اڑیں، حلال کو حرام کریں، جیسے جانوروں کو اپنے معبودوں کے نام سے منسوب کرنا اور تقدیر کو حجت بنائیں اور کہیں کہ اگر اللہ کو ہمارے اور ہمارے بڑوں کے یہ کام برے لگتے تو ہمیں اسی وقت سزا ملتی۔ انہیں جواب دیا جاتا ہے کہ یہ ہمارا دستور نہیں، ہمیں تمہارے یہ کام سخت ناپسند ہیں اور ان کی نا پسندیدگی کا اظہار ہم اپنے سچے پیغمبروں کی زبانی کرچکے۔ سخت تاکیدی طور پر تمہیں ان سے روک چکے، ہر بستی، ہر جماعت، ہر شہر میں اپنے پیغام بھیجے، سب نے اپنا فرض ادا کیا۔ بندگان رب میں اس کے احکام کی تبلیغ صاف کردی۔
سب سے کہہ دیا کہ ایک اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا دوسرے کو نہ پوجو، سب سے پہلے جب شرک کا ظہور زمین پر ہوا اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو خلعت نبوت دے کر بھیجا اور سب سے آخر ختم المرسلین کا لقب دے کر رحمتہ اللعالمین کو اپنا نبی بنایا، جن و انس کے لئے زمین کے اس کونے سے اس کونے تک تھی جیسے فرمان ہے آیت (وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ ) 21 ۔ الانبیآء :25) یعنی تجھ سے پہلے جتنے رسول بھیجے، سب کی طرف وحی نازل فرمائی کہ میرے سوا کوئی اور معبود نہیں پس تم صرف ہی عبادت کرو۔ ایک اور آیت میں ہے تو اپنے سے پہلے کے رسولوں سے پوچھ لے کہ کیا ہم نے ان کے لئے سوائے اپنے اور معبود مقرر کئے تھے، جن کی وہ عبادت کرتے ہوں ؟ یہاں بھی فرمایا ہر امت کے رسولوں کی دعوت توحید کی تعلیم اور شرک سے بےزاری ہی رہی۔ پس مشرکین کو اپنے شرک پر، اللہ کی چاہت، اس کی شریعت سے معلوم ہوتی ہے اور وہ ابتدا ہی سے شرک کی بیخ کنی اور توحید کی مضبوطی کی ہے۔ تمام رسولوں کی زبانی اس نے یہی پیغام بھیجا۔ ہاں انہیں شرک کرتے ہوئے چھوڑ دینا یہ اور بات ہے جو قابل حجت نہیں۔ اللہ نے جہنم اور جہنمی بھی تو بنائے ہیں۔ شیطان کافر سب اسی کے پیدا کئے ہوئے ہیں اور اپنے بندوں سے ان کے کفر پر راضی نہیں۔ اس میں بھی اس کی حکمت تامہ اور حجت بالغہ ہے پھر فرماتا ہے کہ رسولوں کے آ گاہ کردینے کے بعد دنیاوی سزائیں بھی کافروں اور مشرکوں پر آئیں۔ بعض کو ہدایت بھی ہوئی، بعض اپنی گمراہی میں ہی بہکتے رہے۔ تم رسولوں کے مخالفین کا، اللہ کے ساتھ شرک کرنے والوں کا انجام زمین میں چل پھر کر خود دیکھ لو گزشتہ واقعات کا جنہیں علم ہے ان سے دریافت کرلو کہ کس طرح عذاب الہٰی نے مشرکوں کو غارت کیا۔ اس وقت کے کافروں کے لئے ان کافروں میں مثالیں اور عبرت موجود ہے۔ دیکھ لو اللہ کے انکار کا نتیجہ کتنا مہلک ہوا ؟
پھر اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرماتا ہے کہ گو آپ ان کی ہدایت کے کیسے ہی حریص ہوں لیکن بےفائدہ ہے۔ رب ان کی گمراہیوں کی وجہ سے انہیں در رحمت سے دور ڈال چکا ہے۔ جیسے فرمان ہے آیت ( ۭ وَمَنْ يُّرِدِ اللّٰهُ فِتْنَتَهٗ فَلَنْ تَمْلِكَ لَهٗ مِنَ اللّٰهِ شَـيْـــــًٔـا) 5 ۔ المائدہ :41) جسے اللہ ہی فتنے میں ڈالنا چاہے تو اسے کچھ بھی تو نفع نہیں پہنچا سکتا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا تھا اگر اللہ کا ارادہ تمہیں بہکانے کا ہے تو میری نصیحت اور خیر خواہی تمہارے لئے محض بےسود ہے۔ اس آیت میں بھی فرماتا ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ بہکاوے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ وہ دن بدن اپنی سرکشی اور بہکاوے میں بڑھتے رہتے ہیں۔ فرمان ہے آیت (اِنَّ الَّذِيْنَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ ) 10 ۔ یونس :96) جن پر تیرے رب کی بات ثابت ہوچکی ہے انہیں ایمان نصیب نہیں ہونے کا۔ گو تمام نشانیاں ان کے پاس آجائیں یہاں تک کہ عذاب الیم کا منہ دیکھ لیں۔ پس اللہ یعنی اس کی شان، کا امر۔ اس لئے کہ جو وہ چاہتا ہے ہوتا ہے جو نہیں چاہتا نہیں ہوتا۔ پس فرماتا ہے کہ وہ اپنے گمراہ کئے ہوئے کو راہ نہیں دکھاتا۔ نہ کوئی اور اس کی رہبری کرسکتا ہے نہ کوئی اس کی مدد کے لئے اٹھ سکتا ہے کہ عذاب الہٰی سے بچا سکے۔ خلق و امر اللہ ہی کا ہے وہ رب العالمین ہے، اس کی ذات بابرکت ہے، وہی سچا معبود ہے۔