النحل آية ۸۴
وَيَوْمَ نَـبْعَثُ مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِيْدًا ثُمَّ لَا يُؤْذَنُ لِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَلَا هُمْ يُسْتَعْتَبُوْنَ
طاہر القادری:
اور جس دن ہم ہر اُمت سے (اس کے رسول کو اس کے اعمال پر) گواہ بنا کر اٹھائیں گے پھر کافر لوگوں کو (کوئی عذر پیش کرنے کی) اجازت نہیں دی جائے گی اور نہ (اس وقت) ان سے توبہ و رجوع کا مطالبہ کیا جائے گا،
English Sahih:
And [mention] the Day when We will resurrect from every nation a witness [i.e., their prophet]. Then it will not be permitted to the disbelievers [to apologize or make excuses], nor will they be asked to appease [Allah].
1 Abul A'ala Maududi
(اِنہیں کچھ ہوش بھی ہے کہ اُس روز کیا بنے گی) جبکہ ہم ہر امت میں سے ایک گواہ کھڑا کریں گے، پھر کافروں کو نہ حجتیں پیش کرنے کا موقع دیا جائیگا نہ ان سے توبہ و استغفار ہی کا مطالبہ کیا جائے گا
2 Ahmed Raza Khan
اور جس دن ہم اٹھائیں گے ہر امت میں سے ایک گواہ پھر کافروں کو نہ اجازت ہو نہ وہ منائے جائیں، ف۱۹۳)
3 Ahmed Ali
اور جس دن ہم ہر قوم میں سے ایک گواہ کھڑا کریں گے پھر نہ کافروں کو اجازت دی جائے گی اورنہ ان کا کوئی عذر قبول کیا جائے گا
4 Ahsanul Bayan
اور جس دن ہم ہر امت میں سے گواہ کھڑا کریں گے (١) پھر کافروں کو نہ اجازت دی جائے گی اور نہ ان سے توبہ کرنے کو کہا جائے گا۔
٨٤۔١ یعنی ہر امت پر اس امت کا پیغمبر گواہی دے گا کہ انہیں اللہ کا پیغام پہنچا دیا گیا تھا۔ لیکن انہوں نے اس کی پرواہ نہیں کی ان کافروں کو عذر پیش کرنے کی اجازت بھی نہیں دی جائے گی، اس لئے کہ ان کے پاس حقیقت میں کوئی عذر یا حجت ہوگی ہی نہیں۔ نہ ان سے رجوع یا عتاب دور کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا۔ کیونکہ اس کی ضرورت بھی اس وقت پیش آتی ہے جب کسی کو گنجائش دینا مقصود ہو، ایک دوسرے معنی یہ کئے گئے ہیں کہ انہیں اپنے رب کو راضی کرنے کا موقع نہیں دیا جائے گا۔ کیونکہ وہ موقع تو دنیا میں دیا جا چکا ہے جو دارالعمل ہے۔ آخرت تو دارعمل نہیں، وہ تو دارالجزا ہے، وہاں تو اس چیز کا بدلہ ملے گا جو انسان دنیا سے کر کے گیا ہو گا، وہاں کچھ کرنے کا موقع کسی کو نہیں ملے گا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جس دن ہم ہر اُمت میں سے گواہ (یعنی پیغمبر) کھڑا کریں گے تو نہ تو کفار کو (بولنے کی) اجازت ملے گی اور نہ اُن کے عذر قبول کئے جائیں گے
6 Muhammad Junagarhi
اور جس دن ہم ہر امت میں سے گواه کھڑا کریں گے پھر کافروں کو نہ اجازت دی جائے گی اور نہ ان سے توبہ کرنے کو کہا جائے گا
7 Muhammad Hussain Najafi
اور جس دن ہم ہر امت سے ایک گواہ اٹھا کر کھڑا کریں گے پھر کافروں کو اجازت نہیں دی جائے گی اور نہ ہی ان سے اللہ کو راضی کرنے کی فرمائش کی جائے گی۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور قیامت کے دن ہم ہر امّت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور اس کے بعد کافروں کو کسی طرح کی اجازت نہ دی جائے گی اور نہ ان کا عذر ہی سناُ جائے گا
9 Tafsir Jalalayn
اور جس دن ہم ہر امت میں سے گواہ (یعنی پیغمبر) کھڑا کریں گے تو نہ تو کفار کو (بولنے کی) اجازت ملے گی اور نہ ان کے عذر قبول کئے جائیں گے۔
آیت نمبر 84 تا 89
ترجمہ : اور یاد کرو اس دن کو کہ جس دن میں ہم ہر امت میں سے گواہ کھڑا کریں گے اور وہ اس امت کا نبی ہوگا، وہ ان کے ایمان و
کفر کی شہادت دے گا، اور وہ قیامت کا دن ہوگا، پھر کافروں کو نہ عذر خواہی کی اجازت دی جائے گی اور نہ ان سے خوشنودی طلب کرنے کے لئے کہا جائیگا یعنی نہ ان سے اس چیز کی طرف رجوع کرنے کے لئے کہا جائیگا جس سے اللہ راضی ہوجائے، اور جب کافر عذاب دیکھ لیں گے تو نہ ان سے (عذاب میں) تخفیف کی جائے گی اور نہ ہی ان کو اس عذاب سے مہلت (ڈھیل) دی جائیگی جب وہ اس کو دیکھ لیں گے، اور جب مشرکین شیاطین وغیرہ سے اپنے شرکاء کو دیکھیں گے تو کہیں گے اے ہمارے پروردگار یہی ہیں ہمارے شرکاء جن کی ہم تیرے علاوہ بندگی کیا کرتے تھے تو وہ انھیں جواب دیں گے تم اپنے اس قول میں کہ تم ہماری بندگی کیا کرتے تھے بالکل ہی جھوٹے ہو جیسا کہ دوسری آیت میں ہے ” ماکانوا اِیَّانا یعبدون “ وہ ہماری بندگی نہیں کیا کرتے تھے (یعنی) عنقریب (روز قیامت) ان کی عبادت سے انکار کردیں گے، اور اس دن اللہ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کردیں گے اور ان کا یہ جھوٹ کہ ان کے معبود ان کی شفاعت کریں گے گم ہوجائیگا (رفوچکر ہوجائیگا) اور جنہوں نے کفر کیا اور لوگوں کو اللہ کے دین سے روکا ہم ان کے اس عذاب پر کہ جس کے وہ کفر کی وجہ سے مستحق ہیں عذاب پر عذاب بڑھاتے جائیں گے، (حضرت) عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا کہ، ایسے بچھو ہوں گے کہ ان کے دانت لمبائی میں کھجور کے درخت کے برابر ہوں گے، اس وجہ سے کہ وہ لوگوں کو ایمان سے روک کر فساد برپا کرتے تھے اور یاد کرو اس دن کو جس دن ہر امت میں ان ہی میں سے ہم ایک گواہ کھڑا کریں گے وہ ان کا نبی ہوگا، اور اے محمد ہم آپ کو ان پر یعنی آپ کو قوم پر گواہ بنا کر لائیں گے اور ہم نے آپ پر یہ کتاب قرآن نازل کی جس میں ضروریات شرعیہ میں سے ہر ضرورت کا شافی بیان ہے جن کی لوگوں کو حاجت ہوتی ہے اور گمراہی سے ہدایت ہے اور رحمت ہے مسلمانوں توحید پرستوں کے لئے جنت کی خوشخبری ہے۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : یُسْتَعْتبونَ ، اِسْتِعتاب (استفال) سے مضارع جمع مذکر غائب خوشنودی حاصل کرنے کیلئے کہنا، رضا مند کرنے کی خواہش کرنا، بعض مفسرین نے لا یُسْتَعْتَبُوْن کا ترجمہ کیا ہے نہ ان کے عذر قبول کئے جائیں گے، علامہ محلّی نے اس لفظ کی تشریح میں لکھا ہے لایطلبُ منھم ان یرضوا رَبَّھم بالتوبۃ وَالطاعۃ لِاَنَّھَا لا تنفعُ یومَئِذ، ان سے اس بات کی طلب نہیں کی جائے گی کہ توبہ اور طاعت کے ذریعہ اپنے رب کو رضا مند کرلیں کیونکہ اس روز یہ چیزیں مفید نہ ہونگی۔
قولہ : اَلذین کفروا الخ مبتداء ہے اور زدناھم اس کی خبر ہے، اور یہ بھی ہے کہ الذین کفروا، الخ یفترون کا فاعل ہو، اور زِدْناھم جملہ مستانفہ ہو .
قولہ : بما کانو یفسدون باء سببیہ ہے اور مامصدر یہ ہے ای بسبب کو نھم مفسدین .
قولہ : ای قومک، یہ ایک تفسیر ہے یعنی ہر نبی اپنی اپنی امت کے متعلق شہادت دے گا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اپنی امت کے بارے میں شہادت دیں گے، بیضادی نے ایسا ہی کہا ہے، اور بعض مفسرین نے کہا ہے کہ ھٰؤلاء سے مراد انبیاء ہیں یعنی آپ انبیاء کے بارے میں شہادت دیں گے، اسلئے کہ ہر نبی کا اپنی امت کے بارے میں شہادت دینا جن میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی شامل ہیں یوم نبعث فی کل اُمّۃ
شھیدًا علیھم من انفسھم سے مفہوم ہے اس بات کو آپ کے بارے میں دوبارہ ذکر کرنا تکرار بلا فائدہ ہے، لہٰذا شھیدًا علی ھٰؤلاء سے
شہادت علی الانبیاء ہی مراد ہوگی، اور ابو سعود کی عبارت یہ ہے، علیٰ ھٰؤلاء الامم وشھدائھِمْ.
تفسیر وتشریح
من۔۔۔ شھیدًا ہر امت کا شاہد اس کا نبی ہوگا اور نبی کے گذر جانے کے بعد نائبین انبیاء شاہد ہوں گے جنہوں نے خالص توحید اور خدا پرستی کی دعوت دی ہوگی، یہ گواہان اس بات کی گواہی دیں گے کہ ہم نے پیغام حق ان تک پہنچا دیا، اور امۃ سے مراد ظاہر ہے کہ امت دعوت ہے یعنی وہ قوم جو نبی کے پیغام کی طرف مخاطب رہی ہو امت اجابت مراد نہیں ہے۔ (ماجدی)
فالقوا۔۔۔ لکذبون اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ واقعۂ پرستش کا انکار کردیں گے، بلکہ وہ دراصل اس واقعۂ پرستش و بندگی کے متعلق اپنے علم و اطلاع اور اس پر اپنی رضا مندی کا انکار کریں گے، وہ کہیں گے کہ نہ ہم نے تم سے کبھی یہ کہا کہ تم خدا کو چھوڑ کر ہمیں پکارا کرو اور نہ ہم تمہاری اس حرکت پر راضی تھے، بلکہ ہمیں تو خبر تک نہ تھی کہ تم ہمیں پکارتے ہو، اگر تم نے ہمیں سمیع الدعاء اور مجیب الدعوات اور دستگیر و فریادرس قرار دیا تھا تو یہ قطعی ایک جھوٹی بات تھی جو تم نے گھڑلی تھی اور اس کے ذمہ دار تم خود تھے، اب ہمیں اس کی ذمہ داری میں لپٹینے کی کوشش کیوں کرتے ہو ؟
وضل۔۔۔ یفترون یعنی وہ سب سہارے جن پر دنیا میں بھروسہ کئے ہوئے تھے سب گم ہوجائیں گے کسی فریادرس کو وہاں فریادرسی کے لئے موجود نہ پائیں گے، کوئی مشکل کشا ان کی مشکل حل کرنے کے لئے نہ ملے گا، کوئی آگے بڑھ کر یہ کہنے والا نہ ملے گا کہ یہ میرے متوسلین میں سے ہیں لہٰذا انھیں کچھ نہ کہا جائے۔
ونزلنا۔۔۔ شئ، ارشاد فرمایا کہ قرآن میں ہر چیز کا واضح بیان ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جس پر یدایت و ضلالت اور فلاح و
خسران کا مدار ہے اور اس کا جاننا راست روی کے لئے ضروری ہے جس سے حق و باطل کا فرق نمایاں ہوتا ہے غرضیکہ اس سے مراد دین و شریعت کی باتیں ہیں اس لئے معاشی فنون اور ان کے مسائل کو قرآن میں تلاش کرنا غلط ہے، اگر کہیں کوئی ضمنی اشارہ آجائے تو وہ اس کے منافی نہیں۔ بعض لوگ غلط فہمی کی وجہ سے تبیانًا لکل شئ کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ قرآن میں سب کچھ بیان کردیا گیا ہے، پھر وہ اپنے اس دعوے کو نبھانے کے لئے قرآن سے سائنس اور فنون کے عجیب عجیب مضامین نکالنے کی کوشش شروع کردیتے ہیں۔ رہا یہ سوال کہ قرآن میں تو دین و شریعت کے بھی سب مسائل مفصل مذکور نہیں تو تبیانًا لکل شئ کہنا کیسے درست ہوگا ؟ حالانکہ بہت سے مسائل کا بھی واضح طور پر بیان نہیں ہے مثلاً تعداد رکعت، مقدار زکوۃ وغیرہ، اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم میں اصول تو تمام مسائل کے موجود ہیں ان ہی کی روشنی میں احادیث رسول ان مسائل کو بیان کرتی ہیں اور یہ قرآن ہی کی ہدایت کے مطابق ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” وَمَا آتاکم الرسول فخذوہ ومانھاکم عنہ فانتھوا “ اگر کوئی حکم صراحت کے ساتھ قرآن و حدیث میں نہیں ہے تو اس کو قرآن نے اجماع پر محوّل کردیا ہے، ارشاد فرمایا ” ومن یشاقق الرسول من بعد ما تبیّن لہ الھدی ویتبع غیر سبیل المؤمنین “ الخ، اور اگر کسی مسئلہ میں اجماع امت بھی نہ ہو تو قرآن نے قیاس و اجتہاد کرنے کا حکم دیا ہے ” قال اللہ تعالیٰ فاعتبروا یا اولی الابصار “ مسائل و احکام معلوم کرنے کے یہ چار طریقہ ہیں کوئی حکم اور کوئی مسئلہ ان سے خارج نہیں اور یہ چاروں کتاب اللہ میں مذکور ہیں، اس طریقہ پر تبیانًا لکل شئ کہنا درست ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ قیامت کے روز کفار کے حال کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے کہ اس روز ان سے کوئی عذر قبول کیا جائے گا نہ ان سے عذاب کو رفع کیا جائے گا اور ان کے ٹھہرائے ہوئے شریک ان سے بیزاری کا اظہار کریں گے اور وہ اقرار کریں گے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر اور اس پر افترا پردازی کیا کرتے تھے، چنانچہ فرمایا : ﴿وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِن كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا ﴾ ” اور جس دن کھڑا کریں گے ہم ہر امت میں سے ایک گواہی دینے والا“ جو ان کے اعمال پر گواہی دے گا کہ انہوں نے داعی ہدایت کو کیا جواب دیا تھا اور یہ گواہ جس کو اللہ گواہی کے لئے کھڑا کرے گا، وہ سب سے پاک اور سب سے عادل گواہ ہوگا اور یہ گواہ رسول ہی ہوں گے۔ جب وہ گواہی دیں گے تو لوگوں کے خلاف فیصلہ مکمل ہوجائے گا۔ ﴿ثُمَّ لَا يُؤْذَنُ لِلَّذِينَ كَفَرُوا ﴾ ” پھر کافروں کو اجازت نہیں دی جائے گی“ یعنی کفار کو معذرت پیش کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی کیونکہ ان کو اپنے موقف کے بطلان کے معلوم ہونے کے بعد ان کا عذر، محض جھوٹا ہوگا، جو ان کو کچھ فائدہ نہ دے گا۔ اگر وہ دنیا میں واپس جانا چاہیں گے تاکہ وہ اپنے گناہوں کی تلافی کرسکیں تو انہیں واپس جانے کی اجازت ملے گی نہ ان سے ناراضی کو دور کیا جائے گا بلکہ جب وہ عذاب کو دیکھ لیں گے تو ان کو جلدی سے عذاب میں دھکیل دیا جائے گا، وہ عذاب جس میں کوئی تخفیف کی جائے گی نہ ان کو کوئی ڈھیل دی جائے گی نہ مہلت، کیونکہ ان کے دامن میں کوئی نیکی نہ ہوگی ان کے اعمال کو شمار کر کے ان کے سامنے کیا جائے گا وہ اس کا اقرار کریں گے اور شرمسار ہوں گے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur uss din ko yaad rakho jab hum her aik ummat mein say aik gawah kharra keren gay , phir jinn logon ney kufr apnaya tha , unhen ( uzr paish kernay ki ) ijazat nahi di jaye gi , aur naa unn say yeh farmaeesh ki jaye gi kay woh tauba keren .
12 Tafsir Ibn Kathir
ہر امت کا گواہ اس کا نبی
قیامت کے دن مشرکوں کی جو بری حالت بنے گی اس کا ذکر ہو رہا ہے کہ اس دن ہر امت پر اس کا نبی گواہی دے گا کہ اس نے اللہ کا پیغام انہیں پہنچا دیا تھا کافروں کو کسی عذر کی بھی اجازت نہ ملے گی کیونکہ ان کا بطلان اور جھوٹ بالکل ظاہر ہے۔ سورة والمرسلات میں بھی یہی فرمان ہے کہ اس دن نہ وہ بولیں گے، نہ انہیں کسی عذر کی اجازت ملے گی۔ مشرکین عذاب دیکھیں گے لیکن پھر کوئی کمی نہ ہوگی ایک ساعت بھی عذاب ہلکا نہ ہوگا نہ انہیں کوئی مہلت ملے گی اچانک پکڑ لئے جائیں گے۔ جہنم آموجود ہوگی جو ستر ہزار لگاموں والی ہوگی۔ جس کی ایک لگام پر ستر ہزار فرشتے ہوں گے۔ اس میں سے ایک گردن نکلے گی جو اس طرح پھن پھیلائے گی کہ تمام اہل محشر خوف زدہ ہو کر بل گرپڑیں گے۔ اس وقت جہنم اپنی زبان سے باآواز بلند اعلان کرے گی کہ میں اس ہر ایک سرکش ضدی کے لئے مقرر کی گئی ہوں۔ جس نے اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک کیا ہو اور ایسے ایسے کام کئے ہوں چناچہ وہ کئی قسم کے گنہگاروں کا ذکر کرے گی۔ جیسے کہ حدیث میں ہے پھر وہ ان تمام لوگوں کو لپٹ جائے گی اور میدان محشر میں سے انہیں لپک لے گی جیسے کہ پرند دانہ چگتا ہے۔ جیسے کہ فرمان باری ہے آیت (اذا رایتھم) الخ جب کہ وہ دور سے دکھائی دے گی تو اس کا شور و غل، کڑکنا، بھڑکنا یہ سننے لگیں گے اور جب اس کے تنگ و تاریک مکانوں میں جھونک دئیے جائیں تو موت کو پکاریں گے۔ آج ایک چھوڑ کئی ایک موتوں کو بھی پکاریں تو کیا ہوسکتا ہے ؟ اور آیت میں ہے ( وَرَاَ الْمُجْرِمُوْنَ النَّارَ فَظَنُّوْٓا اَنَّهُمْ مُّوَاقِعُوْهَا وَلَمْ يَجِدُوْا عَنْهَا مَصْرِفًا 53 ) 18 ۔ الكهف :53) گنہگار جہنم کو دیکھ کر سمجھ لیں گے کہ وہ اس میں جھونک دئے جائیں گے لیکن کوئی بچاؤ نہ پائیں گے۔ اور آیت میں ہے (لو یعلم الذین کفروا) کاش کہ کافر اس وقت کو جان لیتے جب کہ وہ اپنے چہروں پر سے اور اپنی کمروں پر سے جہنم کی آگ کو دور نہ کرسکیں گے نہ کسی کو مددگار پائیں گے اچانک عذاب الہٰی انہیں ہکا بکا کردیں گے نہ انہیں ان کے دفع کرنے کی طاقت ہوگی نہ ایک منٹ کی مہلت ملے گی۔
اس وقت ان کے معبودان باطل جن کی عمر بھر عبادتیں اور نذریں نیازیں کرتے رہے ان سے بالکل بےنیاز ہوجائیں گے اور ان کی احتیاج کے وقت انہیں مطلقا کام نہ آئیں گے۔ انہیں دیکھ کر یہ کہیں گے کہ اے اللہ یہ ہیں جنہیں ہم دنیا میں پوجتے رہے تو وہ کہیں گے جھوٹے ہو ہم نے کب تم سے کہا تھا کہ اللہ چھوڑ کر ہماری پرستش کرو ؟ اسی کو جناب باری نے فرمایا آیت ( وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ يَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَنْ لَّا يَسْتَجِيْبُ لَهٗٓ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَاۗىِٕهِمْ غٰفِلُوْنَ ) 46 ۔ الأحقاف :5) یعنی اس سے زیادہ کوئی گمراہ نہیں جو اللہ کے سوا انہیں پکارتا ہے جو اسے قیامت تک جواب نہ دیں بلکہ وہ ان کے پکار نے سے بھی بیخبر ہوں اور حشر کے دن ان کے دشمن ہوجانے والے ہوں اور ان کی عبادت کا انکار کر جانے والے ہوں۔ اور آیتوں میں ہے کہ اپنا حمایتی اور باعث عزت جان کر جنہیں یہ پکارتے رہے وہ تو ان کی عبادتوں کے منکر ہوجائیں گے۔ اور ان کے مخالف بن جائیں گے خلیل اللہ علیہ والسلام نے بھی یہی فرمایا کہ آیت (ثُمَّ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ يَكْفُرُ بَعْضُكُمْ بِبَعْضٍ وَّيَلْعَنُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا ۡ وَّمَاْوٰىكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِّنْ نّٰصِرِيْنَ 25ڎ) 29 ۔ العنکبوت :25) یعنی قیامت کے دن ایک دوسروں کے منکر ہوجائیں گے۔ اور آیت میں ہے کہ انہیں قیامت کے دن حکم ہوگا کہ اپنے شریکوں کو پکارو الخ اور بھی اس مضمون کی بہت سی آیتیں کلام اللہ میں موجود ہیں۔
اس دن سب کے سب مسلمان تابع فرمان ہوجائیں گے جیسے فرمان ہے آیت ( اَسْمِعْ بِهِمْ وَاَبْصِرْ ۙيَوْمَ يَاْتُوْنَنَا لٰكِنِ الظّٰلِمُوْنَ الْيَوْمَ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ 38) 19 ۔ مریم :38) یعنی جس دن یہ ہمارے پاس آئیں گے، اس دن خوب ہی سننے والے، دیکھنے والے ہوجائیں گے۔ اور آیت میں ہے ( وَلَوْ تَرٰٓي اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاكِسُوْا رُءُوْسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۭ رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ 12 ) 32 ۔ السجدة :12) تو دیکھے گا کہ اس دن گنہگار لوگ اپنے سر جھکائے کہہ رہے ہوں گے کہ اے اللہ ہم نے دیکھ سن لیا، الخ۔ اور آیت میں ہے کہ سب چہرے اس دن اللہ حی وقیوم کے سامنے جھکے ہوئے ہوں گے، تابع اور مطیع ہوں گے، زیر فرمان ہوں گے۔ ان کے سارے بہتان و افترا جاتے رہیں گے۔ ساری چالاکیاں ختم ہوجائیں گی کوئی ناصر و مددگار کھڑا نہ ہوگا۔ جنہوں نے کفر کیا، انہیں ان کے کفر کی سزا ملے گی اور دوسروں کو بھی حق سے دور بھگاتے رہتے تھے دراصل وہ خود ہی ہلاکت کے دلدل میں پھنس رہے تھے لیکن بیوقوف تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کافروں کے عذاب کے بھی درجے ہوں گے، جس طرح مومنوں کے جزا کے درجے ہوں گے جیسے فرمان الہٰی ہے آیت ( قَالَ لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَعْلَمُوْنَ 38) 7 ۔ الاعراف :38) ہر ایک کے لیے دوہرا اجر ہے لیکن تمہیں علم نہیں۔ ابو یعلی میں حضرت عبداللہ سے مروی ہے کہ عذاب جہنم کے ساتھ ہی زہر یلے سانپوں کا ڈسنا بڑھ جائے گا جو اتنے بڑے بڑے ہوں گے جتنے بڑے کھجور کے درخت ہوتے ہیں۔ ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ عرش تلے سے پانچ نہریں آتی ہیں جن سے دوزخیوں کو دن رات عذاب ہوگا۔