الاسراء آية ۱۰۱
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ فَسْـــَٔلْ بَنِىْۤ اِسْرَاۤءِيْلَ اِذْ جَاۤءَهُمْ فَقَالَ لَهٗ فِرْعَوْنُ اِنِّىْ لَاَظُنُّكَ يٰمُوْسٰى مَسْحُوْرًا
طاہر القادری:
اور بیشک ہم نے موسٰی (علیہ السلام) کو نو روشن نشانیاں دیں تو آپ بنی اسرائیل سے پوچھیئے جب (موسٰی علیہ السلام) ان کے پاس آئے تو فرعون نے ان سے کہا: میں تو یہی خیال کرتا ہوں کہ اے موسٰی! تم سحر زدہ ہو (تمہیں جادو کر دیا گیا ہے)،
English Sahih:
And We had certainly given Moses nine evident signs, so ask the Children of Israel [about] when he came to them and Pharaoh said to him, "Indeed I think, O Moses, that you are affected by magic."
1 Abul A'ala Maududi
ہم نے موسیٰؑ کو تو نشانیاں عطا کی تھیں جو صریح طور پر دکھائی دے رہی تھیں اب یہ تم خود بنی اسرائیل سے پوچھ لو کہ جب وہ سامنے آئیں تو فرعون نے یہی کہا تھا نا کہ "اے موسیٰؑ، میں سمجھتا ہوں کہ تو ضرور ایک سحر زدہ آدمی ہے"
2 Ahmed Raza Khan
اور بیشک ہم نے موسیٰ کو نو روشن نشانیاں دیں تو بنی اسرائیل سے پوچھو جب وہ ان کے پاس آیا تو اس سے فرعون نے کہا، اے موسیٰ! میرے خیال میں تو تم پر جادو ہوا
3 Ahmed Ali
اور البتہ تحقیق ہم نے موسیٰ کو نو کھلی نشانیاں دی تھیں پھر بھی بنی اسرائیل سےبھی پوچھ لو جب موسیٰ ان کے پاس آئے تو فرعون نے اسے کہا اے موسیٰ میں تو تجھے جادو کیا ہوا خیال کرتا ہوں
4 Ahsanul Bayan
ہم نے موسیٰ کو نو معجزے (٢) بالکل صاف صاف عطا فرمائے، تو خود ہی بنی اسرائیل سے پوچھ لے کہ جب وہ ان کے پاس پہنچے تو فرعون بولا کہ اے موسٰی! میرے خیال میں تو تجھ پر جادو کر دیا گیا ہے۔
١٠١۔١ وہ نو معجزے ہیں۔ ہاتھ، لاٹھی، قحط سالی، نقص ثمرات، طوفان، جراد (ٹڈی دل) قمل (کھٹمل، جوئیں) ضفاد (مینڈک) اور خون، امام حسن بصری کہتے ہیں، کہ قحط سالی اور نقص ثمرات ایک ہی چیز ہے اور نواں معجزہ لاٹھی کا جادو گروں کی شعبدہ بازی کو نگل جانا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ان کے علاوہ بھی معجزات دیئے گئے تھے مثلًا لاٹھی کا پتھر پر مارنا، جس سے بارہ چشمے ظاہر ہوگئے تھے، بادلوں کا سایہ کرنا، من و سلوی وغیرہ۔ لیکن یہاں آیات تسعہ سے صرف وہی نو معجزات مراد ہیں، جن کا مشاہدہ فرعون اور اس کی قوم نے کیا۔ اسی لیے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے انفلاق بحر (سمندر کا پھٹ کر راستہ بن جانے) کو بھی ان نو معجزات میں شمار کیا ہے اور قحط سالی اور نقص ثمرات کو ایک معجزہ شمار کیا ہے ترمذی کی ایک روایت میں آیات تسعہ کی تفصیل اس سے مختلف بیان کی گئی ہے لیکن سنداً وہ روایت ضعیف ہے اس لیے آیات تسعہ سے مراد یہی مذکورہ معجزات ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور ہم نے موسیٰ کو نو کھلی نشانیاں دیں تو بنی اسرائیل سے دریافت کرلو کہ جب وہ ان کے پاس آئے تو فرعون نے ان سے کہا کہ موسیٰ میں خیال کرتا ہوں کہ تم پر جادو کیا گیا ہے
6 Muhammad Junagarhi
ہم نے موسیٰ کو نو معجزے بالکل صاف صاف عطا فرمائے، تو خود ہی بنی اسرائیل سے پوچھ لے کہ جب وه ان کے پاس پہنچے تو فرعون بوﻻ کہ اے موسیٰ میرے خیال میں تو تجھ پر جادو کردیا گیا ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور ہم نے موسیٰ کو نو کھلی نشانیاں عطا فرمائیں۔ آپ بنی اسرائیل سے پوچھ لیں جب کہ وہ (موسیٰ) ان کے پاس آئے تھے! تو فرعون نے اس سے کہا۔ اے موسیٰ! میں تو تمہیں سحر زدہ (یا ساحر) خیال کرتا ہوں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور ہم نے موسٰی کو نوکِھلی ہوئی نشانیاں دی تھیں تو بنی اسرائیل سے پوچھو کہ جب موسٰی ان کے پاس آئے تو فرعون نے ان سے کہہ دیا کہ میں تو تم کو سحر زدہ خیال کررہا ہوں
9 Tafsir Jalalayn
اور ہم نے موسیٰ کو نو کھلی نشانیاں دیں تو بنی اسرائیل سے دریافت کرلو کہ جب وہ ان کے پاس آئے تو فرعون نے ان سے کہا کہ موسیٰ ! میں خیال کرتا ہوں کہ تم پر جادو کیا گیا ہے۔
آیت نمبر 101 تا 111
ترجمہ : اور موسیٰ (علیہ السلام) کو ہم نے نو معجزے بالکل واضح عطا کئے تھے اور وہ یہ ہیں (1) یدبیضاء، (2) عصا، (3) طوفان، (4) ٹڈیاں، (5) جوئیں، (6) مینڈک، (7) خون، (8) ہلاکت اموال، (9) خشک سالی اور پھلوں کی کمی (اے محمد) تم خود موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں بنی اسرائیل سے پوچھ لو یہ سوال آپ کی صداقت کا مشرکین سے اقرار کرانے کے طور پر ہے یا ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ فرعون سے بنی اسرائیل کی رہائی کا سوال کرو اور ایک قراءت میں (سَئَلَ ) ماضی کے صیغہ کے ساتھ ہے، (یعنی سوال کیا) جب وہ ان کے پاس آئے تو فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ اے موسیٰ میں تو تم کو سحر زدہ (یعنی) مغلوب العقل سمجھتا ہوں موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا (اے فرعون) تو خوب سمجھ رہا ہے کہ بصیرت افروز نشانیاں آسمانوں اور زمین کے مالک ہی نے نازل فرمائی ہیں لیکن تو عناد پر اتر آیا ہے اور ایک قراءت میں تاء کے ضمہ کے ساتھ ہے، اے فرعون میں تو خوب سمجھ رہا ہوں کہ تو یقیناً ہلاک کیا جائیگا یا ہر خیر سے محروم کردیا جائیگا، آخر فرعون نے ارادہ کرلیا کہ موسیٰ اور اس کی قوم کو ملک مصر سے نکال باہر کرے تو ہم نے اس کو اور اس کے سب ساتھیوں کو غرق کردیا، اس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے کہہ دیا کہ تم اسی سرزمین میں رہو سہو، پھر جب آخرت یعنی قیامت کا وعدہ آئیگا تو ہم تم کو اور ان کو سب کو حاضر کریں گے اور ہم نے قرآن کو راستی کے ساتھ اتارا اور راستی ہی کے ساتھ وہ اترا جیسا کہ اتارا، یعنی حق پر مشتمل ہوکر، اس میں کسی قسم کا تغیر واقع نہیں ہوا، اور ہم نے آپ کو اے محمد ایمان لانے والوں کیلئے جنت کی خوشخبری سنانے والا اور کافروں کو آگ سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے اور ہم نے قرآن تھوڑا تھوڑا کرکے 20 یا 23 سال میں نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کو تھوڑا تھوڑا سنائیں یعنی ٹھہر ٹھہر کر اور وقفہ کے ساتھ تاکہ وہ اسے سمجھیں اور ہم نے اس کو بتدریج نازل کیا یعنی یکے بعد دیگرے مصلحت کے مطابق، آپ کفار مکہ سے کہہ دو تم اس کو مانو یا نہ مانو یہ ان کیلئے تہدید ہے، بلاشبہ وہ لوگ جن کو قرآن کے نزول سے پہلے علم عطا کیا گیا ہے اور اہل کتاب میں سے وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے جب ان کو (قرآن) پڑھکر سنایا جاتا ہے تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدہ میں گرپڑتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ہمارا رب پاک ہے یعنی وعدہ خلافی سے اس کے لئے پاکی ہے ہمارے رب کا یہ قرآن کے نزول اور نبی کی بعثت کا وعدہ بلاشبہ پورا ہو کر رہنے والا ہے اور وہ روتے ہوئے ٹھوڑیوں کے بل سجدہ میں گرپڑتے ہیں زیادتی صفت کے ساتھ (ماقبل میں) (یعنی) یخرون پر زیادتی صفت کے ساتھ عطف ہے، اور قرآن اللہ کیلئے ان کی عاجزی اور خشوع و خضوع بڑھا دیتا ہے، اور اللہ کے رسول، یا اللہ یا رحمن کہا کرتے تھے، تو مشرکین مکہ نے کہا ہم کو تو دو معبودوں کی بندگی سے منع کرتے ہیں اور خود اللہ کے ساتھ دوسرا معبود پکارتے ہیں، تو (آئندہ) آیت نازل ہوئی، آپ ان سے کہیے کہ اللہ کہہ کر پکارو یا رحمٰن کہہ کر پکارو یعنی اس کا دونوں میں سے جو بھی چاہو نام رکھو اس کو تم یا اللہ (یا) رحمٰن کہہ کر پکارو ان دونوں میں سے جس نام سے بھی پکارو تمام اچھے نام اسی مسمی کے ہیں اَیًّا شرطیہ ہے، ما زائدہ ہے یہ دونوں نام بھی ان ہی میں سے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اور نہ تو اپنی نماز بہت بلند آواز سے پڑھ یعنی نماز میں اپنی قراءت، اس لئے کہ تیری قراءت کو مشرکین سنیں گے تو وہ تجھے اور قرآن کو برا بھلا کہیں گے، اور اس کو (بھی) جس نے اس کو نازل کیا ہے اور نہ (بہت) پست آواز سے پڑھ تاکہ تیرے ساتھی استفادہ کریں، بلند اور پست دونوں کے درمیان کا راستہ اختیار کر، اور کہہ کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کیلئے ہیں جو نہ اولاد رکھتا ہے اور نہ اس کی الوہیت میں کوئی شریک ہے اور نہ وہ کمزور ہے کہ جس کی وجہ سے اسے مددگار کی ضرورت ہو یعنی وہ کمزور نہیں ہے کہ اسے کسی مددگار کی حاجت ہو، اور تو اس کی پوری پوری بڑائی بیان کرتا رہ (یعنی) تو اس کی اولاد رکھنے سے اور شریک سے اور کمزوری سے اور ہر اس شئ سے جو اس کی شایان شان نہیں پوری پوری عظمت بیان کر، اور (صفات عدمیہ پر) حمد کا مرتب کرنا اس دلالت کی وجہ سے ہے کہ وہ تمام محامد کا اپنے کمال ذات، اور صفات میں منفرد ہونے کی وجہ سے مستحق ہے۔
امام احمد نے اپنی مسند میں معاذ جہنی (رض) کی سند سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ آیت عزت الحمد للہ الذی لم یتخذ وَلَدًا آخر سورت تک ہے۔ (واللہ اعلم)
اس کے مؤلف نے فرمایا ” یہ آخری جز ہے جس پر قرآن عظیم کی وہ تفسیر مکمل ہوگئی جس کو امام علامہ محقق جلال الدین المحلی شافعی (رح) تعالیٰ نے تالیف فرمایا، اور میں نے اس میں اپنی پوری طاقت لگا دی اور میں نے اس کی نکتہ چینی میں اپنی پوری ذہنی توانائی صرف کردی اے مخاطب ! میں سمجھتا ہوں کہ تو اس سے مستفید ہوگا، انشاء اللہ اور میں نے اس کو موسیٰ کلیم اللہ (کے قیام کی) مقدار یعنی 40 دن میں تالیف کیا، اور میں نے اس کو جنت نعیم میں کامیابی کا ذریعہ بنایا، اور یہ حصہ (نصف اول) درحقیقت کتاب کے اس حصہ (نصف ثانی) سے مستفاد ہے جو مکمل ہوا ہے، اور آیات متشابہات کے بارے میں اسی (نصف ثانی) پر اعتماد اور بھروسیہ کیا ہے، اللہ اس شخص پر رحم کرے کہ جو اس کی طرف انصاف کی نظر سے دیکھے، اور وہ اگر اس میں کسی غلطی پر واقف ہو تو مجھے اس سے مطلع کرے، اور میں نے یہ شعر کہا (بعض نسخوں میں لفظ شعر نہیں ہے) ۔
ترجمہ : میں نے اپنے رب کی حمد بیان کی اس لئے کہ اس نے مجھے اس چیز کی توفیق بخشی جس کو میں نے اپنی عاجزی اور کمزوری کے باوجود شروع کیا۔ جو میری غلطی کو ظاہر کرے گا تو میں رجوع کروں گا (یعنی اصلاح کروں گا) اور جو مجھے اس کی قبولیت (عند اللہ) کی خوشخبری دے گا اگرچہ ایک حرف ہی کیوں نہ ہو (میں اس کا شکریہ ادا کروں گا) ۔
(ھذا) ای خذھذا، اور یہ بات میرے دل میں ہرگز نہیں تھی کہ میں اس کام کو شروع کروں گا ان راہوں میں گور و خوض کرنے سے عجز سے واقف ہونے کی وجہ سے، اللہ کی ذات سے امید ہے کہ وہ اس کے ذریعہ نفع کثیر عطا فرمائیگا، اور وہ اس کے ذریعہ بند دلوں کو اور آندھی آنکھوں کو اور بہرے کانوں کو کھول دے گا، گویا کہ میں اس شخص کے مانند ہوں جس کو مطولات (بڑی بڑی کتابوں کے مطالعہ) کی عادت ہو اور حال یہ ہے کہ اس کے تکملہ اور اس کی اصل (یعنی مکمل اور مکمل) سے اعراض کیا ہو، اور صریح عناد کی طرف اعراض کیا ہو اور سمجھنے کے لئے ان دونوں کی طرف متوجہ نہ ہوا ہو، تو جو اس سے اندھا رہا تو وہ دوسرے سے بھی اندھا رہے گا اللہ نے ہمیں اس (قرآن) کے ذریعہ راہ حق کی توفیق بخشی اور اس (قرآن) کے کلمات کی باریکیوں سے واقف ہونے کی اور تحقیق کرنے کی توفیق عطا کی، (اور اللہ سے دعاء ہے) کہ ہمیں اس کی بدولت ان لوگوں کے ساتھ رکھے جن پر اللہ نے انعام فرمایا اور وہ انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین ہیں، اور یہ حضرات رفیق ہونے کے اعتبار سے بہترین رفیق ہیں، اور سب تعریفیں اللہ وحدہ لاشریک لہٗ کیلئے ہیں، اور ہمارے سردار محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اللہ کی جانب سے بیشمار درود وسلام ہو، اور اللہ ہمارے لئے کافی بہترین کارساز ہے، مولف (رح) تعالیٰ نے، اللہ ان کے ساتھ لطف و کرم کا معاملہ کرے، کہا میں اس کی تالیف سے ماہ شوال 870 ھ بروز اتوار فارغ ہوا اور (تالیف کی) ابتداء شروع رمضان بروز چہار شنبہ مذکورہ سال میں ہوئی اور اس کی تبییض سے فراغت 6 صفر بروز چہار شنبہ 871 ھ کو ہوئی۔
تحقیق و ترکیب و تفسیری فوائد
قولہ : تقریر، یہ اضافہ اس سوال کا جواب ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تو معلوم تھا پھر سوال کرنے کا کیا فائدہ ؟
جواب : یہ سوال استفہام نہیں ہے بلکہ سوال تقریر ہے۔
قولہ : قبل نزولہ، نزول مضاف محذوف مان کر مفسر علام نے اشارہ کردیا کہ قبل القرآن کا مطلب ہے قبل نزول القرآن اور یہ ممکن نہیں اسلئے کہ قرآن قدیم ہے لہٰذا اس سے قبل علم دینے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔
قولہ : عطف بزیادۃ یہ اس سوال کا جواب ہے کہ یَخِرّون للاذقان کا عطف سابق یَخِرُّونَ للاذقان پر ہے جس کی وجہ سے معطوف اور معطوف علیہ متحد ہیں حالانکہ ان دونوں میں مغائرت ضروری ہے۔
جواب : معطوف میں یبکون صفت کا اضافہ ہے جس کی وجہ سے اتحاد باقی نہیں رہا۔
قولہ : ایّ شئٍ اس میں اشارہ ہے کہ اَیًّا، میں تنوین مضاف الیہ کے عوض میں ہے نہ کہ ندا کے معنی میں۔
قولہ ؛ فھو حسنٌ اس میں اشارہ ہے کہ اَیًّا، شرط کی جزاء محذوف ہے اور دال برحذف فلَہُ الأسماء الحسنیٰ ہے۔ جزاء کو حذف کرکے دال پر جزاء کو اس کے قائم مقام کردیا۔
قولہ : لمُسَمّاھما اس میں اشارہ ہے کہ فلہ کی ضمیر مسمیّٰ محذوف کی طرف راجع ہے نہ کہ اسم کی طرف ورنہ تو اسم کیلئے اسم کا ہونا لازم آئے گا۔
قولہ : ترتیب الحمد علی ذلک للدلالۃِ علی اَنہ المستحق الخ یہ عبارت ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال : یہ ہے کہ حمد کہتے ہیں کسی کے اچھے اختیاری فعل کی تعریف کرنے کو (الحمدھو الثناء علی الجمیل الاختیاری) مذکورہ آیت ” قل الحمدللہ الذی لم یتخذ ولدًا ولم یکن لہ شریک فی الملک، ولم یکن لہ ولی من الذل “ اس آیت میں تین اوصاف مذکور ہیں اور تینوں سلبی ہیں نہ کہ ایجابی حالانکہ حمد و صفت ایجابی پر ہوتی ہے نہ کہ سلبی پر اس لئے کہ سلبی پر تنزیہہ ہوتی ہے۔
جواب : لکمال ذاتہٖ سے اس اعتراض کا جواب ہے کہ مذکورہ تینوں سلبی صفات اس امکان کی نفی کرتی ہیں جو احتیاج کا مقتضی ہو اور واجب الوجود لذاتہ پر دلالت کرتی ہیں، یعنی سب اسکے محتاج ہیں وہ کسی کا محتاج نہیں لہٰذا وہی حمد کا مستحق ہے (جمل) جواب کا حاصل یہ ہے کہ جس طرح صفات کی وجہ سے مستحق حمد ہوتا ہے اسی طرح ذات کی وجہ سے بھی مستحق حمد ہوتا ہے اور تمثیل کے طریقہ پر جواب یہ ہے کہ مذکورہ تینوں سلبی صفات میں نعمت یہ ہے کہ بادشاہ کے جب بیوی بچے ہوں تو غلاموں پر بیوی بچوں سے بچا ہوا خرچ کرتا ہے اور جب اس کے بیوی بچے نہ ہوں تو بادشاہ تمام احسانات اور انعامات کو غلاموں پر خرچ کرتا ہے اس طرح ولد کی نفی غلاموں پر زیادتی انعام کی مقتضی ہوتی ہے اور نفی شریک میں نعمت یہ ہے کہ شریک ہونے کی بہ نسبت شریک نہ ہونے کی صورت میں بادشاہ انعام عطا کرنے پر مزاحم نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ قادر ہوتا ہے اور نفی نصیر کی صورت میں نعمت یہ ہوتی ہے کہ نصیر کی نفی قوت اور استغناء پر دلالت کرتی ہے اور یہ دنوں زیادہ انعام پر قادر ہونے پر دلالت کرتی ہیں، اس طریقہ سے مذکورہ تینوں سلبی صفات ایجابی بن جاتی ہیں لہٰذا ان پر حمد بیان کرنا درست ہے۔
قولہ : آیت العز یعنی الحمدللہ الذی لم یتخذولدًا (الآیۃ) یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کو آیت عزت فرمایا ہے کہ جو شخص اس آیت کو پابندی سے روزانہ پڑھے گا اللہ تعالیٰ اسے عزو شرف سے نوازیں گے، پڑھنے کا طریقہ مندرجہ ذیل ہے کہ اول توکلّت علی الحیّ الّذٰ لا یموت پڑھے اس کے بعد 351 مرتبہ روزانہ قل الحمدللہ الذی لم یتخذ ولداً ولم یکن لہ شریک فی الملک ولم یکن لہ ولی من الذل وکبرہ تکبیراً پابندی سے پڑھے۔ (حاشیہ جلالین، صاوی)
قولہ : قد افرغت فیہ جھدی ای فی ما کمّلتُ بہ، یعنی فیہ کی ضمیر ما کمّلتُ کی طرف راجع ہے اسی طرح رزقنا باللہ بہ تک تمام ضمیریں ما کمّلْتُ کی طرف راجع ہیں۔
قولہ : فی نفائسَ یہ فیہ سے بدل ہے یا پھر فی نفائس میں فی بمعنی مع ہے ای مع نفائس، اور نفائس سے دقائق و حقائق اور نکات نفیسہ پسندیدہ مراد ہیں۔
قولہ : اُرَاھا، ہمزہ پر فتحہ اور ضمہ دونوں جائز ہیں، بمعنی اَعلَمُ واظنُ ، تجدی، اَریٰ کا مفعول ثانی ہے اور ھا مفعول اول ہے ای اراھا تجدی انشاء اللہ جدوھا، یعنی اے مخاطب میں سمجھتا ہوں کہ یہ نکات تجھ کو نفع پہنچائیں گے اگر اللہ چاہے گا کہ یہ تجھے نفع پہنچائیں، تجدی بمعنی تنفع۔
قولہ : وَالَّفْتُہٗ فی مدّۃ قدر میعاد الکلیم یعنی موسیٰ (علیہ السلام) جتنے روز کوہ طور پر مقیم رہے اور وہ چالیس دن کی مدت ہے، تالیف کی ابتداء یکم رمضان سے ہوئی اور دس شوال پر تکمیل ہوگئی، اور اس مدت کا اظہار مفسر علامہ سیوطی نے تحدیث نعمت کے طور پر فرمایا، اسلئے کہ عام طور پر اتنی قلیل مدت میں اتنا بڑا کام خلاف عادت ہے جبکہ اس وقت علامہ سیوطی کی عمر 22 سال سے بھی کم تھی (کما ذکرہ الکرخی) یعنی وہ حصہ جو علامہ سیوطی نے تالیف کیا۔
قولہ : وھو مستفاد من الکتاب المکمَّل علامہ سیوطی (رح) تعالیٰ نے یہ کسر نفسی کے طور پر فرمایا۔
قولہ : علیہ یعنی علامہ محلی کا تالیف کردہ۔
قولہ : اذھدانی، اذ تعلیلیہ ہے ای لِاَجل ھدایتہٖ لِلذی اَبْدَیْتُہٗ وَاظھرتُہٗ ، اور وہ تکملہ مذکورہ ہے۔
قولہ : فمن لی بالخطاء ای من اظھر لی الخطاء یعنی جو میری غلطی کو اجاگر کرے گا میں اس غلطی سے رجوع کرلوں گا یعنی اس کی اصلاح کروں گا۔ قولہ : اَضْرَبَ ، حسمًا، ای اعرض اعراضًا۔
قولہ : من کان فی ھذہ، فی بمعنی عن ہے ای من کان عن ھذہ اعمیٰ یعنی جو جلالین کے سابقہ اور لاحقہ دونوں حصوں سے بےبہرہ اور ناواقف ہوگا وہ دوسری کتابوں سے بھی بےبہرہ اور ناواقف رہے گا فھو فی الآخرۃ اعمیٰ ، یہاں بھی فی بمعنی عن ہے اور آخرۃ سے مرادس مطولات ہیں مطلب یہ ہے کہ جو شخص اس مختصر سے ناواقف اور بےبہرہ رہے گا وہ مطولات سے بھی محروم رہے گا۔
قولہ : رزقنا اللہ بہ ضمیر قرآن کی طرف راجع ہے اس کے بعد کی ضمیریں بھی قرآن کی طرف راجع ہیں، مگر زیادہ مناسب سیاق کلام کے مطابق یہ ہے کہ یہ ضمیر اور بعد کی ضمیریں لما کل بہ یعنی حصہ لاحقہ کی طرف راجع ہوں۔
قولہ : فرغتُ من تالیفہٖ الخ علامہ سیوطی فرماتے ہیں کہ میں نصف اول کی تسوید سے 10 شوال بروز یکشنبہ 870 ھ میں فارغ ہوا، اور تالیف کی ابتداء یکم رمضان 870 ھ میں ہوئی، اور اس تبییض سے فراغت 6 صفر بروز چہار شنبہ 871 ھ کو ہوئی۔
تفسیر و تشریح
ولقد اتینا۔۔۔ آیات، ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو نو معجزے عطا کئے وہ یہ ہیں، ہاتھؔ، لاٹھیؔ، قحطؔ سالی، نقصؔ، ثمرات، طوفانؔ، ٹڈیؔ، قملؔ (جوں) ضفادعؔ (مینڈک) خونؔ، حسن بصری فرماتے ہیں خشک سالی اور نقص ثمرات ایک ہی چیز ہے اور نواں معجزہ عصا کا جادو گروں کی لاٹھیوں اور رسیوں کو نگل جانا ہے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کے علاوہ اور بھی معجزے دئیے گئے تھے مثلاً پتھر پر لاٹھی مارنے سے پتھر سے بارہ چشموں کا بہ نکلنا، لاٹھی مارنے سے دریا کا دولخت ہوجانا، بادلوں کا سایہ فگن ہونا، من وسلوی کا ظاہر ہونا لیکن آیات تسع سے صرف وہی نو معجزے مراد ہیں جن کا مشاہدہ فرعون اور اس کی قوم نے کیا، اسی طرح حضرت ابن عباس نے انفلاق بحر (دریا پھٹنے کو) بھی نو معجزوں میں شمار کیا ہے اور قحط سالی و نقص ثمرات کو ایک معجزہ شمار کیا ہے، ترمذی میں آیات تسعہ کی تفصیل اس سے مختلف بیان کی گئی ہے مگر وہ روایت ضعیف ہے۔
وقلنا من۔۔۔۔ الارض، بظاہر اس سرزمین سے مراد مصر ہے جس سے فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا نکالنے کا ارادہ کیا تھا، مگر تاریخ بنی اسرائیل کی شہادت یہ ہے کہ وہ مصر سے نکلنے کے بعد دوبارہ مصر نہیں گئے، بلکہ چالیس سال میدان تیہ میں گذار کر فلسطین میں داخل ہوئے، اس کی شہادت سورة اعراف وغیرہ میں قرآن کے بیان سے بھی ملتی ہے اسلئے صحیح یہی ہے کہ اس سے مراد فلسطین کی سرزمین ہے، سورة بنی اسرائیل کی شروع آیات میں حق تعالیٰ کی تنزیہ اور توحید کا بیان تھا، ان آخری آیات میں بھی توحید و تنزیہ کا بیان ہے۔
شان نزول : ان آیات کے شان نزول میں چند واقعات ہیں۔
پہلا واقعہ : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک روز دعاء میں یا اللہ یا رحمٰن کہہ کر پکارا تو مشرکین نے سمجھا کہ یہ دو خداؤں کو پکارتے ہیں، اور کہنے لگے کہ ہمیں تو ایک کے سوا کسی اور کو پکارنے سے منع کرتے ہیں اور خود دو معبود پکارتے ہیں، اس کا جواب آیت کے پہلے
حصہ میں دیا گیا ہے کہ اللہ جل شانہ کے دو ہی نام نہیں اور بہت سے اچھے نام ہیں کسی نام سے بھی پکاریں مراد ایک ہی ذات ہوتی ہے
دوسرا واقعہ : جب مکہ مکرمہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز میں بآواز بلند قراءت کرتے تو مشرکین تمسخر اور استہزاء کرتے اور قرآن اور جبرئیل امین اور خود حق تعالیٰ کی شان میں گستاخانہ باتیں کرتے تھے، اس کے جواب میں اسی آیت کا آخری حصہ نازل ہوا جس میں آپ کو جہر و اخفاء میں میانہ روی اختیار کرنے کی تلقین فرمائی۔
تیسرا واقعہ : یہود و نصاری اللہ تعالیٰ کیلئے اولاد قرار دیتے تھے اور عرب بتوں کو اللہ کا شریک سمجھتے تھے، اور صابی اور مجوسی کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے مخصوص مقرب بندے نہ ہوں تو اس کی قدرو منزلت میں کمی آجائے، ان تینوں فرقوں کے جواب میں آخری آیت نازل ہوئی جس میں تینوں کی نفی کردی گئی ہے۔
آخری آیت قل الحمدللہ الخ، کے متعلق حدیث میں آیا ہے کہ یہ آیت عزت ہے تفصیل، تحقیق و ترکیب کے زیر عنوان گذر چکی ہے اس آیت میں یہ ہدایت بھی ہے کہ کوئی انسان کتنی ہی اللہ کی عبادت اور تسبیح وتحمید کرے اپنے عمل کو اللہ کے حق کے مقابلہ میں کم سمجھنا اور قصور کا اعتراف کرنا اس کیلئے لازم ہے۔ حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ بنی عبد المطلب میں جب کوئی بچہ بولنے کے قابل ہوجاتا تھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسکو یہ آیت سکھا دیتے تھے، قل الحمدللہ الذی لم یتخذ ولدًا ولم یکن لہ شریک فی الملک ولم یکن لہ وَلیٌّ من الذل وکبرہ تکبیرًا۔ مظہری
نسخۂ شفاء : حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک روز میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ باہر نکلا اس طرح کہ میرا ہاتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ میں تھا، آپ کا گذر ایک ایسے شخص پر ہوا کہ بہت شکستہ حال اور پریشان تھا، آپ نے دریافت فرمایا تمہارا یہ حال کیسے ہوگیا ؟ اس شخص نے عرض کیا کہ بیماری اور تنگدستی نے یہ حال کردیا، آپ نے فرمایا تمہیں چند کلمات بتلاتا ہوں وہ پڑھو گے تو تمہاری بیماری اور تنگدستی جاتی رہے گی وہ کلمات یہ ہیں، توکلتُ علی الحی الّذی لایموت الحمدللہ الذی لم یتخذ وَلَدًا (الآیۃ) اس کے کچھ عرصہ کے بعد پھر آپ اس طرف تشریف لے گئے تو اس کو اچھے حال میں پایا آپ نے خوشی کا اظہار فرمایا اس نے عرض کیا جب سے آپ نے مجھے یہ کلمات بتلائے ہیں میں پابندی سے ان کو پڑھتا ہوں۔ (ابویعلی وابن سنی، مظہری، معارف)
عرض شارع : جیسا کہ احقر مقدمہ میں عرض کرچکا ہے کہ جلالین کی تشریح کی ابتداء جلالین کے طرز تصنیف کے مطابق سورة کہف سے آخر تک نصف ثانی کی تشریح تین جلدوں میں مکمل ہوئی اس کے بعد نصف اول کی تشریح جس کی تیسری جلد سورة اسراء کے آخر تک ہے بتاریخ 26 ربیع الثانی بروز شنبہ 1426 ھ مطابق 4 جون 2005 ء کو پایۂ تکمیل کو پہنچی، وَللہِ الحمد۔
احقر محمد جمال سیفی بن شیخ سعدی
استاذ دارالعلوم دیونبد
26 ربیع الثانی 1426 ھ
تمت
10 Tafsir as-Saadi
یعنی اے رسول ! کہ جس کی آیات و معجزات کے ذریعے سے تائید کی گئی ہے۔۔۔ آپ پہلے رسول نہیں ہیں جس کی لوگوں نے تکذیب کی ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے موسیٰ بن عمران علیہ السلام کو رسول بنا کر فرعون اور اس کی قوم کی طرف مبعوث کیا، ہم نے انہیں عطا کیے ﴿تِسْعَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ﴾ ” نو معجزات“ جو شخص حق کا قصد رکھتا ہے اس کے لیے ان میں ایک ہی معجزہ کافی ہے۔۔۔ جیسے اژدہا، عصا، طوفان، طوفان، ٹڈی دل، جوئیں، مینڈ، خون، یدبیضا اور سمندر کا پھٹ جانا۔ اگر آپ کو اس بارے میں کوئی شک ہے ﴿فَاسْأَلْ بَنِي إِسْرَائِيلَ إِذْ جَاءَهُمْ فَقَالَ لَهُ فِرْعَوْنُ ﴾ ” تو آپ بنی اسرائیل سے پوچھ لیں جب آئے موسیٰ ان کے پاس تو ( ان معجزات کے باوجود) فرعون نے کہا : ﴿إِنِّي لَأَظُنُّكَ يَا مُوسَىٰ مَسْحُورًا ﴾ ” اے موسیٰ ! میں سمجھتا ہوں، تجھ پر ضرور جادو کردیا گیا ہے۔“
11 Mufti Taqi Usmani
aur hum ney musa ko no khuli khuli nishaniyan di then . abb bano Israel say pooch lo kay jab woh inn logon kay paas gaye to firon ney unn say kaha kay : aey musa ! tumharay baaray mein mera to khayal yeh hai kay kissi ney tum per jadoo kerdiya hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
پانچ معجزے
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تو ایسے معجزے ملے جو آپ کی نبوت کی صداقت اور نبوت پر کھلی دلیل تھی۔ لکڑی، ہاتھ، قحط، دریا، طوفان، ٹڈیاں، جوئیں، مینڈک اور خون۔ یہ تھیں تفصیل وار آیتیں۔ محمد بن کعب کا قول ہے کہ یہ معجزے یہ ہیں ہاتھ کا چمکیلا بن جانا۔ لکڑی کا سانپ ہوجانا اور پانچ وہ جن کا بیان سورة اعراف میں ہے اور مالوں کا مٹ جانا اور پتھر۔ ابن عباس وغیرہ سے مروی ہے کہ یہ معجزے آپ کا ہاتھ، آپ کی لکڑی، قحط سالیاں پھلوں کی کمی طوفان ٹڈیان جوئیں مینڈگ اور خون ہیں۔ یہ قول زیادہ ظاہر، بہت صاف، بہتر اور قوی ہے۔ حسن بصری (رح) نے ان میں سے قحط سالی اور پھلوں کی کمی کو ایک گن کر نواں معجزہ آپ کی لکڑی کا جادو گروں کے سانپوں کو کھا جانا بیان کیا ہے۔ لیکن ان تمام معجزوں کے باوجود فرعونیوں نے تکبر کیا اور گنہگاری پر اڑے رہے باوجودیکہ دل یقین لا چکا تھا مگر ظلم وزیا دتی کر کے کفر انکار پر جم گئے۔
اگلی آیتوں سے ان آیتوں کا ربط یہ ہے کہ جیسے آپ کی قوم آپ سے معجزے طلب کرتی ہے ایسے ہی فرعونیوں نے بھی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے معجزے طلب کئے جو ظاہر ہوئے لیکن انہیں ایمان نصیب نہ ہوا آخرش ہلاک کر دئے گئے۔ اسی طرح اگر آپ کی قوم بھی معجزوں کے آجانے کے بعد کافر رہی تو پھر مہلت نہ ملے گی اور معا تباہ برباد کردی جائے گی۔ خود فرعون نے معجزے دیکھنے کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جادوگر کہہ کر اپنا پیچھا چھڑا لیا۔ پس یہاں جن نو نشانیوں کا بیان ہے یہ وہی ہیں اور ان کا بیان والق عصاک سے قوما فاسقین تک میں ہے ان آیتوں کا بیان سورة اعراف میں ہے۔ ان کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بہت سے معجزے دئیے تھے مثلا آپ کی لکڑی کے لگنے سے ایک پتھر میں سے بارہ چشموں کا جاری ہوجانا، بادل کا سایہ کرنا، من وسلوی کا اترنا وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب نعمتیں بنی اسرائیل کو مصر کے شہر چھوڑنے کے بعد ملیں پس ان معجزوں کو یہاں اس لئے بیان نہیں فرمایا کہ وہ فرعونیوں نے دیکھے تھے اور انہیں جھٹلایا تھا۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک یہودی نے اپنے ساتھی سے کہا چل تو ذرا اس نبی سے ان کے قرآن کی اس آیت کے بارے میں پوچھ لیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو وہ نو آیات کیا ملی تھیں ؟ دوسرے نے کہا نبی نہ کہہ، سن لیا تو اس کی چار آنکھیں ہوجائیں گی۔ اب دونوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا آپ نے فرمایا یہ کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، چوری نہ کرو، زنا نہ کرو، کسی جان کو ناحق قتل نہ کرو، جادو نہ کرو، سود نہ کھاؤ، بےگناہ لوگوں کو پکڑ کر بادشاہ کے دربار میں نہ لے جاؤ کہ اسے قتل کرا دو اور پاک دامن عورتوں پر بہتان نہ باندھو یا فرمایا جہاد سے نہ بھاگو۔ اور اے یہودیو ! تم پر خاص کر یہ حکم بھی تھا کہ ہفتے کے دن زیادتی نہ کرو۔ اب تو وہ بےساختہ آپ کے ہاتھ پاؤں چومنے لگے اور کہنے لگے ہماری گواہی ہے کہ آپ اللہ کی نبی ہیں۔ آپ نے فرمایا پھر تم میری تابعداری کیوں نہیں کرتے ؟ کہنے لگے حضرت داؤد (علیہ السلام) نے دعا کی تھی کہ میری نسل میں نبی ضرور رہیں اور ہمیں خوف ہے کہ آپ کی تابعداری کے بعد یہود ہمیں زندہ چھوڑیں گے۔ ترمذی نسائی اور ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث ہے امام ترمذی (رح) اسے حسن صحیح بتلاتے ہیں لیکن ہے ذرا مشکل کام اس لئے کہ اس کے راوی عبداللہ بن سلمہ کے حافظ میں قدرے قصور ہے اور ان پر جرح بھی ہے ممکن ہے نو کلمات کا شبہ نو آیات سے انہیں ہوگیا ہو اس لئے کہ یہ توراۃ کے احکام ہیں فرعون پر حجت قائم کرنے والی یہ چیزیں نہیں۔ واللہ اعلم۔ اسی لئے فرعون سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اے فرعون یہ تو تجھے بھی معلوم ہے کہ یہ سب معجزے سچے ہیں اور ان میں سے ایک ایک میری سچائی کی جیتی جاگتی دلیل ہے میرا خیال ہے کہ تو ہلاک ہونا چاہتا ہے اللہ کی لعنت تجھ پر اترا ہی چاہتی ہم تو مغلوب ہوگا اور تباہی کو پہنچے گا۔ مثبور کے معنی ہلاک ہونے کے اس شعر میں بھی ہیں
اذا جار الشیطان فی سنن الغی ومن مال میلہ مثبور
یعنی شیطان کے دوست ہلاک شدہ ہیں۔ علمت کی دوسری قرأت علمت تے کے زبر کے بدلے تے کے پیش سے بھی ہے لیکن جمہور کی قرأت کے زبر سے ہی ہے۔ اور اسی معنی کو وضاحت سے اسی آیت میں بیان فرماتا ہے ( وَجَحَدُوْا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَآ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا ۭ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِيْنَ 14ۧ) 27 ۔ النمل :14) یعنی جب ان کے پاس ہماری ظاہر اور بصیرت افروز نشانیاں پہنچ چکیں تو وہ بولے کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے یہ کہہ کر منکرین انکار کر بیٹھے حالانکہ ان کے دلوں میں یقین آچکا تھا لیکن صرف ظلم و زیادتی کی راہ سے نہ مانے الخ الغرض یہ صاف بات ہے کہ جن نو نشانیوں کا ذکر ہوا ہے یہ عصا، ہاتھ، قحط سالی، پھلوں کی کم پیداواری، ٹڈیاں، جوئیں، مینڈک، اور دم (خون) تھیں۔ جو فرعون اور اس کی قوم کے لئے اللہ کی طرف سے دلیل برہان تھا اور آپ کے معجزے تھے جو آپ کی سچائی اور اللہ کے وجود پر دلائل تھے ان نو نشانیوں سے مراد احکام نہیں جو اوپر کی حدیث میں بیان ہوئے کیونکہ وہ فرعون اور فرعونیوں پر حجت ہونے اور ان احکام کے بیان ہونے کے درمیان کوئی مناسبت ہی نہیں۔ یہ وہم صرف عبداللہ بن سلمہ راوی حدیث کی وجہ سے لوگوں کو پیدا ہوا اس کی بعض باتییں واقعی قابل انکار ہیں، واللہ اعلم۔
بہت ممکن ہے کہ ان دونوں یہودیوں نے دس کلمات کا سوال کیا ہو اور راوی کو نو آیتوں کا وہم رہ گیا ہو۔ فرعون نے ارادہ کیا کہ انہیں جلا وطن کردیا جائے۔ پس ہم نے خود اسے مچھلیوں کا لقمہ بنایا اور اس کے تمام ساتھیوں کو بھی۔ اس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے فرما دیا کہ اب زمین تمہاری ہے رہو سہو کھاؤ پیو۔ اس آیت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی زبردست بشارت ہے کہ مکہ آپ کے ہاتھوں فتح ہوگا۔ حالانکہ سورت مکی ہے ہجرت سے پہلے نازل ہوئی۔ واقع میں ہوا بھی اسی طرح کہ اہل مکہ نے آپ کو مکہ شریف سے نکال دینا چاہا جیسے قرآن نے آیت ( وَاِنْ كَادُوْا لَيَسْتَفِزُّوْنَكَ مِنَ الْاَرْضِ لِيُخْرِجُوْكَ مِنْهَا وَاِذًا لَّا يَلْبَثُوْنَ خِلٰفَكَ اِلَّا قَلِيْلًا 76) 17 ۔ الإسراء :76) میں بیان فرمایا ہے پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غالب کیا اور مکہ کا مالک بنادیا اور فاتحانہ حیثیت سے آپ بعد از جنگ مکہ میں آئے اور یہاں اپنا قبضہ کیا اور پھر اپنے حلم و کرم سے کام لے کر مکہ کے مجرموں کو اور اپنے جانی دشمنوں کو عام طور پر معافی عطا فرما دی، (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بنی اسرائیل جیسی ضعیف قوم کو مشرق و مغرب کا وارث بنادیا تھا اور فرعون جیسے سخت اور متکبر بادشاہ کے مال، زمین، پھل، کھیتی اور خزانوں کا مالک کردیا جیسے آیت ( كَذٰلِكَ ۭ وَاَوْرَثْنٰهَا بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ 59ۭ ) 26 ۔ الشعراء :59) میں بیان ہوا ہے۔ یہاں بھی فرماتا ہے کہ فرعون کی ہلاکت کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے فرمایا کہ اب تم یہاں رہو سہو قیامت کے وعدے کے دن تم اور تمہارے دشمن سب ہمارے سامنے اکٹھے لائے جاؤ گے، ہم تم سب کو جمع کر لائیں گے۔