الاسراء آية ۳۱
وَلَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ اِمْلَاقٍۗ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَاِيَّاكُمْۗ اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِيْرًا
طاہر القادری:
اور تم اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل مت کرو، ہم ہی انہیں (بھی) روزی دیتے ہیں اور تمہیں بھی، بیشک ان کو قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہے،
English Sahih:
And do not kill your children for fear of poverty. We provide for them and for you. Indeed, their killing is ever a great sin.
1 Abul A'ala Maududi
اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی در حقیقت اُن کا قتل ایک بڑی خطا ہے
2 Ahmed Raza Khan
اور اپنی اولاد کو قتل نہ کرو مفلسی کے ڈر سے ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی، بیشک ان کا قتل بڑی خطا ہے،
3 Ahmed Ali
اور اپنی اولاد کو تنگدستی کے ڈر سے قتل نہ کرو ہم انہیں بھی رزق دیتے ہیں اور تمہیں بھی بے شک ان کا قتل کرنا بڑا گناہ ہے
4 Ahsanul Bayan
اور مفلسی کے خوف سے اپنی اولاد کو نہ مار ڈالو، ان کو تم کو ہم ہی روزی دیتے ہیں۔ یقیناً ان کا قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے (١)
٣١۔١ یہ آیت سورۃ الا نعام، ١٥١ میں بھی گزر چکی ہے، حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک کے بعد جس گناہ کو سب سے بڑا قرار دیا وہ یہی ہے کہ ان تقتل ولدک خشیۃ ان یطعم معک۔ (صحیح بخاری) ' کہ تو اپنی اولاد اس ڈر سے قتل کردے کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گی ' آجکل قتل اولاد کا گناہ عظیم طریقے سے خاندانی منصوبہ بندی کے حسین عنوان سے پوری دنیا میں ہو رہا ہے اور مرد حضرات ' بہتر تعلیم و تربیت ' کے نام پر اور خواتین اپنے ' حسن ' کو برقرار رکھنے کے لئے اس جرم کا عام ارتکاب کر رہی ہیں۔ اعاذنا اللہ منہ۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل نہ کرنا۔ (کیونکہ) ان کو اور تم کو ہم ہی رزق دیتے ہیں۔ کچھ شک نہیں کہ ان کا مار ڈالنا بڑا سخت گناہ ہے
6 Muhammad Junagarhi
اور مفلسی کے خوف سے اپنی اوﻻد کو نہ مار ڈالو، ان کو اور تم کو ہم ہی روزی دیتے ہیں۔ یقیناً ان کا قتل کرنا کبیره گناه ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور فقر و فاقہ کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو۔ ہم ہی انہیں اور تمہیں روزی دیتے ہیں بے شک انہیں قتل کرنا بڑا جرم ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور خبردار اپنی اولاد کو فاقہ کے خوف سے قتل نہ کرنا کہ ہم انہیں بھی رزق دیتے ہیں اور تمہیں بھی رزق دیتے ہیں بیشک ان کا قتل کردینا بہت بڑا گناہ ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف قتل نہ کرنا (کیوں کہ) ان کو اور تم کو ہم ہی رزق دیتے ہیں، کچھ شک نہیں کہ ان کا مار ڈالنا بڑا سخت گناہ ہے
آیت نمبر 31 تا 40
ترجمہ : اور تم اپنی اولاد کو افلاس کے خوف سے زندہ درگور کرکے قتل نہ کرو ہم ان کو بھی رزق دیں گے اور تم کو بھی، اور بالشبہ ان کا قتل کرنا بڑا گناہ ہے اور زنا کے قریب بھی نہ پھٹکو (یہ تعبیر) تم زنا نہ کرو کی تعبیر سے زیادہ بلیغ ہے، بلاشبہ وہ بہت برا فعل ہے اور نہایت برارستہ ہے اور قتل نفس کا ارتکاب نہ کرو جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ اور جو شخص مظلوماً قتل کیا گیا تو ہم نے اس کے وارث کو قاتل سے قصاص کے مطابق کا حق عطا کیا ہے تو اس کو قتل میں (حد شرع) سے تجاوز نہ کرنا چاہیے بایں طور کہ غیر قاتل کو قتل کرے یا اس آلہ کے علاوہ سے قتل کتے کہ جس کے ذریعہ قتل کیا گیا ہے بیشک اس کی مدد کی گئی ہے، اور مال یتیم کے پاس بھی نہ پھٹکو مگر ایسے طریقہ سے جو (شرعاً ) احسن ہے یہاں تک کہ وہ سن شعور کو پہنچ جائے اور جب تم اللہ سے یا لوگوں سے کوئی عہد کرو تو اس عہد کو پورا کرو، بلاشبہ عہد کے بارے میں بازپرس ہوگی، اور جب ناپنے لگو تم بھرپور پیمانہ سے ناپو اور (تولو) تو ٹھیک ترازو سے تو لو یہ اچھا طریقہ ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے اور کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو کہ جس کا تمہیں علم نہ ہو یقیناً کان اور آنکھ اور دل سب ہی کی باز پرس ہوگی (یعنی) (کان، آنکھ اور دل) والے سے باز پرس ہوگی کہ ان سے کیا کام لیا، اور زمین میں اکڑ کر نہ چلو (یعنی) مغرور اور متکبر انہ انداز سے نہ چلو، یہ امر واقعہ ہے کہ نہ تو تم اپنے تکبر کی وجہ سے زمین کو پھاڑ سکتے ہو یہاں تک کہ تم اس کی تہہ تک پہنچ جاؤ اور نہ لمبائی میں پہاڑوں کی بلندی کو پہنچ سکتے ہو مطلب یہ ہے کہ تم اس درجہ کو نہیں پہنچ سکتے، تو پھر کیوں اکڑ کر چلتے ہو ؟ ان سب کاموں کی برائی تیرے رب کے نزدیک (سخت) ناپسندیدہ ہے اور اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ حکمت نصیحت کی وہ باتیں ہیں تیرے رب نے تیری طرف وحی کے ذریعہ اتاری ہیں اور تو اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہ بنا (ورنہ) ملامت زدہ اور اللہ کی رحمت سے دور کرکے جہنم میں ڈالدیا جائیگا، اے اہل مکہ، کیا تمہارے رب نے بیٹوں کیلئے تمہیں منتخب کرلیا ہے، اور خود اپنے لئے فرشتوں کو لڑکیاں بنا لیا (یعنی) بقول شما لڑکیاں اپنے لئے پسند کرلیں، تم یہ بات کہہ کر یقیناً بہت بڑا بول، بول رہے ہو۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : إمْلاق (اِفعال) افلاش، فقر۔ قولہ : اَلوأد (ض) سے مصدر ہے زندہ دفن کرنا۔
قولہ : خِطأً ، خطا، چوک، گناہ، (س) خِطأً مصدر ہے۔
قولہ : ابلغُ من لاتاتوہ یعنی لا تقربوا الزنی تعبیر اور معنویت میں لا تاتوہ سے ابلغ ہے، اسلئے کہ لاتقربوا میں زنا کے قریب جانے سے منع کیا گیا ہے جس میں دواعی زنا اور مقدمات زنا سے ممانعت بھی شامل ہے بخلاف لاتاتوہ کے۔
قولہ : اِنَّہٗ کان منصوراً ، ضمیر ولی مقتول کی طرف راجع ہے، ولی مقتول اسلئے منصور ہے کہ شریعت نے اس کو قصاص کا حق دیا ہے۔
قولہ : مسئولاً ، عنہ یعنی روز قیامت عہد شکنی سے عہد شکن کے بارے میں باز پرس ہوگی۔
قولہ : لاتَقْفُ ، تو پیچھے نہ چل، تو اتباع نہ کر (ن) قَفْوًا پیچھے چلنا، پیروی کرنا مضارع واحد مذکر حاضر فعل نہی۔
قولہ : ذامرح مضاف محذوف مان کر اس سوال کا جواب دیدیا کہ مرحًا، لاتمشِ کی ضمیر سے حال ہے حالانکہ مرحًا کا حمل مصدر ہونے کی وجہ سے درست نہیں ہے، جواب کا حاصل یہ ہے کہ مضاف محذوف ہے ای ذامرحٍ ، ای مارجًا۔
تفسیر و تشریح
ولا تقتلوا۔۔۔۔ (الآیۃ) زمانۂ جاہلیت میں بعض لوگ اپنی اولاد کو خاص طور پر لڑکیوں کو ولادت کے وقت اس خوف سے قتل کردیتے تھے کہ ان کے مصارف اور کھانے پینے کا بار ہم پر پڑے گا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شرک کے بعد جس گناہ کو سب سے بڑا قرار دیا ہے وہ یہی ہے آپ نے فرمایا ” وان تقتل وَلَدَکَ خشیۃ ان یَطْعَمَ معکَ “ کہ تو اپنی اولاد کو اس خوف سے قتل کر دے کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گی۔ (صحیح بخاری تفسیر سورة بقرہ، مسلم شریف کتاب التوحید)
آج کل قتل اولاد کا گناہ عظیم نہایت منظم طریقہ سے خاندانی منصوبہ بندی کے عنوان سے پوری دنیا میں ہو رہا ہے، مرد
حضرات بہتر تعلیم و تربیت کے نام پر اور خواتین اپنے حسن کو برقرار رکھنے کیلئے اس جرم کا عام ارتکاب کر رہے ہیں۔
ضبط تولید اور قرآن حکیم : آیت مذکورہ نے ان معاشی بنیادوں کو یکسر منہدم کردیا جن پر قدیم زمانہ سے آج تک مختلف ادوار میں ضبط ولادت کی تحریک اٹھتی رہی ہے، افلاس کا خوف قدیم زمانہ میں قتل اطفال اور اسقاط حمل کا محرک ہوا کرتا تھ، اور موجودہ دور میں وہ ایک تسیری تدبیر یعنی منع حمل کی طرف دنیا کو دھکیل رہا ہے، دور جاہلیت میں اندیشہ افلاش کے ساتھ ایک سبب عارد امادی بھی ہوا کرتا تھا صنف نازک ہر دور میں مختلف اسباب اور وجوہ کی بنا پر مظلوم رہی صنف نازک کی مصیبت کم نہیں ہوئی بلکہ کچھ اضافہ ہی ہوا ہے، جدید آلات کی مدد سے حمل کی جنس معلوم کرلی جاتی ہے اگر معلوم ہوجائے کہ رحم مادر میں لڑکی ہے تو کوشش کی جاتی ہے کہ اس کو ولادت سے پہلے ختم کردیا جائے زمانہ جاہلیت میں صنف نازک کی مصیبتوں کے اسباب جو بھی رہے ہوں موجودہ دور میں دو سبب نمایاں اور سرفہرست ہیں، تعلیم و تربیت اور جہیز، جس طرح زمانۂ جاہلیت میں گھر میں لڑکی کی ولادت کی خبر سن کر چہرے اداس اور بےرونق ہوجاتے تھے آج گھر میں بیٹی کی پیدائش کی خبر سن کر اہل خانہ اور عزیز اقارب فکر مند ہوجاتے ہیں، اور بیٹی کی آمد کو مصیت کی آمد تصور کرتے ہیں۔
قانون اسلامی کی یہ دفعہ انسان کو ہدایت کرتی ہے کہ وہ کھانے والوں کی تخریبی کوشش چھوڑ کر ان تعمیری کوششوں میں اپنی قوتیں اور قابلیتیں صرف کریں جن سے اللہ کے بنائے ہوئے قانون فطرت کے مطابق رزق کی افزائش ہوا کرتی ہے، قرآنی مذکورہ دفعہ کی رو سے یہ بات انسان کی بڑی غلطیوں میں سے ایک ہے کہ وہ بار بار معاشی ذرائع کی تنگی کے اندیشہ سے افزائش نسل کا سلسلہ روک دینے پر آمادہ ہوجاتا ہے، قرآن کی یہ دفعہ انسان کو متنبہ کرتی ہے کہ رزق رسانی کا کام تیرے ہاتھ میں نہیں ہے بلکہ اس خدا کے ہاتھ میں ہے جو تجھے بھی روزی دیتا ہے، جس طرح وہ پہلے آنے والوں کو روزی دے رہا ہے بعد میں آنے والوں کو بھی روزی دیگا، تاریخ کا تجربہ بھی یہی بتاتا ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں میں کھانے والی آبادی جتنی بڑھتی گئی ہے اتنے ہی بلکہ بار ہا اس سے بہت زیادہ معاشی ذرائع وسیع ہوتے چلے گئے ہیں لہٰذا خدا کی تخلیقی انتظامات میں انسان کی بےجا دخل اندازی حماقت کے سوا کچھ نہیں۔
ولا تقربوا الزنا الخ اسلام میں زنا چونکہ جرم عظیم ہے اتنا بڑا جرم کہ اگر کوئی شادی شدہ مرد یا عورت اس کام کا ارتکاب کرے تو اسے اسلامی معاشرہ میں زندہ رہنے کا حق نہیں ہے اسلئے یہاں فرمایا کہ فعل زنا تو دور کی بات ہے اس کے دواعی اور اسباب کے پاس بھی مت جاؤ، مثلاً غیر محرم عورت کو دیکھنا، ان سے اختلاط کی راہیں نکالنا، اسی طرح عورتوں کا بےپردہ اور بن سنور کر گھروں سے باہر نکلنا وغیرہ ان تمام امور سے اجتناب ضروری ہے تاکہ اس بےحیائی سے بچا جاسکے۔
زنا کے حرام ہونے کی دو وجہ بیان کی گئی ہیں، اول یہ کہ وہ بےحیائی ہے اور جب انسان میں حیا ہی نہ رہی تو وہ انسانیت ہی سے محروم ہوجاتا ہے پھر اس کیلئے کسی بھلے برے کی تمیز نہیں رہتی اسی معنی کو حدیث شریف میں ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے ” اِذا فاتک الحیاءُ فافعل ما شئتَ “ یعنی تیری حیاء ہی ہوتی رہی تو اب کسی برائی کے کرنے میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہی، اسی لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حیاء کو ایمان کا ایک شعبہ قرار دیا ہے، الحیاء شعبۃ من الایمان۔ (بخاری)
اور دوسری وجہ معاشرتی فساد ہے جو زنا کی وجہ سے اتنا پھیلتا ہے کہ اس کی کوئی حد باقی نہیں رہتی اور اس کے نتائج بد بعض اوقات قبیلوں اور قوموں کو برباد کردیتے ہیں، حدیث شریف میں ہے کہ ساتوں آسمان اور زمین شادی شدہ زنا کار پر لعنت کرتی ہیں اور آپ نے یہ بھی فرمایا کہ زنا کرنے والا زنا کرتے وقت مومن نہیں رہتا۔
ولا تقربوا الزنا، قرآنی منشور کی یہ دفعہ اسلام نظام زندگی کے ایک وسیع باب کی بنیاد بنی اس کی منشاء کے مطابق زنا اور تہمت زنا کو فوجداری جرم قرار دیدیا گیا، پردے کے احکام جاری کئے گے، فواحش کی اشاعت کو سختی کے ساتھ روک دیا گیا، شراب اور موسیقی اور رقص و سرود و تصاویر پر جو زنا کے قریب ترین رشتہ دار ہیں بند شیں لگائی گئیں اور ایک ایسا ازدواجی قانون بنایا گیا جس سے نکاح آسان ہوگیا اور زنا کے معاشرتی اسباب کی جڑ کٹ گئی۔
ولا تقتلوا النفس۔۔۔ بالحق، قتل ناحق کا جرم عظیم ہونا دنیا کے تمام مذاہب اور فرقوں میں مسلم ہے قتل نفس سے مراد صرف دوسرے انسنا کا قتل ہی نہیں ہے بلکہ خودکشی بھی اس میں شامل ہے، اسلئے کہ نفس جس کو اللہ نے ذی حرمت ٹھہرایا ہے اس کی تعریف میں دوسرے نفسوں کی طرح انسان کا اپنا نفس بھی داخل ہے لہٰذا جتنا بڑا جرم اور گناہ قتل انسان ہے اتنا ہی بڑا جرم اور گناہ خودکشی ہے، انسان کی بڑی غلط فہمیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اپنی جان کا مالک سمجھتا ہے حالانکہ اس جان کا مالک حقیقی اللہ تعالیٰ ہے، ہم اس کے اتلاف کے مختار تو درکنار اس کے بےجا استعمال کے بھی مجاز نہیں، دنیا کی اس امتحان گاہ میں اللہ تعالیٰ جس طرح بھی ہمارا امتحان لے اسی طرح ہمیں آخر وقت تک امتحان دیتے رہنا چاہیے پر چہ پورا کئے بغیر پر چہ پھینک کر امتحان گاہ سے بھاگ نکلنے کی کوشش بجائے خود غلط ہے، امتحان گاہ سے بھاگ نکلنے کا مطلب یہ ہوگا کہ آدمی دنیا کی چھوٹی چھوٹی تکلیفوں اور ذلتوں اور رسوائیوں سے بچکر عظیم اور ابدی تکلیف و رسوائی کی طرف بھاگتا ہے۔
قتل ناحق کی تفسیر : قتل بالحق کی صرف پانچ صورتیں ہیں ایک قتل عمد کے مجرم سے قصاص، دوسرے دین حق کے راستہ میں مزاحمت کرنے والوں سے جنگ، تیسرے نظام اسلامی کو الٹنے کی کوشش کرنے والوں کو سزا، چوتھے شادی شدہ مرد یا عورت کو ارتکاب زنا کی سزا، پانچویں ارتداد کی سزا، صرف یہی پانچ صورتیں ہیں جن میں انسانی جان کی حرمت مرتفع ہوجاتی ہے اور اسے قتل کرنا جائز ہوجاتا ہے، اس کے علاوہ سب قتل ناحق ہے۔
قصاص لینے کا حق کس کو ہے ؟ آیت مذکورہ میں بتایا گیا ہے کہ یہ حق مقتول کے ولی کا ہے اگر کوئی ولی موجود نہ ہو تو اسلامی حکومت کے سربراہ کو یہ حق حاصل ہوگا اسلئے کہ وہ ایک حیثیت سے تمام مسلمانوں کا ولی ہے اور مقتول کے ولی کے حق کا مطلب یہ ہے کہ وہ قصاص کا مطالبہ کرسکتا ہے قصاص کے مستحق ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مقتول کا ولی ازخود قاتل سے قصاص لینا شروع کر دے اس سے اسلامی قانون کا یہ اصول نکلتا ہے کہ قتل کے مقدمے میں اصل مدعی حکومت نہیں بلکہ اولیاء مقتول ہیں اور وہ قاتل کو معاف کرنے یا قصاص کے بجائے خون بہا لینے پر راضی ہوسکتے ہیں۔
ظلم کا جواب ظلم نہیں انصاف ہے ؟ فلا یسرف فی القتل، اسلامی قانون کی ایک خاص ہدایت یہ ہے کہ ظلم کا بدلہ ظلم سے لینا جائز نہیں، بدلہ میں بھی انصاف کی رعایت ضروری ہے، انتقام میں بھی حد مجاز سے تجاوز کرنا درست نہیں ہے جب تک ولی مقتول انصاف کے ساتھ اپنے مقتول کا انتقام شرعی قصاص کے ساتھ لینا چاہے تو شریعت اس کے حق میں ہے اور اللہ اس کا مددگار ہے یعنی اسلامی قانون اس کا معاون و مددگار ہے، اور اگر اس نے جوش انتقام میں شرعی قصاص سے تجاوز کیا تو اب یہ مظلوم کے بجائے دوسرے فریق کی مدد کرے گا، کہ اس کو ظلم سے بچائے، لہٰذا جوش انتقام میں ایسا نہہونا چاہیے کہ مجرم کے علاوہ کسی اور کو قتل کر دے یا مجرم کو عذاب دے دیکر مار ڈالے یا قتل کرنے کے بعد اس کی لاش پر غصہ نکالتے ہوئے اس کے ناک کان کاٹ کر مثلہ کر دے یا خون بہا لینے کے بعد بھی قتل کر دے یا ایک کے بدلے کئی لوگوں کو قتل کر دے یہ سب چیزیں اسلامی قصاص کی حد سے زائد اور حرام ہیں اس لئے آیت فلا یسرف فی القتل میں اس سے منع کیا گیا ہے۔
یتیموں کے مال میں احتیاط : ولا تقربوا۔۔۔۔ احسن، اس آیت میں یتیموں کے مال کی حفاظت اور اس میں احتیاط کا بڑا تاکیدی حکم فرمایا ہے، یعنی یتیموں کے مال میں بیجا تصرف تو دور کی بات ہے برے ارادہ سے اس کے پاس بھی نہ جانا، یہ حکم محض ایک اخلاقی ہدایت ہی نہیں تھی بلکہ آگے چل کر جب اسلامی حکومت قائم ہوگئی تو یتیموں کے حقوق کی حفاظت کیلئے انتظامی اور قانونی دونوں طرح کی تدابیر اختیار کی گئیں جو کہ فقہ اسلامی کا ایک مستقل باب ہے پھر اسی سے یہ اصول اخذ کیا گیا کہ اسلامی ریاست اپنے ان تمام شہریوں کے مفاد کی محافظ ہے جو اپنے مفاد کی خود حفاظت کے قابل نہ ہوں، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے ” انا ولی من لا ولی لہ “ میں ہر اس شخص کا سرپرست ہوں جس کا کوئی سرپرست نہ ہو۔
اسلام میں معاہدات کا حکم : عہد دو طرح کے ہیں ایک وہ جو بندہ اور اللہ کے درمیان ہے جیسا کہ عہد الست کہ بیشک اللہ ہمارا رب ہے یہ عہد تو ہر انسان نے ازل میں کیا ہے خواہ کافر ہو یا مومن اس کو پورا کرنا فطری طور پر انسان پر واجب ہے دوسرا عہد مومن ہے جو ” شہادت ان لاَّ اِلٰہَ الا اللہ “ کے ذریعہ کیا گیا ہے جس کا حاصل احکام الٰہی کا مکمل اتباع اور اس کی رضا جوئی ہے۔
دوسری قسم کا عہد وہ ہے جو انسان کسی دوسرے انسان سے کرتا ہے جس میں ہر قسم کے معاہدات سیاسی تجارتی معاملاتی سب شامل ہیں جو افراد اور جماعتوں اور ملکوں اور قوموں کے درمیان دنیا میں ہوتے ہیں، پہلی قسم کے تمام معاہدات کا پورا کرنا انسان پر واجب ہے، اور دوسری قسم میں جو معاہدات خلاف شروع نہ ہوں ان کا پورا کرنا واجب ہے اور جو خلاف شرع ہوں ان کی فریق ثانی کو اطلاع کرکے ختم کردینا واجب ہے جس معاہدہ کا پورا کرنا واجب ہے اگر کوئی فریق عہد کی پاسداری نہ کرے تو فریق ثانی کو حق ہے کہ عدالت میں مرافعہ کرکے اس کو پورا کرنے پر مجبور کرے۔ اور اگر کوئی شخص کسی سے یکطرفہ وعدہ کرلیتا ہے اس کا پورا کرنا بھی واجب ہے مگر وعدہ خلافی کرنے والے کو فریق ثانی بذریعہ عدالت وعدہ پورا کرنے پر مجبور نہیں کرسکتا، البتہ بلاعذر شرعی اگر کوئی شخص وعدہ کرنے کے بعد پورا نہ کرے گا وہ شرعا گنہگار ہوگا، حدیث میں اس کو عمل نفاق قرار دیا گیا ہے۔
واوفوا الکیل اذا کلتم، یہ حکم ناپ تول پورا کرنے کی ہدایت اور اس میں کمی کرنے کی ممانعت کا ہے جس کی پوری تفصیل سورة
المطففین میں مذکور ہے پورا تولنے اور ناپنے کا مطلب یہ ہے کہ حقدار کو اس کا پورا حق دیا جائے اس میں کمی کرنا حرام ہے اسلئے اس میں یہ بھی داخل ہے کہ کوئی ملازم اپنے مفوضہ اور مقررہ کام میں کمی کرے یا جتنا وقت دینا چاہیے اس سے کم دے یا مزدور اپنی مزدوری میں کام چوری کرے۔ صحیح ناپ تول کی ہدایت بھی صرف افراد کے باہمی معاملات تک محدود نہ رہی بلکہ یہ بات اسلامی حکومت کے فرائض میں داخل ہوگئی کہ وہ منڈیوں میں بازاروں میں اوزان اور پیمانوں کی نگرانی کرے اور تطفیف کو بزور بند کرے
لا تقف۔۔۔ (الآیۃ) یعنی بغیر تحقیق کے زبان سے کوئی بات نہ نکالو اور نہ کسی بات کی بغیر تحقیق پیروی کرو، انسان کو چاہیے کہ آنکھ، کان، اور دل سے کام لے کر اور بقدر ضرورت تحقیق کرکے کوئی بات منہ سے نکالے اور اس پر عمل کرے، قیامت کے دن تمام اعضاء اور قویٰ کے بارے میں باز پرس ہوگی۔
ولا تمش فی الارض مرحا، متکبروں کا چال چلنا زیبا نہیں نہ تو، تو زمین پر زور سے پاؤں مار کر زمین کو پھاڑ سکتا ہے اور نہ سینہ تان کر چلنے سے بلندی میں پہاڑوں کے برابر ہوسکتا ہے پھر ایسے ضعف و عجز کے باوجود کھینچ تان کر قد لمبا کرنے سے کیا فائدہ ؟
10 Tafsir as-Saadi
یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندے پر بے پایاں رحمت ہے۔ وہ اپنے بندوں پر ان کے ماں باپ سے بھی زیادہ مہربانی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے والدین کو بھوک اور فقر کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل کرنے سے منع کیا اور سب کی کفالت کا ذمہ لیا ہے اور آگاہ فرمایا ہے کہ اولاد کو قتل کرنا، بہت بڑی خطا اور کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑا گناہ ہے اور اس کا سبب دل کا شفقت سے خالی ہونا اور بچوں کے قتل کی جسارت ہے جن سے کوئی گناہ اور معصیت سر زد نہیں ہوئی۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur apni aulad ko muflisi kay khof say qatal naa kero . hum unhen bhi rizq den gay , aur tumhen bhi . yaqeen jano kay unn ko qatal kerna bari bhari ghalati hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
قتل اولاد کی مذمت
دیکھو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بہ نسبت ان کے ماں باپ کے بھی زیادہ مہربان ہے۔ ایک طرف ماں باپ کو حکم دیتا ہے کہ اپنا مال اپنے بچوں کو بطور ورثے کے دو اور دوسری جانب فرماتا ہے کہ انہیں مار نہ ڈالا کرو۔ جاہلیت کے لوگ نہ تو لڑکیوں کو ورثہ دیتے تھے نہ ان کا زندہ رکھنا پسند کرتے تھے بلکہ دختر کشی ان کی قوم کا ایک عام رواج تھا۔ قرآن اس نافرجام رواج کی تردید کرتا ہے کہ یہ خیال کس قدر بودا ہے کہ انہیں کھلائیں گے کہاں سے ؟ کسی کی روزی کسی کے ذمہ نہیں سب کا روزی رساں اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ سورة انعام میں فرمایا آیت ( وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَكُمْ خَشْـيَةَ اِمْلَاقٍ ۭ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَاِيَّاكُمْ ۭ اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِيْرًا 31) 17 ۔ الإسراء :31) فقیری اور تنگ دستی کے خوف سے اپنی اولاد کی جان نہ لیا کرو۔ تمہیں اور انہیں روزیاں دینے والے ہم ہیں۔ ان کا قتل جرم عظیم اور گناہ کبیرہ ہے۔ خطا کی دوسری قرأت خطا ہے دونوں کے معنی ایک ہی ہیں۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے پوچھا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا یہ تو کسی کو اللہ کا شریک ٹھیرائے حالانکہ اسی اکیلے نے تجھے پیدا کیا ہے۔ میں نے پوچھا اس کے بعد ؟ فرمایا یہ کہ تو اپنی اولاد کو اس خوف سے مار ڈالے کہ وہ تیرے ساتھ کھائیں گے۔ میں نے کہا اس کے بعد ؟ فرمایا یہ کہ تو اپنی پڑوسن سے زنا کاری کرے۔