الاسراء آية ۱۱
وَيَدْعُ الْاِنْسَانُ بِالشَّرِّ دُعَاۤءَهٗ بِالْخَيْرِ ۗ وَكَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا
طاہر القادری:
اور انسان (کبھی تنگ دل اور پریشان ہو کر) برائی کی دعا مانگنے لگتا ہے جس طرح (اپنے لئے) بھلائی کی دعا مانگتا ہے، اور انسان بڑا ہی جلد باز واقع ہوا ہے،
English Sahih:
And man supplicates for evil [when angry] as he supplicates for good, and man is ever hasty.
1 Abul A'ala Maududi
انسان شر اُس طرح مانگتا ہے جس طرح خیر مانگنی چاہیے انسان بڑا ہی جلد باز واقع ہوا ہے
2 Ahmed Raza Khan
اور آدمی برائی کی دعا کرتا ہے جیسے بھلائی مانگتا ہے اور آدمی بڑا جلد باز ہے
3 Ahmed Ali
اور انسان برائی مانگتا ہے جس طرح وہ بھلائی مانگتا ہے اور انسان جلد باز ہے
4 Ahsanul Bayan
اور انسان برائی کی دعائیں مانگنے لگتا ہے بالکل اس کی اپنی بھلائی کی دعا کی طرح، انسان ہی بڑا جلد باز ہے (١)
۱۱۔۱ انسان چونکہ جلد باز اور بےحوصلہ ہے اس لیے جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو اپنی ہلاکت کے لیے اسی طرح بد دعا کرتا ہے جس طرح بھلائی کے لیے اپنے رب سے دعائیں کرتا ہے یہ تو رب کا فضل و کرم ہے کہ وہ اس کی بد دعاؤں کو قبول نہیں کرتا یہی مضمون (وَلَوْ يُعَجِّلُ اللّٰهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَھُمْ بِالْخَيْرِ لَقُضِيَ اِلَيْهِمْ اَجَلُھُمْ ۭ فَنَذَرُ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَاۗءَنَا فِيْ طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُوْنَ) 10۔یونس;11) میں گزر چکا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور انسان جس طرح (جلدی سے) بھلائی مانگتا ہے اسی طرح برائی مانگتا ہے۔ اور انسان جلد باز (پیدا ہوا) ہے
6 Muhammad Junagarhi
اور انسان برائی کی دعائیں مانگنے لگتا ہے بالکل اس کی اپنی بھلائی کی دعا کی طرح، انسان ہے ہی بڑا جلد باز
7 Muhammad Hussain Najafi
اور انسان برائی کی دعا اسی طرح کرتا ہے جس طرح اچھائی کی دعا کرتا ہے (دراصل) انسان بڑا ہی جلد باز ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور انسان کبھی کبھی اپنے حق میں بھلائی کی طرح برائی کی دعا مانگنے لگتا ہے کہ انسان بہت جلد باز واقع ہوا ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور انسان جس طرح (جلدی سے) بھلائی مانگتا ہے اسی طرح برائی مانگتا ہے اور انسان جلد باز (پیدا ہوا) ہے
آیت نمبر 11 تا 22
ترجمہ : اور انسان جب تنگ دل ہوجاتا ہے تو اپنے اہل و عیال کیلئے اسی طرح بد دعاء کرتا ہے جس طرح وہ ان کیلئے دعاء خیر کرتا ہے اور ہر انسان اپنے لئے بددعاء کرنے میں جلد باز اور نا عاقبت اندیش واقع ہوا ہے اور ہم نے رات اور دن کو ہماری قدرت پر دلالت کرنے والی نشانیاں بنایا، تو ہم نے رات کی نشانی کی تاریک بنایا یعنی ہم نے اسکے نور کو ظلمت سے مٹا دیا، تاکہ تم اس میں سکون حاصل کرسکو اور (آیۃ اللیل) میں اضافت بیانیہ ہے، اور ہم نے دن کی نشانی کو روشن بنایا، یعنی ایسی کہ اس میں روشنی کی وجہ سے نظر آسکے، تاکہ تم کسب کے ذریعہ اس میں اپنے رب کا فضل تلاش کرسکو، اور تاکہ تم انکے ذریعہ سالوں کی گنتی اور اوقات کا حساب کرسکو اور ہم نے ہر ضرورت کی چیز کو پوری تفصیل سے بیان کردیا ہے یعنی کھول کھول کر بیان کردیا ہے، اور ہم نے ہر انسان کے عمل کو اس کے گلے کا ہار بنادیا ہے جس کو وہ اٹھائے ہوئے ہے (گلے) کو خاص طور پر ذکر کیا ہے اس لئے کہ گلے میں لزوم شدید تر ہوتا ہے اور مجاہد نے کہا ہے کہ کوئی بچہ پیدا نہیں ہوتا الایہ کہ اس کی گردن میں ایک نوشتہ ہوتا ہے جس میں لکھا ہوتا ہے کہ وہ بدنصیب ہے یا خوش نصیب ہے اور قیامت کے دن ہم اس کا اعمال نامہ نکال کر اس کے سامنے رکھ دیں گے جس میں اس کے عمل لکھے ہوں گے، جسے وہ کھلی کتاب کی طرح پائے گا (یلقاہ اور منشورا) کتاب کی صفت ہیں اور اس سے کہا جائیگا تو اپنا نامہ عمل خود پڑھ لے آج تو خود ہی اپنا محاسب ہونے کے اعتبار سے کافی ہے جس نے ہدایت پائی وہ اپنے ہی فائدہ کیلئے ہدایت پاتا ہے اس لیے کہ اس کی ہدایت کا چواب اسی کیلئے ہے اور جو راہ سے بھٹکا تو بھٹکنے کا نقصان اسی کیلئے ہے اس لئے کہ گمراہی کا گناہ اسی پر ہے اور کوئی گنہگار شخص کسی دوسرے شخص کا بوجھ نہ اٹھائیگا اور ہماری سنت نہیں ہے کہ ہم کسی کو، رسول بھیجنے سے پہلے کہ جو اس کے واجبات کو بتائے عذاب کرنے لگیں اور جب ہم کسی بستی کی ہلاکت کا ارادہ کرلیتے ہیں تو اس بستی کے خوشحال لوگوں یعنی اس بستی کے سرداروں کو اپنے رسول کے ذریعہ طاعت کا حکم کرتے ہیں تو وہ اس طاعت کی نافرمانی کرنے لگتے ہیں یعنی ہماری حکم عدولی کرنے لگتے ہیں تو ان پر عذاب کا فیصلہ نافذ ہوجاتا ہے تو ہم ان کو پوری طرح نیست و نابود کردیتے ہیں، یعنی اس بستی کے باشندوں کو ہلاک کرکے، اور اس بستی کو برباد کرکے نیست و نابود کردیتے ہیں، اور نوح (علیہ السلام) کے بعد ہم نے کتنی ہی قوموں کو ہلاک کردیا اور تیرا پروردگار اپنے بندوں کے گناہوں سے باخبر ہونے اور سب کچھ دیکھنے کے اعتبار سے کافی ہے یعنی ظاہر اور پوشیدہ گناہوں سے واقف ہے اور خبیر اور بصیر کے ساتھ بذنوب متعلق ہے، پیش نظر نسخہ میں ایسا ہی ہے (غالبًا یہ سہو ہے، اصل عبارت یہ ہونی چاہیے، ” وبذنوب یتعلق بخبیراً وبصیراً ) اور جو شخص اپنے عمل کا بدلہ دنیا ہی میں چاہتا ہے تو ہم جتنا چاہتے ہیں اور جس کو فوری دینا چاہتے ہیں تو سردست دیدتے ہیں، لمن نرید، لَہٗ سے اعادۂ جار کے ساتھ بدل ہے پھر اس کیلئے آخرت میں جہنم مقرر کردیتے ہیں جس میں وہ ذلیل و مردود ہو کر داخل ہوگا اور جس کا رادہ آخرت کا ہو اور اس نے اس کے لائق عمل بھی کیا ہو حال یہ کہ وہ مومن بھی ہو یہی وہ لوگ ہیں کہ جن کے اعمال کی اللہ کے نزدیک قدر ہے یعنی مقبول اور ماجور ہیں، اور ہم دونوں فریقوں میں سے ہر ایک کو ان کو بھی اور ان کو (سامان زیست) دئیے جا رہے ہیں (ھٰؤلاء وھٰؤلاء) کلاًّ سے بدل ہے اور مِنْ ، نمدُّ کے متعلق ہے دنیا میں یہ تیرے رب کا عطیہ ہے اور دنیا میں تیرے رب کی عطا کو کوئی روکنے والا نہیں یعنی کسی سے (کوئی) روکنے والا نہیں، دیکھ لو ہم نے رزق اور مرتبہ میں بعض کو بعض پر کس طرح فضیلت دے رکھی ہے اور آخرت تو درجات کے اعتبار سے دنیا سے فضیلت میں بہت بڑی ہے لہٰذا آخرت کی طرف توجہ کی ضرورت ہے نہ کہ دنیا کی طرف تو اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود ٹھہراو ورنہ ملامت زدہ اور بےیارومددگار ہو کر بیٹھا رہ جائے گا، کہ تیرا کوئی مددگار نہ ہوگا۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : الجنس، اس میں اشارہ ہے کہ الانسان میں الف لام جنس کا ہے نہ کہ استغراق کا، لہٰذا اب یہ اعتراض واقع نہیں ہوگا کہ سب انسان بد دعاء میں عجول نہیں ہوتے۔
قولہ : الاضافۃ للبیان یعنی آیۃ اللَّیْل میں اضافت بیانیہ ہے، یہ اس شبہ کا جواب ہے کہ مضاف، مضاف الیہ کا غیر ہوا کرتا ہے حالانکہ آیۃَ اللَّیْل میں مضاف اور مضاف الیہ ایک ہی ہیں جواب کا حاصل یہ ہے کہ یہ اضافت بیانیہ ہے اور یہ اضافت عدد الی المعدود کے قبیل سے ہے جیسا کہ عشر سنین میں اضافت بیانیہ ہے، آیۃَ النھار میں بھی یہی صورت ہے۔
قولہ : ای مُبْصَرًا فیھا، اس میں مجاز عقلی ہے، اسلئے کہ دن نہیں دیکھتا بلکہ دن میں دیکھا جاتا ہے علاقہ ظرفیت کی وجہ سے دیکھنے کی اضافت نہار کی طرف کردی گئی ہے، یعنی اسم فاعل بول کر ظرف مراد ہے۔
قولہ : بالضوء ای بسبب الضوء ہے۔
قولہ : اَلْزمناہ طائرہ فی عنقہٖ ، شدت لزوم کو بیان کرنے کیلئے یہ ایک عربی تعبیر ہے، عرب کی یہ عادت تھی کہ جب کوئی اہم کام درپیش ہوتا تو وہ پرندہ سے شگون لیتے تھے، اس کی صورت یہ ہوتی تھی کہ پرندہ ازخود اڑے یا اڑایا جائے اگر وہ اڑ کر دائیں جانب گیا تو اس کو نیک فالی سمجھتے تھے اور اس کام کو کرتے تھے جب عرب میں یہ رواج عام ہوگیا تو نفس خیر و شر ہی کو طائر سے تعبیر کرنے لگے اور یہ تسمیۃ الشئ باسم لازمہ کے قبیل سے شمار ہوتا۔
قولہ : خصَّ بالذکر الخ یہ اس سوال کا جواب ہے کہ اعمال پورے انسان کیلئے لازم ہوتے ہیں نہ کہ صرف گردن کیلئے حالانکہ یہاں اعمال کو گردن کیلئے لازم کہا گیا ہے، جواب کا حاصل یہ ہے کہ جس طرح قلادہ (گلے کا ہار) گلے کیلئے عام طور پر لازم غیر منفک ہوتا ہے اسی طرح انسان کے اعمال انسان کیلئے لازم ہوتے ہیں، اس تعبیر میں شدت لزوم اور لزوم دوام کی طرف اشارہ ہے۔
قولہ : وقال مجاھد الخ مجاھدِ کے قول کے مطابق اس میں مجاز عقلی نہیں ہوگا۔
قولہ : صفتان لکتاباً ، یلقٰہٗ جملہ ہو کر کتاباً کی صفت اول ہے اور منشوراً صفت ثانی ہے اور یہ بھی درست ہے کہ منشوراً یلقاہ کی ضمیر مفعولی سے حال ہو۔
قولہ : ویقال لہٗ ما قبل سے نظم و ربط کرنے کیلئے یقال کو محذوف مانا ہے۔
قولہ : نفسٌ یہ تزر کی وجہ تانیث کی طرف اشارہ ہے۔ قولہ : لا تحمل لا تَزِرُ کی تفسیر ہے۔
قولہ : وبِہٖ کی ضمیر علی سبیل الانفراد خبیراً اور بصیراً کی طرف راجع ہے، بہتر ہوتا کہ عبارت اس طرح ہوتی ” وبذنوب یَتَعَلَّقُ بخبیراً وبصیرًا “۔ قولہ : بدلٌ من لَہٗ الض یعنی لمن نرید، لَہٗ سے اعادۂ جار کے ساتھ بدل البعض من الکل ہے۔
تفسیر و تشریح
ویدع الانسان الخ انسان چونکہ جلد باز اور بےحوصلہ واقع ہوا ہے، اس لئے جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو اپنی ہلاکت کیلئے اسی طرح بددعاء کرتا ہے جس طرح بھلائی کیلئے اپنے رب سے دعاء کرتا ہے، یہ تو رب کا فضل و کرم ہے کہ وہ اس کی بددعاؤں کو قبول نہیں کرتا۔
وجعلنا۔۔۔ الخ یعنی رات کو تاریک بنایا تاکہ تم لوگ آرام و سکون حاصل کرو اور تمہاری دن بھر کی تکان دور ہوجائے، اور دن کو روشن بنایا تاکہ کسب معاش کے ذریعہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو اس کے علاوہ رات اور دن کا ایک فائدہ اور بھی ہے کہ اس طرح ہفتوں مہینوں اور برسوں کا شمار اور حساب تم کو سکو اس حساب کے بھی بیشمار فائدے ہیں اگر رات کے بعد دن اور دن کے بعد رات نہ آتی بلکہ ہمیشہ رات ہی رات رہتی یا دن ہی دن رہتا تو تمہیں آرام و سکون کو یا کاروبار کرنے کا موقع نہ ملتا اور اس طرح مہینوں اور سالوں کا حساب بھی ممکن نہ ہوتا۔
وکل انسان۔۔۔۔ الآیۃ یعنی ہر انسان کی نیک بختی و بدبختی اور اس کے انجام کی بھلائی اور برائی کے اسباب ووجہ خود اس کی اپنی ذات ہی میں موجود ہیں، اپنے اوصاف اپنی سیرت و کردار اور اپنی قوت تمیز و انتخاب کے استعمال سے ہی وہ اپنے آپ کو سعادت و شقاوت کا مستحق بناتا ہے، نادان لوگ اپنی قسمت کے شگون باہر سے لیتے پھرتے ہیں اور ہمیشہ خارجی اسباب ہی کو اپنی بدبختی اور خوش بختی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کا پروانۂ خیر و شران کے اپنے گلے کا ہار ہے، وہ اپنے گریبان میں منہ ڈالیں تو دیکھ لیں کہ جس چیز نے ان کو تباہی اور ہلاکت کے راستہ پر ڈالا جس کا نتیجہ اور انجام خسران اور حرمان ہوا وہ ان کے اپنے ہی برے اوصاف تھے نہ کہ باہر سے آنیوالی کوئی چیز۔
ومن اھتدی۔۔۔ لنفسہ یعنی راہ راست اختیار کرکے کوئی شخص خدا یا رسول پر یا اصلاح کی کوشش کرنے والوں پر کوئی احسان نہیں کرتا بلکہ خود اپنے ہی حق میں بھلا کرتا ہے، اور اسی طرح گمراہی اختیار کرکے یا اس پر اصرار کرکے وہ کسی کا کچھ نہیں بگاڑتا، اپنا ہی نقصان کرتا ہے۔
ولا تزر۔۔۔ (آلایۃ) یہ ایک اہم اور اصولی حقیقت ہے جس کو قرآن کریم میں جگہ جگہ ذہن نشین کرانے کی کوشش کی گئی ہے، اسلئے کہ اسے سمجھے بغیر ان کا طرز عمل کبھی درست نہیں ہوسکتا اس فقرہ کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان کی اپنی ایک مستقل ذمہ داری ہے کوئی دوسرا اس کا شریک نہیں ہے اور اس کو جو کچھ بھی جزاء یا سزا ملے گی اس عمل کی ملے گی جس کا وہ خود اپنی انفرادی حیثیت میں ذمہ دار ثابت ہوگا۔
بعثت رسل کے بغیر عذاب نہ ہونے کی تشریح : اس آیت کی بناء پر بعض ائمہ فقہاء کے نزدیک ان لوگوں کو کفر کے باوجود کوئی عذاب نہیں ہوگا جن کے پاس کسی نبی اور رسول کی دعوت نہیں پہنچی اور بعض ائمہ کے نزدیک جو اسلامی عقائد عقل سے سمجھے جاسکتے ہیں مثلاً خدا کا وجود اس کی توحید وغیرہ پس جو لوگ اس کے منکر ہوں گے ان کو کفر پر عذاب ہوگا اگرچہ ان کو کسی نبی یا رسول کی دعوت نہ پہنچی ہو البتہ عام معاصی اور گناہوں پر سزا بغیر دعوت و تبلیغ انبیاء کے نہیں ہوگی، اور بعض حضرات نے اس جگہ رسول سے مراد عام لی ہے خواہ رسول وہی ہوں خواہ انسانی عقل کہ وہ بھی ایک حیثیت سے اللہ کا رسول ہے۔
مشرکوں کی نابالغ اولاد کو عذاب نہ ہوگا : اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ مشرکین و کفار کی اولاد جو بالغ ہونے سے پہلے مرجائیں انکو عذاب نہ ہوگا کیونکہ ماں باپ کے کفر سے وہ سزا کے مستحق نہ ہوں گے (مظہری) اس مسئلہ میں ائمہ کے اقوال مختلف ہیں، بعض توقف کے قائل ہیں اور بعض جنت میں جانے کے اور بعض جہنم میں جانے کے، ابن کثیر نے کہا ہے کہ میدان حشر میں ان کا امتحان لیا جائیگا جو اللہ کے حکم کی اطاعت کرے گا وہ جنت میں جائے گا اور جو نافرمانی کرے گا وہ دوزخ میں جائیگا مگر صحیح بخاری کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین کے بچے بھی جنت میں جائیں گے۔ (صحیح بخاری 348:12، 251:3 مع الفتح الباری)
ربط آیات : واذا اردنا۔۔۔ (الآیۃ) اس سے پہلی آیت میں اس کا بیان تھا کہ حق تعالیٰ کی عادت یہ ہے کہ جب تک کسی قوم کے پاس انبیاء (علیہم السلام) کے ذریعہ اللہ کی ہدایت نہ پہنچ جائے اس وقت تک اس پر عذاب نہیں بھیجتے، مذکورہ آیات میں اس کے دوسرے رخ کا بیان ہے کہ جب کسی قوم کے پاس اللہ کی ہدایت پہنچ گئی پھر بھی انہوں نے سرکشی کی تو اس پر عذاب عام بھیج دیا جاتا ہے، اس آیت میں ایک اصول یہ بتلایا گیا ہے کہ جس کی رو سے قوموں کی ہلاکت کا فیصلہ کیا جاتا ہے اور وہ یہ کہ ان کا خوشحال طبقہ اللہ کے حکموں کی نافرمانی شروع کردیتا ہے اور انہی کی تقلید دوسرے لوگ بھی کرتے ہیں اس طرح اس قوم میں اللہ کی نافرمانی عام ہوجاتی ہے اور وہ مستحق عذاب قرار پاتی ہے۔
بدعت اور ریاکاری کا عمل کتنا ہی اچھا نظر آئے قبول نہیں : ومن کان۔۔۔۔ لمن نرید اس آیت میں سعی و عمل کے ساتھ لفظ سَعْیَھَا بڑھا کر یہ بتادیا کہ ہر عمل اور ہر کوشش نہ مفید ہوتی ہے اور نہ عند اللہ مقبول بلکہ عمل اور سعی وہی معتبر ہے جو مقصد یعنی آخرت کے مناسب ہو اور مناسب اور نامناسب ہونا صرف اللہ اور اس کے رسول سے ہی معلوم ہوسکتا ہے اس لئے جو نیک اعمال ریا کاری اور منگھڑت (بدعت) سے کئے جاتے ہیں جن میں بدعات کی عام رسمیں شامل ہیں وہ دیکھنے میں خواہ کتنے ہی بھلے اور مفید نظر آئیں مگر آخرت کیلئے سعی مناسب نہیں اسلئے نہ وہ اللہ کے نزدیک مقبول ہیں اور نہ آخرت میں کار آمد اور تفسیر روح المعانی میں سَعْیَھَا کی تشریح میں سنت کے مطابق ہونے کے ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ اس عمل میں استقامت بھی ہو۔
اعمال کی قدردانی کی تین شرطیں : اس آیت میں اللہ نے اعمال کی قدردانی اور مقبولیت کی تین شرطیں بیان فرمائی ہیں، (1) ارادۂ آخرت یعنی اخلاص اور اللہ کی رضا جوئی، (2) ایسی کوشش جو آخرت کے مناسب ہو یعنی سنت کے مطابق ہو، (3) ایمان، اسلئے کہ ایمان کے بغیر کوئی عمل بھی قابل قبول نہیں ہوتا۔
کلا نمد۔۔۔ الخ یعنی دنیا کا رزق اور اس کی آسائشیں ہم بلاتفریق مومن اور کافر طالب دنیا اور طالب آخرت سب کو دیتے ہیں اللہ کی نعمتیں دنیا میں کسی سے رو کی نہیں جاتیں۔ تاہم دنیا کی یہ نعمتیں کسی کو کم اور کسی کو زیادہ ملتی ہیں اللہ تعالیٰ اپنی حکمت اور مصلحت کے مطابق یہ روزی تقسیم فرماتا ہے، تاہم آخرت میں درجات کا تقاضل زیادہ واضح اور نمایاں ہوگا اور وہ اس طرح کہ اہل ایمان جنت میں اور اہل کفر جہنم میں جائیں گے۔
10 Tafsir as-Saadi
یہ انسان کی جہالت اور عجلت پسندی ہے کہ وہ غیظ و غضب کے وقت اپنے لئے اور اپنی اولاد کے لئے بد دعا کرنے میں جلدی کرتا ہے جس طرح اچھی دعا کرنے میں جلدی کرتا ہے مگر یہ اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم ہے کہ وہ اس کی اچھی دعا کو تو قبول کرلیتا ہے اور بد دعا کو قبول نہیں کرتا۔ ﴿ وَلَوْ يُعَجِّلُ اللّٰـهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَهُم بِالْخَيْرِ لَقُضِيَ إِلَيْهِمْ أَجَلُهُمْ﴾ (یونس : 10؍11) ’’اگر اللہ ان کے ساتھ برا معاملہ کرنے میں اتنی ہی جلدی کرتا جیسے کہ وہ جلدی خیر مانگتے ہیں تو ان کی مدت مقررہ کے خاتمے کا فیصلہ کردیا جاتا۔‘‘
11 Mufti Taqi Usmani
aur insan burai iss tarah maangta hai jaisay ussay bhalai maangni chahiye , aur insan bara jald baaz waqay huwa hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
بد دعا اور انسان
یعنی انسان کبھی کبھی گیر اور ناامید ہو کر اپنی سخت غلطی سے خود اپنے لئے برائی کی دعا مانگنے لگتا ہے۔ کبھی اپنے مال واولاد کے لئے بد دعا کرنے لگتا ہے کبھی موت کی، کبھی ہلاکت کی، کبھی بردباری اور لعنت کی۔ لیکن اس کا اللہ اس پر خود اس سے بھی زیادہ مہربان ہے ادھر وہ دعا کرے ادھر وہ قبول فرما لے تو ابھی ہلاک ہوجائے۔ حدیث میں بھی ہے کہ اپنی جان و مال کے لئے دعا نہ کرو ایسا نہ ہو کہ کسی قبولیت کی ساعت میں کوئی ایسا بد کلمہ زبان سے نکل جائے۔ اس کی وجہ صرف انسان کی اضطرابی حالت اور اس کی جلد بازی ہے۔ یہ ہے ہی جلد باز۔ حضرت سلمان فارسی اور حضرت ابن عباس (رض) نے اس موقعہ پر حضرت آدم (علیہ السلام) کا واقعہ ذکر کیا ہے کہ ابھی پیروں تلے روح نہیں پہنچتی تھی کہ آپ نے کھڑے ہونے کا ارادہ کیا روح سر کی طرف سے آرہی تھی ناک تک پہنچی تو چھینک آئی آپ نے کہا الحمد للہ۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا یرحمک ربک یا ادم اے آدم تجھ پر تیرا رب رحم کرے جب آنکھوں تک پہنچی تو آنکھیں کھول کر دیکھنے لگے۔ جب اور نیچے کے اعضا میں پہنچی تو خوشی سے اپنے آپ کو دیکھنے لگے۔ جب اور نیچے کے اعضا میں پہنچی تو خوشی سے اپنے آپ کو دیکھنے لگے ابھی پیروں تک نہیں پہنچی تو چلنے کا ارادہ کیا لیکن نہ چل سکے تو دعا کرنے لگے کہ اے اللہ رات سے پہلے روح آجائے۔